مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہم نے یہوواہ پر توکل کرنا سیکھ لیا

ہم نے یہوواہ پر توکل کرنا سیکھ لیا

میری کہانی میری زبانی

ہم نے یہوواہ پر توکل کرنا سیکھ لیا

از نتالی ہولٹرف

یہ جون ۱۹۴۵ کا واقعہ ہے۔‏ ایک دن ایک کمزور سا شخص ہمارے دروازے پر کھڑا تھا۔‏ اُسے دیکھ کر میری چھوٹی بیٹی روت نے زور سے مجھے آواز دی:‏ ”‏ماں دیکھو کوئی اجنبی ہمارے دروازے پر کھڑا ہے!‏“‏ اُسے نہیں پتہ تھا کہ یہ اجنبی ہی اُسکا باپ اور میرا شوہر فرڈنڈ ہے۔‏ دو سال پہلے روت کی پیدائش کے صرف تین دن بعد،‏ فرڈنڈ کو گرفتار کرکے قیدیوں کے کیمپ میں ڈال دیا گیا تھا۔‏ اتنے لمبے عرصے کے بعد آج روت اپنے باپ سے ملی تھی اور ہمارا خاندان ایک بار پھر اکٹھا تھا۔‏ فرڈنڈ اور میرے پاس ایک دوسرے کو بتانے کیلئے بہت کچھ تھا!‏

فرڈنڈ سن ۱۹۰۹ میں جرمنی کے شہر کیل میں اور مَیں ۱۹۰۷ میں جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں پیدا ہوئی۔‏ جب مَیں ۱۲ برس کی تھی تو ہمارے خاندان کا رابطہ بائبل سٹوڈنٹس کیساتھ ہوا۔‏ اُس وقت یہوواہ کے گواہ اسی نام سے جانے جاتے تھے۔‏ اُنیس سال کی عمر میں مَیں نے ایونجلیکل چرچ کو چھوڑ دیا اور یہوواہ کے گواہوں کیساتھ رفاقت رکھنے لگی۔‏

اسی دوران فرڈنڈ نے بحری جہاز چلانے کی تربیت مکمل کر لی اور ایک کپتان بن گیا۔‏ اپنے بحری سفر کے دوران وہ اکثر خدا کے وجود کی بابت سوالات پر غور کِیا کرتا تھا۔‏ جرمنی واپس آنے کے بعد،‏ فرڈنڈ اپنے بڑے بھائی سے ملنے کیلئے گیا جو ایک یہوواہ کا گواہ تھا۔‏ اس ملاقات سے اُس نے یہ سیکھ لیا کہ بائبل میں اُسکے تمام سوالوں کے جواب موجود ہیں۔‏ اُس نے لوتھرن چرچ کو چھوڑ دیا اور جہاز کے کپتان کے طور پر اپنی ملازمت بھی چھوڑ دینے کا فیصلہ کِیا۔‏ پہلے دن مُنادی کرنے کے بعد ہی اُسکے دل میں یہ خواہش پیدا ہو گئی کہ وہ عمربھر اس کام کو جاری رکھیگا۔‏ اُسی رات فرڈنڈ نے اپنی زندگی یہوواہ کی مرضی کے مطابق گزارنے کا فیصلہ کِیا اور اگست ۱۹۳۱ میں بپتسمہ لے لیا۔‏

جہاز کا کپتان اور مُناد

نومبر ۱۹۳۱ میں فرڈنڈ ملک نیدرلینڈز میں منادی کرنے کیلئے چلا گیا۔‏ جب فرڈنڈ نے وہاں مُنادی کے کام کو منظم کرنے والے بھائی کو یہ بتایا کہ اُس نے بحری جہاز چلانے کی تربیت حاصل کی ہے تو بھائی نے خوشی سے کہا:‏ ”‏ہمیں آپ جیسے شخص ہی کی ضرورت تھی!‏“‏ بھائیوں نے ایک کشتی کرایے پر لی تاکہ کُل‌وقتی خادموں کا ایک گروپ مُلک کے شمالی حصے میں ساحلوں کے آس‌پاس رہنے والے لوگوں کو منادی کر سکے۔‏ اس کشتی پر سوار پانچ اشخاص میں سے کوئی بھی اسے چلانا نہیں جانتا تھا۔‏ پس فرڈنڈ کپتان بن گیا۔‏

چھ ماہ بعد فرڈنڈ کو جنوبی نیدرلینڈز میں تل‌برگ میں کُل‌وقتی خادم کے طور پر کام کرنے کی پیشکش کی گئی۔‏ تقریباً اُسی وقت مجھے بھی تل‌برگ میں خدمت کرنے کیلئے بھیجا گیا۔‏ یہاں میری ملاقات فرڈنڈ سے ہوئی۔‏ فوراً ہی ہمیں مُلک کے شمالی حصے میں گرونن‌جن جانے کیلئے کہا گیا۔‏ وہاں اکتوبر ۱۹۳۲ میں ہماری شادی ہو گئی اور اسی جگہ ایک گھر میں جہاں مختلف پائنیر رہتے تھے ہم نے خدمت کرنے کیساتھ ساتھ اپنا ہنی‌مون بھی منایا!‏

سن ۱۹۳۵ میں ہماری بیٹی آستر پیدا ہوئی۔‏ اگرچہ ہماری آمدنی بہت کم تھی توبھی ہم نے خدمت کو جاری رکھنے کا عزم کِیا۔‏ ہم ایک گاؤں میں ایک چھوٹے سے گھر میں منتقل ہو گئے۔‏ جب مَیں گھر پر بچی کی دیکھ‌بھال کرتی تو میرا شوہر دیر تک منادی کرتا تھا۔‏ اگلے دن مَیں ایسا کرتی اور میرا شوہر بچی کے پاس رہتا تھا۔‏ جبتک آستر ہمارے ساتھ منادی میں جانے کے قابل نہ ہوئی ہم ایسا ہی کرتے رہے۔‏

اسکے کچھ ہی عرصہ بعد،‏ یورپ کی سیاسی صورتحال بہت خراب ہو گئی۔‏ ہم نے جرمنی میں گواہوں کو ستائے جانے کی بابت سنا تو ہم سمجھ گئے کہ بہت جلد ہماری باری بھی آنے والی ہے۔‏ ہم سوچتے تھے کہ سخت اذیت کے تحت ہمارا کیا بنیگا۔‏ سن ۱۹۳۸ میں نیدرلینڈز کی حکومت نے غیرملکیوں کے مذہبی کتابیں اور رسالے تقسیم کرنے اور منادی کرنے پر پابندی لگا دی۔‏ وہاں کے مقامی گواہوں نے ہمیں اپنی خدمت کو جاری رکھنے میں مدد دینے کیلئے ہمیں اُن لوگوں کے نام دئے جنہوں نے ہمارے کام میں دلچسپی ظاہر کی تھی اور یوں ہم اُن کیساتھ بائبل مطالعہ کرنے کے قابل ہوئے۔‏

اسی دوران یہوواہ کے گواہوں کا ایک مذہبی کنونشن منعقد ہونے والا تھا۔‏ اگرچہ ہمارے پاس کنونشن کی جگہ پہنچنے کیلئے ریل‌گاڑی کا کرایہ نہیں تھا توبھی ہم وہاں پہنچنا چاہتے تھے۔‏ لہٰذا ہم نے تین دن تک سائیکل پر سفر کِیا جس میں بچے کیلئے الگ سیٹ لگی ہوئی تھی۔‏ ہم دن کو سفر کرتے تھے اور رات کو اُس علاقے میں رہنے والے گواہوں کے پاس ٹھہر جاتے تھے۔‏ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ ہم اپنے پہلے نیشنل کنونشن پر حاضر ہوکر کتنے خوش تھے!‏ اس پروگرام نے ہمیں آگے آنے والی آزمائشوں کیلئے تیار کِیا۔‏ سب سے بڑھ کر ہمیں یہ یاد دلایا گیا کہ ہمیں اپنا بھروسا خدا پر رکھنا چاہئے۔‏ زبور ۳۱:‏۶ کے الفاظ ”‏میرا توکل تو [‏یہوواہ]‏ ہی پر ہے“‏ ہمارا ماٹو (‏رہبر اُصول)‏ بن گیا۔‏

نازی ہمیں ڈھونڈ نکالتے ہیں

مئی ۱۹۴۰ میں نازیوں نے نیدرلینڈز پر حملہ کر دیا۔‏ اسکے کچھ ہی دیر بعد،‏ گسٹاپو یا خفیہ پولیس اچانک ہمارے گھر پہنچ گئی۔‏ اُس وقت ہم بائبل کتابوں کے ڈبے کھولنے میں مصروف تھے۔‏ وہ فرڈنڈ کو خفیہ پولیس کے ہیڈکوارٹر لے گئے۔‏ مَیں اور آستر باقاعدہ اُس سے ملنے کیلئے جاتی رہیں۔‏ بعض‌اوقات تو تفتیش کے دوران اُسے ہمارے سامنے ماراپیٹا جاتا تھا۔‏ دسمبر میں اچانک فرڈنڈ کو رِہا کر دیا گیا مگر یہ رہائی محض عارضی تھی۔‏ ایک شام جب ہم گھر واپس آئے تو ہم نے گھر کے قریب خفیہ پولیس کی ایک کار دیکھی۔‏ فرڈنڈ فوراً وہاں سے بھاگ گیا اور مَیں اور آستر گھر کے اندر آ گئیں۔‏ خفیہ پولیس ہمارا انتظار کر رہی تھی۔‏ اُنہیں فرڈنڈ کی تلاش تھی۔‏ اُسی رات اُنکے جانے کے بعد،‏ نیدرلینڈز کی پولیس آئی اور تفتیش کیلئے مجھے ساتھ لے گئی۔‏ اگلے ہی دن مَیں اور آستر ایک نئے بپتسمہ‌یافتہ جوڑے،‏ نارڈر خاندان کے گھر چھپ گئیں جنہوں نے ہمیں پناہ اور تحفظ کی پیشکش کی تھی۔‏

جنوری ۱۹۴۱ کے آخر میں،‏ کشتی میں رہائش‌پذیر ایک خدمت کرنے والے جوڑے کو گرفتار کر لیا گیا۔‏ اگلے ہی دن ایک سفری نگہبان اور میرا شوہر اُس جوڑے کی کچھ چیزیں لینے کیلئے اُنکی رہائش‌گاہ پر گئے تو خفیہ پولیس کی مدد کرنے والے لوگوں نے اُنہیں پکڑنے کی کوشش کی۔‏ فرڈنڈ اپنی سائیکل پر سوار ہوکر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا مگر وہ سفری نگہبان کو گرفتار کرکے جیل لے گئے۔‏

ذمہ‌دار بھائیوں نے فرڈنڈ سے سفری نگہبان کا کام سنبھالنے کی درخواست کی۔‏ اسکا مطلب تھا کہ وہ مہینے میں صرف تین دن گھر آیا کریگا۔‏ یہ ہمارے لئے ایک نئی آزمائش تھی مگر مَیں نے اسکے باوجود خدمت جاری رکھی۔‏ خفیہ پولیس گواہوں کی تلاش میں زیادہ سرگرم ہو گئی تھی اسلئے ہمیں اپنا ٹھکانا بدلتے رہنے کی ضرورت تھی۔‏ سن ۱۹۴۲ میں ہم نے تین مرتبہ گھر بدلا۔‏ آخرکار ہم روٹرڈیم پہنچ گئے جو اُس جگہ سے بہت دُور تھا جہاں فرڈنڈ خفیہ طور پر اپنی خدمت انجام دے رہا تھا۔‏ اس وقت میرا دوسرا بچہ آنے والا تھا۔‏ ایک خاندان نے جنکے دو بیٹوں کو حال ہی میں گرفتار کر لیا گیا تھا ہمیں اپنے گھر میں پناہ دی۔‏

خفیہ پولیس ہماری تلاش میں

جولائی ۱۹۴۳ میں ہماری دوسری بیٹی روت پیدا ہوئی۔‏ اس وقت فرڈنڈ تین دن ہمارے ساتھ رہنے کے قابل ہوا مگر پھر اُسے جانا پڑا اور یہی آخری بار اُس سے ہماری ملاقات تھی۔‏ تقریباً تین ہفتے بعد فرڈنڈ کو ایمسٹرڈیم میں گرفتار کر لیا گیا۔‏ اسے شناخت کیلئے خفیہ پولیس کے تھانے لیجایا گیا۔‏ ہمارے منادی کے کام کی بابت معلومات حاصل کرنے کیلئے خفیہ پولیس نے اُس سے بہت زیادہ تفتیش کی۔‏ مگر فرڈنڈ صرف یہی جواب دیتا رہا کہ وہ ایک یہوواہ کا گواہ ہے اور وہ کسی طرح کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیتا ہے۔‏ خفیہ پولیس کے افسر بہت ناراض تھے کہ فرڈنڈ نے ایک جرمن ہونے کے باوجود فوج میں ملازمت نہیں کی۔‏ لہٰذا وہ اُسے دھمکیاں دیتے رہے کہ اُسے ایک غدار کی سزا دی جائیگی۔‏

اگلے پانچ مہینوں کیلئے فرڈنڈ کو جیل میں رکھا گیا جہاں اُسے باربار جان سے مار ڈالنے کی دھمکیاں ملتی رہیں۔‏ تاہم،‏ فرڈنڈ یہوواہ کا وفادار رہا۔‏ خدا کے کلام بائبل نے اُسے روحانی طور پر مضبوط رہنے میں مدد دی۔‏ فرڈنڈ کو یہوواہ کا گواہ ہونے کی وجہ سے اپنے پاس بائبل رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔‏ جبکہ دیگر قیدی بائبل کی ایک کاپی لے سکتے تھے۔‏ لہٰذا فرڈنڈ نے اپنے ساتھی قیدی سے درخواست کی کہ وہ اپنے گھر والوں سے اُسے بھی ایک بائبل منگوا دے۔‏ کئی سال بعد بھی فرڈنڈ اُس واقعہ کو یاد کرکے کہتا تھا:‏ ”‏بائبل نے مجھے کتنی تقویت بخشی تھی!‏“‏

جنوری ۱۹۴۴ میں،‏ اچانک ہی فرڈنڈ کو نیدرلینڈز میں ووخت کے کیمپ بھیج دیا گیا۔‏ یہاں بھیجا جانا اُس کیلئے ایک برکت ثابت ہوا کیونکہ وہاں اُسکی ملاقات ۴۶ دیگر گواہوں سے ہوئی۔‏ جب مجھے اُسکے یہاں بھیج دئے جانے کی اطلاع ملی تو مَیں بہت خوش ہوئی کہ وہ ابھی تک زندہ ہے!‏

کیمپ میں منادی کرنا

کیمپ کی زندگی بہت مشکل تھی۔‏ ہر روز ناقص غذا،‏ گرم کپڑوں کی کمی اور شدید سردی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔‏ فرڈنڈ کو گلے کی سخت تکلیف ہو گئی۔‏ سخت سردی میں کافی دیر تک قطار میں کھڑا رہنے کے بعد اُسکی ڈاکٹر کو دکھانے کی باری آئی۔‏ لیکن جن مریضوں کو ۱۰۴ یا اس سے زیادہ بخار ہوتا تھا اُنہیں علاج کیلئے وہاں رکھا جاتا تھا۔‏ لہٰذا فرڈنڈ کو واپس بھیج دیا گیا کیونکہ اُسے ۱۰۲ بخار تھا!‏ اُسے دوبارہ کام پر جانے کیلئے کہا گیا۔‏ تاہم اُسکے ساتھی قیدیوں نے اُسے تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد گرم جگہ پر بیٹھنے کا موقع دینے سے اُسکی مدد کی۔‏ جب موسم کسی حد تک گرم ہوا تو اُسکی طبیعت کافی حد تک بہتر ہو گئی۔‏ اسکے علاوہ،‏ جب بھائیوں کو کھانا ملتا تو وہ اسے ایک دوسرے کیساتھ بانٹ لیا کرتے تھے اور اسطرح فرڈنڈ کی صحت کافی اچھی ہونے لگی۔‏

قید میں جانے سے پہلے بھی منادی کرنا میرے شوہر کا دل‌پسند کام تھا اور کیمپ کے اندر بھی اُس نے اس کام کو جاری رکھا۔‏ کیمپ کے افسران اکثر اُسکے گواہ ہونے کا مذاق اُڑایا کرتے تھے۔‏ مگر فرڈنڈ ایسے اوقات کو گفتگو شروع کرنے کا موقع خیال کِیا کرتا تھا۔‏ اصل میں بھائیوں کیلئے منادی کرنے کی جگہ صرف یہی کیمپ تھا جہاں وہ قید تھے۔‏ بھائی ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ ’‏ہم کیسے زیادہ قیدیوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں؟‏‘‏ نہ چاہتے ہوئے بھی کیمپ کی انتظامیہ نے مشکل حل کر دی۔‏ وہ کیسے؟‏

بھائیوں کے پاس بائبل کتابوں اور رسالوں کے علاوہ ۱۲ بائبلیں بھی تھیں جو اُنہوں نے چھپا کر رکھی تھیں۔‏ ایک دن کچھ کتابیں گارڈز کے ہاتھ لگ گئی مگر اُنہیں یہ پتہ نہ چل سکا کہ یہ کس قیدی کا سامان ہے۔‏ لہٰذا اُنہوں نے فیصلہ کِیا کہ گواہوں کے اتحاد کو توڑنا چاہئے۔‏ اسلئے سزا کے طور پر تمام بھائیوں کو دوسرے قیدیوں کیساتھ مختلف بیرکوں میں ڈال دیا گیا۔‏ اسکے علاوہ،‏ کھانا کھاتے وقت بھی بھائیوں کو ایک ساتھ بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔‏ یہ بندوبست بہت ہی مفید ثابت ہوا۔‏ اب بھائی وہ کام کر سکتے تھے جو وہ کرنا چاہتے تھے یعنی بہتیرے قیدیوں کو منادی کر سکتے تھے۔‏

تنہا دو بچیوں کی پرورش کرنا

اس دوران مَیں اپنی دونوں بیٹیوں کیساتھ روٹرڈیم میں رہ رہی تھی۔‏ سن ۱۹۴۳ اور ۱۹۴۴ کے موسمِ‌سرما میں شدید ٹھنڈ پڑی۔‏ ہمارے گھر کے پیچھے جہازوں کو مار گرانے والا جرمن سپاہیوں کا یونٹ رہتا تھا۔‏ ہمارے سامنے وال نام کی بندرگاہ تھی جوکہ برطانوی اور امریکی بمباری کا خاص نشانہ تھی۔‏ ہمارا گھر زیادہ محفوظ نہیں تھا۔‏ خوراک کی بھی کمی تھی۔‏ ایسی صورتحال میں ہم نے یہوواہ پر مکمل بھروسا رکھنا سیکھ لیا تھا۔‏—‏امثال ۳:‏۵،‏ ۶‏۔‏

آٹھ سالہ آستر کھانا لینے کیلئے قطار میں کھڑی ہوتی اور ہمارے چھوٹے سے خاندان کی بہت مدد کرتی تھی۔‏ تاہم،‏ اکثر ایسا ہوتا کہ جب اُسکی باری آتی تو کھانا ختم ہو چکا ہوتا تھا۔‏ ایک دن جب وہ کھانا لینے گئی تو اُسی وقت بمباری شروع ہو گئی۔‏ جب مَیں نے دھماکوں کی آواز سنی تو میری تو جان ہی نکل گئی۔‏ مگر جلد ہی جب مَیں نے اُسے چقندر ہاتھ میں لئے ہوئے صحیح سلامت آتے دیکھا تو میری جان میں جان آئی۔‏ سب سے پہلے مَیں نے اُس سے پوچھا،‏ ”‏کیا ہوا تھا؟‏“‏ بڑے اطمینان کیساتھ اُس نے مجھے جواب دیا:‏ ”‏جب بمباری شروع ہوئی تو مَیں نے وہی کِیا جو ڈیڈی نے مجھے بتایا ہوا تھا،‏ ’‏زمین پر چت ہوکر لیٹ جاؤ اور اسی حالت میں پڑے پڑے یہوواہ سے دُعا کرتے رہو۔‏‘‏ یہ کارگر ثابت ہوا!‏“‏

میرے جرمن لب‌ولہجے کی وجہ سے یہ زیادہ مناسب تھا کہ آستر ہی خریداری کرے۔‏ لیکن اس سے جرمن سپاہی ذرا چونک سے گئے۔‏ اُنہوں نے آستر سے سوال پوچھنا شروع کر دئے۔‏ مگر اُس نے اُنہیں کچھ نہ بتایا۔‏ مَیں گھر پر آستر کو بائبل کی تعلیم دیتی تھی اور کیونکہ وہ سکول نہیں جا سکتی تھی اسلئے مَیں نے خود ہی اُسے لکھنا پڑھنا اور دیگر کام سکھائے۔‏

آستر خدمت میں بھی میری مدد کرتی تھی۔‏ جب مَیں کسی کیساتھ بائبل مطالعہ کرنے کیلئے گھر سے نکلتی تو آستر میرے آگے آگے چلتی تھی تاکہ یہ دیکھ سکے کہ کوئی ہمیں دیکھ تو نہیں رہا۔‏ اس بات کا یقین کرنے کیلئے کہ مطالعہ کرنے والا شخص گھر پر ہے یا نہیں وہ اُن مخصوص اشاروں کو دیکھتی تھی جو ہم نے رکھے ہوئے تھے۔‏ مثلاً،‏ جس شخص کے پاس مَیں نے جانا ہوتا اگر وہ سمجھتا کہ میرے اُنکے گھر جانے میں کوئی خطرہ نہیں تو وہ اپنی کھڑکی میں گلدستہ رکھ دیا کرتا تھا۔‏ بائبل مطالعے کے دوران،‏ آستر گھر کے باہر روت کی بچہ گاڑی کیساتھ ٹہلتی رہتی تھی تاکہ ہر طرح کے خطرے کو بھانپ سکے۔‏

ایک دوسرے کیمپ میں منتقلی

فرڈنڈ پر کیا بیت رہی تھی؟‏ ستمبر ۱۹۴۴ میں اُسے دیگر قیدیوں کے ساتھ ریلوے سٹیشن لیجایا گیا اور ۸۰ قیدیوں کے ایک گروہ کو بند گاڑیوں میں بھر دیا۔‏ ہر گاڑی میں ایک بالٹی بیت‌الخلا کے لئے رکھی گئی تھی اور ایک بالٹی پینے کے پانی کی تھی۔‏ ان گاڑیوں میں ہوا کا بھی کوئی خاص انتظام نہیں تھا صرف جگہ جگہ سوراخ تھے۔‏ اس حالت میں اُنہیں تین دن اور رات سفر کرنا پڑا جبکہ گاڑی میں بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں تھی!‏ گرمی،‏ بدبو،‏ بھوک اور پیاس کے علاوہ نہ جانے اُنہیں کیا کچھ برداشت کرنا پڑا۔‏

بالآخر گاڑی زاکسن‌ہاوزن کے کیمپ پر آکر رُک گئی۔‏ ماسوا اُن ۱۲ چھوٹی بائبلوں کے جو گواہوں کے پاس تھیں تمام قیدیوں سے اُنکی ذاتی چیزیں لے لی گئیں!‏

فرڈنڈ اور آٹھ دیگر بھائیوں کو رادیناؤ میں ایک اسلحہ تیار کرنے والے کیمپ میں بھیج دیا گیا۔‏ اگرچہ اُنہیں جان سے مار ڈالنے کی دھمکیاں دی گئیں توبھی بھائیوں نے یہ کام کرنے سے انکار کر دیا۔‏ ایک دوسرے کی حوصلہ‌افزائی کرنے کی خاطر وہ صبح کے وقت بائبل میں سے زبور ۱۸:‏۲ جیسی کسی نہ کسی آیت پر بات‌چیت کرتے تھے تاکہ دن کے دوران وہ اس پر غور کر سکیں۔‏ اس سے اُنہیں روحانی معاملات پر سوچ‌بچار کرنے میں مدد ملی۔‏

ایک دن،‏ گولیوں کی گونج نے برطانوی،‏ امریکی اور روسی فوجی دستوں کی آمد کا اعلان کر دیا۔‏ روسی فوجی سب سے پہلے اُسی کیمپ میں آئے جہاں فرڈنڈ اور اُسکے ساتھی تھے۔‏ اُنہوں نے قیدیوں میں کچھ خوراک تقسیم کی اور اُنہیں کیمپ سے جانے کا حکم دیا۔‏ اپریل ۱۹۴۵ کے آخر تک روسی فوج نے اُنہیں گھروں کو جانے کی اجازت دے دی۔‏

بالآخر ایک متحد خاندان

جون ۱۵،‏ کو فرڈنڈ نیدرلینڈز پہنچ گیا۔‏ گرونن‌جن کے بھائیوں نے اُسکا پُرجوش استقبال کِیا۔‏ جلد ہی اُسے پتہ چل گیا کہ ہم زندہ ہیں اور ہمیں بھی اسکی واپسی کی اطلاع مل گئی۔‏ اب فرڈنڈ کو دیکھنے کیلئے ہم بڑے بیتاب تھے۔‏ ایک دن ننھی روت نے مجھے آواز لگائی:‏ ”‏ماں دیکھو دروازے پر کوئی اجنبی کھڑا ہے!‏“‏ جب مَیں نے دیکھا تو وہاں فرڈنڈ کھڑا تھا!‏

دوبارہ ایک خاندان کے طور پر زندگی کا آغاز کرنے کیلئے ہمیں بہت سے مسائل کو حل کرنا تھا۔‏ ہمارے پاس رہنے کیلئے جگہ نہیں تھی اور سب سے بڑا مسئلہ دوبارہ سے قانونی طور پر وہاں رہنے کی اجازت حاصل کرنا تھا۔‏ چونکہ ہم جرمن تھے اسلئے وہاں کے افسران کئی سال سے ہمارے ساتھ جلاوطنوں جیسا برتاؤ کر رہے تھے۔‏ مگر جلد ہی ہم یہ تمام مسائل حل کرنے اور ایک خاندان کے طور پر یہوواہ کی خدمت کرنے کے قابل ہو گئے۔‏

‏’‏میرا توکل یہوواہ پر ہے‘‏

اسکے بعد،‏ جب کبھی بھی ہم اپنے ایسے دوستوں کیساتھ ہوتے تھے جو ہماری طرح کی مشکلات برداشت کر چکے تھے تو ہم یاد کِیا کرتے تھے کہ ان مشکل دنوں میں یہوواہ نے کیسے ہماری راہنمائی کی تھی۔‏ (‏زبور ۷:‏۱‏)‏ ہم خوش ہوتے تھے کہ اس تمام عرصے میں یہوواہ نے ہمیں منادی کے کام میں حصہ لینے کی اجازت دی ہے۔‏ ہم اکثر یہ بھی کہا کرتے تھے کہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ ہم نے اپنی جوانی یہوواہ کی پاک خدمت میں صرف کی ہے۔‏—‏واعظ ۱۲:‏۱‏۔‏

نازی اذیت کے بعد مَیں نے اور فرڈنڈ نے تقریباً ۵۰ سال سے زیادہ عرصہ تک مل کر یہوواہ کی خدمت کی اور دسمبر ۲۰،‏ ۱۹۹۵ کو فرڈنڈ نے اپنی زمینی زندگی کا اختتام کِیا۔‏ اب مَیں تقریباً ۹۸ برس کی ہونے والی ہوں۔‏ مَیں ہر روز یہوواہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اُس مشکل دَور میں ہمارے بچے کتنے مددگار ثابت ہوئے تھے۔‏ نیز مَیں ابھی بھی اپنی خدمت کے ذریعے اُسکے پاک نام کو جلال دینے کے قابل ہوں۔‏ جوکچھ یہوواہ نے میرے لئے کِیا ہے مَیں اس کیلئے بھی اُسکی شکرگزار ہوں اور یہ میری دلی خواہش ہے کہ مَیں اپنے رہبر اُصول:‏ ”‏میرا توکل تو [‏یہوواہ]‏ ہی پر ہے“‏ قائم رہوں۔‏—‏زبور ۳۱:‏۶‏۔‏

‏[‏صفحہ ۱۹ پر تصویر]‏

اکتوبر ۱۹۳۲ میں فرڈنڈ کیساتھ

‏[‏صفحہ ۱۹ پر تصویر]‏

بشارتی کشتی ”‏المینا“‏ اور اُس پر سوار لوگ

‏[‏صفحہ ۲۲ پر تصویر]‏

فرڈنڈ اور بچوں کیساتھ