مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

قضاۃ کی کتاب سے اہم نکات

قضاۃ کی کتاب سے اہم نکات

یہوواہ کا کلام زندہ ہے

قضاۃ کی کتاب سے اہم نکات

یہوواہ نے اُس وقت کیسا ردِعمل دکھایا جب اسکے اپنے لوگوں نے اس سے مُنہ موڑ کر جھوٹے معبودوں کی پرستش شروع کر دی؟‏ اُس وقت کیا ہو اگر وہ بار بار حکم ماننے سے انکار کرتے اور صرف مصیبت میں مدد کیلئے پکارتے ہیں؟‏ کیا یہوواہ ایسی حالت میں بھی انہیں بچائیگا؟‏ قضاۃ کی کتاب ان سوالات کے جواب فراہم کرتی ہے۔‏ اس کتاب میں دیگر اہم سوالات کے جواب بھی دئے گئے ہیں۔‏ اسے سموئیل نبی نے ۱۱۰۰ ق.‏س.‏ع.‏ میں تحریر کِیا۔‏ یہ یشوع کی موت سے لیکر اسرائیل کے پہلے بادشاہ کی تخت‌نشینی تک کے ۳۳۰ سالوں کے واقعات بیان کرتی ہے۔‏

خدا کے زبردست کلام یا پیغام کے حصے کے طور پر،‏ قضاۃ کی کتاب ہمارے لئے بڑی قدروقیمت کی حامل ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۴:‏۱۲‏)‏ اس میں درج شاندار واقعات یہوواہ کی شخصیت کی بابت سمجھ عطا کرتے ہیں۔‏ جو اسباق ہم ان سے سیکھتے ہیں وہ ہمارے ایمان کو مضبوط کرتے اور ”‏حقیقی زندگی“‏ یعنی خدا کی موعودہ نئی دُنیا میں ابدی زندگی پر قبضہ کرنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۲،‏ ۱۹؛‏ ۲-‏پطرس ۳:‏۱۳‏)‏ یہوواہ خدا کے اپنے لوگوں کی خاطر کئے جانے والے نجات کے کام مستقبل میں اُسکے بیٹے یسوع مسیح کے ذریعے عظیم رہائی کا پیشگی نظارہ ہیں۔‏

قاضیوں کی ضرورت کیوں تھی؟‏

‏(‏قضاۃ ۱:‏۱–‏۳:‏۶‏)‏

یشوع کی قیادت میں کنعان کے بادشاہوں کو شکست دینے کے بعد،‏ اسرائیل کے ہر قبیلے کو اسکی میراث مل گئی اور وہ مُلک میں بس گیا۔‏ تاہم،‏ اسرائیلی اس مُلک کے باشندوں کو نہیں نکال سکے۔‏ یہ ناکامی اسرائیل کیلئے حقیقی پھندا ثابت ہوئی۔‏

یشوع کے دنوں کے بعد جو پُشت پیدا ہوئی وہ ”‏نہ [‏یہوواہ]‏ کو اور نہ اُس کام کو جو اُس نے اؔسرائیل کیلئے کِیا جانتی تھی۔‏“‏ (‏قضاۃ ۲:‏۱۰‏)‏ مزیدبرآں،‏ اسرائیلیوں نے کنعانیوں کیساتھ شادی‌بیاہ کرنا شروع کر دیا اور انکے دیوتاؤں کی پرستش کرنے لگے۔‏ پس یہوواہ نے اسرائیلیوں کو انکے دشمنوں کے ہاتھ میں کر دیا۔‏ تاہم،‏ جب ظلم بڑھنے لگا تو بنی اسرائیل نے مدد کیلئے سچے خدا کو پکارا۔‏ ایسی مذہبی،‏ سماجی اور سیاسی صورتحال قاضیوں کے سلسلے اور ان سے وابستہ واقعات کو بیان کرتی ہے جنہیں یہوواہ نے انکے دشمنوں سے چھڑانے کیلئے برپا کِیا۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۱:‏۲،‏ ۴‏—‏بنی یہوداہ کو مُلک پر قبضہ کرنے کے لئے پہلا قبیلہ کیوں ٹھہرایا گیا؟‏ عام طور پر،‏ یہ شرف یعقوب کے پہلوٹھے بیٹے روبن کو ملنا تھا۔‏ لیکن بسترِمرگ پر یعقوب نے پیشینگوئی کی کہ روبن کو سبقت حاصل نہیں ہوگی کیونکہ اس نے پہلوٹھے ہونے کے حق کو ناچیز جانا ہے۔‏ شمعون اور لاوی نے ظلم کِیا اسلئے وہ اسرائیل میں الگ الگ اور پراگندہ ہونگے۔‏ (‏پیدایش ۴۹:‏۳-‏۵،‏ ۷‏)‏ تاہم،‏ اسکے بعد یعقوب کے چوتھے بیٹے یہوداہ کا نمبر تھا۔‏ شمعون کے قبیلے کو یہوداہ کے بڑے علاقے کے درمیان میراث ملی۔‏ *‏—‏یشوع ۱۹:‏۹‏۔‏

۱:‏۶،‏ ۷‏—‏شکست‌خوردہ بادشاہوں کے ہاتھ اور پاؤں کے انگوٹھے کیوں کاٹ ڈالے گئے تھے؟‏ ایک شخص جس کے ہاتھ اور پاؤں کے انگوٹھے کاٹ دئے گئے ہوں وہ فوجی کام کیلئے ناکارہ ہو جاتا ہے۔‏ ہاتھ کے انگوٹھے کے بغیر ایک فوجی تلوار یا بھالا کیسے پکڑ سکتا ہے؟‏ نیز پاؤں کے انگوٹھے کے بغیر ایک شخص مناسب طریقے سے اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکتا۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۲:‏۱۰-‏۱۲‏۔‏ بائبل مطالعہ کرنے کا ہمارا باقاعدہ پروگرام ہونا چاہئے تاکہ ہم ’‏اُسکے کاموں کو بھول نہ جائیں۔‏‘‏ (‏زبور ۱۰۳:‏۲‏)‏ والدین کو اپنے بچوں کو خدا کے کلام کی باتیں سکھانی چاہئیں۔‏—‏استثنا ۶:‏۶-‏۹‏۔‏

۲:‏۱۴،‏ ۲۱،‏ ۲۲‏۔‏ یہوواہ کسی خاص مقصد کے تحت ہی اپنے نافرمان لوگوں کیساتھ بُری باتیں واقع ہونے کی اجازت دیتا ہے۔‏ وہ مقصد انہیں سرزنش کرنا،‏ ان میں بہتری لانا اور انہیں اپنی طرف پھیر لانا ہے۔‏

یہوواہ قاضیوں کو برپا کرتا ہے

‏(‏قضاۃ ۳:‏۷–‏۱۶:‏۳۱‏)‏

قاضیوں کے کارناموں کا شاندار ریکارڈ غتنی‌ایل سے شروع ہوتا ہے اور اسرائیل پر مسوپتامیہ کے بادشاہ کی آٹھ سالہ حکومت پر ختم ہوتا ہے۔‏ ایک دلیرانہ چال چلتے ہوئے،‏ قاضی اہود موٹے موآبی بادشاہ عجلون کو قتل کرتا ہے۔‏ بہادر شمجر اکیلا ہی بیل کے پینے سے ۶۰۰ فلستیوں کو ہلاک کر دیتا ہے۔‏ ایک نبِیّہ کے طور پر خدمت کرنے والی دبورہ کی حوصلہ‌افزائی اور برق اور اسکی دس ہزار فوج پوری طرح لیس نہ ہونے کے باوجود یہوواہ کی مدد سے سیسرا کی طاقتور فوج کو شکست دی۔‏ یہوواہ جدعون کو برپا کرتا ہے اور اُسے اور اسکے ۳۰۰ آدمیوں کو مدیانیوں پر فتح بخشتا ہے۔‏

افتاح کے ذریعے یہوواہ عمونیوں سے اسرائیل کو رہائی بخشتا ہے۔‏ تولع،‏ یائیر،‏ ابصان،‏ ایلون اور عبدون بھی اُن ۱۲ آدمیوں میں شامل تھے جو اسرائیل کے قاضی تھے۔‏ قاضیوں کا دَور سمسون کیساتھ ختم ہوتا ہے جس نے فلستیوں کے خلاف جنگ کی تھی۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۴:‏۸‏—‏برق دبورہ نبِیّہ کے میدانِ‌جنگ جانے پر کیوں اصرار کرتا ہے؟‏ ایسا لگتا ہے کہ برق سیسرا کی فوج کا مقابلے کرنے کیلئے خود کو نااہل محسوس کرتا تھا۔‏ نبِیّہ کیساتھ ہونے کی وجہ سے اسے اور اسکے آدمیوں کو حوصلہ ملیگا اور انہیں یہ احساس ہوگا کہ خدا کی راہنمائی ان کیساتھ ہے۔‏ دبورہ کو ساتھ لے جانا برق کی کمزوری نہیں بلکہ مضبوط ایمان کا ثبوت تھا۔‏

۵:‏۲۰‏—‏کیسے آسمان کے ستاروں نے برق کیلئے لڑائی کی؟‏ بائبل یہ بیان نہیں کرتی کہ فرشتوں نے برق کی مدد کی تھی،‏ شہابِ‌ثاقب (‏تاروں کا ٹوٹنا)‏ کو سیسرا کے حکیموں نے بدشگونی سمجھا یا شاید سیسرا کے لئے علمِ‌نجوم کی پیشینگوئیاں جھوٹی ثابت ہوئیں۔‏ تاہم،‏ اس میں کوئی شک نہیں اس میں کسی نہ کسی طرح سے خدا کا ہاتھ تھا۔‏

۷:‏۱-‏۳؛‏ ۸:‏۱۰‏—‏یہوواہ یہ کیوں کہتا ہے کہ جدعون کے ۰۰۰،‏۳۲ آدمی ۰۰۰،‏۳۵،‏۱ کی دُشمن فوج کے خلاف بہت زیادہ ہیں؟‏ یہ اس وجہ سے تھا کیونکہ یہوواہ جدعون اور اسکے آدمیوں کو فتح بخش رہا تھا۔‏ خدا یہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ یہ سوچیں کہ اُنہوں نے مدیانیوں کو اپنی طاقت سے شکست دی ہے۔‏

۱۱:‏۳۰،‏ ۳۱‏—‏اپنی منت مانگتے وقت کیا افتاح کے ذہن میں انسان کو قربان کرنا تھا؟‏ ایسا خیال افتاح کے ذہن میں دُور دُور تک نہیں تھا۔‏ شریعت نے پہلے ہی سے واضح طور پر بیان کر دیا تھا:‏ ”‏تجھ میں ہرگز کوئی ایسا نہ ہو جو اپنے بیٹے یا بیٹی کو آگ میں چلوائے۔‏“‏ (‏استثنا ۱۸:‏۱۰‏)‏ تاہم،‏ افتاح کسی جانور کی بجائے ایک شخص کو قربان کرنے کی بابت ہی سوچ رہا تھا۔‏ قربانی کے جانوروں کو تو گھروں میں نہیں رکھا جاتا تھا۔‏ نیز ایک جانور کو قربان کرنا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔‏ افتاح اس بات سے باخبر تھا کہ اسکے گھر سے نکل کر اسکا استقبال کرنے والی اسکی اپنی بیٹی بھی ہو سکتی ہے۔‏ اُسے ”‏سوختنی قربانی“‏ کے طور پر گذراننے کا مطلب یہ تھا کہ اس شخص کو قربانگاہ پر صرف یہوواہ کی خدمت کرنے کیلئے مخصوص کر دیا جائیگا۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۳:‏۱۰‏۔‏ روحانی کاموں میں کامیابی کا انحصار انسانی حکمت پر نہیں بلکہ یہوواہ کی روح پر ہے۔‏—‏زبور ۱۲۷:‏۱‏۔‏

۳:‏۲۱‏۔‏ اہود نے اپنی تلوار بڑی مہارت اور دلیری سے چلائی۔‏ ہمیں ”‏روح کی تلوار جو خدا کا کلام ہے“‏ استعمال کرنے میں مہارت حاصل کرنی چاہئے۔‏ اسکا مطلب ہے کہ ہمیں اپنی خدمتگزاری میں دلیری کیساتھ صحائف استعمال کرنے چاہئیں۔‏—‏افسیوں ۶:‏۱۷؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۲:‏۱۵‏۔‏

۶:‏۱۱-‏۱۵؛‏ ۸:‏۱-‏۳،‏ ۲۲،‏ ۲۳‏۔‏ جدعون کی انکساری ہمیں تین سبق سکھاتی ہے:‏ (‏۱)‏ جب ہمیں کوئی شرف ملتا ہے تو ہمیں اس سے جڑی ہوئی ذمہ‌داری پر غور کرنا چاہئے۔‏ ہمیں اسکے برعکس اس سے وابستہ فضیلت یا مرتبے پر غور نہیں کرنا چاہئے۔‏ (‏۲)‏ جو لوگ جھگڑا کرنے کیلئے فوراً تیار ہو جاتے ہیں ان کیساتھ بات کرتے وقت،‏ انکساری دکھانا دانشمندانہ روش ہے۔‏ (‏۳)‏ انکساری ہمیں مرتبے کے بارے میں سوچنے سے بچاتی ہے۔‏

۶:‏۱۷-‏۲۲،‏ ۳۶-‏۴۰‏۔‏ ہمیں محتاط ہونا چاہئے کہ ”‏ہر ایک روح کا یقین نہ“‏ کریں۔‏ اسکے برعکس ہمیں ’‏روحوں کو آزمانا چاہئے کہ وہ خدا کی طرف سے ہیں یا نہیں۔‏‘‏ (‏۱-‏یوحنا ۴:‏۱‏)‏ ایک مسیحی بزرگ کو یہ یقین کرنے کیلئے کہ جو مشورت وہ دینا چاہتا ہے وہ ٹھوس طریقے سے بائبل پر مبنی ہے وہ زیادہ تجربہ‌کار بزرگ سے صلاح کرنے میں دانشمندی کا مظاہرہ کریگا۔‏

۶:‏۲۵-‏۲۷‏۔‏ جدعون نے اپنے مخالفوں پر بِلاوجہ غصہ نہ کرنے سے عقلمندی ظاہر کی۔‏ خوشخبری کی منادی کرتے وقت،‏ ہمیں محتاط ہونا چاہئے کہ جس طریقے سے ہم بات‌چیت کرتے ہیں اُس سے بِلاوجہ دوسروں کو ناراض نہ کریں۔‏

۷:‏۶‏۔‏ جب یہوواہ کی خدمت کرنے کی بات آتی ہے تو ہمیں جدعون کے ۳۰۰ آدمیوں کی مانند ہونا چاہئے جو چوکس اور مستعد تھے۔‏

۹:‏۸-‏۱۵‏۔‏ تکبّر اور مرتبے اور اختیار کی خواہش رکھنا کسقدر حماقت ہے!‏

۱۱:‏۳۵-‏۳۷‏۔‏ افتاح کے عمدہ نمونے سے بِلاشُبہ اسکی بیٹی کی مدد ہوئی ہوگی کہ مضبوط ایمان اور خودایثاری کا جذبہ پیدا کر سکے۔‏ آجکل والدین اپنے بچوں کیلئے ایسا عمدہ نمونہ قائم کر سکتے ہیں۔‏

۱۱:‏۴۰‏۔‏ یہوواہ کی خدمت میں رضامندی کا جذبہ دکھانے والے کو شاباش دینا انکا حوصلہ بلند کرتا ہے۔‏

۱۳:‏۸‏۔‏ اپنے بچوں کو تعلیم دیتے وقت،‏ والدین کو یہوواہ سے راہنمائی اور اسکی ہدایت پر چلنے کیلئے دُعا کرنی چاہئے۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶‏۔‏

۱۴:‏۱۶،‏ ۱۷؛‏ ۱۶:‏۱۶‏۔‏ رونے دھونے اور کسی شخص کی ناک میں دم کر دینے سے اس پر دباؤ ڈالنا ایک اچھے رشتے کو برباد کر سکتا ہے۔‏—‏امثال ۱۹:‏۱۳؛‏ ۲۱:‏۱۹‏۔‏

اسرائیل میں دیگر بُرائیاں

‏(‏قضاۃ ۱۷:‏۱‏_‏۲۱:‏۲۵‏)‏

قضاۃ کی کتاب کا آخری حصہ دو نمایاں واقعات پر مشتمل ہے۔‏ پہلا واقعہ میکاہ نامی ایک آدمی سے متعلق ہے جو اپنے گھر میں بُت کھڑا کر لیتا ہے اور اپنے لئے کاہن کے طور پر خدمت انجام دینے کی خاطر ایک لاوی کو استعمال کرتا ہے۔‏ لیس یا لشم نامی شہر برباد کرنے کے بعد،‏ دانیوں نے اپنا ایک شہر بنا لیا اور اسکا نام دان رکھا۔‏ میکاہ کے بُت اور اسکے کاہن کو استعمال کرتے ہوئے اُنہوں نے دان میں ایک اَور طرح کی پرستش شروع کر دی۔‏ ایسا لگتا ہے کہ لیس کو یشوع کی موت سے پہلے فتح کِیا گیا تھا۔‏—‏یشوع ۱۹:‏۴۷‏۔‏

دوسرا واقعہ یشوع کی موت کے تھوڑی دیر بعد کا ہے۔‏ جبعہ شہر کے چند بنیمینی ملکر ایک عورت کیساتھ زیادتی کرتے ہیں جسکی وجہ سے بنیمین کا قبیلہ تقریباً پورا نابود ہو جاتا ہے۔‏ اس قبیلے کے صرف ۶۰۰ آدمی بچتے ہیں۔‏ تاہم ایک عملی بندوبست انہیں بیویاں کرنے کی اجازت دیتا ہے جس سے انکی تعداد داؤد کی حکمرانی تک بڑھکر تقریباً ۰۰۰،‏۶۰ جنگجوؤں سے زائد ہو جاتی ہے۔‏—‏۱-‏تواریخ ۷:‏۶-‏۱۱‏۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۱۷:‏۶؛‏ ۲۱:‏۲۵‏—‏اگر ’‏ہر ایک شخص جو کچھ اُس کی نظر میں اچھا معلوم ہوتا تھا وہی کرتا تھا‘‏ تو کیا اس سے بدنظمی نہیں پھیلی ہوگی؟‏ یہ ضروری نہیں ہے،‏ کیونکہ یہوواہ نے اپنے لوگوں کی راہنمائی کیلئے کافی فراہمیاں کی تھیں۔‏ اس نے انہیں اپنی راہوں کی تعلیم دینے کیلئے شریعت اور کہانت دی تھی۔‏ اُوریم اور تمیم کے ذریعے سردار کاہن اہم معاملات کے سلسلے میں خدا سے صلاح‌مشورہ کر سکتے تھے۔‏ (‏خروج ۲۸:‏۳۰‏)‏ ہر شہر میں بزرگ ہوا کرتے تھے جو ٹھوس مشورت دیتے تھے۔‏ جب ایک اسرائیلی ان فراہمیوں سے استفادہ کرتا تھا تو اُسے اپنے ضمیر کیلئے ٹھوس راہنمائی حاصل ہوتی تھی۔‏ اسطرح ”‏جوکچھ اُسکی نظر میں اچھا معلوم ہوتا تھا وہی“‏ کرنے سے اسکا نتیجہ اچھا نکل سکتا تھا۔‏ اسکے برعکس اگر کوئی شخص شریعت کو نظرانداز کرتا اور چال‌چلن اور پرستش کے متعلق اپنے فیصلے خود کرتا تو اسکا نتیجہ بُرا نکل سکتا تھا۔‏

۲۰:‏۱۷-‏۴۸‏—‏اگرچہ بنیمین کو سزا ملنی چاہئے تھی توبھی یہوواہ نے بنیمین کے لوگوں کو دو بار دیگر قبیلوں کو شکست دینے کی اجازت کیوں دی؟‏ شروع میں وفادار قبیلوں کو نقصان اُٹھانے کی اجازت دینے سے یہوواہ نے اسرائیل سے بدی کو اُکھاڑ پھینکنے کے اُنکے عزم کو مضبوط کِیا۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۱۹:‏۱۴،‏ ۱۵‏۔‏ جبعہ کے لوگوں کا مہمان‌نوازی سے انکار اخلاقی نقص کو ظاہر کرتا ہے۔‏ مسیحیوں کو نصیحت کی گئی کہ ”‏مسافرپروری میں لگے رہو۔‏“‏—‏رومیوں ۱۲:‏۱۳‏۔‏

عنقریب نجات

جلد ہی مسیح کے ہاتھوں خدا کی بادشاہت شریر دُنیا کو تباہ کر دیگی۔‏ یہ بادشاہت راستباز اور بےعیب اشخاص کو رہائی دلائیگی۔‏ (‏امثال ۲:‏۲۱،‏ ۲۲؛‏ دانی‌ایل ۲:‏۴۴‏)‏ اس وقت ’‏سب دشمن ایسے ہی ہلاک ہو جائینگے۔‏ لیکن اُسکے پیار کرنے والے آفتاب کی مانند ہونگے جب وہ آب‌وتاب کیساتھ طلوع ہوتا ہے۔‏‘‏ (‏قضاۃ ۵:‏۳۱‏)‏ آئیے جوکچھ ہم نے قضاۃ کی کتاب سے سیکھا ہے اس پر عمل کرنے سے یہوواہ کے پیاروں میں شامل ہوں۔‏

قضاۃ کی کتاب کے واقعات میں جس بنیادی سچائی کو بار بار ظاہر کِیا گیا ہے وہ یہ ہے:‏ یہوواہ کی فرمانبرداری برکات کا باعث بنتی ہے اور نافرمانی کا انجام بہت بُرا ہوتا ہے۔‏ (‏استثنا ۱۱:‏۲۶-‏۲۸‏)‏ ہمارے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم خدا کی آشکارا مرضی کیلئے ”‏دل سے .‏ .‏ .‏ فرمانبردار“‏ بن جائیں!‏—‏رومیوں ۶:‏۱۷؛‏ ۱-‏یوحنا ۲:‏۱۷‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 10 لاویوں کو مُلکِ‌موعود میں ۴۸ شہروں کے علاوہ کوئی میراث نہیں دی گئی تھی جو پورے اسرائیل میں پھیلے ہوئے تھے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر نقشہ]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

‏”‏[‏یہوواہ]‏ نے اُنکے لئے ایسے قاضی برپا کئے جنہوں نے اُنکو اُنکے غارتگروں کے ہاتھ سے چھڑایا۔‏“‏—‏قضاۃ ۲:‏۱۶

قاضی

۱.‏ غتنی‌ایل (‏منسی)‏

۲.‏ اہود (‏یہوداہ)‏

۳.‏ شمجر (‏یہوداہ)‏

۴.‏ برق (‏نفتالی)‏

۵.‏ جدعون (‏اِشکار)‏

۶.‏ تولع (‏منسی)‏

۷.‏ یائیر (‏منسی)‏

۸.‏ افتاح (‏جد)‏

۹.‏ ابصان (‏آشر)‏

۱۰.‏ ایلون (‏زبولون)‏

۱۱.‏ عبدون (‏افرائیم)‏

۱۲.‏ سمسون (‏یہوداہ)‏

دان

منسی

نفتالی

آشر

زبولون

اِشکار

منسی

جد

افرائیم

دان

بنیمین

روبن

یہوداہ

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

جب برق نے دبورہ سے میدانِ‌جنگ میں جانے کیلئے اصرار کِیا تو آپ اس سے کیا سیکھتے ہیں؟‏