وہ اپنی وفاداری پر قائم رہے ہیں
وہ اپنی وفاداری پر قائم رہے ہیں
ملک پولینڈ کے جنوب میں وِسوا نامی ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ شاید آپ نے کبھی وِسوا کا نام نہیں سُنا ہے لیکن سچے مسیحی اِس شہر کی تاریخ میں ضرور دلچسپی لیں گے۔ راستی اور جوش سے یہوواہ خدا کی عبادت کرنے کی یہ ایک تاریخی داستان ہے۔
شہر وِسوا ایک خوبصورت پہاڑی علاقے میں واقع ہے۔ اِس شہر میں دو ندیاں بہتی ہیں جو ایک دریا سے جا ملتی ہیں۔ یہ دریا پہاڑی جنگلوں اور وادیوں میں سے بل کھاتا ہوا گزرتا ہے۔ خوشمزاج لوگ اور بیمثال موسم نے وِسوا کو بہت مقبول بنا رکھا ہے۔ یہاں تک کہ لوگ دُوردراز علاقوں سے موسمِگرما کے علاوہ موسمِسرما کی چھٹیاں یہیں گزارنے آتے ہیں۔
اِس جگہ کا پہلا ذکر ۱۵۹۰ میں ہوا تھا جب وہاں لکڑہارے اور کسان آباد ہوئے۔ اِن فروتن لوگوں کو ایک ایسی تبدیلی کا سامنا کرنا پڑا جس نے ایک طوفان کی طرح اُنہیں ہلا کر رکھ دیا۔ بائبل کے ترجمان مارٹن لوتھر نے کیتھولک چرچ کا مقابلہ کِیا جسکے نتیجے میں ایک نیا فرقہ یعنی پروٹسٹنٹ چرچ وجود میں آیا۔ ایک مصنف کے مطابق سن ۱۵۴۵ میں پروٹسٹنٹ مذہب وِسوا کا ”ریاستی مذہب“ بن چکا تھا۔ لیکن اِس مذہبی انقلاب کی وجہ سے یورپ میں تیس سال تک جنگ رہی۔ ”سن ۱۶۵۴ میں اس جنگ کے نتیجے میں سب پروٹسٹنٹ گرجاگھر بند کر دئے گئے اور لوگوں کی بائبلیں اور مذہبی کتابیں چھین لی گئیں۔“ اِسکے باوجود وِسوا کی اکثریت پروٹسٹنٹ مذہب کی ہی رہی۔
سچائی کی پہلی کِرنیں
سن ۱۹۲۸ میں وِسوا کے مذہبی حالات ایک اَور طریقے سے بھی بدلنے والے تھے۔ اُس سال دو یہوواہ کے گواہ پولینڈ میں لوگوں کو بائبل کی سچائیاں سکھانے لگے۔ ایک سال بعد یان گامولہ شہر وِسوا پہنچ گیا۔ وہ ایک فونوگراف کے ذریعے بائبل کی تقریریں پیش کرتا۔ پھر یان
ایک دوسرے گاؤں تبدیل ہو گیا جہاں اُسکی ملاقات آنڈریز راشکا سے ہوئی۔ راشکا ایک ہٹاکٹا پہاڑی آدمی تھا جس نے یان کی باتیں بڑی دلچسپی سے سنیں۔ راشکا نے اپنی بائبل کھول کر دیکھا کہ جو کچھ یان اُسے سنا رہا ہے وہ واقعی بائبل میں سے ہی ہے۔ پھر اُس نے یان کی طرف دیکھ کر کہا: ”میرے بھائی، آخر مَیں سچائی جان گیا! پہلی عالمی جنگ سے لے کر آج تک جن سوالوں کا جواب مَیں ڈھونڈ رہا تھا، آج وہ مجھے مل گئے ہیں۔“راشکا خوشی کے مارے یان کو اپنے دونوں دوستوں کے پاس لے گیا۔ اُنہوں نے بھی دل سے بائبل کی سچائیوں کو قبول کر لیا۔ ایک اَور بھائی آنڈریز ٹرنا جس نے بائبل کی سچائی فرانس میں سیکھی تھی، اب اِنکو خدا کے معیاروں کی بابت مزید سکھانے لگا۔ کچھ دیر بعد اُن تینوں نے بپتسمہ لے لیا۔ سن ۱۹۳۵ میں وِسوا کے اِس چھوٹے سے گروہ کی مدد کرنے کیلئے دوسرے شہروں سے بھی بھائی آنے لگے۔ اُنکی محنت ضائع نہیں گئی۔
بہت سے لوگ بائبل کی سچائیوں میں دلچسپی لینے لگے تھے۔ پروٹسٹنٹ مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ پہلے سے ہی بائبل پڑھنے کے عادی تھے۔ جب اُنہوں نے سیکھا کہ تثلیث اور دوزخ کی آگ کے عقیدے بائبل میں نہیں پائے جاتے تو کئی خاندانوں نے اپنے مذہب کو چھوڑ دیا۔ اِسطرح وِسوا کی کلیسیا بڑھتی گئی اور ۱۹۳۹ تک وہ ۱۴۰ افراد پر مشتمل تھی۔ حیرانگی کی بات ہے کہ بہتیروں نے ابھی بپتسمہ نہیں لیا تھا۔ اُن پہلے گواہوں میں سے ایک بہن، ہلینا کہتی ہیں: ”اِسکا مطلب یہ نہیں تھا کہ یہ لوگ یہوواہ کے وفادار نہیں تھے۔ یہ بات اُس وقت ظاہر ہوئی جب ہم پر امتحان کی گھڑی آئی۔“
اِن نئے بہنبھائیوں کے بچوں نے بھی پہچان لیا تھا کہ اُنکے والدین نے بائبل کی سچائیوں کو اپنا لیا ہے۔ ایک ایسے بھائی بتاتے ہیں: ”جونہی میرے والد کو احساس ہوا کہ اُنکو سچائی مل گئی ہے، اُنہوں نے مجھے اور میرے بھائی کو بائبل کے بارے میں سکھانا شروع کر دیا۔ تب ہم آٹھ اور دس سال کے تھے۔ ہمارے والد ہم سے آسان سے سوال پوچھا کرتے، جیسے: خدا کون ہے اور اُسکا نام کیا ہے؟ تُم یسوع مسیح کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ ہم سوالوں کے جواب لکھتے اور ساتھ میں ثبوت کے طور پر بائبل میں سے آیات کا حوالہ دیتے۔“ ایک اَور بھائی کہتے ہیں: ”میرے والدین نے ۱۹۴۰ میں پروٹسٹنٹ مذہب کو چھوڑ کر سچائی کو اپنا لیا۔ اِسلئے مجھے سکول میں ماراپیٹا گیا اور مجھے مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ میرے والدین نے مجھے بائبل کے اُونچے معیاروں کے بارے میں سکھایا تھا۔ مَیں اُنکا بہت شکرگزار ہوں کیونکہ اُن معیاروں کی وجہ سے ہی مَیں مشکل وقت سے نپٹ سکا۔“
امتحان کی گھڑی
جب دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو جرمنی کی نازی حکومت نے وِسوا کے علاقے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ نازیوں نے یہوواہ کے گواہوں کو ختم کرنے کی تھان لی تھی۔ نازیوں کے پاس ایسے کاغذات متی ۱۰:۲۸، ۲۹ میں پائے جانے والے یسوع کے الفاظ نے میری بہت حوصلہافزائی کی۔ مَیں جانتا تھا کہ اگر مجھے اپنے ایمان کی خاطر مار بھی دیا جاتا تو یہوواہ خدا مجھے پھر سے جی اُٹھا سکتا تھا۔“
تھے جن پر دستخط کرنے سے ایک شخص اُنکا ساتھ دینے کو تیار ہو جاتا۔ اس کے بدلے میں اس کو سہولتیں ملتیں۔ یہوواہ کے گواہوں نے ان کاغذات پر دستخط کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ کئی بھائیوں اور سچائی میں دلچسپی لینے والوں کو ایک اَور مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کرتے اس لئے اُن کو سخت سزا دی جاتی۔ ایک بھائی، آنڈریز شالبوٹ کہتے ہیں: ”جب ہم فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کرتے تھے تو نازی سزا کے طور پر ہمیں اذیتی کیمپ بھیج دیتے تھے۔“ اس بھائی کو خفیہ پولیس نے ۱۹۴۳ میں گرفتار کر لیا۔ وہ آگے بتاتے ہیں: ”مَیں نے اُس وقت بپتسمہ نہیں لیا تھا لیکنسن ۱۹۴۲ میں نازیوں نے وِسوا میں ۱۷ بھائیوں کو گرفتار کر لیا۔ تین مہینوں کے اندر اندر اُن میں سے ۱۵ بھائی اذیت سہتے سہتے مر گئے۔ وِسوا کے باقی بہنبھائیوں نے جب یہ خبر سنی تو اِسکا اُن پر کیا اثر پڑا؟ خوف کے مارے اپنے ایمان سے انکار کرنے کی بجائے اُنکا ایمان چٹان کی طرح مضبوط ہو گیا اور اُنہوں نے ہر حالت میں یہوواہ کے وفادار رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ اگلے ۶ مہینوں کے دوران وِسوا میں یہوواہ کے گواہوں کی تعداد دُگنی ہو گئی۔ کچھ دیر بعد اَور بھی بہنبھائیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ کُل ملا کر وِسوا کے ۸۳ گواہ ہٹلر کے ظلم کا شکار بنے، جن میں بچے بھی شامل تھے۔ اِن میں سے ۵۳ کو اذیتی کیمپوں میں یا پھر پولینڈ، جرمنی وغیرہ کے بیگار کیمپوں میں بھیجا گیا۔
وفاداری کی مثالیں
نازیوں نے بار بار یہوواہ کے گواہوں کو پھنسانے کی کوشش کی۔ ایک افسر نے ایک بھائی سے کہا: ”اِس کاغذ پر لکھا ہے کہ آج کے بعد تُم یہوواہ کے گواہوں سے کوئی واسطہ نہیں رکھو گے، صرف اِس پر دستخط کر دو پھر تُم آج سے آزاد ہو۔“ ایسا کرنے کا موقع اِس بھائی کو کئی بار ملا لیکن وہ یہوواہ خدا کا وفادار رہا۔ اِسکے نتیجے میں اس بھائی کو ماراپیٹا جاتا۔ آخر اُسے بیگار کیمپ بھیج دیا گیا۔ جنگ ختم ہونے سے کچھ عرصہ پہلے اِس کیمپ پر بمباری ہوئی اور یہ بھائی وہاں سے بڑی مشکل سے بچ نکلا۔
پاول شالبوٹ نے جو حال ہی میں فوت ہو گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ ”خفیہ پولیس والے مجھ سے بار بار پوچھتے کہ مَیں فوج میں بھرتی ہونے اور ہٹلر کا ساتھ دینے سے کیوں انکار کر رہا ہوں۔ جب مَیں نے اُنکو بتایا کہ بائبل سکھاتی ہے کہ ہمیں سیاسی معاملات میں کسی کا ساتھ نہیں دینا چاہئے تو مجھے ہتھیاروں کے ایک کارخانے میں کام کرنے کی سزا سنائی گئی۔ لیکن چونکہ مَیں ہتھیار بنانے کے کام کو بھی قبول نہیں کر سکتا تھا اسلئے مجھے ایک کان میں کام کرنے کیلئے بھیج دیا گیا۔“ پھر بھی وہ یہوواہ خدا کے وفادار رہے۔
بہنیں اور بچے اُن تمام بھائیوں کے لئے کھانا بھیجتیں جو اذیتی کیمپوں میں قید تھے۔ ایک بھائی اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”ہم موسمِگرما میں جنگلوں میں سے پھل چنا کرتے تھے اور اُسکے بدلے میں گندم خرید لیتے تھے۔ پھر بہنیں اِس گندم سے گھی کی ڈبلروٹیاں بناتیں اور اِنہیں بھائیوں کو بھیجتیں۔“
وِسوا کے شہر سے کُل ملا کر ۵۳ یہوواہ کے گواہ اذیتی کیمپ بھیجے گئے تھے۔ اُن میں سے ۳۸ وہاں فوت ہو گئے۔
بچوں پر ستم
یہوواہ کے گواہوں کے بچوں پر بھی نازیوں نے ستم ڈھایا۔ کئی بچوں کو اپنی ماؤں کیساتھ کیمپوں میں بھیجا گیا۔ دوسرے بچوں کو اپنے ماںباپ سے چھین کر ایک الگ کیمپ میں بھیجا گیا جسکا نام سنتے ہی لوگوں کے دلوں میں دہشت طاری ہو جاتی۔
تین بھائی جنہیں اِس بچوں کے کیمپ میں بھیجا گیا تھا، کہتے ہیں: ”نازیوں نے ہم میں سے دس بچوں کو وہاں بھیجا۔ ہماری عمریں پانچ اور نو سال کے درمیان تھیں۔ ہم سب ملکر دُعا کرتے اور ایک دوسرے کی حوصلہافزائی کرنے کیلئے بائبل کے مختلف موضوعات پر باتچیت کرتے۔ ہم بچوں کیلئے اس کیمپ کی اذیتوں کو برداشت کرنا بہت مشکل تھا۔“ سن ۱۹۴۵ میں اِن بچوں کو گھر واپس بھیجا گیا۔ وہ زندہ تو تھے لیکن ہڈیوں کا پنجر ہونے کے علاوہ وہ سخت صدمے کا شکار بھی تھے۔ اِسکے باوجود یہ بچے اپنی راستی پر قائم رہے۔
جنگ کے بعد
دوسری عالمی جنگ کے دوران وِسوا کے یہوواہ کے گواہ اپنے ایمان میں مضبوط رہے۔ جنگ ختم ہونے کے بعد وہ پورے جوش کیساتھ مُنادی کے کام کو جاری رکھنے کیلئے تیار تھے۔ بھائی ۲۵ میل دُور علاقوں میں جا کر بائبل پر مبنی رسالے اور کتابیں وغیرہ لوگوں کے پاس چھوڑ جاتے۔ یان کزوک بتاتے ہیں: ”جنگ کے تھوڑے ہی عرصہ بعد ہمارے شہر میں تین کلیسیائیں وجود میں آئیں۔ لیکن یہوواہ کے گواہوں کیلئے یہ آزادی چند دنوں کی مہمان ٹھہری۔“
نازی حکومت کے بعد کمیونسٹوں نے پولینڈ پر حکومت کرنا شروع کر دیا۔ سن ۱۹۵۰ میں اُنہوں نے یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی لگا دی۔ اب بھائیوں کو منادی کے کام میں ہوشیاری سے کام لینا پڑتا تھا۔ وہ لوگوں کے گھر اناج یا مویشی خریدنے کے بہانے جاتے اور اِسطرح خدا کے کلام پر گفتگو بھی کر لیتے۔ بھائیوں اور بہنوں کے چھوٹے گروہ رات کے وقت اجلاسوں کیلئے اکٹھے ہوتے۔ پھر بھی کئی یہوواہ کے گواہ گرفتار ہوئے اور اُن پر جاسوس ہونے کا الزام لگایا گیا۔ یہ الزام سراسر جھوٹ تھا۔ کئی افسروں نے ایک بھائی سے طنزاً کہا: ”ہٹلر تُم لوگوں کے ایمان کو توڑنے میں کامیاب تو نہیں رہا لیکن ہم ضرور کامیاب ہونگے۔“ اِس بھائی کو ۵ سال قید کِیا گیا لیکن پھر بھی وہ یہوواہ کا وفادار رہا۔ جب نوجوان یہوواہ کے گواہ سیاست میں حصہ لینے سے انکار کرتے تو اُنکو سکول یا کام سے نکال دیا جاتا۔
یہوواہ اُنکے ساتھ ہے
سن ۱۹۸۹ میں مُلک کے سیاسی ماحول میں تبدیلیاں آئیں جنکی وجہ سے یہوواہ کے گواہوں پر سے پابندیاں ہٹا دی گئیں۔ بہنوں اور بھائیوں نے اس آزادی کا فائدہ اُٹھایا اور جوش کیساتھ مُنادی میں بڑھچڑھ کر حصہ لینے لگے۔ وِسوا کے علاقے میں تقریباً ۱۰۰ بہنوں اور بھائیوں نے پائنیر کے طور پر خدمت شروع کر دی۔ اِسلئے اِس علاقے کو ”پائنیر بنانے والا کارخانہ“ کہا جاتا ہے۔
بائبل میں یوں لکھا ہے: ”اگر [یہوواہ] اُس وقت ہماری طرف نہ ہوتا جب لوگ ہمارے خلاف اُٹھے تو جب اُنکا قہر ہم پر بھڑکا تھا وہ ہمکو جیتا ہی نگل جاتے۔“ (زبور ۱۲۴:۲، ۳) ہمارے زمانے کی بےحسی اور بداخلاقی کے باوجود وِسوا کے یہوواہ کے گواہ راستی کی راہ پر چلتے اور اِسکے فائدے بھی حاصل کرتے ہیں۔ اِس علاقے میں یہوواہ کے گواہوں کی نسلیں پولس رسول کے اِن الفاظ کی سچائی کی گواہی دے سکتی ہیں: ”اگر خدا ہماری طرف ہے تو کون ہمارا مخالف ہے؟“—رومیوں ۸:۳۱۔
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
امیلیہ اپنے بچوں ہلینا، امیلیہ اور یان کیساتھ ایک قیدی کیمپ بھیجی گئی تھیں
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
پاول نے فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کِیا، اِسلئے اُنہیں ایک کان میں کام کرنا پڑا
[صفحہ ۲۷ پر تصویر]
وِسوا کے بھائیوں کو اس اذیتی کیمپ میں بھیجا اور مار ڈالا گیا۔ اسکے باوجود وِسوا میں مُنادی کا کام جاری رہا
[صفحہ ۲۸ پر تصویر]
پاول اور یان کو بچوں کے ایک اذیتی کیمپ بھیجا گیا
[صفحہ ۲۵ پر تصویر کا حوالہ]
:Berries and lfowers
R.M. Kosinscy / www.kosinscy.pl ©