مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یسوع کے نقشِ‌قدم پر چلیں

یسوع کے نقشِ‌قدم پر چلیں

یسوع کے نقشِ‌قدم پر چلیں

‏”‏مَیں نے تمکو ایک نمونہ دکھایا ہے کہ جیسا مَیں نے تمہارے ساتھ کِیا ہے تم بھی کِیا کرو۔‏“‏—‏یوحنا ۱۳:‏۱۵‏۔‏

۱.‏ یسوع مسیحیوں کیلئے ایک نمونہ کیوں ہے؟‏

پوری انسانی تاریخ میں صرف ایک ہی ایسا شخص رہا ہے جس نے اپنی تمام زندگی میں کوئی گناہ نہیں کِیا تھا۔‏ وہ شخص یسوع ہے۔‏ یسوع کے علاوہ زمین پر،‏ ”‏کوئی ایسا آدمی نہیں جو گُناہ نہ کرتا ہو۔‏“‏ (‏۱-‏سلاطین ۸:‏۴۶؛‏ رومیوں ۳:‏۲۳‏)‏ اس وجہ سے،‏ سچے مسیحی یسوع کو ایک کامل نمونہ خیال کرتے ہیں جسکی نقل کی جانی چاہئے۔‏ نیسان ۱۴،‏ ۳۳ س.‏ع.‏ کے دن اپنی موت سے تھوڑی دیر پہلے،‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ وہ اسکی نقل کریں۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏مَیں نے تُم کو ایک نمونہ دکھایا ہے کہ جیسا مَیں نے تمہارے ساتھ کِیا ہے تُم بھی کِیا کرو۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۱۵‏)‏ اس آخری رات،‏ یسوع نے ایسے مختلف طریقوں کی بابت بتایا جن پر چلنے سے مسیحی اسکی مانند بن سکتے ہیں۔‏ اس مضمون میں،‏ ہم ان میں سے بعض طریقوں پر غور کرینگے۔‏

فروتنی کیوں ضروری ہے

۲،‏ ۳.‏ یسوع فروتنی کا کامل نمونہ کیسے تھا؟‏

۲ جب یسوع نے اپنے شاگردوں کو تاکید کی کہ وہ اسکی پیروی کریں تو وہ خاص طور پر فروتنی کی بات کر رہا تھا۔‏ کئی مواقع پر اس نے اپنے شاگردوں کو فروتن بننے کی تاکید کی تھی۔‏ اس نے نیسان ۱۴ کو اپنے شاگردوں کے پاؤں دھونے سے اپنی فروتنی ظاہر کی۔‏ اسکے بعد یسوع نے کہا:‏ ”‏پس جب مجھ خداوند اور اُستاد نے تمہارے پاؤں دھوئے تو تُم پر بھی فرض ہے کہ ایک دوسرے کے پاؤں دھویا کرو۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۱۴‏)‏ اسکے بعد،‏ اُس نے اپنے رسولوں کو حکم دیا کہ اُسکے نمونے پر چلیں۔‏ یہ فروتنی کا کیا ہی شاندار نمونہ تھا!‏

۳ پولس رسول ہمیں بتاتا ہے کہ یسوع زمین پر آنے سے پہلے ”‏خدا کی صورت پر تھا۔‏“‏ اسکے باوجود،‏ اُس نے خود کو خالی کر دیا اور ایک ادنیٰ انسان بن گیا۔‏ اس سے بھی بڑھکر اس نے ”‏اپنے آپ کو پست کر دیا اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی۔‏“‏ (‏فلپیوں ۲:‏۶-‏۸‏)‏ ذرا سوچیں کہ یسوع کائنات میں دوسری بڑی ہستی ہونے کے باوجود فرشتوں سے کمتر کئے جانے،‏ انسان کے طور پر پیدا ہونے،‏ اپنے ناکامل والدین کی تابعداری کرنے اور بالآخر حقیر مجرم کے طور پر مرنے کیلئے تیار تھا۔‏ (‏کلسیوں ۱:‏۱۵،‏ ۱۶؛‏ عبرانیوں ۲:‏۶،‏ ۷‏)‏ فروتنی کا کیا ہی شاندار نمونہ!‏ کیا ایسا ”‏مزاج“‏ رکھنا اور ایسی فروتنی پیدا کرنا ممکن ہے؟‏ (‏فلپیوں ۲:‏۳-‏۵‏)‏ جی‌ہاں،‏ مگر یہ آسان نہیں ہے۔‏

۴.‏ کونسی باتیں انسان کو مغرور بنا دیتی ہیں لیکن غرور کیوں نقصاندہ ہے؟‏

۴ فروتنی کی ضد غرور ہے۔‏ (‏امثال ۶:‏۱۶-‏۱۹‏)‏ غرور ہی شیطان کے زوال کا سبب بنا تھا۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۳:‏۶‏)‏ یہ انسان کے دل میں آسانی سے گھر کر سکتا ہے۔‏ ایک مرتبہ کسی دل میں غرور آ جائے تو اسے نکالنا مشکل ہوتا ہے۔‏ لوگ اپنے مُلک،‏ نسل،‏ اپنی جائیداد،‏ تعلیم،‏ کامیابیوں،‏ اپنی خوبصورتی،‏ اپنی کھیلنے کی صلاحیتوں اور دیگر باتوں پر فخر کرتے ہیں۔‏ تاہم،‏ یہوواہ کے نزدیک ان میں سے کسی کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۴:‏۷‏)‏ اگر یہ باتیں ہمیں مغرور بنا رہی ہیں تو حقیقت میں یہ یہوواہ کیساتھ ہمارے رشتے کو ختم کر رہی ہیں۔‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ اگرچہ بلندوبالا ہے توبھی خاکسار کا خیال رکھتا ہے۔‏ لیکن مغرور کو دُور ہی سے پہچان لیتا ہے۔‏“‏—‏زبور ۱۳۸:‏۶؛‏ امثال ۸:‏۱۳‏۔‏

اپنی برادری کیساتھ فروتنی سے رہنا

۵.‏ بزرگوں کیلئے فروتن بننا کیوں ضروری ہے؟‏

۵ ہمیں یہوواہ کی خدمت میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کی بابت بھی غرور نہیں کرنا چاہئے۔‏ (‏۱-‏تواریخ ۲۹:‏۱۴؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۷،‏ ۱۸‏)‏ اصل بات تو یہ ہے کہ ہمارے پاس جتنی زیادہ ذمہ‌داریاں ہیں ہمیں اُتنا ہی زیادہ فروتن بننے کی ضرورت ہے۔‏ پطرس رسول نے بزرگوں کو تاکید کی کہ ”‏جو لوگ تمہارے سپرد ہیں اُن پر حکومت نہ جتاؤ بلکہ گلّہ کیلئے نمونہ بنو۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۳‏)‏ بزرگوں کو خدمت کرنے اور نمونہ قائم کرنے کیلئے مقرر کِیا گیا ہے۔‏ وہ آقا یا مالک نہیں ہیں۔‏—‏لوقا ۲۲:‏۲۴-‏۲۶؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۱:‏۲۴‏۔‏

۶.‏ کن حلقوں میں مسیحیوں کو فروتنی کی ضرورت ہے؟‏

۶ صرف بزرگوں کیلئے فروتن بننا ضروری نہیں ہے۔‏ جو نوجوان عمررسیدہ اشخاص کے مقابلے میں اپنی حاضرجوابی اور طاقت پر فخر کر سکتے ہیں انہیں پطرس لکھتا ہے:‏ ”‏اَے جوانو!‏ تُم بھی بزرگوں کے تابع رہو بلکہ سب کے سب ایک دوسرے کی خدمت کیلئے فروتنی سے کمربستہ رہو اسلئےکہ خدا مغروروں کا مقابلہ کرتا ہے مگر فروتنوں کو توفیق بخشتا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۵‏)‏ جی‌ہاں،‏ مسیح جیسی فروتنی سب کیلئے اہم ہے۔‏ خوشخبری کی منادی کیلئے فروتنی ضروری ہے۔‏ اسکی ضرورت خاصکر اُس وقت پڑتی ہے جب لوگ خوشخبری کیلئے بےحسی دکھاتے یا اسکی مخالفت کرتے ہیں۔‏ منادی کے کام میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے اور زندگی کو سادہ بنانے کیلئے فروتنی درکار ہے۔‏ اسکے علاوہ،‏ جب لوگ ہمارے بارے میں بُری باتیں پھیلاتے،‏ ہمیں عدالتوں میں گھسیٹتے یا اذیت پہنچاتے ہیں تو اس وقت بھی ہمیں فروتنی،‏ ہمت اور ایمان کی ضرورت ہوتی ہے۔‏—‏۱-‏پطرس ۵:‏۶‏۔‏

۷،‏ ۸.‏ بعض کونسے طریقے ہیں جن پر عمل کرکے ہم اپنے اندر فروتنی پیدا کر سکتے ہیں؟‏

۷ غرور پر قابو پانے اور ”‏فروتنی سے ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر“‏ سمجھنے کے لئے ایک شخص کیا کر سکتا ہے؟‏ (‏فلپیوں ۲:‏۳‏)‏ اُسے خود کو یہوواہ کی نظر سے دیکھنا چاہئے۔‏ یسوع نے یہ کہتے ہوئے درست رُجحان کی وضاحت کی:‏ ”‏تُم بھی جب ان سب باتوں کی جنکا تمہیں حکم ہوا تعمیل کر چکو تو کہو کہ ’‏ہم نکمّے نوکر ہیں۔‏ جو ہم پر کرنا فرض تھا وہی کِیا ہے۔‏‘‏“‏ (‏لوقا ۱۷:‏۱۰‏)‏ ان الفاظ سے یسوع کی فروتنی کی تصویرکشی ہوتی ہے۔‏ لیکن یاد رکھیں،‏ یسوع نے جوکچھ کِیا ہم اُسکا مقابلہ کبھی نہیں کر سکتے۔‏

۸ مزیدبرآں،‏ اپنی بابت مناسب نقطۂ‌نظر قائم کرنے کیلئے ہم یہوواہ سے مدد کی درخواست کر سکتے ہیں۔‏ زبورنویس کی طرح ہم بھی دُعا کر سکتے ہیں:‏ ”‏مجھے صحیح امتیاز اور دانش سکھا کیونکہ مَیں تیرے فرمان پر ایمان لایا ہوں۔‏“‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۶۶‏)‏ یہوواہ ہمیں اپنی بابت ایک دانشمندانہ اور معقول نظریہ قائم کرنے میں مدد دیگا۔‏ نیز وہ ہمیں فروتن بننے پر برکت بخشے گا۔‏ (‏امثال ۱۸:‏۱۲‏)‏ یسوع نے کہا:‏ ”‏جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائیگا وہ چھوٹا کِیا جائیگا اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائیگا وہ بڑا کِیا جائیگا۔‏“‏—‏متی ۲۳:‏۱۲‏۔‏

صحیح اور غلط کی بابت مناسب نظریہ

۹.‏ یسوع بدی اور نیکی کو کیسا سمجھتا تھا؟‏

۹ کوئی ۳۳ سال ناکامل انسانوں کے درمیان رہنے کے باوجود،‏ یسوع ”‏بیگناہ رہا۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۴:‏۱۵‏)‏ درحقیقت،‏ مسیحا کی بابت پیشینگوئی کرتے وقت،‏ زبورنویس نے کہا:‏ ”‏تُو نے صداقت سے محبت رکھی اور بدکاری سے نفرت۔‏“‏ (‏زبور ۴۵:‏۷؛‏ عبرانیوں ۱:‏۹‏)‏ اس بات میں بھی مسیحی یسوع کی نقل کرتے ہیں۔‏ نہ صرف وہ صحیح اور غلط میں امتیاز کرنا جانتے ہیں بلکہ وہ بدی سے عداوت اور نیکی سے محبت رکھتے ہیں۔‏ (‏عاموس ۵:‏۱۵‏)‏ یہ بات اُنہیں اپنی خامیوں اور کمزوریوں کے خلاف لڑنے میں مدد دیتی ہے۔‏—‏پیدایش ۸:‏۲۱؛‏ رومیوں ۷:‏۲۱-‏۲۵‏۔‏

۱۰.‏ اگر ہم غیرتائب ہوکر ”‏بدی“‏ کرتے رہتے ہیں تو ہم کیسا رُجحان ظاہر کرتے ہیں؟‏

۱۰ یسوع نے نیکدیمس نامی ایک فریسی سے کہا:‏ ”‏جو کوئی بدی کرتا ہے وہ نور سے دشمنی رکھتا ہے اور نور کے پاس نہیں آتا۔‏ ایسا نہ ہو کہ اُسکے کاموں پر ملامت کی جائے۔‏ مگر جو سچائی پر عمل کرتا ہے وہ نور کے پاس آتا ہے تاکہ اُسکے کام ظاہر ہوں کہ وہ خدا میں کئے گئے ہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۳:‏۲۰،‏ ۲۱‏)‏ غور کریں کہ یوحنا نے یسوع کی شناخت اُس ”‏حقیقی نور“‏ کے طور پر کرائی ”‏جو ہر ایک آدمی کو روشن کرتا ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ تاہم،‏ یسوع نے کہا کہ اگر ہم ”‏بدی“‏ یعنی غلط کام کرتے ہیں جو خدا کو ناپسند ہیں تو ہم نور سے دُشمنی کرتے ہیں۔‏ کیا آپ یسوع اور اسکے معیاروں سے نفرت کرنے کا تصور کر سکتے ہیں؟‏ تاہم گناہ میں پڑے رہنے والے غیرتائب اشخاص ایسا ہی کر رہے ہیں۔‏ شاید وہ معاملات کو یسوع کی نظر سے نہیں دیکھتے۔‏ یسوع انہیں واقعی اپنے دُشمن خیال کرتا ہے۔‏

صحیح اور غلط کی بابت یسوع جیسا نقطۂ‌نظر پیدا کرنا

۱۱.‏ اگر ہم صحیح اور غلط کے سلسلے میں یسوع کا نظریہ اپنانا چاہتے ہیں تو کونسی بات اہم ہے؟‏

۱۱ ہمیں صحیح اور غلط کی بابت یہوواہ کے نقطۂ‌نظر کی واضح سمجھ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔‏ ایسی سمجھ ہم صرف خدا کے کلام بائبل کا مطالعہ کرنے سے حاصل کر سکتے ہیں۔‏ جب ہم ایسا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں زبورنویس کی طرح دُعا کرنے کی ضرورت ہے:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏ اپنی راہیں مجھے دکھا۔‏ اپنے راستے مجھے بتا دے۔‏“‏ (‏زبور ۲۵:‏۴‏)‏ تاہم،‏ یاد رکھیں کہ شیطان دھوکےباز ہے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۱۴‏)‏ وہ ایک غیرمحتاط مسیحی کے سامنے غلط بات کو بھی قابلِ‌قبول بناکر پیش کر سکتا ہے۔‏ اسلئے،‏ ہمیں سیکھی ہوئی باتوں پر غوروخوض کرنے اور ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ کی مشورت پر بغور دھیان دینے کی ضرورت ہے۔‏ (‏متی ۲۴:‏۴۵-‏۴۷‏)‏ مطالعہ،‏ دُعا اور سیکھی ہوئی باتوں پر غوروخوض پختگی کی جانب بڑھنے میں ہماری مدد کریگا اور ہم اُنکی مانند ہونگے ”‏جنکے حواس کام کرتے کرتے نیک‌وبد میں امتیاز کرنے کیلئے تیز ہو گئے ہیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۵:‏۱۴‏)‏ تب ہی ہم بدی سے نفرت کرنے اور نیکی سے محبت کرنے کی طرف مائل ہونگے۔‏

۱۲.‏ بائبل کی کونسی مشورت بدی سے بچنے میں ہماری مدد کرتی ہے؟‏

۱۲ اگر ہم بدی سے نفرت کرتے ہیں تو ہم اپنے دلوں میں غلط چیزوں کی خواہش کو پیدا ہونے کی اجازت نہیں دینگے۔‏ یسوع کی موت کے کئی سال بعد،‏ یوحنا رسول نے لکھا:‏ ”‏نہ دُنیا سے محبت رکھو نہ اُن چیزوں سے جو دُنیا میں ہیں۔‏ جو کوئی دُنیا سے محبت رکھتا ہے اُس میں باپ کی محبت نہیں۔‏ کیونکہ جوکچھ دُنیا میں ہے یعنی جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی وہ باپ کی طرف سے نہیں بلکہ دُنیا کی طرف سے ہے۔‏“‏—‏۱-‏یوحنا ۲:‏۱۵،‏ ۱۶‏۔‏

۱۳،‏ ۱۴.‏ (‏ا)‏ دُنیا کی چیزوں سے محبت مسیحیوں کیلئے خطرناک کیوں ہو سکتی ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم دُنیا کی چیزوں سے کیسے محبت کرنے لگ سکتے ہیں؟‏

۱۳ بعض شاید سوچیں کہ دُنیا میں پائی جانے والی ہر چیز تو غلط نہیں ہے۔‏ یہ بات سچ ہے توبھی دُنیا اور اُسکی لبھانے والی چیزیں ہمیں یہوواہ کی خدمت سے ہٹا سکتی ہیں۔‏ اسکے علاوہ دُنیا میں پائی جانے والی کوئی بھی چیز ہمیں خدا کے قریب نہیں لیجا سکتی۔‏ اسلئے،‏ اگر ہم دُنیا کی چیزوں سے محبت کرنے لگتے ہیں تو یہ ایک خطرناک روش ہو سکتی ہے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ دُنیا میں پائی جانے والی بیشتر چیزیں ہمیں بدی کی طرف لیجا سکتی ہیں۔‏ اگر ہم ایسی فلمیں یا ٹیلیویژن پروگرام دیکھتے ہیں جن میں تشدد،‏ مادہ‌پرستی یا جنسی بداخلاقی پائی جاتی ہے تو یہ ہماری نظر میں قابلِ‌قبول ہونے کے باوجود آزمائش کا باعث بن سکتی ہیں۔‏ اگر ہم ایسے لوگوں سے ملتےجلتے ہیں جو اپنے طرزِزندگی کو یا کاروبار کو بہتر بنانے کی فکر میں رہتے ہیں تو ہماری زندگی میں بھی یہ چیزیں پہلا درجہ رکھ سکتی ہیں۔‏—‏متی ۶:‏۲۴؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۳۳‏۔‏

۱۴ اسکے برعکس،‏ اگر ہم اپنا دل یہوواہ کے کلام پر لگاتے ہیں تو ”‏جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی“‏ ہمیں اپنی طرف نہیں کھینچے گی۔‏ اس کیساتھ ساتھ ایسے لوگوں کی رفاقت جو خدائی کاموں کو پہلا درجہ دیتے ہیں ہمیں بھی انکی مانند بنا دیگی۔‏ جن باتوں سے وہ محبت رکھتے ہیں ہم بھی اُن سے محبت کرنے لگیں گے اور جن چیزوں سے وہ نفرت کرتے ہیں ہم بھی اُن سے نفرت کرنے لگیں گے۔‏—‏زبور ۱۵:‏۴؛‏ امثال ۱۳:‏۲۰‏۔‏

۱۵.‏ یسوع کی طرح راستبازی سے محبت اور بدی سے نفرت ہمیں کیسے مضبوط بنائیگی؟‏

۱۵ راستبازی سے محبت اور بدی سے نفرت نے یسوع کی مدد کی کہ اپنی توجہ ”‏اُس خوشی“‏ پر مرکوز رکھے ”‏جو اُسکی نظروں کے سامنے تھی۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۲:‏۲‏)‏ ہماری بابت بھی ایسا کہا جا سکتا ہے۔‏ ہم جانتے ہیں کہ ”‏دُنیا اور اُسکی خواہش دونوں مٹتی جاتی ہیں۔‏“‏ دُنیا میں حاصل ہونے والی ہر خوشی عارضی ہے۔‏ تاہم،‏ ”‏جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابد تک قائم رہیگا۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۲:‏۱۷‏)‏ یسوع نے خدا کی مرضی پوری کی تھی اسلئے اس نے انسانوں کیلئے ہمیشہ کی زندگی کی راہ کھول دی۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۳‏)‏ دُعا ہے کہ ہم سب اسکے نقشِ‌قدم پر چلیں اور اسکی راستی سے فائدہ اُٹھائیں۔‏

اذیت کا سامنا کرنا

۱۶.‏ مسیحیوں کیلئے ایک دوسرے سے محبت رکھنا کیوں لازمی ہے؟‏

۱۶ یسوع نے بیان کِیا کہ اُسکے شاگرد ایک اَور طریقے سے بھی اُسکے نمونے کی پیروی کرینگے:‏ ”‏میرا حکم یہ ہے کہ جیسے مَیں نے تُم سے محبت رکھی تُم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۱۲،‏ ۱۳،‏ ۱۷‏)‏ اسکی بہت ساری وجوہات ہیں کہ کیوں مسیحیوں کو اپنے بھائیوں سے محبت کرنی چاہئے۔‏ اس موقع پر،‏ یسوع کے ذہن میں وہ نفرت تھی جسکا سامنا وہ دُنیا کی طرف سے کرینگے۔‏ اس نے کہا:‏ ”‏اگر دُنیا تُم سے عداوت رکھتی ہے تو تُم جانتے ہو کہ اُس نے تُم سے پہلے مجھ سے بھی عداوت رکھی ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ نوکر اپنے مالک سے بڑا نہیں ہوتا۔‏ اگر اُنہوں نے مجھے ستایا تو تمہیں بھی ستائینگے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۱۸،‏ ۲۰‏)‏ جی‌ہاں،‏ ستائے جانے کے باوجود،‏ مسیحی یسوع کی طرح ہیں۔‏ نفرت کا مقابلہ کرنے کیلئے انہیں محبت کے ایک مضبوط بندھن میں بندھ جانے کی ضرورت ہے۔‏

۱۷.‏ دُنیا سچے مسیحیوں سے نفرت کیوں کرتی ہے؟‏

۱۷ دُنیا مسیحیوں سے نفرت کیوں رکھتی ہے؟‏ اسکی وجہ یہ ہے کہ مسیح کی طرح وہ بھی دُنیا کا حصہ نہیں ہیں۔‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۱۴،‏ ۱۶‏)‏ وہ فوجی اور سیاسی معاملات میں حصہ نہیں لیتے اور وہ زندگی کے تقدس کا احترام کرنے اور اعلیٰ اخلاقی معیاروں کے مطابق زندگی بسر کرنے سے بائبل اصولوں پر چلتے ہیں۔‏ (‏اعمال ۱۵:‏۲۸،‏ ۲۹؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۹-‏۱۱‏)‏ انکے نشانے مادی نہیں بلکہ روحانی ہیں۔‏ وہ دُنیا میں رہتے تو ہیں لیکن پولس کے مطابق وہ ’‏دُنیا ہی کے نہیں ہو جاتے۔‏‘‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۳۱‏)‏ سچ ہے کہ بعض نے یہوواہ کے گواہوں کے اعلیٰ اخلاقی معیاروں کی تعریف کی ہے۔‏ لیکن یہوواہ کے گواہ دوسروں سے تعریف کرانے کیلئے ایمان پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔‏ اسی وجہ سے،‏ دُنیا میں بہتیرے لوگ انہیں اچھی طرح نہیں سمجھ پاتے اور زیادہ‌تر لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں۔‏

۱۸،‏ ۱۹.‏ یسوع کے نقشِ‌قدم پر چلنے سے مسیحی اذیت اور مخالفت کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں؟‏

۱۸ یسوع کے رسولوں نے اُس وقت دُنیا کی شدید نفرت کا سامنا کِیا جب یسوع کو پکڑ کر مار ڈالا گیا۔‏ اُنہوں نے دیکھا کہ یسوع نے اس نفرت کا مقابلہ کیسے کِیا۔‏ گتسمنی باغ میں،‏ جب یسوع کے مخالف اسے پکڑنے کیلئے آئے تو پطرس نے اسے بچانے کی کوشش کی لیکن یسوع نے پطرس سے کہا:‏ ”‏اپنی تلوار کو میان میں کر لے کیونکہ جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائینگے۔‏“‏ (‏متی ۲۶:‏۵۲؛‏ لوقا ۲۲:‏۵۰،‏ ۵۱‏)‏ پُرانے زمانے میں اسرائیلی اپنے دُشمنوں کے خلاف لڑائی میں تلواریں استعمال کرتے تھے۔‏ تاہم،‏ رسولوں کے زمانے میں حالات مختلف تھے۔‏ لیکن خدا کی بادشاہت جسکی خوشخبری یسوع دے رہا تھا وہ ”‏اس دُنیا کی نہیں“‏ اسلئے یسوع کے پیروکاروں کو قومی سرحدوں کی حفاظت کرنے کیلئے جنگی ہتھیاروں کی ضرورت نہیں تھی۔‏ (‏یوحنا ۱۸:‏۳۶‏)‏ جلد ہی پطرس ایک ایسی روحانی اُمت کا حصہ بننے والا تھا جسکا وطن آسمان ہے۔‏ (‏گلتیوں ۶:‏۱۶؛‏ فلپیوں ۳:‏۲۰،‏ ۲۱‏)‏ لہٰذا،‏ یسوع کی طرح اُسکے شاگردوں کو بھی دلیری اور پُرامن طور پر نفرت اور اذیت کا مقابلہ کرنا ہوگا۔‏ انہیں پُراعتماد ہوکر معاملات کو یہوواہ کے ہاتھ میں چھوڑنا اور سب کچھ برداشت کرنے کیلئے اسکی طاقت پر بھروسا کرنا ہوگا۔‏—‏لوقا ۲۲:‏۴۲‏۔‏

۱۹ کئی سال بعد،‏ پطرس نے لکھا:‏ ”‏مسیح بھی تمہارے واسطے دُکھ اُٹھا کر تمہیں ایک نمونہ دے گیا ہے تاکہ اُسکے نقشِ‌قدم پر چلو۔‏ .‏ .‏ .‏ نہ وہ گالیاں کھا کر گالی دیتا تھا اور نہ دُکھ پاکر کسی کو دھمکاتا تھا بلکہ اپنے آپ کو سچے انصاف کرنے والے کے سپرد کرتا تھا۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۱-‏۲۳‏)‏ یسوع کی آگاہی کے مطابق،‏ مسیحی کئی سال سے سخت اذیت کا سامنا کر رہے ہیں۔‏ پہلی صدی اور ہمارے زمانے میں بھی مسیحیوں نے یسوع کے نمونے کی پیروی کی ہے۔‏ اسکے علاوہ،‏ اُنہوں نے وفاداری کیساتھ برداشت کرنے کا عمدہ ریکارڈ قائم کِیا ہے۔‏ اس سے وہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ پُرامن راستی برقرار رکھنے والے لوگ ہیں۔‏ (‏مکاشفہ ۲:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ دُعا ہے کہ جب حالات اسکا تقاضا کریں تو ہم سب انفرادی طور پر ایسا ہی کرنے کے قابل ہوں۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۲‏۔‏

‏”‏خداوند یسوؔع مسیح کو پہن لو“‏

۲۰-‏۲۲.‏ مسیحی کس طریقے سے ”‏خداوند یسوؔع مسیح کو پہن“‏ لیتے ہیں؟‏

۲۰ پولس نے روم کی کلیسیا کو لکھا:‏ ”‏خداوند یسوؔع مسیح کو پہن لو اور جسم کی خواہشوں کیلئے تدبیریں نہ کرو۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۳:‏۱۴‏)‏ مسیحی یسوع کو ایک پوشاک کی طرح پہن لیتے ہیں۔‏ وہ اسکی خوبیوں اور کاموں کی اس حد تک نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ناکامل ہونے کے باوجود اپنے مالک کا عکس بن جاتے ہیں۔‏—‏۱-‏تھسلنیکیوں ۱:‏۶‏۔‏

۲۱ ہم کامیابی کیساتھ ”‏یسوؔع مسیح کو پہن“‏ سکتے ہیں۔‏ لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے مالک کی زندگی سے اچھی طرح واقف ہوں اور اسکی طرح زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں۔‏ ہم یسوع کی فروتنی،‏ راستبازی سے محبت،‏ بدی سے نفرت،‏ بھائیوں سے محبت،‏ دُنیا کا حصہ نہ ہونے اور تکلیف میں صبروبرداشت ظاہر کرنے کی نقل کر سکتے ہیں۔‏ ہم ’‏جسم کی خواہشوں کیلئے تدبیریں‘‏ نہیں کرتے یعنی ہمارا مقصد زندگی میں دُنیاوی نشانوں کو حاصل کرنا یا جسم کی خواہشوں کو پورا کرنا نہیں ہے۔‏ اسکے برعکس،‏ کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت،‏ یا کسی مسئلے کو نپٹاتے وقت،‏ ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں:‏ ’‏اس صورتحال میں یسوع نے کیا کِیا ہوتا؟‏ وہ مجھے کیا کرنے کیلئے کہتا؟‏‘‏

۲۲ خوشخبری کی منادی میں مصروف رہنے سے ہم یسوع کی نقل کرتے ہیں۔‏ (‏متی ۴:‏۲۳؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۵۸‏)‏ یہ بھی ایک طریقہ ہے جس سے مسیحی یسوع کے قائم‌کردہ نمونے پر چلتے ہیں۔‏ اگلا مضمون اس پر بات کریگا کہ وہ کیسے ایسا کرتے ہیں۔‏

کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟‏

‏• مسیحیوں کیلئے فروتن بننا کیوں ضروری ہے؟‏

‏• ہم صحیح اور غلط کے سلسلے میں مناسب نقطۂ‌نظر کیسے اختیار کر سکتے ہیں؟‏

‏• مخالفت اور اذیت کا مقابلہ کرنے میں مسیحی کسطرح یسوع کی نقل کرتے ہیں؟‏

‏• ”‏خداوند یسوؔع مسیح کو پہن“‏ لینا کیسے ممکن ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

یسوع نے فروتنی کا کامل نمونہ قائم کِیا

‏[‏صفحہ ۸ پر تصویر]‏

منادی سمیت مسیحی زندگی کا ہر پہلو فروتنی کا تقاضا کرتا ہے

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

شیطان نامناسب تفریح کو ایک مسیحی کیلئے قابلِ‌قبول بنا سکتا ہے

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

بھائیوں کیلئے محبت ہمیں مخالفت کا مقابلہ کرنے کیلئے مضبوط بنا سکتی ہے