مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اپنی مسیحی شناخت کو تھامے رکھیں

اپنی مسیحی شناخت کو تھامے رکھیں

اپنی مسیحی شناخت کو تھامے رکھیں

‏”‏[‏یہوواہ]‏ فرماتا ہے تُم میرے گواہ ہو۔‏“‏—‏یسعیاہ ۴۳:‏۱۰‏۔‏

۱.‏ یہوواہ کس قسم کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے؟‏

کیا آپ نے کبھی غور کِیا ہے کہ یہوواہ خدا کی عبادت کرنے کیلئے کنگڈم ہال میں کس قسم کے لوگ جمع ہوتے ہیں؟‏ ان میں نوجوان شامل ہیں جو بائبل کی سچائیوں کو سمجھنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔‏ (‏زبور ۱۴۸:‏۱۲،‏ ۱۳‏)‏ ان میں خاندان کے سربراہ بھی شامل ہیں جو اپنے خاندان کیساتھ ملکر خدا کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‏ اسکے علاوہ کنگڈم ہال میں بہتیرے عمررسیدہ لوگ بھی حاضر ہوتے ہیں جو بڑھاپے کی کمزوریوں کے باوجود خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔‏ (‏امثال ۱۶:‏۳۱‏)‏ یہ تمام لوگ یہوواہ خدا سے گہری محبت رکھتے ہیں اور یہوواہ ان سے بہت خوش ہے۔‏ اسلئے اُس نے اُنہیں اپنی طرف کھینچ لیا ہے۔‏ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ ”‏کوئی میرے پاس نہیں آسکتا جبتک باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اسے کھینچ نہ لے۔‏“‏—‏یوحنا ۶:‏۳۷،‏ ۴۴،‏ ۶۵‏۔‏

۲،‏ ۳.‏ مسیحی ہونے پر فخر کرنا ہمیشہ آسان کیوں نہیں ہوتا؟‏

۲ ہم ایک ایسے بھائی‌چارے کا حصہ ہونے پر فخر کرتے ہیں جس سے یہوواہ خدا خوش ہے۔‏ لیکن مسیحی ہونے پر فخر کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا کیونکہ ہم اخیر زمانہ کے ’‏بُرے دنوں‘‏ میں رہ رہے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱‏)‏ ایسا کرنا خاص طور پر اُن نوجوانوں کے لئے آسان نہیں ہوتا جنہوں نے مسیحی گھرانے میں پرورش پائی ہے۔‏ ایک نوجوان اس سلسلے میں کہتا ہے کہ ”‏مَیں مسیحی اجلاسوں پر جاتا تو تھا لیکن مجھے روحانی ترقی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور نہ ہی مَیں یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کی خواہش رکھتا تھا۔‏“‏

۳ کئی مسیحی یہوواہ کی خدمت تو کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ یا تو لوگوں کی باتوں میں آ جاتے ہیں یا پھر دُنیاوی سوچ اور اُنکی اپنی غلط خواہشات اُنہیں ایسا کرنے سے روک دیتی ہیں۔‏ اس قسم کے دباؤ میں پڑ کر وہ مسیحی ہونے پر فخر کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر ایک دُنیاوی سوچ یہ ہے کہ خدا کے کلام میں جو معیار پائے جاتے ہیں،‏ اس جدید دَور میں ان پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۴:‏۴‏)‏ ایک اَور دُنیاوی سوچ یہ ہے کہ ہر کوئی خدا کی عبادت اپنی من‌مانی کے مطابق کر سکتا ہے۔‏ (‏یوحنا ۴:‏۲۴‏)‏ پولس افسیوں کے نام اپنے خط میں دُنیا کی ”‏روح“‏ یعنی اندرونی خواہش کا ذکر کرتا ہے۔‏ (‏افسیوں ۲:‏۲‏)‏ اس روح کا ہم پر اتنا اثر ہو سکتا ہے کہ ہم دُنیاوی سوچ اور روش کو اپنانے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔‏

۴.‏ یسوع نے مسیحی پوشاک کی حفاظت کرنے کی اہمیت کیسے بیان کی؟‏

۴ ہم نے یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کا وعدہ کِیا ہے۔‏ وہی مقرر کرتا ہے کہ مسیحی ہونے میں کیا کچھ شامل ہے۔‏ ہم خدا کی صورت یا شبِیہ پر بنائے گئے ہیں لہٰذا ہماری شناخت اُسکے معیاروں پر عمل کرنے سے ہوتی ہے۔‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۶؛‏ میکاہ ۶:‏۸‏)‏ بائبل کے مطابق ہماری پہچان ایک لباس یا پوشاک کی مانند ہے جسے ہم پہنتے ہیں اور جسے ہر کوئی دیکھ سکتا ہے۔‏ یسوع نے اس پوشاک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏دیکھو مَیں چور کی طرح آتا ہوں۔‏ مبارک وہ ہے جو جاگتا ہے اور اپنی پوشاک کی حفاظت کرتا ہے تاکہ ننگا نہ پھرے اور لوگ اسکی برہنگی نہ دیکھیں۔‏“‏  * (‏مکاشفہ ۱۶:‏۱۵‏)‏ ہمارا مسیحی لباس ان خوبیوں اور معیاروں پر مشتمل ہے جنہیں ہم خدا کے کلام میں پاتے ہیں۔‏ اگر ہم شیطان کی دُنیا کی سوچ کو اپنانے لگیں تو یہ بالکل ایسا ہوگا جیسا کہ ہم اپنی ”‏پوشاک“‏ اُتار پھینک کر ننگے پھر رہے ہوں۔‏ یہ ہمارے لئے کتنی شرم‌ناک بات ہوگی!‏

۵،‏ ۶.‏ مسیحی ہونے پر فخر کرنا اتنا اہم کیوں ہے؟‏

۵ جب ہم مسیحی ہونے پر فخر کرتے ہیں تو یہ ہمارے چال‌چلن سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔‏ لیکن اگر ہم مسیحی ہونے پر فخر کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو ہماری زندگی میں کوئی منزل اور مقصد نہیں رہتا۔‏ اور یہ بات ہمارے چال‌چلن سے بھی ظاہر ہونے لگتی ہے۔‏ ہماری حالت اُس شخص کی مانند ہو جاتی ہے جسکے بارے میں یعقوب کہتا ہے:‏ ”‏شک کرنے والا سمندر کی لہر کی مانند ہوتا ہے جو ہوا سے بہتی اور اُچھلتی ہے۔‏ ایسا آدمی یہ نہ سمجھے کہ مجھے [‏یہوواہ]‏ سے کچھ ملیگا۔‏ وہ شخص دودِلا ہے اور اپنی سب باتوں میں بےقیام۔‏“‏—‏یعقوب ۱:‏۶-‏۸؛‏ افسیوں ۴:‏۱۴؛‏ عبرانیوں ۱۳:‏۹‏۔‏

۶ ہمیں کائنات کے خالق یہوواہ کے خادم ہونے اور اُسکے نام سے پکارے جانے کا شرف حاصل ہے۔‏ ہم اس شرف کیلئے اپنی شکرگزاری کیسے بڑھا سکتے ہیں؟‏ آئیے ہم اس پر غور کرتے ہیں۔‏

مسیحی ہونے کے جذبے کو مضبوط بنائیں

۷.‏ ہمیں یہوواہ سے درخواست کیوں کرنی چاہئے کہ وہ ہمارے دل‌ودماغ کو جانچے؟‏

۷ یہ جانچتے رہیں کہ آپ یہوواہ کے کتنے قریب ہیں۔‏ مسیحی اپنے خالق کے قریب ہونے کو دُنیا کی ہر دولت اور ہر رشتے سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔‏ (‏زبور ۲۵:‏۱۴؛‏ امثال ۳:‏۳۲‏)‏ اسلئے اگر ہم شک‌وشبہات کا شکار ہونے لگتے ہیں تو ہمیں اس بات کا اندازہ لگانا چاہئے کہ یہوواہ کیساتھ ہمارا رشتہ کتنا مضبوط ہے۔‏ زبورنویس نے مِنت مانگی کہ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏!‏ مجھے جانچ اور آزما۔‏ میرے دل‌ودماغ کو پرکھ۔‏“‏ (‏زبور ۲۶:‏۲‏)‏ ہمیں بھی یہوواہ خدا سے ایسی ہی درخواست کرنی چاہئے۔‏ یہ بہت اہم ہے کیونکہ ہمارا دل ہمیں دھوکا دے سکتا ہے۔‏ صرف اور صرف یہوواہ خدا ہی ہمارے دل کی باتوں،‏ خیالات،‏ جذبات اور خواہشات کو صحیح معنوں میں جانچ سکتا ہے۔‏—‏یرمیاہ ۱۷:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

۸.‏ (‏ا)‏ جب یہوواہ خدا ہمیں پرکھتا ہے تو اسکا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟‏ (‏ب)‏ آپکی روحانیت کو بڑھانے میں آپکی مدد کیسے کی گئی ہے؟‏

۸ خدا ہمیں کیسے جانچتا ہے؟‏ وہ کبھی‌کبھار ہمیں ایسی صورتحال میں پڑنے دیتا ہے جس سے ہمارے خیالات اور دل کے ارادے ظاہر ہو جاتے ہیں۔‏ (‏عبرانیوں ۴:‏۱۲،‏ ۱۳؛‏ یعقوب ۱:‏۲۲-‏۲۵‏)‏ ہمیں ان آزمائشوں میں پڑ کر کڑھنے کی بجائے خوش ہونا چاہئے کیونکہ انہی کے ذریعے ہم یہوواہ کو اپنی وفاداری کا ثبوت پیش کر سکتے ہیں۔‏ جی‌ہاں،‏ کٹھن دَور سے گزرتے وقت ہم دکھا سکتے ہیں کہ ہم ”‏پورے اور کامل“‏ بن گئے ہیں اور ہم میں ”‏کسی بات کی کمی“‏ نہیں رہی۔‏ (‏یعقوب ۱:‏۲-‏۴‏)‏ اسکے علاوہ آزمائشوں پر پورا اُترنے سے ہماری روحانیت بھی بڑھ جاتی ہے۔‏—‏افسیوں ۴:‏۲۲-‏۲۴‏۔‏

۹.‏ بائبل کی سچائیوں میں اپنے ایمان کو مضبوط بنانا ہمارے لئے لازمی کیوں ہے؟‏

۹ بائبل کی سچائیوں میں اپنے ایمان کو مضبوط بنائیں۔‏ اگر ہم صحیفوں سے اچھی طرح سے واقف نہیں ہیں تو ہم میں مسیحی ہونے کا جذبہ کمزور پڑ سکتا ہے۔‏ (‏فلپیوں ۱:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ اسلئے ہر مسیحی کو آزمانا چاہئے کہ جن باتوں میں وہ ایمان رکھتا ہے وہ واقعی بائبل میں پائی جاتی ہیں یا نہیں۔‏ پولس رسول اس بات پر زور دیتے ہوئے کہتا ہے:‏ ”‏سب باتوں کو آزماؤ جو اچھی ہو اُسے پکڑے رہو۔‏“‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۲۱‏)‏ جوان مسیحی جنکے والدین بھی مسیحی ہیں،‏ اُنکو جان لینا چاہئے کہ وہ اپنے والدین کے ایمان کی بِنا پر نجات نہیں حاصل کر سکتے ہیں۔‏ بادشاہ سلیمان کے باپ داؤد نے اُسے تاکید کی کہ ”‏اپنے باپ کے خدا کو پہچان اور پورے دل .‏ .‏ .‏ سے اُسکی عبادت کر۔‏“‏ (‏۱-‏تواریخ ۲۸:‏۹‏)‏ سلیمان کو اس بات پر تکیہ کرنے میں کوئی فائدہ نہیں تھا کہ میرے باپ کو خدا کی قربت حاصل ہے۔‏ اسکی بجائے یہ لازمی تھا کہ وہ خود یہوواہ کو جاننے اور اُسکے قریب ہونے کی کوشش کرے۔‏ لہٰذا سلیمان نے یہوواہ سے یوں التجا کی:‏ ”‏مجھے حکمت‌ومعرفت عنایت کر تاکہ مَیں اِن لوگوں کے آگے اندر باہر آیا جایا کروں۔‏“‏—‏۲-‏تواریخ ۱:‏۱۰‏۔‏

۱۰.‏ خدا کے کلام کے بارے میں سوال اُٹھانا غلط کیوں نہیں؟‏

۱۰ ہم یہوواہ خدا کے بارے میں جتنا جانینگے اتنا ہی ہمارا ایمان بھی مضبوط ہو جائیگا۔‏ پولس نے کہا کہ ”‏ایمان سننے سے پیدا ہوتا ہے۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۰:‏۱۷‏)‏ اسکا مطلب ہے کہ خدا کے کلام پر غور کرنے سے یہوواہ خدا پر،‏ اسکے وعدوں پر اور اُسکی تنظیم پر ہمارا ایمان بڑھیگا۔‏ اگر ہمیں بائبل کی ایک تعلیم سمجھ میں نہیں آتی ہے تو ہم اس پر تحقیق کر سکتے ہیں۔‏ رومیوں ۱۲:‏۲ میں پولس ہمیں نصیحت کرتا ہے کہ ”‏خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تجربہ سے معلوم کرتے رہو۔‏“‏ ایسا کرنے سے ہم بائبل میں پائی جانے والی سچائی یا ”‏حق کی پہچان“‏ تک پہنچ سکتے ہیں۔‏ (‏ططس ۱:‏۱‏)‏ یہوواہ خدا کی پاک روح ہمیں اُسکے کلام کی پیچیدگیوں کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ اسکے علاوہ ہم یہوواہ خدا سے درخواست کر سکتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے کلام کو سمجھنے میں مدد دے۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۱۰،‏ ۱۱،‏ ۲۷‏)‏ یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم اسکے کلام کو سمجھیں،‏ اس پر یقین کریں اور اُس پر عمل بھی کریں۔‏ لہٰذا جب ہم خدا کے کلام کو سمجھنے کیلئے سوال اُٹھاتے ہیں اور پھر انکا جواب تلاش کرنے میں اُسکی مدد مانگتے ہیں تو وہ خوش ہوتا ہے۔‏

دباؤ کے باوجود بھی خدا کے وفادار رہیں

۱۱.‏ (‏ا)‏ کونسی خواہش ہمارے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم کس کی مدد سے بُری صحبت میں پڑنے کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟‏

۱۱ لوگوں کو خوش کرنے کی بجائے خدا کو خوش کریں۔‏ جب لوگ ہمیں اپنی محفل میں شامل کرتے ہیں تو ہمیں خوشی ہوتی ہے۔‏ خاص طور پر جوانی کے دَور میں دوستوں میں مقبول ہونے کی خواہش زور پکڑتی ہے۔‏ لہٰذا اکثر نوجوان اپنے دوستوں کے جیسے ہونے اور اُنہیں خوش کرنے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔‏ لیکن ایسے دوست ہمیشہ ہماری خوشحالی نہیں چاہتے۔‏ کبھی‌کبھار وہ صرف اسلئے ہم سے دوستی کرتے ہیں تاکہ ہم بُری حرکتیں کرنے میں اُن کا ساتھ دیں۔‏ (‏امثال ۱:‏۱۱-‏۱۹‏)‏ جب ایک مسیحی بُری صحبت میں پڑ جاتا ہے تو وہ یہ نہیں چاہتا کہ اُس کے دوست جان لیں کہ وہ ایک مسیحی ہے۔‏ (‏زبور ۲۶:‏۴‏)‏ پولس رسول ہمیں آگاہی دیتا ہے کہ ”‏اس جہان کے ہمشکل نہ بنو۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۲‏)‏ یہوواہ خدا ہمیں طاقت فراہم کرتا ہے تاکہ ہم ایسی صحبت میں پڑنے کا مقابلہ کر سکیں۔‏—‏عبرانیوں ۱۳:‏۶‏۔‏

۱۲.‏ جب دُنیا ہم پر اُسکے ہمشکل بننے کیلئے دباؤ ڈالتی ہے تو ہمیں کس اصول پر عمل کرنا چاہئے؟‏

۱۲ جب دُنیا ہم پر اُسکے ہمشکل بننے کیلئے دباؤ ڈالتی ہے تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ لوگوں کو خوش کرنے سے کہیں زیادہ اہم یہوواہ کا وفادار رہنا ہوتا ہے۔‏ ایسی صورتحال میں ہمیں خروج ۲۳:‏۲ میں پائے جانے والے اصول پر عمل کرنا چاہئے،‏ جہاں لکھا ہے:‏ ”‏بُرائی کرنے کیلئے کسی بِھیڑ کی پیروی نہ کرنا۔‏“‏ اِس سلسلے میں کالب کی مثال پر غور کریں۔‏ جب زیادہ‌تر اسرائیلی یہ سوچنے لگے کہ یہوواہ اُنہیں ملکِ‌موعود میں لے جانے کی طاقت نہیں رکھتا تو کالب نے اُنکی ہاں میں ہاں نہ ملائی۔‏ سخت دباؤ کا سامنا کرنے کے باوجود کالب یہوواہ کا وفادار رہا۔‏ اُسے پورا یقین تھا کہ یہوواہ خدا جس بات کا وعدہ کرتا ہے اُسے پورا بھی کریگا۔‏ اور یہوواہ نے کالب کو اُسکی وفاداری کیلئے بہت بڑا انعام دیا۔‏ (‏گنتی ۱۳:‏۳۰؛‏ یشوع ۱۴:‏۶-‏۱۱‏)‏ کیا آپ بھی لوگوں میں مقبولیت حاصل کرنے کی بجائے خدا کے وفادار رہینگے؟‏

۱۳.‏ ہمیں لوگوں سے اپنی شناخت کیوں نہیں چھپانی چاہئے؟‏

۱۳ لوگوں سے یہ بات چھپا کر نہ رکھیں کہ آپ یہوواہ کے ایک گواہ ہیں۔‏ جب لوگ آپکی شناخت سے واقف ہونگے تو آپکے لئے اپنے ایمان پر قائم رہنے میں آسانی ہو جائیگی۔‏ عزرا نبی کے دَور میں جب اسرائیلیوں پر خدا کی مرضی کی خلافورزی کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جا رہا تھا تو اُنہوں نے دلیری سے کہا:‏ ”‏ہم زمین‌وآسمان کے خدا کے بندے ہیں۔‏“‏ (‏عزرا ۵:‏۱۱‏)‏ کئی مسیحی اس خوف میں کہ لوگ اُنکو طعنے دینگے یا اُنہیں اذیت پہنچائینگے اپنی شناخت چھپائے رکھتے ہیں۔‏ اُنکو یہ ڈر ستائے جاتا ہے کہ جب لوگ اُنکی شناخت کو جان جائینگے تو وہ اُن سے مُنہ موڑ لینگے۔‏ لیکن ایسا کرنے سے ہم خوف کی گرفت میں آ جاتے ہیں۔‏ اسلئے خوفزدہ ہونے کی بجائے ہمیں لوگوں کو کھلم‌کُھلا بتا دینا چاہئے کہ ہم یہوواہ کے گواہ ہیں۔‏ ہمیں نرمی سے انہیں اپنے عقیدوں،‏ ایمان اور معیاروں کے بارے میں بتانا چاہئے۔‏ لیکن اسکے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی واضح کرنا چاہئے کہ یہوواہ خدا کے اخلاقی معیاروں پر چلنے کا ہمارا فیصلہ اٹل ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ لوگوں کو دکھائیں کہ آپکو اس بات پر فخر ہے کہ آپ اپنی زندگی خدا کے معیاروں کے مطابق ڈھال رہے ہیں۔‏ (‏زبور ۶۴:‏۱۰‏)‏ جب لوگ یہ جان جائینگے کہ آپ مسیحی کے طور پر اپنی راستی برقرار رکھینگے تو ہو سکتا ہے کہ وہ یہوواہ اور اُسکی تنظیم کے بارے میں مزید جاننے کی خواہش کا اظہار کریں۔‏ ایسا رویہ اختیار کرنے سے آپکا ایمان بڑھیگا اور آپکی روحانیت محفوظ رہیگی۔‏

۱۴.‏ جب لوگ ہماری مخالفت کرتے ہیں تو ہمیں ہمت کیوں نہیں ہارنی چاہئے؟‏

۱۴ ہو سکتا ہے کہ کئی لوگ اس رویہ کی وجہ سے آپکا مذاق اُڑانے لگیں یا آپکی مخالفت کرنے لگیں۔‏ (‏یہوداہ ۱۸‏)‏ جب آپ اُنہیں اپنے ایمان اور معیاروں کے بارے میں بتانے کی کوشش کرتے ہیں تو شاید وہ آپکی نہ سنیں۔‏ ایسی صورتحال میں ہمت نہ ہاریں۔‏ (‏حزقی‌ایل ۳:‏۷،‏ ۸‏)‏ اگر ایک شخص خدا میں ایمان نہیں لانا چاہتا تو وہ آپکی تمام کوششوں کے باوجود ایسا نہیں کریگا۔‏ مصر کے بادشاہ فرعون کی مثال لیجئے۔‏ مصر پر کتنی آفتیں آئیں،‏ موسیٰ نے کتنے معجزے کر دِکھائے،‏ یہاں تک کہ فرعون کو اپنے پہلوٹھے سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔‏ اسکے باوجود اُس نے موسیٰ کو یہوواہ کے نبی کے طور پر قبول نہیں کِیا۔‏ لہٰذا انسان سے ڈرنے کی بجائے یہوواہ پر توکل کریں۔‏ ایسا کرنے سے ہم ہر قسم کے خوف پر غالب آ سکتے ہیں۔‏—‏امثال ۳:‏۵،‏ ۶؛‏ ۲۹:‏۲۵‏۔‏

خدا کی برکتوں کو قیمتی جانیں

۱۵،‏ ۱۶.‏ (‏ا)‏ خدا نے ہمیں کن برکتوں سے نوازا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں ان پر غور کیوں کرنا چاہئے؟‏

۱۵ خدا کی برکتوں کی قدر کریں۔‏ خدا کے کلام کو پڑھتے ہوئے ہمیں ان تمام روایتوں اور برکتوں پر بھی غور کرنا چاہئے جن سے ہمیں نوازا گیا ہے۔‏ ان برکتوں میں یہوواہ کے کلام کی سچائیاں اور ہمیشہ کی زندگی کی اُمید شامل ہے اور ہمیں لوگوں تک بادشاہت کی خوشخبری پہنچانے کا شرف بھی حاصل ہے۔‏ ہمارا شمار اُن لوگوں میں ہے جنکے بارے میں یہوواہ خدا ہی نے کہا تھا کہ ”‏تُم میرے گواہ ہو۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۴۳:‏۱۰‏)‏ کیا آپ اِس بات پر فخر کرتے ہیں؟‏

۱۶ آپ خود سے یہ سوال کر سکتے ہیں:‏ ’‏مَیں خدا کی برکتوں کو کتنا قیمتی خیال کرتا ہوں؟‏ کیا میں اِنکی خاطر خدا کی مرضی بجا لانے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہوں؟‏ کیا مَیں ہر اُس آزمائش کا مقابلہ کرنے کو تیار ہوں جسکی وجہ سے مَیں ان برکتوں کو کھونے کے خطرے میں ہوں؟‏‘‏ ایسی نعمتیں ہمیں صرف یہوواہ کی تنظیم ہی کے ذریعے مل سکتی ہیں۔‏ یہ تنظیم ایک پردے کی طرح ہے جسکے پیچھے رہ کر ہم روحانی طور پر محفوظ رہینگے۔‏ (‏زبور ۹۱:‏۱،‏ ۲‏)‏ غور کریں کہ خدا نے جدید زمانے میں اپنے گواہوں کی کیسے مدد کی۔‏ ایسا کرنے سے ہمیں یقین ہو جائیگا کہ دُنیا کی کوئی طاقت یہوواہ کے بندوں کو ختم نہیں کر سکتی۔‏—‏یسعیاہ ۵۴:‏۱۷؛‏ یرمیاہ ۱:‏۱۹‏۔‏

۱۷.‏ خدا کی برکتوں کیلئے شکرگزار ہونے کے علاوہ ہر ایک مسیحی کو کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۷ لیکن ان برکتوں کیلئے شکرگزار ہونا کافی نہیں۔‏ اسکے علاوہ ہم میں سے ہر ایک کو ذاتی طور پر خدا کے قریب ہونے کی ضرورت بھی ہے۔‏ پولس نے فلپی کے مسیحیوں کے ایمان کو مضبوط کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔‏ لیکن وہ جانتا تھا کہ مسیحی کسی اَور کی کوششوں کے بل‌بوتے پر نجات حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔‏ اسلئے اُس نے فلپی کے مسیحیوں کو لکھا:‏ ”‏پس اَے میرے عزیزو!‏ جسطرح تُم ہمیشہ سے فرمانبرداری کرتے آئے ہو اُسی طرح اب بھی نہ صرف میری حاضری میں بلکہ اس سے بہت زیادہ میری غیرحاضری میں ڈرتے اور کانپتے ہوئے اپنی نجات کے کام کئے جاؤ۔‏“‏—‏فلپیوں ۲:‏۱۲‏۔‏

۱۸.‏ نیک کام کرنے سے ہم میں مسیحی ہونے کا احساس کیوں بڑھتا ہے؟‏

۱۸ ایسے کاموں میں مصروف رہیں جن سے خدا خوش ہوتا ہے۔‏ کہا گیا ہے کہ ”‏انسان کی پہچان اُس کام سے ہوتی ہے جس میں وہ مشغول رہتا ہے۔‏“‏ مسیحیوں کو خدا کی بادشاہت کی خوشخبری سنانے کی ذمہ‌داری سونپی گئی ہے۔‏ پولس رسول نے اس سلسلے میں کہا:‏ ”‏چونکہ مَیں غیرقوموں کا رسول ہوں اسلئے اپنی خدمت کی بڑائی کرتا ہوں۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۱:‏۱۳‏)‏ جب ہم مُنادی کے کام میں مشغول رہتے ہیں تو سب پر ظاہر ہو جاتا ہے کہ ہم دُنیا سے الگ ہیں۔‏ اِس کام سے ہماری شناخت بھی کی جاتی ہے۔‏ اسکے علاوہ ہمیں دوسرے نیک کاموں میں بھی مشغول رہنا چاہئے مثلاً مسیحی اجلاسوں میں شرکت کرنا،‏ عبادت‌گاہوں کو تعمیر کرنا اور حاجتمندوں کی مدد کرنا وغیرہ۔‏ ایسے نیک کاموں میں مشغول رہنے سے ہم میں مسیحی ہونے کا احساس بڑھتا ہے۔‏—‏گلتیوں ۶:‏۹،‏ ۱۰؛‏ عبرانیوں ۱۰:‏۲۳،‏ ۲۴‏۔‏

خدا کی محبت سے ہماری پہچان ہے

۱۹،‏ ۲۰.‏ (‏ا)‏ مسیحی ہونے کی وجہ سے آپ نے کونسی برکتوں سے لطف اُٹھایا ہے؟‏ (‏ب)‏ مسیحیوں کے طور پر ہم اپنی پہچان کو کیسے جان سکتے ہیں؟‏

۱۹ ذرا سوچیں کہ خدا نے سچے مسیحیوں کو کن کن برکتوں سے نوازا ہے۔‏ یہوواہ نے ہمیں اپنے بندوں کے طور پر قبول کِیا ہے۔‏ اس سے بڑا شرف بھلا کونسا ہو سکتا ہے؟‏ ملاکی نبی نے کہا تھا:‏ ”‏تب خداترسوں نے آپس میں گفتگو کی اور [‏یہوواہ]‏ نے متوجہ ہو کر سنا اور اُنکے لئے جو [‏یہوواہ]‏ سے ڈرتے اور اُسکے نام کو یاد کرتے تھے اُسکے حضور یادگار کا دفتر لکھا گیا۔‏“‏ (‏ملاکی ۳:‏۱۶‏)‏ خدا ہمیں اپنے دوستوں کے طور پر بھی قبول کرنے کو تیار ہے۔‏ (‏یعقوب ۲:‏۲۳‏)‏ ہماری زندگی بامقصد ہے اور ہم اپنی منزل کو جانتے ہیں۔‏ اسکے علاوہ ہم ہمیشہ کی زندگی کی اُمید بھی رکھتے ہیں۔‏—‏زبور ۳۷:‏۹‏۔‏

۲۰ ہماری قدروقیمت کیا ہے،‏ اس بات کا فیصلہ انسان نہیں بلکہ صرف خدا ہی کر سکتا ہے۔‏ وہ ہم سے گہری محبت رکھتا ہے اور اسی سے ہماری قدروقیمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‏ خدا نے ہمیں اپنے خادم ہونے کا شرف عطا کِیا ہے۔‏ اُسے ہم میں سے ہر ایک کی پرواہ ہے۔‏ (‏متی ۱۰:‏۲۹-‏۳۱‏)‏ جب ہم خدا سے محبت رکھتے ہیں تو زندگی کی راہ پر ہمیں اُسکی راہنمائی حاصل ہوتی ہے۔‏ اس محبت کی روشنی میں ہم اپنی پہچان کو اچھی طرح سے سمجھ جاتے ہیں۔‏ واقعی ”‏جو خدا سے محبت رکھتا ہے اُسکو خدا پہچانتا ہے۔‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۸:‏۳‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 4 ہو سکتا ہے کہ یسوع ہیکل کے آفسر کی ذمہ‌داریوں کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔‏ آفسر رات کو یہ دیکھنے کیلئے ہیکل کے کئی چکر لگاتا تھا کہ کیا تمام چوکیدار پہرا دے رہے ہیں یا اُن میں سے کوئی سو گیا ہے۔‏ اگر کوئی چوکیدار سوتا پکڑا جاتا تو اُسے لاٹھی سے مارا جاتا اور اُسکی پوشاک کو جلا دیا جاتا جو اُسکے لئے بڑی شرمندگی کا باعث ہوتا۔‏

کیا آپکو یاد ہے؟‏

‏• مسیحیوں کیلئے اپنی شناخت پر فخر کرنا کیوں مشکل ہو سکتا ہے لیکن ایسا کرنا اہم کیوں ہے؟‏

‏• مسیحی ہونے کے اصلی مطلب کو سمجھنے کیلئے ہم کونسے اقدام اُٹھا سکتے ہیں؟‏

‏• دباؤ کا سامنا کرتے وقت آپ خدا کے وفادار کیسے رہ سکتے ہیں؟‏

‏• مسیحی ہونے پر فخر کرنے سے ہماری زندگی پر کیا اثر پڑیگا؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویر]‏

نیک کام کرنے سے ہم میں مسیحی ہونے کا احساس بڑھتا ہے