مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

تعلیم جس نے زندگی‌بھر میرا ساتھ دیا

تعلیم جس نے زندگی‌بھر میرا ساتھ دیا

میری کہانی میری زبانی

تعلیم جس نے زندگی‌بھر میرا ساتھ دیا

از ہیرلڈ گلواس

آج ۷۰ سال گزر جانے کے بعد بھی بچپن کا یہ منظر میرے ذہن میں بالکل تازہ ہے۔‏ مَیں اپنی ماں کیساتھ کچن میں بیٹھا ہوا تھا کہ میری نظر ایک لیبل پر پڑی جس پر لکھا ہوا تھا ”‏سیلون ٹی۔‏“‏ اس پر ایک تصویر بھی بنی ہوئی تھی جس میں ایک عورت سیلون (‏موجودہ سری‌لنکا)‏ کے سرسبز باغات میں چائے کی پتیاں چُن رہی تھی۔‏ جنوبی آسٹریلیا میں واقع ہمارے گھر سے اتنی دُور کا یہ منظر میرے ذہن میں بس گیا۔‏ سیلون کتنا خوبصورت اور دلچسپ ملک ہوگا!‏ اُس وقت میرے خواب‌وخیال میں بھی نہیں تھا کہ مَیں ایک مشنری کے طور پر اپنی زندگی کے ۴۵ سال اس خوبصورت مُلک میں گزارونگا۔‏

مَیں اپریل ۱۹۲۲ میں،‏ ایک ایسی دُنیا میں پیدا ہوا جو آج کی دُنیا سے بالکل مختلف تھی۔‏ میرا خاندان کمبا نامی ایک دُوردراز قصبے میں کام کرتا تھا۔‏ یہ آسٹریلیا کے ایک بڑے صحرا کے قریب واقع تھا۔‏ یہاں زندگی انتہائی دشوار تھی کیونکہ ہمیں مستقل طور پر قحط‌سالی،‏ حشرات کی وباؤں اور شدید گرمی کا سامنا رہتا تھا۔‏ ہم ایک جھونپڑی نما گھر میں رہتے تھے جہاں میری ماں چھ بچوں اور میرے والد کی دیکھ‌بھال کرنے کیلئے سخت محنت کرتی تھی۔‏

تاہم،‏ میرے لئے یہ علاقہ آزادی اور دلکشی کی جگہ تھا۔‏ مجھے آج بھی یاد ہے کہ طاقتور بیلوں کو جھاڑیاں صاف کرتے ہوئے دیکھ کر مَیں کتنا خوش ہوا کرتا تھا۔‏ اسکے علاوہ طوفانی ہواؤں کی شائیں شائیں آج تک میرے کانوں میں گونجتی ہے۔‏ اپنے گھر سے پانچ کلومیٹر دُور واقع سکول میں جانے سے کافی پہلے ہی مَیں نے زندگی کے تجربات سے سیکھنا شروع کر دیا تھا۔‏

میرے والدین بہت مذہبی تھے مگر ہمارا گھر شہر سے خاصا دُور تھا اس لئے کبھی چرچ جانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔‏ تاہم،‏ ۱۹۳۰ کے شروع میں ماں نے جج رتھرفورڈ کے بائبل لیکچر سننا شروع کر دئے جو ہر ہفتے ایڈلیڈ شہر کے ریڈیو سٹیشن سے نشر ہوا کرتے تھے۔‏ مَیں سمجھتا تھا کہ جج رتھرفورڈ ایڈلیڈ کا کوئی مُناد ہوگا لہٰذا مجھے اس میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔‏ لیکن میری والدہ ہر ہفتے بڑے شوق سے رتھرفورڈ کے پیغام کا انتظار کرتی تھی اور جب ہمارے پُرانے سے ریڈیو سے اُسکی آواز سنائی دیتی تو وہ بڑے غور سے سنتی تھی۔‏

ایک گرم اور گردآلود دوپہر کو ایک پُرانا سا ٹرک ہمارے گھر کے سامنے آ کر رُکا اور اس میں سے دو خوش‌لباس آدمی باہر نکلے۔‏ یہ یہوواہ کے گواہ تھے۔‏ ماں نے بڑے غور سے اُنکے پیغام کو سنا اور اُن سے کافی زیادہ کتابیں بھی لیں جنہیں اُس نے فوراً ہی پڑھنا شروع کر دیا۔‏ ان کتابوں نے ماں کو اتنا متاثر کِیا کہ اُس نے میرے والد سے درخواست کی کہ ”‏مجھے آس‌پڑوس والوں کے پاس لیکر جائے تاکہ مَیں ان کتابوں سے جوکچھ سیکھ رہی ہوں اُسکی بابت اُنہیں بھی بتا سکوں۔‏“‏

مثبت اثرات کے فوائد

اسکے کچھ ہی عرصہ بعد ہم وہ جگہ چھوڑ کر ۵۰۰ کلومیٹر دُور ایڈلیڈ شہر منتقل ہو گئے۔‏ ہمارے خاندان نے روحانی طور پر ترقی کرنے کی غرض سے یہوواہ کے گواہوں کی ایڈلیڈ کلیسیا کیساتھ رفاقت رکھنا شروع کر دی۔‏ ہماری اس نقل‌مکانی کی وجہ سے میری تعلیم بھی مکمل نہ ہو سکی۔‏ اُس وقت میری عمر ۱۳ برس تھی جب مَیں نے ساتویں جماعت پاس کرکے سکول چھوڑ دیا۔‏ مَیں طبیعتاً بہت غیرذمہ‌دار تھا اور اگر مختلف پائنیر یعنی کُل‌وقتی خادم میری مدد نہ کرتے تو مَیں شاید کبھی بھی روحانی چیزوں کی قدر کرنا نہ سیکھتا۔‏

وقت گزرنے کیساتھ ساتھ،‏ ان سرگرم بھائیوں کی رفاقت نے مجھے بھی روحانی طور پر مضبوط بنا دیا اور مَیں اُنکی سخت محنت کیلئے شکرگزار ہو۔‏ پس جب ۱۹۴۰ میں،‏ ایڈلیڈ میں منعقد ہونے والے کنونشن پر کُل‌وقتی خدمت انجام دینے کیلئے اعلان کِیا گیا تو مَیں نے بھی اپنا نام دے دیا۔‏ اُس وقت میرا بپتسمہ بھی نہیں ہوا تھا اور مجھے گواہی کے کام کا زیادہ تجربہ بھی نہیں تھا۔‏ تاہم،‏ چند دن بعد مجھے ایڈلیڈ سے کئی سو کلومیٹر دُور وارنم‌بول کے قصبے میں جوکہ پڑوسی ریاست وکٹوریا میں ہے پائنیرز کے ایک چھوٹے گروہ میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی۔‏

اس بےیقینی کے باوجود،‏ مجھے جلد ہی میدانی خدمتگزاری سے لگاؤ ہو گیا اور مَیں خوشی سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ آج تک ماند نہیں پڑا۔‏ واقعی یہ میرے لئے ایک نقطۂ‌انقلاب تھا کیونکہ مَیں نے روحانی ترقی کرنا شروع کر دی تھی۔‏ مَیں نے اُن لوگوں سے رفاقت رکھنے کی اہمیت کو سمجھ لیا تھا جو روحانی چیزوں کو عزیز رکھتے ہیں۔‏ مجھے یہ بھی پتہ چل گیا کہ اُنکا اثر ہماری محدود تعلیم کے باوجود اچھی عادات کو فروغ دے سکتا ہے اور یہ کہ اُن سے سیکھے گئے اسباق ہمیں زندگی‌بھر فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔‏

مشکلات سے تقویت پانا

مجھے پائنیر خدمت شروع کئے ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ آسٹریلیا میں یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی لگا دی گئی۔‏ اس بات سے بےخبر ہوتے ہوئے کہ اب کیا کروں،‏ مَیں نے بھائیوں سے راہنمائی کیلئے درخواست کی اور اُنہوں نے مجھے بتایا کہ لوگوں کیساتھ بائبل میں سے بات‌چیت کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔‏ پس دیگر پائنیروں سمیت مَیں بھی بائبل کے پیغام کیساتھ گھرباگھر جانے لگا۔‏ اس سے مجھے آنے والی آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے طاقت ملی۔‏

چار ماہ بعد جب میری عمر ۱۸ برس ہو گئی تو مجھے فوجی خدمات کیلئے رپورٹ دینے کیلئے بلایا گیا۔‏ اس سے مجھے کئی فوجی افسران اور مجسٹریٹ کے سامنے اپنے ایمان کا دفاع کرنے کا موقع ملا۔‏ اُس وقت لگ‌بھگ ۲۰ بھائی اپنے غیرجانبدارانہ مؤقف کی وجہ سے ایڈلیڈ کی جیل میں تھے اور جلد ہی مَیں بھی اُن میں شامل ہو گیا۔‏ ہم سے سخت مشقت کرائی گئی جس میں پتھر کی کانوں کی کھدائی اور سڑکوں کی مرمت کرنا شامل تھا۔‏ اس سے مجھے برداشت اور استحکام جیسی خوبیاں پیدا کرنے میں مدد ملی۔‏ ہمارے اچھے رویے اور مضبوط مؤقف کی وجہ سے جیل کے بہت سے گارڈ ہماری عزت کرنے لگے۔‏

کئی ماہ بعد رہائی پانے پر مَیں نے خوب پیٹ بھر کر اچھا کھانا کھایا اور ایک بار پھر پائنیرنگ شروع کر دی۔‏ پائنیر ساتھی بہت کم تھے لہٰذا مجھے اکیلے جنوبی آسٹریلیا کے زرعی علاقے میں کام کرنے کیلئے کہا گیا۔‏ مَیں رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی گواہی دینے کی چیزوں اور سائیکل سمیت بحری جہاز کے ذریعے یارکی کے جزیرے کیلئے روانہ ہو گیا۔‏ جب مَیں وہاں پہنچا تو دلچسپی رکھنے والے ایک خاندان نے مجھے ایک چھوٹا مہمان‌خانہ دکھایا جہاں ایک نرم‌مزاج خاتون مجھ سے بیٹے جیسا برتاؤ کرنے لگی۔‏ دن‌بھر مَیں گردآلود سڑکوں پر سائیکل چلاتا اور جزیرے میں پھیلے ہوئے چھوٹے چھوٹے قصبوں میں مُنادی کرتا تھا۔‏ دُوردراز کے علاقوں میں مُنادی کرنے کیلئے مَیں کبھی‌کبھار وہیں کسی چھوٹے سے ہوٹل یا مہمان‌خانہ میں قیام کر لیتا تھا۔‏ اسطرح مَیں سائیکل پر سینکڑوں میل کا سفر کرتا اور بہت سے دلچسپ تجربات سے لطف‌اندوز ہوتا تھا۔‏ مجھے اکیلے خدمت کرنا زیادہ مشکل نہیں لگتا تھا کیونکہ مَیں یہوواہ کی فکرمندی کا تجربہ کر چکا تھا اور مَیں خود کو اُسکے بہت قریب محسوس کرتا تھا۔‏

اپنی کمزوریوں کیساتھ نپٹنا

سن ۱۹۴۶ میں،‏ مجھے ایک خط ملا جس میں مجھے سفری نگہبان کے طور پر خدمت کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔‏ اسکا مطلب کسی سرکٹ میں شامل مختلف کلیسیاؤں کا دورہ کرنا تھا۔‏ مَیں تسلیم کرتا ہوں کہ اس تفویض کی ذمہ‌داریوں کو پورا کرنا واقعی ایک چیلنج تھا۔‏ ایک دن مَیں نے ایک بھائی کو کہتے سنا:‏ ”‏ہیرلڈ تقریر وغیرہ تو زیادہ اچھی نہیں دیتا مگر میدانی خدمت میں بہت اچھا ہے۔‏“‏ اس تبصرے سے مجھے بہت حوصلہ ملا۔‏ مَیں تعلیم دینے اور تنظیمی کام انجام دینے کے سلسلے میں اپنی کمزوریوں سے بخوبی واقف تھا مگر مَیں یہ مانتا تھا کہ مسیحیوں کیلئے بنیادی کام مُنادی کرنا ہی ہے۔‏

سن ۱۹۴۷ میں،‏ یہوواہ کے گواہوں کے ہیڈکوارٹرز بروکلن سے بھائی ناتھن نار اور ملٹن ہینشل کے دورے کا بڑا چرچا تھا۔‏ سن ۱۹۳۸ میں بھائی رتھرفورڈ کے دورے کے بعد یہ پہلا دورہ تھا۔‏ اس دورے کی وجہ سے سڈنی میں ایک بڑا کنونشن منعقد کِیا گیا۔‏ بہت سے دیگر جوان پائنیرز کی طرح مَیں بھی ساؤتھ لاسنگ،‏ نیو یارک،‏ یو.‏ایس.‏اے.‏ میں حال ہی میں شروع ہونے والے واچ‌ٹاور بائبل سکول آف گلئیڈ میں پیش کی جانے والی مشنری تربیت حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا۔‏ ہم میں سے بیشتر یہ سوچ رہے تھے کہ اس سکول میں اندراج کیلئے بہت زیادہ تعلیم درکار ہوگی۔‏ تاہم بھائی نار نے بیان کِیا کہ اگر آپ مینارِنگہبانی کے مضامین کو پڑھ کر اُن میں درج کلیدی نکات یاد رکھ سکتے ہیں تو آپ گلئیڈ میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔‏

مَیں نے سوچا کہ میری محدود تعلیم مجھے نااہل قرار دے سکتی ہے۔‏ مَیں یہ جان کر حیران رہ گیا کہ کچھ مہینے بعد مجھے گلئیڈ سکول کیلئے درخواست دینے کی دعوت دی گئی۔‏ انجام‌کار مجھے طالبعلم کے طور پر قبول کر لیا گیا اور مَیں نے ۱۹۵۰ میں گلئیڈ کی سولہویں کلاس میں شمولیت کی۔‏ یہ ایک ایسا شاندار تجربہ ثابت ہوا جس نے میرے اعتماد کو بہت بڑھایا اور یہ ثابت کر دیا کہ صرف تعلیمی قابلیت ہی کامیابی کا واحد ذریعہ نہیں بلکہ مستعدی اور فرمانبرداری بنیادی تقاضے ہیں۔‏ ہمارے اُستادوں نے ہماری حوصلہ‌افزائی کی کہ خوب محنت کریں۔‏ جب مَیں نے اُنکی مشورت پر عمل کِیا تو مَیں نے بڑی تیزی سے ترقی کی اور تمام‌تر تعلیم کو اچھی طرح سمجھنے کے قابل ہو گیا۔‏

آسٹریلیا سے سری‌لنکا

گلئیڈ ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد،‏ مجھے اور دو بھائیوں کو سیلون (‏سری‌لنکا)‏ بھیج دیا گیا۔‏ ستمبر ۱۹۵۱ میں ہم یہاں کے داراُلحکومت کولمبو پہنچے۔‏ موسم گرم اور مرطوب تھا اور بہت سے نئے مناظر،‏ آوازوں اور خوشبوؤں نے ہمارے حواس پر دھاوا بول دیا۔‏ جب ہم جہاز سے اُترے تو اس مُلک میں پہلے سے خدمت کرنے والے ایک مشنری نے مجھے ایک سلپ تھما دی جوکہ آنے والے اتوار کو ایک تقریر کی بابت تھی۔‏ مَیں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس سلپ پر مقرر کے طور پر میرا نام لکھا ہوا تھا!‏ آپ میرے خوف کا تصور کر سکتے ہیں۔‏ مگر آسٹریلیا میں اتنے سالوں کی پائنیر خدمت نے مجھے یہ سکھایا تھا کہ جو بھی تفویض دی جائے اُسے ضرور قبول کروں۔‏ پس یہوواہ کی مدد سے مَیں نے کامیابی کیساتھ عوامی تقریر پیش کی۔‏ اُس وقت کولمبو مشنری ہوم میں رہنے والے چار کنوارے بھائیوں کیساتھ ملکر ہم تینوں نے سنہالی زبان سیکھنا اور میدانی خدمتگزاری میں حصہ لینا شروع کر دیا۔‏ بیشتر وقت ہم اکیلے ہی کام کرتے تھے اور ہمیں یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی تھی کہ مقامی لوگ بہت ہی عزت کرنے والے اور مہمان‌نواز تھے۔‏ جلد ہی اجلاسوں پر حاضر ہونے والوں کی تعداد بڑھنے لگی۔‏

وقت گزرنے کیساتھ ساتھ مَیں نے ایک خوبصورت پائنیر بہن سی‌بل کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا جسے مَیں گلئیڈ سکول جاتے وقت بحری جہاز پر ملا تھا۔‏ وہ نیو یارک میں ایک انٹرنیشنل کنونشن کیلئے جا رہی تھی۔‏ بعدازاں اُس نے گلئیڈ کی ۲۱ ویں کلاس میں تربیت پائی اور ۱۹۵۳ میں اسے خدمت انجام دینے کیلئے ہانگ‌کانگ بھیج دیا گیا۔‏ مَیں نے اُسے خط لکھنے کا فیصلہ کِیا اور یہ خط‌وکتابت سی‌بل کے ۱۹۵۵ میں سیلون آنے تک جاری رہی۔‏ اسی سال ہماری شادی ہو گئی۔‏

مشنری جوڑے کے طور پر ہماری پہلی تفویض سری‌لنکا کے شمال میں واقع جافنا شہر تھا۔‏ سن ۱۹۵۰ کے وسط میں،‏ سنہالی اور تامل لوگوں کے مابین سیاسی اختلاف پیدا ہو گیا جو بعدازاں مسلح جھگڑوں کی بنیاد بن گیا۔‏ تاہم سنہالی اور تامل گواہوں کو ان مشکل ایّام کے دوران ایک دوسرے کو پناہ دیتے دیکھنا کسقدر دل کو گرما دینے والا تھا!‏ ان مشکلات نے بھائیوں کے ایمان کو نکھار اور تقویت بخشی۔‏

سری‌لنکا میں منادی کرنا اور تعلیم دینا

ہندو اور مسلمان لوگوں کیساتھ رہنے کے لئے اپنے معمول میں ردوبدل کرنا صبر اور مستعدی کا تقاضا کرتا تھا۔‏ اسکے باوجود ہم دونوں ثقافتوں کو سمجھنے اور انکی خوبیوں کی قدر کرنے کے قابل ہوئے۔‏ چونکہ غیرملکیوں کو مقامی بسوں پر سفر کرتے دیکھنا غیرمعمولی بات تھی لہٰذا ہمارا ایسا کرنا اکثر لوگوں کے تجسّس کو ہوا دیتا تھا۔‏ سی‌بل نے فیصلہ کِیا کہ وہ جواباً مسکرا دیا کریگی۔‏ ہمیں یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ لوگوں کے متجسس چہرے بھی جواباً خوبصورت انداز میں مسکرانے لگے!‏

ایک مرتبہ ہمیں سڑک پر روک لیا گیا۔‏ گارڈ نے یہ جاننے کے بعد کہ ہم کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں ذاتی سے سوال کرنا شروع کر دئے۔‏

‏”‏یہ عورت کون ہے؟‏“‏

مَیں نے جواب دیا،‏ ”‏یہ میری بیوی ہے۔‏“‏

‏”‏تمہاری شادی کو کتنا عرصہ ہو گیا ہے؟‏“‏

‏”‏آٹھ سال۔‏“‏

‏”‏کیا آپکے بچے ہیں؟‏“‏

‏”‏جی‌نہیں۔‏“‏

‏”‏یہ تو بہت افسوس کی بات ہے!‏ کیا آپ نے کسی ڈاکٹر کو دکھایا ہے؟‏“‏

شروع میں تو ہم اس تجسّس سے گھبرا گئے مگر بعد میں ہم سمجھ گئے کہ یہ تو مقامی لوگوں کا دوسروں میں حقیقی دلچسپی لینے کا اظہار ہے۔‏ سچ تو یہ ہے کہ یہ اُنکی ایک نہایت عمدہ خوبی ہے۔‏ آپکو کسی جگہ کھڑے زیادہ دیر نہیں ہوئی کہ کوئی نہ کوئی شخص آپ تک پہنچ کر بڑی نرمی کیساتھ پوچھے گا کہ ”‏آپکو کسی طرح کی مدد کی ضرورت تو نہیں؟‏“‏

تبدیلیاں اور یادیں

ان سالوں کے دوران،‏ ہم نے سری‌لنکا میں اپنے مشنری کام کے علاوہ مختلف تفویضات سے استفادہ کِیا ہے۔‏ مجھے سرکٹ اور ڈسٹرکٹ خدمت انجام دینے اور برانچ کمیٹی کے ایک رُکن کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔‏ سن ۱۹۹۶ تک مَیں ۷۰ کے دہے کے وسط میں تھا۔‏ میرے پاس سری‌لنکا میں اپنی ۴۵ سالہ مشنری خدمت کو یاد کرکے خوش ہونے کا موقع تھا۔‏ جب مَیں کولمبو میں اپنے پہلے اجلاس پر حاضر ہوا تو اُس وقت وہاں تقریباً ۲۰ لوگ موجود تھے۔‏ اب یہ تعداد ۵۰۰،‏۳ کو پہنچ گئی ہے!‏ سی‌بل اور مَیں ان اشخاص میں سے بیشتر کو اپنے روحانی بچے،‏ نواسےنواسیاں اور پوتےپوتیاں خیال کرتے ہیں۔‏ تاہم،‏ ابھی بھی ملک میں بہت کام باقی تھا—‏ایسا کام جو نوجوانوں جیسی قوت اور لیاقت کا تقاضا کرتا ہے۔‏ اسے ذہن میں رکھتے ہوئے،‏ جب گورننگ باڈی نے ہمیں واپس آسٹریلیا آنے کیلئے کہا تو ہم تیار ہو گئے۔‏ اس طرح ہماری جگہ جوان جوڑے سری‌لنکا میں آکر مشنری کے طور پر خدمت کر سکتے تھے۔‏

اب مَیں ۸۳ برس کا ہوں اور ہم دونوں ابھی تک اچھی صحت کی وجہ سے اپنے آبائی شہر ایڈلیڈ میں سپیشل پائنیر خدمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔‏ ہماری خدمتگزاری ہمیں ذہنی طور پر چوکس اور حالات کے مطابق ردوبدل کرنے کے قابل بناتی ہے۔‏ اس نے ہمارے لئے اس وقت یہ ممکن بنایا ہے کہ خود کو آسٹریلیا کے بالکل مختلف طرزِزندگی کے مطابق ڈھال سکیں۔‏

یہوواہ نے ہمیشہ ہماری مادی ضروریات کا خیال رکھا ہے اور ہماری مقامی کلیسیا کے بہن‌بھائیوں نے ہمیں محبت اور حمایت سے نوازا ہے۔‏ حال ہی میں مجھے ایک نئی تفویض ملی ہے۔‏ مجھے کلیسیا میں سیکرٹری کی خدمت انجام دینی ہے۔‏ پس مَیں نے جان لیا ہے کہ مَیں وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کرنے کی کوشش کرتا ہوں اسلئے میری تربیت آج تک جاری ہے۔‏ جب مَیں گزرے وقت پر نظر ڈالتا ہوں تو مَیں ہمیشہ یہ سوچ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ دیہات کا ایک سادہ‌لوح لڑکا بھی ایسی شاندار تعلیم حاصل کر سکتا ہے جس نے زندگی‌بھر میرا ساتھ دیا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

سن ۱۹۵۵ میں اپنی شادی کے دن

‏[‏صفحہ ۲۷ پر تصویر]‏

سن ۱۹۵۷ میں،‏ مقامی بھائی راجن کادرگامار کیساتھ میدانی خدمت میں

‏[‏صفحہ ۲۸ پر تصویر]‏

اس وقت سی‌بل کیساتھ