مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ فردوس میں رہنے کی اُمید رکھ سکتے ہیں؟‏

کیا آپ فردوس میں رہنے کی اُمید رکھ سکتے ہیں؟‏

کیا آپ فردوس میں رہنے کی اُمید رکھ سکتے ہیں؟‏

‏”‏مَیں مسیح میں ایک شخص کو جانتا ہوں .‏ .‏ .‏ وہ شخص یکایک فردوس میں پہنچ گیا۔‏“‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۱۲:‏۲-‏۴‏۔‏

۱.‏ بہتیرے لوگ بائبل میں درج کن وعدوں کے بارے میں سُن کر خوش ہوتے ہیں؟‏

فردوس!‏ خدا نے اس زمین کو ایک خوبصورت باغ یا فردوس میں تبدیل کرنے کا وعدہ کِیا ہے۔‏ جب آپ نے خدا کے اس وعدے کے بارے میں پہلی بار سنا تھا تو اس بات کا آپ پر کیا اثر ہوا تھا؟‏ کیا آپ یہ سُن کر خوش نہیں ہوئے تھے کہ فردوس میں ”‏اندھوں کی آنکھیں وا کی جائینگی اور بہروں کے کان کھولے جائینگے“‏؟‏ اور یہ بھی کہ ”‏بیابان میں پانی اور دشت میں ندیاں پھوٹ نکلینگی“‏؟‏ جب آپکو اس پیشینگوئی کے بارے میں سنایا گیا کہ بھیڑیا بّرہ کیساتھ رہیگا اور چیتا بکری کے بچے کیساتھ بیٹھیگا تو کیا آپ حیران نہیں ہوئے تھے؟‏ پھر جب آپ نے خدا کے کلام میں پڑھا کہ آپکے عزیز جو فوت ہو گئے ہیں فردوس میں دوبارہ زندہ کئے جائینگے تو کیا آپکا دل کھلنے نہیں لگا؟‏—‏یسعیاہ ۱۱:‏۶؛‏ ۳۵:‏۵،‏ ۶؛‏ یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏۔‏

۲،‏ ۳.‏ (‏ا)‏ آپ فردوس کے بارے میں کئے گئے وعدوں پر بھروسا کیوں رکھ سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ مسیحی کس قسم کے فردوس کا لطف اُٹھا رہے ہیں،‏ اور یہ کس بات کا ثبوت ہے؟‏

۲ آپ ان وعدوں پر پورا بھروسا کیوں رکھ سکتے ہیں؟‏ کیونکہ یہ وعدے خدا کے کلام بائبل میں درج ہیں۔‏ یسوع مسیح نے خود ایک بدکار سے کہا تھا کہ ”‏تُو میرے ساتھ فردوس میں ہوگا۔‏“‏ (‏لوقا ۲۳:‏۴۳‏)‏ اسکے علاوہ آپ جانتے ہیں کہ خدا ہی کے ”‏وعدہ کے موافق ہم نئے آسمان اور نئی زمین کا انتظار کرتے ہیں جن میں راستبازی بسی رہیگی۔‏“‏ خدا نے یہ بھی وعدہ کِیا ہے کہ وہ ہمارے سب آنسوؤں کو پونچھنے کیساتھ ساتھ موت،‏ ماتم،‏ آہ‌ونالہ اور درد کو ختم کر دیگا۔‏ اسکا مطلب ہے کہ زمین ہر لحاظ سے فردوس میں تبدیل ہو جائیگی۔‏ اِسلئے ہم بھروسا رکھ سکتے ہیں کہ خدا اپنے تمام وعدوں کو پورا کریگا۔‏—‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۳؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۴‏۔‏

۳ مسیحی اِس آنے والے فردوس میں رہنے کی اُمید کو ایک اَور وجہ سے بھی تھام سکتے ہیں کیونکہ خدا نے اس زمانے ہی میں ایک ”‏روحانی فردوس“‏ قائم کِیا ہے۔‏ اُسکے بندے اس فردوس سے لطف اُٹھا رہے ہیں۔‏ خدا کے نبیوں نے اس روحانی فردوس کے بارے میں پیشینگوئیاں کی تھیں جو ہمارے زمانے میں تکمیل پا رہی ہیں۔‏

فردوس کے بارے میں ایک رویا

۴.‏ دوسرے کرنتھیوں ۱۲:‏۲-‏۴ میں کس رویا کا ذکر ہوا ہے اور یہ کس پر نمایاں ہوئی تھی؟‏

۴ روحانی فردوس کے سلسلے میں ذرا پولس رسول کے اس بیان پر غور کریں:‏ ”‏مَیں مسیح میں ایک شخص کو جانتا ہوں .‏ .‏ .‏ وہ یکایک تیسرے آسمان تک اٹھا لیا گیا۔‏ نہ مجھے یہ معلوم کہ بدن سمیت نہ یہ معلوم کہ بغیر بدن کے۔‏ یہ خدا کو معلوم ہے۔‏ اور مَیں یہ بھی جانتا ہوں کہ اُس شخص نے .‏ .‏ .‏ یکایک فردوس میں پہنچ کر ایسی باتیں سنیں جو کہنے کی نہیں اور جنکا کہنا آدمی کو روا نہیں۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۲:‏۲-‏۴‏)‏ یہاں پر پولس کس شخص کا ذکر کر رہا تھا؟‏ ان آیات کو درج کرنے سے پہلے پولس نے اس بات کا ثبوت پیش کِیا کہ وہ بھی خدا کا ایک رسول ہے۔‏ اسکے علاوہ بائبل میں کسی دوسرے شخص کا ذکر نہیں ہوتا جس کیساتھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا ہو۔‏ ہم پولس ہی کی زبان سے اس واقعے کے بارے میں سنتے ہیں۔‏ لہٰذا یہ نتیجہ اخذ کِیا جا سکتا ہے کہ پولس ہی نے یہ رویا دیکھی تھی۔‏ لیکن اس رویا میں پولس کونسے ”‏فردوس“‏ میں پہنچا تھا؟‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۵،‏ ۲۳-‏۳۱‏۔‏

۵.‏ ’‏تیسرا آسمان‘‏ کیا ہے،‏ لہٰذا جس ”‏فردوس“‏ کا ذکر پولس نے کِیا وہ کیا ہے؟‏

۵ سب سے پہلے ہمیں سمجھنا چاہئے کہ پولس نے جس ”‏تیسرے آسمان“‏ کا ذکر کِیا وہ کیا ہے۔‏ کئی ماہرِفلکیات کا کہنا ہے کہ پولس زمین کی فضا یا اس خلا کی طرف اشارہ کر رہا تھا جس میں ستارے اور سیارے گردِش کرتے ہیں۔‏ لیکن یہ نظریہ درست نہیں ہے۔‏ دراصل بائبل میں عدد ۳ اکثر ایک بات پر زور دینے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔‏ (‏واعظ ۴:‏۱۲؛‏ یسعیاہ ۶:‏۳؛‏ متی ۲۶:‏۳۴،‏ ۷۵؛‏ مکاشفہ ۴:‏۸‏)‏ لہٰذا پولس نے اس رویا میں جو آسمان دیکھا تھا وہ اصلی آسمان نہیں بلکہ روحانی آسمان ہے۔‏ اس سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ پولس اپنی رویا کے سلسلے میں جس فردوس کا ذکر کرتا ہے وہ بھی روحانی ہی ہے۔‏

۶.‏ پولس کی رویا کو سمجھنے کیلئے ہمیں کس واقعے پر غور کرنا پڑیگا؟‏

۶ اس فردوس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کیلئے ہم دوسری پیشینگوئیوں پر بھی غور کر سکتے ہیں۔‏ یہودی لوگ خدا کے احکام پر عمل نہیں کرتے تھے۔‏ اسلئے یہوواہ نے شاہِ‌بابل کو یروشلیم اور یہوداہ کو تباہ کرنے اور اُنکے باشندوں کو اسیر کرنے کی اجازت دی۔‏ بائبل کے مطابق یروشلیم کو ۶۰۷ ق.‏س.‏ع.‏ میں مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا تھا۔‏ خدا کے نبیوں نے پیشینگوئی کی تھی کہ یہودیوں کی سرزمین ۷۰ سال تک آباد نہیں ہوگی۔‏ خدا کا وعدہ تھا کہ اِسکے بعد یہودی اپنے ملک واپس لوٹ کر سچی عبادت کو بحال کر سکیں گے۔‏ یہ ۵۳۷ ق.‏س.‏ع.‏ میں واقع ہوا۔‏ (‏استثنا ۲۸:‏۱۵،‏ ۶۲-‏۶۸؛‏ ۲-‏سلاطین ۲۱:‏۱۰-‏۱۵؛‏ ۲۴:‏۱۲-‏۱۶؛‏ ۲۵:‏۱-‏۴؛‏ یرمیاہ ۲۹:‏۱۰-‏۱۴‏)‏ لیکن یہودیوں کی ۷۰ سالہ اسیری کے دوران اُنکی خوبصورت سرزمین کیساتھ کیا واقع ہوا؟‏ یہ بیابان میں تبدیل ہوگئی تھی جہاں جھاڑیاں اُگتی تھیں اور گیدڑ اپنے غار بنایا کرتے تھے۔‏ (‏یرمیاہ ۴:‏۲۶؛‏ ۱۰:‏۲۲‏)‏ کیا یہودیوں کی سرزمین کو اسی حالت میں رہنا تھا؟‏ نہیں،‏ کیونکہ خدا نے یوں وعدہ کِیا تھا:‏ ”‏یقیناً [‏یہوواہ]‏ صیوؔن کو تسلی دیگا۔‏ وہ اُسکے تمام ویرانوں کی دلداری کریگا۔‏ وہ اُسکا بیابان عدؔن کی مانند اور اُسکا صحرا [‏یہوواہ]‏ کے باغ [‏یا سپتواجنتا ترجمہ کے مطابق ”‏فردوس“‏]‏ کی مانند بنائیگا۔‏“‏—‏یسعیاہ ۵۱:‏۳‏۔‏

۷.‏ یہودیوں کی ۷۰ سالہ اسیری کے بعد انکی سرزمین میں کونسی تبدیلیاں آئیں؟‏

۷ خدا نے اپنا یہ وعدہ یہودیوں کی ۷۰ سالہ اسیری کے بعد پورا کِیا تھا۔‏ اُس نے یہودیوں کی سرزمین کو برکت دی۔‏ اسکا کیا نتیجہ تھا؟‏ ذرا ان آیات میں بتائی ہوئی باتوں کا تصور کرنے کی کوشش کریں:‏ ”‏بیابان اور ویرانہ شادمان ہونگے اور دشت خوشی کریگا اور نرگس کی مانند شگفتہ ہوگا۔‏ اُس میں کثرت سے کلیاں نکلینگی۔‏ وہ شادمانی سے گا کر خوشی کریگا۔‏ .‏ .‏ .‏ تب لنگڑے ہرن کی مانند چوکڑیاں بھرینگے اور گونگے کی زبان گائیگی کیونکہ بیابان میں پانی اور دشت میں ندیاں پھوٹ نکلینگی۔‏ بلکہ سراب تالاب ہو جائیگا اور پیاسی زمین چشمہ بن جائیگی۔‏ گیدڑوں کی ماندوں میں جہاں وہ پڑے تھے نَے اور نل کا ٹھکانا ہوگا۔‏“‏—‏یسعیاہ ۳۵:‏۱-‏۷‏۔‏

بیابان فردوس میں تبدیل ہو جاتا ہے

۸.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ یسعیاہ ۳۵ باب میں جو پیشینگوئیاں درج ہیں انکا اطلاق یہوداہ کے باشندوں پر بھی ہونا تھا؟‏

۸ جی‌ہاں،‏ اس پیشینگوئی کے مطابق ایک ویران علاقے کو فردوس میں تبدیل ہو جانا تھا۔‏ اسی طرح بہت سی پیشینگوئیوں میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ایسی تبدیلیاں محض یہودیوں کی سرزمین پر نہیں بلکہ اسکے باشندوں پر بھی آئینگی۔‏ ہم یہ کیسے جانتے ہیں؟‏ یسعیاہ نبی ان لوگوں کے بارے میں پیشینگوئی کر رہا تھا ”‏جنکو [‏یہوواہ]‏ نے مخلصی بخشی۔‏“‏ یسعیاہ آگے بیان کرتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین ”‏میں گاتے ہوئے آئینگے“‏ اور ”‏خوشی اور شادمانی حاصل کرینگے۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۳۵:‏۱۰‏)‏ ظاہری بات ہے کہ اس پیشینگوئی کا اطلاق یہوداہ کی سرزمین پر نہیں بلکہ اسکے باشندوں پر ہوتا ہے۔‏ ایک اَور پیشینگوئی میں یسعیاہ نے ان لوگوں کے بارے میں جو صیون یعنی یروشلیم کو واپس لوٹینگے یوں کہا:‏ ’‏وہ صداقت کے درخت اور یہوواہ کے لگائے ہوئے کہلائینگے۔‏‘‏ اسکی کیا وجہ ہوگی؟‏ ”‏کیونکہ جسطرح زمین اپنے نباتات کو پیدا کرتی ہے .‏ .‏ .‏ اُسی طرح [‏یہوواہ]‏ صداقت اور ستایش کو تمام قوموں کے سامنے ظہور میں لائیگا۔‏“‏ یسعیاہ نے خدا کی قوم کے بارے میں یہ بھی کہا تھا کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ سدا تیری راہنمائی کریگا .‏ .‏ .‏ اور تیری ہڈیوں کو قوت بخشے گا۔‏ پس تُو سیراب باغ کی مانند ہوگا۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۵۸:‏۱۱؛‏ ۶۱:‏۳،‏ ۱۱؛‏ یرمیاہ ۳۱:‏۱۰-‏۱۲‏)‏ اس سے ہم جان سکتے ہیں کہ یہوداہ کی سرزمین کے بحال ہونے کیساتھ ساتھ یہودی قوم بھی بحال ہونی تھی۔‏

۹.‏ پولس نے اپنی رویا میں کس قسم کا ”‏فردوس“‏ دیکھا تھا اور اُسکی رویا میں درج باتوں کو کب پورا ہونا تھا؟‏

۹ قدیم زمانے کی اس مثال سے ہم جان سکتے ہیں کہ پولس نے اپنی رویا میں کیا دیکھا تھا۔‏ یہ رویا مسیحی کلیسیا کے بارے میں تھی جسے پولس ”‏خدا کی کھیتی“‏ کہتا ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۳:‏۹‏)‏ اس کلیسیا کو پھل لانا تھا۔‏ لیکن پولس نے اس رویا میں جو کچھ دیکھا تھا اسے کب پورا ہونا تھا؟‏ پولس نے کہا کہ اُسے ایک ’‏رویا اور مکاشفہ‘‏ عنایت ہوئی یعنی ایک ایسی بات جو آنے والے وقت میں پوری ہونی تھی۔‏ وہ جانتا تھا کہ کلیسیا میں بڑے پیمانے پر برگشتگی پھیلنے والی تھی۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۲:‏۱؛‏ اعمال ۲۰:‏۲۹،‏ ۳۰؛‏ ۲-‏تھسلنیکیوں ۲:‏۳،‏ ۷‏)‏ آہستہ آہستہ مسیحی کلیسیا میں اتنے برگشتہ لوگ تھے کہ یہ ایک باغ کی مانند ہونے کی بجائے ایک بیابان بن گئی۔‏ لیکن وہ وقت آنا تھا جب مسیحی کلیسیا میں سے برگشتگی کو ہٹا دیا جانا تھا۔‏ خدا کے لوگوں کو دوبارہ سے بحال کر دیا جانا تھا تاکہ ”‏راستباز اپنے باپ کی بادشاہی میں آفتاب کی مانند چمکیں۔‏“‏ (‏متی ۱۳:‏۲۴-‏۳۰،‏ ۳۶-‏۴۳‏)‏ یہ خدا کی بادشاہت کو آسمان میں قائم کرنے کے تھوڑے عرصے بعد ہوا تھا۔‏ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ یہ صاف ظاہر ہوتا گیا کہ خدا کے لوگ ایک روحانی فردوس کا لطف اُٹھا رہے ہیں۔‏ یہی وہ ”‏فردوس“‏ ہے جسے پولس نے اپنی رویا میں دیکھا تھا۔‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک روحانی فردوس میں جی رہے ہیں؟‏

۱۰ ہم کمزور اور ناکامل اشخاص ہیں جسکی وجہ سے کبھی‌کبھار مسیحی کلیسیا میں مسئلے کھڑے ہو جاتے ہیں۔‏ یہ کوئی نئی بات نہیں کیونکہ پولس کے زمانے میں بھی مسیحی کلیسیا میں ایسا ہی ہوتا تھا۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱:‏۱۰-‏۱۳؛‏ فلپیوں ۴:‏۲،‏ ۳؛‏ ۲-‏تھسلنیکیوں ۳:‏۶-‏۱۴‏)‏ اسکے باوجود ہم واقعی ایک روحانی فردوس کا لطف اُٹھا رہے ہیں۔‏ ایک زمانے میں ہم روحانی طور پر بیمار تھے لیکن اب ہمیں شفا بخشی گئی ہے۔‏ ہم روحانی خوراک کے ایک ایک نوالے کیلئے ترس رہے تھے لیکن آج روحانی خوراک کی بہتات کی وجہ سے ہم سیر ہیں۔‏ ہم روحانی بیابان میں نہیں جی رہے کیونکہ یہوواہ خدا ہم پر برکتوں کا مینہ برسا رہا ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۳۵:‏۱،‏ ۷‏)‏ روحانی تاریکی کی گرفت میں ہونے کی بجائے ہم پر خدا کی خوشنودی کا نور چمک رہا ہے۔‏ بہتیرے جو بائبل کی سچائیوں کو سننے کیلئے کان نہیں رکھتے تھے اب انکے کان کھولے گئے ہیں۔‏ (‏یسعیاہ ۳۵:‏۵‏)‏ مثال کے طور پر پوری دُنیا میں کروڑوں یہوواہ کے گواہوں نے دانی‌ایل نبی کی کتاب کا مطالعہ کِیا ہے۔‏ اسکے بعد اُنہوں نے یسعیاہ نبی کی کتاب کے ہر باب پر بھی غور کِیا ہے۔‏ کیا روحانی خوراک کی بہتات اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ ہم واقعی ایک روحانی فردوس میں رہ رہے ہیں؟‏

۱۱ اسکے علاوہ ہر نسل،‏ رنگت اور رُتبہ کے لوگوں نے خدا کے کلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے۔‏ لہٰذا انہوں نے اپنی بُری عادتوں کو ترک کر دیا ہے۔‏ شاید آپ نے بھی ایسا ہی کِیا ہو۔‏ (‏کلسیوں ۳:‏۸-‏۱۴‏)‏ اسطرح آپ مسیحی کلیسیا کا حصہ بن گئے ہیں جہاں تمام بہن بھائی ایک دوسرے سے پیارومحبت سے پیش آتے ہیں۔‏ یہ کتنا پُرسکون ماحول ہے!‏ یہ سچ ہے کہ ہم میں سے کوئی کامل نہیں۔‏ لیکن ہم نے اپنی وحشیانہ حرکتوں کو ترک کر دیا ہے۔‏ اسلئے ہم میں سے کوئی ایک شیرببر یا درندے کی مانند نہیں رہا۔‏ (‏یسعیاہ ۳۵:‏۹‏)‏ اس قسم کے بھائی‌چارے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم واقعی ایک ایسے روحانی ماحول میں جی رہے ہیں جسے روحانی فردوس بھی کہا جا سکتا ہے۔‏ اسکے علاوہ ہم روحانی فردوس میں اُس فردوس کی ایک جھلک بھی پاتے ہیں جو زمین پر آنے والا ہے۔‏ اگر ہم خدا کے وفادار رہینگے تو ہم اس زمینی فردوس کا بھی لطف اُٹھا سکیں گے۔‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ روحانی فردوس میں رہنے کیلئے ہمیں کونسی شرط پوری کرنی ہوگی؟‏

۱۲ لیکن ہمیں ایک چیز یاد رکھنی چاہئے۔‏ خدا نے بنی اسرائیل کو کہا کہ ”‏ان سب حکموں کو جو آج مَیں تجھ کو دیتا ہوں تُم ماننا تاکہ تُم مضبوط ہو کر اُس ملک میں جس پر قبضہ کرنے کیلئے تُم پار جا رہے ہو پہنچ جاؤ اور اُس پر قبضہ بھی کر لو۔‏“‏ (‏استثنا ۱۱:‏۸‏)‏ احبار ۲۰:‏۲۲،‏ ۲۴ میں بھی اسی ”‏ملک“‏ کا ذکر یوں کِیا گیا ہے:‏ ”‏تُم میرے سب آئین اور احکام ماننا اور ان پر عمل کرنا تاکہ وہ ملک جس میں مَیں تمکو بسانے کو لئے جاتا ہوں تُم کو اُگل نہ دے۔‏ پر مَیں نے تُم سے کہا ہے کہ تُم انکے ملک کے وارث ہوگے اور مَیں تمکو وہ ملک جس میں دودھ اور شہد بہتا ہے تمہاری ملکیت ہونے کیلئے دونگا۔‏“‏ یہوواہ خدا نے بنی اسرائیل کو ایک فردوس‌نما ملک میں بسایا تھا۔‏ لیکن جب انہوں نے خدا کے حکموں پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو خدا نے شاہِ‌بابل کے ذریعے انہیں اس ملک سے نکلوا دیا۔‏ لہٰذا ملکِ‌موعود میں رہنے کی شرط یہ تھی کہ بنی اسرائیل خدا کے احکام پر عمل کریں اور اسکے نزدیک رہیں۔‏

۱۳ اسی طرح ہم بھی ایک روحانی فردوس میں رہنے کا لطف اُٹھا رہے ہیں۔‏ ہمیں اس پُرسکون ماحول میں جینا بہت اچھا لگتا ہے۔‏ ہمارا تعلق ایسے لوگوں کیساتھ ہے جنہوں نے اپنی وحشیانہ حرکتیں ترک کر دی ہیں۔‏ انکی کوشش ہے کہ وہ ایک دوسرے کیساتھ نرمی اور رحم‌دلی سے پیش آئیں۔‏ لیکن اس روحانی فردوس میں رہنے کیلئے محض یہ کافی نہیں ہے کہ ہم اپنے مسیحی بہن بھائیوں کیساتھ اچھے تعلقات رکھیں۔‏ اسکی ایک شرط یہ بھی ہے کہ ہم خدا کے احکام پر عمل کریں اور اسکے نزدیک جائیں۔‏ (‏میکاہ ۶:‏۸‏)‏ ہم اپنی مرضی سے اس روحانی فردوس میں داخل ہوئے ہیں۔‏ لیکن اگر ہم خدا کے نزدیک رہنے کی کوشش نہیں کرینگے تو ہم اس روحانی ماحول سے دُور ہونے یا پھر اسے بالکل محروم ہو جانے کے خطرے میں ہونگے۔‏

۱۴.‏ خدا کے نزدیک رہنے کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۴ خدا کے کلام کو پڑھنے اور اس پر غور کرنے سے ہم اسکے نزدیک رہ سکتے ہیں۔‏ اس سلسلے میں زبور ۱:‏۱-‏۳ میں یوں لکھا ہے:‏ ”‏مبارک ہے وہ آدمی جو شریروں کی صلاح پر نہیں چلتا .‏ .‏ .‏ بلکہ [‏یہوواہ]‏ کی شریعت میں اُسکی خوشنودی ہے اور اُسی کی شریعت پر دن رات اُسکا دھیان رہتا ہے۔‏ وہ اُس درخت کی مانند ہوگا جو پانی کی ندیوں کے پاس لگایا گیا ہے۔‏ جو اپنے وقت پر پھلتا ہے اور جسکا پتا بھی نہیں مرجھاتا۔‏ سو جو کچھ وہ کرے بارور ہوگا۔‏“‏ اسکے علاوہ دیانتدار اور عقلمند نوکر ہمیں کتابوں،‏ رسالوں وغیرہ کے ذریعے روحانی خوراک مہیا کرتا ہے۔‏—‏متی ۲۴:‏۴۵-‏۴۷‏۔‏

اپنی اُمید مضبوط بنائیں

۱۵.‏ موسیٰ بنی اسرائیل کو ملکِ‌موعود میں کیوں نہ لے جا سکا؟‏ اسکے باوجود وہ اُس ملک کے بارے میں کیا جان گیا تھا؟‏

۱۵ آئیے ہم فردوس کی ایک اَور جھلک پر غور کرتے ہیں جو بائبل میں دی گئی ہے۔‏ یہ اُس وقت کا واقعہ ہے جب بنی اسرائیل ۴۰ سال بیابان میں پھر چکے تھے۔‏ اب موسیٰ انہیں موآب کے میدانوں تک لے آیا تھا جو دریائےیردن کے مشرق میں واقع ہیں۔‏ موسیٰ کی ایک خطا کی وجہ سے یہوواہ خدا نے اُسے بنی اسرائیل کو یردن پار ملکِ‌موعود لے جانے کی اجازت نہ دی۔‏ (‏گنتی ۲۰:‏۷-‏۱۲؛‏ ۲۷:‏۱۲،‏ ۱۳‏)‏ اسکے باوجود موسیٰ نے خدا سے منت کی کہ ”‏مجھے پار جانے دے کہ مَیں بھی اُس اچھے ملک کو جو یرؔدن کے پار ہے .‏ .‏ .‏ دیکھوں۔‏“‏ موسیٰ کو کیسے معلوم تھا کہ وہ علاقہ اچھا ہے؟‏ جب اُس نے کوہِ‌پسگہ پر چڑھ کر چاروں طرف نظر اُٹھائی تھی تو وہ جان گیا تھا کہ بنی اسرائیل جس ملک میں جانے والے ہیں وہ ’‏اچھا ملک‘‏ ہے۔‏ آپکے خیال میں یہ ملک کیسا تھا؟‏—‏استثنا ۳:‏۲۵-‏۲۷‏۔‏

۱۶،‏ ۱۷.‏ (‏ا)‏ موسیٰ کے زمانے سے لے کر ہمارے دَور تک ملکِ‌موعود کا علاقہ کس حد تک بدل گیا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ ملکِ‌موعود ایک زمانے میں فردوس کی مانند تھا؟‏

۱۶ اگر آپ آج اُس علاقے کو دیکھیں جسے موسیٰ نے ”‏اچھا“‏ قرار دیا تھا تو شاید آپ مایوس ہو جائیں۔‏ آج یہی علاقہ ایک گردآلود،‏ پتھریلے ریگستان کے طور پر نظر آتا ہے۔‏ یہ علاقہ موسیٰ کے زمانے میں بالکل فرق تھا۔‏ ایک رسالے میں ایک ماہرِزراعت کا کہنا ہے کہ ”‏تقریباً ۰۰۰،‏۱ سال سے اس علاقے میں زمین کو بغیر سوچےسمجھے استعمال کِیا گیا ہے۔‏ یہ ایک نہایت سرسبز علاقہ تھا جسے انسان ہی نے ریگستان میں تبدیل کر دیا ہے۔‏“‏ (‏سائنٹیفک امریکن‏)‏ اِس ماہرِزراعت کی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک زمانے میں ملکِ‌موعود میں ”‏ہر طرف سرسبز چراگاہیں ہی چراگاہیں تھیں“‏ اور یہ بھی کہ انسان ہی نے اس علاقے کو تباہ کر دیا ہے۔‏ *

۱۷ یہ بات کتنی سچ ہے اسکا اندازہ ہمیں بائبل پر غور کرنے سے ہوتا ہے۔‏ جیسا آپکو یاد ہوگا یہوواہ خدا نے موسیٰ کے ذریعے بنی اسرائیل کو یقین دلایا تھا کہ ”‏جس ملک پر قبضہ کرنے کیلئے تُم پار جانے کو ہو وہ پہاڑوں اور وادیوں کا ملک ہے اور بارش کے پانی سے سیراب ہؤا کرتا ہے۔‏ اُس ملک پر [‏یہوواہ]‏ تیرے خدا کی توجہ رہتی ہے۔‏“‏—‏استثنا ۱۱:‏۸-‏۱۲‏۔‏

۱۸.‏ یسعیاہ ۳۵:‏۲ میں درج پیشینگوئی کو سن کر ملک بابل میں اسیر ہوئے اسرائیلیوں کو کس بات کی یاد آئی ہوگی؟‏

۱۸ ملکِ‌موعود کی سرزمین اتنی خوبصورت اور پھلدار تھی کہ اسکے کچھ علاقوں کے نام سنتے ہی لوگوں کے ذہن میں فردوس کا تصور اُبھرنے لگتا۔‏ اس بات کا ثبوت ہمیں یسعیاہ ۳۵ باب کی پیشینگوئی سے ملتا ہے۔‏ اسکی ایک تکمیل اس وقت ہوئی جب بنی اسرائیل ملک بابل سے واپس اپنی سرزمین کو لوٹ رہے تھے۔‏ اس پیشینگوئی میں یسعیاہ نبی ملکِ‌موعود کے بارے میں کہتا ہے کہ ”‏اُس میں کثرت سے کلیاں نکلینگی۔‏ وہ شادمانی سے گا کر خوشی کریگا۔‏ لبناؔن کی شوکت اور کرؔمل اور شاؔرون کی زینت اُسے دی جائیگی۔‏ وہ [‏یہوواہ]‏ کا جلال اور ہمارے خدا کی حشمت دیکھینگے۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۳۵:‏۲‏)‏ جی‌ہاں لبنان،‏ کرمل اور شارون جیسے علاقوں کا ذکر سنتے ہی اسرائیلیوں کو اپنی خوبصورت،‏ فردوس‌نما سرزمین یاد آئی ہوگی۔‏

۱۹،‏ ۲۰.‏ (‏ا)‏ قدیم شارون کا علاقہ کیسا تھا؟‏ (‏ب)‏ ہم آنے والے زمینی فردوس میں رہنے کی اُمید کو کیسے مضبوط کر سکتے ہیں؟‏

۱۹ ذرا شارون کے علاقے پر غور کریں جسکی چراگاہیں سامریہ کے پہاڑی سلسلے اور بحیرہِ‌روم کے درمیان واقع ہیں۔‏ (‏صفحہ ۱۰ پر تصویر کو دیکھیں۔‏)‏ یہ علاقہ اپنی خوبصورتی کے علاوہ پھلدار ہونے کیلئے بھی مشہور تھا۔‏ اس علاقے میں خوب پانی دستیاب تھا جسکی وجہ سے یہاں لوگ مویشی پالتے تھے۔‏ شارون کے شمالی علاقے میں شاہ‌بلوط کے درختوں کے گھنے جنگلات بھی پائے جاتے تھے۔‏ (‏۱-‏تواریخ ۲۷:‏۲۹؛‏ غزل‌الغزلات ۲:‏۱؛‏ یسعیاہ ۶۵:‏۱۰‏)‏ دراصل یسعیاہ نبی کی پیشینگوئی کی تکمیل کے تین پہلو ہیں۔‏ اسکی پہلی تکمیل اس وقت ہونی تھی جب اسرائیلیوں کی اسیری کے بعد ملکِ‌موعود کو دوبارہ ایک فردوس‌نما علاقے میں تبدیل ہونا تھا۔‏ اسکی دوسری تکمیل ہمارے زمانے میں روحانی فردوس کے ذریعے ہو رہی ہے،‏ جسکا ذکر پولس رسول نے اپنی رویا میں کِیا تھا۔‏ آخرکار یسعیاہ نبی کی پیشینگوئی کی تیسری تکمیل اُس وقت ہوگی جب پوری دُنیا ایک فردوس‌نما باغ میں تبدیل ہو جائیگی۔‏

۲۰ آج ہم جس روحانی فردوس میں رہ رہے ہیں ہم اس کیلئے اپنی شکرگزاری کیسے بڑھا سکتے ہیں؟‏ اِسکے علاوہ ہم آنے والے زمینی فردوس میں رہنے کی اُمید کو کیسے مضبوط کر سکتے ہیں؟‏ ہم بائبل میں جو کچھ پڑھتے ہیں ہم اسے بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر بائبل کی پیشینگوئیوں میں اکثر خاص علاقوں کا ذکر کِیا جاتا ہے۔‏ کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ علاقے کہاں واقع تھے اور انکے گِردونواح کا جغرافیہ کیسا تھا؟‏ اگلے مضمون میں ہم دیکھینگے کہ آپ ایسی باتوں کو کسطرح سے معلوم کر سکتے ہیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 16 انگریزی کتاب بائبل کی جغرافیہ کے مصنف کا کہنا ہے کہ ”‏جس زمانے میں بائبل لکھی گئی تھی اُس زمانے سے لے کر ہمارے دَور تک ملکِ‌موعود کا علاقہ بالکل بدل گیا ہے۔‏“‏ اسکی کیا وجہ ہے؟‏ ”‏انسان ایندھن اور گھر تعمیر کرنے کیلئے .‏ .‏ .‏ بڑے پیمانے پر درخت کاٹ کر لکڑی حاصل کرتا رہا۔‏ جنگلات ختم ہونے کی وجہ سے اس علاقے پر موسم کا اثر زیادہ شدید ہو گیا .‏ .‏ .‏ اور یہی اس علاقے کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔‏“‏

کیا آپکو یاد ہے؟‏

‏• پولس نے اپنی رویا میں کس قسم کا ”‏فردوس“‏ دیکھا؟‏

‏• یسعیاہ ۳۵ باب کی پہلی تکمیل کب ہوئی اور اس پیشینگوئی کا پولس کی رویا سے کیا تعلق ہے؟‏

‏• ہم روحانی فردوس میں رہنے کیلئے اپنی شکرگزاری کو کیسے بڑھا سکتے ہیں اور آنے والے زمینی فردوس میں رہنے کی اُمید کو کیسے مضبوط بنا سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

شارون کی چراگاہیں ملکِ‌موعود کے پھلدار علاقوں میں شامل تھیں

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Pictorial Archive

‏.‎Near Eastern History‎( Est)‏

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

موسیٰ نے ملکِ‌موعود پر نظر ڈالتے ہوئے دیکھا کہ یہ علاقہ ’‏اچھا‘‏ تھا