مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ دوسروں کیساتھ اپنا مقابلہ کرتے ہیں؟‏

کیا آپ دوسروں کیساتھ اپنا مقابلہ کرتے ہیں؟‏

کیا آپ دوسروں کیساتھ اپنا مقابلہ کرتے ہیں؟‏

آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہوں گے جو آپ سے زیادہ خوبصورت یا ذہین ہے یا جو آپ کی نسبت زیادہ آسانی سے دوست بناتا ہے یا پھر سکول میں زیادہ اچھے نمبر حاصل کرتا ہے۔‏ ہو سکتا ہے کہ آپ کے کئی دوست آپ سے زیادہ صحتمند،‏ مالدار یا کامیاب ہوں۔‏ اس لئے شاید آپ کے خیال میں وہ آپ سے زیادہ خوش بھی ہیں۔‏ جب آپ دوسروں میں یہ باتیں دیکھتے ہیں تو کیا آپ فوراً اُن کے مقابلے میں اپنی حیثیت کا اندازہ لگانے لگتے ہیں؟‏ کیا ہمیں دوسروں سے اپنا مقابلہ کرنا چاہئے؟‏ سچے مسیحی کس قسم کے مقابلوں سے گریز کرتے ہیں؟‏ اور دوسروں سے اپنا مقابلہ کرنے کی بجائے ہم دلی اطمینان اور خوشی کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟‏

لوگ دوسروں سے اپنا مقابلہ کیوں کرتے ہیں؟‏

لوگ اکثر اپنی قدروقیمت کا اندازہ لگانے کے لئے دوسروں کے مقابلے میں خود کو جانچتے ہیں۔‏ جب وہ دیکھتے ہیں کہ دوسروں کی طرح وہ بھی کامیاب ہیں تو وہ خوش ہوتے ہیں۔‏ اس کے علاوہ،‏ دوسروں سے اپنا مقابلہ کرنے کے بعد ہمیں اپنی قابلیتوں اور اپنے حدود کا اندازہ ہو جاتا ہے۔‏ شاید ہم ایسے لوگوں پر توجہ دیتے ہیں جو کئی لحاظ سے ہماری طرح ہیں۔‏ جب ہم دیکھتے ہیں کہ اُنہوں نے کامیابی سے ایک کام انجام دیا ہے تو ہمیں اعتماد ہو جاتا ہے کہ ہم بھی ایسا کام انجام دے سکتے ہیں۔‏

اکثر اوقات ہم اپنا مقابلہ ایسے لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں جو ہماری عمر یا ہمارا معاشرتی درجہ رکھتے ہیں۔‏ عورتیں عموماً اپنا مقابلہ عورتوں سے اور مرد مردوں سے کرتے ہیں۔‏ ہم اپنا مقابلہ ایسے لوگوں سے نہیں کرتے جو ہم سے بہت زیادہ فرق رکھتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر ایک نوجوان لڑکی کسی فنکارہ کی بجائے اپنا مقابلہ اپنی ہم‌جماعتوں سے کرے گی۔‏ اور فنکارہ اپنا مقابلہ کسی نوجوان لڑکی سے نہیں کرے گی۔‏

لوگ عام طور پر ان معاملوں میں دوسروں سے اپنا مقابلہ کرتے ہیں جو معاشرے میں اہم خیال کئے جاتے ہیں مثلاً ذہانت،‏ خوبصورتی،‏ مال‌ودولت اور فیشن وغیرہ۔‏ اس کے علاوہ ہم اُن باتوں میں جن میں ہم خاص دلچسپی رکھتے ہیں دوسروں سے اپنا مقابلہ کرتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر کئی لوگ مشغلے کے طور پر خط کے ٹکٹ جمع کرتے ہیں۔‏ لیکن اگر آپ کو اس میں دلچسپی نہیں تو کیا آپ کسی ایسے شخص سے رشک کریں گے جس نے بہت سے ٹکٹ جمع کئے ہوں؟‏

جب لوگ دوسروں سے اپنا مقابلہ کرتے ہیں تو اُن میں یا تو اچھے یا پھر بُرے احساسات پیدا ہوتے ہیں۔‏ کئی لوگوں کی نظر میں دوسرے شخص کی قدر بڑھ جاتی ہے اور وہ اُس کی نقل کرنا چاہتے ہیں۔‏ اس کے برعکس کئی لوگ مایوس ہو کر دوسرے شخص سے حسد کرنے لگتے ہیں۔‏ لیکن سچے مسیحیوں کو اس طرح کے بُرے احساسات نہیں رکھنے چاہئیں۔‏

ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کے بُرے نتائج

کئی لوگ دوسروں کو نیچا دکھانے اور ان پر برتری حاصل کرنے کے لئے اُن سے مقابلہ کرتے ہیں۔‏ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بھی ایسے ہی پیش آتے ہیں۔‏ اُن کی وجہ سے دوسرے لوگ احساسِ‌کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔‏ ایسے گھمنڈی لوگوں کے ساتھ جینا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ دوسروں سے محبت نہیں رکھتے۔‏—‏متی ۱۸:‏۱-‏۵؛‏ یوحنا ۱۳:‏۳۴،‏ ۳۵‏۔‏

جب لوگوں کو نیچا دکھایا جاتا ہے تو اُنہیں چوٹ لگتی ہے۔‏ ایک مصنف کا کہنا ہے کہ ”‏جب ایسے لوگ جن کی حیثیت ہماری حیثیت کے برابر ہوتی ہے کامیاب ہوتے ہیں اور ہم انہی باتوں میں کامیاب نہیں ہوتے تو ہمیں دُگنی چوٹ لگتی ہے۔‏“‏ جب لوگ ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے پر اُتر آتے ہیں تو حسد اور نفرت جیسے احساسات پیدا ہوتے ہیں۔‏ اس کے نتیجے میں لوگ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی اَور بھی کوشش کرتے ہیں۔‏ خدا کے کلام کے مطابق ’‏ایک دوسرے کو چڑانا‘‏ غلط ہے۔‏—‏گلتیوں ۵:‏۲۶‏۔‏

دوسروں کو نیچا دکھا کر بعض لوگ اپنی قدروقیمت بڑھانا چاہتے ہیں۔‏ لیکن ایسے ردِعمل کے بہت بُرے نتیجے ہو سکتے ہیں۔‏ اس سلسلے میں حسد کے بُرے نتائج کی دو مثالوں پر غور کریں۔‏

خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ جب اضحاق فلستیوں کے ملک میں آباد ہوا تو ”‏اُس کے پاس بھیڑبکریاں اور گائےبیل اور بہت سے نوکرچاکر تھے اور فلستیوں کو اُس پر رشک آنے لگا۔‏“‏ نتیجتاً فلستیوں نے اضحاق کے سب کوئیں بند کر دئے اور اُن کے بادشاہ نے اِضحاق کو وہاں سے چلے جانے کو کہا۔‏ (‏پیدایش ۲۶:‏۱-‏۳،‏ ۱۲-‏۱۶‏)‏ اضحاق کی خوشحالی اور کامیابی فلستیوں سے گوارا نہ ہوئی۔‏ حسد کی آگ میں جلتے ہوئے فلستی غلط کام کرنے پر اُتر آئے۔‏

داؤد میدانِ‌جنگ میں کئی بار اپنی مہارت دکھا چکا تھا۔‏ اس لئے اسرائیلی عورتیں اُس کے کارناموں کے گیت گا کر کہتی تھیں:‏ ”‏ساؔؤل نے تو ہزاروں کو،‏ پر داؔؤد نے لاکھوں کو مارا۔‏“‏ ان گیتوں میں عورتیں بادشاہ ساؤل کی تعریف بھی کر رہی تھیں۔‏ لیکن ساؤل کو یہ بات بڑی کڑوی لگی کہ اُس کا مقابلہ داؤد سے کِیا جا رہا تھا۔‏ اُس کے دل میں داؤد کے لئے حسد اور نفرت کا لاوا اُبلنے لگا۔‏ نتیجتاً اُس نے باربار داؤد کو مار ڈالنے کی کوشش کی۔‏ واقعی حسد کے کتنے بُرے پھل ہوتے ہیں۔‏—‏۱-‏سموئیل ۱۸:‏۶-‏۱۱‏۔‏

اگر دوسروں سے اپنا مقابلہ کرتے وقت ہمارے دل میں حسد پیدا ہوتا ہے تو ہمیں محتاط رہنا چاہئے۔‏ خدا ایسے بُرے جذبات بالکل پسند نہیں کرتا۔‏

اپنا جائزہ لیں—‏مگر کیسے؟‏

‏’‏کیا مَیں ذہین،‏ دلکش،‏ لائق،‏ تنومند اور باوقار ہوں؟‏ کیا لوگ مجھے پسند کرتے ہیں؟‏‘‏ ایک مصنف کے مطابق ”‏لوگ وقتاًفوقتاً خود سے ایسے سوال پوچھتے ہیں۔‏ اور اکثر وہ ان سوالات کے جواب پا کر مایوس ہو جاتے ہیں۔‏“‏ اپنا جائزہ لینا غلط نہیں ہوتا۔‏ لیکن ایسا کرتے وقت ہمیں دوسروں کے ساتھ اپنا مقابلہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ہمارے دل میں حسد پیدا ہو سکتا ہے۔‏

ہم سب ایک دوسرے سے فرق فرق صلاحیتیں اور لیاقتیں رکھتے ہیں۔‏ لہٰذا کوئی نہ کوئی ہمیشہ ہم سے زیادہ کامیاب ہوگا۔‏ اس لئے جب ہم اپنی ترقی کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں تو ہمیں خدا کے معیاروں کی بِنا پر ایسا کرنا چاہئے،‏ نہ کہ دوسروں کے ساتھ اپنا مقابلہ کرنے سے۔‏ یہوواہ خدا ہم میں سے ہر ایک میں دلچسپی لیتا ہے۔‏ وہ کسی کے ساتھ ہمارا مقابلہ نہیں کرتا۔‏ پولس رسول نے کہا:‏ ”‏ہر شخص اپنے ہی کام کو آزما لے۔‏ اس صورت میں اُسے اپنی ہی بابت فخر کرنے کا موقع ہوگا نہ کہ دوسرے کی بابت۔‏“‏—‏گلتیوں ۶:‏۴‏۔‏

حسد کا مقابلہ کریں

ہمیں ڈٹ کر حسد کا مقابلہ کرنا پڑے گا کیونکہ ہم سب گنہگار ہیں۔‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”‏عزت کی رُو سے ایک دوسرے کو بہتر سمجھو۔‏“‏ ہم اس حکم سے اچھی طرح واقف ہیں لیکن اس پر عمل کرنا اتنا آسان نہیں۔‏ پولس نے تسلیم کِیا تھا کہ اُسے اچھے کام کرنے کی نسبت بُرے کام کرنا زیادہ آسان لگتا تھا۔‏ بُرے رُجحانات کا مقابلہ کرنے کی ترکیب وہ یوں بیان کرتا ہے:‏ ”‏مَیں اپنے بدن کو مارتا کوٹتا اور اُسے قابو میں رکھتا ہوں۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۱۰؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۹:‏۲۷‏)‏ اپنے دل سے حسد کو دُور کرنے کے لئے ہمیں ایسی باتوں پر غور کرنا چاہئے جو خدا کو پسند ہیں۔‏ اس کے علاوہ ہمیں دُعا میں یہوواہ کی مدد مانگنی چاہئے تاکہ ہم ’‏جیسا سمجھنا مناسب ہے اُس سے زیادہ اپنے آپ کو نہ سمجھیں۔‏‘‏—‏رومیوں ۱۲:‏۳‏،‏ کیتھولک ورشن۔‏

حسد کا مقابلہ کرنے کا بہترین طریقہ بائبل کی سچائیوں پر غور کرنا ہے۔‏ مثال کے طور پر اُس وقت کے بارے میں سوچیں جب زمین فردوس بن جائے گی۔‏ تب سب لوگ امن سے رہیں گے،‏ صحتمند ہوں گے اور اچھے گھروں میں رہیں گے۔‏ وہ لذیذ کھانے کا لطف اُٹھائیں گے اور اپنے کام سے خوشی حاصل کریں گے۔‏ (‏زبور ۴۶:‏۸،‏ ۹؛‏ ۷۲:‏۷،‏ ۸،‏ ۱۶؛‏ یسعیاہ ۶۵:‏۲۱-‏۲۳‏)‏ کیا اُس وقت کوئی شخص دوسرے پر برتری حاصل کرنے کی کوشش کرے گا؟‏ جی‌نہیں،‏ کیونکہ ایسا کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوگی۔‏ خدا نے ہمیں اپنے کلام میں اُس زمانے کے بارے میں ہر ایک تفصیل تو نہیں بتائی۔‏ لیکن ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ ہر شخص اپنی پسند کے مطابق مختلف کام اور فن میں مہارت حاصل کر سکے گا۔‏ مثال کے طور پر کئی لوگ سائنسی تحقیقات کرنے میں لگے رہیں گے اور دوسرے خوبصورت لباس ڈیزائن کرنے میں۔‏ ایسے ماحول میں ایک دوسرے سے حسد کرنے کی بھلا کیا وجہ رہے گی؟‏ ہم دوسروں کے کام کو دیکھ کر خوش ہوں گے نہ کہ اُن سے حسد کریں گے۔‏

آپ ضرور ایک ایسے ماحول میں رہنا پسند کریں گے۔‏ لیکن ہم ابھی بھی ایک روحانی فردوس میں جی رہے ہیں۔‏ اس فردوس میں دُنیاوی سوچ اور خواہشات کی کوئی جگہ نہیں ہے۔‏ اس لئے ہمیں ابھی سے ہی اپنے دل سے حسد کو دُور کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔‏

لیکن کیا دوسروں سے اپنا مقابلہ کرنا ہمیشہ غلط ہوتا ہے؟‏ ایسا کرنا کب مناسب ہوتا ہے؟‏

مقابلہ کرنا کب مناسب ہوتا ہے؟‏

دوسروں سے اپنا مقابلہ کرنا اُس وقت نقصاندہ ہے جب اس کے نتیجے میں ہم افسردگی اور حسد جیسے احساسات کا شکار بنتے ہیں۔‏ لیکن اپنا مقابلہ کرنے کے فائدے بھی ہو سکتے ہیں۔‏ اس سلسلے میں پولس رسول نے کہا:‏ ”‏تُم .‏ .‏ .‏ ان کی مانند بنو جو ایمان اور تحمل کے باعث وعدوں کے وارث ہوتے ہیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۶:‏۱۲‏)‏ اس کا مطلب ہے کہ اگر ہم یہوواہ کے وفادار خادموں سے سیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اُن سے اپنا مقابلہ کرنا پڑے گا۔‏ اس طرح ہم اُن کے نقشِ‌قدم پر چل کر خود میں اچھی خوبیاں پیدا کر سکیں گے۔‏

یونتن کی مثال لیجئے۔‏ وہ بادشاہ ساؤل کا پہلوٹھا تھا۔‏ اس لئے وہ اسرائیل کا بادشاہ بننے کی اُمید رکھ سکتا تھا۔‏ لیکن اس عہدے کے لئے یہوواہ نے داؤد کو مقرر کِیا جو یونتن سے تقریباً ۳۰ سال چھوٹا تھا۔‏ داؤد سے حسد کرنے کی بجائے یونتن نے اُس کو یہوواہ کے مقررشُدہ بادشاہ کے طور پر تسلیم کِیا۔‏ یہاں تک کہ وہ داؤد کا وفادار دوست بن گیا۔‏ ہم یونتن کے رویہ سے اُس کی روحانیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۹:‏۱-‏۴‏)‏ اگرچہ ساؤل نے داؤد سے دُشمنی کی،‏ لیکن یونتن نے اپنے باپ کا ساتھ نہیں دیا۔‏ وہ یہوواہ خدا کی مرضی بجا لانا چاہتا تھا۔‏ اُس نے کبھی خود سے یہ سوال نہ کِیا کہ ”‏مجھے بادشاہ کے طور پر کیوں مقرر نہیں کِیا گیا؟‏ داؤد کے مقابلے میں مجھ میں کونسی کمی ہے؟‏“‏

سچے مسیحیوں کو کبھی یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ کلیسیا کا کوئی فرد اُن پر برتری حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‏ پُختہ مسیحی ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں،‏ اور اتحاد اور محبت کو فروغ دیتے ہیں۔‏ معاشرے پر تحقیق کرنے والے ایک ماہر کے مطابق ”‏محبت حسد کا جانی دُشمن ہے۔‏ اگر ہم کسی سے محبت رکھتے ہیں تو اُس کی خوشی ہماری خوشی اور اُس کی کامیابی ہماری کامیابی ہوتی ہے۔‏“‏ اگر کلیسیا میں کسی شخص کو خاص ذمہ‌داری سونپی جاتی ہے تو ہم اُس کے ساتھ خوش ہوں گے اور اُس کا ساتھ دیں گے۔‏ اس طرح ہم یونتن کے نقشِ‌قدم پر چلیں گے۔‏ اور یونتن کی طرح ہم بھی خدا سے برکت پائیں گے۔‏

ہمارے مسیحی بہن‌بھائی جب اچھے نمونے قائم کرتے ہیں تو ہم اُن کی بہت قدر کرتے ہیں۔‏ ان سے اپنا مقابلہ کرنے سے ہمارا ایمان بھی زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۷‏)‏ لیکن ہمیں خبردار رہنا چاہئے کہ ہم اُن کی نقل کرتے کرتے اُن سے حسد نہ کرنے لگیں۔‏ مثال کے طور پر ہم شاید سوچنے لگیں کہ وہ شخص ہم پر برتری حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‏ لہٰذا ہم اُس کی نکتہ‌چینی کرنے لگتے ہیں۔‏ اس طرح اس کی قدر کرنے کی بجائے ہم اُس سے حسد کرنے لگتے ہیں۔‏

ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ ایک ناکامل شخص ہمارے لئے ایک کامل نمونہ قائم نہیں کر سکتا۔‏ اس لئے خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”‏عزیز فرزندوں کی طرح خدا کی مانند بنو۔‏“‏ ہمیں اس بات کی یاد بھی دلائی جاتی ہے کہ ”‏مسیح بھی تمہارے واسطے دُکھ اُٹھا کر تمہیں ایک نمونہ دے گیا ہے تاکہ اُس کے نقشِ‌قدم پر چلو۔‏“‏ (‏افسیوں ۵:‏۱،‏ ۲؛‏ ۱-‏پطرس ۲:‏۲۱‏)‏ ہمیں یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کی خوبیوں کی نقل کرنی چاہئے۔‏ ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے کہ اُنہوں نے محبت اور شفقت،‏ ہمدردی اور حلم جیسی خوبیاں کیسے ظاہر کی ہیں،‏ اُن کے مقاصد کیا ہیں اور وہ ان کو کیسے انجام تک پہنچاتے ہیں۔‏ پھر ہمیں یہ دیکھنے کے لئے اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم کس حد تک ان کی نقل کر رہے ہیں۔‏ اس طرح ہماری زندگی بامقصد ہوگی،‏ ہماری روحانیت بڑھ جائے گی اور ہم خود کو یہوواہ کی محبت میں محفوظ جانیں گے۔‏ (‏افسیوں ۴:‏۱۳‏)‏ جب ہم یہوواہ اور یسوع کے نمونے پر چلنے کی بھرپور کوشش کریں گے تو ہم دوسروں کے ساتھ مقابلہ‌بازی کرنے پر نہیں اُتر آئیں گے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۸ اور ۲۹ پر تصویر]‏

بادشاہ ساؤل داؤد سے حسد کرنے لگا

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

داؤد سے دُشمنی کرنے کی بجائے یونتن اُس کا وفادار دوست بن گیا