اذیت سہنے کے باوجود خوش
اذیت سہنے کے باوجود خوش
”جب میرے سبب سے لوگ تُم کو لعنطعن کرینگے اور ستائینگے اور ہر طرح کی بُری باتیں تمہاری نسبت ناحق کہینگے تو تُم [خوش] ہوگے۔“ —متی ۵:۱۱۔
۱. یسوع نے اپنے شاگردوں کو اذیت اور خوشی کے تعلق کے بارے میں کیا بتایا؟
جب یسوع نے اپنے رسولوں کو بادشاہت کی مُنادی کرنے کے لئے بھیجا تو اُس نے اُن کو یہ بھی بتایا کہ لوگ اُن کی مخالفت کریں گے۔ اُس نے کہا کہ ”میرے نام کے باعث سے سب لوگ تُم سے عداوت رکھیں گے۔“ (متی ۱۰:۵-۱۸، ۲۲) اپنے پہاڑی وعظ میں یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا تھا کہ مخالفت کی وجہ سے اُن کی خوشی کم نہیں پڑ جائے گی بلکہ یہ اُن کے لئے خوشی کا باعث ہوگی۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟
راستبازی کے سبب سے ستائے جانا
۲. یسوع اور پطرس رسول کے مطابق ہم دُکھ سہتے وقت خوش کیوں ہو سکتے ہیں؟
۲ یسوع نے خوش ہونے کی آٹھویں وجہ یوں بیان کی: ”[خوش] متی ۵:۱۰) جب ہمیں ستایا جاتا ہے تو یہ بذاتخود خوشی کا باعث نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں پطرس رسول نے لکھا کہ ”اگر تُم نے گناہ کرکے مکے کھائے اور صبر کِیا تو کونسا فخر ہے؟ اگر نیکی کرکے دکھ پاتے اور صبر کرتے ہو تو یہ خدا کے نزدیک پسندیدہ ہے۔“ پھر اُس نے کہا کہ ”تُم میں سے کوئی شخص خونی یا چور یا بدکار یا اَوروں کے کام میں دست انداز ہو کر دکھ نہ پائے۔ لیکن اگر مسیح ہونے کے باعث کوئی شخص دکھ پائے تو شرمائے نہیں بلکہ اِس نام کے سبب سے خدا کی تمجید کرے۔“ (۱-پطرس ۲:۲۰؛ ۴:۱۵، ۱۶) لہٰذا متی ۵:۸ میں یسوع کہہ رہا تھا کہ جب نیکی کرنے کی وجہ سے ہمیں ستایا اور دُکھ پہنچایا جاتا ہے تو یہ ہمارے لئے خوشی کا باعث ہوتا ہے۔
ہیں وہ جو راستبازی کے سبب سے ستائے گئے ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی اُن ہی کی ہے۔“ (۳. (ا) راستبازی کے سبب سے ستائے جانے کا کیا مطلب ہے؟ (ب) اذیت سہنے پر رسولوں اور ابتدائی مسیحیوں کا کیا ردِعمل رہا؟
۳ راستباز شخص خدا کے احکام پر عمل کرکے اُس کی مرضی پوری کرتا ہے۔ راستبازی کے سبب سے ستائے جانے کا کیا مطلب ہے؟ اسکا مطلب ہے کہ اگر کوئی ہمیں خدا کی مرضی پوری کرنے سے روکنا چاہے تو بھی ہم خدا کے معیاروں پر چلتے رہینگے۔ یہودیوں کے مذہبی پیشوا چاہتے تھے کہ یسوع کے رسول اُس کے نام میں گواہی دینا بند کر دیں۔ لیکن رسولوں نے اُن کی ایک نہ مانی۔ لہٰذا اُنہیں اذیت پہنچائی گئی۔ (اعمال ۴:۱۸-۲۰؛ ۵:۲۷-۲۹، ۴۰) کیا رسول اس وجہ سے دلبرداشتہ ہوگئے یا پھر کیا اُنہوں نے مُنادی کے کام میں حصہ لینا چھوڑ دیا؟ بالکل نہیں، بلکہ ”وہ عدالت سے اس بات پر خوش ہو کر چلے گئے کہ ہم اُس نام کی خاطر بےعزت ہونے کے لائق تو ٹھہرے۔ اور وہ ہیکل میں اور گھروں میں ہر روز تعلیم دینے اور اس بات کی خوشخبری سنانے سے کہ یسوؔع ہی مسیح ہے باز نہ آئے۔“ (اعمال ۵:۴۱، ۴۲) اذیت سہنے سے انکی خوشی بڑھ گئی اور اُنہوں نے پُرجوش ہو کر مُنادی کے کام کو جاری رکھا۔ اسکے کچھ عرصے بعد رومی حکومت نے بھی ابتدائی مسیحیوں کو اذیت کا نشانہ بنایا کیونکہ وہ شہنشاہ کی پوجا کرنے سے انکار کرتے تھے۔
۴. مسیحیوں کو اذیت کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے؟
۴ آجکل بھی یہوواہ کے گواہوں نے ہر صورتحال میں ”بادشاہی کی اِس خوشخبری“ کی مُنادی کرنا جاری رکھا ہے جسکی وجہ سے اُنکو اذیت پہنچائی گئی ہے۔ (متی ۲۴:۱۴) جب اُنکے مسیحی اجلاسوں پر پابندی لگائی جاتی ہے تو وہ ایک دوسرے کیساتھ جمع ہونے سے باز نہیں آتے کیونکہ یہ خدا کا حکم ہے۔ (عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵) اُنہیں اسلئے بھی اذیت سہنی پڑتی ہے کیونکہ وہ سیاسی معاملات میں کسی کی طرفداری نہیں کرتے اور خون کا ناجائز استعمال کرنے سے بھی انکار کرتے ہیں۔ (یوحنا ۱۷:۱۴؛ اعمال ۱۵:۲۸، ۲۹) اس اذیت کے باوجود خدا کے خادموں نے اپنی راستبازی برقرار رکھی ہے جسکی وجہ سے وہ دلی سکون اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔—۱-پطرس ۳:۱۴۔
مسیح کے سبب سے لعنطعن کا سامنا
۵. یہوواہ کے خادموں کو کس وجہ سے اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے؟
۵ یسوع کے پہاڑی وعظ میں خوش ہونے کی جو نویں وجہ بتائی گئی ہے، اسکا تعلق بھی اذیت سہنے سے ہے: ”جب میرے سبب سے لوگ تُم کو لعنطعن کرینگے اور ستائینگے اور ہر طرح کی بُری باتیں تمہاری نسبت ناحق کہینگے تو تُم [خوش] ہوگے۔“ (متی ۵:۱۱) دراصل یہوواہ کے خادموں کو اسلئے اذیت پہنچائی جاتی ہے کیونکہ وہ اس بُری دُنیا کی حرکتوں میں شامل نہیں ہوتے۔ یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ ”اگر تُم دُنیا کے ہوتے تو دُنیا اپنوں کو عزیز رکھتی لیکن چونکہ تُم دُنیا کے نہیں بلکہ مَیں نے تمکو دُنیا میں سے چن لیا ہے اس واسطے دُنیا تُم سے عداوت رکھتی ہے۔“ (یوحنا ۱۵:۱۹) اسی طرح پطرس رسول نے بُرے لوگوں کے بارے میں لکھا کہ ”وہ تعجب کرتے ہیں کہ تُم اُسی سخت بدچلنی تک اُنکا ساتھ نہیں دیتے اور لعنطعن کرتے ہیں۔“—۱-پطرس ۴:۴۔
۶. (ا) یسوع کے ممسوح بھائی اور اُنکے ساتھیوں کو اذیت کیوں پہنچائی جاتی ہے؟ (ب) کیا اس اذیت کی وجہ سے ہماری خوشی کم ہو جاتی ہے؟
۶ ہم دیکھ چکے ہیں کہ ابتدائی مسیحیوں کو اسلئے اذیت پہنچائی گئی تھی کیونکہ وہ یسوع کے نام میں گواہی دیتے تھے۔ یسوع نے اُنہیں حکم دیا تھا کہ ”تُم . . . زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہوگے۔“ (اعمال ۱:۸) یسوع کے ممسوح بھائی جو ابھی تک زمین پر باقی ہیں، اُنہوں نے جوشوخروش سے اس حکم کی تعمیل کی ہے۔ اس کام میں ”بڑی بھیڑ“ میں شامل مسیحیوں نے بھی انکا ساتھ دیا ہے۔ (مکاشفہ ۷:۹) اس پر شیطان کا کیا ردِعمل رہا ہے؟ بائبل میں لکھا ہے کہ شیطان کو ”عورت [یعنی خدا کی آسمانی تنظیم] پر غصہ آیا اور اُسکی باقی اولاد سے جو [یہوواہ] کے حکموں پر عمل کرتی ہے اور یسوؔع کی گواہی دینے پر قائم ہے لڑنے کو گیا۔“ (مکاشفہ ۱۲:۹، ۱۷) یہوواہ کے گواہوں کے طور پر ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یسوع مسیح خدا کی بادشاہت کا حکمران ہے۔ یہ آسمانی حکومت اُن تمام انسانی حکومتوں کو ختم کر دیگی جو اِسکی مخالفت کرتی ہیں۔ (دانیایل ۲:۴۴-۴۵؛ ۲-پطرس ۳:۱۳-۱۴) ہم اس حکومت کا اعلان کرتے ہیں اور اسلئے ہمیں اذیت پہنچائی جاتی ہے۔ اس پر ہم خوش ہیں کیونکہ مسیح کے نام کے سبب سے ہماری ملامت کی جاتی ہے۔—۱-پطرس ۴:۱۴۔
۷، ۸. ابتدائی مسیحیوں کے بارے میں کونسی بُری باتیں کہی جاتی تھیں؟
۷ یسوع نے اپنے پیروکاروں سے کہا تھا کہ جب لوگ میرے سبب سے ”ہر طرح کی بُری باتیں تمہاری نسبت ناحق کہینگے“ تب بھی تمہیں خوش ہونا چاہئے۔ (متی ۵:۱۱) کیا یسوع کے پیروکاروں کے بارے میں واقعی بُری باتیں کہی جاتی تھیں؟ جیہاں۔ جب ۵۹-۶۱ س.ع. میں پولس رسول کو روم میں قید کر دیا گیا تھا تو یہودی پیشواؤں نے مسیحیوں کے بارے میں کہا کہ ”اس فرقہ کی بابت ہم کو معلوم ہے کہ ہر جگہ اسکے خلاف کہتے ہیں۔“ (اعمال ۲۸:۲۲) پولس اور سیلاس پر ’جہان کو باغی کر دینے‘ کا الزام لگایا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ وہ ”قیصرؔ کے احکام کی مخالفت“ کرتے ہیں۔—اعمال ۱۷:۶، ۷۔
۸ ایک تاریخدان نے رومی سلطنت کے دور میں رہنے والے مسیحیوں کے بارے میں یوں لکھا: ”ان پر طرح طرح کے الزام لگائے جاتے۔ چونکہ مسیحی بُتوں کی پوجا نہیں کرتے تھے اسلئے کہا جاتا تھا کہ وہ خدا کے وجود میں ایمان نہیں رکھتے۔ چونکہ وہ عوام کیساتھ ملکر بُتپرستانہ تہوار نہیں مناتے تھے اور نہ ہی عوامی تفریحگاہوں پر جایا کرتے تھے . . . اِسلئے اُن پر انسانوں سے نفرت کرنے کا الزام لگایا جاتا۔ . . . اُنکے بارے میں کہا جاتا تھا کہ مرد اور عورتیں رات کو جمع ہوتے . . . اور گھناؤنی حرکتیں کرتے ہیں۔ . . . لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ [یسوع کی موت کی یادگار] پر مسیحی باقاعدگی سے ایک ننھے بچے کو ذبح کرکے اُسکا خون پیتے اور گوشت کھاتے ہیں۔“ اسکے علاوہ مسیحیوں پر غدار ہونے کا بھی الزام لگایا جاتا کیونکہ وہ رومی شہنشاہ کی پوجا کرنے سے صاف انکار کرتے تھے۔
۹. ابتدائی مسیحیوں نے غلط الزامات کے باوجود مُنادی کے کام کو کیوں جاری رکھا اور اس سلسلے میں آج کیا صورتحال پائی جاتی ہے؟
۹ ان غلط الزامات کے باوجود ابتدائی مسیحیوں نے بادشاہت کی خوشخبری کا اعلان کرنا جاری رکھا۔ لہٰذا پولس رسول ۶۰-۶۱ س.ع. میں کہہ سکتا تھا کہ ”خوشخبری . . . سارے جہاں میں بھی پھل دیتی اور ترقی کرتی جاتی ہے۔“ واقعی اس خوشخبری کی ”مُنادی آسمان کے نیچے کی تمام مخلوقات میں کی“ جا چکی تھی۔ (کلسیوں ۱:۵، ۶، ۲۳) آج بھی یہوواہ کے گواہوں پر طرح طرح کے غلط الزامات لگائے جاتے ہیں۔ اسکے باوجود وہ مُنادی کے کام کو جاری رکھتے ہیں۔ لہٰذا مُنادی کے کام میں ترقی ہو رہی ہے اور اس کام میں حصہ لینے والے حقیقی خوشی حاصل کرتے ہیں۔
نبیوں کی طرح ستائے جانے پر خوشی
۱۰، ۱۱. (ا) یسوع نے خوش ہونے کی نو وجوہات بیان کرنے کے بعد کیا کہا؟ (ب) یہوواہ خدا کے نبیوں کو اذیت کیوں پہنچائی گئی؟ اسکی چند مثالیں بیان کریں۔
۱۰ یسوع نے خوش ہونے کی نو وجوہات بیان کرنے کے بعد کہا کہ ”خوشی کرنا . . . اِسلئے کہ لوگوں نے اُن نبیوں کو بھی جو تُم سے پہلے تھے اِسی طرح ستایا تھا۔“ (متی ۵:۱۲) جب بنی اسرائیل نے خدا سے بےوفائی کی تو یہوواہ نے اُنکی اصلاح کیلئے نبی بھیجے۔ لیکن اسرائیلیوں نے ان نبیوں کی باتوں پر کان نہ لگائے اور اکثر اُنکو اذیت کا نشانہ بھی بنایا۔ (یرمیاہ ۷:۲۵، ۲۶) پولس رسول نے اس سلسلے میں یوں کہا: ”اب اَور کیا کہوں؟ اتنی فرصت کہاں کہ . . . اَور نبیوں کے احوال بیان کروں؟ . . . ایمان ہی کے سبب سے . . . بعض ٹھٹھوں میں اُڑائے جانے اور کوڑے کھانے بلکہ زنجیروں میں باندھے جانے اور قید میں پڑنے سے آزمائے گئے۔“—عبرانیوں ۱۱:۳۲-۳۸۔
۱-سلاطین ۱۸:۴، ۱۳؛ ۱۹:۱۰) یرمیاہ نبی کو کاٹھ میں ڈالا گیا اور ایک مرتبہ اُسے کیچ بھرے حوض میں بھی ڈال دیا گیا تھا۔ (یرمیاہ ۲۰:۱، ۲؛ ۳۸:۶) دانیایل نبی کے دُشمنوں نے اُسکو شیروں کی ماند میں ڈال دیا۔ (دانیایل ۶:۱۶، ۱۷) ان نبیوں کیساتھ اتنا بُرا سلوک اِسلئے کِیا گیا کیونکہ وہ یہوواہ خدا کی عبادت کرتے تھے۔ بہت سے نبیوں نے یہودی مذہبی پیشواؤں کے ہاتھوں بھی اذیت سہی۔ اسلئے یسوع نے یہودی فقیہوں اور فریسیوں سے مخاطب ہو کر کہا: ”تُم نبیوں کے قاتلوں کے فرزند ہو۔“—متی ۲۳:۳۱۔
۱۱ بادشاہ اخیاب اور ملکہ ایزبل کے دورِحکومت میں یہوواہ خدا کے خادم تلوار سے موت کے گھاٹ اُتارے گئے۔ (۱۲. یہوواہ کے گواہ خدا کے نبیوں کی طرح ستائے جانے پر فخر کیوں محسوس کرتے ہیں؟
۱۲ آج یہوواہ کے گواہوں کو اکثر اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی خدا کی بادشاہت کی خوشخبری کی مُنادی کرتے ہیں۔ ہمارے دُشمن ہم پر ”نومرید بنانے کی شدید کوشش کرنے“ کا الزام لگاتے ہیں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ پُرانے زمانے میں یہوواہ خدا کے خادموں پر بھی ایسے ہی الزامات لگائے جاتے تھے۔ (یرمیاہ ۱۱:۲۱؛ ۲۰:۸، ۱۱) ہم خدا کے نبیوں کی طرح ستائے جانے پر فخر محسوس کرتے ہیں کیونکہ اُنہوں نے خدا کی مرضی پوری کرنے کی وجہ سے اذیت سہی تھی۔ یسوع کے شاگرد یعقوب نے لکھا کہ ”اَے بھائیو! جن نبیوں نے [یہوواہ] کے نام سے کلام کیا انکو دکھ اٹھانے اور صبر کرنے کا نمونہ سمجھو۔ دیکھو صبر کرنے والوں کو ہم مبارک کہتے ہیں۔“—یعقوب ۵:۱۰، ۱۱۔
خوش ہونے کی ٹھوس وجوہات
۱۳. (ا) ہم اذیت سہتے وقت دلبرداشتہ کیوں نہیں ہوتے؟ (ب) ہم اپنے ایمان پر مضبوطی سے کیسے قائم رہ سکتے ہیں اور اِس سے ہمیں کس بات کا یقین ہو جاتا ہے؟
۱۳ اذیت سہتے وقت دلبرداشتہ ہونے کی بجائے ہم اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ ہم نبیوں، ابتدائی مسیحیوں اور یسوع مسیح کے نقشِقدم پر چل رہے ہیں۔ (۱-پطرس ۲:۲۱) خدا کے کلام میں بہت سے ایسے صحیفے ہیں جن سے ہم تسلی پا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر پطرس رسول نے خدا کے الہام سے یوں لکھا: ”اَے پیارو! جو مصیبت کی آگ تمہاری آزمایش کیلئے تُم میں بھڑکی ہے یہ سمجھ کر اُس سے تعجب نہ کرو کہ یہ ایک انوکھی بات ہم پر واقع ہوئی ہے۔ اگر مسیح کے نام کے سبب سے تمہیں ملامت کی جاتی ہے تو تُم [خوش] ہو کیونکہ جلال کا روح یعنی خدا کا روح تُم پر سایہ کرتا ہے۔“ (۱-پطرس ۴:۱۲، ۱۴) ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ اذیت سہتے وقت خدا کی رُوح ہماری مدد کرتی ہے اور ہمیں طاقت بخشتی ہے۔ اسطرح ہم اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہ سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ جب خدا کی رُوح ہماری مدد کرتی ہے تو ہمیں یقین ہو جاتا ہے کہ یہوواہ خدا ہم سے خوش ہے اور یہ حقیقت ہماری خوشی کا باعث بنتی ہے۔—زبور ۵:۱۲؛ فلپیوں ۱:۲۷-۲۹۔
۱۴. راستبازی کے سبب سے ستائے جانے پر خوش ہونے کی مزید وجوہات بیان کریں۔
۱۴ اذیت اور مخالفت کا سامنا کرتے وقت ہمارے لئے خوش ہونے کی اَور بھی وجوہات ہیں۔ مثلاً ہم جان جاتے ہیں کہ ہم واقعی سچے مسیحیوں کے طور پر زندگی گزار رہے ہیں۔ پولس رسول نے اس سلسلے میں لکھا کہ ”جتنے مسیح یسوؔع میں دینداری کیساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں وہ سب ستائے جائینگے۔“ (۲-تیمتھیس ۳:۱۲) شیطان کا کہنا ہے کہ یہوواہ خدا کے خادم صرف اسلئے اُس کے وفادار رہتے ہیں کیونکہ وہ اُن کو برکت سے نوازتا ہے۔ لیکن جب ہم اذیت سہنے کے باوجود خدا کے وفادار رہتے ہیں تو ہم شیطان کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ہم گہری خوشی محسوس کرتے ہیں۔ (ایوب ۱:۹-۱۱؛ ۲:۳، ۴) اسکے علاوہ ہمیں اس بات کا ثبوت پیش کرنے کا موقع دیا جاتا ہے کہ یہوواہ خدا ہی اس کائنات کا حاکم ہونے کا حق رکھتا ہے۔—امثال ۲۷:۱۱۔
اجر پانے پر نہایت شادمان ہوں
۱۵، ۱۶. (ا) یسوع نے ’خوشی کرنے اور نہایت شادمان ہونے‘ کی کونسی وجہ فراہم کی؟ (ب) ممسوح مسیحیوں اور ’دوسری بھیڑوں‘ کو کونسا اجر ملیگا؟
۱۵ یسوع نے ستائے جانے پر خوش ہونے کی ایک اَور وجہ فراہم کی۔ اُس نے کہا کہ ”خوشی کرنا اور نہایت شادمان ہونا کیونکہ آسمان پر تمہارا اجر بڑا ہے۔“ (متی ۵:۱۲) پولس رسول نے اس سلسلے میں لکھا کہ ”گُناہ کی مزدوری موت ہے مگر خدا کی بخشش ہمارے خداوند مسیح یسوؔع میں ہمیشہ کی زندگی ہے۔“ (رومیوں ۶:۲۳) یسوع متی ۵:۱۲ میں جس ’بڑے اجر‘ کا ذکر کر رہا تھا یہ ہمیشہ زندہ رہنے کی اُمید ہے۔ یہ اُمید اِسلئے ایک بخشش ہے کیونکہ ہم میں سے کوئی اسے اپنی کسی کوشش کی بِنا پر معاوضے کے طور پر نہیں پاتا۔ یہ اجر ہمیں ’آسمان پر سے‘ یعنی یہوواہ خدا کی طرف سے تحفے کے طور پر ملتا ہے۔
۱۶ ممسوح مسیحیوں کو ’زندگی کا تاج‘ ملیگا۔ اسکا مطلب ہے کہ وہ آسمان پر ہمیشہ تک یسوع کیساتھ زندہ رہنے کا اجر پائینگے۔ (یعقوب ۱:۱۲، ۱۷) اُن مسیحیوں کا اجر کیا ہوگا جنہیں بائبل میں ’دوسری بھیڑوں‘ کا لقب دیا گیا ہے؟ اُنہیں ایک فردوسنما زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید دی گئی ہے۔ (یوحنا ۱۰:۱۶؛ مکاشفہ ۲۱:۳-۵) تمام مسیحیوں کو یہ ”اجر“ ایک بخشش کے طور پر دیا جاتا ہے کیونکہ اُن پر یہوواہ ”کا بڑا ہی فضل ہے۔“ اسلئے پولس نے کہا: ”شکر خدا کا اُسکی اُس بخشش پر جو بیان سے باہر ہے۔“—۲-کرنتھیوں ۹:۱۴، ۱۵۔
۱۷. ہم اذیت سہتے وقت ”نہایت شادمان“ کیوں ہو سکتے ہیں؟
۱۷ پولس نے مسیحیوں کو لکھا کہ وہ ”مصیبتوں میں بھی فخر کریں یہ جان کر کہ مصیبت سے صبر پیدا ہوتا ہے۔ اور صبر سے پختگی اور پختگی سے اُمید پیدا ہوتی ہے۔ اور اُمید سے شرمندگی حاصل نہیں ہوتی۔“ اُس نے اُنہیں یہ بھی تاکید کی کہ ’اُمید میں خوش اور مصیبت میں صابر رہو۔‘ (رومیوں ۵:۳-۵؛ ۱۲:۱۲) پولس کے یہ الفاظ اُس وقت اِن مسیحیوں کیلئے حوصلہافزا ثابت ہوئے جب شہنشاہ نیرو نے اِن میں سے بعض کو اذیت کی آگ میں ڈالا تھا۔ چاہے ہم زمین پر یا آسمان پر زندہ رہنے کی اُمید رکھتے ہوں ہمیں اذیت میں قائم رہنے کا جو اجر ملتا ہے وہ ہماری توقعات سے کہیں بڑھ کر ہے۔ جیہاں، ہم اپنے بادشاہ یسوع مسیح کے تحت ہمیشہ تک اپنے خدا یہوواہ کی خدمت اور ستائش کرتے رہنے کی اُمید پر ”نہایت شادمان“ ہیں۔
۱۸. قومیں یہوواہ کے خادموں کیساتھ کیسا سلوک کرنے والی ہیں اور اِس پر یہوواہ خدا کا کیا ردِعمل ہوگا؟
۱۸ بعض ممالک میں یہوواہ کے گواہوں کو اذیت کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یسوع نے اس بُرے دَور کے خاتمے کے بارے میں پیشینگوئی کرتے ہوئے سچے مسیحیوں کو اس بات سے آگاہ کِیا تھا کہ ”میرے نام کی خاطر سب قومیں تُم سے عداوت رکھینگی۔“ (متی ۲۴:۹) شیطان تمام قوموں کو اُکسانے والا ہے تاکہ وہ یہوواہ کے خادموں پر اذیت ڈھائیں۔ (حزقیایل ۳۸:۱۰-۱۲، ۱۴-۱۶) اس پر یہوواہ خدا کا کیا ردِعمل ہوگا؟ وہ کہتا ہے کہ مَیں ”اپنی بزرگی اور اپنی تقدیس کراؤنگا اور بہت سی قوموں کی نظروں میں مشہور ہُونگا اور وہ جانینگے کہ [یہوواہ] خدا مَیں ہوں۔“ (حزقیایل ۳۸:۲۳) جیہاں، یہوواہ خدا اپنے عظیم نام کی بڑائی کریگا اور اپنے خادموں کو اذیت پہنچانے والوں کے پنجوں سے چھڑائیگا۔ اس وجہ سے ”[خوش] ہے وہ شخص جو آزمائش کی برداشت کرتا ہے۔“—یعقوب ۱:۱۲۔
۱۹. ہمیں ’یہوواہ کے دن‘ کے انتظار میں کیا کرتے رہنا چاہئے؟
۱۹ ’یہوواہ کا دن‘ قریب آتا جا رہا ہے۔ اِسلئے آئیے ہم اس بات پر خوش ہوں کہ ہم یسوع کے ”نام کی خاطر بےعزت ہونے کے لائق تو ٹھہرے۔“ (۲-پطرس ۳:۱۰-۱۳؛ اعمال ۵:۴۱) ابتدائی مسیحی ”ہر روز تعلیم دینے اور اس بات کی خوشخبری سنانے سے کہ یسوؔع ہی مسیح ہے باز نہ آئے۔“ ہمیں بھی اُنہی کے نقشِقدم پر چلتے ہوئے یہوواہ کی نئی دُنیا میں اپنا اجر پانے کے منتظر رہنا چاہئے۔—اعمال ۵:۴۲؛ یعقوب ۵:۱۱۔
اپنی یاد تازہ کریں
• راستبازی کی خاطر ستائے جانے کا کیا مطلب ہے؟
• ابتدائی مسیحیوں نے اذیت سہتے وقت کونسا ردِعمل دکھایا؟
• ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ یہوواہ کے گواہوں کو خدا کے نبیوں کی طرح ستایا جا رہا ہے؟
• ہم اذیت سہتے وقت ’خوش اور نہایت شادمان‘ کیوں ہو سکتے ہیں؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۷ پر تصویریں]
”جب میرے سبب سے لوگ تُم کو لعنطعن کرینگے اور ستائینگے . . . تو تُم [خوش] ہوگے“
[تصویر کا حوالہ]
:Group in prison
Chicago Herald-American