مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

کیا اعمال ۷:‏۵۹ میں ستفنس کے الفاظ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دُعائیں یسوع سے کی جانی چاہئیں؟‏

اعمال ۷:‏۵۹ بیان کرتی ہے:‏ ”‏یہ ستفنسؔ کو سنگسار کرتے رہے اور وہ یہ کہہ کر دُعا کرتا رہا کہ اَے خداوند یسوؔع!‏ میری رُوح کو قبول کر۔‏“‏ یہ الفاظ بعض لوگوں کے ذہن میں سوال کھڑا کرتے ہیں کیونکہ بائبل کہتی ہے کہ یہوواہ ”‏دُعا [‏کا]‏ سننے“‏ والا ہے۔‏ (‏زبور ۶۵:‏۲‏)‏ کیا ستفنس نے واقعی یسوع سے دُعا مانگی تھی؟‏ کیا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یسوع سے دُعا کرنا یا یہوواہ سے دُعا کرنا ایک ہی مطلب رکھتا ہے؟‏

کنگ جیمز ورشن کے مطابق ستفنس ”‏خدا کو پکارتا“‏ ہے۔‏ توپھر ہم سمجھ جاتے ہیں کہ بہتیرے اس نتیجے پر کیوں پہنچتے ہیں جس پر بائبل پر تبصرہ کرنے والا شخص میتھیو ہنری پہنچا تھا جس نے کہا:‏ ”‏ستفنس یہاں مسیح سے دُعا کر رہا تھا لہٰذا ہمیں بھی اُسی سے دُعا کرنی چاہئے۔‏“‏ تاہم،‏ اس نقطۂ‌نظر میں غلطی ہے۔‏ کیوں؟‏

بارنز نوٹس آن دی نیو ٹسٹامنٹ صاف‌گوئی سے اعتراف کرتی ہے:‏ ”‏لفظ ’‏خدا‘‏ اصلی مسودے میں نہیں پایا جاتا۔‏ لہٰذا اسے ترجمے میں بھی نہیں ہونا چاہئے۔‏ یہ کسی قدیم [‏مسودے]‏ یا ترجمے میں نہیں پایا جاتا۔‏“‏ پھر اس آیت میں لفظ ”‏خدا“‏ کیسے آ گیا؟‏ عالم ابیل ایبٹ لیورمور اسے ”‏مترجمین کے تعصّب کا ایک واقعہ“‏ قرار دیتا ہے۔‏ اسلئے،‏ جدید زمانے کے مترجمین خدا کے سلسلے میں اس جھوٹے حوالے کو خارج کر دیتے ہیں۔‏

تاہم،‏ بہتیرے ترجمے یہ بیان نہیں کرتے کہ ستفنس نے یسوع سے ”‏دُعا“‏ کی تھی۔‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن کا فٹ‌نوٹ ظاہر کرتا ہے کہ اصطلاح ”‏درخواست کی“‏ کا ترجمہ ”‏مناجات؛‏ دُعا“‏ بھی کِیا جا سکتا ہے۔‏ لیکن کیا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یسوع قادرِمطلق خدا ہے؟‏ جی‌نہیں۔‏ وائنز ایکسپوزیٹری ڈکشنری آف دی اولڈ اینڈ نیو ٹسٹامنٹ ورڈز کے مطابق اس پس‌منظر میں اصلی یونانی لفظ ایپی‌کالیو کا مطلب ہے:‏ ”‏پکارنا،‏ درخواست کرنا؛‏ صاحبِ‌اختیار سے اپیل کرنا۔‏“‏ پولس اسی لفظ کو استعمال کرتا ہے جب وہ کہتا ہے:‏ ”‏مَیں قیصرؔ کے ہاں اپیل کرتا ہوں۔‏“‏ (‏اعمال ۲۵:‏۱۱‏)‏ توپھر موزوں طور پر،‏ دی نیو انگلش بائبل کے مطابق ستفنس نے یسوع کو پکارا تھا۔‏

ایسی عرض کرنے کیلئے کس بات نے ستفنس کو تحریک دی؟‏ اعمال ۷:‏۵۵،‏ ۵۶ کے مطابق ستفنس نے ”‏رُوح‌اُلقدس سے معمور ہوکر آسمان کی طرف غور سے نظر کی اور خدا کا جلال اور یسوؔع کو خدا کی دہنی طرف کھڑا“‏ دیکھا تھا۔‏ عام طور پر،‏ ستفنس نے یسوع کے نام سے یہوواہ کے حضور درخواستیں پیش کی ہونگی۔‏ لیکن رویا میں قیامت‌یافتہ یسوع کو دیکھ کر ستفنس نے بظاہر براہِ‌راست یسوع سے درخواست کرنے کی ضرورت محسوس کی اور کہا:‏ ”‏اَے خداوند یسوؔع!‏ میری رُوح کو قبول کر۔‏“‏ ستفنس جانتا تھا کہ یسوع کو مُردوں کو زندہ کرنے کا اختیار بخشا گیا ہے۔‏ (‏یوحنا ۵:‏۲۷-‏۲۹‏)‏ لہٰذا اس نے یسوع سے اپنی روح یا قوتِ‌حیات کی حفاظت کرنے کی درخواست کی جبتک یسوع آسمان میں اُسے غیرفانی زندگی کیلئے مُردوں میں سے زندہ نہیں کرتا۔‏

کیا ستفنس کی مختصر سی بات یسوع سے دُعا کرنے کا نمونہ فراہم کرتی ہے؟‏ ہرگز نہیں۔‏ ایک بات تو یہ ہے کہ ستفنس نے واضح طور پر یسوع کو یہوواہ سے فرق دیکھا تھا۔‏ اُس نے یسوع کو ”‏خدا کی دہنی طرف کھڑا“‏ دیکھا تھا۔‏ نیز یہ حالات غیرمعمولی تھے۔‏ ایک دوسرا واقعہ جس میں یسوع کو مخاطب کِیا گیا وہ یوحنا رسول کا ہے۔‏ اس نے اسی طرح براہِ‌راست یسوع کو مخاطب کِیا جب اُس نے اُسے رویا میں دیکھا۔‏—‏مکاشفہ ۲۲:‏۱۶،‏ ۲۰‏۔‏

اگرچہ مسیحی آجکل موزوں طور پر یہوواہ خدا سے دُعائیں کرتے ہیں توبھی وہ پُختہ ایمان رکھتے ہیں کہ یسوع ”‏قیامت اور زندگی“‏ ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۱:‏۲۵‏)‏ ستفنس کی طرح،‏ اپنے پیروکاروں کو مُردوں سے زندہ کرنے کی یسوع کی قابلیت پر ایمان آزمائش کے وقت ہماری مدد کر سکتا اور ہمیں سنبھال سکتا ہے۔‏