یہوواہ دلوں کو پرکھتا ہے
یہوواہ دلوں کو پرکھتا ہے
”تُم میرے طالب ہو اور زندہ رہو۔“ —عاموس ۵:۴۔
۱، ۲. یہوواہ کس مفہوم میں ”دل پر نظر کرتا ہے“؟
یہوواہ خدا نے سموئیل نبی سے کہا: ”انسان ظاہری صورت کو دیکھتا ہے پر [یہوواہ] دل پر نظر کرتا ہے۔“ (۱-سموئیل ۱۶:۷) لیکن یہوواہ کس طرح ”دل پر نظر کرتا ہے“؟
۲ پاک صحائف میں لفظ ”دل“ اکثر انسان کی شخصیت کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی اس کی خواہشات، سوچ، ترجیحات اور اس کے جذبات۔ لہٰذا، جب بائبل میں کہا گیا ہے کہ یہوواہ دل پر نظر کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ انسان کی ظاہری صورت پر توجہ دینے کی بجائے اُس کی اندرونی کیفیت کو پرکھتا ہے۔
خدا بنیاسرائیل کو پرکھتا ہے
۳، ۴. عاموس ۶:۴-۶ کے مطابق اسرائیل کی سلطنت کے مالی حالات کیسے تھے؟
۳ جب یہوواہ نے اسرائیل کی سلطنت پر نظر ڈالی تو اُس نے اُس کے باشندوں کے دلوں میں کیا پایا؟ عاموس ۶:۴-۶ میں بیان کِیا گیا ہے کہ یہ لوگ ”ہاتھیدانت کے پلنگ پر لیٹتے اور چارپائیوں پر دراز ہوتے“ تھے اور وہ ’گلّہ میں سے برّوں کو اور طویلہ میں سے بچھڑوں کو لے کر کھایا کرتے تھے۔‘ اس کے علاوہ وہ ’اپنے لئے موسیقی کے ساز ایجاد کرتے اور پیالوں میں سے مے پیا کرتے تھے۔‘
۴ شاید آپ ان آیات کو پڑھ کر یہ سوچ رہے ہوں کہ بنیاسرائیل کوئی غلط کام تو نہیں کر رہ رہے تھے۔ وہ بڑے گھروں میں رہتے تھے، ان کے پاس کھانےپینے کی اچھی سی اچھی اشیا تھیں اور وہ عمدہ موسیقی سے لطفاندوز ہوتے تھے۔ ان آیات میں اُن کے ”ہاتھیدانت کے پلنگ“ کا ذکر بھی کِیا گیا ہے۔ اسرائیلی سلطنت کے دارالحکومت سامریہ کے کھنڈرات میں سے کمال کے ہاتھیدانت کے اشیا دریافت کئے گئے ہیں۔ (۱-سلاطین ۱۰:۲۲) غالباً دیواریں اور فرنیچر بھی ہاتھیدانت کے کام سے سجائے گئے تھے۔
۵. عاموس کے زمانے میں یہوواہ اسرائیلیوں سے کیوں ناراض تھا؟
۵ جیہاں، اُس زمانے میں بنیاسرائیل آراموآسائش کی زندگی گزار رہے تھے۔ وہ مزیدار خوراک اور مے کا لطف اُٹھاتے اور دلکش موسیقی سنتے۔ کیا یہوواہ اِس وجہ سے اُن سے ناراض تھا؟ جینہیں۔ درحقیقت یہوواہ ہمیں یہ سب چیزیں افراط سے دیتا ہے تاکہ ہم ان کا لطف اٹھائیں۔ (۱-تیمتھیس ۶:۱۷) یہوواہ اسرائیلیوں سے اس لئے ناراض تھا کیونکہ اُن کے دل صاف نہیں تھے۔ وہ بُری خواہشات رکھتے، خدا کا احترام نہ کرتے اور اپنے ہمسائیوں سے محبت نہیں کرتے تھے۔
۶. عاموس کے زمانے میں اسرائیلی قوم کی روحانی حالت کیا تھی؟
۶ لیکن وہ لوگ جو ’چارپائیوں پر دراز کرتے، گلّہ میں سے برّوں کو کھایا کرتے، مے پیا کرتے اور اپنے لئے موسیقی کے ساز ایجاد کرتے تھے،‘ ان کے آرام کا وقت جلد ختم ہونے والا تھا۔ یہوواہ نے ان سے کہا کہ ’تُم بُرے دن کا خیال ملتوی کرتے ہو۔‘ دراصل اُنہیں اپنی قوم کی روحانی حالت کی وجہ سے پریشان ہونا چاہئے تھا۔ لیکن وہ ’یوؔسف کی شکستہحالی سے غمگین نہیں تھے۔‘ (عاموس ۶:۳-۶) یہوواہ خدا دیکھ رہا تھا کہ یوسف، یعنی بنیاسرائیل بہت مالدار تو تھا لیکن روحانی طور پر اس کی حالت شکستہ تھی۔ اس کے باوجود لوگ فکر کئے بغیر اپنے روزمرّہ کاموں میں مشغول تھے۔ ہمارے زمانے میں بہتیرے لوگ ان اسرائیلیوں کی مانند ہیں۔ اگرچہ دُنیا کے حالات دن بہ دن بگڑ رہے ہیں لیکن لوگ عام طور پر اس بات کو نظرانداز کرتے ہیں۔ بنیاسرائیل کی طرح وہ روحانی باتوں میں بھی کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔
اسرائیلی سلطنت کی بگڑی حالت
۷. خدا کی تنبیہ پر دھیان نہ دینے کی وجہ سے اسرائیلیوں کا کیا انجام ہونا تھا؟
۷ عاموس کی کتاب سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسرائیلی لوگ ٹھاٹ میں زندگی گزارنے کے باوجود درحقیقت بگڑتے حالات کا سامنا کر رہے تھے۔ چونکہ وہ خدا کی تنبیہ پر دھیان نہیں دے رہے تھے اس لئے یہوواہ نے اسوریوں کو اسرائیل پر حملہ کرنے کی اجازت دی۔ جلد ہی اسوری سپاہی اسرائیلیوں کو قیدی بنانے والے تھے۔ تب اسرائیلی اپنے ہاتھیدانت پلنگوں پر آرام کرنے کی بجائے ٹھنڈے فرش پر رات گزارنے پر مجبور ہوں گے۔
۸. اسرائیل کے لوگ روحانی لحاظ سے اتنی بُری حالت کا شکار کیسے بن گئے تھے؟
۸ اسرائیل کے لوگ روحانی لحاظ سے اتنی بُری حالت کا شکار کیسے بن گئے تھے؟ جب ۹۹۷ ق.س.ع. میں بادشاہ سلیمان کا بیٹا رحبعام نے ۱-سلاطین ۱۱:۲۶) یربعام نے اپنی رعایا کو یقین دلایا کہ یہوواہ کی عبادت کرنے کے لئے یروشلیم جانا اُن کے لئے ایک بہت بڑا بوجھ ہوگا۔ لیکن دراصل وہ اپنی حکومت کو مضبوط بنانا چاہتا تھا۔ (۱-سلاطین ۱۲:۲۶) اُسے ڈر تھا کہ اگر لوگ سال بہ سال یہوواہ کی عیدیں منانے کے لئے یروشلیم جائیں گے تو وہ جلد ہی یہوداہ کے بادشاہ کی حمایت کرنے لگیں گے۔ اس لئے یربعام نے سونے کے دو بچھڑے بنائے اور ایک کو بیتایل اور دوسرے کو دان میں کھڑا کر دیا۔ اس طرح اسرائیلی سلطنت میں بچھڑوں کی پوجا عام ہو گئی۔—۲-تواریخ ۱۱:۱۳-۱۵۔
حکومت سنبھالی تو اسرائیل کے دس قبیلے یہوداہ اور بنیمین کے قبیلوں سے علیحدہ ہو گئے۔ ان دس قبیلوں نے اپنے بادشاہ کے طور پر ’نباؔط کے بیٹے‘ یربعام اوّل کو مقرر کِیا۔ (۹، ۱۰. (ا) بادشاہ یربعام اوّل نے کونسی عیدوں کا انتظام کِیا؟ (ب) یہوواہ نے بادشاہ یربعام دوم کے زمانے میں اسرائیل میں منائی جانے والی عیدوں کے بارے میں کیا کہا؟
۹ یربعام نے اس نقلی مذہب کو اصلی روپ دینے کے لئے ایسی عیدوں کا انتظام بھی کِیا جو کئی لحاظ سے اُن عیدوں کی طرح تھیں جو یروشلیم میں منائی جاتی تھیں۔ ۱-سلاطین ۱۲:۳۲ میں لکھا ہے: ”یربعاؔم نے آٹھویں مہینے کی پندرھویں تاریخ کے لئے اُس عید کی طرح جو یہوؔداہ میں ہوتی ہے ایک عید ٹھہرائی اور اُس مذبح کے پاس گیا۔ ایسا ہی اُس نے بیتؔایل میں کِیا۔“
۱۰ یہوواہ کو ان عیدوں سے نفرت تھی کیونکہ یہ جھوٹے مذہب پر مبنی تھیں۔ اُس نے اسرائیلیوں کو عاموس کے ذریعے اس بات سے آگاہ کر دیا۔ عاموس یربعام دوم کے راج کے دوران نبوّت کر رہا تھا جو ۸۴۴ ق.س.ع. میں، یعنی یربعام اوّل کے دَور کے تقریباً ۱۰۰ سال بعد، اسرائیل کا بادشاہ بنا تھا۔ (عاموس ۱:۱) عاموس ۵:۲۱-۲۴ کے مطابق یہوواہ نے کہا: ”مَیں تمہاری عیدوں کو مکروہ جانتا اور ان سے نفرت رکھتا ہوں اور مَیں تمہاری مُقدس محفلوں سے بھی خوش نہ ہوں گا۔ اور اگرچہ تُم میرے حضور سوختنی اور نذر کی قربانیاں گذرانو گے تو بھی مَیں ان کو قبول نہ کروں گا اور تمہارے فربہ جانوروں کی شکرانہ کی قربانیوں کو خاطر میں نہ لاؤں گا۔ تُو اپنے سرود کا شور میرے حضور سے دُور کر کیونکہ مَیں تیرے رباب کی آواز نہ سنوں گا۔ لیکن عدالت کو پانی کی مانند اور صداقت کو بڑی نہر کی مانند جاری رکھ۔“
بنیاسرائیل اور دُنیائےمسیحیت
۱۱، ۱۲. بُتپرست اسرائیلیوں اور دُنیائےمسیحیت میں کونسی مشابہتیں پائی جاتی ہیں؟
۱۱ یہوواہ خدا اسرائیلیوں کے دلوں کو پرکھ رہا تھا۔ اُسے اُن کی نقلی عیدوں سے نفرت تھی اور اُس نے اُن کی قربانیوں کو ردّ کر دیا۔ آجکل بھی خدا کو دُنیائےمسیحیت کے ان تہواروں سے نفرت ہے جو جھوٹے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں، مثلاً کرسمس اور اِیسٹر۔ اس کے برعکس یہوواہ کے سچے پرستار جانتے ہیں کہ راستبازی اور بےدینی میں کوئی میلجول نہیں، اور نہ ہی روشنی اور تاریکی میں کوئی شراکت ہے۔—۲-کرنتھیوں ۶:۱۴-۱۶۔
۱۲ بُتپرست اسرائیلیوں اور دُنیائےمسیحیت کے چرچوں میں اَور بھی مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔ خوشی کی بات ہے کہ دُنیائےمسیحیت کے بعض افراد نے خدا کے کلام کی سچائی قبول کر لی ہے۔ لیکن اس کے زیادہتر افراد اپنے دل میں خدا سے حقیقی محبت نہیں رکھتے۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ اُس کی پرستش ”روح اور سچائی سے“ کرتے کیونکہ خدا صرف اس قسم کی پرستش قبول کرتا ہے۔ (یوحنا ۴:۲۴) اس کے علاوہ دُنیائےمسیحیت کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ’عدالت کو پانی کی مانند اور صداقت کو بڑی نہر کی مانند جاری رکھتے ہیں۔‘ وہ خدا کے اخلاقی معیاروں پر عمل کرنے پر زور نہیں دیتے۔ یہانتک کہ وہ اپنے اراکین کے حرامکاری جیسے سنجیدہ گناہوں کو نظرانداز کرتے ہیں اور بعض چرچوں میں ہمجنسپرستوں کو شادی کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
”نیکی سے محبت رکھو“
۱۳. عاموس ۵:۱۵ کی نصیحت پر عمل کرنے کی اشد ضرورت کیوں ہے؟
۱۳ اپنے سچے پرستاروں سے مخاطب ہوتے ہوئے یہوواہ کہتا ہے کہ ”بدی سے عداوت اور نیکی سے محبت رکھو۔“ (عاموس ۵:۱۵) محبت اور عداوت جیسے جذبات ہمارے دل میں جنم لیتے ہیں۔ لیکن بائبل کہتی ہے کہ ہمارا دل حیلہباز یعنی دھوکاباز ہے۔ اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے دل کی حفاظت کریں۔ (امثال ۴:۲۳؛ یرمیاہ ۱۷:۹) اگر ہم اپنے دل میں بُری خواہشات بٹھا دیتے ہیں تو ہم جلد ہی بدی سے محبت اور نیکی سے عداوت رکھ سکتے ہیں۔ پھر جب ہم ان بُری خواہشات کے نتیجے میں گناہ کریں گے تو ہم خدا کی پسندیدگی سے محروم ہو جائیں گے، چاہے ہم یہوواہ کی خدمت کے لئے کتنا جوش رکھنے کا دکھاوا بھی کریں۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہم یہوواہ کی مدد کے لئے دُعا کرتے رہیں تاکہ ہم ”بدی سے عداوت اور نیکی سے محبت“ رکھنے میں کامیاب رہ سکیں۔
۱۴، ۱۵. (ا) اسرائیل میں کون لوگ نیکی کر رہے تھے، لیکن ان سے کیسا سلوک کِیا جا رہا تھا؟ (ب) آجکل ہم کُلوقتی خادموں کی حوصلہافزائی کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۴ لیکن اسرائیل کے تمام افراد بدی نہیں کر رہے تھے۔ ہوسیع اور عاموس جیسے نبیوں کی مثال لیجئے جو ”نیکی سے محبت“ رکھتے تھے اور خدا کے وفادار رہے۔ یا پھر نذیروں کی مثال پر غور کریں۔ جتنے عرصے تک اُنہوں نے نذیر کے طور پر رہنے کی منت مانی تھی اس تمام عرصے کے لئے وہ انگور کے درخت کی ہر بنائی ہوئی چیز سے، خاص طور پر مے سے پرہیز کرتے۔ (گنتی ۶:۱-۴) یہ نذیر نیک تھے اور خدا کے لئے قربانیاں دینے کو تیار بھی تھے۔ بہتیرے اسرائیلیوں نے ان نذیروں سے کیسا سلوک کِیا؟ عاموس ۲:۱۲ میں اس سلسلے میں یوں بیان کِیا گیا ہے: ”تُم نے نذیروں کو مے پلائی اور نبیوں کو حکم دیا کہ نبوّت نہ کریں۔“ اس سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بنیاسرائیل روحانی طور پر کس حد تک بگڑ چکے تھے۔
۱۵ ان وفادار نذیروں اور نبیوں کی مثال دیکھ کر بدکار اسرائیلیوں کو شرم آنی چاہئے تھی۔ لیکن ان کے اچھے نمونے پر چلنے کی بجائے اسرائیلیوں نے خدا کے وفادار خادموں کو خدا کی تمجید کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔ آجکل ہمارے بعض بہنبھائی پائنیر، مشنری یا سفری نگہبان کے طور پر یا پھر بیتایل میں خدمت کرنے سے خدا کی تمجید کرتے ہیں۔ ہمیں ایسوں کو محض آرام کی زندگی گزارنے کے لئے اپنی کُلوقتی خدمت کو چھوڑنے پر کبھی مجبور نہیں کرنا چاہئے۔ اس کے برعکس ہمیں ان کی حوصلہافزائی کرنی چاہئے تاکہ وہ اپنی خدمت کو جاری رکھ سکیں۔
۱۶. یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ عاموس کے زمانے کی نسبت موسیٰ کے زمانے میں بنیاسرائیل کی حالت کہیں بہتر تھی؟
۱۶ مالدار ہونے کے باوجود عاموس کے زمانے میں بہتیرے اسرائیلی ”خدا کے نزدیک دولتمند نہیں“ تھے۔ (لوقا ۱۲:۱۳-۲۱) اُن لوگوں کے باپدادا ۴۰ سال تک بیابان میں پھرتے رہے تھے۔ اس عرصے کے دوران وہ من ہی سے پیٹ بھرتے تھے۔ ان کے پاس کھانے کے لئے موٹےتازے بچھڑے نہیں تھے اور نہ ہی وہ ہاتھیدانت کے پلنگوں پر آرام کرتے تھے۔ پھر بھی موسیٰ اُن سے کہہ سکتا تھا کہ ”[یہوواہ] تیرا خدا تیرے ہاتھ کی کمائی میں برکت دیتا رہا ہے . . . ان چالیس برسوں میں [یہوواہ] تیرا خدا برابر تیرے ساتھ رہا اور تجھ کو کسی چیز کی کمی نہیں ہوئی۔“ (استثنا ۲:۷) یہ بالکل سچ ہے کہ بیابان میں پھرتے پھرتے اسرائیلیوں کی تمام ضروریات پوری کی گئی تھیں۔ سب سے بڑھکر خدا نے اُن کو محفوظ رکھا اور اُنہیں اپنی محبت اور اپنی برکت سے نوازا۔
۱۷. خدا نے اسرائیلیوں کو مُلکِموعود میں کس وجہ سے پہنچایا تھا؟
۱۷ عاموس کے ذریعے یہوواہ نے اسرائیلیوں کو یاد دلایا کہ اُس نے ہی اُن کے باپدادا کو موعودہ مُلک میں پہنچایا اور اُن کو اُس مُلک کے باشندوں پر فتح بخشی۔ (عاموس ۲:۹، ۱۰) تاہم خدا نے بنیاسرائیل کو مصر سے ملکِموعود میں کس وجہ سے پہنچایا تھا؟ اس لئے تو نہیں کہ وہ وہاں عیشوعشرت کی زندگی گزار کر اپنے خالق کو بھول جائیں۔ یہوواہ یہ چاہتا تھا کہ وہ آزادی میں اُس کی عبادت کر سکیں اور اُس کے لئے ایک پاک قوم بنیں۔ لیکن اسرائیل کے دس قبیلے بدی سے عداوت نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی وہ نیکی سے محبت کرتے تھے۔ وہ یہوواہ خدا کی تمجید کرنے کی بجائے بُتوں کی پوجا کرتے تھے۔ یہ کتنی شرم کی بات تھی!
حساب کا وقت
۱۸. یہوواہ نے ہمیں کس لئے روحانی طور پر آزاد کِیا ہے؟
۱۸ یہوواہ خدا نے اسرائیلیوں کی بُری روش کو نظرانداز نہیں کِیا۔ اُس نے اُن کو صاف صاف بتایا کہ ”مَیں تم کو تمہاری ساری بدکرداری کی سزا دوں گا۔“ (عاموس ۳:۲) آجکل ہمیں اِس آگاہی پر بھی دھیان دینا چاہئے۔ جیسے بنیاسرائیل مصر سے بچ نکلے تھے اِسی طرح ہم بھی روحانی لحاظ سے اس شریر دُنیا سے آزاد ہو گئے ہیں۔ لیکن یہوواہ نے ہمیں یہ آزادی اس لئے نہیں دی تاکہ ہم اپنی خودغرضانہ خواہشات کو پورا کریں۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم ایک پاک قوم کے طور پر خلوصدلی سے اُس کی عبادت کریں۔ ہم اپنی آزادی کو کیسے استعمال کرتے ہیں، اس کا ہمیں اُسی کو حساب دینا پڑے گا جس نے ہمیں یہ آزادی بخشی ہے۔—رومیوں ۱۴:۱۲۔
۱۹. عاموس ۴:۴، ۵ کے مطابق اسرائیل کے زیادہتر باشندے کس قسم کے کام پسند کرتے تھے؟
۱۹ افسوس کی بات ہے کہ اسرائیل کے زیادہتر باشندوں نے عاموس کے پیغام پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ اُن کے دل صاف نہیں تھے۔ عاموس نے اِس بات کو یوں ظاہر کِیا: ”بیتؔایل میں آؤ اور گناہ کرو اور جلجاؔل میں کثرت سے گناہ کرو . . . کیونکہ اَے بنیاسرائیل یہ سب کام تُم کو پسند ہیں۔“ (عاموس ۴:۴، ۵) اسرائیل کے باشندے بُری خواہشات رکھتے تھے۔ اُنہوں نے اپنے دلوں کی حفاظت نہیں کی۔ لہٰذا وہ بدی سے محبت اور نیکی سے عداوت رکھنے لگے۔ وہ بچھڑوں کی پوجا بھی نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ اس لئے یہوواہ نے اُن کا حساب کِیا۔ نتیجتاً اُن کو اپنے گناہوں کی سزا بھگتنی پڑی۔
۲۰. ہم عاموس ۵:۴ پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
۲۰ بداخلاق اسرائیلی معاشرے میں یہوواہ کے وفادار رہنا بہت ہی مشکل تھا۔ لیکن اس کے باوجود اسرائیل میں بعض افراد خدا سے محبت رکھتے تھے اور اُس کی سچی عبادت پر قائم رہے۔ وہ خدا کو خوش کرنا چاہتے تھے۔ ایسے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے یہوواہ نے عاموس ۵:۴ میں فرمایا: ”تُم میرے طالب ہو اور زندہ رہو۔“ آجکل سچے مسیحی بھی ایک شریر دُنیا میں رہ رہے ہیں اور یہ اُن کے لئے آسان نہیں ہے۔ لیکن جب ہم اپنے گناہوں سے توبہ کرتے، خدا کے طالب ہوتے اور اُس کے کلام سے صحیح علم حاصل کرتے ہیں اور پھر اُس کی مرضی پوری بھی کرتے ہیں تو یہوواہ ہمارے ساتھ رحم سے پیش آتا ہے۔ نتیجتاً ہمیں ہمیشہ کی زندگی ملے گی۔—یوحنا ۱۷:۳۔
روحانی قحط کے باوجود ہم سیر ہیں
۲۱. سچی پرستش کو ترک کرنے والے لوگ کس قسم کے قحط کا شکار ہیں؟
۲۱ ان اسرائیلیوں کی کیا حالت تھی جنہوں نے سچی پرستش کو ترک کر دیا تھا؟ وہ روحانی طور پر شدید قحط کا شکار تھے۔ یہوواہ خدا نے ان کے بارے میں فرمایا: ”دیکھو وہ دن آتے ہیں کہ مَیں اس مُلک میں قحط ڈالوں گا۔ نہ پانی کی پیاس اور نہ روٹی کا قحط بلکہ [یہوواہ] کا کلام سننے کا۔“ (عاموس ۸:۱۱) آجکل دُنیائےمسیحیت بھی اِس قسم کے قحط کا شکار ہے۔ لیکن اُن ہی میں ایسے صافدل لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو خدا کے لوگوں کی افراط کو دیکھ کر یہوواہ کی تنظیم میں آ رہے ہیں۔ دُنیائےمسیحیت اور سچے مسیحیوں کی روحانی حالت میں کتنا فرق ہے، یہ یہوواہ کے اِن الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے: ”دیکھو میرے بندے کھائیں گے پر تُم بھوکے رہو گے۔ میرے بندے پئیں گے پر تُم پیاسے رہو گے۔ میرے بندے شادمان ہوں گے پر تُم شرمندہ ہوگے۔“—یسعیاہ ۶۵:۱۳۔
۲۲. ہم شادمان کیوں ہو سکتے ہیں؟
۲۲ کیا ہم یہوواہ کے خادموں کے طور پر ان تمام ذریعوں کی قدر کرتے ہیں جن سے یہوواہ ہمیں روحانی خوراک اور برکتیں بخشتا ہے؟ ہمارے پاس بائبل اور مسیحی مطبوعات ہیں اور ہمیں اجلاسوں، اسمبلیوں اور کنونشنوں پر تعلیم دی جاتی ہے۔ اس وجہ سے ہم خدا کے کلام کی تہہ کی باتوں کو سمجھ سکتے ہیں، جیسا کہ عاموس نبی کی اس پیشینگوئی کو۔ کیا ہمارا دل ان تمام اچھی باتوں سے شادمان نہیں ہوتا؟
۲۳. خدا کی تمجید کرنے والے کن اچھی چیزوں سے نوازے جا رہے ہیں؟
۲۳ اس دور میں شاید ہم مشکل سے اپنا گزارہ کر رہے ہوں اور ہمیں طرح طرح کی آزمائشوں کا سامنا بھی ہو۔ لیکن اگر ہم خدا سے محبت رکھتے ہیں اور اُس کی تمجید کرتے ہیں تو ہم عاموس کی نبوّت کی بِنا پر اُمید باندھ سکتے ہیں۔ یہوواہ ہمیں اپنی برکت سے نوازتا ہے اور ہمیں بہترین روحانی خوراک کثرت سے فراہم کرتا ہے۔ (امثال ۱۰:۲۲؛ متی ۲۴:۴۵-۴۷) اس لئے ہمیں یہوواہ خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے جو ہمارے فائدے کے لئے سب اچھی چیزیں افراط سے بخشتا ہے۔ واقعی یہوواہ خدا دلوں کو پرکھنے والا ہے۔ اُس کے طالب ہونے سے ہمیں ہمیشہ تک اُس کی تمجید کرنے کا شاندار موقع ملے گا۔
آپ کیا جواب دیں گے؟
• عاموس کے زمانے میں بنیاسرائیل روحانی طور پر کس حالت میں تھے؟
• اسرائیل کے دس قبیلوں اور دُنیائےمسیحیت میں کونسی مشابہتیں پائی جاتی ہیں؟
• دُنیا کس قسم کے قحط کا شکار ہے، لیکن کون لوگ سیر ہو رہے ہیں؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۲۱ پر تصویریں]
بہت سے اسرائیلی ٹھاٹ میں زندگی گزار رہے تھے لیکن درحقیقت وہ روحانی طور پر غریب تھے
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
کُلوقتی خادموں کی حوصلہافزائی کریں تاکہ وہ اپنی خدمت کو جاری رکھ سکیں
[صفحہ ۲۵، ۲۵ پر تصویریں]
یہوواہ کے لوگ روحانی قحط کا شکار نہیں ہیں