مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یسوع مسیح—‏بائبل پیشینگوئیوں کا مرکز

یسوع مسیح—‏بائبل پیشینگوئیوں کا مرکز

یسوع مسیح—‏بائبل پیشینگوئیوں کا مرکز

‏”‏یسؔوع کی گواہی نبوّت کی رُوح ہے۔‏“‏—‏مکاشفہ ۱۹:‏۱۰‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ اسرائیل کو ۲۹ س.‏ع.‏ میں کیا فیصلہ کرنا تھا؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں کس موضوع پر بات‌چیت کی جائیگی؟‏

یہ ۲۹ س.‏ع.‏ کی بات ہے کہ اسرائیل کے ملک میں موعودہ مسیحا گرم‌جوش گفتگو کا موضوع بنا ہوا تھا۔‏ یوحنا بپتسمہ دینے والے کی خدمتگزاری نے مسیحا کی توقع میں اضافہ کر دیا تھا۔‏ (‏لوقا ۳:‏۱۵‏)‏ یوحنا اِس بات سے انکار کر دیتا ہے کہ وہ مسیحا نہیں تھا۔‏ اِسکی بجائے وہ ناصرۃ کے یسوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کرتا ہے:‏ ”‏مَیں نے .‏ .‏ .‏ گواہی دی ہے کہ یہ خدا کا بیٹا ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱:‏۲۰،‏ ۳۴‏)‏ بہت جلد بِھیڑ یسوع سے تعلیم اور شفا پانے کیلئے اُسکے پیچھے پیچھے آنا شروع کر دیتی ہے۔‏

۲ اِسکے بعد یہوواہ اپنے بیٹے سے متعلق لاتعداد شہادتیں فراہم کرتا ہے۔‏ بائبل کا مطالعہ اور یسوع کے کاموں کا مشاہدہ کرنے والوں کے پاس اُس پر ایمان لانے کی ٹھوس بنیاد ہے۔‏ تاہم،‏ خدا کیساتھ عہد میں بندھے ہوئے لوگ عام طور پر ایمان کی کمی ظاہر کرتے ہیں۔‏ چند ہی لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یسوع ہی مسیح اور خدا کا بیٹا ہے۔‏ (‏یوحنا ۶:‏۶۰-‏۶۹‏)‏ اگر آپ اُس وقت زندہ ہوتے تو آپ نے کیا کِیا ہوتا؟‏ کیا آپکو یسوع کو بطور مسیحا قبول کرنے اور اُسکے وفادار پیروکار بننے کی تحریک ملی ہوتی؟‏ جب یسوع پر سبت کی بےحرمتی کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے تو اُس ثبوت پر غور کریں جو اُس نے خود اپنی شناخت کیلئے پیش کِیا۔‏ اِسکے علاوہ اپنے وفادار شاگردوں کے ایمان کو مضبوط کرنے کیلئے یسوع نے بعد میں جو دیگر ثبوت فراہم کئے اُن پر بھی غور کریں۔‏

یسوع خود ثبوت فراہم کرتا ہے

۳.‏ کن حالات نے یسوع کو اپنی شناخت کی بابت ثبوت فراہم کرنے کی تحریک دی؟‏

۳ یہ ۳۱ س.‏ع.‏ کی فسح کا وقت ہے۔‏ یسوع اِس وقت یروشلیم میں ہے۔‏ یسوع نے ۳۸ سالوں سے بیمار شخص کو تھوڑی ہی دیر پہلے شفا بخشی ہے۔‏ تاہم،‏ یہودی یسوع کو سبت کے دِن شفا دینے کے کی وجہ سے پریشان کرتے ہیں۔‏ وہ اُس پر کفر بولنے کا الزام لگاتے ہیں۔‏ وہ اُسے قتل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ خدا کو اپنا باپ کہتا ہے۔‏ (‏یوحنا ۵:‏۱-‏۹،‏ ۱۶-‏۱۸‏)‏ اپنے دفاع میں یسوع تین زوردار دلائل استعمال کرتا ہے جو کسی بھی خلوصدل یہودی کو اِس بات کیلئے قائل کرینگے کہ حقیقت میں یسوع کون ہے۔‏

۴،‏ ۵.‏ یوحنا کی خدمتگزاری کا مقصد کیا تھا اور اُس نے اِس مقصد کو کتنی اچھی طرح پورا کِیا؟‏

۴ سب سے پہلے یسوع اپنے پیشرو،‏ یوحنا بپتسمہ دینے والے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کرتا ہے:‏ ”‏تُم نے یوؔحنا کے پاس پیام بھیجا اور اُس نے سچائی کی گواہی دی ہے۔‏ وہ جلتا اور چمکتا ہوا چراغ تھا اور تُم کو کچھ عرصہ تک اُسکی روشنی میں خوش رہنا منظور ہوا۔‏“‏—‏یوحنا ۵:‏۳۳،‏ ۳۵‏۔‏

۵ یوحنا بپتسمہ دینے والا ایک ”‏جلتا اور چمکتا ہوا چراغ“‏ تھا۔‏ اُس نے غیرمنصفانہ طور پر ہیرودیس کے ہاتھوں قید میں ڈالے جانے سے پہلے مسیحا کیلئے راہ تیار کر دی تھی۔‏ یوحنا نے بیان کِیا:‏ ”‏مَیں .‏ .‏ .‏ اسلئے پانی سے بپتسمہ دیتا ہوا آیا کہ [‏مسیحا]‏ اؔسرائیل پر ظاہر ہو جائے۔‏ .‏ .‏ .‏ مَیں نے روح کو کبوتر کی طرح آسمان سے اُترتے دیکھا ہے اور وہ اُس پر ٹھہر گیا۔‏ اور مَیں تو اسے پہچانتا نہ تھا مگر جس نے مجھے پانی سے بپتسمہ دینے کو بھیجا اُسی نے مجھ سے کہا کہ جس پر تُو روح کو اُترتے اور ٹھہرتے دیکھے وہی روح‌القدس سے بپتسمہ دینے والا ہے۔‏ چنانچہ مَیں نے دیکھا اور گواہی دی ہے کہ یہ خدا کا بیٹا ہے۔‏“‏  * (‏یوحنا ۱:‏۲۶-‏۳۷‏)‏ یوحنا نے بالخصوص یسوع کی خدا کے بیٹے—‏موعودہ مسیحا کے طور پر شناخت کرائی۔‏ یوحنا کی گواہی اتنی واضح تھی کہ اُسکی موت کے کوئی آٹھ ماہ بعد کئی خلوصدل یہودیوں نے تسلیم کِیا:‏ ”‏جوکچھ یوؔحنا نے اُسکے حق میں کہا تھا وہ سچ تھا۔‏“‏—‏یوحنا ۱۰:‏۴۱،‏ ۴۲‏۔‏

۶.‏ یسوع کے کاموں سے لوگوں کو اِس بات کیلئے کیوں قائل ہونا چاہئے تھا کہ اُسے خدا کی حمایت حاصل تھی؟‏

۶ اِس کے بعد یسوع خود کو مسیحا ثابت کرنے کے لئے ایک اَور دلیل استعمال کرتا ہے۔‏ وہ اپنے عمدہ کاموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ ظاہر کرتا ہے کہ اُسے خدا کی حمایت حاصل ہے۔‏ ”‏میرے پاس جو گواہی ہے وہ یوؔحنا کی گواہی سے بڑی ہے،‏“‏ وہ بیان کرتا ہے،‏ ”‏کیونکہ جو کام باپ نے مجھے پورے کرنے کو دئے یعنی یہی کام جو مَیں کرتا ہوں وہ میرے گواہ ہیں کہ باپ نے مجھے بھیجا ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۵:‏۳۶‏)‏ یسوع کے دشمن بھی اِس ثبوت سے انکار نہ کر سکے جس میں بہت سے معجزے بھی شامل تھے۔‏ ”‏ہم کرتے کیا ہیں؟‏ یہ آدمی تو بہت معجزے دکھاتا ہے؟‏“‏ بعض نے بعد میں سوال کِیا تھا۔‏ (‏یوحنا ۱۱:‏۴۷‏)‏ تاہم،‏ بعض نے مثبت جواب دیتے ہوئے کہا:‏ ”‏مسیح جب آئیگا تو کیا ان سے زیادہ معجزے دکھائیگا جو اُس نے دکھائے؟‏“‏ (‏یوحنا ۷:‏۳۱‏)‏ یسوع کے سامعین بیٹے میں باپ کی صفات کو دیکھنے کی بہترین حالت میں تھے۔‏—‏یوحنا ۱۴:‏۹‏۔‏

۷.‏ عبرانی صحائف یسوع کی گواہی کیسے دیتے ہیں؟‏

۷ آخر میں یسوع ایک ناقابلِ‌تردید گواہی پر توجہ دلاتا ہے۔‏ ”‏کتابِ‌مقدس .‏ .‏ .‏ میری گواہی دیتی ہے،‏“‏ وہ یہ کہتے ہوئے اضافہ کرتا ہے:‏ ”‏اگر تُم موسیٰؔ کا یقین کرتے تو میرا بھی یقین کرتے۔‏ اسلئےکہ اُس نے میرے حق میں لکھا ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۵:‏۳۹،‏ ۴۶‏)‏ بِلاشُبہ،‏ موسیٰ مسیحی زمانے سے پہلے بہت سے گواہوں میں سے ایک ہے جنہوں نے مسیح کی بابت لکھا ہے۔‏ اُنکی تحریروں میں سینکڑوں پیشینگوئیاں اور تفصیلی نسب‌نامے شامل ہیں جو سب مسیحا کی شناخت کرنے میں مدد دیتے ہیں۔‏ (‏لوقا ۳:‏۲۳-‏۳۸؛‏ ۲۴:‏۴۴-‏۴۶؛‏ اعمال ۱۰:‏۴۳‏)‏ تاہم موسوی شریعت کی بابت کیا ہے؟‏ پولس رسول نے لکھا،‏ ”‏پس شریعت مسیح تک پہنچانے کو ہمارا اُستاد بنی۔‏“‏ (‏گلتیوں ۳:‏۲۴‏)‏ جی‌ہاں،‏ ”‏یسوؔع کی گواہی نبوّت کی روح ہے۔‏“‏—‏مکاشفہ ۱۹:‏۱۰‏۔‏

۸.‏ بہت سے یہودی مسیحا پر ایمان کیوں نہیں لائے تھے؟‏

۸ کیا یہ سب ثبوت—‏یوحنا کی واضح گواہی،‏ یسوع کے زوردار کام،‏ خدائی صفات اور کتابِ‌مقدس سے لاتعداد شہادتیں—‏آپکو قائل نہیں کرینگے کہ یسوع ہی مسیحا تھا؟‏ خدا اور اُسکے کلام کیلئے حقیقی محبت رکھنے والا کوئی بھی شخص اِس چیز کو آسانی سے قبول کرکے یسوع پر موعودہ مسیحا کے طور پر ایمان لے آئیگا۔‏ تاہم،‏ اسرائیل میں بنیادی طور پر ایسی محبت ہی کی کمی تھی۔‏ یسوع نے اپنے مخالفین سے کہا تھا:‏ ”‏مَیں تُم کو جانتا ہوں کہ تُم میں خدا کی محبت نہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۵:‏۴۲‏)‏ ”‏وہ عزت جو خدایِ‌واحد کی طرف سے ہوتی ہے،‏“‏ اُسکی بجائے وہ ”‏ایک دوسرے سے عزت چاہتے“‏ تھے۔‏ اِس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ وہ یسوع کیساتھ متفق نہیں تھے جو اپنے باپ کی طرح ایسی سوچ سے نفرت کرتا ہے!‏—‏یوحنا ۵:‏۴۳،‏ ۴۴؛‏ اعمال ۱۲:‏۲۱-‏۲۳‏۔‏

نبوّتی رویا سے تقویت پائی

۹،‏ ۱۰.‏ (‏ا)‏ صورت بدلنے کا وقت موزوں کیوں تھا؟‏ (‏ب)‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کیساتھ کیا شاندار وعدہ کِیا تھا؟‏

۹ کوئی ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد یسوع نے اپنی مسیحائیت کی بابت مذکورہ‌بالا ثبوت پیش کِیا۔‏ ۳۲ س.‏ع.‏ کی فسح گزر چکی تھی۔‏ بہت سے ایمان لانے والے اُسکی پیروی کرنا چھوڑ چکے تھے۔‏ شاید اُنہوں نے اذیت،‏ مادہ‌پرستی یا زندگی کی فکروں کی وجہ سے ایسا کِیا تھا۔‏ دوسرے شاید پریشان یا مایوس تھے کیونکہ یسوع نے لوگوں کی اُسے بادشاہ بنانے کی کوشش کو مسترد کر دیا تھا۔‏ جب یہودی مذہبی پیشواؤں نے اُس سے تقاضا کِیا کہ کوئی آسمانی نشان فراہم کرے تو اُس نے اپنی عزت‌افزائی کیلئے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔‏ (‏متی ۱۲:‏۳۸،‏ ۳۹‏)‏ اُسکے اِس انکار نے بھی بعض کو شاید پریشان کر دیا ہو۔‏ اِسکے علاوہ،‏ یسوع نے اپنے شاگردوں پر ایک ایسی بات آشکارا کرنا شروع کر دی جسے اُنہوں نے سمجھنا مشکل پایا تھا۔‏ اُس نے اُن سے کہا:‏ ”‏اُسے ضرور ہے کہ یرؔوشلیم کو جائے اور بزرگوں اور سردار کاہنوں اور فقیہوں کی طرف سے بہت دُکھ اُٹھائے اور قتل کِیا جائے۔‏“‏—‏متی ۱۶:‏۲۱-‏۲۳‏۔‏

۱۰ کوئی نو سے دس ماہ بعد یسوع کے ”‏دُنیا سے رخصت ہوکر باپ کے پاس“‏ جانے کا وقت آ جائیگا۔‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۱‏)‏ اپنے وفادار شاگردوں کیلئے گہری فکرمندی کی وجہ سے یسوع اُسی چیز یعنی آسمان سے نشان کا وعدہ کرتا ہے جسکا وہ بےایمان یہودیوں کے سامنے انکار کر چکا ہے۔‏ ”‏مَیں تُم سے سچ کہتا ہوں،‏“‏ یسوع بیان کرتا ہے ”‏کہ جو یہاں کھڑے ہیں اُن میں سے بعض ایسے ہیں کہ جبتک ابنِ‌آؔدم کو اُسکی بادشاہی میں آتے ہوئے نہ دیکھ لینگے موت کا مزہ ہرگز نہ چکھیں گے۔‏“‏ (‏متی ۱۶:‏۲۸‏)‏ ظاہری طور پر،‏ یسوع یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ اُسکے بعض شاگرد ۱۹۱۴ میں مسیحائی بادشاہت کے قائم ہونے تک زندہ رہینگے۔‏ یسوع کے ذہن میں کچھ اَور تھا جسے اُس نے اپنے تین قریبی شاگردوں پر ظاہر کِیا۔‏ اُس نے اُنہیں بادشاہتی اختیار میں اپنی شان‌وشوکت کا شاندار پیشگی نظارہ دکھایا تھا۔‏ اِس پیشگی نظارے کو صورت بدلنے کا نام دیا جاتا ہے۔‏

۱۱.‏ صورت بدلنے کی رویا کی وضاحت کریں۔‏

۱۱ چھ دن بعد یسوع پطرس،‏ یعقوب اور یوحنا کو ایک اُونچے پہاڑ شاید کوہِ‌حرمون کی چوٹی پر لے جاتا ہے۔‏ وہاں پر یسوع کی ”‏اُنکے سامنے .‏ .‏ .‏ صورت بدل گئی اور اُسکا چہرہ سورج کی مانند چمکا اور اُسکی پوشاک نُور کی مانند سفید ہو گئی۔‏“‏ موسیٰ اور ایلیاہ بھی یسوع کیساتھ باتیں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔‏ یہ واقعہ غالباً رات کے وقت رونما ہوتا ہے جو اِسے خاص طور پر واضح کر دیتا ہے۔‏ یہ واقعہ درحقیقت اتنا حقیقی لگ رہا تھا کہ پطرس یسوع،‏ موسیٰ اور ایلیاہ کیلئے تین خیمے کھڑے کرنے کی پیشکش کرتا ہے۔‏ جب پطرس ابھی باتیں کر ہی رہا تھا کہ ایک نورانی بادل اُن پر سایہ کر دیتا ہے اور اُس بادل میں سے یہ آواز آتی ہے:‏ ”‏یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں اِسکی سنو۔‏“‏—‏متی ۱۷:‏۱-‏۶‏۔‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ صورت بدلنے والی رویا نے تین شاگردوں پر کیا اثر چھوڑا اور کیوں؟‏

۱۲ یہ سچ ہے کہ پطرس حال ہی میں اِس بات کی تصدیق کر چکا ہے کہ یسوع ”‏زندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے۔‏“‏ (‏متی ۱۶:‏۱۶‏)‏ ذرا خدا کو ذاتی طور پر اپنی شہادت دیتے ہوئے سننے کا تصور کریں جو اُسکے ممسوح بیٹے کے کردار اور شناخت کی تصدیق کرتا ہے!‏ پطرس،‏ یعقوب اور یوحنا کیلئے صورت بدلنے کی رویا ایمان کو مضبوط کرنے کا شاندار تجربہ ہے!‏ اپنے ایمان کی مضبوطی کے بعد اب وہ آئندہ کاموں اور مستقبل کی کلیسیا میں اہم کردار ادا کرنے کیلئے بہتر طور پر تیار ہیں۔‏

۱۳ صورت بدلنے کا واقعہ شاگردوں کے ذہنوں پر ایک دائمی اثر چھوڑتا ہے۔‏ کوئی ۳۰ سال بعد پطرس لکھتا ہے:‏ ”‏[‏یسوع]‏ نے خدا باپ سے اُس وقت عزت اور جلال پایا جب اُس افضل جلال میں سے اُسے یہ آواز آئی کہ ’‏یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں۔‏‘‏ اور جب ہم اُسکے ساتھ مُقدس پہاڑ پر تھے تو آسمان سے یہی آواز آتی سنی۔‏“‏ (‏۲-‏پطرس ۱:‏۱۷،‏ ۱۸‏)‏ یوحنا پر بھی اتنا ہی اثر ہوتا ہے۔‏ اِس واقعہ کے رونما ہونے کے کوئی ۶۰ سال بعد وہ ظاہری طور پر اِن الفاظ کیساتھ حوالہ دیتا ہے:‏ ”‏ہم نے اُسکا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال۔‏“‏ (‏یوحنا ۱:‏۱۴‏)‏ تاہم،‏ یسوع کے شاگردوں کو نظر آنے والی صورت بدلنے کی رویا کوئی آخری رویا نہیں تھی۔‏

خدا کے وفاداروں کیلئے مزید بصیرت

۱۴،‏ ۱۵.‏ کس لحاظ سے یوحنا رسول یسوع کے آنے تک رہتا ہے؟‏

۱۴ اپنی قیامت کے بعد یسوع گلیل کی جھیل کے کنارے اپنے شاگردوں پر ظاہر ہوتا ہے۔‏ وہاں پر وہ پطرس کو بتاتا ہے:‏ ”‏اگر مَیں چاہوں کہ [‏یوحنا]‏ میرے آنے تک ٹھہرا رہے تو تجھ کو کیا؟‏“‏ (‏یوحنا ۲۱:‏۱،‏ ۲۰-‏۲۲،‏ ۲۴‏)‏ کیا اِن الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یوحنا دوسرے رسولوں کی نسبت زیادہ دیر تک زندہ رہیگا؟‏ بظاہر ایسا ہی ہے کیونکہ وہ مزید ۷۰ سال وفاداری کیساتھ یہوواہ کی خدمت کرتا ہے۔‏ تاہم،‏ یسوع کے بیان کا کچھ اَور بھی مطلب ہے۔‏

۱۵ ‏”‏میرے آنے تک“‏ کا اظہار ہمیں یسوع کے ’‏ابنِ‌آؔدم کے بادشاہی میں آنے‘‏ کے حوالے کی یاد دلاتا ہے۔‏ (‏متی ۱۶:‏۲۸‏)‏ یوحنا یسوع کے آنے تک رہتا ہے کیونکہ یوحنا کو بعدازاں یسوع کے بادشاہتی اختیار میں آنے کی ایک نبوّتی رویا دی جاتی ہے۔‏ یوحنا کی عمر کے آخری حصے میں جب وہ پتمُس کے جزیرے میں قید تھا تو وہ ”‏خداوند کے دن“‏ کے دوران رونما ہونے والے تمام واقعات سے متعلق حیران‌کُن نبوّتی نشانوں پر مشتمل مکاشفہ حاصل کرتا ہے۔‏ یوحنا پر اِن شاندار رویتوں کا بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔‏ جب یسوع کہتا ہے کہ ”‏بیشک مَیں جلد آنے والا ہوں،‏“‏ تو یوحنا پکار اُٹھتا ہے:‏ ”‏آمین۔‏ اَے خداوند یسوؔع آ۔‏“‏—‏مکاشفہ ۱:‏۱،‏ ۱۰؛‏ ۲۲:‏۲۰‏۔‏

۱۶.‏ اپنے ایمان کو مسلسل مضبوط کرنا کیوں ضروری ہے؟‏

۱۶ پہلی صدی کے خلوصدل اشخاص یسوع کو مسیحا کے طور پر قبول کرکے اُس پر ایمان لے آتے ہیں۔‏ لیکن ان ایمانداروں کو اُس وقت موجود ایمان کی کمی کی وجہ سے،‏ منادی کرنے کیلئے اور آنے والی آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے مضبوط ایمان کی ضرورت تھی۔‏ یسوع مسیح اپنے مسیحا ہونے کا کافی ثبوت دے چکا ہے۔‏ اُس نے اپنے وفادار پیروکاروں کی حوصلہ‌افزائی کیلئے عقل‌ودانش بخشنے والی نبوّتی رویتیں فراہم کی ہیں۔‏ آجکل ہم ”‏خداوند کے دِن“‏ میں بہت آگے نکل آئے ہیں۔‏ اب یسوع مسیح بہت جلد شیطان کے تمام شریر نظام کو ختم کریگا اور خدا کے لوگوں کو بچائیگا۔‏ ہمیں بھی اپنی روحانی حالت کو بہتر رکھنے کیلئے یہوواہ کی تمام فراہمیوں سے پورا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے ایمان کو مضبوط بنانا چاہئے۔‏

تاریکی اور اذیت کے دوران محفوظ

۱۷،‏ ۱۸.‏ پہلی صدی میں یسوع کے پیروکاروں اور خدا کے مقصد کی مخالفت کرنے والوں میں کیا واضح فرق تھا اور دونوں گروہوں کا کیا انجام ہوا تھا؟‏

۱۷ یسوع کی موت کے بعد شاگردوں نے ”‏یروشلیمؔ اور تمام یہوؔدیہ اور ساؔمریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک“‏ گواہی دینے کے اُسکے حکم کی دلیری کیساتھ فرمانبرداری کی۔‏ (‏اعمال ۱:‏۸‏)‏ شدید اذیت کے باوجود یہوواہ حال ہی میں قائم ہونے والی مسیحی کلیسیا کو روحانی سمجھ اور بہت سے نئے شاگردوں کی برکت بخشتا ہے۔‏—‏اعمال ۲:‏۴۷؛‏ ۴:‏۱-‏۳۱؛‏ ۸:‏۱-‏۸‏۔‏

۱۸ اِسکے برعکس خوشخبری کے مخالفین کا زور بھی آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا۔‏ ”‏شریروں کی راہ تاریکی کی مانند ہے،‏“‏ امثال ۴:‏۱۹ بیان کرتی ہے۔‏ ”‏وہ نہیں جانتے کہ کن چیزوں سے اُنکو ٹھوکر لگتی ہے۔‏“‏ جب ۶۶ س.‏ع.‏ میں رومی فوجیں یروشلیم کو گھیر لیتی ہیں تو ”‏تاریکی“‏ پھیل جاتی ہے۔‏ بظاہر کسی وجہ کے بغیر عارضی طور پر پیچھے ہٹ جانے کے بعد رومی ۷۰ س.‏ع.‏ میں واپس لوٹ آتے ہیں۔‏ یہودی تاریخ‌دان جوزیفس کے مطابق ایک ملین سے زیادہ یہودی ہلاک ہو جاتے ہیں۔‏ تاہم،‏ وفادار مسیحی بچ نکلتے ہیں۔‏ کیوں؟‏ اِسلئےکہ جب پہلا محاصرہ ختم ہوتا ہے تو وہ یسوع کے حکم پر عمل کرتے ہوئے شہر سے بھاگ جاتے۔‏—‏لوقا ۲۱:‏۲۰-‏۲۲‏۔‏

۱۹،‏ ۲۰.‏ (‏ا)‏ جب موجودہ نظام کا خاتمہ نزدیک آتا ہے تو خدا کے لوگوں کو کیوں خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ نے ۱۹۱۴ سے کئی سال پہلے کس شاندار سچائی کی سمجھ بخشی تھی؟‏

۱۹ ہماری صورتحال بھی ویسی ہی ہے۔‏ مستقبل قریب میں آنے والی بڑی مصیبت شیطان کے تمام شریر نظام کے خاتمے کا اشارہ ہوگی۔‏ لیکن خدا کے لوگوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یسوع نے وعدہ فرمایا ہے:‏ ”‏دیکھو مَیں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔‏“‏ (‏متی ۲۸:‏۲۰‏)‏ اپنے ابتدائی شاگردوں کے ایمان کو مضبوط کرنے اور آنے والے حالات کیلئے تیار ہونے کی خاطر یسوع نے مسیحائی بادشاہ کے طور پر اپنے آسمانی جلال کی پیشگی جھلک اُنہیں دکھائی تھی۔‏ ہمارے زمانے کی بابت کیا ہے؟‏ وہ پیشگی جھلک ۱۹۱۴ میں حقیقت بن گئی۔‏ یہ بات خدا کے لوگوں کیلئے ایمان کو مضبوط کرنے والی کتنی بڑی حقیقت ہے کہ یسوع مسیحائی بادشاہ کے طور پر اب حکمرانی کرتا ہے!‏ اِس میں ایک شاندار مستقبل کا وعدہ شامل ہے،‏ نیز یہوواہ کے خادموں کو مسیحائی بادشاہت کی حقیقت کے سلسلے میں وقت کیساتھ ساتھ سمجھ عطا کی گئی ہے۔‏ آجکل دُنیا کی تاریک حالت میں ”‏صادقوں کی راہ نورِسحر کی مانند ہے جسکی روشنی دوپہر تک بڑھتی ہی جاتی ہے۔‏“‏—‏امثال ۴:‏۱۸‏۔‏

۲۰ ممسوح مسیحیوں کے ایک چھوٹے سے گروہ نے ۱۹۱۴ سے بھی پہلے خدا کی واپسی سے متعلق اہم سچائیوں کو سمجھنا شروع کر دیا تھا۔‏ مثال کے طور پر،‏ اُنہوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ یسوع کی واپسی نادیدہ ہوگی جیسےکہ ۳۳ س.‏ع.‏ پر یسوع کے آسمان پر جاتے وقت دو فرشتوں نے شاگردوں پر ظاہر ہوکر بیان کِیا تھا۔‏ جب بادلوں نے یسوع کو شاگردوں کی نظروں سے چھپا لیا تو فرشتوں نے کہا:‏ ”‏یہی یسوؔع جو تمہارے پاس سے آسمان کی طرف اُٹھایا گیا ہے اِسی طرح پھر آئیگا جسطرح تُم نے اُسے آسمان کی طرف جاتے دیکھا ہے۔‏“‏—‏اعمال ۱:‏۹-‏۱۱‏۔‏

۲۱.‏ اگلے مضمون میں کس موضوع پر بات‌چیت کی جائیگی؟‏

۲۱ یسوع کو صرف اُسکے وفادار پیروکاروں نے آسمان پر جاتے دیکھا تھا۔‏ یسوع کی صورت بدلنے کی رویا کو بھی عوام نے نہیں دیکھا تھا وہ تو اِس بات سے واقف بھی نہیں تھے کہ کیا واقع ہوا ہے۔‏ جب یسوع مسیح نے اپنے بادشاہتی اختیار میں آنا تھا تو اُس وقت بھی یہی ہونا تھا۔‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۱۹‏)‏ اُسکے وفادار ممسوح شاگرد ہی اُسکی شاہی موجودگی کو سمجھیں گے۔‏ اگلے مضمون میں ہم دیکھینگے کہ اِس سچائی کی سمجھ نے اُن لاکھوں لوگوں پر کیسا گہرا اثر کِیا جو یسوع کی زمینی رعایا بنیں گے۔‏—‏مکاشفہ ۷:‏۹،‏ ۱۴‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 5 ظاہری طور پر،‏ یسوع کے بپتسمے پر صرف یوحنا نے خدا کی آواز سنی تھی۔‏ یسوع جن یہودیوں سے مخاطب تھا اُنہوں نے ”‏نہ کبھی [‏خدا کی]‏ آواز سنی ہے اور نہ اُسکی صورت دیکھی۔‏“‏—‏یوحنا ۵:‏۳۷‏۔‏

کیا آپکو یاد ہے؟‏

‏• جب یسوع پر سبت کی خلاف‌ورزی کرنے اور کفر بولنے کا الزام لگایا گیا تو اُس نے خود کو مسیحا ثابت کرنے کیلئے کیا ثبوت پیش کِیا؟‏

‏• یسوع کے ابتدائی شاگردوں نے اُسکی صورت بدلنے کی رویا سے کیا فائدہ حاصل کِیا؟‏

‏• جب یسوع نے یہ کہا کہ یوحنا اُسکے آنے تک رہیگا تو اُسکا کیا مطلب تھا؟‏

‏• کونسی پیشگی جھلک ۱۹۱۴ میں حقیقت بن گئی؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

یسوع نے مسیحا ہونے کے ثبوت فراہم کئے

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

صورت بدلنے کی رویا ایمان کو مضبوط کرنے والی ثابت ہوئی

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

یوحنا کو یسوع کے ’‏آنے‘‏ تک رہنا تھا