خدا کی محبت سے متحد
خدا کی محبت سے متحد
جب پہلی صدی میں مسیحی کلیسیا قائم ہوئی تو اسکے مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے ممبروں کی ایک نمایاں خصوصیت اتحاد تھی۔ سچے خدا کے یہ پرستار ایشیا، یورپ اور افریقہ کی قوموں سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ زندگی کے مختلف شعبوں سے آئے تھے جس میں مذہبی پیشوا، سپاہی، غلام، پناہگزین، مختلف پیشہورانہ مہارتیں رکھنے والے اور کاروباری لوگ شامل تھے۔ بعض یہودی اور دیگر غیرقوم تھے۔ ان میں سے بہتیرے حرامکار، ہمجنسپرست، نشہباز، چور یا ظالم تھے۔ تاہم، جب وہ مسیحی بن گئے تو اُنہوں نے اپنی بُری عادتوں کو ترک کر دیا اور ایمان میں متحد ہو گئے۔
کس چیز نے پہلی صدی کے مسیحیوں کو متحد کِیا تھا؟ وہ ایک دوسرے کیساتھ اور عام لوگوں کیساتھ بھی کیوں صلح سے رہتے تھے؟ اُنہوں نے بغاوت اور لڑائیجھگڑوں میں کیوں حصہ نہیں لیا تھا؟ ابتدائی مسیحیت آج کے بڑے بڑے مذاہب سے اسقدر مختلف کیوں تھی؟
کس چیز نے کلیسیا کو متحد رکھا؟
پہلی صدی میں مسیحیوں کو متحد رکھنے والا سب سے اہم عنصر خدا کی محبت تھی۔ وہ جانتے تھے کہ اُنکی بنیادی ذمہداری سچے خدا یہوواہ سے اپنے سارے دلوجان سے محبت رکھنا ہے۔ مثال کے طور پر، پطرس رسول کو جو ایک یہودی تھا، ایک غیرقوم شخص کے گھر جانے کی ہدایت کی ۱-کرنتھیوں ۱:۱۰؛ متی ۲۲:۳۷؛ اعمال ۱۰:۱-۳۵۔
گئی جس سے ملاقات کی بابت شاید اُس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ جس چیز نے اُسے اس حکم کی فرمانبرداری کرنے کی تحریک دی وہ یہوواہ کیلئے اُسکی محبت تھی۔ پطرس اور پہلی صدی کے مسیحی خدا کیساتھ ایک قریبی رشتے میں بندھے ہوئے تھے جسکا انحصار خدا کی شخصیت اُسکی پسند اور ناپسند کی بابت صحیح علم پر تھا۔ وقت آنے پر، تمام پرستار اس بات کو سمجھ گئے کہ یہوواہ کی مرضی یہ ہے کہ وہ سب ”یکدل اور یکرای“ ہوں۔—ایمانداروں کو متحد رکھنے والی ایک اَور چیز یسوع مسیح پر اُنکا ایمان تھا۔ وہ اُسکے نقشِقدم پر چلنا چاہتے تھے۔ یسوع نے اُنہیں حکم دیا: ”جیسے مَیں نے تُم سے محبت رکھی تُم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔ اگر آپس میں محبت رکھو گے تو اس سے سب جانینگے کہ تُم میرے شاگرد ہو۔“ (یوحنا ۱۳:۳۴، ۳۵) یہ محبت محض ایک دکھاوا نہیں بلکہ بےغرض محبت تھی۔ ایسی محبت ظاہر کرنے کا کیا نتیجہ ہوگا؟ یسوع نے ایمان لانے والوں کے حق میں دُعا کی: ’مَیں درخواست کرتا ہوں کہ وہ سب ایک ہوں یعنی جسطرح اَے باپ! تُو مجھ میں ہے اور مَیں تجھ میں ہوں وہ بھی ہم میں ہوں۔‘—یوحنا ۱۷:۲۰، ۲۱؛ ۱-پطرس ۲:۲۱۔
یہوواہ نے اپنے سچے خادموں پر اپنی پاک رُوح نازل کی تھی۔ اس رُوح نے اُنکے اندر اتحاد کو بڑھایا۔ اس نے اُنہیں بائبل تعلیمات کی ایسی سمجھ عطا کی جسے تمام کلیسیاؤں نے قبول کِیا۔ یہوواہ کے پرستار ایک ہی پیغام کی مُنادی کرتے تھے۔ وہ علانیہ کہتے تھے کہ مسیحائی بادشاہی کے ذریعے یہوواہ کا نام پاک مانا جائیگا۔ یہی وہ آسمانی حکومت ہے جو تمام انسانوں پر حکمرانی کریگی۔ ابتدائی مسیحی یہ بھی سمجھتے تھے کہ اُنہوں نے ’اس دُنیا کا حصہ‘ نہیں بننا ہے۔ اسلئے جب بھی ملک کے اندر مختلف گروہوں میں اندرونی یا فوجی لڑائیاں ہوئیں تو مسیحیوں نے اِن میں حصہ نہیں لیا۔ وہ سب کیساتھ صلح سے رہتے تھے۔—یوحنا ۱۴:۲۶؛ ۱۸:۳۶؛ متی ۶:۹، ۱۰؛ اعمال ۲:۱-۴؛ رومیوں ۱۲:۱۷-۲۱۔
اسکے علاوہ، تمام مسیحی اتحاد کو بڑھانے کی اپنی ذمہداری سمجھتے تھے۔ مگر کیسے؟ وہ اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ اُنکا چالچلن بائبل کی مطابقت میں ہو۔ پس پولس رسول نے مسیحیوں کو لکھا: ”تُم اپنے اگلے چالچلن کی اُس پُرانی انسانیت کو اُتار ڈالو جو فریب کی شہوتوں کے سبب سے خراب ہوتی جاتی ہے۔ . . . اور نئی انسانیت کو پہنو۔“—افسیوں ۴:۲۲-۳۲۔
اتحاد قائم رہا
سچ ہے کہ پہلی صدی میں رہنے والے مسیحی بھی گنہگار انسان تھے اور اُنہیں ایسے حالات کا بھی سامنا کرنا پڑا جس نے اُنکے اتحاد کو خطرے میں ڈال دیا۔ مثال کے طور پر، اعمال ۶:۱-۶ بیان کرتی ہے کہ یونانی بولنے والے اور عبرانی بولنے والے یہودی مسیحیوں کے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا۔ یونانی بولنے والے یہودی مسیحی یہ سمجھ رہے تھے کہ اُنہیں نظرانداز کِیا جا رہا ہے۔ تاہم جب رسولوں کو اس بات کا پتہ چلا تو اُنہوں نے فوری کارروائی کرکے اس مسئلے کو حل کِیا۔ اسکے بعد، مسیحی کلیسیا میں موجود غیریہودیوں کی بابت ایک اُصول کی بنیاد پر اختلاف پیدا ہو گیا۔ بائبل اُصولوں پر مبنی فیصلہ کِیا گیا اور اسے سب نے قبول کِیا۔—اعمال ۱۵:۱-۲۹۔
ایسی مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ پہلی صدی کی مسیحی کلیسیا میں اختلافات اُنکے اندر گروہبندی یا عقیدوں کے سلسلے میں نااتفاقی کا باعث نہیں بنے تھے۔ کیوں؟ اسلئےکہ جس چیز نے اُنہیں متحد رکھا تھا وہ—یہوواہ کیلئے محبت، مسیح یسوع پر ایمان، ایک دوسرے کیلئے بےغرض محبت، پاک رُوح کی ہدایت کی پابندی، بائبل تعلیمات کی سمجھ کے سلسلے میں
اتحاد اور اپنے رویوں کو بدلنے کیلئے رضامندی تھی۔ یہ تمام چیزیں ابتدائی کلیسیا کو متحد اور پُرامن رکھنے کیلئے نہایت مؤثر تھیں۔جدید وقتوں میں پرستش میں متحد
کیا آج بھی ایسا اتحاد پیدا کِیا جا سکتا ہے؟ کیا یہی چیزیں آجکل بھی مسیحیوں کو متحد رکھ سکتی اور اُنہیں دُنیا میں رہنے والے مختلف رنگونسل کے لوگوں کے ساتھ صلح سے رہنے کے قابل بنا سکتی ہیں؟ جیہاں ایسا ممکن ہے! دُنیا کے ۲۳۰ سے زائد ملکوں، جزیروں اور ریاستوں میں رہنے والے یہوواہ کے گواہوں کی عالمگیر برادری متحد ہے۔ اُنہیں متحد رکھنے والی چیزیں بھی وہی ہیں جنہوں نے پہلی صدی کے مسیحیوں کو متحد رکھا تھا۔
یہوواہ کے گواہوں کو متحد رکھنے والی سب سے اہم چیز یہوواہ خدا کیلئے اُنکی عقیدت ہے۔ اسکا مطلب ہے کہ وہ ہر طرح کی صورتحال میں اُسکے وفادار رہنا چاہتے ہیں۔ یہوواہ کے گواہ یسوع مسیح اور اُسکی تعلیمات پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ وہ ساتھی ایمانداروں کیلئے بےغرض محبت ظاہر کرتے ہیں اور ہر جگہ خدا کی بادشاہی کی خوشخبری کا اعلان کرتے ہیں۔ وہ ہر مذہب، نسل، قوم اور طبقے کے لوگوں کو بادشاہی کی بابت بتانا چاہتے ہیں۔ یہوواہ کے گواہ دُنیا کے معاملات میں حصہ نہیں لیتے۔ اسی وجہ سے وہ انسانوں کو ایک دوسرے سے جُدا کرنے والے سیاسی، ثقافتی، معاشرتی اور معاشی دباؤ کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ تمام گواہ بائبل معیاروں کے مطابق چلنے سے اتحاد کو فروغ دینے کی اپنی ذمہداری کو اچھی طرح پورا کرتے ہیں۔
اُنکا اتحاد دوسروں کو متاثر کرتا ہے
ایسا اتحاد اکثر اُن اشخاص کی توجہ کا مرکز بنا ہے جو گواہ نہیں۔ مثال کے طور پر، آئیلس * جرمنی میں ایک کیتھولک سسٹر تھی۔ کس چیز نے اُسے یہوواہ کے گواہوں کی طرف راغب کِیا؟ آئیلس بیان کرتی ہے: ”مَیں زندگی میں پہلی بار اتنے اچھے لوگوں سے ملی ہوں۔ وہ جنگ نہیں کرتے اور نہ ہی کوئی ایسا کام کرتے ہیں جس سے دوسروں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ وہ لوگوں کو خدا کی بادشاہی کے تحت قائم ہونے والے زمینی فردوس میں خوشحال زندگی گزارنے میں مدد دینا چاہتے ہیں۔“
اسکے بعد دوسری عالمی جنگ کے دوران فرانس میں ڈیوٹی دینے والے جرمن فوجی گنتھر کی مثال کو لیجئے۔ ایک دن گنتھر کے یونٹ کے فوجیوں کیلئے ایک پروٹسٹنٹ پادری نے عبادت کرائی۔ پادری نے اُن پر خدا کی رحمت، تحفظ اور فتح کیلئے دُعا کی۔ جب عبادت ختم ہوئی تو گنتھر گارڈ کی اپنی ڈیوٹی پر واپس کھڑا ہو گیا۔ اپنی دُوربین کے ذریعے اُس نے میدانِجنگ کے دوسرے پار دُشمن فوجوں کو دیکھا کہ وہ بھی ایک پادری کیساتھ عبادت کر رہی ہیں۔ بعدازاں گنتھر نے بتایا: ”یقیناً وہ پادری بھی خدا کی طرف سے رحمت، تحفظ اور فتح کیلئے دُعا کر رہا تھا۔ مَیں سوچنے لگا کہ مسیحیوں کیلئے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ایک ہی جنگ میں ایک دوسرے کے خلاف لڑیں۔“ یہ باتیں گنتھر کے ذہن میں بیٹھ گئیں۔ جب اُسکی ملاقات یہوواہ کے گواہوں سے ہوئی جو جنگ میں حصہ نہیں لیتے تو گنتھر بھی اس عالمی برادری کا حصہ بن گیا۔
اشوک اور فیما ایک مشرقی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ اُنکے گھر میں ایک چھوٹا سا مندر تھا۔ جب بھی اُنکے گھر میں کوئی بیمار پڑتا تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے کہ خدا کو ماننے کے باوجود اُنکے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ تاہم یہوواہ کے گواہوں کیساتھ باتچیت کرنے کے بعد، اشوک اور فیما بائبل تعلیمات اور گواہوں کے درمیان پائی جانے والی محبت سے بہت متاثر ہوئے۔ اب وہ دونوں سرگرمی کیساتھ یہوواہ کی بادشاہت کی خوشخبری سنانے میں حصہ لے رہے ہیں۔
آئیلس، گنتھر، اشوک اور فیما یہوواہ کے گواہوں کی متحد عالمگیر برادری کا حصہ ہیں۔ وہ بائبل کے اس وعدے پر ایمان رکھتے ہیں کہ یہوواہ خدا جو اُنہیں آج پرستش میں متحد رکھتا ہے بہت جلد تمام فرمانبردار انسانوں کو متحد کریگا۔ اسکے بعد مذہب کے نام پر کِیا جانے والا ظلموستم، ہر طرح کی نااتفاقی اور فرقہواریت ختم ہو جائیگی۔ پوری دُنیا سچے خدا یہوواہ کی پرستش میں متحد ہوگی۔—مکاشفہ ۲۱:۴، ۵۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 16 اس مضمون میں چند نام تبدیل کر دئے گئے ہیں۔
[صفحہ ۴ پر تصویر]
مختلف پسمنظر سے تعلق رکھنے کے باوجود، ابتدائی مسیحی متحد تھے