مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

شریر یہوواہ کی سزا سے نہیں بچ سکتے

شریر یہوواہ کی سزا سے نہیں بچ سکتے

شریر یہوواہ کی سزا سے نہیں بچ سکتے

‏”‏تُو اپنے خدا سے ملاقات کی تیاری کر۔‏“‏ —‏عاموس ۴:‏۱۲‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ ہم اس بات پر پورا یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ بُرائی کو ختم کرے گا؟‏

کیا یہوواہ خدا دُکھ‌درد اور بُرائی کو کبھی ختم کرے گا؟‏ یہ اِس زمانے کا اہم‌ترین سوال ہے!‏ جہاں کہیں ہماری نظر پڑتی ہے انسان انسان پر ظلم ڈھا رہا ہے۔‏ واقعی ہم ایک ایسے دَور کے لئے ترس رہے ہیں جس میں ظلم،‏ دہشت‌گردی اور رشوت‌خوری کا نام ہی نہیں رہے گا۔‏

۲ ہم پورا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ بُرائی کا خاتمہ کرے گا کیونکہ وہ راستباز اور انصاف‌پسند ہے۔‏ زبور ۳۳:‏۵ میں اُس کے بارے میں یوں لکھا ہے:‏ ”‏وہ صداقت اور انصاف کو پسند کرتا ہے۔‏“‏ ایک اَور زبور میں ہم پڑھتے ہیں کہ ”‏شریر اور ظلم‌دوست سے [‏یہوواہ]‏ کی رُوح کو نفرت ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۱:‏۵‏)‏ کیا یہوواہ خدا جو کُل کائنات پر اختیار رکھتا ہے اور جو صداقت اور انصاف کو پسند کرتا ہے ہمیشہ تک بُرائی کو برداشت کرتا رہے گا؟‏ ہرگز نہیں!‏

۳.‏ ہم عاموس کی کتاب پر غور کرنے سے کونسے مزید تین سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

۳ یہوواہ خدا نے ماضی میں شریروں کو سزا دی۔‏ اس سے ہم جان سکتے ہیں کہ وہ آج بھی ایسا کرے گا۔‏ اس کی چند مثالیں ہم عاموس کی کتاب میں پاتے ہیں۔‏ آئیے ہم اِس کتاب پر مزید غور کرتے ہیں۔‏ ایسا کرنے سے ہم یہوواہ کی عدالت کے بارے میں تین اہم سبق سیکھ سکیں گے۔‏ پہلا تو یہ کہ یہوواہ کبھی کسی کو بِلاوجہ سزا نہیں دیتا۔‏ دوسرا یہ کہ خدا کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے۔‏ کوئی شریر اُس کی سزا سے بچ نہیں سکتا۔‏ اور تیسرا یہ کہ خدا بُرے لوگوں کے ساتھ ساتھ نیک لوگوں کو سزا نہیں دیتا۔‏ جو اشخاص توبہ کرکے خدا کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اُنہیں خدا معاف کر دیتا ہے۔‏—‏رومیوں ۹:‏۱۷-‏۲۶‏۔‏

خدا کسی کو بِلاوجہ سزا نہیں دیتا

۴.‏ یہوواہ نے عاموس کو کہاں جانے کو کہا اور اسے وہاں کیا کرنا تھا؟‏

۴ عاموس کے زمانے میں بنی‌اسرائیل دو سلطنتوں میں تقسیم ہو چکے تھے۔‏ ان میں سے ایک یہوداہ کی سلطنت تھی۔‏ یہ دو قبیلوں پر مشتمل تھی اور اسرائیل کے علاقے کے جنوب میں واقع تھی۔‏ اس کے شمال میں اسرائیل کی سلطنت تھی جو دَس قبیلوں پر مشتمل تھی۔‏ عاموس یہوداہ کے علاقے میں رہتا تھا۔‏ یہوواہ چاہتا تھا کہ عاموس اسرائیلی سلطنت کے باشندوں کو اُس کی عدالت سے آگاہ کرے۔‏ اس لئے اُس نے عاموس کو نبی کے طور پر مقرر کِیا اور اُسے سرحد پار اسرائیل جانے کو کہا۔‏

۵.‏ عاموس نے کن قوموں کے خلاف نبوّت کی اور اس کی کیا وجہ تھی؟‏

۵ لیکن عاموس نے سب سے پہلے اسرائیلی سلطنت کے خلاف نہیں بلکہ آس‌پاس کی ۶ قوموں کے خلاف نبوّت کی۔‏ یہ ارام (‏دمشق)‏ ،‏ فلستین (‏غزہ)‏ ،‏ صور،‏ ادوم،‏ عمون اور موآب کی قومیں تھیں۔‏ وہ سزا پانے کے حقدار کیوں تھیں؟‏ کیونکہ یہ تمام قومیں یہوواہ کی قوم کی جڑ کاٹنے پر تلی ہوئی تھیں۔‏

۶.‏ خدا ارام،‏ فلستین اور صور کی قوموں پر اپنا غضب کیوں بھڑکانے والا تھا؟‏

۶ مثال کے طور پر ارامیوں نے ”‏جلعاؔد کو .‏ .‏ .‏ داؤنے کے آہنی اوزار سے روند ڈالا“‏ تھا۔‏ (‏عاموس ۱:‏۳‏)‏ جلعاد کا علاقہ دریائےیردن کی مشرقی سمت پر واقع ہے۔‏ ارامیوں نے جلعاد کے کافی حصے کو اپنے قبضہ میں کر لیا تھا اور وہاں پر رہنے والے اسرائیلیوں کو روند روند کر خاک کی مانند کر دیا تھا۔‏ فلستیوں نے بعض اسرائیلیوں کو اسیر کرکے اُن کو ادومیوں کے حوالہ کر دیا تھا۔‏ اس کے علاوہ صور کے تاجروں نے کئی اسرائیلیوں کو غلام کے طور پر بیچ ڈالا تھا۔‏ (‏عاموس ۱:‏۶،‏ ۹‏)‏ یہ تین قومیں خدا کی قوم کے ساتھ بُرا سلوک کر رہی تھیں۔‏ اس لئے ان پر یہوواہ کا غضب بھڑکنے والا تھا۔‏

۷.‏ ادوم،‏ عمون اور موآب کس لحاظ سے بنی‌اسرائیل کے رشتہ‌دار تھے؟‏ اس کے باوجود ان قوموں نے بنی‌اسرائیل کے ساتھ کیسا سلوک کِیا؟‏

۷ ادوم،‏ عمون،‏ موآب اور اسرائیل کی قوموں میں رشتہ‌داری تھی۔‏ ادومی ابرہام کے بیٹے عیسو کی اولاد تھے۔‏ عیسو یعقوب کا جڑواں بھائی تھا اس لئے ادومی بنی‌اسرائیل کے بھائی ہی تھے۔‏ بنی‌عمون اور موآبی ابرہام کے بھتیجے لوط کی اولاد تھے۔‏ مگر کیا ان تین قوموں نے بنی‌اسرائیل کے ساتھ بھائیوں جیسا سلوک کِیا تھا؟‏ بالکل نہیں۔‏ ادوم نے بڑی بےرحمی کے ساتھ تلوار لیکر ”‏اپنے بھائی کو“‏ رگیدا اور بنی‌عمون نے اسرائیلیوں کو قید کرکے ان پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے۔‏ (‏عاموس ۱:‏۱۱،‏ ۱۳‏)‏ موآبی بھی عرصۂ‌دراز سے بنی‌اسرائیل کی مخالفت کرتے آ رہے تھے۔‏ اس لئے یہوواہ ان تین قوموں کو سخت سزا دینے والا تھا۔‏ اُس نے اُن کو تباہ‌وبرباد کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔‏

خدا کا فیصلہ اٹل ہے

۸.‏ عاموس نے جن ۶ قوموں کے خلاف نبوّت کی تھی وہ سزا سے بچ کیوں نہیں سکتے تھے؟‏

۸ جن ۶ قوموں کے خلاف عاموس نے نبوّت کی تھی بےشک وہ سزا کے لائق بھی تھے۔‏ چاہے کچھ بھی ہو وہ اس سزا سے بچ نہیں سکتے تھے۔‏ عاموس ۱:‏۳ تا ۲:‏۱ میں یہوواہ ۶ مرتبہ کہتا ہے کہ ”‏مَیں اس کو بےسزا نہ چھوڑوں گا۔‏“‏ اور واقعی ایسا ہی ہوا۔‏ تاریخ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ان سب پر خدا کا عذاب نازل ہوا۔‏ یہاں تک کہ اِن میں سے بعض قوموں کا نام‌ونشان ہی مٹ چکا ہے۔‏

۹.‏ عاموس یہوداہ کے باشندوں کے خلاف کیوں نبوّت کرنے لگا اور انہیں کونسی سزا سنائی گئی؟‏

۹ اب عاموس اپنے وطن یعنی یہوداہ کی سلطنت کے خلاف نبوّت کرتا ہے۔‏ ہو سکتا ہے کہ اسرائیل کی سلطنت کے باشندے عاموس کی اس پیشینگوئی کو سُن کر حیران ہوئے ہوں۔‏ خدا یہوداہ کے باشندوں سے ناراض کیوں تھا؟‏ کیونکہ ”‏انہوں نے [‏یہوواہ]‏ کی شریعت کو ردّ کِیا“‏ تھا۔‏ (‏عاموس ۲:‏۴‏)‏ یہوداہ کے لوگ جان‌بوجھ کر خدا کے احکام کو نہیں مان رہے تھے اور یہوواہ اس بات کو نظرانداز نہیں کرنے والا تھا۔‏ اس لئے عاموس ۲:‏۵ میں یہوواہ کہتا ہے کہ ”‏مَیں یہوؔداہ پر آگ بھیجوں گا جو یرؔوشلیم کے قصروں کو کھا جائے گی۔‏“‏

۱۰.‏ یہوداہ کے باشندے خدا کی عدالت سے کیوں نہیں بچ سکتے تھے؟‏

۱۰ یہوداہ کے باشندے بھی خدا کی عدالت سے نہیں بچ سکتے تھے۔‏ یہوواہ ساتویں بار کہتا ہے کہ ”‏مَیں اس کو بےسزا نہ چھوڑوں گا۔‏“‏ (‏عاموس ۲:‏۴‏)‏ اور ایسا ہی ہوا۔‏ بابلی فوج نے ۶۰۷ ق.‏س.‏ع.‏ میں یہوداہ کو تباہ کر دیا۔‏ ایک مرتبہ پھر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بُرے لوگ خدا کی عدالت سے نہیں بچ سکتے۔‏

۱۱-‏۱۳.‏ عاموس کو خاص طور پر کس قوم کے خلاف نبوّت کرنے کو کہا گیا اور وہاں کے حالات کیسے تھے؟‏

۱۱ عاموس نبی سات قوموں کے خلاف نبوّت کر چکا تھا۔‏ اب وہ اسرائیل کی سلطنت کے خلاف نبوّت کرنے لگتا ہے کیونکہ اُسے تو خاص اس لئے وہاں بھیجا گیا تھا۔‏ خدا اسرائیلیوں سے ناخوش تھا کیونکہ وہ روحانی اور اخلاقی لحاظ سے بہت ہی گِر چکے تھے۔‏

۱۲ عاموس کی نبوّت سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسرائیل کی سلطنت میں ناانصافی اور بُرائی کتنی عام ہو گئی تھی۔‏ اس سلسلے میں عاموس ۲:‏۶،‏ ۷ میں یوں لکھا ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ یوں فرماتا ہے کہ اسرائیل کے تین بلکہ چار گناہوں کے سبب سے مَیں اس کو بےسزا نہ چھوڑوں گا کیونکہ انہوں نے صادق کو روپیہ کی خاطر اور مسکین کو جوتیوں کے جوڑے کی خاطر بیچ ڈالا۔‏ وہ مسکینوں کے سر پر کی گرد کا بھی لالچ رکھتے ہیں اور حلیموں کو ان کی راہ سے گمراہ کرتے ہیں۔‏“‏

۱۳ اسرائیل کی سلطنت میں صادق ”‏روپیہ کی خاطر“‏ بیچے جا رہے تھے یعنی قاضی رشوت لے کر بےقصوروں کو سزائیں سنا رہے تھے۔‏ جب لوگ اپنی غربت کی وجہ سے چھوٹے سے چھوٹے قرض کو نہیں چکا سکتے تھے تو اُدھار دینے والے اُن پر ”‏جوتیوں کے جوڑے“‏ کی قیمت لگا کر اُن کو غلامی میں بیچ دیتے تھے۔‏ بےرحم لوگوں کا ”‏لالچ“‏ یعنی اُنکی خواہش یہ تھی کہ وہ ”‏مسکینوں“‏ کو اتنی اذیت پہنچائیں کہ وہ اپنی بےبسی پر سر پر خاک ڈال کر رہ جائیں۔‏ بداخلاقی کی یہ نوبت پہنچ چکی تھی کہ ”‏حلیموں“‏ کو انصاف پانے کی اُمید تک نہیں رہی تھی۔‏

۱۴.‏ اسرائیل کی سلطنت میں کن لوگوں پر ظلم ڈھائے جا رہے تھے؟‏

۱۴ غور کیجئے کہ اسرائیل کی سلطنت میں صادق،‏ مسکین اور حلیم لوگوں پر ظلم ڈھائے جا رہے تھے۔‏ یہوواہ کی شریعت میں بنی‌اسرائیل کو بےبسوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنے کا حکم دیا گیا تھا۔‏ لیکن اسرائیل کی سلطنت میں ہمدردی اور رحم کے نام کی کوئی چیز باقی نہ رہی تھی۔‏

‏”‏تُو اپنے خدا سے ملاقات کی تیاری کر“‏

۱۵،‏ ۱۶.‏ (‏ا)‏ اسرائیلیوں سے کیوں کہا گیا تھا کہ ”‏تُو اپنے خدا سے ملاقات کی تیاری کر“‏؟‏ (‏ب)‏ عاموس ۹:‏۱،‏ ۲ کے مطابق شریر سزا سے کیوں نہیں بچ سکیں گے؟‏ (‏پ)‏ ۷۴۰ ق.‏س.‏ع.‏ میں اسرائیل کی سلطنت پر کیا گزری؟‏

۱۵ اسرائیلیوں کی ناانصافی،‏ بددیانتی اور بداخلاقی بہت بڑھ چکی تھی۔‏ اس وجہ سے عاموس نے اُن کو خبردار کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏تُو اپنے خدا سے ملاقات کی تیاری کر۔‏“‏ (‏عاموس ۴:‏۱۲‏)‏ اسرائیل کی سلطنت کے باشندے بھی خدا کے غضب سے بچ نہیں سکتے تھے کیونکہ یہوواہ نے آٹھویں مرتبہ کہا:‏ ”‏مَیں اس کو بےسزا نہ چھوڑوں گا۔‏“‏ (‏عاموس ۲:‏۶‏)‏ اور اگر کوئی شریر اس عدالت سے چھپنے کی کوشش کرتا بھی تو وہ کامیاب نہیں ہوتا کیونکہ خدا نے یوں کہا:‏ ”‏ان میں سے ایک بھی بھاگ نہ سکے گا۔‏ ان میں سے ایک بھی بچ نہ نکلے گا۔‏ اگر وہ پاتال میں گھس جائیں تو میرا ہاتھ وہاں سے ان کو کھینچ نکالے گا اور اگر آسمان پر چڑھ جائیں تو مَیں وہاں سے ان کو اُتار لاؤں گا۔‏“‏—‏عاموس ۹:‏۱،‏ ۲‏۔‏

۱۶ جی‌ہاں اگر شریر ”‏پاتال میں“‏ یعنی زمین کی تہہ میں بھی جا گھستے تو وہ خدا کی عدالت سے بچ نہ سکتے۔‏ اور وہ ”‏آسمان پر چڑھ“‏ کر یعنی اُونچے سے اُونچے پہاڑ پر چڑھ کر بھی خدا کے غضب سے بچ نہیں سکتے تھے۔‏ یہوواہ نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ کوئی اُس کے ہاتھ سے بچ نہیں سکے گا۔‏ خدا انصاف‌پسند ہے،‏ لہٰذا اسرائیل کے باشندوں کو اپنی بُری حرکتوں کے لئے سزا ضرور بھگتنی پڑے گی۔‏ اور بالکل ایسا ہی ہوا۔‏ عاموس کی نبوّت کے تقریباً ۶۰ سال بعد ۷۴۰ ق.‏س.‏ع.‏ میں اسوریوں نے آ کر اسرائیل کی سلطنت کا وجود ختم کر دیا۔‏

خدا بےقصوروں کو سزا نہیں دیتا

۱۷،‏ ۱۸.‏ عاموس کے نویں باب میں ہم خدا کے رحم کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟‏

۱۷ عاموس کی نبوّت پر غور کرنے سے ہم جان گئے ہیں کہ یہوواہ بِلاوجہ سزا نہیں دیتا اور یہ بھی کہ کوئی اُس کی سزا سے بچ نہیں سکتا۔‏ لیکن عاموس کی کتاب سے ہم یہ بھی سیکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ صرف اُنہی کو سزا دیتا ہے جو اس کے حقدار ہوتے ہیں۔‏ چاہے شریر کہیں بھی چھپنے کی کوشش کریں وہ اُن کو تلاش کرکے اُنہیں سزا دے گا۔‏ اسی طرح یہوواہ توبہ کرنے والے اور نیک لوگوں کو تلاش کرکے اُن پر رحم کرے گا۔‏ یہ بات خاص طور پر عاموس کی کتاب کے آخری باب سے ظاہر ہوتی ہے۔‏

۱۸ عاموس ۹:‏۸ کے مطابق یہوواہ کہتا ہے کہ ”‏مَیں .‏ .‏ .‏ یعقوؔب کے گھرانے کو بالکل نابود نہ کروں گا۔‏“‏ عاموس ۹:‏۱۳-‏۱۵ میں یہوواہ ”‏اپنے لوگوں کو اسیری سے واپس“‏ لانے کا وعدہ کرتا ہے۔‏ اپنے وطن واپس لوٹ کر ان کا کیا حال ہوگا؟‏ خدا اُن پر رحم کرے گا جس کے نتیجے میں وہ سلامتی اور خوشحالی کی زندگی گزاریں گے۔‏ یہوواہ کا وعدہ تھا کہ ”‏جوتنے والا کاٹنے والے کو .‏ .‏ .‏ جا لے گا۔‏“‏ اس کا مطلب ہے کہ کھیتوں کی پیداوار اتنی ہوگی کہ ایک فصل کی کٹائی ابھی ختم نہ ہوئی ہوگی کہ اگلی فصل کے لئے بیچ بونے کا وقت ہو جائے گا۔‏

۱۹.‏ اسرائیل اور یہوداہ کے لوگوں میں سے جنہوں نے توبہ کی تھی اُن کے ساتھ کیا پیش آیا؟‏

۱۹ یہوواہ کی عدالت کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ وہ بُرے لوگوں کے ساتھ ساتھ اچھے لوگوں کو سزا نہیں دیتا۔‏ یہوداہ اور اسرائیل میں جن لوگوں نے توبہ کی اور نیکی کرنے لگے اُن کو یہوواہ نے معاف کر دیا۔‏ عاموس ۹ باب کی پیشینگوئی کی تکمیل میں ۵۳۷ ق.‏س.‏ع.‏ میں اسرائیل اور یہوداہ کے عاجز لوگوں کو بابل کی اسیری سے اپنی سرزمین کو واپس لوٹنے کی اجازت دی گئی۔‏ وہاں پہنچ کر اُنہوں نے سچی پرستش کو بحال کِیا۔‏ یہوواہ نے اُن کی حفاظت کی اِس لئے وہ اپنے گھروں کو دوبارہ تعمیر کرنے اور تاکستان اور باغ بھی لگانے لگے۔‏

یہوواہ شریروں پر ضرور عدالت کرے گا

۲۰.‏ عاموس کی نبوّت پر غور کرنے سے ہمیں کن دو باتوں کا یقین ہو جاتا ہے؟‏

۲۰ عاموس کی نبوّت پر غور کرنے سے ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ یہوواہ شریروں کو ضرور سزا دے گا؟‏ کیونکہ جس طرح یہوواہ اُس زمانے میں شریروں کے ساتھ پیش آیا تھا اِس سے ہمیں یقین ہو جاتا ہے کہ وہ ہمارے زمانے میں بھی شریروں کے ساتھ ایسے ہی پیش آئے گا۔‏ اس کے علاوہ جس طرح یہوواہ اسرائیل کی سلطنت کے برگشتہ لوگوں پر تباہی لایا تھا اسی طرح وہ دُنیائےمسیحیت کو بھی تباہ کرے گا۔‏ کیوں؟‏ کیونکہ یہ ’‏بڑے شہر بابلؔ‘‏ یعنی تمام جھوٹے مذاہب میں سے سب سے زیادہ سزاوار ہے۔‏—‏مکاشفہ ۱۸:‏۲‏۔‏

۲۱.‏ دُنیائےمسیحیت سزا کے مستحق کیوں ہے؟‏

۲۱ بےشک خدا دُنیائےمسیحیت پر عدالت کرے گا۔‏ برگشتہ اسرائیل کی طرح وہ بھی روحانی اور اخلاقی لحاظ سے بہت ہی گِر چکی ہے۔‏ لہٰذا دُنیائےمسیحیت اور شیطان کا باقی نظام سزا کا مستحق ہے۔‏ اس عدالت سے کوئی شریر چھپ کر بچ نہیں سکے گا کیونکہ عاموس ۹:‏۱،‏ ۲ میں ہم پڑھتے ہیں کہ ”‏ان میں سے ایک بھی بھاگ نہ سکے گا۔‏ ان میں سے ایک بھی بچ نہ نکلے گا۔‏“‏

۲۲.‏ دوسرا تھسلنیکیوں ۱:‏۶-‏۸ میں خدا کی عدالت کے بارے میں کیا وضاحت کی گئی ہے؟‏

۲۲ ہم نے دیکھا ہے کہ خدا کبھی بِلاوجہ سزا نہیں دیتا،‏ کوئی اس کی عدالت سے بچ نہیں سکتا اور خدا صرف شریروں ہی کو سزاوار ٹھہراتا ہے۔‏ یہی بات پولس رسول کے ان الفاظ سے بھی واضح ہوتی ہے:‏ ”‏خدا کے نزدیک یہ انصاف ہے کہ بدلہ میں تُم پر مصیبت لانے والوں کو مصیبت۔‏ اور تُم مصیبت اٹھانے والوں کو ہمارے ساتھ آرام دے جب خداوند یسوؔع اپنے قوی فرشتوں کے ساتھ بھڑکتی ہوئی آگ میں آسمان سے ظاہر ہوگا۔‏ اور جو خدا کو نہیں پہچانتے اور ہمارے خداوند یسوؔع کی خوشخبری کو نہیں مانتے ان سے بدلہ لے گا۔‏“‏ (‏۲-‏تھسلنیکیوں ۱:‏۶-‏۸‏)‏ جی‌ہاں،‏ ”‏خدا کے نزدیک یہ انصاف ہے“‏ کہ وہ اُن کو سزا دے جنہوں نے اُس کے ممسوح لوگوں پر مصیبت ڈھائی ہے۔‏ پھر جب ”‏یسوؔع اپنے قوی فرشتوں کے ساتھ بھڑکتی ہوئی آگ میں آسمان سے ظاہر ہوگا“‏ تو کوئی شریر اس عدالت سے بچ نہیں سکے گا۔‏ خدا سبھی کو سزا نہیں دے گا بلکہ صرف اُن کو ”‏جو خدا کو نہیں پہچانتے اور ہمارے خداوند یسوؔع کی خوشخبری کو نہیں مانتے۔‏“‏ اس کے علاوہ خدا کی عدالت کی بِنا پر مصیبت اٹھانے والے لوگ آرام پائیں گے۔‏

نیک لوگ اُمید تھام سکتے ہیں

۲۳.‏ ہم عاموس کی نبوّت سے کونسی اُمید اور تسلی پا سکتے ہیں؟‏

۲۳ جن لوگوں کے دل صاف ہیں وہ عاموس کی نبوّت سے اُمید اور تسلی پا سکتے ہیں۔‏ عاموس نے پیشینگوئی کی تھی کہ یہوواہ اپنی قوم کو مکمل طور پر ختم نہیں کرے گا۔‏ اور ایسا ہی ہوا۔‏ یہوواہ نے کچھ عرصے بعد اسرائیل اور یہوداہ کے لوگوں میں سے چند کو بابل کی اسیری سے اپنی سرزمین کو واپس لوٹنے دیا۔‏ وہاں اُس نے اُن پر بہت سی برکتیں نچھاور کیں۔‏ اس سے ہم جان سکتے ہیں کہ اپنے روزِعدالت کے دوران یہوواہ بُرے لوگوں کو ضرور تلاش کرکے ختم کر دے گا۔‏ اور ہمیں یہ تسلی بھی ملتی ہے کہ نیک لوگ چاہے اس دُنیا کے کسی بھی کونے میں رہ رہے ہوں یہوواہ اُن کو تلاش کرکے اُنہیں نجات بخشے گا۔‏

۲۴.‏ یہوواہ اپنے خادموں کو آج بھی کن برکتوں سے نوازتا ہے؟‏

۲۴ یہوواہ خدا اپنے وفادار خادموں کو آج بھی برکتوں سے نوازتا ہے۔‏ مثلاً ہمارا مذہب دُنیائےمسیحیت کی جھوٹی تعلیمات سے پاک ہے اور ہم روحانی خوراک سے سیر کئے جا رہے ہیں۔‏ لیکن ان برکات کے ساتھ ساتھ یہوواہ نے ہمیں ایک بہت بڑی ذمہ‌داری بھی سونپ دی ہے۔‏ وہ چاہتا ہے کہ ہم دوسروں کو اُس کے آنے والے روزِعدالت سے آگاہ کریں۔‏ لہٰذا ہم دل‌وجان سے ایسے لوگوں کی تلاش میں ہیں جو ”‏ہمیشہ کی زندگی کے لئے مقرر کئے گئے“‏ ہیں۔‏ (‏اعمال ۱۳:‏۴۸‏)‏ ہم چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ہمارے ساتھ ملکر یہوواہ کی برکت حاصل کریں۔‏ ہماری دلی خواہش ہے کہ یہ لوگ بھی بُرے لوگوں پر آنے والی سزا سے بچ نکلیں۔‏ ان برکات کو پانے کے لئے ہمارا دل صاف ہونا چاہئے۔‏ عاموس کی نبوّت میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے جیسا کہ ہم اگلے مضمون میں دیکھیں گے۔‏

آپ کا کیا جواب ہوگا؟‏

‏• عاموس کی نبوّت سے ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ یہوواہ کبھی بِلاوجہ سزا نہیں دیتا؟‏

‏• عاموس نے اس بات کو کیسے ثابت کِیا کہ کوئی شریر یہوواہ کی عدالت سے بچ نہیں سکتا؟‏

‏• عاموس کی کتاب سے ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ خدا صرف اُن کو سزا دیتا ہے جو سزا کے حقدار ہوتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

اسرائیل کی سلطنت کے باشندے خدا کی عدالت سے بچ نہیں سکے

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

یہوداہ اور اسرائیل کے لوگوں میں سے بعض ۵۳۷ ق.‏س.‏ع.‏ میں بابل کی اسیری سے رِہا ہو کر اپنی سرزمین کو لوٹ آئے