مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

دلیری سے خدا کا کلام سنائیں

دلیری سے خدا کا کلام سنائیں

دلیری سے خدا کا کلام سنائیں

‏”‏جا میری قوم اسرائیل سے نبوّت کر۔‏“‏ —‏عاموس ۷:‏۱۵‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ عاموس کون تھا اور بائبل میں اُسکے بارے میں کیا کچھ بتایا گیا ہے؟‏

یہوواہ خدا کا ایک خادم مُنادی کے کام میں مشغول ہے۔‏ اچانک ایک مذہبی رہنما اُسکے قریب آ کر چلاتا ہے:‏ ’‏چپ رہ۔‏ یہاں سے دفع ہو جا۔‏‘‏ خدا کا خادم اب کیا کرتا ہے؟‏ کیا وہ خوفزدہ ہو کر مُنادی کرنا بند کر دیتا ہے؟‏ اس سوال کا جواب آپکو بائبل میں عاموس کی کتاب میں ملیگا کیونکہ یہ واقعہ اُسی کیساتھ پیش آیا تھا۔‏

۲ لیکن عاموس کون تھا؟‏ وہ کس زمانے میں رہتا تھا اور کس علاقے کا رہنے والا تھا؟‏ ان تمام سوالات کے جواب ہم عاموس ۱:‏۱ میں پاتے ہیں،‏ جہاں لکھا ہے:‏ ”‏تقوؔع کے چرواہوں میں سے عاؔموس کا کلام جو اس پر شاہِ‌یہوؔداہ عزؔیاہ اور شاہِ‌اؔسرائیل یرؔبعام بن یوآؔس کے ایّام میں .‏ .‏ .‏ نازل ہؤا۔‏“‏ عاموس یہوداہ کی سلطنت کا رہنے والا تھا۔‏ وہ تقوع نامی شہر کا باشندہ تھا جو یروشلیم کے تقریباً ۱۶ کلومیٹر [‏۱۰ میل]‏ جنوب میں واقع تھا۔‏ وہ اُس دَور میں رہتا تھا جب یہوداہ پر بادشاہ عزیاہ حکمرانی کرتا تھا اور اسرائیل کے دَس قبیلوں پر بادشاہ یربعام دوم کا راج تھا۔‏ یہ ہمارے زمانے سے تقریباً ۸۰۰،‏۲ سال پہلے کی بات ہے۔‏ عاموس ایک ’‏چرواہے‘‏ اور ’‏گولر کا پھل بٹورنے والے‘‏ کے طور پر اپنا گزارہ کرتا تھا۔‏ (‏عاموس ۷:‏۱۴‏)‏ یہ کافی تھکا دینے والا کام ہوتا تھا کیونکہ جو شخص گولر کے پھل کو بٹورتا تھا اُسکو گولر کی ہر انجیر کو ایک چاقو سے چھیدنا پڑتا تھا تاکہ وہ جلدی سے پک جائے۔‏

‏’‏جا نبوّت کر‘‏

۳.‏ عاموس کی مثال سے ہم کونسا اہم سبق حاصل کر سکتے ہیں؟‏

۳ عاموس کہتا ہے کہ ”‏مَیں نہ نبی ہوں نہ نبی کا بیٹا۔‏“‏ (‏عاموس ۷:‏۱۴‏)‏ وہ نہ تو کسی نبی کے گھر پیدا ہوا تھا اور نہ ہی اُسے نبی کے طور پر تربیت دی گئی تھی۔‏ اسکے باوجود یہوواہ خدا نے یہوداہ کے تمام باشندوں میں سے عاموس ہی کو اپنے خادم کے طور پر چُنا۔‏ خدا کسی طاقتور بادشاہ،‏ ذہین کاہن یا امیر رئیس سے بھی نبوّت کروا سکتا تھا لیکن اُس نے ایسا نہیں کِیا۔‏ اس میں ہمارے لئے ایک اہم سبق ہے۔‏ ہو سکتا ہے کہ ہم بھی زیادہ پڑھےلکھے نہ ہوں اور معاشرے میں ہماری کوئی حیثیت نہ ہو۔‏ کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ ہم خدا کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لائق نہیں؟‏ بالکل نہیں۔‏ خدا ہمیں اس کام کے لائق ٹھہراتا ہے اور وہ مشکل حالات میں ہمیں ایسا کرنے میں مدد بھی دیتا ہے۔‏ عاموس اس بات کا جیتاجاگتا ثبوت تھا۔‏ اگر ہم بھی عاموس کی طرح دلیری سے خدا کا کلام سنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اسکی مثال پر غور کرنا چاہئے۔‏

۴.‏ عاموس کیلئے اسرائیل کی سلطنت میں نبوّت کرنا آسان کیوں نہیں تھا؟‏

۴ یہوواہ نے عاموس کو حکم دیا:‏ ”‏جا میری قوم اؔسرائیل سے نبوّت کر۔‏“‏ (‏عاموس ۷:‏۱۵‏)‏ یہ آسان کام نہیں تھا۔‏ اسرائیل کی سلطنت میں امن،‏ سلامتی اور مالی خوشحالی کا دَور چل رہا تھا۔‏ بہتیرے لوگ دو دو گھروں کے مالک تھے،‏ ایک ”‏زمستانی“‏ گھر یعنی سردی کے موسم کے استعمال کیلئے اور دوسرا خاص موسمِ‌گرما کیلئے یعنی ”‏تابستانی گھر۔‏“‏ یہ گھر عام گھروں کی طرح اینٹوں سے نہیں بلکہ ”‏تراشے ہوئے پتھروں“‏ سے بنائے جاتے۔‏ اکثر لوگوں کے مکان انتہائی قیمتی چیزوں سے سجے ہوئے تھے جن پر ہاتھی‌دانت کا کام ہوتا۔‏ اسکے علاوہ کئی لوگ ”‏نفیس تاکستانوں“‏ کے انگوروں کی مے پیتے۔‏ (‏عاموس ۳:‏۱۵؛‏ ۵:‏۱۱‏)‏ اس مالی بہتات کا انجام یہ تھا کہ لوگوں کو کسی چیز کی پرواہ نہیں رہی تھی۔‏ وہ بےفکر اور مطمئن تھے۔‏ آج بھی کئی علاقوں کے لوگ جنہیں ہم خدا کا پیغام سناتے ہیں ایسی ہی سوچ رکھتے ہیں۔‏

۵.‏ بعض اسرائیلی کیسی ناانصافیاں کر رہے تھے؟‏

۵ مالدار ہونا بذاتخود بُری بات نہیں ہے۔‏ لیکن بعض اسرائیلیوں نے لوٹ‌کھسوٹ اور ناانصافی کرکے اپنی دولت کمائی۔‏ دولتمند لوگ ’‏غریبوں کو ستاتے اور مسکینوں کو کچلتے‘‏ تھے۔‏ (‏عاموس ۴:‏۱‏)‏ سلطنت کے بااختیار تاجر اور رُعبدار قاضی اور کاہن ایک دوسرے کا ساتھ دے کر غریبوں کو لوٹتے تھے۔‏ چلئے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ ایسا کیسے کِیا کرتے تھے۔‏

اُنہوں نے خدا کی شریعت کو ردّ کِیا

۶.‏ اسرائیلی تاجر کی بددیانتی کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟‏

۶ سب سے پہلے ہم بازار کا رُخ کرتے ہیں۔‏ وہاں ہماری نظر ان بددیانت تاجروں پر پڑتی ہے جو ”‏ایفہ کو چھوٹا اور مِثقال کو بڑا بناتے“‏ ہیں۔‏ وہ اعلیٰ درجے کا گیہوں بیچنے کی بجائے لوگوں کو ”‏گیہوں کی پھٹکن“‏ یعنی اُسکا کچرا بیچ رہے ہیں۔‏ (‏عاموس ۸:‏۵،‏ ۶‏)‏ ایسے تاجر اپنے مال میں کمی‌بیشی کرکے اسے مہنگےدام بیچتے تھے اور مال بھی دوسرے درجے کا ہوتا۔‏ اس لوٹ‌کھسوٹ کی وجہ سے غریب لوگوں کے پاس اور کوئی چارہ ہی نہ رہتا اور وہ خود کو غلام کے طور پر بیچنے پر مجبور ہو جاتے۔‏ امیر تاجر اُنکی اس مجبوری کا فائدہ اُٹھا کر ”‏ایک جوڑی جوتیوں“‏ کی قیمت کے برابر اُنہیں خرید لیتے تھے۔‏ (‏عاموس ۸:‏۶‏)‏ جی‌ہاں،‏ اسرائیل کے لالچی تاجر اپنے بھائیوں کو جوتیوں کی ایک جوڑی سے زیادہ قیمتی خیال نہ کرتے تھے۔‏ یہ تاجر غریب لوگوں کی بےعزتی کرکے دراصل خدا کی شریعت کو ردّ کرتے تھے۔‏ لیکن یہی تاجر ”‏سبت کا دن“‏ بھی منایا کرتے تھے۔‏ (‏عاموس ۸:‏۵‏)‏ وہ مذہبی ہونے کا دعویٰ تو کرتے تھے لیکن یہ محض دکھاوے کیلئے تھا۔‏

۷.‏ اسرائیلی تاجر خدا کی شریعت کی خلاف‌ورزی کیوں کر سکتے تھے؟‏

۷ خدا کی شریعت میں صاف صاف لکھا ہے کہ ”‏اپنے ہمسایہ سے اپنی مانند محبت کرنا۔‏“‏ (‏احبار ۱۹:‏۱۸‏)‏ اسرائیلی تاجر اس حکم کی خلاف‌ورزی کیوں کر سکتے تھے؟‏ اسکی وجہ یہ تھی کہ اسرائیل کے قاضی بھی اُنکے ساتھ اس سازش میں ملے ہوئے تھے۔‏ جب شہر کے پھاٹک پر مقدمے سنے جاتے تو قاضی ’‏رشوت لے کر مسکینوں کی حق‌تلفی کرتے۔‏‘‏ وہ بےبس لوگوں کی مدد کرنے کی بجائے رشوت لے کر اُنکے خلاف فیصلہ سناتے۔‏ (‏عاموس ۵:‏۱۰،‏ ۱۲‏)‏ لہٰذا اسرائیل کے قاضی بھی خدا کے قانون کو توڑ رہے تھے۔‏

۸.‏ کاہن کس کڑی بداخلاقی کو نظرانداز کر رہے تھے؟‏

۸ اس تماشے میں اسرائیل کے کاہن کونسا کردار ادا کر رہے تھے؟‏ آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ کاہن ”‏اپنے خدا کے گھر میں“‏ کن گھناؤنی حرکتوں کی اجازت دے رہے تھے۔‏ خدا عاموس کے ذریعے کہتا ہے کہ ”‏باپ بیٹا ایک ہی عورت کے پاس جانے سے میرے مُقدس نام کی تکفیر کرتے ہیں۔‏“‏ (‏عاموس ۲:‏۷،‏ ۸‏)‏ جی‌ہاں،‏ ایک اسرائیلی باپ اور اُسکا بیٹا ایک ہی فاحشہ کے پاس جا کر اُسکے ساتھ صحبت کِیا کرتے۔‏ یہ کڑی بداخلاقی کاہنوں کی آنکھوں سامنے ہوتی لیکن وہ لوگوں کو ٹوکنے کی بجائی اسکو نظرانداز کرتے۔‏—‏احبار ۱۹:‏۲۹؛‏ استثنا ۵:‏۱۸؛‏۲۳:‏۱۷‏۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ اسرائیلی خدا کے کن احکام کو ردّ کر رہے تھے اور ہمارا زمانہ کس لحاظ سے عاموس کے زمانے کی طرح ہے؟‏

۹ ایک اَور بُرائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہوواہ خدا یوں فرماتا ہے:‏ ”‏وہ ہر مذبح کے پاس گِرو لئے ہوئے کپڑوں پر لیٹتے ہیں اور اپنے خدا کے گھر میں جرمانہ سے خریدی ہوئی مے پیتے ہیں۔‏“‏ (‏عاموس ۲:‏۸‏)‏ کاہن کے علاوہ باقی لوگ بھی خروج ۲۲:‏۲۶،‏ ۲۷ میں پائے جانے والے حکم کو ردّ کر رہے تھے۔‏ اس حکم کے مطابق گِرو میں لیا ہوا کپڑا سورج کے ڈوبنے تک واپس کر دیا جانا تھا۔‏ لیکن اسرائیلی انہی کپڑوں پر ٹانگیں پھیلا کر لیٹ جاتے اور اپنے معبودوں کے نام جشن اُڑاتے۔‏ اسکے علاوہ جو پیسے وہ غریبوں پر جرمانہ کرکے حاصل کرتے اُس سے وہ اپنے بُت‌پرستانہ تہوار منانے کیلئے مے خریدتے۔‏ وہ خدا کی سچی عبادت سے کتنا دُور ہو گئے تھے!‏

۱۰ خدا کی شریعت کے سب سے اہم احکام یہ ہیں:‏ خدا سے محبت رکھ اور اپنے ہمسایہ سے اپنی مانند محبت کر۔‏ اسرائیلی ان دونوں حکموں کو کھلم‌کُھلا ردّ کر رہے تھے۔‏ خدا نے عاموس کو حکم دیا کہ وہ اسرائیلیوں کو اُنکی بےوفائی کے انجام سے آگاہ کرے۔‏ آج بھی دُنیا کی تمام قوموں میں قدیم اسرائیل جیسی اخلاقی گِراوٹ اور بےدینی پائی جاتی ہے۔‏ یہ بات درست ہے کہ کچھ لوگ ٹھاٹ میں زندگی گزار رہے ہیں۔‏ لیکن زیادہ‌تر لوگوں کو اس دُنیا کے حاکموں،‏ مذہبی رہنماؤں اور تاجروں کی بداخلاقی کی وجہ سے مالی اور ذاتی نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔‏ یہوواہ خدا اس بات کو اچھی طرح سے جانتا ہے۔‏ وہ اُن لوگوں کی پرواہ کرتا ہے جو اُسکی عبادت کرنا چاہتے ہیں۔‏ اسلئے اُس نے آج بھی اپنے خادموں کو حکم دیا ہے کہ وہ دلیری سے اُسکا پیغام لوگوں تک پہنچائیں۔‏

۱۱.‏ ہم عاموس کی مثال سے کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۱ ہمیں بھی عاموس جیسا کام سونپا گیا ہے۔‏ اسلئے ہم اُسکی مثال سے سیکھ سکتے ہیں کہ (‏۱)‏ ہمیں لوگوں کو کونسا پیغام پہنچانا چاہئے،‏ (‏۲)‏ ہمیں مُنادی کے کام میں دلیر کیوں ہونا چاہئے اور (‏۳)‏ مخالفت کرنے والے ہمارے مُنادی کے کام کو روکنے میں کامیاب کیوں نہیں ہوتے۔‏ آئیے اب ہم ان نکات پر ایک ایک کرکے غور کرتے ہیں۔‏

عاموس کے نقشِ‌قدم پر چلیں

۱۲،‏ ۱۳.‏ یہوواہ نے اسرائیلیوں پر اپنی ناراضگی کیسے ظاہر کی اور اس پر اُنکا کیا ردّعمل رہا؟‏

۱۲ یہوواہ کے گواہوں کے طور پر ہم بادشاہت کی خوشخبری سنانے اور شاگرد بنانے کے کام پر زور دیتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰؛‏ مرقس ۱۳:‏۱۰‏)‏ لیکن عاموس کی طرح ہم لوگوں کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہوواہ بُرے لوگوں کو سزا دینے والا ہے۔‏ مثال کے طور پر عاموس ۴:‏۶-‏۱۱ میں لکھا ہے کہ یہوواہ نے اسرائیلیوں پر بار بار ظاہر کِیا کہ وہ اُن سے ناراض ہے۔‏ ہم پڑھتے ہیں کہ یہوواہ خدا نے اسرائیلیوں کو ”‏روٹی کی کمی“‏ دی اور فصل کے پکنے سے پہلے ہی ”‏مینہ کو .‏ .‏ .‏ روک لیا۔‏“‏ اسکے علاوہ اُس نے اُن پر ”‏بادسموم اور گیروئی کی آفت“‏ اور ”‏وبا“‏ بھی بھیجی۔‏ جب اسرائیلیوں پر یہ سب گزری تو کیا اُنہوں نے اپنے بُرے کاموں سے توبہ کر لی؟‏ خدا نے کہا کہ ان تمام آفتوں کے باوجود ”‏تُم میری طرف رجوع نہ لائے۔‏“‏

۱۳ یہوواہ خدا نے اِن ہٹ‌دھرم اسرائیلیوں کو سزا دی۔‏ لیکن ایسا کرنے سے پہلے اُس نے اپنے نبی کے ذریعے اُنکو آگاہ کِیا۔‏ اس سلسلے میں خدا خود کہتا ہے:‏ ”‏یقیناً [‏یہوواہ]‏ خدا کچھ نہیں کرتا جبتک کہ اپنا بھید اپنے خدمت گزار نبیوں پر پہلے آشکارا نہ کرے۔‏“‏ (‏عاموس ۳:‏۷‏)‏ خدا نے نوح کو بتایا تھا کہ وہ ایک طوفان لانے والا ہے اور اُس نے نوح سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ لوگوں کو اس بات سے آگاہ کرے۔‏ اسی طرح خدا نے عاموس کو بھی کہا کہ وہ اسرائیلیوں کو ایک آخری بار اُسکی ناراضگی سے آگاہ کر دے۔‏ افسوس کی بات ہے کہ اسرائیل کے لوگوں نے اس آگاہی کو سُن کر بھی توبہ نہ کی۔‏

۱۴.‏ عاموس کے زمانے اور ہمارے زمانے میں کونسی سی باتیں ملتی‌جلتی ہیں؟‏

۱۴ آپ ضرور اِس بات سے متفق ہونگے کہ عاموس کے زمانے اور ہمارے زمانے میں بہت سی باتیں ملتی‌جلتی ہیں۔‏ یسوع نے اس دُنیا کے آخری زمانے کی نشانیاں دیتے ہوئے کہا تھا کہ تب بہت سی آفتیں آئینگی اور بادشاہی کی خوشخبری کی منادی تمام دُنیا میں ہوگی۔‏ (‏متی ۲۴:‏۳-‏۱۴‏)‏ عاموس کے زمانے کی طرح آج بھی لوگ ان آفتوں کو اور ہمارے پیغام کو نظرانداز کر رہے ہیں۔‏ لہٰذا اُنکا بھی انجام ویسا ہی ہوگا جیسا ہٹ‌دھرم اسرائیلیوں کا ہوا تھا۔‏ یہوواہ نے ایسے لوگوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏تُو اپنے خدا سے ملاقات کی تیاری کر۔‏“‏ (‏عاموس ۴:‏۱۲‏)‏ اسرائیلیوں نے اُس وقت خدا سے ملاقات کی جب شاہِ‌اسور نے اُنکو بُری طرح سے شکست دی اور اُنہیں اسیر کر لیا۔‏ اور ہمارے زمانے میں ہٹ‌دھرم لوگ ہرمجدون یعنی خدا کے روزِعظیم کی لڑائی کے وقت ’‏اُس سے ملاقات‘‏ کرینگے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۶:‏۱۴،‏ ۱۶‏)‏ لیکن جبتک یہ وقت نہیں آ پہنچتا اُس وقت تک ہم تمام لوگوں سے یہی کہتے رہینگے کہ ”‏تُم [‏یہوواہ]‏ کے طالب ہو اور زندہ رہو۔‏“‏—‏عاموس ۵:‏۶‏۔‏

مُنادی کے کام میں دلیری کیوں درکار ہے؟‏

۱۵-‏۱۷.‏ (‏ا)‏ امصیاہ کون تھا اور اُس نے عاموس کے پیغام کو سُن کر کیا کِیا؟‏ (‏ب)‏ امصیاہ نے عاموس پر کونسے الزام لگائے؟‏

۱۵ ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارا پیغام اُس پیغام سے ملتاجلتا ہے جسے عاموس نے اسرائیلیوں تک پہنچایا تھا۔‏ اب ہم دیکھینگے کہ ہمیں مُنادی کرتے وقت دلیر کیوں ہونا پڑتا ہے۔‏ یہ بات خاص طور پر ۷ باب سے واضح ہوتی ہے۔‏ اس باب میں اُس واقعہ کا ذکر کِیا گیا ہے جسکے بارے میں ہم اس مضمون کے شروع میں پڑھ چکے ہیں۔‏ اس میں جس مذہبی رہنما کا ذکر ہوا ہے وہ ’‏بیتؔ‌ایل کا کاہن اؔمصیاہ‘‏ تھا۔‏ (‏عاموس ۷:‏۱۰‏)‏ اسرائیلی سلطنت کا شہر بیت‌ایل بچھڑے کی پرستش کا مرکز تھا۔‏ لہٰذا امصیاہ اُس مذہب کا کاہن تھا جسے اسرائیل کی اکثریت مانتی تھی۔‏ اُس نے عاموس کے پیغام کو سُن کر کیا کِیا؟‏

۱۶ امصیاہ نے عاموس سے کہا:‏ ”‏اَے غیب‌گو تُو یہوؔداہ کے مُلک کو بھاگ جا۔‏ وہیں کھا پی اور نبوّت کر۔‏ پر بیتؔ‌ایل میں پھر کبھی نبوّت نہ کرنا کیونکہ یہ بادشاہ کا مقدِس اور شاہی محل ہے۔‏“‏ (‏عاموس ۷:‏۱۲،‏ ۱۳‏)‏ دراصل امصیاہ عاموس سے کہہ رہا تھا کہ ’‏جا یہاں سے چلا جا۔‏ ہم مذہبی لوگ ہیں،‏ ہمیں تمہاری ضرورت نہیں۔‏‘‏ پھر امصیاہ عاموس کے کام پر حکومت کے ذریعے پاپندیاں عائد کرنے کی کوشش میں لگ گیا۔‏ اُس نے بادشاہ یربعام کو کہلا بھیجا کہ ”‏عاؔموس نے تیرے خلاف بنی‌اسرائیل میں فتنہ برپا کِیا ہے۔‏“‏ (‏عاموس ۷:‏۱۰‏)‏ امصیاہ عاموس پر حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کا الزام لگا رہا تھا۔‏ امصیاہ نے بادشاہ سے یہ بھی کہا کہ ”‏عاؔموس یوں کہتا ہے کہ یرؔبعام تلوار سے مارا جائیگا اور اؔسرائیل یقیناً اپنے وطن سے اسیر ہو کر جائیگا۔‏“‏—‏عاموس ۷:‏۱۱‏۔‏

۱۷ امصیاہ بادشاہ یربعام کو تین غلط‌فہمیوں میں مبتلا کرنا چاہتا تھا۔‏ اُس نے کہا کہ ”‏عاؔموس یوں کہتا ہے۔‏“‏ لیکن عاموس نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کِیا کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے وہ اُسکا ذاتی پیغام ہے۔‏ بلکہ وہ ہر نبوّت کو یہ کہہ کر شروع کرتا تھا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ یوں فرماتا ہے۔‏“‏ (‏عاموس ۱:‏۳‏)‏ امصیاہ نے عاموس پر یہ کہنے کا بھی الزام لگایا کہ ”‏یرؔبعام تلوار سے مارا جائیگا۔‏“‏ لیکن عاموس ۷:‏۹ میں ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏مَیں [‏یہوواہ]‏ یرؔبعام کے گھرانے کے خلاف تلوار لیکر اُٹھونگا۔‏“‏ عاموس نے کہا تھا کہ یہ آفت یربعام پر نہیں بلکہ اُسکے ”‏گھرانے“‏،‏ اُسکی اولاد پر آئیگی۔‏ اسکے علاوہ امصیاہ نے عاموس پر یہ بھی کہنے کا الزام لگایا کہ ”‏اؔسرائیل یقیناً اپنے وطن سے اسیر ہو کر جائیگا۔‏“‏ لیکن عاموس نے یہ بھی تو کہا تھا کہ جو اسرائیلی توبہ کرکے خدا کو خوش کرنے کی کوشش کرینگے وہ اُس سے برکتیں پائینگے۔‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امصیاہ نے سچ میں جھوٹ ملا کر عاموس کے مُنادی کے کام پر پابندیاں لگوانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔‏

۱۸.‏ امصیاہ کی طرح آج بھی پادری کن طریقوں سے ہمارے مُنادی کے کام کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں؟‏

۱۸ آج بھی یہوواہ کے گواہوں کے مخالفین کچھ ایسے ہی طریقے استعمال میں لاتے ہیں۔‏ جسطرح امصیاہ نے عاموس پر چپ لگانے کی کوشش کی اسی طرح آج بھی پادری طبقہ یہوواہ کے گواہوں کو چپ کرانے کی کوشش میں ہے۔‏ امصیاہ نے عاموس پر حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کا جھوٹا الزام لگایا تھا۔‏ آج بھی بعض پادری یہوواہ کے گواہوں پر ایسا ہی الزام لگاتے ہیں۔‏ اسکے علاوہ امصیاہ نے عاموس کو چپ کرنے کیلئے بادشاہ سے رجوع کِیا۔‏ اسی طرح آج بھی پادری طبقہ سیاستدانوں کی مدد حاصل کرکے یہوواہ کے گواہوں کو اذیت پہنچاتا ہے۔‏

مخالفین مُنادی کے کام کو روک نہیں سکتے

۱۹،‏ ۲۰.‏ امصیاہ کی مخالفت پر عاموس کا کیا ردّعمل رہا؟‏

۱۹ امصیاہ کی اس مخالفت پر عاموس کا کیا ردّعمل رہا؟‏ عاموس نے امصیاہ کاہن سے کہا:‏ ”‏تُو کہتا ہے کہ اؔسرائیل کے خلاف نبوّت .‏ .‏ .‏ نہ کر؟‏“‏ پھر خدا کے اس دلیر نبی نے امصیاہ کو ایک ایسا پیغام سنایا جسے سُن کر اُسکا کلیجا تھرتھرا گیا ہوگا۔‏ (‏عاموس ۷:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ امصیاہ عاموس کو بالکل نہ ڈرا سکا۔‏ واقعی عاموس نے ہمارے لئے کتنی اچھی مثال قائم کی تھی۔‏ جب لوگ ہمیں خدا کے کلام کو سنانے سے روکنا چاہتے ہیں تو ہم بھی چپ نہیں رہ سکتے۔‏ خاص طور پر ایسے ممالک میں جہاں امصیاہ کی طرح آجکل بھی پادری طبقہ ہمارے بھائیوں کو سخت اذیت پہنچا رہا ہے وہ مُنادی کے کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔‏ جی‌ہاں،‏ عاموس کی طرح ہم بھی لوگوں سے کہتے ہیں کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ یوں فرماتا ہے۔‏“‏ اور ہمارے مخالفین ہمیں مُنادی کرنے سے کبھی روک نہیں سکتے کیونکہ ”‏[‏یہوواہ]‏ کا ہاتھ“‏ ہم پر ہے۔‏—‏اعمال ۱۱:‏۱۹-‏۲۱‏۔‏

۲۰ امصیاہ کو جان جانا چاہئے تھا کہ وہ عاموس کو دھمکیاں دے کر کچھ حاصل نہ کر سکیگا۔‏ دراصل عاموس نے پہلے ہی سے کہہ دیا تھا کہ دُنیا کی کوئی طاقت اسے چپ نہ لگا سکے گی۔‏ اور یہی اس مضمون کا تیسرا نکتہ ہے جس پر ہم غور کرینگے۔‏ عاموس ۳:‏۳-‏۸ کے مطابق عاموس نے کئی تشبیہیں دے کر لوگوں کو سمجھایا کہ ہر عمل کا ردّعمل ہوتا ہے۔‏ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے اُس نے کہا:‏ ”‏شیرببر گرجا ہے۔‏ کون نہ ڈریگا؟‏ [‏یہوواہ]‏ خدا نے فرمایا ہے۔‏ کون نبوّت نہ کریگا؟‏“‏ عاموس کا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ’‏جسطرح تُم لوگ شیرببر کی گرج کو سُن کر ضرور ڈرتے ہو بالکل اسی طرح مَیں خدا کا حکم سُن کر ضرور نبوّت کرونگا۔‏‘‏ عاموس اپنے پروردگار کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔‏ وہ خدا کے حکم کا احترام کرتا تھا۔‏ اسلئے وہ دلیری سے اسرائیل کو خدا کا کلام سناتا رہا۔‏

۲۱.‏ کیا خدا کے لوگ مُنادی کرنے کے حکم پر عمل کر رہے ہیں؟‏

۲۱ یہوواہ خدا نے ہمیں بھی مُنادی کرنے کا حکم دیا ہے۔‏ کیا ہم اس حکم پر عمل کر رہے ہیں؟‏ جی‌ہاں،‏ عاموس اور ابتدائی مسیحیوں کی طرح ہم بھی دلیری سے خدا کا کلام سنا رہے ہیں۔‏ (‏اعمال ۴:‏۲۳-‏۳۱‏)‏ ہم مخالفین کی دھمکیوں سے نہیں ڈرتے۔‏ اسکے علاوہ جب لوگ بےفکر ہونے کی وجہ سے ہمارے پیغام میں دلچسپی نہیں لیتے تو بھی ہم مُنادی کے کام کو جاری رکھتے ہیں۔‏ پوری دُنیا میں یہوواہ کے گواہ عاموس کی طرح دلیری سے خوشخبری کی مُنادی کر رہے ہیں۔‏ ہمیں یہوواہ کے روزِعدالت کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنے کی ذمہ‌داری بھی سونپی گئی ہے۔‏ اُس وقت یہوواہ کیا کریگا؟‏ اس سوال کا جواب ہم اگلے مضمون میں حاصل کرینگے۔‏

آپکا کیا جواب ہے؟‏

‏• عاموس کیلئے اسرائیلیوں کو خدا کا کلام سنانا آسان کیوں نہیں تھا؟‏

‏• عاموس کی طرح ہمیں بھی لوگوں کو کونسا پیغام سنانا چاہئے؟‏

‏• ہمیں مُنادی کے کام میں کس خوبی کی ضرورت ہے؟‏

‏• مخالفین ہمیں مُنادی کرنے سے کیوں نہیں روک سکتے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

عاموس کی حیثیت ایک گولر کے پھل کو چھیدنے والے سے زیادہ نہ تھی پھر بھی خدا نے اُسے اپنے نبی کے طور پر چُنا تھا

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

عاموس کی طرح کیا آپ بھی دلیری سے یہوواہ کا کلام سُنا رہے ہیں؟‏