مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ صحیح اور غلط کا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

آپ صحیح اور غلط کا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

آپ صحیح اور غلط کا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

صحیح اور غلط کی بابت معیار قائم کرنے کا اختیار کسے حاصل ہے؟‏ یہ سوال انسانی تاریخ کے آغاز ہی میں اُٹھایا گیا تھا۔‏ بائبل کی کتاب پیدایش کے مطابق خدا نے باغِ‌عدن میں اُگنے والے ایک درخت کو ”‏نیک‌وبد کی پہچان کا درخت“‏ کہا تھا۔‏ (‏پیدایش ۲:‏۹‏)‏ خدا نے پہلے انسانی جوڑے کو اس درخت کا پھل کھانے سے منع کِیا۔‏ تاہم،‏ خدا کے دُشمن شیطان نے انہیں کہا اگر وہ اس درخت کا پھل کھائینگے تو انکی آنکھیں ”‏کُھل جائینگی“‏ اور وہ ”‏خدا کی مانند نیک‌وبد کے جاننے والے“‏ بن جائینگے۔‏—‏پیدایش ۲:‏۱۶،‏ ۱۷؛‏ ۳:‏۱،‏ ۵؛‏ مکاشفہ ۱۲:‏۹‏۔‏

آدم اور حوا کو ایک فیصلہ کرنا تھا۔‏ کیا وہ نیکی اور بدی کے سلسلے میں خدا کے معیاروں کو قبول کرینگے یا اپنے قائم‌کردہ معیاروں پر چلینگے؟‏ (‏پیدایش ۳:‏۶‏)‏ اُنہوں نے خدا کی نافرمانی کرنے اور اُسی درخت کا پھل کھانے کا انتخاب کِیا۔‏ اس چھوٹے سے کام نے کیا ظاہر کِیا؟‏ خدا نے ان کیلئے جو حد ٹھہرائی تھی اُنہوں نے اسکا احترام نہ کِیا۔‏ اُنہوں نے دعویٰ کِیا کہ وہ اور اُنکی اولاد اپنے لئے صحیح اور غلط کی بابت خود ہی معیار قائم کرنے سے فائدے میں رہینگے۔‏ جو کام خدا کے اختیار میں تھا اُسے خود کرنے میں انسان کسقدر کامیاب رہا ہے؟‏

مختلف رائے

انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا بیان کرتا ہے کہ یونانی فلاسفر سقراط کے وقت سے لیکر ۲۰ ویں صدی تک ”‏نیکی کی تشریح پر اور صحیح اور غلط کے معیار پر کتنی بار بحث کی گئی ہے۔‏“‏

مثال کے طور پر،‏ پانچویں صدی ق.‏س.‏ع.‏ میں یونانی اساتذہ کا ایک ممتاز گروہ فلاسفروں پر مشتمل تھا۔‏ اُنہوں نے تعلیم دی کہ صحیح اور غلط کے معیاروں کا فیصلہ اکثریت کی رائے سے ہوتا ہے۔‏ ایسے ہی ایک اُستاد نے کہا:‏ ”‏ہر شہر کو جوکچھ اچھا اور بھلا معلوم ہوتا ہے وہ اُس شہر کیلئے ٹھیک ہے تاوقتیکہ وہ شہر اُسے ٹھیک سمجھتا ہے۔‏“‏ جوڈی جسکا ذکر پچھلے مضمون میں کِیا گیا ہے کیا اُسے اس معیار کے مطابق پیسے لینے چاہئے تھے کیونکہ اسکے ”‏آس‌پڑوس“‏ کے اکثر لوگوں نے ایسا ہی کِیا ہوتا۔‏

ایک مشہور فلاسفر عمانوایل کانت نے ۱۸ ویں صدی میں ایک مختلف نظریے کا اظہار کِیا۔‏ ایک رسالہ جسکا نام ایشوز ان ایتھکس ہے بیان کرتا ہے:‏ ”‏عمانوایل کانت اور اسی طرح کے دوسرے فلاسفروں نے .‏ .‏ .‏ اشخاص کے حق پر توجہ دلائی کہ ہر شخص کو اپنے لئے انتخاب کرنے کا حق حاصل ہے۔‏“‏ کانت کے نظریے کے مطابق،‏ جوڈی پیسے لینے سے دوسروں کا حق نہیں مار رہا ہوتا۔‏ وہ جوکچھ بھی کرتا وہ خود اسکا ذمہ‌دار ہوتا۔‏ اُسے اکثریت کی رائے کو اپنے لئے معیاروں کا فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔‏

پھر جوڈی کا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟‏ اُس نے تیسرا انتخاب کِیا۔‏ اس نے یسوع مسیح کی تعلیمات پر عمل کِیا جسکے اخلاقی معیاروں کی تعریف مسیحیوں اور غیرمسیحیوں نے کی ہے۔‏ یسوع نے تعلیم دی:‏ ”‏پس جوکچھ تُم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں وہی تُم بھی اُنکے ساتھ کرو۔‏“‏ (‏متی ۷:‏۱۲‏)‏ جب جوڈی نے ۸۲ ہزار ڈالر (‏۰۰۰،‏۳۸،‏۴۸ روپے)‏ اس خاتون کو واپس کر دئے تو وہ بہت حیران ہوئی۔‏ جب جوڈی سے پوچھا گیا کہ اُس نے پیسے کیوں نہیں رکھے تو اُس نے بیان کِیا کہ وہ یہوواہ خدا کا پرستار ہے۔‏ اس نے مزید کہا:‏ ”‏یہ میرے پیسے نہیں تھے۔‏“‏ جوڈی نے یسوع کی بات پر سنجیدگی سے غور کِیا جو بائبل میں متی ۱۹:‏۱۸ میں درج ہے:‏ ”‏چوری نہ کر۔‏“‏

کیا اکثریت کی رائے قابلِ‌اعتماد راہنمائی ہے؟‏

بعض لوگ جوڈی کو ایسی دیانتداری دکھانے پر بیوقوف خیال کرینگے۔‏ لیکن اکثریت کی رائے قابلِ‌اعتماد راہنمائی نہیں ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ماضی میں چند ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے بچوں کو قربان کر دیتے تھے۔‏ اگر آپ اُس وقت ہوتے تو کیا آپ اس کام کو جائز قرار دیتے؟‏ (‏۲-‏سلاطین ۱۶:‏۳‏)‏ اگر آپ ایسے معاشرے میں پیدا ہوئے ہوتے جہاں آدم‌خوری کو نیک کام سمجھا جاتا ہے تو آپکا ردِعمل کیا ہوتا؟‏ کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کا گوشت کھانا صحیح ہے؟‏ کیا کسی کام کی مقبولیت اُسے درست بنا دیتی ہے؟‏ کافی عرصہ پہلے ہی بائبل نے اس پھندے کے خلاف آگاہ کر دیا تھا۔‏ اس نے بیان کِیا:‏ ”‏بُرائی کرنے کیلئے کسی بِھیڑ کی پیروی نہ کرنا۔‏“‏—‏خروج ۲۳:‏۲‏۔‏

صحیح اور غلط کے سلسلے میں اکثریت کی رائے اپنانے کی بابت یسوع مسیح نے محتاط رہنے کی ایک اَور وجہ بیان کی۔‏ اس نے شیطان کو ”‏دُنیا کا سردار“‏ کہا۔‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۳۰؛‏ لوقا ۴:‏۶‏)‏ شیطان نے اپنے اختیار کو ”‏سارے جہان کو گمراہ“‏ کرنے کیلئے استعمال کِیا ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۹‏)‏ لہٰذا،‏ اگر آپ درست اور غلط کے سلسلے میں اکثریت کی رائے کو اپنا معیار بناتے ہیں تو آپ اخلاقیات کے سلسلے میں شیطان کے نظریے کو اَپنا رہے ہونگے اور جسکا نتیجہ تباہ‌کُن ہو سکتا ہے۔‏

کیا آپ اپنی عقل پر بھروسا کر سکتے ہیں؟‏

کیا ہر شخص کو اپنے لئے خود فیصلہ کرنا چاہئے کہ اُس کیلئے کیا اچھا ہے اور کیا بُرا؟‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔‏“‏ (‏امثال ۳:‏۵‏)‏ کیوں نہیں؟‏ اسلئےکہ سب انسانوں میں ایک بنیادی نقص پایا جاتا ہے جو انکی عقل کو بگاڑ سکتا ہے۔‏ جب آدم اور حوا نے خدا کے خلاف بغاوت کی تو اُنہوں نے خودغرض اور دغاباز شیطان کے معیاروں کو اَپناتے ہوئے اسے اپنا روحانی باپ بنا لیا تھا۔‏ اسکے بعد اُنہوں نے یہ خصلت اپنی اولاد میں منتقل کر دی۔‏ ان میں ایسا لاعلاج دل پایا جاتا ہے جو درست بات کو پہچاننے کی صلاحیت تو رکھتا ہے لیکن غلط کام کرنے کی طرف مائل ہے۔‏—‏پیدایش ۶:‏۵؛‏ رومیوں ۵:‏۱۲؛‏ ۷:‏۲۱-‏۲۴‏۔‏

اخلاقیات پر بات کرتے ہوئے انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا بیان کرتا ہے:‏ ”‏اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ لوگ اس بات سے واقف ہونے کے باوجود کہ انہیں اخلاقی لحاظ سے کیا کرنا چاہئے اپنے مفاد کیلئے کام کرتے ہیں۔‏ ایسے لوگوں کو درست کام کرنے کیلئے کیا مشورہ دیا جائے۔‏ یہ مغربی دُنیا میں ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔‏“‏ بائبل بالکل درست بیان کرتی ہے:‏ ”‏دل سب چیزوں سے زیادہ حیلہ‌باز اور لاعلاج ہے۔‏ اُسکو کون دریافت کر سکتا ہے؟‏“‏ (‏یرمیاہ ۱۷:‏۹‏)‏ کیا آپ حیلہ‌باز اور لاعلاج شخص پر بھروسا کرینگے؟‏

اگرچہ ایسے اشخاص موجود ہیں جو خدا کو نہیں مانتے توبھی ان میں اخلاقی اعتبار سے درست کام کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔‏ وہ مفید اور اچھے اخلاقی ضابطوں کو پیدا کرتے ہیں۔‏ تاہم،‏ انکے ضابطوں میں پائے جانے والے شاندار اصول اکثر بائبل معیاروں کو ظاہر کرتے ہیں۔‏ اگرچہ ایسے اشخاص خدا کے وجود سے منکر ہیں توبھی انکے نظریات ظاہر کرتے ہیں کہ ان میں خدا کی شخصیت کو ظاہر کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔‏ یہ بات بائبل کی اس حقیقت کو سچ ثابت کرتی ہے کہ انسان کو ”‏خدا کی صورت“‏ پر پیدا کِیا گیا ہے۔‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۷؛‏ اعمال ۱۷:‏۲۶-‏۲۸‏)‏ پولس رسول نے کہا:‏ ”‏وہ شریعت کی باتیں اپنے دِلوں پر لکھی ہوئی“‏ دکھاتے ہیں۔‏—‏رومیوں ۲:‏۱۵‏۔‏

بیشک،‏ درست بات کو جاننا ایک بات ہے اور جو کچھ درست ہے اُسے عمل میں لانے کی اخلاقی قوت رکھنا بالکل فرق بات ہے۔‏ کوئی شخص کیسے ایسی اخلاقی قوت پیدا کر سکتا ہے؟‏ عمل کرنے کی تحریک دل سے ملتی ہے اسلئے اپنے اندر بائبل کے مصنف یہوواہ خدا کی محبت پیدا کرنا ایک شخص کی ایسی قوت پیدا کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔‏—‏زبور ۲۵:‏۴،‏ ۵‏۔‏

نیک کام کرنے کی طاقت حاصل کرنا

خدا کی محبت کو سمجھنے کیلئے پہلا قدم اس بات کو دریافت کرنا ہے کہ اسکے حکم کسقدر معقول اور عملی ہیں۔‏ یوحنا رسول نے بیان کِیا:‏ ”‏خدا کی محبت یہ ہے کہ ہم اُسکے حکموں پر عمل کریں اور اُسکے حکم سخت نہیں۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۳‏)‏ بائبل میں ایسی عملی مشورت پائی جاتی ہے جو نوجوانوں کی مدد کر سکتی ہے کہ صحیح اور غلط میں امتیاز کر سکیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ جب شراب‌نوشی،‏ منشیات کا استعمال کرنے یا شادی سے پہلے جنسی تعلقات قائم کرنے کی بات آتی ہے تو انہیں کیا فیصلہ کرنا چاہئے۔‏ بائبل شادی‌شُدہ جوڑوں کی اختلافات کو نپٹانے میں مدد کرتی اور والدین کو بچوں کی پرورش کرنے کے سلسلے میں بھی راہنمائی فراہم کرتی ہے۔‏ * جب بائبل کے اخلاقی معیاروں پر عمل کِیا جاتا ہے تو نوجوان اور عمررسیدہ اشخاص فائدہ اُٹھاتے ہیں۔‏ خواہ انکا معاشرتی پس‌منظر کوئی بھی ہو،‏ انکی تعلیم یا تہذیب کتنی فرق کیوں نہ ہو۔‏

جیسے غذائیت‌بخش کھانا آپکو طاقت بخشتا ہے اسی طرح خدا کے کلام کی پڑھائی کرنا آپکو خدا کے معیاروں کے مطابق زندگی بسر کرنے کی طاقت دیتا ہے۔‏ یسوع نے خدا کی باتوں کو زندگی‌بخش روٹی سے تشبِیہ دی۔‏ (‏متی ۴:‏۴‏)‏ اس نے یہ بھی کہا:‏ ”‏میرا کھانا یہ ہے کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے موافق عمل کروں۔‏“‏ (‏یوحنا ۴:‏۳۴‏)‏ خدا کے کلام سے روحانی خوراک حاصل کرتے رہنے سے یسوع کی مدد ہوئی کہ آزمائشوں کی مزاحمت کرے اور درست فیصلے کر سکے۔‏—‏لوقا ۴:‏۱-‏۱۳‏۔‏

شروع شروع میں،‏ آپ خدا کے کلام سے روحانی خوراک حاصل کرنا اور اسکے معیاروں کو اَپنانا مشکل پائینگے۔‏ لیکن یاد کریں کہ جب آپ چھوٹے تھے تو آپکو ایسے کھانوں کا ذائقہ اچھا نہیں لگتا تھا جو آپ کیلئے صحت‌بخش تھے۔‏ مضبوط بننے کیلئے آپکو سیکھنا پڑا کہ ایسی صحت‌بخش خوراک کسطرح مزے مزے سے کھائی جا سکتی ہے۔‏ اسی طرح آپکو خدا کے معیاروں کے لئے لگن پیدا کرنے میں بھی تھوڑا وقت لگے گا۔‏ اگر آپ مستقل کوشش کریں تو آپ ان معیاروں سے محبت کرنے لگیں گے اور آپ روحانی طور پر مضبوط ہو جائینگے۔‏ (‏زبور ۳۴:‏۸؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۵-‏۱۷‏)‏ آپ یہوواہ پر توکل کرنا سیکھ جائینگے اور ’‏نیکی کرنے‘‏ کی حوصلہ‌افزائی پائینگے۔‏—‏زبور ۳۷:‏۳‏۔‏

شاید آپ کبھی ایسی صورتحال کا سامنا نہ کریں جسکا سامنا جوڈی نے کِیا تھا۔‏ تاہم،‏ ہر روز آپکو چھوٹے بڑے اخلاقی فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔‏ لہٰذا،‏ بائبل آپکو تاکید کرتی ہے:‏ ”‏سارے دل سے [‏یہوواہ]‏ پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔‏ اپنی سب راہوں میں اُسکو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کریگا۔‏“‏ (‏امثال ۳:‏۵،‏ ۶‏)‏ یہوواہ پر توکل کرنے سے آپ نہ صرف اس وقت فائدہ اُٹھائینگے بلکہ آپکو ہمیشہ تک زندہ رہنے کا موقع بھی حاصل ہوگا۔‏ یہوواہ خدا کی فرمانبرداری کی راہ ہمیشہ کی زندگی کا باعث بنتی ہے۔‏—‏متی ۷:‏۱۳،‏ ۱۴‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 18 ایسے بہت سارے اہم موضوعات پر بائبل سے عملی مشورت خاندانی خوشی کا راز اور انگریزی میں کوسچنز ینگ پیپل آسک—‏آنسرز دیٹ ورک جیسی کتابوں میں پائی جاتی ہے جنہیں یہوواہ کے گواہوں نے شائع کِیا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۶ پر عبارت]‏

اکثریت کی رائے کے پیچھے شیطان ہو سکتا ہے

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر]‏

صدیوں سے مفکرین نے صحیح اور غلط کے مسئلے پر بحث کی ہے

سقراط

کانت

کنفیوشس

‏[‏تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

Kant: From the book

‏;The Historian‎’s History of the World

Socrates: From the book

A General History for Colleges

‏;and High Schools

Confucius: Sung Kyun Kwan

University, Seoul, Korea

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویریں]‏

بائبل نہ صرف صحیح اور غلط کو سمجھنے میں مدد کرتی ہے بلکہ صحیح کام کرنے کی حوصلہ‌افزائی بھی کرتی ہے