مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خوشخبری کا باربار تبادلے کے ذریعے دُوردُور تک پہنچنا

خوشخبری کا باربار تبادلے کے ذریعے دُوردُور تک پہنچنا

میری کہانی میری زبانی

خوشخبری کا باربار تبادلے کے ذریعے دُوردُور تک پہنچنا

از رکارڈو مالکسیی

مسیحی غیرجانبداری کی وجہ سے جب میری ملازمت چھوٹ گئی تو مَیں نے اور میرے خاندان نے یہوواہ سے دُعا کی کہ وہ مستقبل کی بابت منصوبہ‌سازی کرنے میں ہماری مدد کرے۔‏ اپنی دُعاؤں میں ہم نے اس بات کا بھی اظہار کِیا کہ ہم اپنی خدمتگزاری کو بڑھانا چاہتے ہیں۔‏ اسکے کچھ ہی عرصہ بعد ہم ایک ایسے سفر پر نکل پڑے جسے خانہ‌بدوشی کی زندگی کہنا غلط نہیں ہوگا۔‏ کیونکہ اس سفر کے دوران ہم نے دو براعظموں کے آٹھ مختلف ملکوں کا سفر کِیا۔‏ تاہم،‏ ہمارا یہ سفر دُوردُور تک خوشخبری پہنچانے کا باعث بنا۔‏

میری پیدائش ۱۹۳۳ میں فلپائن کے ایک پروٹسٹنٹ خاندان میں ہوئی۔‏ ہمارا خاندان ۱۴ افراد پر مشتمل تھا اور ہم سب اسی چرچ کے ممبر تھے۔‏ جب مَیں تقریباً ۱۲ سال کا تھا تو مَیں نے خدا سے دُعا کی کہ مجھے حقیقی ایمان کی راہ دکھائے۔‏ اُن ہی دنوں میرے ایک اُستاد نے میرا نام ریلیجن کلاس میں لکھ لیا اور اسطرح مَیں ایک کٹر کیتھولک بن گیا۔‏ مَیں کبھی بھی ہفتے کے اعتراف اور اتوار کی عبادت سے غیرحاضر نہیں ہوتا تھا۔‏ تاہم،‏ اسکے باوجود مجھے حقیقی اطمینان حاصل نہ ہو سکا۔‏ مَیں دوزخ،‏ تثلیث اور موت کی بابت سوالات سے پریشان تھا۔‏ مذہبی راہنماؤں کے کھوکھلے اور غیرتسلی‌بخش جوابات مجھے مطمئن نہیں کر سکے تھے۔‏

تسلی‌بخش جوابات حاصل کرنا

مَیں کالج میں پڑھائی کے دوران بُری صحبت کی وجہ سے لڑائی‌جھگڑوں،‏ جوئےبازی اور سگریٹ‌نوشی جیسی عادات میں پڑ گیا۔‏ ایک شام میری ملاقات اپنے ایک ہم‌جماعت کی والدہ سے ہوئی۔‏ وہ یہوواہ کی گواہ تھی۔‏ مَیں نے ان سے بھی وہی سوال کئے جو مَیں اپنے مذہب کی تعلیم دینے والے اُستادوں سے پوچھا کرتا تھا۔‏ میرے دوست کی والدہ نے میرے تمام سوالوں کے جواب بائبل میں سے دئے اور مجھے یقین ہو گیا کہ اُس نے واقعی سچائی بیان کی ہے۔‏

مَیں نے ایک بائبل خریدی اور یہوواہ کے گواہوں کیساتھ بائبل مطالعہ شروع کر دیا۔‏ جلد ہی مَیں یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں پر جانے لگا۔‏ بائبل بیان کرتی ہے کہ ”‏بُری صحبتیں اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی ہیں۔‏“‏ پس بائبل کی اس نصیحت پر عمل کرنے کیلئے مَیں نے بُرے لڑکوں کیساتھ دوستی چھوڑ دی۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۳۳‏)‏ اس سے مجھے اپنے بائبل مطالعہ میں ترقی کرنے اور اپنی زندگی یہوواہ کیلئے مخصوص کرنے میں مدد ملی۔‏ سن ۱۹۵۱ میں بپتسمہ لینے کے بعد مَیں نے کچھ عرصہ تک کُل‌وقتی خادم (‏پائنیر)‏ کے طور پر خدمت کی۔‏ اِسکے بعد مَیں نے دسمبر ۱۹۵۳ میں،‏ اوری مینڈوزا کروز سے شادی کر لی۔‏ اوری عمربھر میرے ساتھ مل کر وفاداری سے خدا کی خدمت کرتی رہی۔‏

ہماری دُعاؤں کا جواب

ہم چاہتے تھے کہ کُل‌وقتی خدمت کریں لیکن ہماری یہ خواہش جلد پوری نہ ہو سکی۔‏ توبھی ہم یہوواہ سے اسکی بابت دُعا کرتے رہے۔‏ اگرچہ ہماری زندگی بہت سی مشکلات کا شکار تھی توبھی روحانی نشانے ہمارے ذہن میں تھے۔‏ پس،‏ مَیں ۲۵ سال کی عمر میں یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیا کا خادم یعنی صدارتی نگہبان بن گیا۔‏

بائبل علم میں ترقی کرنے اور یہوواہ کے اُصولوں کی بہتر سمجھ حاصل کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میری ملازمت مسیحی غیرجانبداری کے اُصول پر پوری نہیں اُترتی۔‏ (‏یسعیاہ ۲:‏۲-‏۴‏)‏ پس مَیں نے ملازمت چھوڑنے کا فیصلہ کِیا۔‏ لیکن یہ ہمارے ایمان کی کڑی آزمائش تھی۔‏ سوال یہ تھا کہ اب مَیں اپنے خاندان کی ضروریات کیسے پوری کرونگا؟‏ پس ہم نے دُعا میں یہوواہ کے حضور اپنی تمام فکروں اور اندیشوں کا اظہار کِیا۔‏ (‏زبور ۶۵:‏۲‏)‏ لیکن اسکے ساتھ ہی اس خواہش کا بھی اظہار کِیا کہ ہم ایسی جگہ خدمت کرنا چاہتے ہیں جہاں بادشاہتی مُنادوں کی کمی ہے۔‏ (‏فلپیوں ۴:‏۶،‏ ۷‏)‏ ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ہماری یہ خواہش اتنی جلدی پوری ہو جائیگی!‏

ہمارے سفر کا آغاز

مجھے اپریل ۱۹۶۵ میں،‏ لاؤس کے ونٹین انٹرنیشنل ائرپورٹ پر آگ بجھانے والے عملے میں سپروائزر کی ملازمت مل گئی اور ہم وہاں منتقل ہو گئے۔‏ ونٹین کے شہر میں ۲۴ گواہ تھے۔‏ پس ہم خدمتگزاری میں مشنریوں اور کچھ مقامی بھائیوں کیساتھ مل کر کام کرنے کے قابل ہوئے۔‏ اسکے بعد میرا تبادلہ تھائی‌لینڈ میں یوڈن ٹنائی ائرپورٹ پر ہو گیا۔‏ وہاں کوئی بھی گواہ نہیں تھا۔‏ ہم خاندان کے طور پر ہفتہ‌وار اجلاس منعقد کراتے اور گھرباگھر منادی،‏ واپسی ملاقاتیں اور بائبل مطالعے کراتے تھے۔‏

ہمیں اپنے شاگردوں کیلئے یسوع کی نصیحت یاد تھی کہ ”‏تُم بہت سا پھل لاؤ۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۸‏)‏ لہٰذا شاگردوں کے نمونے پر عمل کرتے ہوئے ہم خوشخبری کی منادی کرتے رہے۔‏ جلد ہی ہمیں اسکے نتائج حاصل ہونا شروع ہو گئے۔‏ ایک تھائی لڑکی نے سچائی قبول کر لی اور ہماری روحانی بہن بن گئی۔‏ شمالی امریکہ کے دو اشخاص نے بھی سچائی قبول کر لی اور ایک وقت آیا کہ وہ کلیسیا میں بزرگ بن گئے۔‏ ہم نے شمالی تھائی‌لینڈ میں دس سال سے زیادہ عرصہ تک خوشخبری کی منادی کی۔‏ ہمیں یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ اس وقت یوڈن ٹنائی میں ایک کلیسیا قائم ہو گئی ہے!‏ ہم نے سچائی کے جو بیج بوئے تھے وہ ابھی بھی پھل لا رہے ہیں۔‏

تاہم،‏ افسوس کہ ہمیں یہاں سے دوسری جگہ جانا پڑا۔‏ ہم نے ”‏فصل کے مالک“‏ کی منت کی کہ وہ منادی کے کام کو جاری رکھنے میں ہماری مدد کرے۔‏ (‏متی ۹:‏۳۸‏)‏ ہمارا تبادلہ ایران کے دارالحکومت تہران ہو گیا۔‏ اُس وقت ایران میں رضا شاہ پہلوی کی حکومت تھی۔‏

مشکل علاقوں میں منادی کرنا

تہران پہنچتے ہی ہمیں اپنے روحانی بھائی مل گئے۔‏ ہم نے ۱۳ مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے بھائیوں کے چھوٹے سے گروپ کیساتھ رفاقت رکھنا شروع کر دی۔‏ ایران کے مُلک میں منادی کرنے کیلئے ہمیں کچھ ردوبدل کرنا پڑا۔‏ اگرچہ ہمیں بظاہر مخالفت کا سامنا تو نہیں تھا توبھی ہمیں محتاط اور ہوشیار رہنے کی ضرورت تھی۔‏

ہمیں بعض‌اوقات دلچسپی رکھنے والے اشخاص کی ملازمت کے شیڈول کی وجہ سے آدھی رات یا صبح‌سویرے بائبل مطالعے کرانے پڑتے تھے۔‏ لیکن آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ اس محنت کا پھل دیکھ کر ہمیں کتنی خوشی ہوتی تھی!‏ یہاں رہنے والے فلپائن اور کوریا سے تعلق رکھنے والے کئی خاندانوں نے سچائی قبول کی اور خود کو یہوواہ کیلئے مخصوص کر کِیا۔‏

اسکے بعد میرا تبادلہ بنگلہ‌دیش کے شہر ڈھاکہ میں ہو گیا۔‏ ہم دسمبر ۱۹۷۷ میں وہاں پہنچے۔‏ اس مُلک میں بھی منادی کرنا آسان نہیں تھا۔‏ مگر ہم یہ یاد رکھتے تھے کہ ہر حال میں ہمیں منادی کرنی ہے۔‏ یہوواہ کی پاک رُوح کی راہنمائی میں ہم بہت سے نام‌نہاد مسیحی خاندانوں تک پہنچنے کے قابل ہوئے۔‏ ان میں سے چند ایک پاک صحائف میں پائے جانے والے سچائی کے تازگی‌بخش پانیوں کے پیاسے تھے۔‏ (‏یسعیاہ ۵۵:‏۱‏)‏ نتیجتاً،‏ ہم نے بہت سے بائبل مطالعے شروع کرائے۔‏

ہم ہمیشہ یہ یاد رکھتے تھے کہ یہوواہ کی مرضی یہ ہے کہ ”‏سب آدمی نجات پائیں۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۲:‏۴‏)‏ خوشی کی بات ہے کہ کسی نے ہمارے لئے مشکل پیدا کرنے کی کوشش نہ کی۔‏ ہم کسی بھی طرح کے تعصّب پر قابو پانے کیلئے دوستانہ طریقے سے بات کرتے تھے۔‏ پولس رسول کی طرح ہم نے ”‏سب آدمیوں کیلئے سب کچھ“‏ بننے کی کوشش جاری رکھی۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۹:‏۲۲‏)‏ جب لوگ ہم سے ہمارے آنے کی وجہ پوچھتے تو ہم انہیں بڑی نرمی سے جواب دیتے تھے۔‏ اسطرح ہم نے زیادہ‌تر لوگوں کو کافی خوش‌اخلاق پایا۔‏

ڈھاکہ میں ہماری ملاقات ایک مقامی گواہ بہن سے ہوئی۔‏ لہٰذا ہم نے اسکی حوصلہ‌افزائی کی کہ وہ مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہو اور ہمارے ساتھ مل کر منادی بھی کرے۔‏ لیکن جب میری بیوی نے ایک خاندان کیساتھ بائبل مطالعہ شروع کرنے کے بعد انہیں اجلاسوں پر آنے کی دعوت دی تو یہوواہ کی مہربانی سے وہ سارا خاندان سچائی میں آ گیا۔‏ بعدازاں،‏ اُنکے دیگر رشتہ‌داروں نے بھی یہوواہ کی بابت سیکھنا شروع کر دیا۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ انکی دو بیٹیوں نے بائبل مطبوعات کو بنگالی زبان میں ترجمہ کرنے میں مدد دی۔‏ اسکے علاوہ اور بہت سے بائبل مطالعوں نے سچائی قبول کر لی۔‏ ان میں سے بیشتر اب بزرگ اور کُل‌وقتی خادموں کے طور پر خدمت کر رہے ہیں۔‏

ڈھاکہ ایک گنجان‌آباد علاقہ ہے۔‏ لہٰذا،‏ ہم نے اپنے خاندان کے کچھ افراد کو منادی کے کام میں مدد دینے کیلئے اپنے پاس بلوا لیا۔‏ بہتوں نے مثبت ردِعمل دکھایا اور ہمارے پاس بنگلہ‌دیش آ گئے۔‏ ہم کتنے خوش اور شکرگزار ہیں کہ یہوواہ نے ہمیں اس مُلک میں خوشخبری کی منادی کرنے کا شرف عطا کِیا!‏ اگرچہ شروع میں وہاں ایک ہی بہن سچائی میں تھی مگر اب بنگلہ‌دیش میں دو کلیسیائیں ہیں۔‏

جولائی ۱۹۸۲ میں،‏ ہمیں بنگلہ‌دیش سے روانہ ہونا پڑا۔‏ ہم نے پُرنم آنکھوں سے اپنے بھائیوں کو خداحافظ کہا۔‏ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ مجھے یوگینڈا کے انٹی‌بی انٹرنیشنل ائرپورٹ پر ملازمت مل گئی۔‏ وہاں ہم چار سال اور سات مہینے ٹھہرے۔‏ اس مُلک میں ہم کیسے یہوواہ کے نام کو جلال دینگے؟‏

مشرقی افریقہ میں یہوواہ کی خدمت کرنا

انٹی‌بی ائرپورٹ پر پہنچنے کے بعد ایک ڈرائیور نے ہمیں ہماری رہائش‌گاہ تک پہنچایا۔‏ جب ہم ائرپورٹ سے روانہ ہوئے تو مَیں نے ڈرائیور کو خدا کی بادشاہت کی بابت بتانا شروع کر دیا۔‏ اس نے مجھ سے پوچھا:‏ ”‏کیا آپ یہوواہ کے گواہ ہیں؟‏“‏ جب مَیں نے کہا جی‌ہاں تو ڈرائیور نے مجھے بتایا:‏ ”‏یہوواہ کا ایک گواہ کنٹرول ٹاور میں بھی کام کرتا ہے۔‏“‏ مَیں نے اس سے کہا کہ مجھے فوراً وہاں لے چلو۔‏ جب ہم اس بھائی سے ملے تو وہ ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوا اور ہم نے ملکر اجلاسوں اور منادی پر جانے کا بندوبست بنایا۔‏

اُس وقت یوگینڈا میں صرف ۲۲۸ بادشاہتی مُناد تھے۔‏ ہم نے دو بھائیوں کی مدد سے انٹی‌بی میں اپنے پہلے سال کے دوران سچائی کے بیج بوئے۔‏ چونکہ وہاں لوگ پڑھنے کے بڑے شوقین ہیں اسلئے ہم وہاں بہت سی کتابیں اور رسالے پیش کرنے کے قابل ہوئے۔‏ ہفتے کے آخر پر،‏ انٹی‌بی میں منادی کرنے کیلئے ہم نے مُلک کے دارالحکومت کمپالا سے بھی کچھ بھائیوں کو بلوایا۔‏ یہاں میری پہلی عوامی تقریر پر مجھ سمیت پانچ افراد حاضر تھے۔‏

آئندہ تین سالوں میں اپنے بائبل طالبعلموں کو تیزی سے ترقی کرتے دیکھنا ہماری زندگی کے خوشگوارترین لمحے تھے۔‏ (‏۳-‏یوحنا ۴‏)‏ ایک سرکٹ اسمبلی پر ہمارے ۶ بائبل طالبعلموں نے بپتسمہ لیا۔‏ اُن میں سے بہتیروں نے کہا کہ ہمیں دُنیاوی ملازمت کیساتھ کُل‌وقتی خدمت کرتے دیکھ کر اُنہیں بھی ایسا کرنے کی تحریک ملی ہے۔‏

ہمیں ایسا لگا رہا تھا کہ ہماری ملازمت کی جگہ بھی خاصی پھلدار ثابت ہو سکتی ہے۔‏ ایک مرتبہ مَیں ائرپورٹ پر آگ بجھانے والے عملے کے ایک افسر کے پاس گیا اور اسے بائبل میں سے فردوسی زمین میں زندگی کی بابت بتایا۔‏ مَیں نے اُسی کی بائبل میں سے اسے بتایا کہ وفادار انسان اس زمین پر امن‌واتحاد کیساتھ رہینگے۔‏ سب کے پاس اپنے گھر ہونگے،‏ جنگ،‏ غربت،‏ بیماری اور موت ختم ہو جائیگی۔‏ (‏زبور ۴۶:‏۹؛‏ یسعیاہ ۳۳:‏۲۴؛‏ ۶۵:‏۲۱،‏ ۲۲؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۳،‏ ۴‏)‏ اپنی بائبل میں سے یہ سب کچھ پڑھ کر اسکی دلچسپی مزید بڑھ گئی۔‏ پس اُسی وقت بائبل مطالعہ شروع ہو گیا۔‏ وہ تمام اجلاسوں پر حاضر ہونے لگا۔‏ بہت جلد اس نے اپنی زندگی یہوواہ کیلئے مخصوص کر دی اور بپتسمہ لے لیا۔‏ بعدازاں،‏ وہ ہمارے ساتھ کُل‌وقتی خدمت کرنے لگا۔‏

جب ہم ابھی یوگینڈا ہی میں تھے تو وہاں دو مرتبہ خانہ‌جنگی ہوئی لیکن اس سے ہماری روحانی کارگزاریاں بالکل متاثر نہ ہوئیں۔‏ انٹرنیشنل ایجنسی کیلئے کام کرنے والے کچھ افراد کو ۶ ماہ کیلئے نیروبی،‏ کینیا منتقل کر دیا گیا۔‏ ہم میں سے یوگینڈا میں رہ جانے والوں نے بڑی احتیاط اور ہوشیاری کیساتھ مسیحی اجلاس منعقد کرانا اور منادی کرنا جاری رکھا۔‏

اپریل ۱۹۸۸ میں،‏ میری ملازمت کی مدت ختم ہو گئی اور ہمیں ایک بار پھر دوسری جگہ جانا پڑا۔‏ انٹی‌بی کلیسیا کی روحانی ترقی کو دیکھتے ہوئے ہم نے مطمئن دل کیساتھ انہیں خداحافظ کہا۔‏ جولائی ۱۹۹۷ میں،‏ ہمیں ایک بار پھر انٹی‌بی جانے کا موقع ملا۔‏ ہم نے اپنے سابقہ بائبل مطالعوں کو بزرگوں کے طور پر خدمت کرتے پایا۔‏ جب ہم نے عوامی اجلاس پر ۱۰۶ افراد کو بیٹھے دیکھا تو ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی!‏

نئے علاقوں میں جانا

کیا ہمیں مزید مواقع دستیاب ہونگے؟‏ میری اگلی ملازمت صومالیہ میں موگادیشو انٹرنیشنل ائرپورٹ پر تھی۔‏ ہم اس نئے علاقے میں اچھی طرح کام کرنے کا عزم رکھتے تھے۔‏

ہماری زیادہ‌تر منادی ایجنسی کے سٹاف،‏ فلپائن سے کام کرنے کیلئے آنے والے لوگوں اور دیگر غیرملکیوں تک محدود تھی۔‏ اکثر اُن سے ہماری ملاقات بازار میں ہوتی تھی۔‏ ہم انکے گھروں پر بھی دوستانہ ملاقات کیلئے جایا کرتے تھے۔‏ موقع‌شناسی،‏ خوش‌تدبیری،‏ ہوشیاری اور یہوواہ پر مکمل بھروسے کی بدولت ہم دوسروں کو بائبل تعلیم دینے کے قابل ہوئے اور یہ مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں میں پھلدار ثابت ہوا۔‏ دو سال کے بعد جنگ شروع ہونے سے پہلے ہم موگادیشو سے چلے گئے۔‏

اسکے بعد ائرپورٹ کی نگرانی کرنے والی تنظیم نے مجھے میانمار کے شہر رنگون بھیج دیا۔‏ ایک بار پھر ہمیں یہ موقع ملا کہ ہم خلوصدل لوگوں کو خدا کے مقصد کی بابت بتا سکیں۔‏ میانمار سے ہمیں تنزانیہ کے شہر دارالاسلام بھیج دیا گیا۔‏ یہاں گھرباگھر منادی کرنا قدرے آسان تھا کیونکہ دارالاسلام میں انگریزی بولنے والے لوگ تھے۔‏

ان تمام ممالک میں جہاں ہم نے کام کِیا ہمیں منادی کے دوران بہت کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔‏ تاہم،‏ کئی جگہوں پر یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی تھی۔‏ لیکن سرکاری اور بین‌الاقوامی ایجنسیوں کیساتھ منسلک ہونے کی وجہ سے لوگ ہماری کارگزاریوں کے متعلق زیادہ سوال نہیں کرتے تھے۔‏

میری ملازمت کی وجہ سے ہم دونوں میاں بیوی کو ۳۰ سال تک خانہ‌بدوشی کی زندگی گزارنی پڑی۔‏ تاہم،‏ مَیں اس ملازمت کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو منادی کرنے کی خواہش کی تکمیل کا واحد ذریعہ سمجھتا تھا۔‏ ہماری زندگی کا اوّلین مقصد خدا کی بادشاہت کے کاموں کو ترقی دینا تھا۔‏ ہم یہوواہ کے بہت شکرگزار ہیں کہ اس نے ہمیں مختلف حالات کو دانشمندی سے استعمال کرنے میں مدد دی اور یوں ہم نے دُوردراز تک خوشخبری پہنچانے کے شاندار شرف سے لطف اُٹھایا۔‏

اپنے گھر واپس لوٹنا

مَیں نے ۵۸ سال کی عمر میں وقت سے پہلے ریٹائر ہونے اور فلپائن جانے کا فیصلہ کِیا۔‏ ہم نے گھر واپس لوٹنے کے بعد یہوواہ سے دُعا کی کہ وہ ہماری راہنمائی کرے۔‏ اس اثنا میں ہم نے کویت کے ایک شہر کی کلیسیا کیساتھ خدمت شروع کر دی۔‏ جب ہم یہاں پہنچے تو وہاں صرف ۱۹ بادشاہتی مُناد تھے۔‏ پس خدمتگزاری کی کارگزاریوں کو منظم کِیا گیا۔‏ وہاں بہت سے بائبل مطالعے شروع کئے گئے اور یوں کلیسیا ترقی کرنے لگی۔‏ ایک وقت میں میری بیوی ۱۹ اور مَیں ۱۴ بائبل مطالعے کروا رہا تھا۔‏

جلد ہی ہمارا کنگڈم ہال چھوٹا پڑنے لگا۔‏ پس اس سلسلے میں ہم نے یہوواہ سے دُعا کی۔‏ ہمارے ایک روحانی بھائی اور اُنکی بیوی نے کچھ زمین عطیہ کے طور پر دے دی اور برانچ آفس نے نیا کنگڈم ہال تعمیر کرنے کیلئے قرضے کی منظوری دے دی۔‏ اس تعمیر نے ہمارے منادی کے کام پر بہت اچھا اثر ڈالا اور ہر ہفتے ہمارے اجلاسوں کی حاضری بڑھنے لگی۔‏ اس وقت ہم ۱۷ پبلشروں پر مشتمل ایک دوسری کلیسیا کی مدد کرنے کیلئے ۲ گھنٹے کا سفر کرتے ہیں۔‏

مَیں اور میری بیوی مختلف ملکوں میں خدمت انجام دینے کے شرف کی بہت قدر کرتے ہیں۔‏ جب ہم پیچھے مڑ کر اپنی خانہ‌بدوشی کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں بہت اطمینان ہوتا ہے کہ ہم نے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو یہوواہ کی بابت سیکھنے میں مدد دینے کیلئے اپنی زندگی کو بہترین طریقے سے استعمال کِیا ہے!‏

‏[‏صفحہ ۲۴ اور ۲۵ پر نقشہ]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

تنزانیہ

یوگینڈا

صومالیہ

ایران

بنگلہ‌دیش

میانمار

لاؤس

تھائی‌لینڈ

فلپائن

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

اپنی بیوی اوری کیساتھ