مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خدا کو ناراض کرنے والی رسومات سے خبردار رہیں

خدا کو ناراض کرنے والی رسومات سے خبردار رہیں

خدا کو ناراض کرنے والی رسومات سے خبردار رہیں

ایک افریقی مُلک میں ایک گھر کے چھوٹے سے صحن میں،‏ تیز دھوپ میں جنازہ رکھا ہوا ہے۔‏ جب ماتم کرنے والے اپنے دُکھ کا اظہار کرنے کیلئے قطار میں آتے ہیں تو ایک بوڑھا آدمی کھڑا ہو جاتا ہے۔‏ اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں اور وہ لاش کے قریب جاکر بولنا شروع کرتا ہے:‏ ”‏تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ تم جا رہے ہو؟‏ تم مجھے اسطرح کیوں چھوڑ کر جا رہے ہو؟‏ کیا تم اب بھی میری مدد کرتے رہو گے؟‏“‏

افریقہ کے ایک دوسرے مُلک میں جب کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو کسی کو اُسے دیکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔‏ کچھ وقت گزرنے کے بعد بچے کو سب لوگوں کے سامنے لایا جاتا ہے اور اُسے رسمی طور پر نام دیا جاتا ہے۔‏

بعض لوگوں کے نزدیک،‏ مُردوں سے بات کرنا یا نوزائیدہ بچوں کو لوگوں کی نظروں سے چھپا کر رکھنا عجیب لگتا ہے۔‏ تاہم،‏ بعض تہذیبوں یا معاشروں میں،‏ موت اور پیدائش کے متعلق لوگوں کا طرزِعمل اور نظریات اس طاقتور عقیدے سے اثرپذیر ہے کہ مُردے حقیقت میں مرے نہیں بلکہ زندہ اور ہوش‌وحواس میں ہیں۔‏

یہ عقیدہ اتنا مضبوط اور رسومات کا اہم حصہ بن چکا ہے کہ اس میں زندگی کے تمام پہلو اُلجھے ہوئے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ لاکھوں لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ کسی شخص کی زندگی کے اہم حصوں میں اسکی پیدائش،‏ جوانی،‏ شادی،‏ بچوں کی پرورش اور موت شامل ہیں۔‏ ان سے گزرنے کے بعد ہی ہم اپنے باپ‌دادا کی روحوں سے مل سکتے ہیں۔‏ ان لوگوں کا ایمان ہے کہ روحانی عالم میں رہنے والا مُردہ شخص زمین پر رہنے والوں کی زندگی میں مداخلت کر سکتا ہے۔‏ اسکے علاوہ،‏ وہ دوبارہ پیدا ہونے کے ذریعے زندگی کی گردش کو جاری رکھ سکتا ہے۔‏

اس گردش کے تمام دَور میں کوئی مشکل پیدا نہ ہو اسکا یقین کرنے کیلئے،‏ بیشمار رسومات ادا کی جاتی ہیں۔‏ یہ رسومات اس عقیدے سے اثرپذیر ہیں کہ ہمارے اندر روح ہے جو موت کے بعد بچ جاتی ہے۔‏ سچے مسیحی اس عقیدے سے تعلق رکھنے والی کسی بھی رسم سے انکار کرتے ہیں۔‏ کیوں؟‏

مُردوں کی حالت کیا ہے؟‏

مُردوں کی حالت کو ظاہر کرتے وقت بائبل بالکل واضح طور پر بیان کرتی ہے۔‏ وہ کہتی ہے:‏ ”‏زندہ جانتے ہیں کہ وہ مرینگے پر مُردے کچھ بھی نہیں جانتے .‏ .‏ .‏ اب اُنکی محبت اور عداوت‌وحسد سب نیست ہو گئے .‏ .‏ .‏ جو کام تیرا ہاتھ کرنے کو پائے اُسے مقدوربھر کر کیونکہ پاتال میں جہاں تُو جاتا ہے نہ کام ہے نہ منصوبہ۔‏ نہ علم نہ حکمت۔‏“‏ (‏واعظ ۹:‏۵،‏ ۶،‏ ۱۰‏)‏ خدا کے سچے پرستاروں نے اس بنیادی بائبل سچائی کو عزیز رکھا ہے۔‏ اُنہوں نے سمجھ لیا ہے کہ جان غیرفانی نہیں بلکہ فانی ہے اور ہلاک ہو جاتی ہے۔‏ (‏حزقی‌ایل ۱۸:‏۴‏)‏ اُنہوں نے جان لیا ہے کہ مُردوں کی روحیں کوئی وجود نہیں رکھتیں۔‏ (‏زبور ۱۴۶:‏۴‏)‏ قدیم وقتوں میں،‏ یہوواہ نے اپنے لوگوں کو سختی کیساتھ حکم دیا کہ خود کو ہر طرح کی ایسی رسموں سے بالکل الگ کر لیں جو اس عقیدے سے جڑی ہوئی ہیں کہ مُردے ہوش‌وحواس میں ہیں اور زندہ اشخاص پر اثر ڈال سکتے ہیں۔‏—‏استثنا ۱۴:‏۱؛‏ ۱۸:‏۹-‏۱۳؛‏ یسعیاہ ۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏۔‏

پہلی صدی کے مسیحیوں نے بھی اسطرح کے رسم‌ورواج سے انکار کِیا جو جھوٹے مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۵-‏۱۷‏)‏ آجکل،‏ یہوواہ کے گواہ نسل،‏ قبیلے یا پس‌منظر سے قطع‌نظر،‏ ایسی روایات اور رسومات سے انکار کرتے ہیں جو جھوٹی تعلیمات سے تعلق رکھتی ہیں کہ انسان کے اندر روح ہے جو موت کے بعد بچ جاتی ہے۔‏

مسیحیوں کے طور پر،‏ یہ فیصلہ کرنے میں کونسی چیز ہماری مدد کر سکتی ہے کہ آیا کوئی خاص رسم ادا کی جائے یا نہیں؟‏ ہمیں احتیاط سے کسی بھی غیرصحیفائی امکانی تعلق کی بابت بھی سوچنا چاہئے جیسےکہ مُردہ اشخاص کی روحیں زندہ لوگوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔‏ مزیدبرآں،‏ ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا ایسے رسم‌ورواج میں حصہ لینا دوسرے لوگوں کیلئے ٹھوکر کا باعث تو نہیں بنیگا جو یہوواہ کے گواہوں کی تعلیم اور عقائد کی بابت جانتے ہیں۔‏ ان نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے،‏ آئیے دو اہم حلقوں کا جائزہ لیں۔‏ یہ حلقے پیدائش اور موت ہیں۔‏

پیدائش اور بچے کا نام رکھنے کی رسومات

بچے کی پیدائش کیساتھ وابستہ کچھ رسومات مناسب ہیں۔‏ تاہم،‏ جہاں تک بچے کی پیدائش کا آباؤاجداد کی روحوں کے عالم سے انسانی آبادی میں آنے کا خیال ہے تو مسیحیوں کو ضرور احتیاط برتنی چاہئے۔‏ مثال کے طور پر،‏ افریقہ کے بعض ممالک میں،‏ ایک نوزائیدہ بچے کو گھر کے اندر رکھا جاتا ہے اور کچھ وقت گزرنے کے بعد اسکا نام رکھا جاتا ہے۔‏ اس وقت کے آخر پر نام رکھنے کی ضیافت کا بندوبست کِیا جاتا ہے۔‏ اسکے بعد بچے کو گھر سے باہر لایا جاتا ہے اور رسمی طور پر رشتہ‌داروں اور دوستوں کو دکھایا جاتا ہے۔‏ اُس وقت سب کے سامنے بچے کے نام کا اعلان بھی کِیا جاتا ہے۔‏

اس رسم کی اہمیت کو ظاہر کرتے ہوئے ایک کتاب بیان کرتی ہے:‏ ”‏پہلے سات دنوں کے دوران یہ خیال کِیا جاتا ہے کہ ایک بچہ ’‏ملاقات‘‏ کیلئے آیا ہے اور روحوں کے عالم اور زمینی زندگی کے دَور سے گزر رہا ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ بچے کو گھر کے اندر رکھا جاتا ہے اور خاندان سے باہر افراد کو اس بچے کو دیکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔‏“‏

رسمی طور پر بچے کا نام رکھنے سے پہلے یہ سب کیوں کِیا جاتا ہے؟‏ افریقی رسومات کی ایک کتاب بیان کرتی ہے:‏ ”‏بچے کی زندگی کے پہلے سات دنوں کو ایسا سمجھا جاتا ہے گویا بچہ کسی دوسری دُنیا سے زمین پر جنم لے رہا ہے۔‏ اس دوران بچے کو عموماً گھر کے اندر ہی رکھا جاتا ہے اور باہر والے لوگوں کو اسے دیکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔‏“‏

بچے کو نام دینے سے پہلے کچھ وقت لینے کا کیا مطلب ہے؟‏ ایک کتاب اسکی بابت بیان کرتی ہے:‏ ”‏آٹھویں دن سے پہلے یہ سمجھا جاتا ہے کہ بچہ ابھی انسان نہیں ہے۔‏ اُسکا تعلق اُسی دُنیا سے ہے جس سے وہ آیا ہے۔‏ نام دینے کا مطلب اس بچے کو انسانوں کی دنیا میں لانا ہے۔‏ جبتک والدین کو اس بات کا یقین نہیں ہو جاتا کہ بچہ بچ جائیگا وہ اسکا نام رکھنے سے ڈرتے ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ لہٰذا،‏ بعض‌اوقات اس رسم کو بچے کو گھر سے باہر لانے کی رسم کہا جاتا ہے اور یہ خیال کِیا جاتا ہے کہ اس سے بچے اور اسکے والدین کیلئے بہت سے اچھے نتائج ہونگے۔‏ اس رسم کیساتھ ہی بچہ انسانوں کی رفاقت میں آ جاتا ہے۔‏“‏

عام طور پر رشتہ‌داروں میں سے کوئی قریبی بزرگ بچے کا نام رکھنے کی رسم کو باضابطہ بناتا ہے۔‏ یہ تقریب منانے کا طریقہ مختلف علاقوں میں مختلف ہو سکتا ہے۔‏ لیکن اس رسم میں اکثراوقات آباؤاجداد کی روحوں سے کی گئی دُعائیں شامل ہوتی ہیں جو بچے کے محفوظ طریقے سے زمین پر آنے کیلئے قدردانی کا اظہار ہوتی ہیں۔‏ اس میں دیگر رسومات بھی شامل ہوتی ہیں۔‏

اس رسم کی اہم بات بچے کے نام کا اعلان کِیا جانا ہے۔‏ اگرچہ والدین اپنے بچے کا نام رکھنے کے ذمہ‌دار ہوتے ہیں توبھی نام کے انتخاب میں دیگر رشتہ‌داروں کا بھی عمل‌دخل ہو سکتا ہے۔‏ بعض نام مقامی زبان میں علامتی مطلب رکھتے ہیں جیساکہ ”‏گیا اور آیا،‏“‏ ”‏ماں دوسری مرتبہ آئی ہے“‏ یا ”‏باپ دوبارہ آیا ہے۔‏“‏ دیگر ناموں کے کچھ ایسے مطلب ہوتے ہیں جو آباؤاجداد کو نوزائیدہ بچے کو مُردوں کی دُنیا میں واپس لے جانے کیلئے بےحوصلہ کرنے والے ہوتے ہیں۔‏

بیشک،‏ بچے کی پیدائش پر خوش ہونے میں کوئی خرابی نہیں ہے۔‏ کسی اَور کے نام پر بچے کا نام رکھنا اور ایسا نام رکھنا جو اسکی پیدائش سے وابستہ حالات کو ظاہر کرے قابلِ‌قبول رسومات ہیں۔‏ اسکے علاوہ بچے کا نام کس وقت رکھا جائے یہ ایک ذاتی فیصلہ ہے۔‏ تاہم،‏ مسیحی جو خدا کو خوش کرنا چاہتے ہیں وہ ایسے رسم‌ورواج سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں جو اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ وہ اس نقطۂ‌نظر سے مطابقت رکھتے ہیں کہ نوزائیدہ بچہ ”‏ملاقاتی“‏ ہے جو آباؤاجداد کے روحوں کے عالم سے انسانوں میں آیا ہے۔‏

مزیدبرآں،‏ بہتیرے نام رکھنے کی رسم کو اہم رسم سمجھتے ہیں اسلئے دوسروں کے ضمیر کی بابت حساس ہونا چاہئے اور غور کرنا چاہئے کہ یہ ان لوگوں کو کیا تاثر دے رہا ہے جو سچے مسیحی نہیں ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ شاید ہم یہ نتیجہ نکالیں کہ اس وقت کیا ہو اگر ایک مسیحی اپنے نوزائیدہ بچے کو دوسروں کے سامنے لانے سے گریز کرتا ہے جبتک نام رکھنے کی رسم ادا نہیں ہو جاتی؟‏ اگر نام بائبل سچائی کے اُستاد ہونے کے انکے دعوؤں کی تردید کرنے والا تاثر دیتے ہیں تو کیا ہو؟‏

لہٰذا،‏ مسیحیوں کو اپنے بچوں کا نام رکھتے وقت کوشش کرنی چاہئے تاکہ کسی کیلئے ٹھوکر کا باعث نہ بنیں بلکہ ”‏سب خدا کے جلال کیلئے“‏ کریں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۳۱-‏۳۳‏)‏ وہ ایسی ’‏روایات کو ماننے کیلئے خدا کے حکم کو رد‘‏ نہیں کرتے ہیں جو خاص طور پر مُردوں کی تعظیم کرنے کیلئے بنائی گئی ہیں۔‏ اسکے برعکس،‏ وہ زندہ خدا،‏ یہوواہ کو عزت اور جلال دیتے ہیں۔‏—‏مرقس ۷:‏۹،‏ ۱۳‏۔‏

موت سے زندگی میں داخل ہونا

بہتیرے لوگ پیدائش کی طرح موت کو بھی ایک گزرگاہ خیال کرتے ہیں۔‏ جو شخص مر جاتا ہے وہ انسانوں کی دُنیا سے نکل کر مُردوں کی دُنیا میں چلا جاتا ہے۔‏ بہتیروں کے خیال میں جبتک ایک شخص کی موت پر جنازے کی خاص رسومات ادا نہیں کر دی جاتیں اُس وقت تک آباؤاجداد کی روحیں قہر میں رہتی ہیں۔‏ کیونکہ انکے پاس زندہ اشخاص کو سزا اور جزا دینے کا اختیار ہوتا ہے۔‏ جس طریقے سے جنازے کا بندوبست کِیا جاتا ہے یہ یقین بڑی حد تک اُس پر اثرانداز ہوتا ہے۔‏

جنازے کی رسومات جو مُردوں کو خوش کرنے کیلئے ادا کی جاتی ہیں اُن میں جذبات کا بڑا عمل‌دخل ہوتا ہے۔‏ اس میں لاش پر شدید ماتم کرنے سے لیکر دفن کرنے کے بعد خوش‌کُن تقریبات تک شامل ہوتی ہیں۔‏ بڑی بڑی ضیافتیں،‏ شراب‌نوشی اور ناچ‌گانا جنازے کی مخصوص رسومات ہیں۔‏ جنازے کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور اس وجہ سے غریب خاندان کو اکثراوقات پیسے اکٹھا کرنے کیلئے کافی محنت کرنی پڑتی ہے تاکہ ”‏موزوں جنازہ“‏ کر سکیں۔‏ اس سے وہ قرض کے بوجھ تلے بھی دب جاتے ہیں۔‏

یہوواہ کے گواہوں نے کئی سالوں سے جنازے کی غیرصحیفائی رسومات کو بےنقاب کِیا ہے۔‏ ان رسومات میں،‏ دفن کرنے سے پہلے لاش پر رات‌بھر جاگنا،‏ شراب انڈیلنا،‏ مُردوں سے بات‌چیت یا ان سے درخواست کرنا،‏ جنازوں کی رسمی تقریبات اور دیگر رسومات شامل ہوتی ہیں۔‏ یہ رسومات اس یقین پر مبنی ہوتی ہیں کہ کسی شخص کے اندر سے روح موت کے وقت نکل گئی ہے۔‏ خدا کی بےحرمتی کرنے والی ایسی رسومات ”‏ناپاک“‏ ”‏لاحاصل فریب“‏ اور ”‏انسانوں کی روایت“‏ پر مبنی ہیں اور خدا کے کلام کی سچائی سے مطابقت نہیں رکھتیں۔‏—‏یسعیاہ ۵۲:‏۱۱؛‏ کلسیوں ۲:‏۸‏۔‏

مطابقت لانے کا دباؤ

روایتی رسومات سے انکار بعض کیلئے ایک چیلنج ثابت ہوا ہے خاص کر جہاں مُردوں کی تعظیم کرنے کو انتہائی اہم خیال کِیا جاتا ہے۔‏ ایسی رسومات پر نہ چلنے کی وجہ سے یہوواہ کے گواہوں کو مشکوک خیال کِیا جاتا ہے یا ان پر میل‌جول نہ رکھنے اور مُردوں کی عزت نہ کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔‏ نکتہ‌چینی اور بہت زیادہ دباؤ بعض کیلئے بائبل سچائی کی صحیح سمجھ رکھنے کے باوجود،‏ ان سے مختلف نظر آنے سے ڈرنے کا باعث ہوا ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۱۴‏)‏ دیگر نے محسوس کِیا ہے کہ یہ رسومات انکی ثقافت کا حصہ ہیں اور ان سے مکمل طور پر بچا نہیں جا سکتا۔‏ تاہم،‏ دیگر نے اس بات پر زور دیا ہے کہ رسومات پر چلنے سے انکار کرنے سے خدا کے لوگوں کے خلاف نفرت کو ہوا ملی ہے۔‏

ہم دوسروں کو بِلاوجہ ٹھیس پہنچانا نہیں چاہتے۔‏ تاہم بائبل ہمیں آگاہ کرتی ہے کہ سچائی کی حمایت کرنے سے ہم خدا سے جُدا دُنیا کی مخالفت مول لینگے۔‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۱۸،‏ ۱۹؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۲؛‏ ۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ ہم ایسا مؤقف خوشی سے اختیار کرتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جو لوگ روحانی تاریکی میں ہیں ہمیں ان سے فرق ہونا ہے۔‏ (‏ملاکی ۳:‏۱۸؛‏ گلتیوں ۶:‏۱۲‏)‏ یسوع نے شیطان کی آزمائشوں کی مزاحمت کی کیونکہ ایسا نہ کرنے سے خدا ناراض ہو سکتا تھا۔‏ پس ہمیں بھی اسی طرح سے دباؤ کی مزاحمت کرنی چاہئے کیونکہ ایسا نہ کرنے سے خدا ناراض ہو سکتا ہے۔‏ (‏متی ۴:‏۳-‏۷‏)‏ انسان کے ڈر کی بجائے،‏ سچے مسیحی یہوواہ خدا کو خوش کرنے اور اسکی تعظیم کرنے کی فکر رکھتے ہیں۔‏ وہ دوسروں کی طرف سے دباؤ کی وجہ سے سچی پرستش کے بائبل اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں۔‏—‏امثال ۲۹:‏۲۵؛‏ اعمال ۵:‏۲۹‏۔‏

مُردوں کی بابت دُرست نظریہ رکھنے سے یہوواہ کی تعظیم کرنا

جب ہمارا کوئی عزیز مر جاتا ہے تو غم محسوس کرنا عام بات ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۱:‏۳۳،‏ ۳۵‏)‏ رشتہ‌دار کی یادوں کو عزیز رکھنا اور باعزت تدفین ہماری محبت کا موزوں اور مناسب اظہار ہے۔‏ تاہم،‏ یہوواہ کے گواہ موت کے شدید غم کو برداشت کرتے ہیں اور خدا کو ناراض کرنے والے روایتی کاموں میں نہیں پڑتے۔‏ ایسا کرنا ان کیلئے آسان نہیں ہے جنکی پرورش ایسی ثقافت میں ہوئی ہے جہاں مُردوں کا خوف بہت زیادہ ہے۔‏ جب ہمارے کسی عزیز کی موت واقع ہو جاتی ہے تو جذباتی درد کے وقت توازن برقرار رکھنا ایک چیلنج ہو سکتا ہے۔‏ تاہم،‏ وفادار مسیحیوں کو یہوواہ طاقت بخشتا ہے جو ”‏ہر طرح کی تسلی کا خدا ہے۔‏“‏ وہ ساتھی مسیحیوں کی محبت‌بھری حمایت سے بھی فائدہ اُٹھاتے ہیں۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱:‏۳،‏ ۴‏)‏ انکا مضبوط ایمان ہے کہ مُردے خدا کی یاد میں ہیں اور وہ پھر سے زندگی پائینگے۔‏ اس سے سچے مسیحیوں کو ہر وجہ ملتی ہے کہ خود کو غیرمسیحی جنازے کی رسومات سے مکمل طور پر الگ رکھیں جو مُردوں کے جی اُٹھنے کی حقیقت کو رد کرتی ہیں۔‏

کیا ہم بہت زیادہ خوش نہیں کہ یہوواہ نے ہمیں ”‏تاریکی سے اپنی عجیب روشنی میں بلایا ہے“‏ ؟‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۹‏)‏ جب ہم پیدائش پر خوش اور موت پر دُکھی ہوتے ہیں تو دُعا ہے کہ صحیح کام کرنے کی ہماری خواہش اور یہوواہ کیلئے ہماری گہری محبت ہمیں ہمیشہ ”‏نور کے فرزندوں“‏ کی طرح چلنے کی تحریک دیتی رہے۔‏ دُعا ہے کہ ہم کبھی بھی خدا کو ناراض کرنے والی غیرمسیحی رسومات سے خود کو روحانی طور پر ناپاک نہ کریں۔‏—‏افسیوں ۵:‏۸‏۔‏