ایک قابل رہنما موجود ہے!
ایک قابل رہنما موجود ہے!
سن ۱۹۴۰ میں برطانوی حکومت میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ پارلیمنٹ میں ڈیوڈ لائیڈ جارج کچھ عرصے سے ایک نئے پیشوا کی ضرورت پر بحثوتکرار سُن رہے تھے۔ وہ اُس وقت ۷۷ سال کے تھے۔ پہلی عالمی جنگ میں برطانیہ کی فتح کے پیچھے ڈیوڈ لائیڈ جارج ہی کا ہاتھ تھا۔ سیاست کے میدان میں وہ سالوں کا تجربہ رکھتے تھے اِسلئے وہ دوسرے اہلکاروں کے کام کا اندازہ لگا سکتے تھے۔ مئی کی ۸ تاریخ کو پارلیمنٹ میں اپنی تقریر میں اُنہوں نے کہا: ”یہ قوم ہر قربانی دینے کیلئے تیار ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہمارا پیشوا قابل ہو، قوم کو پتہ ہو کہ حکومت کس چیز کو کس انجام تک پہنچانا چاہتی ہے اور یہ بھی کہ قوم اِس بات پر بھروسا کر سکے کہ حکومت اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہی ہے۔“
ڈیوڈ لائیڈ جارج کے اِن الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ ایک قابل پیشوا چاہتے ہیں جو اُنکے حالات کو بہتر بنانے کی پوری کوشش کرے۔ سیاسی مہم میں حصہ لینے والی ایک عورت نے کہا: ”جب ایک شخص کسی کیلئے اپنا ووٹ ڈالتا ہے تو وہ اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی اُسکے حوالے کر دیتا ہے۔“ ایسے اعتماد پر پورا اُترنا ایک بھاری ذمہداری ہوتی ہے۔ کیوں؟
آجکل دنیا میں ہمیں ایسے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جنکا کوئی حل نہیں دکھائی دیتا۔ مثلاً ایک ایسا پیشوا کہاں تلاش کِیا جائے جسکے پاس جنگ اور جُرم کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کی قوت ہو؟ آج کس پیشوا کے پاس اتنے وسائل اور اتنی ہمدردی ہے کہ وہ اپنی رعایا کیلئے پینے کا پانی اور صحت کا بہترین انتظام کر سکے؟ کس کے پاس اتنا علم اور اس پر عمل کرنے کی قوت ہے کہ وہ ماحول کو آلودگی سے بچا سکے؟ کیا ایسا کوئی شخص ہے جو اتنا قابل ہے اور جسکے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ لوگوں کو ایک خوشحال اور لمبی زندگی دلا سکے؟
انسان ناکام رہا ہے
یہ سچ ہے کہ بعض پیشواؤں کی حکمرانی ایک حد تک کامیاب رہی ہے۔ لیکن پھر بھی وہ صرف تھوڑے ہی عرصے کیلئے حکمرانی کرتے ہیں اور پھر اُنکی جگہ کوئی اَور لے لیتا ہے۔ ایک بہت ہی قابل پیشوا، بادشاہ سلیمان نے اِس سلسلے میں کہا تھا کہ ”مَیں اپنی ساری محنت سے جو دُنیا میں کی تھی بیزار ہؤا کیونکہ ضرور ہے کہ مَیں اُسے اُس آدمی کیلئے جو میرے بعد آئیگا چھوڑ جاؤں۔ اور کون جانتا ہے کہ وہ دانشور واعظ ۲:۱۸، ۱۹۔
ہوگا یا احمق؟ بہرحال وہ میری ساری محنت کے کام پر جو مَیں نے کِیا اور جس میں مَیں نے دُنیا میں اپنی حکمت ظاہر کی ضابط ہوگا۔ یہ بھی بطلان ہے۔“—سلیمان یہ نہیں جانتا تھا کہ آیا اُسکے بعد آنے والا پیشوا اُسکے اچھے کاموں کو جاری رکھیگا یا پھر بُرے راستے کو اپنائیگا۔ سلیمان کی نظروں میں ایک پیشوا کی جگہ دوسرے کو مقرر کرنے کا چکر ”بطلان“ یعنی فضول اور بیکار تھا۔
کبھیکبھار قابل پیشواؤں کو ہٹانے کے لئے اُنہیں قتل کر دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایبراہیم لنکن ریاستہائےمتحدہ کے باعزت صدر تھے۔ اُنہوں نے کہا: ”کچھ عرصہ کیلئے مجھے ایک بہت اہم کام کرنے کیلئے چنا گیا ہے۔ آپ نے مجھے اِس قابل سمجھا کہ مَیں اپنے اختیار کو آپکے فائدے کیلئے استعمال کر سکوں۔“ ایبراہیم لنکن نے اپنے لوگوں کیلئے بہت کچھ کِیا اور وہ اَور بھی بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ اِسکے باوجود وہ صرف ۴ سال کیلئے اِس عہدے پر قائم رہے۔ جب وہ اپنے عہدہ کے دوسرے مرحلے میں تھے تو ایک ایسے شخص نے اُنہیں قتل کر دیا جو ایک نئے پیشوا کا آرزومند تھا۔
سب سے اچھا اور قابل پیشوا یہ نہیں جانتا کہ اسکا مستقبل کیا لائیگا۔ تو پھر کیا آپکو پیشواؤں پر اتنا بھروسا کرنا چاہئے کہ آپ اپنا مستقبل انکو سونپ دیں؟ خدا کا کلام کہتا ہے: ”نہ اُمرا پر بھروسا کرو نہ آدمزاد پر۔ وہ بچا نہیں سکتا۔ اُسکا دَم نکل جاتا ہے تو وہ مٹی میں مل جاتا ہے۔ اُسی دن اُسکے منصوبے فنا ہو جاتے ہیں۔“—زبور ۱۴۶:۳، ۴۔
بعض لوگ پیشواؤں پر بھروسا نہ کرنے کی اِس نصیحت سے متفق نہیں ہیں۔ تاہم خدا اپنے کلام میں یہ بھی کہتا ہے کہ انسانوں کو بہترین راہنمائی ضرور ملیگی۔ یسعیاہ ۳۲:۱ میں یوں لکھا ہے: ”دیکھ ایک بادشاہ صداقت سے سلطنت کریگا اور شاہزادے عدالت سے حکمرانی کرینگے۔“ ہمارے خالق یہوواہ خدا نے ”ایک بادشاہ“ مقرر کِیا ہے جو جلد ہی پوری زمین کی راہنمائی کریگا۔ وہ کون ہے؟ خدا کے کلام میں پائی جانے والی پیشینگوئیاں اسکی شناخت کرتی ہیں۔
ایک قابل رہنما
دو ہزار سال پہلے ایک فرشتے نے مریم نامی ایک یہودی عورت سے کہا تھا کہ ”دیکھ تُو حاملہ ہوگی اور تیرے بیٹا ہوگا۔ اُسکا نام یسوؔع رکھنا۔ وہ بزرگ ہوگا اور خداتعالےٰ کا بیٹا کہلائیگا اور [یہوواہ] خدا اسکے باپ داؔؤد کا تخت اسے دیگا۔ اور وہ یعقوؔب کے گھرانے پر ابدتک بادشاہی کریگا اور اسکی بادشاہی کا آخر نہ ہوگا۔“ (لوقا ۱:۳۱-۳۳) جیہاں، یسوع مسیح ہی یہوواہ خدا کا مقررشُدہ بادشاہ ہے۔
مذہبی تصویروں میں یسوع کو ایک بچے یا ایک کمزور انسان کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ انکو دیکھ کر اکثر ایسے لگتا ہے کہ یسوع کو دُنیاوی معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور اُسکے ساتھ جو بھی سلوک کِیا جاتا وہ اسے قبول کر لیتا تھا۔ شاید ہم ایسی تصویریں دیکھ کر یسوع کی قابلیت پر شک کریں۔ لیکن خدا کا کلام ہمیں بتاتا ہے کہ اصل میں یسوع طاقتور، پُرجوش اور دلیر تھا۔ وہ ایسی اَور بھی خوبیوں کا مالک ہے جو اُسے ایک قابل رہنما بناتی ہیں۔ (لوقا ۲:۵۲) آئیں ہم ایسی چند خوبیوں پر غور کرتے ہیں۔
یسوع اپنی راستی پر قائم رہا۔ وہ ایک سچا اور دیانتدار انسان تھا۔ یسوع کے دُشمنوں کے پاس بھی اُسکے خلاف کسی الزام کا ثبوت نہیں تھا۔ (یوحنا ۸:۴۶) یسوع خوشامدی نہیں تھا اسلئے بہتیرے لوگ یسوع کی تعلیم سے اتنے متاثر ہوئے کہ وہ اُسکے شاگرد بن گئے۔—یوحنا ۷:۴۶؛ ۸:۲۸-۳۰؛ ۱۲:۱۹۔
یسوع نے اپنی پوری زندگی یہوواہ خدا کیلئے وقف کر دی۔ یسوع ہر حال میں وہ کام پورا کرنا چاہتا تھا جو خدا نے اُسے کرنے کو دیا تھا۔ اِسلئے یسوع نے کبھی کسی کو اپنی راہ میں رُکاوٹ پیدا نہیں کرنے دی۔ یسوع دُشمنوں کے تشدد سے بھی نہیں ڈرتا تھا۔ (لوقا ۴:۲۸-۳۰) بھوک اور تھکن کی وجہ سے یسوع کی ہمت کبھی نہیں ٹوٹی۔ (یوحنا ۴:۵-۱۶، ۳۱-۳۴) جب اُس کے ساتھی اُسے چھوڑ کر چلے گئے تو تب بھی یسوع اپنی منزل کی طرف بڑھتا رہا۔—متی ۲۶:۵۵، ۵۶؛ یوحنا ۱۸:۳-۹۔
یسوع کو دوسروں کی پرواہ تھی۔ اُس نے بھوکے لوگوں کیلئے کھانے کا انتظام کِیا اور دلبرداشتہ لوگوں کو حوصلہ دیا۔ (یوحنا ۶:۱۰، ۱۱؛ لوقا ۷:۱۱-۱۵) یسوع نے اندھوں، گُونگوں اور بیماروں کو شفا دی۔ (متی ۱۲:۲۲؛ لوقا ۸:۴۳-۴۸؛ یوحنا ۹:۱-۶) اپنے شاگردوں کی یسوع نے ہمیشہ حوصلہافزائی کی۔ (یوحنا ۱۳:۱–۱۷:۲۶) یسوع ایک ’اچھے چرواہے‘ کی مانند تھا جو اپنی بھیڑوں سے بہت پیار کرتا ہے۔—یوحنا ۱۰:۱۱-۱۴۔
یسوع معمولی کام کرنے کو بھی تیار تھا۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو ایک اہم سبق سکھانے کیلئے اُنکے پاؤں دھوئے۔ (یوحنا ۱۳:۴-۱۵) وہ تبلیغی کام میں حصہ لینے کیلئے پیدل سفر کرتا تھا۔ (مرقس ۶:۳۱-۳۴؛ لوقا ۸:۱) جب یسوع ایک ”ویران جگہ“ پر آرام کرنے کیلئے گیا اور لوگ اُسکے پیچھے پیچھے آئے تو وہ اُنہیں سکھانے لگا۔ (مرقس ۶:۳۰-۳۴) یسوع نے مسیحیوں کیلئے ایک بہترین نمونہ چھوڑا ہے۔—۱-یوحنا ۲:۶۔
یسوع زمین پر اپنے کام کو مکمل کرکے آسمان پر جیاُٹھایا گیا۔ یہوواہ خدا نے انعام کے طور پر یسوع کو ہمیشہ کی زندگی عنایت کی اور اپنی بادشاہت کا بادشاہ بنا لیا۔ خدا کا کلام بتاتا ہے کہ ”مسیح مُردوں میں سے زندہ کِیا جا کر پھر مرنے کا نہیں۔ اور نہ پھر موت کے زیرِاختیار ہی ہونے کا ہے۔“ (رومیوں ۶:۹، کیتھولک ورشن) آپ یقین کر سکتے ہیں کہ یسوع ہی انسانوں کا سب سے بہترین رہنما ہے۔ جب یسوع مسیح پوری دُنیا کے رہنما کے طور پر کام شروع کر دیگا تو پھر یہ عہدہ کسی اَور کو نہیں دیا جائیگا۔ لہٰذا جو کچھ اُسکی حکومت کریگی وہ کسی اَور کے ہاتھوں تباہ نہیں کِیا جائیگا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانوں کے فائدے کیلئے یسوع کیا کچھ کریگا؟
نیا رہنما ہمارے لئے کیا کریگا؟
ہم اس قابل رہنما کی حکمرانی کی بابت زبور ۷۲ میں پڑھ سکتے ہیں۔ آیت ۷ اور ۸ میں ہمیں بتایا جاتا ہے: ”اُسکے ایّام میں صادق برومند ہونگے اور جبتک چاند قائم ہے خوب امن رہیگا۔ اُسکی سلطنت سمندر سے سمندر تک اور دریایِفرؔات سے زمین کی انتہا تک ہوگی۔“ تب سلامتی کا دور ہوگا۔ یسوع دُنیا کے تمام ہتھیاروں کو ختم کر دیگا اور لوگوں کے دلوں سے جنگ کی خواہش تک نکال دیگا۔ ایسے لوگ جو شیر کی طرح دوسروں پر حملہ کرتے ہیں یا پھر جو ریچھنی کی طرح غصہ دکھاتے ہیں اُنکا مزاج بالکل بدل جائیگا۔ (یسعیاہ ۱۱:۱-۹) ہر طرف امن کا راج ہوگا۔
زبور ۷۲:۱۲-۱۴ میں لکھا ہے: ”وہ محتاج کو جب وہ فریاد کرے اور غریب کو جسکا کوئی مددگار نہیں چھڑائیگا۔ وہ غریب اور محتاج پر ترس کھائیگا۔ اور محتاجوں کی جان کو بچائیگا۔ وہ فدیہ دیکر اُنکی جان کو ظلم اور جبر سے چھڑائیگا اور اُنکا خون اُسکی نظر میں بیشقیمت ہوگا۔“ اُس وقت غریب اور محتاج لوگ ایک خوشحال بھائیچارے کا حصہ ہونگے۔ یسوع مسیح کی رہنمائی کے نتیجے میں ایسے لوگوں کی زندگی تکلیف اور دُکھ سے نہیں بلکہ ہزاروں خوشیوں سے بھر جائیگی۔—یسعیاہ ۳۵:۱۰۔
آیت ۱۶ میں لکھا ہے: ”زمین میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر اناج کی افراط ہوگی۔“ آجکل ہر دن لاکھوں لوگ خالی پیٹ سوتے ہیں۔ سیاست اور لالچ کی وجہ سے کھانا ناجائز طریقوں سے تقسیم کِیا جاتا ہے۔ اسلئے بہتیرے لوگ، خاص طور پر بچے بھوکے مر جاتے ہیں۔ لیکن یسوع کی حکمرانی کے تحت ایسا نہیں ہوگا۔ تب سب اِس زمین کی پیداوار سے جی بھر کر کھائینگے۔
کیا آپ بھی اِن برکات سے لطف اُٹھنا چاہتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو اُس رہنما کے بارے میں سیکھیں جو پوری دُنیا پر حکومت کرنے والا ہے۔ ایسا کرنے میں یہوواہ کے گواہ خوشی سے آپکی مدد کرینگے۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ مایوس نہیں ہونگے کیونکہ یہوواہ خدا خود یسوع کے بارے میں کہتا ہے: ”مَیں تو اپنے بادشاہ کو اپنے کوہِمُقدس صیوؔن پر بٹھا چکا ہوں۔ مبارک ہیں وہ سب جنکا توکل اُس پر ہے۔“—زبور ۲:۶۔
[صفحہ ۵ پر بکس]
وہ اچانک اختیار سے ہاتھ دھو بیٹھے
ایک پیشوا اپنی رعایا کی حمایت اور عزت تب پاتا ہے جب وہ اُن کے لئے ایک حد تک امن اور خوشحالی لاتا ہے۔ لیکن جب رعایا ایک پیشوا پر بھروسا کرنا چھوڑ دیتی ہے تو اکثر اُس کی جگہ کوئی اَور آ جاتا ہے۔ بڑے سے بڑے پیشواؤں کے زوال کی کچھ وجوہات پر غور کریں۔
کٹھن حالات۔ اٹھارہویں صدی کے آخر میں فرانس کے بہتیرے باشندوں کو بھاری ٹیکس ادا کرنے کے ساتھ ساتھ کھانے کی شدید کمی بھی سہنی پڑی۔ ایسے حالات کی وجہ سے فرانس میں انقلاب ہوا جس کے نتیجے میں بادشاہ لوئی کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔
جنگ۔ پہلی عالمی جنگ کی وجہ سے کئی نامور شہنشاہوں کو اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ مثلاً ۱۹۱۷ میں روس میں جنگ کی وجہ سے قحط پھیل گئی جس کے نتیجے میں انقلاب شروع ہو گیا۔ اِس دوران روس کے شہنشاہ کو اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور کمیونسٹوں نے حکومت سنبھال لی۔ نومبر ۱۹۱۸ میں جرمنی جنگ ختم کرنا چاہتا تھا لیکن فرانس، برطانیہ، امریکا اور روس اُس وقت تک جنگ ختم کرنے کو تیار نہیں تھے جب تک جرمنی میں ایک نیا پیشوا مقرر نہ ہو۔ اِس لئے جرمنی کے بادشاہ ویلہیلم کو نیدرلینڈز میں اسیر کر دیا گیا۔
تبدیلی کی خواہش۔ ۱۹۸۹ میں چٹان جیسی مضبوط سویت حکومت ریزہ ریزہ ہو گئی۔ جو علاقے سویت حکومت کے قابو میں تھے اُنہوں نے کمیونزم کو ترک کرکے جمہوری حکومت قائم کر لی۔
[صفحہ ۷ پر تصویر]
یسوع نے بھوکوں کو کھانا کھلایا، بیماروں کو شفا دی اور ہر مسیحی کیلئے ایک اچھا نمونہ قائم کِیا
[صفحہ ۴ پر تصویر کا حوالہ]
:Lloyd George
/Photo by Kurt Hutton
Picture Post/Getty Images