صلح کے فوائد
صلح کے فوائد
ایڈورڈ اور بل کبھی گہرے دوست تھے۔ ایڈورڈ زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا اور بل اس سے نفرت کرتا تھا۔ بیس سال پہلے، ایڈورڈ کے ایک فیصلہ کی وجہ سے بل کی ملازمت چھوٹ گئی اور انکی گہری دوستی بھی ختم ہو گئی تھی۔ اب ایڈورڈ معافی مانگنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ سکون سے مر سکے۔ تاہم، بل نے اسکی بات سننے سے انکار کر دیا۔
تقریباً تیس سال بعد، جب بل بسترِمرگ پر تھا تو اس نے ایڈورڈ کو معاف نہ کرنے کی وجہ بیان کی۔ ”ایڈورڈ کو اپنے بہترین دوست کیساتھ ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ مَیں بیس سال کے بعد اس سے دوبارہ صلح کرنا نہیں چاہتا تھا۔ مَیں غلط ہو سکتا ہوں لیکن مَیں ایسا ہی محسوس کرتا ہوں۔“ *
عام طور پر، ذاتی جھگڑوں کے نتائج اسقدر سنگین تو نہیں ہوتے لیکن ان سے لوگوں کے جذبات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ذرا سوچیں اگر کوئی ایڈورڈ کی طرح ضمیر کی ملامت پر صلح کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اسلئےکہ وہ محسوس کرتا ہے کہ اسکے فیصلہ سے دوسرے کو نقصان پہنچا ہے۔ تاہم، یہ بات اس کیلئے تکلیفدہ تھی کہ اسکے سابقہ دوست نے اس سے دوستی ختم کر دی ہے۔بل کی طرح کا نظریہ رکھنے والا شخص خود کو صحیح اور دوسرے کو غلط سمجھ سکتا ہے۔ اسکے خیال میں اسکے دوست نے اسے اچھی طرح جاننے کے باوجود کسی خاص مقصد کیلئے نقصان پہنچایا تھا۔ اکثر جب دو اشخاص میں کوئی اختلاف پیدا ہو جاتا ہے تو کوئی بھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا۔ اسطرح دو گہرے دوستوں کے درمیان لڑائیجھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔
انکے درمیان خاموش لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر راستہ بدل لیتے ہیں اور جب کسی جگہ ملتے ہیں تو ایک دوسرے کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ وہ دُور ہی سے ایک دوسرے سے نظریں چراتے، نفرت سے گھورتے یا آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ جب وہ باتچیت کرتے ہیں تو انکے الفاظ تلوار کی طرح چھیدتے ہیں۔
تاہم، اختلافات کے باوجود وہ کچھ معاملات پر متفق ہوتے ہیں۔ شاید، وہ تسلیم کریں کہ انکے سنجیدہ مسائل کے باعث انکی دوستی کا ختم ہو جانا افسوس کی بات ہے۔ دونوں اس درد کو محسوس کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ صلح کرنے کیلئے کیا کرنا چاہئے۔ لیکن کوئی پہل نہیں کرتا۔
دو ہزار سال پہلے، یسوع مسیح کے شاگرد کچھ مواقع پر شدید بحث میں پڑ گئے۔ (مرقس ۱۰:۳۵-۴۱؛ لوقا ۹:۴۶؛ ۲۲:۲۴) انکی ایک بحث کے بعد، یسوع مسیح نے پوچھا: ”تم راہ میں کیا بحث کرتے تھے؟“ شرمندگی کے باعث کسی نے جواب نہ دیا۔ (مرقس ۹:۳۳، ۳۴) یسوع مسیح کی تعلیمات نے انکے تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد دی۔ یسوع مسیح اور اسکے کچھ شاگردوں کی عمدہ مشورت جھگڑوں کو ختم کرنے اور صلح کرنے میں مدد کرتی ہے۔ آئیے دیکھیں کیسے؟
صلح کے طالب رہیں
”کیا آپ نے کبھی یہ کہا ہے کہ ”مَیں اس شخص سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ اگر کبھی میرا اس سے آمناسامنا بھی ہوا تو مَیں اس سے بات نہیں کرونگا۔“ آپکو ایسی صورتحال میں بائبل کے مندرجہذیل بیانات پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔
یسوع مسیح نے کہا: ”پس اگر تُو قربانگاہ پر اپنی نذر گذرانتا ہو اور وہاں تجھے یاد آئے کہ میرے بھائی کو مجھ سے کچھ شکایت ہے۔ تو وہیں قربانگاہ کے آگے اپنی نذر چھوڑ دے اور جاکر پہلے اپنے بھائی سے ملاپ کر۔ تب آکر اپنی نذر گذران۔“ (متی ۵:۲۳، ۲۴) اس نے یہ بھی کہا: ”اگر تیرا بھائی تیرا گُناہ کرے تو جا اور خلوت میں باتچیت کرکے اُسے سمجھا۔ اگر وہ تیری سنے تو تُو نے اپنے بھائی کو پا لیا۔“ (متی ۱۸:۱۵) اگر آپکی وجہ سے کسی کو تکلیف پہنچی ہے یا کسی نے آپکی دلآزاری کی ہے تو یسوع کے یہ الفاظ معاملے پر فوراً بات کرنے پر زور دیتے ہیں۔ آپکو ”حلممزاجی“ سے کام لینا چاہئے۔ (گلتیوں ۶:۱) اس باتچیت کا مقصد، خود کو سچا اور دوسرے کو جھوٹا ثابت کرنا نہیں بلکہ صلح کرنا ہے۔ کیا بائبل کی یہ مشورت عملی ہے؟
ارنسٹ ایک بہت بڑے دفتر میں سپروائزر کے طور پر کام کرتا ہے۔ * کئی سالوں سے، وہ مختلف لوگوں کے سنجیدہ معاملات کو حل کرتا اور انکے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھتا ہے۔ وہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ذاتی لڑائیجھگڑے پیدا ہو جانا بہت آسان ہیں۔ وہ کہتا ہے: ”کئی مواقع پر مجھے دوسروں کیساتھ اختلافات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مَیں صلح کرنے کی غرض سے انکے پاس جاتا اور بیٹھ کر مسئلے پر باتچیت کرتا ہوں۔ اسطرح مَیں دوبارہ انکے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر لیتا ہوں۔“
الیسا کی دوستی مختلف رنگونسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ہے۔ وہ کہتی ہے: ”بعضاوقات مَیں کسی سے کچھ کہنے کے بعد، سوچتی ہوں کہ شاید میری وجہ سے کسی کو تکلیف پہنچی ہے۔ مَیں اس شخص کے پاس جاکر اُس سے معافی مانگتی ہوں۔ غالباً مَیں ضرورت سے زیادہ معافی مانگتی ہوں۔ لیکن ایسا کرنا مجھے اچھا لگتا ہے۔ مَیں جانتی ہوں کہ اب کوئی غلطفہمی باقی نہیں رہی۔“
صلح میں رکاوٹیں
ذاتی جھگڑوں میں صلح کرنا عموماً مشکل ہوتا ہے۔ کیا آپ ہمیشہ یہ کہتے ہیں: ”مَیں صلح کرنے کیلئے پہل کیوں کروں؟ غلطی اسکی تھی۔“ یا کیا آپ صلح کرنے کیلئے دوسرے شخص کے پاس جاتے ہیں اور اس شخص کو یہ کہتے سنتے ہیں ”مَیں تم سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا“؟ جذباتی تکلیف کی وجہ سے کچھ لوگ ایسا ردِعمل دکھاتے ہیں۔ امثال ۱۸:۱۹ کہتی ہے: ”رنجیدہ بھائی کو راضی کرنا محکم شہر لے لینے سے زیادہ مشکل ہے اور جھگڑے قلعہ کے بینڈوں کی مانند ہیں۔“ پس دوسرے شخص کے احساسات کا خیال رکھیں۔ اگر وہ آپکو نظرانداز کر دیتا ہے تو کچھ وقت انتظار کرنے کے بعد دوبارہ کوشش کریں۔ پھر شاید آپ ”محکم شہر“ جیت لیں اور صلح کے دروازے سے ”بینڈے“ یعنی رکاوٹ دُور ہو جائے۔
صلح کی راہ میں عزتِنفس یا اَنا بھی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ کچھ لوگ دوسروں سے معافی مانگنے یا بات کرنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ کیا صلح نہ کرنے سے کسی شخص کی عزت بڑھتی یا گھٹتی؟ کیا اَنا کی بابت ایسا نظریہ تکبر پر قابو پانے میں ہماری مدد کر سکتا ہے؟
بائبل نویس یعقوب جھگڑالو روح اور تکبر کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ بعض مسیحیوں کے درمیان جاری رہنے والے جھگڑوں کا ذکر کرنے کے بعد، وہ کہتا ہے: ”خدا مغروروں کا مقابلہ کرتا ہے مگر فروتنوں کو توفیق بخشتا ہے۔“ (یعقوب ۴:۱-۳، ۶) غرور کیسے صلح کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے؟
مغرور شخص خود کو دوسروں سے بہتر خیال کرتا ہے۔ ایسی سوچ اسے سچائی سے دُور لے جا سکتی ہے۔ مغرور اشخاص محسوس کرتے ہیں کہ انہیں دوسروں کو اچھا یا بُرا کہنے کا اختیار ہے۔ کس لحاظ سے؟ جب اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں تو وہ سوچتے ہیں کہ جس شخص سے انکا جھگڑا ہوا ہے وہ کبھی بہتر نہیں ہو سکتا۔ تکبر دوسروں سے نفرت کرنے، انہیں نظرانداز کرنے اور معافی نہ مانگنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اسلئے مغرور لوگ صلح کرنے کی بجائے جھگڑے کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔
جیسے سڑک پر کسی عارضی رکاوٹ سے ٹریفک رُک سکتی ہے۔ اسی طرح تکبر عموماً صلح کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ پس، اگر آپ کسی سے صلح کرنا چاہتے ہیں تو آپکو تکبر کا مقابلہ کرنا پڑ سکتا ہے۔ آپ تکبر پر کیسے قابو پا سکتے ہیں؟ فروتنی یا عاجزی فائدہمند ثابت ہو سکتی ہے۔
تکبر پر قابو پائیں
بائبل فروتنی یا عاجزی پر زور دیتی ہے: ”دولت اور عزتوحیات خداوند [یہوواہ] کے خوف اور فروتنی کا اَجر ہیں۔“ (امثال ۲۲:۴) زبور ۱۳۸:۶ میں ہم خدا کا فروتنوں اور مغروروں کے بارے میں نظریہ پڑھتے ہیں: ”خداوند [یہوواہ] اگرچہ بلندوبالا ہے توبھی خاکسار کا خیال رکھتا ہے۔ لیکن مغرور کو دُور ہی سے پہچان لیتا ہے۔“
بہت سے لوگ فروتنی کو کمزوری خیال کرتے ہیں۔ دُنیاوی حکمران غالباً ایسا ہی نظریہ رکھتے ہیں۔ اگرچہ قومیں انکے تابع ہوتی ہیں توبھی سیاسی لیڈر فروتنی سے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا مشکل پاتے ہیں۔ حال ہی میں جب ایک حکومتی اہلکار نے ایک ناخوشگوار واقعہ کی بابت اپنی ناکامی کو تسلیم کرے ہوئے معافی مانگی کہ ”مجھے بہت افسوس ہے“ تو اسکے یہ الفاظ ایک اہم خبر بن گئے۔
غور کریں ایک لغت بیان کرتی ہے کہ ”فروتنی غرور کی ضد ہے۔ اسکا مطلب خود کو ادنیٰ یا ناچیز سمجھنا ہے۔“ لہٰذا فروتن بننا دراصل خود کو زیادہ اہم نہ سمجھنے کا خیال پیش کرتا ہے۔ پس فروتنی سے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا اور معافی مانگنا کسی کی اہمیت کو کم کرنے کی بجائے اُسکی عزت میں امثال ۱۸:۱۲۔
اضافہ کرتا ہے۔ بائبل بیان کرتی ہے: ”آدمی کے دل میں تکبّر ہلاکت کا پیشرو ہے اور فروتنی عزت کی پیشوا۔“—ایک اُستاد نے اپنی غلطیوں کیلئے معافی نہ مانگنے والے سیاسی راہنماؤں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ”بدقسمتی سے انکا خیال ہے کہ ایسا کرنا کمزوری کی علامت ہے۔ غیرمحفوظ اور کمزور لوگ ہی شاید کہیں، مجھے معاف کر دیں۔ یہ کہنا مجھ سے غلطی ہوئی ہے دلیری اور حوصلہمندی کا تقاضا کرتا ہے۔ ایسا کرنے سے کوئی حقیر یا چھوٹا نہیں ہو جاتا۔“ سیاسی راہنماؤں کے علاوہ، دوسرے لوگوں کے سلسلے میں بھی یہ بات سچ ہے۔ اگر آپ فروتنی کے ذریعے تکبر پر قابو پانے کی کوشش کرینگے تو ذاتی جھگڑوں میں صلح کا امکان زیادہ ہوگا۔ غور کریں کہ ایک خاندان کو اس سچائی کا کیسے پتہ چلا۔
ایک غلطفہمی نے جولی اور اسکے چھوٹے بھائی ولیم میں کھچاؤ یا کشیدگی پیدا کر دی۔ ولیم، جولی اور اسکے شوہر جوزف سے اتنا ناراض ہوگیا کہ اس نے ان سے اپنے تمام تعلقات ختم کر دئے۔ یہاں تک کہ اس نے جولی اور جوزف کے دئے ہوئے تمام تحائف بھی واپس کر دئے۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ، ان دونوں کا رشتہ مزید کمزور ہو گیا۔
تاہم، جوزف نے متی ۵:۲۳، ۲۴ پر عمل کرنے کا فیصلہ کِیا۔ اس نے حلممزاجی سے اپنے سالے کو کچھ خطوط لکھے جن میں اس سے اپنی غلطی کیلئے معافی مانگی۔ اس نے اپنی بیوی کی حوصلہافزائی کی کہ وہ اپنے بھائی کو معاف کر دے۔ جب ولیم نے دیکھا کہ جولی اور جوزف واقعی صلح کرنا چاہتے ہیں تو اس نے نرم رویہ اختیار کر لیا۔ ولیم اپنی بیوی کیساتھ، جولی اور جوزف سے ملنے کیلئے آیا اور اسطرح ان سب نے اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے ایک دوسرے سے معافی مانگی۔ اسطرح انکا رشتہ دوبارہ بحال ہو گیا۔
اگر آپ کسی کیساتھ ذاتی اختلاف کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو بائبل تعلیمات پر عمل کریں اور اس شخص کیساتھ صلح کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔ ایسا کرنے میں یہوواہ آپکی مدد کریگا۔ خدا نے بنیاسرائیل سے جوکچھ کہا وہ آپکے معاملے میں بھی سچ ہو سکتا ہے: ”کاش کہ تُو میرے احکام کا شنوا ہوتا اور تیری سلامتی نہر کی مانند اور تیری صداقت سمندر کی موجوں کی مانند ہوتی۔“—یسعیاہ ۴۸:۱۸۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 3 سٹینلی کلاوڈ اور لین اولسن کی کتاب دی مارو بوائز—پائنیرز آن دی فرنٹ لائنز آف براڈ کاسٹ جرنلزم سے اقتباس۔
^ پیراگراف 12 بعض نام تبدیل کر دئے گئے ہیں۔
[صفحہ ۷ پر تصویریں]
معافی اکثر صلح پر منتج ہوتی ہے