مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ نے بھی معجزے دیکھے ہیں!‏

آپ نے بھی معجزے دیکھے ہیں!‏

آپ نے بھی معجزے دیکھے ہیں!‏

اگر سو سال پہلے لوگ کمپیوٹر،‏ ٹیلی‌ویژن یا راکٹ کو دیکھتے تو وہ انہیں معجزہ سمجھتے۔‏ لیکن آج یہی چیزیں عام ہو گئی ہیں۔‏

اس لئے کئی سائنس‌دان کہتے ہیں کہ کسی بات کو ناممکن نہیں قرار دینا چاہئے۔‏ وہ جانتے ہیں کہ خلق کی ہوئی چیزوں کے بارے میں ان کا علم محدود ہے۔‏ جس بات کو آج ناممکن سمجھا جاتا ہے،‏ تحقیق کے ذریعے مستقبل میں یہی بات شاید ممکن ہو جائے۔‏

معجزہ اُس واقعے کو کہتے ہیں جو خدا کی قوت سے ہوتا ہے۔‏ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم سب نے معجزے دیکھے ہیں۔‏ مثال کے طور پر ہم سب سورج،‏ چاند اور ستاروں کو دیکھ سکتے ہیں جن کو خدا نے بنایا ہے۔‏ اِس کے علاوہ ہم میں سے کون شخص پوری طرح سے سمجھ سکتا ہے کہ ہمارا جسم اور دماغ کیسے کام کرتا ہے؟‏ یا پھر کیا ہم یہ پوری طرح سمجھ پاتے ہیں کہ ایک بچہ اپنی ماں کی کوکھ میں کیسے پلتا ہے؟‏ سائنس کی ایک کتاب بیان کرتی ہے:‏ ”‏انسانی جسم ایک پیچیدہ انجن کی طرح ہے جو اعصابی نظام کے بل‌بوتے پر چلتا ہے۔‏ انسانی دماغ ایک کمپیوٹر کی طرح ہے جو خود کو برقرار رکھتا ہے۔‏ جسم پر تحقیق کرتے وقت ہم دنگ رہ جاتے ہیں۔‏“‏ واقعی انسانی جسم ایک معجزے سے کم نہیں!‏ آپ نے اَور بھی معجزے دیکھے ہیں لیکن شاید آپ پہلی نظر میں اِن کو معجزوں کا نام نہ دیں۔‏ آئیے ہم اس کی ایک مثال پر غور کرتے ہیں۔‏

ایک معجزے سے کم نہیں

بائبل دوسری کتابوں کی نسبت زیادہ تقسیم کی گئی ہے۔‏ یہ بات سچ ہے کہ انسانوں نے اسے درج کِیا تھا۔‏ لیکن جو کچھ وہ لکھ رہے تھے وہ اصل میں خدا کی طرف سے تھا۔‏ (‏۲-‏سموئیل ۲۳:‏۱،‏ ۲؛‏ ۲-‏پطرس ۱:‏۲۰،‏ ۲۱‏)‏ ذرا سوچیں:‏ خدا کا کلام ۶۰۰،‏۱ سال کے دوران نازل ہوا۔‏ اس کو لکھنے والے ۴۰ آدمی مختلف پیشوں سے تعلق رکھتے تھے۔‏ ان میں گلّہ‌بان،‏ سپاہی،‏ ماہی‌گیر،‏ عہدہ‌دار،‏ ڈاکٹر،‏ کاہن اور بادشاہ بھی شامل تھے۔‏ اس کے باوجود اِس کتاب کے پیغام میں کوئی نااتفاقی نہیں پائی جاتی اور یہ ہر لحاظ سے حقیقت پر مبنی ہے۔‏ کیا ہم ایک ایسی کتاب کے وجود کو ایک معجزہ نہیں کہہ سکتے ہیں؟‏

یہوواہ کے گواہ غور سے بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں۔‏ اُنہوں نے اس کتاب کو ”‏آدمیوں کا کلام سمجھ کر نہیں بلکہ (‏جیسا حقیقت میں ہے)‏ خدا کا کلام جان کر قبول کِیا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۲:‏۱۳‏)‏ یہوواہ کے گواہوں نے خدا کے کلام پر مبنی بہت سے رسالے اور کتابیں وغیرہ شائع کی ہیں۔‏ اِن میں اس بات کا ثبوت پیش کِیا جاتا ہے کہ بائبل میں کوئی نااتفاقی نہیں ہے۔‏ * بائبل واقعی خدا کا کلام ہے۔‏

بائبل کو تباہ کرنے اور اس میں ردّوبدل کرنے کی بہت کوشش کی گئی ہے لیکن یہ تمام کوششیں ناکام رہی ہیں۔‏ آج خدا کا کلام ۰۰۰،‏۲ سے زائد زبانوں میں دستیاب ہے۔‏ بائبل خدا کی قوت کا جیتاجاگتا ثبوت ہے۔‏ واقعی خدا کے کلام کا وجود ایک معجزہ سے کم نہیں!‏

خدا کا کلام ”‏زندہ اور مؤثر“‏ ہے

ماضی میں لوگ معجزوں کے ذریعے اپنی بیماریوں سے شفا پاتے اور مُردوں کو جی اٹھایا جاتا۔‏ اس قسم کے معجزے آج نہیں ہوتے۔‏ لیکن ہم اِس بات پر پورا یقین رکھ سکتے ہیں کہ مستقبل میں پوری دُنیا میں ایسے معجزے ہوں گے۔‏ ہم اِس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اِن معجزوں کی وجہ سے ہم ہمیشہ کے لئے کتنی خوشی حاصل کریں گے۔‏

خدا کا کلام لوگوں کی شخصیت میں بہتری لاتا ہے۔‏ یہ بھی ایک معجزے سے کم نہیں۔‏ (‏بکس ”‏خدا کا کلام لوگوں میں تبدیلیاں لانے کی قوت رکھتا ہے“‏ کو دیکھیں۔‏)‏ عبرانیوں ۴:‏۱۲ میں لکھا ہے:‏ ”‏خدا کا کلام زندہ اور مؤثر اور ہر ایک دو دھاری تلوار سے زیادہ تیز ہے اور جان اور روح اور بندبند اور گودے کو جدا کرکے گزر جاتا ہے اور دل کے خیالوں اور ارادوں کو جانچتا ہے۔‏“‏ جی‌ہاں خدا کے کلام نے دُنیابھر میں ۶۰ لاکھ سے زیادہ لوگوں کی زندگی پر اثر کِیا ہے۔‏ اب اِن لوگوں کی زندگی بامقصد ہے اور وہ مستقبل کے لئے ایک شاندار اُمید رکھتے ہیں۔‏

کیوں نہ آپ بھی اس قسم کے معجزے سے مستفید ہوں اور خدا کے کلام کو اپنی زندگی میں اثر کرنے دیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 7 اس بات کی وضاحت کتابچہ سب لوگوں کے لئے ایک کتاب میں کی گئی ہے۔‏ یہ کتابچہ یہوواہ کے گواہوں کا شائع‌کردہ ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۷ پر بکس/‏تصویر]‏

کیا یسوع زندہ تھا یا مر چکا تھا؟‏

یوحنا ۱۹:‏۳۳،‏ ۳۴ کے مطابق یسوع اُس وقت مر چکا تھا جس وقت ”‏سپاہی نے بھالے سے اس کی پسلی چھیدی اور فی‌الفور اس سے خون اور پانی بہہ نکلا۔‏“‏ لیکن کئی ترجمے متی ۲۷:‏۴۹،‏ ۵۰ کو یوں بیان کرتے ہیں:‏ ‏”‏ایک اَور آدمی نے بھالا لے کر اسکی پسلی چھیدی اور فی‌الفور اس سے خون اور پانی بہہ نکلا۔‏ یسوؔع نے پھر بڑی آواز سے چلا کر جان دے دی۔‏“‏ جب یسوع کو چھیدا گیا تھا تو کیا وہ واقعی زندہ تھا؟‏

موسوی شریعت کے مطابق ایک مجرم کو رات‌بھر سولی پر لٹکانے کی اجازت نہیں تھی۔‏ (‏استثنا ۲۱:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ اِسلئے یسوع کے زمانے میں اگر ایک سولی پر لٹکایا ہوا مجرم شام تک زندہ رہتا تو اُسکی ٹانگیں توڑی جاتی تھیں۔‏ اِسطرح وہ جلد مر جاتا کیونکہ وہ اپنی ٹانگوں سے اپنے آپکو سہارا نہیں دے سکتا تھا جسکی وجہ سے اُس کے لئے سانس لینا مشکل ہو جاتا تھا۔‏ سپاہیوں نے یسوع کے دائیں اور بائیں طرف لٹکے ہوئے دونوں مجرموں کی ٹانگیں توڑیں لیکن اِنہوں نے یسوع کیساتھ ایسا نہیں کِیا۔‏ اِس سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سپاہی جانتے تھے کہ یسوع مر چکا تھا۔‏ شاید سپاہی نے یسوع کی پسلی اِسلئے چھیدی تاکہ کوئی شک نہ رہے کہ وہ واقعی مر چکا ہے۔‏

بائبل کے کئی اَور ترجموں میں اِن واقعات کا سلسلہ مختلف بتایا جاتا ہے۔‏ اُن ترجموں میں لکھا ہے کہ سپاہی نے پہلے یسوع کی پسلی چھیدی پھر یسوع نے اُونچی آواز سے چلا کر جان دی۔‏ لیکن بائبل کے ہر قدیم مسودے میں اِن واقعات کا یہ سلسلہ نہیں پایا جاتا ہے۔‏ بہتیرے علماء کا کہنا ہے کہ ان مسودوں میں یوحنا ۱۹:‏۳۴ کے الفاظ کو متی ۲۷:‏۴۹ میں ڈالا گیا تھا لیکن یہ اضافہ غلط جگہ پر کِیا گیا تھا۔‏ اِسلئے بہتیرے ترجمے (‏مثال کے طور پر اُردو کے بائبل ترجموں میں)‏ اِس اضافے کو یا تو اِستعمال نہیں کرتے یا پھر فٹ‌نوٹ اور بریکٹس کے ذریعے اِسکو ظاہر کرتے ہیں۔‏

بعض علماء کا کہنا ہے کہ ’‏متی ۲۷:‏۴۹ میں یہ اضافہ فقیہوں نے کِیا تھا۔‏‘‏

اِسلئے اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ یوحنا ۱۹:‏۳۳،‏ ۳۴ میں بیان کِیا گیا واقعہ سچ پر مبنی ہے اور جب سپاہی نے بھالے سے اُسکی پسلی چھیدی تو یسوع واقعی مر چکا تھا۔‏

‏[‏صفحہ ۸ پر بکس/‏تصویر]‏

خدا کا کلام لوگوں میں تبدیلیاں لانے کی قوت رکھتا ہے

ڈٹ‌لف نامی ایک نوجوان کے والدین کی طلاق ہو چکی تھی۔‏ * نتیجتاً ڈٹ‌لف ایک ایسے گینگ (‏گروہ)‏ کا ساتھ دینے لگا جو منشیات اور شراب کے نشے میں پڑ گیا تھا۔‏ وہ اپنے دوستوں کیساتھ ایسی موسیقی میں مگن رہتا تھا جو خودکشی،‏ افسردگی،‏ منشیات اور شیطان‌پرستی کو فروغ دیتی ہے۔‏ ڈٹ‌لف تشدد کرنے پر اُتر آیا جسکی وجہ سے پولیس کو اُسکے ساتھ نپٹنا پڑا۔‏

سن ۱۹۹۲ میں ڈٹ‌لف کے گینگ کے ۶۰ رُکن کی ایک دوسرے گینگ کے ۳۵ افراد کیساتھ لڑائی ہوئی۔‏ یہ ہنگامہ جرمنی کے ایک ریسٹورنٹ میں ہوا۔‏ دوسرے گینگ کے ایک رُکن کو اتنی بُری طرح سے پیٹا گیا کہ وہ مر گیا۔‏ اُسکا نام ٹوماس تھا۔‏ ڈٹ‌لف سمیت اُسکے گینگ کے اَور بھی افراد کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔‏ اِس واقعے کی خبر دُور تک پھیل گئی۔‏

ڈٹ‌لف اپنی سزا کاٹ کر جیل سے رِہا ہو گیا۔‏ کچھ عرصہ بعد اُسے یہوواہ کے گواہوں نے ایک پرچہ دیا جسکا عنوان تھا ‏”‏زندگی مسائل سے اس قدر کیوں بھری پڑی ہے؟‏“‏ ڈٹ‌لف نے فوراً پہچان لیا کہ جو کچھ وہ پڑھ رہا تھا وہ سچ ہے۔‏ وہ یہوواہ کے گواہوں کی مدد سے بائبل کی سچائیوں کے بارے میں سیکھنے لگا۔‏ پھر ۱۹۹۶ میں ڈٹ‌لف ایک پُرجوش یہوواہ کا گواہ بن گیا۔‏

زِیگ‌فرید نامی ایک نوجوان ٹوماس کا اچھا دوست تھا۔‏ وہ ٹوماس کے گینگ کا ایک رُکن بھی تھا۔‏ کچھ عرصہ بعد زِیگ‌فرید بھی ایک یہوواہ کا گواہ بن گیا۔‏ اُس نے روحانی ترقی کی۔‏ اُسے اپنی کلیسیا میں ایک بزرگ کے طور پر مقرر کِیا گیا۔‏ ایک دن زِیگ‌فرید کسی دوسری کلیسیا میں تقریر پیش کرنے کیلئے گیا۔‏ اِس کلیسیا کے اجلاسوں پر کبھی‌کبھی ٹوماس کی والدہ بھی حاضر ہوتی ہیں۔‏ دلچسپی کی بات ہے کہ ڈٹ‌لف اسی کلیسیا کا ایک رُکن ہے۔‏ ڈٹ‌لف نے زِیگ‌فرید کو کھانے کی دعوت دی۔‏ دس سال پہلے اِن دونوں میں اتنی نفرت تھی کہ وہ اپنے آپکو قابو میں نہ رکھ پاتے۔‏ آج ان دونوں کے درمیان بھائیوں جیسا پیار ہے۔‏

ڈٹ‌لف اور زِیگ‌فرید اُس وقت کے مشتاق ہیں جب وہ ٹوماس کو ایک زمینی فردوس میں خوش‌آمدید کہیں گے۔‏ ڈٹ‌لف کہتا ہے ”‏اِس وقت کے بارے میں سوچتے ہی میری آنکھیں بھر آتی ہیں۔‏ جو کچھ مَیں نے کِیا تھا مَیں اُس پر بہت پچتاتا ہوں۔‏“‏ جسطرح ڈٹ‌لف اور زِیگ‌فرید آج لوگوں کو یہوواہ خدا اور اُسکے کلام میں پائی جانے والی شاندار اُمید کے بارے میں سکھاتے ہیں اسی طرح وہ مستقبل میں ٹوماس کو بھی سکھانا چاہتے ہیں۔‏

واقعی،‏ خدا کا کلام لوگوں میں تبدیلیاں لانے کی قوت رکھتا ہے!‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 24 نام بدل دئے گئے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۶ پر تصویر]‏

انسانی جسم ایک معجزے سے کم نہیں

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

‏,Anatomy Improved and Illustrated

London, 1723, Bernardino Genga