مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏حقیقی خدا اور ہمیشہ کی زندگی“‏ کون ہے؟‏

‏”‏حقیقی خدا اور ہمیشہ کی زندگی“‏ کون ہے؟‏

‏”‏حقیقی خدا اور ہمیشہ کی زندگی“‏ کون ہے؟‏

بہت سے لوگ جو بائبل پر ایمان رکھتے ہیں اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ واحد اور سچا خدا یہوواہ ہی ہے۔‏ وہ ہمارا خالق ہے اور اُن تمام لوگوں کو ہمیشہ کی زندگی بخشے گا جو اُس سے محبت رکھتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا یسوع مسیح کا باپ بھی ہے۔‏ یسوع نے اُسکے بارے میں کہا کہ ”‏ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدایِ‌واحد اور برحق کو اور یسوؔع مسیح کو جسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔‏“‏—‏یوحنا ۱۷:‏۳‏۔‏

اسکے باوجود چرچ کے بہتیرے رُکن اس مضمون کے عنوان میں بیان کئے گئے اظہار سے فرق مطلب حاصل کرتے ہیں۔‏ یہ اظہار ۱-‏یوحنا ۵:‏۲۰ میں پایا جاتا ہے۔‏ وہاں لکھا ہے:‏ ”‏ہم اُس میں جو حقیقی ہے یعنی اُسکے بیٹے یسوؔع مسیح میں ہیں۔‏ حقیقی خدا اور ہمیشہ کی زندگی یہی ہے۔‏“‏

بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اس آیت میں لفظ ”‏یہی“‏ (‏یونانی زبان میں ہوتوس‏)‏ یسوع مسیح کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ یسوع کا ذکر اس آیت کے پہلے جملے کے آخر میں کِیا گیا ہے۔‏ اسلئے انکا کہنا ہے کہ ”‏حقیقی خدا اور ہمیشہ کی زندگی“‏ یسوع مسیح ہے اور وہ اس آیت کو تثلیث کے ثبوت کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔‏ لیکن یہ تشریح باقی صحیفوں سے متفق نہیں۔‏ اسکے علاوہ بہت سے مشہور عالم بھی اس آیت کو تثلیث کے ثبوت کے طور پر نہیں مانتے۔‏ مثال کے طور پر کیمبرج یونیورسٹی کے عالم وَیسکوٹ نے لکھا:‏ ”‏لفظ ہوتوس اُس شخص کی طرف اشارہ نہیں کرتا ہے جسکا ذکر اس سے سب سے نزدیک کِیا گیا ہے بلکہ وہ اُس شخص کی طرف اشارہ کرتا ہے جسکے بارے میں [‏یوحنا]‏ رسول پہلے ہی سے بات کر رہا تھا۔‏“‏ یوحنا رسول دراصل یسوع کے باپ یعنی یہوواہ خدا کے بارے میں بات کر رہا تھا۔‏ اسی طرح جرمنی کا مذہبی عالم اَیرِخ ہاؤپٹ نے بھی لکھا:‏ ”‏ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ آیا لفظ ”‏یہی“‏ [‏یعنی ہوتوس‏]‏ اس اِسم سے تعلق رکھتا ہے جسکا ذکر اس سے بالکل پہلے کِیا گیا ہے یا پھر کہ وہ خداتعالیٰ کی طرف اشارہ کرتا ہے جسکا ذکر پہلے آنے والے جملے میں کِیا گیا ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ اس بیان کے فوراً بعد [‏یعنی ۱-‏یوحنا ۵:‏۲۱ میں]‏ یوحنا رسول بُت‌پرستی کے خلاف آگاہی دیتا ہے۔‏ اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ مسیح کے خدا ہونے کی بجائے خداتعالیٰ کے حقیقی اور واحد خدا ہونے کی شہادت پیش کر رہا تھا۔‏“‏

روم میں کیتھولک پوپ کی صحائفی مجلس نے ایک کتاب شائع کی جس میں بیان کِیا گیا ہے:‏ ”‏[‏ہوتوس‏]‏:‏ یہ لفظ ۱۸-‏۲۰ [‏آیات]‏ کے آخر میں استعمال کِیا گیا ہے۔‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لفظ یقیناً سچے اور حقیقی خدا کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بُت‌پرستی کے خلاف ہے (‏آیت ۲۱‏)‏ ۔‏“‏

یونانی لفظ ہوتوس کا ترجمہ عموماً ”‏یہ“‏ یا ”‏یہی“‏ سے کِیا جاتا ہے۔‏ یہ لفظ جملے میں کسی بھی اسم کی طرف اشارہ کر سکتا ہے،‏ نہ صرف اس اسم کی طرف جو اس سے سب سے نزدیک ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ۲-‏یوحنا ۷ میں یوحنا نے اس لفظ کو یوں استعمال کِیا:‏ ”‏بہت سے ایسے گمراہ کرنے والے دُنیا میں نکل کھڑے ہوئے ہیں جو یسوؔع مسیح کے مجسم ہو کر آنے کا اقرار نہیں کرتے۔‏ گمراہ کرنے والا اور مخالفِ‌مسیح یہی [‏ہوتوس‏]‏ ہے۔‏“‏ ظاہری بات ہے کہ یہاں لفظ ”‏یہی“‏ یسوع مسیح کی بجائے ان لوگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جو مسیح کا اقرار نہیں کرتے۔‏ یہ لوگ ’‏گمراہ کرنے والے اور مخالفِ‌مسیح‘‏ ہیں۔‏

لوقا نے بھی لفظ ہوتوس کو اسی طرح استعمال کِیا۔‏ اعمال ۴:‏۱۰،‏ ۱۱ میں اُس نے لکھا:‏ ”‏یسوؔع مسیح ناصری جسکو تُم نے مصلوب کِیا اور خدا نے مُردوں میں سے جِلایا اُسی کے نام سے یہ شخص تمہارے سامنے تندرست کھڑا ہے۔‏ یہ [‏ہوتوس‏]‏ وہی پتھر ہے جِسے تُم معماروں نے حقیر جانا اور وہ کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا۔‏“‏ آیت ۱۱ میں لفظ ہوتوس سے بالکل پہلے اُس شخص کا ذکر کِیا گیا ہے جس نے شفا پائی تھی۔‏ لیکن بِلاشُبہ ”‏کونے کے سرے کا پتھر“‏ جو کلیسیا کی بنیاد ہے،‏ یسوع مسیح ہے اور لفظ ہوتوس اُسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‏—‏افسیوں ۲:‏۲۰؛‏ ۱-‏پطرس ۲:‏۴-‏۸‏۔‏

ایک اَور مثال اعمال ۷:‏۱۸،‏ ۱۹ میں پائی جاتی ہے:‏ ”‏اُس وقت تک کہ دوسرا بادشاہ مصرؔ پر حکمران ہوا جو یوؔسف کو نہ جانتا تھا۔‏ اُس [‏ہوتوس‏]‏ نے ہماری قوم سے چالاکی [‏کی]‏۔‏“‏ یہودیوں کو اذیت پہنچانے والا یوسف نہیں بلکہ مصر کا بادشاہ فرعون تھا۔‏

ایسے حوالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یونانی زبان کے ایک ماہر کا یہ بیان درست ہے:‏ ”‏یونانی زبان میں [‏ہوتوس جیسے]‏ اسمِ‌اشارہ اکثر بالکل پہلے بیان کئے گئے شخص کی طرف نہیں بلکہ اُس شخص کی طرف اشارہ کرتے ہیں جسکے بارے میں مصنف دراصل بات کر رہا ہے۔‏“‏

‏”‏حقیقی خدا“‏

لہٰذا یوحنا کے بیان سے پتا چلتا ہے کہ ”‏حقیقی خدا“‏ یہوواہ ہی ہے جو یسوع مسیح کا باپ ہے۔‏ وہ ہمارا خالق ہے اور اُسکے علاوہ کوئی سچا خدا نہیں۔‏ پولس رسول نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا:‏ ”‏ہمارے نزدیک تو ایک ہی خدا ہے یعنی باپ جسکی طرف سے سب چیزیں ہیں۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۸:‏۶؛‏ یسعیاہ ۴۲:‏۸‏)‏ ہم ایک اَور وجہ سے جانتے ہیں کہ ۱-‏یوحنا ۵:‏۲۰ میں جس شخص کو ”‏حقیقی خدا“‏ کہا جاتا ہے،‏ یہوواہ خدا ہے۔‏ زبور میں بھی یہوواہ کو ’‏سچائی کا خدا‘‏ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ بالکل قابلِ‌بھروسہ ہے اور جھوٹ نہیں بول سکتا۔‏ (‏زبور ۳۱:‏۵؛‏ خروج ۳۴:‏۶؛‏ ططس ۱:‏۲‏)‏ یسوع مسیح نے اپنے آسمانی باپ کے بارے میں کہا کہ ”‏تیرا کلام سچائی ہے“‏ اور اُس نے تسلیم کِیا کہ ”‏میری تعلیم میری نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے کی ہے۔‏“‏—‏یوحنا ۷:‏۱۶؛‏ ۱۷:‏۱۷‏۔‏

یہوواہ خدا ”‏ہمیشہ کی زندگی“‏ بھی ہے۔‏ وہ زندگی کا سرچشمہ ہے اور ہمیں مسیح کے وسیلے سے ہمیشہ کی زندگی بخشے گا۔‏ (‏زبور ۳۶:‏۹؛‏ رومیوں ۶:‏۲۳‏)‏ پولس رسول نے کہا کہ یہوواہ خدا ”‏اپنے طالبوں کو اجر دیتا ہے۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۶‏،‏ کیتھولک ورشن‏)‏ یہوواہ نے یسوع مسیح کو اجر دیتے ہوئے اُسے مُردوں میں سے جی‌اُٹھایا۔‏ اسی طرح یہوواہ ان تمام لوگوں کو انعام کے طور پر ہمیشہ کی زندگی بخشے گا جو اُس سے پورے دل سے محبت رکھتے ہیں۔‏—‏اعمال ۲۶:‏۲۳؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۱:‏۹‏۔‏

آخرکار ہم کِیا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں؟‏ ہم صاف صاف دیکھ چکے ہیں کہ ”‏حقیقی خدا اور ہمیشہ کی زندگی“‏ یہوواہ ہی ہے۔‏ لہٰذا ہمیں صرف اُسکی عبادت کرنی چاہئے۔‏—‏مکاشفہ ۴:‏۱۱‏۔‏