مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏جب کوئی تجھے بیگار میں لے جائے‘‏

‏’‏جب کوئی تجھے بیگار میں لے جائے‘‏

‏’‏جب کوئی تجھے بیگار میں لے جائے‘‏

پہلی صدی کی بات ہے کہ ایک یہودی آدمی اپنے کام‌کاج میں مصروف ہے۔‏ اچانک ایک رومی سپاہی اُس سے کہتا ہے:‏ ”‏ارے بھئی!‏ اِدھر آؤ!‏ چلو،‏ اِس ٹوکری کو اُٹھاؤ اور میرے ساتھ چل دو!‏“‏ اُس یہودی کو یہ حکم کیسا لگا ہوگا؟‏ یسوع مسیح نے ایسی صورتحال کیلئے یوں مشورہ دیا:‏ ”‏جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے اُسکے ساتھ دو کوس چلا جا۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۴۱‏)‏ یسوع اس آیت میں کس دستور کی طرف اشارہ کر رہا تھا؟‏ اور ہم اُسکے مشورے پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

لوگوں سے بیگار میں کام لینے کا دستور یسوع مسیح کے زمانے میں عام تھا۔‏ آئیں،‏ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دستور کیسے وجود میں آیا۔‏

بیگار میں کام لینے کا دستور

اس دستور کا پہلا ذکر تقریباً ۷۰۰،‏۳ سال پہلے ہوا تھا۔‏ مُلک شام کے قدیم شہر اَلا لاخ کے کھنڈرات میں ایسی سرکاری تحریریں ملی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کو حاکموں کی خدمت کرنے پر مجبور کِیا جاتا تھا اور اُنکو اس کام کیلئے کوئی مزدوری نہیں دی جاتی تھی۔‏ شام کے قدیم شہر اُوگاریت میں کسانوں کو اسی قسم کی خدمت کرنی پڑتی تھی۔‏ صرف بادشاہ ہی انکو اس خدمت سے چھڑا سکتا تھا۔‏

عام طور پر ایک مُلک کا حکمران ایسے غیرقومیوں کو غلام بناتا جن پر اُس نے فتح پائی ہوتی یا جو اسکے تابعدار ہوتے۔‏ مثال کے طور پر مصریوں نے بنی‌اسرائیل کو غلام بنا کر اُنہیں اِینٹ بنانے پر لگایا۔‏ چند صدیوں بعد جب بنی‌اسرائیل نے مُلکِ‌موعود پر قبضہ جما لیا تو اُنہوں نے وہاں کے رہنے والے کنعانیوں کو بیگار میں لگایا۔‏ اسکے بعد بادشاہ داؤد اور بادشاہ سلیمان نے بھی اپنے دُشمنوں کو غلام بنا کر اُن سے کام لیا۔‏—‏خروج ۱:‏۱۳،‏ ۱۴؛‏ ۲-‏سموئیل ۱۲:‏۳۱؛‏ ۱-‏سلاطین ۹:‏۲۰،‏ ۲۱‏۔‏

جب بنی‌اسرائیل نے سموئیل نبی سے اُن پر ایک بادشاہ مقرر کرنے کی درخواست کی تو اُس نے اُنکو آگاہ کِیا کہ بادشاہ اُن سے طرح طرح کے کام لیگا۔‏ مثلاً اُنکو بادشاہ کے رتھوں کے آگے آگے دوڑنا،‏ اسکے کھیتوں پر ہل چلانا اور اُسکی فصل کاٹنی ہوگی۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۸:‏۴-‏۱۷‏)‏ جب بادشاہ سلیمان یہوواہ خدا کیلئے ایک ہیکل بنا رہا تھا تو اُس نے غیرقوموں کے لوگوں کو غلام بنا کر انہیں بیگار میں لگایا۔‏ لیکن دلچسپی کی بات ہے کہ ”‏سلیماؔن نے بنی‌اسرائیل میں سے کسی کو غلام نہ بنایا بلکہ وہ اسکے جنگی مرد اور ملازم اور اُمرا اور فوجی سردار اور اسکے رتھوں اور سواروں کے حاکم تھے۔‏“‏—‏۱-‏سلاطین ۹:‏۲۲‏۔‏

اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہیکل کی تعمیر میں اسرائیلیوں کو بیگار کام نہیں کرنا پڑا تھا۔‏ ۱-‏سلاطین ۵:‏۱۳،‏ ۱۴ میں یوں بیان کِیا گیا ہے:‏ ”‏سلیماؔن بادشاہ نے سارے اؔسرائیل میں سے بیگاری لگائے۔‏ وہ بیگاری تیس ہزار آدمی تھے۔‏ اور وہ ہر مہینہ اُن میں دس دس ہزار کو باری باری سے لبناؔن بھیجتا تھا۔‏ سو وہ ایک مہینہ لبناؔن پر اور دو مہینے اپنے گھر رہتے۔‏“‏ اس سلسلے میں ایک عالم کا کہنا ہے کہ ”‏اسرائیل اور یہوداہ کے بادشاہ اکثر اپنی رعایا کو بیگار میں لگا کر بڑی عمارتیں بنواتے اور اپنے کھیتوں پر کام کرواتے تھے۔‏“‏

اس وجہ سے بادشاہ سلیمان کا دورِحکومت لوگوں پر بڑا ناگوار گزرا۔‏ جب سلیمان کے بیٹے رحبعام نے تخت سنبھالا تو وہ لوگوں سے اَور بھی کام بیگار میں لینا چاہتا تھا۔‏ نتیجتاً اسرائیل کے دس قبیلوں نے بغاوت کرکے بیگاریوں کے نگران کو سنگسار کر دیا۔‏ (‏۱-‏سلاطین ۱۲:‏۱۲-‏۱۸‏)‏ پھربھی بیگار میں کام لینے کا دستور جاری رہا۔‏ جب رحبعام کے پوتے آسا نے جبع اور مصفاہ کے شہروں کو تعمیر کرنا چاہا تو اُس نے اس کام پر یہوداہ کے لوگوں کو بیگار میں لگایا۔‏ ان میں سے ”‏کوئی معذور نہ رکھا گیا“‏ یعنی سب اس کام میں حصہ لینے پر مجبور کئے گئے۔‏—‏۱-‏سلاطین ۱۵:‏۲۲‏۔‏

رومی سلطنت کے دَور میں

پہلی صدی میں اسرائیل کے علاقے پر رومی حکومت اپنا رُعب جما رہی تھی۔‏ متی ۵:‏۴۱ میں یسوع مسیح کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ یہودیوں کو کسی بھی وقت ’‏بیگار میں‘‏ لیا جا سکتا تھا۔‏ یسوع نے اس آیت میں ایک یونانی لفظ کو استعمال کِیا جو فارسیوں کے ایک دستور کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‏ اس دستور کے مطابق ایک فارسی پیامبر اپنے پیغام کو جلد از جلد پہنچانے کیلئے کسی بھی شخص کو اپنی خدمت پر لگا سکتا تھا اور وہ گھوڑوں،‏ سمندری جہازوں اور رتھوں کو بھی ضبط کر سکتا تھا۔‏

رومی حکومت نے اپنے مشرقی صوبوں میں ایک ایسا ہی دستور جاری کِیا۔‏ ٹیکس ادا کرنے کے علاوہ لوگوں کو حکومت کیلئے بیگار میں کام بھی کرنا پڑتا تھا۔‏ لیکن رومی فوجی اکثر اپنے فائدے کیلئے بھی لوگوں کو بیگار میں لیتے یا جانوروں اور رتھوں کو ضبط کر لیتے تھے۔‏ ظاہری بات ہے کہ اس دستور کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں رومی فوج کیلئے نفرت اُبھرنے لگی۔‏ ایک تاریخ‌دان اسکے بارے میں یوں بیان کرتا ہے:‏ ”‏رومی سرکاری ملازموں نے بیگار کے ناجائز استعمال کو روکنے کی بھرپور کوشش کی۔‏ وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ عام لوگوں پر سختی کی جائے اور اُنکو اس دستور کی وجہ سے دقت ہو۔‏ اسلئے اُنہوں نے عام لوگوں کے تحفظ کیلئے لاتعداد قوانین جاری کئے۔‏ البتہ یہ ساری کوششیں ناکام رہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ لوگ اس دستور کے بوجھ تلے دبے جا رہے تھے۔‏“‏

یونانی زبان کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ ”‏فوج کا سامان اُٹھانے اور اسے کچھ فاصلے تک لے جانے پر کسی بھی شخص کو مجبور کِیا جا سکتا تھا۔‏ یہاں تک کہ رومیوں کی ہر خواہش پوری کرنے کیلئے کسی کو بھی بیگار میں لیا جا سکتا تھا۔‏“‏ مثال کے طور پر شمعون نامی ایک کُرینی آدمی کو یسوع کی سُولی اُٹھانے کیلئے ”‏بیگار میں پکڑا“‏ گیا تھا۔‏—‏متی ۲۷:‏۳۲‏۔‏

یہودیوں کے چند صحیفوں میں بھی بیگار کے دستور کا ذکر ہوا ہے۔‏ اسکی کچھ مثالوں پر غور کیجئے۔‏ یہودیوں کے ایک مذہبی اُستاد کو مہندی کی ایک گٹھڑی رومی صوبہ‌دار کے محل تک پہنچانے پر مجبور کِیا گیا۔‏ جب رومی فوجی کسی مزدور کو اپنی ملازمت سے اُڑا لیتے تو اس کے آجر کو پھربھی مزدوری ادا کرنی پڑتی حالانکہ یہ مزدور اب رومیوں کے لئے کام کر رہا تھا۔‏ اکثر اوقات بوجھ اُٹھانے والے جانوروں کو ضبط کر لیا جاتا۔‏ اگر اُنہیں واپس بھی کِیا جاتا تو وہ اتنی بُری حالت میں ہوتے کہ وہ کام کرنے کے قابل ہی نہ رہتے۔‏ اسلئے جو جانور ضبط کر لیا جاتا،‏ یہودیوں کی نظروں میں یہ جانور اُن سے چرایا جاتا۔‏ ایک تاریخ‌دان اس سلسلے میں یوں کہتا ہے:‏ ”‏فوج ہل چلانے والے بیلوں کو بھی ضبط کر لیتی تھی جبکہ یہ قانون کے خلاف تھا۔‏ ایسی حرکت ایک پورے گاؤں کی بربادی کا باعث بن سکتی تھی۔‏“‏ اسلئے یہودیوں میں یہ کہاوت مشہور تھی:‏ ”‏ضبط کرنے کا رواج قتل کے برابر ہی ہوتا ہے۔‏“‏

آپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ یہودیوں کو بیگار کے دستور سے کتنی نفرت تھی۔‏ انکو ویسے ہی رومیوں سے بڑی نفرت تھی۔‏ لیکن مجبوراً کام پر لگائے جانے پر وہ اَور بھی چڑتے تھے۔‏ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ قانون کے مطابق یہودیوں کو ایک بوجھ کو کتنی دُور تک اُٹھانے پر مجبور کِیا جا سکتا تھا۔‏ لیکن اتنا تو ضرور معلوم ہے کہ وہ اس مجبوری کے علاوہ رومیوں کیلئے ایک بھی قدم اُٹھانے کو تیار نہیں تھے۔‏

یسوع مسیح اس صورتحال سے خوب واقف تھا۔‏ پھربھی اُس نے کہا کہ ”‏جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے اُسکے ساتھ دو کوس چلا جا۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۴۱‏)‏ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ یسوع کے ان الفاظ سے متفق نہیں تھے۔‏ دراصل یسوع کیا کہنا چاہتا تھا؟‏

مسیحیوں کا ردِعمل

یسوع یہ کہنا چاہتا تھا کہ اگر کوئی اختیار والا اُسکے پیروکاروں سے قانون کے مطابق کوئی خدمت مانگے تو اُنہیں خوشی سے اِسکی مرضی پوری کرنی چاہئے۔‏ اُنکو ’‏جو قیصرؔ کا ہے قیصرؔ کو ادا کرنا‘‏ ہوگا۔‏ لیکن اسکے ساتھ ساتھ انکو ’‏جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرنے‘‏ کے حکم پر بھی عمل کرنا ہوگا۔‏—‏مرقس ۱۲:‏۱۷‏۔‏ *

پولس رسول نے بھی مسیحیوں کو یوں نصیحت کی:‏ ”‏ہر شخص اعلےٰ حکومتوں کا تابعدار رہے کیونکہ کوئی حکومت ایسی نہیں جو خدا کی طرف سے نہ ہو اور جو حکومتیں موجود ہیں وہ خدا کی طرف سے مقرر ہیں۔‏ پس جو کوئی حکومت کا سامنا کرتا ہے وہ خدا کے انتظام کا مخالف ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ اگر تُو بدی کرے تو ڈر کیونکہ وہ تلوار بےفائدہ لئے ہوئے نہیں۔‏“‏—‏رومیوں ۱۳:‏۱-‏۴‏۔‏

یسوع مسیح اور پولس رسول نے اس بات کو تسلیم کِیا تھا کہ حکومت ان لوگوں کو سزا دینے کا حق رکھتی ہے جو اُسکے حکموں کی خلاف‌ورزی کرتے ہیں۔‏ یہ کس قسم کی سزا ہو سکتی تھی؟‏ اس سلسلے میں پہلی اور دوسری صدی میں رہنے والا ایک یونانی فلاسفر یوں بیان کرتا ہے:‏ ”‏اگر فوجی تیرے گدھے کو ضبط کر لیتے ہیں تو اُنکو اسے لے جانے دے۔‏ انکی خلاف‌ورزی مت کر ورنہ وہ تجھ سے گدھا لینے کیساتھ ساتھ تجھے کوڑے بھی لگائینگے۔‏“‏

لیکن کبھی‌کبھار حکومت خدا کے خادموں کو ایسا کام کرنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے جو انکے ضمیر کے خلاف ہوتا ہے۔‏ اسکے نتیجے میں خدا کے بعض خادموں کو سزائےموت سنائی گئی ہے اور دوسروں کو کافی عرصہ تک قید کِیا گیا۔‏ مگر کیوں؟‏ کیونکہ اُنہوں نے ایسا کام کرنے سے انکار کر دیا جو خدا کے حکموں کے خلاف ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۲:‏۴؛‏ یوحنا ۱۷:‏۱۶؛‏ ۱۸:‏۳۶‏)‏ بعض ممالک میں حکومت لوگوں کو ایسے کام پر بھی لگاتی ہے جنکا فوجی انتظام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔‏ شاید اُن سے بوڑھوں اور معذوروں کی تیمارداری کرنے،‏ آگ بجھانے،‏ ساحل کو صاف رکھنے یا جنگلات اور پارکس میں کام کرنے کو کہا جائے۔‏ سچے مسیحیوں کا ضمیر اکثر اُنکو ایسے کاموں میں حصہ لینے کی اجازت دیتا ہے۔‏

ہر ایک مُلک کے الگ الگ قوانین ہوتے ہیں۔‏ اسلئے ہمیں خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم حکومت کے کہنے پر ایک ایسا کام کر سکتے ہیں یا نہیں۔‏ ہر مسیحی کو اپنے ضمیر کی آواز پر عمل کرنا چاہئے۔‏

‏”‏اُسکے ساتھ دو کوس چلا جا“‏

جو مشورہ یسوع نے متی ۵:‏۴۱ میں دیا ہے یہ ہمارے روزمرّہ کاموں میں بھی فائدہ‌مند ثابت ہو سکتا ہے۔‏ فرض کریں کہ کوئی بااختیار شخص آپکو ایک ایسا کام کرنے کو کہتا ہے جو خدا کے حکموں کے خلاف تو نہیں لیکن آپ اسے کرنا بھی نہیں چاہتے۔‏ ایسی صورتحال میں آپ کیا کرینگے؟‏ شاید آپ اُسکی درخواست پر بگڑ جائیں اور سوچنے لگیں کہ ’‏میرے پاس وقت نہیں۔‏ میرا اپنا کام زیادہ ضروری ہے۔‏‘‏ لیکن اگر آپ اِس شخص کی درخواست کو پورا نہیں کرینگے تو وہ ضرور آپ سے ناراض ہو جائیگا۔‏ اور اگر آپ بڑبڑاتے ہوئے اسے کرینگے تو آپکا اپنا دل بھاری ہوگا۔‏ اس سے بہتر ہے کہ آپ یسوع کے مشورے پر عمل کریں۔‏ اُس شخص کیساتھ دو کوس چلیں یعنی جو وہ آپ سے مانگتا ہے اس سے بڑھکر بھی کریں۔‏ اگر آپ خوشی سے ایسا کرینگے تو آپکو ایسا نہیں لگے گا جیسا کہ وہ شخص آپکا فائدہ اُٹھا رہا ہے۔‏ اور آپ پھربھی اپنی مرضی کے مالک رہینگے۔‏

ایک مصنف نے لکھا:‏ ”‏بہت سے لوگ صرف اُس وقت دوسروں کی خدمت کرتے ہیں جب یہ اُنکا فرض ہوتا ہے۔‏ اس وجہ سے ان لوگوں کو زندگی بہت کٹھن لگتی ہے اور وہ سارا وقت تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں۔‏ اسکے برعکس ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو محض فرض ادا کرنے کے بجائے خوشی سے دوسروں کی خدمت کرتے ہیں۔‏“‏ اکثر ہمیں دوسروں کی خدمت کرنی پڑتی ہے چاہے ہم ایسا کرنا چاہتے ہوں یا نہیں۔‏ ایسی صورتحال میں اگر ہم ناخوش ہوتے ہوئے انکے ساتھ صرف ”‏ایک کوس“‏ چلتے ہیں تو ہمیں پھربھی انکے ساتھ جانا پڑیگا۔‏ لیکن اگر ہم اپنی مرضی سے انکے ساتھ ”‏دو کوس“‏ چلتے ہیں تو ہم ایسا کرنے سے خوشی بھی حاصل کرینگے۔‏ آپ ایسی صورتحال میں کیا کرینگے؟‏ جو کچھ بھی آپ کریں اسے صرف بوجھ یا فرض خیال نہ کریں بلکہ اسے دل لگا کر کریں۔‏

اگر آپ دوسروں سے کام کرانے کا اختیار رکھتے ہیں تو آپ اس سلسلے میں کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ اگر آپ کسی کو ایک کام کرنے کو کہتے ہیں اور وہ اسے خوشی سے کرنے کو تیار نہیں ہے تو آپکو اپنا اختیار جتاتے ہوئے اسے مجبور نہیں کرنا چاہئے۔‏ سچے مسیحی محبت کی راہ اختیار کرینگے۔‏ یسوع نے کہا:‏ ”‏غیرقوموں کے سردار اُن پر حکم چلاتے اور امیر اُن پر اختیار جتاتے ہیں۔‏“‏ لیکن سچے مسیحیوں کو ایسا نہیں کرنا چاہئے۔‏ (‏متی ۲۰:‏۲۵،‏ ۲۶‏)‏ دوسروں پر اپنا اختیار جتانے سے شاید ہمارا کام جلد ہو جائے۔‏ لیکن اگر ہم چاہتے ہیں کہ ایک شخص خوشی سے ہمارا کام کرے اور ہمارا احترام بھی کرے تو ہمیں نرمی سے اُس سے یہ کام کرنے کی درخواست کرنی چاہئے۔‏ جی‌ہاں،‏ دوسروں کیساتھ ایک کوس کے بجائے دو کوس چلنے سے ہماری زندگی اَور بھی خوشحال ہوگی۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 18 ‏’‏جو قیصرؔ کا ہے قیصرؔ کو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرنے‘‏ کے حکم کی تفصیلی وضاحت آپکو جون ۱،‏ ۱۹۹۶ کے مینارِنگہبانی‏،‏ صفحہ ۱۴-‏۱۹ پر ملیگی۔‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر بکس]‏

قدیم زمانے میں کرپشن

قدیم زمانے میں جب کوئی اہلکار لوگوں سے بیگار میں کام لیتا تو اکثر وہ ایسا اپنے ہی فائدے کیلئے کرتا۔‏ ان اہلکاروں کو ایسا کرنے سے روکنے کیلئے بہت سے قوانین جاری کئے گئے۔‏ مثال کے طور پر،‏ سن ۱۱۸ ق.‏س.‏ع.‏ میں مصر کے بادشاہ نے اپنے اہلکاروں کے نام یہ فرمان جاری کِیا:‏ ”‏مُلک کے باشندوں کو اپنی ذاتی خدمت کرنے پر مت لگاؤ۔‏ اُنکے گائے بیل اپنے فائدے کیلئے ضبط مت کرو۔‏“‏ اسکے علاوہ یہ بھی فرمان جاری ہوا تھا:‏ ”‏کسی بھی بہانے جہازوں کو اپنے لئے ضبط مت کرو۔‏“‏ مصر میں ایک قدیم مندر پر چند کندہ‌کاریاں دریافت کی گئی ہیں جنہیں ایک رومی صوبہ‌دار نے سن ۴۹ س.‏ع.‏ میں وہاں نقش کِیا تھا۔‏ اُس نے تسلیم کِیا کہ اُسکے سپاہی عوام سے طرح طرح کی چیزیں ناجائز طور پر ضبط کر رہے تھے۔‏ اسلئے اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ ”‏میری اجازت کے بغیر کوئی بھی چیز ضبط نہ کرنا۔‏“‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

شمعون کو یسوع کی سُولی اُٹھانے کیلئے بیگار میں پکڑا گیا تھا

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

بہتیرے یہوواہ کے گواہوں کو قید کر دیا گیا کیونکہ اُنہوں نے خدا کے حکموں کی خلاف‌ورزی کرنے سے انکار کِیا تھا