مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مسیحی خدا کے خادم ہونے پر فخر کرتے ہیں

مسیحی خدا کے خادم ہونے پر فخر کرتے ہیں

مسیحی خدا کے خادم ہونے پر فخر کرتے ہیں

‏”‏جو فخر کرے وہ [‏یہوواہ]‏ پر فخر کرے۔‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱:‏۳۱‏۔‏

۱.‏ مذہب کے معاملے میں لوگوں کی سوچ میں کونسی تبدیلی نمایاں ہو رہی ہے؟‏

‏”‏جہاں تک مذہب کا تعلق ہے لوگوں کی سوچ بدل رہی ہے۔‏ زیادہ‌تر لوگ مذہب تو رکھتے ہیں اور خدا پر ایمان رکھنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔‏ لیکن اُن کو نہ تو اپنے مذہب میں اور نہ ہی خدا میں دلچسپی ہے۔‏“‏ یہ ایک صحافی کے الفاظ ہیں جو خاص کر مذہبی معاملات پر تبصرہ کرتا ہے۔‏

۲.‏ (‏ا)‏ ہمیں مذہب کے سلسلے میں پائی جانے والی بےپروائی پر حیران کیوں نہیں ہونا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ یہ بےپروائی سچے مسیحیوں کے لئے کیسے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے؟‏

۲ جو لوگ بائبل کو پڑھتے ہیں وہ اس بےپروائی پر حیران نہیں ہوتے۔‏ (‏لوقا ۱۸:‏۸‏)‏ جھوٹے مذہب نے لوگوں کو اتنا مایوس اور گمراہ کِیا ہے کہ لوگوں کا ایمان ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۷:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ لیکن سچے مسیحیوں کو محتاط رہنا چاہئے کیونکہ مذہب کے سلسلے میں یہ بےپروائی اُن پر بھی اثر کر سکتی ہے۔‏ ہم خدا کی عبادت کرنے میں اپنے جوش اور جذبے کو ہرگز گنوانا نہیں چاہتے۔‏ یسوع نے بھی اسی بےپروائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لودیکیہ کی کلیسیا سے کہا تھا کہ ’‏نہ تُو سرد ہے نہ گرم۔‏ کاش کہ تُو سرد یا گرم ہوتا۔‏ تُو نیم گرم ہے۔‏‘‏—‏مکاشفہ ۳:‏۱۵-‏۱۸‏۔‏

ہماری پہچان

۳.‏ سچے مسیحیوں کی پہچان کیا ہے؟‏

۳ اس بےپروائی کے خطرے سے بچنے کے لئے مسیحی کیا کر سکتے ہیں؟‏ اُنہیں اچھی طرح سے جان لینا چاہئے کہ اُن کی پہچان کیا ہے اور اُنہیں اس پہچان پر فخر کیوں کرنا چاہئے۔‏ بائبل میں یہوواہ خدا کے خادموں اور یسوع مسیح کے پیروکاروں کی شناخت یوں کی جاتی ہے:‏ ہم ’‏بادشاہی کی خوشخبری‘‏ کی مُنادی کرتے ہیں اور اس حیثیت سے ہم یہوواہ خدا کے ”‏گواہ“‏ اور ”‏خدا کے ساتھ کام کرنے والے ہیں۔‏“‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴؛‏ یسعیاہ ۴۳:‏۱۰؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۳:‏۹‏)‏ ہم ’‏ایک دوسرے سے محبت رکھتے‘‏ ہیں۔‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۳۴‏)‏ ہمارا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے ”‏جن کے حواس کام کرتے کرتے نیک‌وبد میں امتیاز کرنے کے لئے تیز ہو گئے ہیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۵:‏۱۴‏)‏ سچے مسیحی ”‏دُنیا میں چراغوں کی طرح دِکھائی دیتے“‏ ہیں۔‏ (‏فلپیوں ۲:‏۱۵‏)‏ ان تمام باتوں کے علاوہ ہم ’‏غیرقوموں میں اپنا چال‌چلن نیک رکھنے‘‏ کی بھرپور کوشش بھی کرتے ہیں۔‏—‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۲؛‏ ۲-‏پطرس ۳:‏۱۱،‏ ۱۴‏۔‏

۴.‏ سچے مسیحیوں کی پہچان میں اَور کیا کچھ شامل ہے؟‏

۴ اس پہچان میں یہ بھی شامل ہے کہ سچے مسیحی ”‏دُنیا کے نہیں“‏ ہیں کیونکہ یسوع مسیح بھی دُنیا کا نہیں تھا۔‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۱۶‏)‏ مسیحی اُن ’‏غیرقوموں‘‏ سے الگ ہیں جن کی ”‏عقل تاریک ہو گئی ہے“‏ اور جو ”‏خدا کی زندگی سے خارج ہیں۔‏“‏ (‏افسیوں ۴:‏۱۷،‏ ۱۸‏)‏ یسوع کے پیروکار ’‏بےدینی اور دُنیوی خواہشوں کا انکار کرکے اس موجودہ جہاں میں پرہیزگاری اور راستبازی اور دینداری کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔‏‘‏—‏ططس ۲:‏۱۲‏۔‏

۵.‏ ’‏یہوواہ پر فخر کرنے‘‏ کا کیا مطلب ہے؟‏

۵ چونکہ ہم مسیحیوں کے طور پر اپنی شناخت سے اچھی طرح واقف ہیں اور ہم کائنات کے خالق کے قریب ہیں اِس لئے ہم ”‏یہوواہ پر فخر“‏ کرتے ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱:‏۳۱‏)‏ یہوواہ اپنے کلام میں ہمیں یوں تاکید کرتا ہے:‏ ”‏جو فخر کرتا ہے اِس پر فخر کرے کہ وہ سمجھتا اور مجھے جانتا ہے کہ مَیں ہی [‏یہوواہ]‏ ہوں جو دُنیا میں شفقت‌وعدل اور راستبازی کو عمل میں لاتا ہوں۔‏“‏ (‏یرمیاہ ۹:‏۲۴‏)‏ ہمیں اس بات پر ”‏فخر“‏ ہے کہ یہوواہ ہمارا خدا ہے۔‏ ہمیں نہ صرف اسے جاننے کا شرف حاصل ہے بلکہ وہ ہمارے ذریعے دوسروں کی مدد بھی کرتا ہے۔‏

اپنی روحانیت کا جائزہ لینا غلط نہیں

۶.‏ بعض مسیحیوں کے لئے یہ یاد رکھنا آسان کیوں نہیں ہوتا کہ وہ دوسرے لوگوں سے فرق ہیں؟‏

۶ کبھی‌کبھار مسیحیوں کے لئے یہ یاد رکھنا آسان نہیں ہوتا کہ وہ دوسرے لوگوں سے فرق کیوں ہیں۔‏ ایک جوان بھائی جس کی پرورش مسیحی گھرانے میں ہوئی تھی کچھ عرصے کے لئے روحانی طور پر کمزور پڑ گیا تھا۔‏ وہ اپنے احساسات کے بارے میں کہتا ہے:‏ ”‏مَیں خود سے پوچھنے لگا کہ آخر مَیں یہوواہ کا گواہ کیوں ہوں؟‏ مَیں بچپن ہی سے بائبل کی سچائیوں کے بارے میں سیکھتا آ رہا تھا۔‏ لیکن مجھے ایسا لگتا تھا جیسے کہ میرے مذہب اور دوسرے بڑے مذاہب میں کوئی فرق نہیں۔‏“‏ دوسرے مسیحیوں پر فنکاروں اور فیشن کی دُنیا،‏ سیاستدانوں اور دوسرے نامور لوگوں کی سوچ نے اثر کِیا ہے۔‏ (‏افسیوں ۲:‏۲،‏ ۳‏)‏ بعض بہن‌بھائیوں کا خیال ہے کہ وہ مسیحی ہونے کے لائق نہیں رہے۔‏ اپنے ایمان کا جائزہ لیتے وقت اُن کے دل میں یہ خیال اُبھرنے لگتا ہے کہ مَیں نے زندگی میں جو راہ اختیار کی ہے کہیں وہ غلط تو نہیں؟‏ اس روحانی کشمکش کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟‏

۷.‏ (‏ا)‏ مسیحیوں کو وقتاًفوقتاً اپنا جائزہ کیوں لینا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ اپنی روحانیت کا جائزہ لینے میں کونسا خطرہ ہو سکتا ہے؟‏

۷ کیا اپنے ایمان کا جائزہ لینا غلط ہے؟‏ جی‌نہیں۔‏ پولس رسول نے مسیحیوں کو یہ نصیحت دی:‏ ”‏تُم اپنے آپ کو آزماؤ کہ ایمان پر ہو یا نہیں۔‏ اپنے آپ کو جانچو۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۵‏)‏ ہمیں یہ دیکھنے کے لئے خود کو آزمانا چاہئے کہ ہم میں کوئی روحانی کمزوری تو نہیں۔‏ اور اگر ہے تو ہمیں اس کمزوری کو ترک کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔‏ مسیحی یہ بھی دیکھنے کے لئے خود کو جانچتے ہیں کہ اُن کے اعمال واقعی اُن کے ایمان کے مطابق ہیں یا نہیں۔‏ لیکن اگر ہم اپنی روحانیت کا جائزہ لیتے وقت یہوواہ خدا اور کلیسیا کا سہارا لینے کی بجائے دُنیاوی لوگوں سے رجوع کرتے ہیں تو یہ ہمارے ایمان کے لئے بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔‏ * اِس کے نتیجے میں ہمارے ”‏ایمان کا جہاز غرق“‏ ہو سکتا ہے۔‏—‏۱-‏تیمتھیس ۱:‏۱۹‏۔‏

مسیحی روحانی کشمکش میں پڑ سکتے ہیں

۸،‏ ۹.‏ (‏ا)‏ ہمیں کیسے معلوم ہے کہ موسیٰ خود کو خدا کی قوم کو رِہائی دلانے کے قابل نہیں سمجھتا تھا؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ نے موسیٰ کو کیسے تسلی دی؟‏ (‏پ)‏ خدا کے وعدوں کے بارے میں پڑھ کر آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟‏

۸ اگر مسیحی خود کو خدا کے خادم ہونے کے لائق نہیں سمجھتے تو وہ کیا کر سکتے ہیں؟‏ ایسی صورتحال میں اُنہیں یاد رکھنا چاہئے کہ خدا کے دوسرے خادم بھی وقتاًفوقتاً ایسے خیالات رکھتے تھے۔‏ ذرا خدا کے نبی موسیٰ ہی پر غور کیجئے۔‏ اُس کی وفاداری اور ایمانداری مثالی تھی۔‏ لیکن جب خدا نے اُسے بنی‌اسرائیل کو غلامی سے رِہائی دلانے کی ذمہ‌داری سونپی تو اُس نے سوال کِیا:‏ ”‏مَیں کون ہُوں؟‏“‏ (‏خروج ۳:‏۱۱‏)‏ موسیٰ کہنا چاہتا تھا کہ ’‏میری تو کوئی حیثیت ہی نہیں۔‏ مَیں اس ذمہ‌داری کو نبھانے کے قابل نہیں ہوں۔‏‘‏ موسیٰ ایسے خیالات کیوں رکھتا تھا؟‏ دراصل وہ ایک ایسی قوم سے تعلق رکھتا تھا جو مصریوں کی غلام تھی۔‏ اُس کی اپنی قوم نے اُسے قبول نہیں کِیا تھا۔‏ وہ رُک‌رُک کر بات کرتا تھا۔‏ (‏خروج ۱:‏۱۳،‏ ۱۴؛‏ ۲:‏۱۱-‏۱۴؛‏ ۴:‏۱۰‏)‏ وہ ایک چرواہا تھا اور اُسے معلوم تھا کہ مصریوں کو چرواہوں سے نفرت تھی۔‏ (‏پیدایش ۴۶:‏۳۴‏)‏ ان تمام باتوں کی وجہ سے موسیٰ خود کو اس ذمہ‌داری کو نبھانے کے قابل نہیں سمجھتا تھا۔‏

۹ یہوواہ خدا نے موسیٰ کو تسلی دینے کے لئے اُس سے دو وعدے کئے۔‏ ہم خروج ۳:‏۱۲ میں یوں پڑھتے ہیں:‏ ”‏مَیں ضرور تیرے ساتھ رہوں گا اور اِس کا کہ مَیں نے تجھے بھیجا ہے تیرے لئے یہ نشان ہوگا کہ جب تُو ان لوگوں کو مصرؔ سے نکال لائے گا تو تُم اِس پہاڑ پر خدا کی عبادت کرو گے۔‏“‏ یہوواہ نے اپنے خادم موسیٰ کا حوصلہ بڑھانے کے لئے اُسے یقین دلایا کہ وہ ہمیشہ اُس کا ساتھ دے گا۔‏ اس کے علاوہ خدا یہ بھی کہہ رہا تھا کہ وہ اپنی قوم کو ضرور رِہا کرے گا۔‏ خدا اپنے خادموں کے ساتھ اکثر ایسے وعدے کرتا آیا ہے۔‏ مثال کے طور پر جب بنی‌اسرائیل ملکِ‌موعود میں داخل ہونے والے تھے تو خدا نے موسیٰ کے ذریعے اُن سے کہا:‏ ”‏تُو مضبوط ہو جا اور حوصلہ رکھ .‏ .‏ .‏ [‏یہوواہ]‏ تیرا خدا خود ہی تیرے ساتھ جاتا ہے۔‏ وہ تجھ سے دست‌بردار نہیں ہوگا اور نہ تجھ کو چھوڑے گا۔‏“‏ (‏استثنا ۳۱:‏۶‏)‏ یہوواہ نے یشوع سے بھی ایسا ہی وعدہ کِیا تھا۔‏ ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏تیری زندگی‌بھر کوئی شخص تیرے سامنے کھڑا نہ رہ سکے گا۔‏ .‏ .‏ .‏ مَیں .‏ .‏ .‏ تیرے ساتھ رہوں گا۔‏ مَیں نہ تجھ سے دست‌بردار ہوں گا اور نہ تجھے چھوڑوں گا۔‏“‏ (‏یشوع ۱:‏۵‏)‏ اور خدا مسیحیوں سے بھی یہی وعدہ کرتا ہے جیسا کہ ہم عبرانیوں ۱۳:‏۵ میں پڑھ سکتے ہیں:‏ ”‏مَیں تجھ سے ہرگز دست‌بردار نہ ہوں گا اور کبھی تجھے نہ چھوڑوں گا۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ کائنات کا خالق ہمیں سہارا دے رہا ہے۔‏ کیا ہمیں اس بات پر فخر نہیں کرنا چاہئے کہ کائنات کی سب سے طاقتور ہستی یہوواہ خدا ہمارا ساتھ دینے کا وعدہ کرتا ہے؟‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ آسف نے اپنے غلط خیالات پر قابو پانے کے لئے کونسے اقدام اُٹھائے؟‏

۱۰ موسیٰ کے زمانے کے تقریباً ۵۰۰ سال بعد آسف نامی ایک لاوی نے ایک زبور میں اپنے جذبات کا اظہار کِیا۔‏ اُس کی زندگی میں ایک وقت آیا جب اُس نے سوچا کہ کہیں مَیں نے راست راہ اختیار کرنے میں غلطی تو نہیں کی؟‏ آسف آزمائشوں اور اذیتوں کا سامنا کرنے کے باوجود وفاداری سے خدا کی خدمت کر رہا تھا۔‏ لیکن پھر اُس کی نظر اُن لوگوں پر پڑی جو کھلم‌کُھلا خدا کے احکام کی خلافورزی کر رہے تھے۔‏ اس کے باوجود ان لوگوں کی دولت اور حیثیت دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی۔‏ یہ دیکھ کر آسف پر جو گزری وہ اس کے بارے میں یوں بیان کرتا ہے:‏ ”‏میرے پاؤں تو پھسلنے کو تھے۔‏ میرے قدم قریباً لغزش کھا چکے تھے۔‏ کیونکہ جب مَیں شریروں کی اقبالمندی دیکھتا تو مغروروں پر حسد کرتا تھا۔‏“‏ روحانی کشمکش میں پڑ کر آسف سوچنے لگا کہ ”‏یقیناً مَیں نے عبث اپنے دل کو صاف کِیا اور اپنے ہاتھوں کو پاک کِیا۔‏ کیونکہ مجھ پر دن‌بھر آفت رہتی ہے۔‏“‏ اُس کے نزدیک یہوواہ خدا کی عبادت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں رہا تھا۔‏—‏زبور ۷۳:‏۲،‏ ۳،‏ ۱۳،‏ ۱۴‏۔‏

۱۱ آسف نے اپنے ان غلط خیالات پر کیسے قابو پایا؟‏ اُس نے اپنے جذبات یہوواہ سے چھپائے نہیں رکھے بلکہ دُعا میں ان کا اظہار کِیا۔‏ پھر وہ خدا کے ہیکل میں گیا۔‏ وہاں اُسے احساس ہوا کہ خدا کی خدمت کرنے سے بہتر اَور کوئی راہ نہیں ہو سکتی۔‏ اب وہ یہ بھی سمجھ گیا کہ یہوواہ خدا کو بدی سے نفرت ہے اور وقت آنے پر وہ شریروں کو اُجاڑ دے گا۔‏ (‏زبور ۷۳:‏۱۷-‏۱۹‏)‏ آسف کو ایک مرتبہ پھر احساس ہوا کہ اُسے یہوواہ کے خادم ہونے کا شرف حاصل ہے اور وہ اپنی اس شناخت پر فخر کرنے لگا۔‏ اُس نے خدا سے دُعا کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏مَیں برابر تیرے ساتھ ہوں۔‏ تُو نے میرا دہنا ہاتھ پکڑ رکھا ہے۔‏ تُو اپنی مصلحت سے میری رہنمائی کرے گا اور آخرکار مجھے جلال میں قبول فرمائے گا۔‏“‏ (‏زبور ۷۳:‏۲۳،‏ ۲۴‏)‏ جی‌ہاں،‏ آسف دوبارہ سے اپنے خدا یہوواہ پر فخر کرنے لگا۔‏—‏زبور ۳۴:‏۲‏۔‏

وہ اپنی شناخت پر فخر کرتے تھے

۱۲،‏ ۱۳.‏ بائبل میں سے ایسے لوگوں کی مثال دیں جنہیں یہوواہ کے خادم ہونے پر فخر تھا۔‏

۱۲ مسیحی یہوواہ کے خادم ہونے پر فخر کرتے ہیں۔‏ لیکن ہم خود میں اس احساس کو کیسے بڑھا سکتے ہیں؟‏ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم قدیم زمانے میں خدا کے خادموں کے ایمان کا جائزہ لیں اور ان کے ایمان کی نقل بھی کریں۔‏ بڑی سے بڑی اذیت سہتے وقت وہ کبھی نہ بھولے کہ وہ یہوواہ خدا کے خادم ہیں۔‏ ذرا یعقوب کے بیٹے یوسف کی مثال پر غور کریں۔‏ ابھی وہ لڑکا ہی تھا کہ اُسے غلام کے طور پر مصر بیچ دیا گیا۔‏ وہ اپنے دیندار باپ اور اپنے گھر سے دُور ایک اجنبی ملک میں رہنے پر مجبور ہو گیا۔‏ مصر میں یوسف کو خدا کے قوانین سکھانے والا کوئی نہیں تھا۔‏ اس بُرے ماحول میں خدا سے اُس کی وفاداری کو خوب آزمایا گیا۔‏ لیکن یوسف کبھی نہیں بھولا کہ وہ سچے خدا کا خادم ہے۔‏ وہ اپنے خدا کے معیاروں پر قائم رہا۔‏ حالانکہ وہ مصر میں ایک اجنبی اور غلام کی حیثیت رکھتا تھا وہ کھلم‌کُھلا یہوواہ کا خادم ہونے پر اپنے فخر کا اظہار کرتا رہا۔‏—‏پیدایش ۳۹:‏۷-‏۱۰‏۔‏

۱۳ اس کے تقریباً ۸۰۰ سال بعد ایک چھوٹی اسرائیلی لڑکی کو اسیر کرکے ارام لے جایا گیا۔‏ وہاں وہ لشکر کے سردار نعمان کے گھر میں غلام تھی۔‏ یہ چھوٹی لڑکی بھی اپنے خدا پر فخر کرتی تھی۔‏ جب اُسے موقع ملا تو اُس نے نعمان کی بیوی کو بتایا کہ الیشع سچے خدا کا نبی ہے۔‏ ایسا کرنے میں اُس نے بڑی دلیری سے یہوواہ خدا کے بارے میں گواہی دی۔‏ (‏۲-‏سلاطین ۵:‏۱-‏۱۹‏)‏ اس کے کچھ سال بعد یہودی سچے خدا کی عبادت سے بہت دُور ہو گئے تھے۔‏ اس بگڑتے ماحول میں بادشاہ یوسیاہ نے یہوواہ کی ہیکل کی مرمت کروائی اور یہودیوں کو اپنے خدا کی پرستش کرنے پر راضی کِیا۔‏ اس نوجوان بادشاہ کو اپنے خدا پر فخر تھا۔‏ (‏۲-‏تواریخ ۳۴،‏ ۳۵ باب)‏ دانی‌ایل نبی اپنے تین یہودی دوستوں سمیت بابل میں اسیر ہونے کے باوجود اپنی شناخت کو نہیں بھولا۔‏ امتحان کی گھڑی میں بھی چاروں دوست اپنے خدا کے وفادار رہے۔‏ جی‌ہاں،‏ اُنہیں یہوواہ کے خادم ہونے پر فخر تھا۔‏—‏دانی‌ایل ۱:‏۸-‏۲۰‏۔‏

اپنی شناخت پر فخر کریں!‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ آجکل ہم مسیحی ہونے پر کس وجہ سے فخر کر سکتے ہیں؟‏

۱۴ یہ تمام لوگ اس لئے خدا کے وفادار رہے کیونکہ وہ یہوواہ کے خادم ہونے پر فخر کرتے تھے۔‏ آجکل ہم مسیحی ہونے پر ایک اَور وجہ سے بھی فخر کر سکتے ہیں۔‏

۱۵ یہوواہ خدا نے ہمیں اپنے نام سے پکارا ہے اور ہمیں برکتوں سے بھی نوازا ہے۔‏ پولس رسول نے لکھا کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ اپنوں کو پہچانتا ہے۔‏“‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۱۹؛‏ گنتی ۱۶:‏۵‏)‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ کو ’‏اپنے بندوں‘‏ پر فخر ہے۔‏ وہ کہتا ہے کہ ”‏جو کوئی تُم کو چُھوتا ہے میری آنکھ کی پتلی کو چُھوتا ہے۔‏“‏ (‏زکریاہ ۲:‏۸‏)‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ ہم سے کتنی محبت رکھتا ہے۔‏ تو پھر کیا ہمیں بھی اُس کے لئے گہری محبت نہیں رکھنی چاہئے؟‏ پولس رسول اس سلسلے میں کہتا ہے:‏ ”‏جو خدا سے محبت رکھتا ہے اُس کو خدا پہچانتا ہے۔‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۸:‏۳‏۔‏

۱۶،‏ ۱۷.‏ مسیحیوں کو کن لوگوں میں شمار ہونے پر فخر ہے؟‏

۱۶ جن نوجوانوں نے یہوواہ کے گواہوں کے طور پر پرورش پائی ہے اُن کو اپنا جائزہ لینا چاہئے۔‏ کیا وہ اپنی مسیحی شناخت پر فخر کرتے ہیں؟‏ کیا وہ خدا کے نزدیک جانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں؟‏ اُنہیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ میرے والدین خدا کے خادم ہیں،‏ اس بِنا پر مَیں بھی نجات حاصل کر لوں گا۔‏ پولس رسول نے لکھا کہ خدا کے ہر ایک خادم ”‏کا قائم رہنا یا گِر پڑنا اُس کے مالک ہی سے متعلق ہے۔‏“‏ لہٰذا ”‏ہم میں سے ہر ایک خدا کو اپنا حساب دے گا۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۴،‏ ۱۲‏)‏ اگر آپ محض خاندانی روایت کو جاری رکھنے کے لئے یہوواہ کی عبادت کریں گے تو آپ اُس کی قربت حاصل نہیں کر سکیں گے۔‏

۱۷ یہوواہ کا سب سے پہلا گواہ ہابل تھا۔‏ اُس کے علاوہ انسانی تاریخ کے تقریباً ۰۰۰،‏۶ سال کے دوران بہت سے دوسرے لوگوں نے یہوواہ کی عبادت کی۔‏ آج بھی گواہوں کی ایک ”‏بڑی بھیڑ“‏ یہوواہ کی عبادت کر رہی ہے۔‏ یہ سب ہمیشہ کی زندگی کی اُمید رکھتے ہیں۔‏ (‏مکاشفہ ۷:‏۹؛‏ عبرانیوں ۱۱:‏۴‏)‏ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہمارا شمار یہوواہ خدا کے گواہوں کے اتنے لمبے سلسلے میں ہوتا ہے۔‏

۱۸.‏ دُنیاوی لوگوں اور سچے مسیحیوں میں کونسا فرق پایا جاتا ہے؟‏

۱۸ ہم اپنے عقیدوں،‏ خوبیوں اور معیاروں کے ذریعے یہوواہ کے گواہوں کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔‏ ہماری یہ شناخت ایک ”‏طریق“‏ ہے یعنی خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا واحد اور بہترین طریقہ۔‏ (‏اعمال ۹:‏۲؛‏ افسیوں ۴:‏۲۲-‏۲۴‏)‏ مسیحی ’‏سب باتوں کو آزماتے ہیں اور جو اچھی ہوتی ہے اُسے پکڑے رہتے ہیں۔‏‘‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۲۱‏)‏ ہم جانتے ہیں کہ دُنیاوی لوگوں میں اور سچے مسیحیوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔‏ یہوواہ خدا نے اس بات میں کوئی شک نہیں چھوڑا کہ اُس کی عبادت کس طریقے سے ہونی چاہئے۔‏ اپنے نبی ملاکی کے ذریعے وہ کہتا ہے:‏ ”‏تُم رجوع لاؤگے اور صادق اور شریر میں اور خدا کی عبادت کرنے والے اور نہ کرنے والے میں امتیاز کرو گے۔‏“‏—‏ملاکی ۳:‏۱۸‏۔‏

۱۹.‏ سچے مسیحی کس دُنیاوی رُجحان کا شکار نہیں ہوں گے؟‏

۱۹ یہ دُنیا شک‌وشبہ اور مذہبی بےپروائی کا شکار ہے۔‏ اس لئے ہمیں یہوواہ خدا کے خادم ہونے پر اور اپنی مسیحی شناخت پر فخر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔‏ اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہم اپنے فخر کے احساس کو کیسے بڑھا سکتے ہیں۔‏ لیکن ایک بات میں کوئی شک نہیں:‏ سچے مسیحی کبھی اپنے مذہب اور اپنے خدا میں دلچسپی لینا نہیں چھوڑیں گے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 7 یہ بات صرف ہماری روحانیت پر لاگو ہوتی ہے۔‏ اگر ایک شخص کسی ذہنی بیماری کا شکار ہے تو اُسے ڈاکٹر سے اپنا علاج کرانا چاہئے۔‏

کیا آپ کو یاد ہے؟‏

‏• سچے مسیحی ”‏[‏یہوواہ]‏ پر فخر“‏ کیوں کرتے ہیں؟‏

‏• آپ نے موسیٰ اور آسف کی مثالوں پر غور کرنے سے کیا سیکھا ہے؟‏

‏• بائبل میں سے ایسے اشخاص کی مثال دیں جنہیں یہوواہ کے خادم ہونے پر فخر تھا۔‏

‏• ہم کن وجوہات سے مسیحی ہونے پر فخر کر سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۴ پر تصویریں]‏

خدا کا نبی موسیٰ خود کو ایک بہت بڑی ذمہ‌داری نبھانے کے قابل نہیں سمجھتا تھا

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویریں]‏

قدیم زمانے کے بہت سے اشخاص یہوواہ خدا کے خادم ہونے پر فخر کرتے تھے