یہوواہ کی فکرمندی پر توکل کرنا
میری کہانی میری زبانی
یہوواہ کی فکرمندی پر توکل کرنا
از اینا ڈینز ٹرپن
میری والدہ نے مسکرا کر کہا، ”تُم سوال بہت پوچھتی ہو!“ جب مَیں چھوٹی تھی تو ہر وقت اپنے والدین سے سوال کرتی رہتی تھی۔ لیکن میرے معصوم تجسّس سے میرے والدین کبھی اُکتاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔ بلکہ اُنہوں نے مجھے استدلال کرنا اور بائبل سے تربیتیافتہ اپنے ضمیر کی مدد سے فیصلے کرنا سکھایا۔ یہ تربیت کسقدر گراںبہا ثابت ہوئی! جب مَیں ۱۴ برس کی تھی تو نازیوں نے میرے پیارے والدین کو مجھ سے جُدا کر دیا اور مَیں پھر کبھی اُن سے نہ مل سکی۔
میرے والد آسکر ڈینز اور میری والدہ اینا ماریا سوس بارڈر کے قریب واقع ایک جرمن شہر میں رہتے تھے۔ جب وہ جوان تھے تو سیاست میں بڑھچڑھ کر حصہ لیتے تھے اور اُنکے علاقے کے لوگ اُنکی بہت عزت کرتے تھے۔ لیکن ۱۹۲۲ میں، اپنی شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد میرے والدین نے سیاست اور زندگی میں اپنے مقاصد کی بابت اپنا نظریہ بدل لیا۔ میری والدہ نے بائبل سٹوڈنٹس کیساتھ جنہیں اب یہوواہ کے گواہ کہتے ہیں بائبل مطالعہ شروع کر دیا اور وہ یہ جان کر بہت خوش تھی کہ خدا کی بادشاہی زمین پر امنوسلامتی لائیگی۔ جلد ہی میرے والد نے بھی بائبل سٹوڈنٹس کے اجلاسوں پر حاضر ہونا شروع کر دیا۔ اُس سال کرسمس کے موقع پر میرے والد نے میری والدہ کو ایک بائبل سٹڈی کتاب، دی ہارپ آف گاڈ بھی دی۔ اُنکی اکلوتی اولاد یعنی مَیں مارچ ۲۵، ۱۹۲۳ میں پیدا ہوئی۔
اپنی خاندانی زندگی کی بابت میرے پاس بہت سی خوشگوار یادیں ہیں جن میں موسمِگرما میں سیروتفریح کیلئے جانا اور ماں سے گھریلو کامکاج کی تربیت حاصل کرنا شامل ہے! مجھے
ابھی تک یاد ہے کہ وہ کیسے کچن میں کھڑی ہوکر مجھے کھانا پکانے کی تربیت دیتی تھی۔ سب سے اہم بات جو میرے والدین نے مجھے سکھائی وہ یہوواہ خدا سے محبت رکھنا اور اُس پر توکل کرنا ہے۔ہماری کلیسیا ۴۰ سرگرم بادشاہتی مُنادوں پر مشتمل تھی۔ میرے والدین دوسروں کو بادشاہتی پیغام کی طرف مائل کرنے کے ماہر تھے۔ اپنی سابقہ فلاحی سرگرمیوں کی وجہ سے اُنہیں دوسروں کیساتھ باتچیت کرنے میں مشکل پیش نہیں آتی تھی اور لوگ بھی اُنہیں بہت پسند کرتے تھے۔ جب مَیں سات برس کی ہوئی تو گھرباگھر مُنادی کرنا چاہتی تھی۔ پہلے دن میرے ساتھ کام کرنے والی بہن نے مجھے کچھ لٹریچر دیا اور ایک گھر کی طرف اشارہ کرکے کہا: ”جاؤ اور دیکھو اگر وہ لٹریچر لینا چاہتے ہیں۔“ سن ۱۹۳۱ میں، ہم بیزل، سوئٹزرلینڈ میں بائبل سٹوڈنٹس کے ایک کنونشن پر حاضر ہوئے۔ وہیں میرے والدین نے بپتسمہ لیا۔
افراتفری سے جابرانہ حکومت تک
اُن دنوں جرمنی میں سخت افراتفری کا عالم تھا اور مختلف سیاسی گروہوں میں لڑائی جھگڑے ہو رہے تھے۔ ایک رات پڑوس میں چیخوپکار سُن کر میری آنکھ کھل گئی۔ دو نوعمر لڑکوں نے نیزے سے اپنے بھائی کو قتل کر دیا تھا کیونکہ وہ اُسکے سیاسی نظریات سے متفق نہیں تھے۔ یہودیوں کے خلاف رقابت بھی زوروں پر تھی۔ سکول میں ایک لڑکی کو محض اسلئے کونے میں اکیلے کھڑا کر دیا جاتا تھا کیونکہ وہ یہودی تھی۔ مجھے اُس پر بہت ترس آتا تھا، مجھے معلوم نہیں تھا کہ بہت جلد مَیں خود بھی ایسی ہی محرومی کا نشانہ بننے والی تھی۔
جنوری ۳۰، ۱۹۳۳ میں، ایڈولف ہٹلر جرمنی کا سربراہ بن گیا۔ اپنے گھر سے کچھ ہی دُور ہم دیکھ سکتے تھے کہ نازی بڑے فخر کیساتھ سرکاری عمارت پر اپنی پارٹی کا جھنڈا لہرا رہے تھے۔ سکول میں ہمارے اُستاد نے ہمیں سکھایا کہ ہم ”ہائیل ہٹلر!“ کا نعرہ کیسے لگائینگے۔ گھر واپس آکر مَیں نے اپنے والد کو اسکی بابت بتایا۔ وہ بہت پریشان ہو گئے اور کہنے لگے، ”یہ سب ٹھیک نہیں۔ ’ہائیل‘ کا مطلب ہے نجات۔ اگر ہم ’ہائیل ہٹلر‘ کہتے ہیں تو اسکا مطلب ہوگا کہ ہم یہوواہ کی بجائے ہٹلر کو نجات دینے والا بنا رہے ہیں۔ میرے خیال میں یہ ٹھیک بات نہیں۔ لیکن آپکو خود اپنے لئے فیصلہ کرنا ہوگا کہ آپ کیا کرینگی۔“
اب چونکہ مَیں نے ہٹلر کو تعظیم نہ دینے کا فیصلہ کِیا تھا تو میرے ہمجماعت مجھ سے نفرت کرنے لگے۔ اساتذہ کی غیرموجودگی میں بعض لڑکے مجھے مارتے بھی تھے۔ پس اُنہوں نے مجھ سے دوستی ختم کر دی اور
بعض نے تو بتایا کہ اُنکے والدین نے اُنہیں میرے ساتھ کھیلنے سے بھی منع کِیا ہے کیونکہ میری وجہ سے وہ بھی مشکل میں پڑ سکتی تھیں۔جرمنی میں نازیوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد، اُنہوں نے یہوواہ کے گواہوں کو مُلک کیلئے خطرہ خیال کرتے ہوئے اُنکے کام پر پابندی لگا دی۔ ایک سخت نازی افسر نے میگڈیبرگ میں بیتایل کو بند کر دیا اور ہمارے اجلاسوں پر پابندی لگا دی۔ کیونکہ ہم لوگ سرحد کے بالکل قریب رہتے تھے اسلئے میرے والد نے بیزل جانے کی اجازت حاصل کر لی جہاں ہم اتوار کے اجلاس پر حاضر ہونے لگے۔ وہ اکثر یہ کہتے تھے کہ کاش ہمارے جرمنی کے بھائی بھی ایسی روحانی خوراک حاصل کر سکتے تاکہ اُنہیں مستقبل میں آنے والے حالات کا دلیری سے مقابلہ کرنے میں مدد مل سکے۔
پُرخطر سفر
میگڈیبرگ میں بیتایل کے بند ہو جانے کے بعد جولیس ریفل واپس اپنے آبائی گھر چلا گیا تاکہ وہاں سے خفیہ طور پر مُنادی کرنے کے کام کا بندوبست بنا سکے۔ میرے والد نے بھی مدد کرنے کی پیشکش کی۔ اُس نے میری والدہ کو اور مجھے اپنے پاس بیٹھا کر سمجھایا کہ مَیں نے سوئٹزرلینڈ سے جرمنی بائبل لٹریچر لانے میں مدد کرنے کی حامی بھر لی ہے۔ یہ کام انتہائی خطرناک تھا اور کسی بھی وقت میرے والد کو گرفتار کِیا جا سکتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ ہم کسی قسم کا دباؤ محسوس کریں کیونکہ یہ ہمارے لئے مشکل صورتحال ہو سکتی ہے۔ ماں نے فوراً جواب دیا کہ ”مَیں تمہارے ساتھ ہوں۔“ پھر اُن دونوں نے میری طرف دیکھا اور مَیں نے کہا، ”مَیں بھی آپ لوگوں کیساتھ ہوں۔“
ماں نے مینارِنگہبانی رسالے کے سائز کے پرس بنائے۔ وہ پرس کے ایک طرف رسالہ ڈال کر اُسے سلائی کر دیتی تھی۔ اُس نے والد کے کپڑوں اور زیرجاموں میں کچھ خفیہ جیبیں بنا دیں جن میں وہ چھوٹی چھوٹی بائبل کی امدادی کتابیں ڈال سکتے تھے۔ ہر بار جب ہم اپنا لٹریچر لیکر خیریت سے گھر پہنچتے تو سکون کا سانس لیتے اور یہوواہ کا شکر ادا کرتے تھے۔ ہم اپنے گھر کے اُوپر والے حصے میں لٹریچر چھپاتے تھے۔
شروع شروع میں تو نازیوں کو ہم پر کسی قسم کا شک نہ ہوا۔ اُنہوں نے نہ تو ہم سے سوال جواب کئے اور نہ ہی ہمارے گھر کی تلاشی لی۔ تاہم، ہم نے فیصلہ کِیا کہ اپنے روحانی بھائیوں کو خطرے سے آگاہ کرنے کیلئے ہم ۴۷۱۱ کے عدد کو خفیہ کوڈ کے طور پر استعمال کرینگے جوکہ ایک مشہور عطر کا نام ہے۔ اگر ہمارے گھر آنا خطرے کا باعث ہوگا تو ہم کسی نہ کسی طرح اس خفیہ کوڈ کے ذریعے اُنہیں آگاہ کرینگے۔ والد نے اُنہیں یہ بھی کہا کہ ہمارے گھر آنے سے پہلے ہمارے کمرے کی کھڑکی کی طرف ضرور دیکھیں۔ اگر بائیں جانب کی کھڑکی کھلی ہے تو سمجھ لیں کہ کچھ گڑبڑ ہے اسلئے قریب آنے سے گریز کریں۔
سن ۱۹۳۶ اور ۱۹۳۷ میں، جرمن خفیہ پولیس (گسٹاپو) نے بڑی تعداد میں گرفتاریاں شروع کر دیں اور ہزاروں گواہوں کو قیدخانوں اور مرکزِاسیران میں ڈال دیا جہاں اُنہیں سخت اذیت دی گئی۔ برن سوئٹزرلینڈ میں برانچ آفس نے انکی بابت معلومات حاصل کرنا شروع کیں
جن میں ایسے بھائیوں کی بابت معلومات بھی تھیں جنہیں کیمپوں میں سے سمگل کر دیا گیا تھا۔ سرحد پار بیزل میں رپورٹس پہنچانے کا مشکل کام ہم نے اپنے سر لے لیا۔ اگر نازی ہمیں ان دستاویزات کیساتھ رنگے ہاتھوں پکڑ لیتے تو ہمیں فوراً گرفتار کِیا جا سکتا تھا۔ بھائیوں کو دی جانے والی اذیت کی بابت پڑھ کر مَیں بہت روئی۔ مگر مَیں خوفزدہ نہ ہوئی۔ مجھے پورا یقین تھا کہ یہوواہ خدا، میرے والدین اور دوست سب میری فکر رکھتے ہیں۔چودہ برس کی عمر میں مَیں نے سکول کی تعلیم مکمل کر لی اور ایک یارڈوئر سٹور میں کلرک کی نوکری کرنے لگی۔ عموماً ہم ہر پندرہ دن بعد ہفتے کی دوپہر یا اتوار کو جب میرے والد کی چھٹی ہوتی تھی لٹریچر لیکر جایا کرتے تھے۔ دیگر خاندانوں کی طرح ایسا لگتا تھا کہ ہم محض تفریح کیلئے جا رہے ہیں اور تقریباً چار سال تک سرحد پر موجود گارڈز نے نہ تو ہمیں روکا اور نہ ہی ہماری تلاشی لی۔ آخر فروری ۱۹۳۸ میں، وہ دن آ ہی گیا۔
پتہ چل گیا!
مجھے اپنے والد کا چہرہ کبھی نہیں بھولتا جب ہم ایک دن بیزل کے قریب لٹریچر حاصل کرنے کی جگہ پہنچے اور وہاں بڑی تعداد میں لٹریچر موجود تھا۔ ہم سے پہلے لٹریچر لیکر نکلنے والے خاندان کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور ہمارے پاس بھی بڑی تعداد میں کتابیں تھیں۔ سرحد پر کسٹم آفیسر نے ہمیں گھورا اور تلاشی کا حکم دیا۔ کتابیں پاکر وہ ہمیں پولیس آفیسر کے پاس لے گیا۔ جب وہ ہمیں قیدخانہ لے جا رہے تھے تو میرے والد نے میرا ہاتھ پکڑ کر میرے کان میں آہستہ سے کہا: ”غداری نہ کرنا۔ کچھ مت بتانا!“ مَیں نے اُنہیں یقین دلایا کہ مَیں ایسا نہیں کرونگی۔ جب ہم وہاں پہنچے تو وہ میرے والد کو الگ لے گئے یہ وہ آخری وقت تک جب مَیں نے اپنے والد کو دیکھا۔
چار گھنٹوں تک جرمن سپاہی مجھ سے سوال جواب کرتے رہے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ مَیں اُنہیں دوسرے گواہوں کے نام اور پتے بتاؤں۔ جب مَیں مستقل انکار کرتی رہی تو ایک افسر بہت غصے میں آ گیا اور اُس نے مجھے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ”ہمارے پاس تفتیش کے اَور بھی بہت سے طریقے ہیں!“ اس سب کے باوجود مَیں نے اپنا مُنہ بند رکھا۔ اسکے بعد وہ مجھے اور میری والدہ کو واپس گھر لے گئے اور پہلی بار گھر کی مکمل تلاشی لی گئی۔ وہ میری ماں کو بھی گرفتار کرکے لے گئے اور مجھے میری خالہ کے گھر چھوڑ دیا کیونکہ اُنہیں معلوم نہیں تھا کہ وہ بھی گواہ ہے۔ اگرچہ مجھے کام پر جانے کی اجازت تھی مگر مجھ پر نگرانی کرنے کیلئے چار جرمن سپاہی ہمارے گھر کے سامنے بیٹھے رہتے تھے اور ایک پولیس والا گشت کرتا رہتا تھا۔
چند دن بعد دوپہر کے وقت، مَیں گھر سے باہر نکلی تو مَیں نے دیکھا کہ ایک نوعمر بہن اپنی سائیکل پر میری طرف آ رہی ہے۔ جب وہ قریب آئی تو مَیں نے دیکھا کہ وہ میری طرف ایک کاغذ پھینکنے والی ہے۔ پس جب مَیں نے دیکھا کہ چاروں سپاہی ہنسیمذاق میں لگے ہوئے ہیں تو مَیں نے بڑے احتیاط کیساتھ اُسے اُٹھا لیا۔
اُس پر لکھی عبارت کے مطابق مجھے آج دوپہر اُس لڑکی کے والدین سے ملنا تھا۔ مگر ان سپاہیوں کے پہرے میں یہ کیسے ہو سکتا تھا؟ میرے وہاں جانے سے اُنکی زندگی بھی خطرے میں پڑ سکتی تھی۔ مَیں نے سپاہیوں کی طرف دیکھا مگر میری سمجھ میں کچھ نہ آیا تو مَیں نے مدد کیلئے پورے دل سے یہوواہ سے دُعا کی۔ اچانک ہی، گشت کرنے والا پولیس کا آدمی گاڑی میں بیٹھے ہوئے جرمن سپاہیوں کے پاس گیا اور اُن سے کچھ باتچیت کرنے کے بعد وہ سب کہیں چلے گئے!
اُسی وقت میری خالہ میری طرف آئی۔ دوپہر گزرنے والی تھی۔ جب خالہ نے یہ نوٹ پڑھا تو یہ سوچتے ہوئے کہ شاید بھائیوں نے مجھے سوئٹزرلینڈ لیجانے کا بندوبست بنا لیا ہے اُس نے کہا کہ ہمیں ہدایت کے مطابق فوراً وہاں جانا چاہئے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو خاندان نے میرا تعارف بھائی ہینریخ رِف سے کرایا جسے مَیں نہیں جانتی تھی۔ اُس نے مجھے بتایا کہ وہ خوش ہے کہ مَیں بحفاظت وہاں پہنچ گئی ہوں کیونکہ وہ مجھے سوئٹزرلینڈ لیجانے کیلئے آیا ہے۔ اُس نے مجھے آدھے گھنٹے بعد ایک جگہ پر ملنے کیلئے کہا اور چلا گیا۔
اسیری کی زندگی
جب مَیں بھائی رِف سے ملی تو میرا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا کیونکہ مَیں اپنے والدین کو پیچھے چھوڑ کر جانے کے خیال سے پریشان تھی۔ یہ سب
کچھ اتنی جلدی ہو گیا تھا۔ چند پریشانکُن لمحوں کے بعد ہم سیاحوں کے ایک گروہ کیساتھ بحفاظت سوئٹزرلینڈ کی سرحد پار کر گئے۔جب مَیں برن میں واقع برانچ آفس پہنچی تو مجھے پتہ چلا کہ بھائیوں نے میرے بچاؤ کیلئے یہ بندوبست بنایا تھا۔ اُنہوں نے مجھے رہنے کی جگہ دی۔ مَیں خوشی کیساتھ کچن میں کام کرنے لگی۔ مگر اسیری کی زندگی کتنی مشکل ہوتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرے والدین کیساتھ کیا ہوگا جنہیں دو سال کیلئے قید ہو چکی تھی! کبھیکبھار غم اور پریشانی مجھ پر حاوی ہو جاتے اور مَیں غسلخانے میں جاکر بہت روتی تھی۔ مگر یہ اچھا تھا کہ مَیں باقاعدہ اپنے والدین سے رابطہ رکھے ہوئے تھی اور وہ ہمیشہ مجھے وفادار رہنے کی تلقین کرتے تھے۔
والدین کے وفادارانہ نمونے سے تحریک پاکر مَیں نے اپنی زندگی مخصوص کرنے کے بعد جولائی ۲۵، ۱۹۳۸ میں بپتسمہ لیا۔ ایک سال بیتایل میں رہنے کے بعد، مَیں ایک فارم پر کام کرنے کیلئے چلی گئی جسے سوئٹزرلینڈ کی برانچ نے بیتایل خاندان کو کھانا فراہم کرنے اور اذیت سے بھاگ کر آنے والے بھائیوں کو پناہ دینے کیلئے خریدا تھا۔
جب میرے والدین کی قید کی مدت پوری ہو گئی تو نازیوں نے اُنہیں پیشکش کی کہ اگر وہ اپنی وفاداری کو توڑ دیتے ہیں تو اُنہیں آزاد کر دیا جائیگا۔ اُنہوں نے اس بات سے انکار کر دیا اسلئے اُنہیں کیمپوں میں بھیج دیا گیا۔ سن ۱۹۴۱ کے موسمِسرما میں میری والدہ اور دیگر گواہ خواتین نے کیمپ میں فوج کیلئے کام کرنے سے انکار کر دیا۔ سزا کے طور پر اُنہیں تین رات اور دن باہر ٹھنڈ میں کھڑا کر دیا گیا اور اسکے بعد اُنہیں تاریک کوٹھریوں میں ۴۰ دن کیلئے بھوکا چھوڑ دیا گیا۔ اسکے بعد اُنہیں خوب مارا پیٹا گیا۔ سخت اذیت کے تین ہفتے بعد، جنوری ۳۱، ۱۹۴۲ کو میری والدہ نے وفات پائی۔
میرے والد کو آسٹریا کے ایک کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔ یہاں نازی قیدیوں کو بھوکا رکھ کر اور محنتمزدوری کروا کر ہلاک کر دیا کرتے تھے۔ والدہ کی وفات کے چھ ماہ بعد، نازیوں نے ایک مختلف طریقے سے یعنی طبّی تجربات کرنے کے ذریعے میرے والد کو مار ڈالا۔ کیمپ کے ڈاکٹر کچھ تجربے کرنے کیلئے انسانوں کے جسم میں
تپِدق والے چوہوں کے جراثیم منتقل کر دیتے تھے۔ اسکے بعد قیدیوں کے دل میں کوئی جانلیوا ٹیکہ لگا دیا جاتا تھا۔ سرکاری ریکارڈ بیان کرتا ہے کہ میرے والد ”دل کمزور ہو جانے“ سے وفات پا گئے تھے۔ اُس وقت میرے والد کی عمر ۴۳ سال تھی۔ مجھے اس قتل کی بابت کچھ مہینوں کے بعد پتہ چلا۔ میرے پیارے والدین کی یاد مجھے آج بھی ستاتی ہے۔ تاہم، اُس وقت کی طرح آج بھی مَیں یہ جان کر تسلی پاتی ہوں کہ میرے والدین جو آسمانی اُمید رکھتے تھے آج بھی یہوواہ کے قوی ہاتھوں میں ہیں۔دوسری عالمی جنگ کے بعد، مجھے واچٹاور بائبل سکول آف گلئیڈ کی ۱۱ ویں کلاس میں شرکت کا شرف حاصل ہوا۔ پانچ مہینوں تک متواتر صحائف کے مطالعے میں مشغول رہنا کسقدر خوشی کا باعث تھا! سن ۱۹۴۸ میں، وہاں سے فارغ ہونے کے بعد مجھے سوئٹزرلینڈ میں بطور مشنری خدمت انجام دینے کیلئے بھیجا گیا۔ اسکے کچھ عرصہ بعد میری ملاقات گلئیڈ کی پانچوں کلاس کے گریجوئٹ بھائی جیمز ایل. ٹرپن سے ہوئی۔ جب ترکی میں پہلا برانچ آفس قائم ہوا تو اس بھائی نے وہاں اوورسیئر کے طور پر خدمت انجام دی۔ مارچ ۱۹۵۱ میں، ہم دونوں نے شادی کر لی اور اسکے کچھ ہی عرصہ بعد مجھے پتہ چلا کہ مَیں ماں بننے والی ہوں! ہم ریاستہائےمتحدہ منتقل ہو گئے اور اُسی سال دسمبر میں ہماری بیٹی مارلن پیدا ہوئی۔
ان تمام سالوں کے دوران مَیں نے اور جم نے اپنی بادشاہتی خدمت سے بہت زیادہ خوشی حاصل کی ہے۔ مجھے آج بھی ایک نوعمر چینی بائبل طالبعلم، پینی یاد ہے جو بائبل مطالعے کو بہت عزیز رکھتی تھی۔ اُس نے بپتسمہ لینے کے بعد بھائی گائی پیرس کیساتھ شادی کی جو اس وقت یہوواہ کے گواہوں کی گورننگ باڈی میں خدمت انجام دے رہا ہے۔ ایسے عزیزوں نے اُس کمی کو پورا کرنے میں مدد دی ہے جو میرے والدین کی وفات سے پیدا ہو گئی تھی۔
سن ۲۰۰۴ کے شروع میں، میرے والدین کے آبائی شہر میں بھائیوں نے نیا کنگڈم ہال تعمیر کِیا۔ یہوواہ کے گواہوں کی خدمات کو سراہتے ہوئے، سٹی کونسل نے وہاں کی ایک سڑک کا نام (ڈینز سڑیٹ) میرے والدین کے نام پر رکھا۔ نیز مقامی اخبار نے ”قتل کئے جانے والے جوڑے ڈینز کی یاد“ کے تحت ایک بیان جاری کِیا۔ اس میں اُنہوں نے لکھا کہ میرے والدین کو ”اُنکے ایمان کی وجہ سے قیدخانہ میں قتل کر دیا گیا تھا۔“ میرے وہموگمان میں بھی نہیں تھا کہ سٹی کونسل ایسا کرکے حالات کو ایک نیا رُخ دیگی۔
میرے والد اکثر کہا کرتے تھے کہ ہمیں ایسے منصوبہسازی کرنی چاہئے کہ اگر ہرمجدون ہماری زندگی میں نہیں بھی آتی توبھی ایسے زندگی بسر کریں جیسے یہ کل ہی آ جائیگی۔ یہ ایسی قیمتی نصیحت ہے جس پر مَیں ہمیشہ عمل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ صبر اور اشتیاق میں توازن رکھنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا جبکہ اب بڑھاپے نے مجھے گھر تک محدود کر دیا ہے۔ تاہم، مَیں نے یہوواہ کے اپنے تمام وفادار خادموں سے کئے گئے اس وعدے پر کبھی شک نہیں کِیا: ”سارے دل سے [یہوواہ] پر توکل کر . . . اپنی سب راہوں میں اُسکو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کریگا۔“—امثال ۳:۵، ۶۔
[صفحہ ۲۸ پر بکس/تصویر]
ماضی کے قیمتی الفاظ
ایک خاتون کسی دُور گاؤں سے میرے والدین کے آبائی شہر آئی۔ اُس وقت لوگ ایسی چیزیں اپنے گھروں سے لا کر باہر رکھ دیا کرتے تھے جنہیں دوسرے اپنے استعمال کیلئے اُٹھا سکتے تھے۔ اُس عورت نے سوئی دھاگوں والا ایک ڈبہ اُٹھایا اور گھر لے گئی۔ بعدازاں، ڈبے کی تہہ میں اُسے ایک نوعمر لڑکی کی چند تصاویر اور کچھ خطوط ملے جو کسی کیمپ سے لکھے گئے تھے۔ عورت کو وہ خط بڑے دلچسپ لگے اور سوچنے لگی کہ اس چھوٹی لڑکی کو کیسے تلاش کرے۔
ایک دن سن ۲۰۰۰ میں، اس عورت نے ایک اخبار میں مضمون دیکھا جس میں اس شہر میں لگنے والی ایک تاریخی نمائش کی بابت مضمون شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں نازی حکومت کے دوران یہوواہ کے گواہوں کی تاریخ بھی بیان کی گئی تھی جس میں میرے والدین کا ذکر بھی تھا۔ اس میں میری نوعمری کی تصاویر بھی تھیں۔ تمام تفصیلات کو یکجا کرنے کے بعد اس عورت نے جرنلسٹ سے رابطہ کِیا اور اُسے ان ۴۲ خطوط کی بابت بتایا! چند ہفتوں بعد، وہ سب میرے ہاتھ میں تھے۔ یہ میرے والدین کی لکھائی تھی جو متواتر میری خالہ سے میری بابت دریافت کرتے رہتے تھے۔ میرے لئے اُنکی پُرمحبت فکرمندی کبھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ یہ بڑی حیرانی کی بات ہے کہ یہ خط محفوظ تھے اور اب تقریباً ۶۰ سال بعد دوبارہ نظر آئے تھے!
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
جب ہٹلر برسرِاقتدار آیا تو ہمارا خوشحال خاندان بکھر گیا
[تصویر کا حوالہ]
Hitler: U.S. Army photo
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
۱۔ میگڈیبرگ کا آفس
۲۔ گسٹاپو نے ہزاروں گواہوں کو گرفتار کر لیا
[صفحہ ۲۹ پر تصویر]
جم اور مَیں نے بادشاہتی خدمت سے بہت لطف اُٹھایا ہے