کیا آپ انتظار کی بابت درست رُجحان رکھتے ہیں؟
کیا آپ انتظار کی بابت درست رُجحان رکھتے ہیں؟
آجکل کی دُنیا میں، بہت کم لوگ کسی شخص یا چیز کا انتظار کرکے خوش ہوتے ہیں۔ یہ صبر کی آزمائش ہوتی ہے۔ تاہم، صحائف خدا کے لوگوں کی حوصلہافزائی کرتے ہیں کہ اپنے اندر ”انتظار“ کرنے کا رُجحان پیدا کریں۔ اپنے اردگرد کے لوگوں کے برعکس، میکاہ نبی نے کہا: ’مَیں اپنے نجات دینے والے خدا کا انتظار کرونگا۔‘—میکاہ ۷:۷؛ نوحہ ۳:۲۶۔
تاہم، یہوواہ کا انتظار کرنے کا کیا مطلب ہے؟ ایک مسیحی خدا کا انتظار کیسے کر سکتا ہے؟ کیا ایسا کرنے کے مناسب اور نامناسب طریقے ہیں؟ نویں صدی ق.س.ع. کے نبی یوناہ کا تجربہ اس سلسلے میں ایک سبق فراہم کرتا ہے۔
نامناسب انتظار
یہوواہ خدا نے یوناہ کو اسور کے داراُلحکومت نینوہ جانے اور وہاں کے لوگوں کو مُنادی کرنے کی ہدایت کی۔ تاریخدان اور ماہرِاثریات بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اپنے سخت ظلم اور بربریت کی وجہ سے نینوہ ایک ”خونریز شہر“ کے طور پر مشہور تھا۔ (ناحوم ۳:۱) شروع ہی سے یوناہ نے اس تفویض سے گریز کرنے کی کوشش کی تھی مگر یہوواہ نے نبی کو نینوہ جانے پر مجبور کِیا۔—یوناہ ۱:۳–۳:۲۔
”یوؔناہ شہر میں داخل ہوا اور ایک دن کی راہ چلا۔ اُس نے منادی کی اور کہا چالیس روز کے بعد نینوؔہ برباد کِیا جائیگا۔“ (یوناہ ۳:۴) یوناہ کی کاوشوں کا شاندار نتیجہ نکلا: ”نینوؔہ کے باشندوں نے خدا پر ایمان لاکر روزہ کی منادی کی اور ادنیٰواعلیٰ سب نے ٹاٹ اوڑھا۔“ (یوناہ ۳:۵) یہوواہ خدا نے شہر کو تباہ نہ کِیا کیونکہ وہ ”کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے۔“—۲-پطرس ۳:۹۔
یوناہ کا ردِعمل کیا تھا؟ سرگزشت بیان کرتی ہے: ”یوؔناہ اس سے نہایت ناخوش اور ناراض ہوا۔“ (یوناہ ۴:۱) مگر کیوں؟ یوناہ نے شاید یہ محسوس کِیا تھا کہ تباہی کی جو پیشینگوئی اُس نے کی تھی اُسکا پورا نہ ہونا اُسکی توہین تھی۔ وہ بدیہی طور پر، دوسروں کیلئے رحم اور نجات کا باعث بننے کی بجائے اپنی ذاتی عزتوناموس کیلئے زیادہ فکرمند تھا۔
یہ سچ ہے کہ یوناہ اپنے نبی کے عہدے سے تو دستبردار نہیں ہوا تھا توبھی وہ اس بات کا منتظر تھا کہ ”شہر کا کیا حال ہوتا ہے۔“ وہ سب کامکاج چھوڑ کر بیٹھ گیا اور اس بات کا انتظار کرنے لگا کہ دیکھو اب کیا واقع ہوتا ہے۔ جب اُسے اپنی توقع کے مطابق کچھ بھی ہوتا ہوا نظر نہ آیا تو اُس نے اپنے لئے ایک سایہ بنایا اور اُسکے نیچے بیٹھ گیا۔ تاہم، یہوواہ کو یوناہ کا یہ رویہ پسند نہ آیا اس لئے اُس نے نہایت شفقت کے ساتھ اپنے نبی کی غلط سوچ کو درست کِیا۔—یوناہ ۴:۵، ۹-۱۱۔
یہوواہ تحمل کیوں دکھاتا ہے
اگرچہ نینوہ کے لوگ تائب رُجحان کی وجہ سے بچ گئے توبھی بعدازاں وہ پھر کجروی کا شکار ہو گئے تھے۔ اپنے نبی ناحوم اور صفنیاہ کی معرفت یہوواہ نے اُسکی بربادی کی پیشینگوئی کی۔ اس ”خونریز شہر“ کا ذکر کرتے ہوئے یہوواہ نے فرمایا کہ وہ اسور کو تباہوبرباد کریگا اور نینوہ کو ویرانوسنسان کر دیگا۔ (ناحوم ۳:۱؛ صفنیاہ ۲:۱۳) نینوہ ۶۳۲ ق.س.ع. میں ہمیشہہمیشہ کیلئے نیستونابود کر دیا گیا۔
اسی طرح، آجکل کی دُنیا قدیم نینوہ سے کہیں زیادہ خونریز ہے۔ اس وجہ سے اور دیگر مختلف وجوہات کی بِنا پر، یہوواہ نے حکم دیا ہے کہ ایک ”بڑی مصیبت“ میں اس موجودہ شریر نظاماُلعمل کا خاتمہ ہو جائیگا۔—متی ۲۴:۲۱، ۲۲۔
یہوواہ خدا نے ابھی تک اس بربادی کو محض اسلئے روک رکھا ہے تاکہ نینوہ کے تائب لوگوں کی مانند، ہمارے زمانے کے مخلص لوگ بھی توبہ کرکے اپنی زندگیاں بچا سکیں۔ پطرس رسول خدا کے تحمل کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے: ”[یہوواہ] اپنے وعدہ میں دیر نہیں کرتا جیسی دیر بعض لوگ سمجھتے ہیں بلکہ تمہارے بارے میں تحمل کرتا ہے اسلئےکہ کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے۔“—۲-پطرس ۳:۹، ۱۰، ۱۳۔
مناسب انتظار
پطرس مزید بیان کرتا ہے: ”جب یہ سب چیزیں اِسطرح پگھلنے والی ہیں تو تمہیں پاک چالچلن اور [خدائی عقیدت] میں کیسا کچھ ہونا چاہئے۔ اور [یہوواہ] کے اُس دن کے آنے کا کیسا کچھ منتظر اور مشتاق رہنا چاہئے۔“ (۲-پطرس ۳:۱۱، ۱۲) غور کریں کہ یہوواہ کے دن کے منتظر رہتے ہوئے، ہمیں ”پاک چالچلن اور [خدائی عقیدت]“ کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے جسکا مطلب ہے کہ سُست پڑنے کی بجائے ہمیں سرگرم رہنا چاہئے۔
جیہاں، انتظار کرنے کی بابت مناسب رُجحان ہمارے اس اعتماد کو ظاہر کرتا ہے کہ یہوواہ کا دن اُسکے مقصد کے مطابق عین وقت پر آئیگا۔ اس میں لمحہ بھر کی تاخیر نہ ہوگی۔ ایسا ایمان پاک چالچلن اور خدائی عقیدت پر منتج ہوتا ہے اور خدا کی بادشاہی کی خوشخبری کی مُنادی کرنے والوں میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مُنادی کے سلسلے میں یسوع نے عمدہ نمونہ قائم کِیا اور اُس نے اپنے ممسوح پیروکاروں کو ہدایت کی: ”تمہاری کمریں بندھی رہیں اور تمہارے چراغ جلتے رہیں۔ اور تُم اُن آدمیوں کی مانند بنو جو اپنے مالک کی راہ دیکھتے ہوں کہ وہ شادی میں سے کب لوٹیگا تاکہ جب وہ آکر دروازہ کھٹکھٹائے تو فوراً اُسکے واسطے کھول دیں۔ مبارک ہیں وہ نوکر جنکا مالک آکر اُنہیں جاگتا پائے۔“—لوقا ۱۲:۳۵-۳۷۔
پہلی صدی کے نوکر ہر وقت سخت جانفشانی کے لئے ’کمربستہ‘ رہتے تھے۔ پس ایک مسیحی کو بھی نیک کاموں میں سرگرم اور پُرجوش ہونا رومیوں ۱۲:۱۱؛ ۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۸۔
چاہئے۔ اُسے روحانی طور پر ’سُست‘ کرنے والی مادہپرستانہ سوچ کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اسکی بجائے، یہوواہ کے ہولناک دن کا منتظر رہتے ہوئے اُسے ”خداوند کے کام میں ہمیشہ افزایش“ کرتے رہنا چاہئے۔—سرگرمی سے انتظار کرنا
یہوواہ کے دن کے انتظار میں یہوواہ کے گواہوں نے خود کو خوب مصروف رکھا ہے۔ مثال کے طور پر، ۲۰۰۳ کے خدمتی سال کے دوران، اُنہوں نے ہر روز اوسطاً ۰۰۰،۸۳،۳۳ گھنٹے یہوواہ کے کلام کی مُنادی کرنے میں صرف کئے ہیں۔ ایک دن میں جوکچھ کِیا گیا ہے، اُسے انجام دینے کیلئے کسی ایک شخص کو لگاتار ۳۸۶ سال مُنادی کرنی پڑتی!
تاہم، ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے: ’مَیں انتظار کی بابت کیسا رُجحان رکھتا ہوں؟‘ یسوع نے ایک تمثیل پیش کی جو وفادار ممسوح مسیحیوں سے متوقع جانفشانی کی بابت بیان کرتی ہے۔ اُس نے تین نوکروں کا ذکر کِیا: ”ایک کو [مالک نے] پانچ توڑے دئے۔ دوسرے کو دو اور تیسرے کو ایک یعنی ہر ایک کو اُسکی لیاقت کے مطابق دیا اور پردیس چلا گیا۔ جسکو پانچ توڑے ملے تھے اُس نے فوراً جاکر اُن سے لیندین کِیا اور پانچ توڑے اَور پیدا کر لئے۔ اِسی طرح جسے دو ملے تھے اُس نے بھی دو اَور کمائے۔ مگر جسکو ایک ملا تھا اُس نے جاکر زمین کھودی اور اپنے مالک کا روپیہ چھپا دیا۔ بڑی مدت کے بعد اُن نوکروں کا مالک آیا اور اُن سے حساب لینے لگا۔“—متی ۲۵:۱۵-۱۹۔
تینوں نوکر مالک کی واپسی کے منتظر تھے۔ جو دو نوکر مالک کا انتظار کرنے کے دوران مصروف رہے اُن سے کہا گیا: ”اَے اچھے اور دیانتدار نوکر شاباش!“ تاہم جس نوکر نے کاہلی کا مظاہرہ کِیا اُس کیساتھ اَور طرح کا سلوک کِیا گیا۔ مالک نے کہا: ”اِس نکمّے نوکر کو باہر اندھیرے میں ڈال دو۔“—متی ۲۵:۲۰-۳۰۔
اگرچہ اس تمثیل کا اطلاق ممسوح مسیحیوں پر ہوتا ہے توبھی ہماری اُمید سے قطعنظر اس میں ہمارے لئے ایک سبق پنہاں ہے۔ مالک یسوع مسیح، ہم میں سے ہر ایک سے توقع کرتا ہے کہ یہوواہ کے عظیم دن پر یسوع کی آمد کے انتظار میں مستعدی کیساتھ اُسکی خدمت کرتے رہیں۔ وہ ہر شخص کی محنت کی قدر کرتا ہے جو وہ اپنے حالات اور ”لیاقت
کے مطابق“ کرتا ہے۔ جب انتظار ختم ہو جاتا ہے اور مالک آ جاتا ہے تو اُس سے ”شاباش“ سننا کسقدر خوشی کا باعث ہوگا!ہمارے خداوند کے تحمل کا مطلب نجات ہے
اگر یہ نظاماُلعمل ہماری توقع سے زیادہ دیر قائم ہے تو پھر کیا ہو؟ اسکی ضرور کوئی نہ کوئی وجہ ہوگی۔ پطرس رسول نے لکھا: ”ہمارے خداوند کے تحمل کو نجات سمجھو۔“ (۲-پطرس ۳:۱۵) ہمیں خدا کے مقصد کی بابت صحیح علم حاصل کرنا چاہئے نیز ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ خدا کے مقصد کی تکمیل ہماری ذات سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ایسا میلان پیدا کرنے سے ہم اُس وقت تک انتظار کرنے کے قابل ہونگے جبتک یہوواہ اس نظام کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔
تحمل کرنے کے سلسلے میں مسیحیوں کی حوصلہافزائی کرنے کیلئے یعقوب نے ایک تمثیل پیش کرتے ہوئے لکھا: ”دیکھو۔ کسان زمین کی قیمتی پیداوار کے انتظار میں پہلے اور پچھلے مینہ کے برسنے تک صبر کرتا رہتا ہے۔ تُم بھی صبر کرو اور اپنے دلوں کو مضبوط رکھو کیونکہ خداوند کی آمد قریب ہے۔“—یعقوب ۵:۷، ۸۔
یہوواہ خدا نہیں چاہتا کہ ہم انتظار کرنے کے دوران تھک جائیں یا ہمت ہار دیں۔ اُس نے ہمارے لئے ایک کام رکھا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ جبتک ہم انتظار کر رہے ہیں جانفشانی کیساتھ اس کام میں حصہ لیں۔ وہ چاہتا ہے کہ ہمارا شمار اُن لوگوں میں ہو جنکی بابت پولس رسول عبرانیوں کے نام اپنے خط میں بیان کرتا ہے: ”ہم اس بات کے آرزومند ہیں کہ تُم میں سے ہر شخص پوری اُمید کے واسطے آخر تک اسی طرح کوشش ظاہر کرتا رہے۔ تاکہ تُم سُست نہ ہو جاؤ بلکہ اُنکی مانند بنو جو ایمان اور تحمل کے باعث وعدوں کے وارث ہوتے ہیں۔“—عبرانیوں ۶:۱۱، ۱۲۔
پس ہمیں سُست نہیں پڑنا چاہئے۔ بلکہ یہوواہ کیساتھ ہمارے رشتے، یسوع کے فدیے پر ہمارے ایمان اور نئی دُنیا کی بابت ہماری روشن اُمید کو ہماری زندگی میں گرمجوشی پیدا کرنی چاہئے۔ یسوع کی تمثیل کے ”اچھے اور وفادار“ نوکروں کی مانند ہمیں بھی یہوواہ کی حمد کرنے میں مصروف رہتے ہوئے خود کو تعریف کے لائق ثابت کرنا چاہئے اور زبورنویس کی مانند یہ کہنے کے قابل ہونا چاہئے: ”مَیں ہمیشہ اُمید رکھونگا اور تیری تعریف اَور بھی زیادہ کِیا کرونگا۔“—زبور ۷۱:۱۴۔
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
مایوس ہوکر یوناہ اس انتظار میں بیٹھ گیا کہ اب نینوہ کیساتھ کیا واقع ہوگا
[صفحہ ۲۲ پرتصویریں]
یہوواہ کے دن کا انتظار کرتے ہوئے آیئے خدائی عقیدت کا مظاہرہ کریں