مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

مسیحی کلیسیا کو ایک کھاؤ کو کیسے خیال کرنا چاہئے؟‏

خدا کا کلام شرابی اور کھاؤ میں فرق نہیں کرتا۔‏ خدا نہ تو کسی کھاؤ کو اور نہ ہی کسی شرابی کو اپنے خادم کے طور پر قبول کرتا ہے۔‏ لہٰذا کوئی ایسا شخص مسیحی کلیسیا کا رُکن نہیں بن سکتا۔‏

امثال ۲۳:‏۲۰،‏ ۲۱ میں لکھا ہے کہ ”‏تُو شرابیوں میں شامل نہ ہو اور نہ حریص کبابیوں میں کیونکہ شرابی اور کھاؤ کنگال ہو جائینگے اور نیند اُنکو چتھڑے پہنائیگی۔‏“‏ استثنا ۲۱:‏۲۰ میں ہم ایک ”‏ضدی اور گردن‌کش“‏ شخص کے بارے میں پڑھتے ہیں۔‏ موسوی شریعت کے تحت ایک ایسے شخص کو سزائےموت سنائی جاتی تھی۔‏ اس آیت کے مطابق اس شخص پر ”‏اُڑاؤ اور شرابی“‏ ہونے کا الزام بھی لگایا گیا تھا۔‏ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بنی‌اسرائیل میں حد سے زیادہ کھانا کھانے کی عادت کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔‏

لیکن ایک کھاؤ کی شناخت کیسے کی جاتی ہے اور مسیحی یونانی صحائف میں اس عادت کے بارے میں کیا کہا گیا ہے؟‏ ایک کھاؤ ”‏حد سے زیادہ کھانے اور پینے کا عادی ہوتا ہے۔‏“‏ ایسا شخص کھانے کا لالچ کرتا ہے اور خدا کے کلام کے مطابق ”‏لالچی“‏ لوگ خدا کی بادشاہی کے وارث نہ ہونگے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۹،‏ ۱۰؛‏ فلپیوں ۳:‏۱۸،‏ ۱۹؛‏ ۱-‏پطرس ۴:‏۳‏)‏ اسکے علاوہ پولس رسول نے مسیحیوں کو ”‏جسم کے کام“‏ کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے ”‏نشہ‌بازی،‏ ناچ‌رنگ اور اَور انکی مانند“‏ کاموں کا بھی ذکر کِیا۔‏ (‏گلتیوں ۵:‏۱۹-‏۲۱‏)‏ اکثر نشہ‌بازی اور ناچ‌رنگ کی محفلوں میں لوگ حد سے زیادہ کھاتے بھی ہیں۔‏ پولس نے اس آیت میں جب ”‏انکی مانند“‏ کاموں کا ذکر کِیا تھا تو اس میں یہ عادت بھی شامل تھی۔‏ جب ایک مسیحی ”‏جسم کے کام“‏ کرتا ہے تو اُسے کلیسیا سے نکال دیا جاتا ہے۔‏ اسی طرح جب ایک کھاؤ اپنی بُری عادت کو چھوڑنے سے انکار کرتا ہے تو اُسے بھی کلیسیا سے نکال دینا چاہئے۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۵:‏۱۱،‏ ۱۳‏۔‏ *

شرابی کا کھوج لگانا نسبتاً آسان ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنی حرکتوں سے ہی خود کو ظاہر کر دیتا ہے۔‏ اسکے برعکس یہ جان لینا کہ آیا ایک شخص واقعی کھاؤ ہے یا نہیں آسان نہیں ہوتا۔‏ اسلئے مسیحی کلیسیا کے بزرگوں کو ایک ایسے شخص کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت سوچ‌سمجھ کر اور احتیاط سے کام لینا چاہئے۔‏

مثال کے طور پر اگر ایک شخص بہت موٹا ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ کھاؤ ہونے کی وجہ سے ایسا ہے۔‏ لیکن یہ لازمی نہیں۔‏ کئی اشخاص کسی بیماری کی وجہ سے موٹے ہو جاتے ہیں یا پھر وہ خاندانی طور پر زیادہ جسامت رکھتے ہیں۔‏ موٹاپا ایک شخص کی جسمانی کیفیت کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن جب ایک شخص کھاؤ ہوتا ہے تو یہ اُسکی روحانی حالت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‏ جب کسی شخص کے جسم پر زیادہ چربی چڑھی ہو تو اسے ’‏موٹا‘‏ کہا جاتا ہے۔‏ اسکے برعکس ’‏کھاؤ‘‏ اُس شخص کو کہا جاتا ہے جو کھانے پر جان دینے والا یا نہایت لالچی ہو۔‏ ان دو چیزوں میں کافی فرق ہے۔‏ ایک دُبلاپتلا شخص بھی کھاؤ ہو سکتا ہے۔‏ لہٰذا ایک کھاؤ کی شناخت اُسکی جسامت سے نہیں ہوتی بلکہ کھانےپینے کے معاملے میں لالچ سے کام لینے کی بِنا پر ہوتی ہے۔‏ آخرکار ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ موٹاپے کے بارے میں ہر قوم اور علاقے میں مختلف نظریے پائے جاتے ہیں۔‏

ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ ایک شخص واقعی کھاؤ ہے؟‏ ایک ایسا شخص حسبِ‌معمول کھانے پینے کے معاملے میں ضبط نہیں کرتا۔‏ یہاں تک کہ وہ اتنا کھا لیتا ہے کہ اُسے تکلیف ہونے یا پھر قے آنے لگتی ہے۔‏ اس سے وہ ظاہر کرتا ہے کہ اُسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ اپنی حرکتوں سے یہوواہ خدا اور اُسکے خادموں کی بدنامی کر رہا ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۳۱‏)‏ لیکن اگر ایک مسیحی کبھی‌کبھار حد سے زیادہ کھا لیتا ہے تو اسے فوراً ”‏لالچی“‏ نہیں قرار دینا چاہئے۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۵‏)‏ پھر بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ایسے مسیحی کو مدد درکار ہو۔‏ اسلئے بزرگوں کو پولس کی اس نصیحت پر عمل کرنا چاہئے:‏ ”‏اَے بھائیو!‏ اگر کوئی آدمی کسی قصور میں پکڑا بھی جائے تو تُم جو روحانی ہو اسکو حلم‌مزاجی سے بحال کرو۔‏“‏—‏گلتیوں ۶:‏۱

کھانے کے معاملے میں ضبط کرنے کی نصیحت پر عمل کرنا خاص طور پر ہمارے زمانے میں اتنا اہم کیوں ہے؟‏ کیونکہ یسوع نے ہمارے ہی زمانے کے بارے میں یہ آگاہی دی تھی:‏ ”‏خبردار رہو۔‏ ایسا نہ ہو کہ تمہارے دل خمار [‏”‏حد سے زیادہ کھانے،‏“‏ این‌ڈبلیو]‏ اور نشہ‌بازی اور اس زندگی کی فکروں سے سُست ہو جائیں اور وہ دن تُم پر پھندے کی طرح ناگہاں آ پڑے۔‏“‏ (‏لوقا ۲۱:‏۳۴،‏ ۳۵‏)‏ ایسی عادتیں ہماری روحانیت کو تباہ کر سکتی ہیں۔‏ لہٰذا ان سے کنارہ کرنا بہت ہی اہم ہے۔‏

پرہیزگاری ایک ایسی خوبی ہے جسے مسیحیوں کو خود میں پیدا کرنا چاہئے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۳:‏۲،‏ ۱۱‏)‏ اسلئے یہوواہ خدا اُس شخص کی مدد ضرور کریگا جو کھانےپینے کے معاملے میں پرہیزگاری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‏—‏عبرانیوں ۴:‏۱۶‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 5 اس سلسلے میں مئی ۱،‏ ۱۹۸۶ کے دی واچ‌ٹاور کے شمارے میں ”‏سوالات از قارئین“‏ کے مضمون کو دیکھیں۔‏