مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

معجزے—‏حقیقت یا افسانہ؟‏

معجزے—‏حقیقت یا افسانہ؟‏

معجزے‏—‏حقیقت یا افسانہ؟‏

ایک آدمی کا دھیان ایک گزرتی ہوئی گاڑی پر پڑا جس پر لکھا ہوا تھا:‏ ”‏معجزے واقعی ہوتے ہیں،‏ فرشتوں سے پوچھ لیجئے۔‏“‏ اُس آدمی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اِس جملے کا مطلب کیا تھا۔‏ کیا اِس کا مطلب یہ تھا کہ معجزے یقینی طور پر ہوتے ہیں؟‏ یا کیا اسے طنزاً سمجھا جانا چاہئے تھا یعنی گاڑی چلانے والا نہ ہی فرشتوں کے وجود کو مانتا تھا اور نہ ہی معجزوں پر یقین کرتا تھا؟‏

جرمنی کا ایک مصنف بیان کرتا ہے:‏ ”‏اکثر لفظ ’‏معجزہ‘‏ لوگوں میں بحث‌وتکرار کا باعث بن جاتا ہے۔‏“‏ لیکن کیوں؟‏ کیونکہ کئی لوگ معجزوں کے وجود کو مانتے ہیں اور کئی کہتے ہیں کہ معجزے نہیں ہوتے۔‏ وہ لوگ جو معجزوں پر یقین رکھتے ہیں کہتے ہیں کہ یہ اکثر ہوتے ہیں۔‏ * مثال کے طور پر یونان میں مہینے میں تقریباً ایک بار کوئی نہ کوئی شخص معجزہ دیکھنے کا دعویٰ کرتا ہے۔‏ لیکن یونانی آرتھوڈکس چرچ کے ایک بشپ نے آگاہی دیتے ہوئے کہا:‏ ”‏معجزوں کو ماننے والے لوگ خدا،‏ یسوع کی ماں مریم اور مقدسوں کو اِنسانی خوبیاں دینے لگتے ہیں۔‏ اُنہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے۔‏“‏

کئی ممالک میں زیادہ‌تر لوگ معجزوں میں یقین نہیں رکھتے۔‏ سن ۲۰۰۲ میں جرمنی میں ایک جائزہ کِیا گیا جس کے مطابق ۷۱ فیصد لوگ مانتے ہیں کہ معجزے نہیں ہوتے اور ۲۹ فیصد مانتے ہیں کہ معجزے ہوتے ہیں۔‏ جرمنی کے ایک گاؤں میں تین عورتوں کا دعویٰ ہے کہ اُن کو مریم دکھائی دی تھی جس کے اِردگِرد فرشتے کھڑے تھے اور ایک کبوتر اُڑ رہا تھا۔‏ یہ عورتیں کہتی ہیں کہ مریم نے اُنہیں ایک پیغام بھی دیا تھا۔‏ ایک جرمن اخبار کے مطابق ”‏آج تک ۰۰۰،‏۵۰ لوگ اِس گاؤں کی زیارت کر چکے ہیں۔‏ اِن میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو اپنی بیماریوں سے شفا پانا چاہتے تھے۔‏“‏ اِن کے علاوہ ۰۰۰،‏۱۰ لوگ مریم کا نظارہ دیکھنے کی خواہش میں اس گاؤں کو گئے۔‏ اِس بات کا دعویٰ بھی کِیا جاتا ہے کہ سن ۱۸۵۸ میں فرانس کے شہر لُورد میں اور سن ۱۹۱۷ میں پُرتگال کے شہر فاطمہ میں لوگوں نے مریم کا نظارہ دیکھا تھا۔‏

مختلف نظریے

تقریباً ہر مذہب کے لوگ معجزوں پر یقین رکھتے ہیں۔‏ ایک انسائیکلوپیڈیا وضاحت کرتی ہے کہ مسیحی،‏ مسلمان اور بدھ‌مت کے پیروکار معجزوں کے بارے میں مختلف نظریے تو رکھتے ہیں لیکن ”‏اِن مذاہب کی تاریخ سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ معجزے اِنسان کے عقیدوں کا ایک اہم جُز رہے ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ گوتم‌بدھ خود بھی معجزے کرتا تھا۔‏“‏ بعد میں ”‏جب بدھ‌مت کا مذہب چین تک پہنچا تو اس کے پیروکار اپنے مذہب کو مقبول کرانے کے لئے اکثر معجزوں کی نمائش کرتے تھے۔‏“‏

ایسے معجزوں کے بارے میں ایک انسائیکلوپیڈیا بیان کرتی ہے:‏ ”‏کئی لوگ شاید مذہبی لوگوں کے اِن معجزوں کی کہانیوں کو ماننے میں دقت محسوس کرتے ہوں۔‏ لیکن یہ معجزے گوتم‌بدھ کی ستائش کے لئے کئے جاتے تھے کیونکہ اُس نے اپنے شاگردوں کو معجزے کرنے کی طاقت عطا کی تھی۔‏“‏ یہی کتاب کہتی ہے کہ ”‏مسلمان ہمیشہ سے معجزوں کو مانتے آئے ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ ولیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مرنے کے بعد بھی اُن لوگوں کے لئے معجزے کرتے ہیں جو اُن سے مدد کی فریاد کرتے ہیں۔‏“‏

دنیائے مسیحیت کے نظریے

دنیائے مسیحیت میں لوگ معجزوں کے بارے میں مختلف نظریے رکھتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر کئی مسیحیوں کا نظریہ ہے کہ یسوع اور خدا کے دوسرے خادموں نے واقعی معجزے کئے تھے۔‏ ایک انسائیکلوپیڈیا میں ایک اَور نظریے کے بارے میں لکھا ہے کہ ”‏لوتھر اور کیلوِن جیسے پادریوں کا کہنا تھا کہ معجزوں کا وقت ختم ہو چکا ہے،‏ اب کسی کو بھی معجزوں کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔‏“‏ یہی انسائیکلوپیڈیا آگے بیان کرتی ہے کہ کیتھولک چرچ نے معجزوں کے وجود کو تسلیم کِیا لیکن ”‏کیتھولک پادریوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ معجزے کیوں ہوتے ہیں۔‏“‏ اِس کے برعکس ”‏پروٹسٹنٹ علماء مانتے تھے کہ مسیحی مذہب محض لوگوں کی اخلاقی راہنمائی کرتا ہے اور روحانی ہستیاں اِنسانوں سے نہ تو رابطہ کرتی ہیں اور نہ ہی اُن پر اثر کرتی ہیں۔‏“‏

کچھ لوگ جو مسیحی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور کئی پادری بھی خدا کے کلام میں پائے جانے والے معجزوں پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر ایک کتاب کہتی ہے کہ جس واقعے کا ذکر خروج ۳:‏۱-‏۵ میں ہوا ہے اسے جرمنی کے کئی عالمِ‌دین معجزے کے طور پر تسلیم نہیں کرتے۔‏ وہ کہتے ہیں کہ ”‏اس واقعے کو علامتی طور پر سمجھا جانا چاہئے۔‏ دراصل موسیٰ کا ضمیر آگ کی طرح اُس کے سینے میں بھڑک رہا تھا۔‏“‏ ایک اَور تفسیر کے مطابق ”‏آگ دراصل جھاڑی کے پھول تھے جو الہٰی موجودگی میں پھوٹ نکلے تھے۔‏“‏

شاید آپ ایسی وضاحتوں سے مطمئن نہ ہوں۔‏ کیا آپ کو معجزوں پر یقین کرنا چاہئے؟‏ کیا ہم آجکل معجزے دیکھ سکتے ہیں؟‏ اگر ہم اس کے بارے میں فرشتوں سے سوال نہیں کر سکتے تو پھر ہمیں کس سے پوچھنا چاہئے؟‏

خدا کا کلام معجزوں کے بارے میں کیا کہتا ہے؟‏

کوئی بھی اِس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ خدا کا کلام ہمیں اُس وقت کی بابت بتاتا ہے جب خدا نے ایسے کام کئے تھے جو اِنسانوں کے لئے ناممکن تھے۔‏ ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏تُو اپنی قوم اؔسرائیل کو ملکِ‌مصرؔ سے نشانوں اور عجائب اور قوی ہاتھ اور بلند بازو سے اور بڑی ہیبت کے ساتھ نکال لایا۔‏“‏ (‏یرمیاہ ۳۲:‏۲۱‏)‏ ذرا تصور کریں کہ خدا نے دُنیا کی سب سے طاقتور قوم پر ۱۰ خوفناک آفتیں بھیجیں،‏ یہاں تک کہ اُن کے تمام پہلوٹھے موت کے گھاٹ اُتارے گئے۔‏ اِن آفتوں کے ذریعے خدا نے اِس مغرور قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔‏ جی‌ہاں یہ آفتیں واقعی معجزے ہی تھے۔‏—‏خروج باب ۷ تا ۱۴‏۔‏

اس واقعے کے ایک ہزار پانچ سو سال بعد اناجیل کے لکھنے والوں نے یسوع کے ۳۵ معجزوں کا ذکر کِیا۔‏ (‏دراصل یسوع نے ایسے بھی معجزے کئے تھے جن کا ذکر اناجیل میں نہیں ہوا ہے۔‏)‏ کیا یہ معجزے واقعی ہوئے تھے یا یہ محض افسانے تھے؟‏ *‏—‏متی ۹:‏۳۵؛‏ لوقا ۹:‏۱۱‏۔‏

اگر بائبل واقعی خدا کا کلام ہے تو آپ کو اِس بات کا کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ اِس میں پائے جانے والے معجزے بھی حقیقت پر مبنی ہیں۔‏ خدا کا کلام بتاتا ہے کہ قدیم زمانے میں معجزوں کے ذریعے لوگوں کو بیماریوں سے شفا دی جاتی تھی اور مُردوں کو جی اُٹھایا جاتا تھا۔‏ خدا کے کلام میں اِس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ جدید زمانے میں ایسے معجزے نہیں ہوں گے۔‏ (‏بکس ”‏قدیم زمانے کی طرح آجکل معجزے کیوں نہیں ہوتے؟‏“‏ کو دیکھیں۔‏)‏ کیا اِس کا مطلب ہے کہ ہمارے زمانے میں کسی قسم کے معجزے نہیں ہوتے ہیں؟‏ اِس سوال کا جواب آپ کو اگلے مضمون میں ملے گا۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 3 اِس مضمون میں لفظ ”‏معجزہ“‏ سے مراد ایک ایسا واقعہ ہے جو قدرتی قوانین کی بِنا پر سمجھا نہیں جا سکتا ہے۔‏

^ پیراگراف 14 ہم بائبل پر کیوں یقین رکھ سکتے ہیں،‏ اس کا ثبوت کتابچہ سب لوگوں کے لئے ایک کتاب میں پیش کِیا گیا ہے۔‏ یہ کتابچہ یہوواہ کے گواہوں کا شائع‌کردہ ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۴ پر بکس]‏

قدیم زمانے کی طرح آجکل معجزے کیوں نہیں ہوتے؟‏

خدا کے کلام میں مختلف قسم کے معجزوں کا ذکر کِیا گیا ہے۔‏ (‏خروج ۷:‏۱۹-‏۲۱؛‏ ۱-‏سلاطین ۱۷:‏۱-‏۷؛‏ ۱۸:‏۲۲-‏۳۸؛‏ ۲-‏سلاطین ۵:‏۱-‏۱۴؛‏ متی ۸:‏۲۴-‏۲۷؛‏ لوقا ۱۷:‏۱۱-‏۱۹؛‏ یوحنا ۲:‏۱-‏۱۱؛‏ ۹:‏۱-‏۷‏)‏ اکثر معجزے لوگوں کو اِس بات کا یقین دلانے کیلئے کئے گئے تھے کہ یسوع واقعی مسیح یعنی خدا کا بھیجا ہوا تھا۔‏ پہلی صدی میں یسوع کے شاگردوں نے جو معجزے کئے تھے ان میں طرح طرح کی زبانیں بولنا اور خدا کے پیغامات کی تعبیر کرنا شامل تھا۔‏ (‏اعمال ۲:‏۵-‏۱۲؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۲:‏۲۸-‏۳۱‏)‏ یہ معجزے پہلی صدی کی کلیسیاؤں کی بنیاد ڈالنے کیلئے فائدہ‌مند ثابت ہوئے۔‏ وہ کیسے؟‏

اُس زمانے میں پاک صحائف کے کم ہی نسخے موجود تھے۔‏ یہ نسخے عموماً امیر لوگوں کے قبضے میں ہوتے تھے۔‏ زیادہ‌تر قومیں یہوواہ خدا اور اُسکے کلام کے بارے میں نہیں جانتی تھیں۔‏ اِسلئے مسیحی ایسے لوگوں کو خدا کے کلام کی بابت زبانی ہی سکھاتے تھے۔‏ معجزے اِس بات کا ثبوت تھے کہ خدا مسیحی کلیسیا کو برکت سے نواز رہا تھا۔‏

پولس رسول نے اِس بات کی وضاحت کی تھی کہ ایک ایسا وقت آئیگا جب معجزوں کی ضرورت نہیں رہیگی۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏نبوّتیں ہوں تو موقوف ہو جائینگی۔‏ زبانیں ہوں تو جاتی رہینگی۔‏ علم ہو تو مٹ جائیگا۔‏ کیونکہ ہمارا علم ناقص ہے اور ہماری نبوت ناتمام۔‏ لیکن جب کامل آئیگا تو ناقص جاتا رہیگا۔‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۸-‏۱۰‏۔‏

آجکل خدا کے کلام اور اسکے متعلق بہت سی تشریحی کتابیں عام دستیاب ہیں۔‏ اس کے علاوہ ۶۰ لاکھ سے زیادہ یہوواہ کے گواہ دوسروں کو خدا کے کلام کے بارے میں سکھا رہے ہیں۔‏ لہٰذا آج معجزوں کے ذریعے اِس بات کا ثبوت دینا ضروری نہیں ہے کہ یسوع واقعی مسیح ہے اور خدا اپنے خادموں کو برکت سے نواز رہا ہے۔‏