مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اپنے لئے نہ جئیں

اپنے لئے نہ جئیں

اپنے لئے نہ جئیں

‏”‏[‏مسیح]‏ سب کے واسطے مؤا کہ جو جیتے ہیں وہ آگے کو اپنے لئے نہ جئیں۔‏“‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۵:‏۱۵‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ یسوع نے اپنے پیروکاروں کو کونسا خاص حکم دیا اور اُنہوں نے اس حکم پر کیسے عمل کِیا؟‏

رات کافی گزر چکی ہے۔‏ چند ہی گھنٹوں میں یسوع اُن تمام لوگوں کیلئے اپنی جان دینے والا ہے جو اُس پر ایمان لاتے ہیں۔‏ لیکن اس سے پہلے یسوع اپنے رسولوں کو بہت سی اہم باتیں بتاتا ہے اور اُنکو ایک خاص حکم بھی دیتا ہے۔‏ مسیحیوں کے طور پر اُنکی شناخت اس حکم پر عمل کرنے سے ہی ہونی تھی۔‏ یسوع نے کہا:‏ ”‏مَیں تمہیں ایک نیا حکم دیتا ہوں کہ ایک دوسرے سے محبت رکھو جیسے مَیں نے تُم سے محبت رکھی تُم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔‏ اگر آپس میں محبت رکھو گے تو اس سے سب جانینگے کہ تُم میرے شاگرد ہو۔‏“‏—‏یوحنا ۱۳:‏۳۴،‏ ۳۵‏۔‏

۲ سچے مسیحیوں کو ایک دوسرے سے اتنی محبت ہے کہ وہ اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کیلئے قربانیاں دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ ”‏اپنی جان اپنے دوستوں کیلئے“‏ قربان کرنے کو بھی تیار ہیں۔‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۱۳‏)‏ کیا ابتدائی مسیحیوں نے یسوع کے اس حکم پر عمل کِیا تھا؟‏ جی‌ہاں۔‏ یسوع کے دَور سے ایک سو سال بعد طرطلیان نامی ایک تاریخ‌دان نے اپنی کتاب میں مسیحیوں کے بارے میں بیان کِیا۔‏ اُس نے کہا کہ اُس دَور میں لوگ مسیحیوں کے بارے میں یوں کہہ رہے تھے:‏ ’‏دیکھو کہ وہ ایک دوسرے کیلئے کتنی محبت رکھتے ہیں!‏ وہ ایک دوسرے کی خاطر جان تک دینے کو تیار ہیں۔‏‘‏

۳،‏ ۴.‏ (‏ا)‏ ہمیں اپنی خودغرضی پر قابو پانے کی کوشش کیوں کرنی چاہئے؟‏ (‏ب)‏ اس مضمون میں ہم کس بات پر غور کرینگے؟‏

۳ ہمیں بھی ’‏ایک دوسرے کا بار اُٹھانے اور یوں مسیح کی شریعت کو پورا کرنے‘‏ کو کہا گیا ہے۔‏ (‏گلتیوں ۶:‏۲‏)‏ اسکے علاوہ ہمیں ”‏[‏یہوواہ]‏ اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھنے اور اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھنے‘‏ کا بھی حکم دیا گیا ہے۔‏ (‏متی ۲۲:‏۳۷-‏۳۹‏)‏ لیکن ان تمام احکام پر عمل کرنے کیلئے ہمیں ایک بہت بڑی رُکاوٹ کا سامنا کرنا ہوگا۔‏ یہ رُکاوٹ ہماری خودغرضی ہے۔‏ انسان گنہگار ہونے کی وجہ سے ہی خودغرض ہوتا ہے۔‏ آجکل ہمیں سکول اور ملازمت پر شدید مقابلہ‌بازی کا سامنا ہے۔‏ ہمیں روزمرّہ زندگی کے مسائل سے بھی نپٹنا پڑتا ہے۔‏ اس دباؤ کی وجہ سے ہمیں اپنی خودغرضی پر قابو پانا اَور بھی مشکل لگتا ہے۔‏ اسکے علاوہ دُنیا کی خودغرضانہ روش میں دن‌بدن اضافہ ہو رہا ہے۔‏ پولس رسول نے ہمارے زمانے ہی کے بارے میں آگاہ کِیا تھا کہ ”‏اخیر زمانہ میں .‏ .‏ .‏ آدمی خودغرض“‏ ہونگے۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱،‏ ۲‏۔‏

۴ یسوع نے اپنے پیروکاروں کو خودغرضی پر قابو پانے کے تین اقدام بتائے تھے۔‏ آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کونسے اقدام ہیں اور ہم ان پر عمل کیسے کر سکتے ہیں۔‏

خودغرضی کا مقابلہ کریں

۵.‏ یسوع نے اپنے شاگردوں پر کیا ظاہر کِیا اور وہ یہ سُن کر افسردہ کیوں ہوئے؟‏

۵ یسوع قیصریہ فلپی کے حسین علاقے میں منادی کر رہا تھا۔‏ اُس وقت اُس نے اپنے شاگردوں پر ظاہر کِیا کہ ”‏اُسے ضرور ہے کہ یرؔوشلیم کو جائے اور بزرگوں اور سردارکاہنوں اور فقیہوں کی طرف سے بہت دُکھ اُٹھائے اور قتل کِیا جائے اور تیسرے دن جی اُٹھے۔‏“‏ (‏متی ۱۶:‏۲۱‏)‏ یسوع کے شاگرد اس بات کو سُن کر بہت افسردہ ہوئے کیونکہ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ یسوع اپنی بادشاہت زمین پر قائم کرنے والا ہے۔‏—‏لوقا ۱۹:‏۱۱؛‏ اعمال ۱:‏۶‏۔‏

۶.‏ یسوع نے پطرس کو کیوں ٹوکا؟‏

۶ یسوع کی یہ بات سن کر پطرس نے اُسے الگ لے جا کر اعتراض کِیا کہ ”‏خدا نہ کرے۔‏ یہ تجھ پر ہرگز نہیں آنے کا۔‏“‏ اس پر یسوع نے پطرس کو سختی سے ٹوکتے ہوئے کہا:‏ ”‏اَے شیطان میرے سامنے سے دُور ہو۔‏ تُو میرے لئے ٹھوکر کا باعث ہے کیونکہ تُو خدا کی باتوں کا نہیں بلکہ آدمیوں کی باتوں کا خیال رکھتا ہے۔‏“‏ یسوع اور پطرس کی سوچ میں کتنا فرق تھا۔‏ خدا نے یسوع کیلئے جو راہ مقرر کی تھی اُس میں قربانیاں دینا اور آخرکار ایک اذیت‌ناک موت مرنا شامل تھا۔‏ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی یسوع نے اس راہ کو خوشی سے اختیار کِیا۔‏ اسکے برعکس پطرس نے کہا:‏ ”‏خدا نہ کرے۔‏“‏ دراصل وہ یسوع سے کہہ رہا تھا کہ ’‏خود پر رحم کر۔‏ تجھے ایسی قربانیاں نہیں دینی ہونگی۔‏‘‏ ایسا کرنے میں پطرس کی نیت ہرگز بُری نہ تھی۔‏ لیکن ایک لمحے کیلئے وہ شیطان کی کٹھ‌پتلی بن گیا۔‏ اسلئے یسوع نے اُسے ٹوکا تھا۔‏ پطرس نے ”‏خدا کی باتوں کا نہیں بلکہ آدمیوں کی باتوں کا خیال“‏ رکھا۔‏—‏متی ۱۶:‏۲۲،‏ ۲۳‏۔‏

۷.‏ متی ۱۶:‏۲۴ میں یسوع اپنے شاگردوں کو کونسے اقدام اُٹھانے کو کہتا ہے؟‏

۷ آجکل بہتیرے لوگ پطرس جیسی سوچ رکھتے ہیں۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ’‏خود پر رحم کرو۔‏ قربانیاں دینے کی کیا ضرورت ہے؟‏ آسان راہ کو اختیار کرو۔‏‘‏ لیکن مسیحیوں کو ایسی سوچ نہیں اپنانی چاہئے۔‏ یسوع نے کہا:‏ ”‏اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی کا انکار کرے اور اپنی صلیب [‏سُولی،‏ این‌ڈبلیو‏]‏ اُٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے۔‏“‏ (‏متی ۱۶:‏۲۴‏)‏ ایک کتاب میں یسوع کے ان الفاظ کی تشریح یوں کی گئی ہے:‏ ”‏یسوع اس آیت میں لوگوں کو اپنے شاگرد بننے کی دعوت نہیں دے رہا بلکہ وہ اپنے شاگردوں ہی سے مخاطب ہے۔‏ وہ اُنکو اس بات پر غور کرنے کو کہتا ہے کہ شاگرد ہونے میں کیا کچھ شامل ہے۔‏“‏ متی ۱۶:‏۲۴ میں یسوع اپنے شاگردوں کو خودغرضی سے نپٹنے کے تین اقدام بتاتا ہے۔‏ آئیے ہم ان پر ایک ایک کرکے غور کرتے ہیں۔‏

۸.‏ اپنی خودی کا انکار کرنے کا کیا مطلب ہے؟‏

۸ سب سے پہلے یسوع نے اپنے شاگردوں کو اپنی خودی کا انکار کرنے کو کہا۔‏ اسکا مطلب ہے کہ ہمیں اپنی من‌مانی کرنے کی بجائے یہوواہ کی مرضی بجا لانی چاہئے اور اپنے فائدے کا سوچنے کی بجائے یہوواہ کو خوش کرنا چاہئے۔‏ اسطرح کرنے سے ہم ”‏اپنے نہیں“‏ رہتے کیونکہ ہم اپنی زندگی یہوواہ خدا کے سپرد کر دیتے ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ اسکے علاوہ اپنی خودی کا انکار کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم یہوواہ کو خوش کرنے کیلئے صرف کبھی‌کبھار اپنی کسی پسند کو قربان کریں۔‏ اسکا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم اپنی ہر خواہش اور پسند کا انکار کریں۔‏ بلکہ ہمیں خدا کی مرضی پوری کرنے کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دینا چاہئے خواہ یہ ہمارے لئے کتنا مشکل کیوں نہ ہو۔‏ اسلئے ہم خدا سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی کو اُسکی خدمت کرنے میں وقف کرینگے۔‏ پھر ہم اس وعدے کا اظہار کرتے ہوئے بپتسمہ لیتے ہیں اور اس وعدے کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔‏

۹.‏ (‏ا)‏ یسوع کے زمانے میں لفظ ’‏سُولی‘‏ کیا معنی رکھتا تھا؟‏ (‏ب)‏ مسیحیوں کیلئے ’‏سُولی اُٹھانے‘‏ کا کیا مطلب ہے؟‏

۹ پھر یسوع نے اپنے شاگردوں کو اپنی سُولی اُٹھانے کو کہا۔‏ یسوع کے زمانے میں جب کسی مجرم کو موت کی سزا دی جاتی تو اُسے سُولی پر لٹکا دیا جاتا تھا۔‏ اسطرح لفظ ’‏سُولی‘‏ اذیت،‏ بدنامی اور سزائےموت کے معنی رکھنے لگا۔‏ یسوع نے لفظ ’‏سُولی‘‏ استعمال کرکے صاف ظاہر کِیا کہ چونکہ مسیحی دُنیا کے نہیں ہیں اسلئے اُنہیں اذیت سہنے،‏ بدنام ہونے حتیٰ‌کہ جان دینے کیلئے بھی تیار ہونا چاہئے۔‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۱۸-‏۲۰‏)‏ مسیحی اُونچے معیار رکھنے کی وجہ سے دُنیا سے فرق ہیں۔‏ اسلئے لوگ اُنکو ”‏لعن‌طعن کرتے ہیں۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۴:‏۴‏)‏ اُنہیں سکول میں،‏ ملازمت پر یہاں تک کہ اپنے گھروالوں سے بھی لعن‌طعن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ (‏لوقا ۹:‏۲۳‏)‏ لیکن ان سب اذیتوں کے باوجود ہم یسوع کے نام پر ذلیل ہونے کو تیار ہیں کیونکہ ہم نے اپنی خودی کا انکار کِیا ہے۔‏ یسوع نے کہا:‏ ”‏جب میرے سبب سے لوگ تمکو لعن‌طعن کرینگے اور ستائینگے اور ہر طرح کی بُری باتیں تمہاری نسبت ناحق کہینگے تو تُم مبارک ہوگے۔‏ خوشی کرنا اور نہایت شادمان ہونا کیونکہ آسمان پر تمہارا اجر بڑا ہے۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ جی‌ہاں،‏ ہم خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کو دُنیا میں باعزت کہلانے سے کہیں زیادہ اہم خیال کرتے ہیں۔‏

۱۰.‏ یسوع کے پیچھے ہو لینے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۱۰ آخرکار یسوع نے اپنے شاگردوں کو کہا کہ میرے پیچھے ہو لو۔‏ یونانی زبان میں کسی کے پیچھے ہو لینے سے مُراد ”‏کسی کے ساتھ ساتھ چلنا“‏ ہے۔‏ ۱-‏یوحنا ۲:‏۶ میں لکھا ہے:‏ ”‏جو کوئی یہ کہتا ہے کہ مَیں [‏خدا]‏ میں قائم ہوں تو چاہئے کہ یہ بھی اُسی طرح چلے جسطرح [‏مسیح]‏ چلتا تھا۔‏“‏ یسوع محبت کی راہ پر چلتا تھا۔‏ وہ ہرگز خودغرض نہیں تھا بلکہ اُسکو یہوواہ خدا اور اپنے شاگردوں سے گہری محبت تھی۔‏ پولس نے کہا کہ ”‏مسیح نے .‏ .‏ .‏ اپنی خوشی نہیں کی۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۵:‏۳‏)‏ یہاں تک کہ جب یسوع کو بھوک لگ رہی تھی یا وہ آرام کرنا چاہتا تھا تب بھی وہ پہلے دوسروں کا خیال رکھتا تھا۔‏ (‏مرقس ۶:‏۳۱-‏۳۴‏)‏ یسوع جوش‌وخروش کیساتھ لوگوں کو بادشاہت کے بارے میں سکھاتا رہا۔‏ ہمیں بھی اُسکے نقشِ‌قدم پر چلتے ہوئے جوش‌وخروش کیساتھ ’‏سب قوموں کو شاگرد بنانا اور اُنکو یہ تعلیم دینی چاہئے کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جنکا یسوع نے حکم دیا۔‏‘‏ (‏متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ یسوع نے ہمارے لئے ایک نمونہ قائم کِیا ہے۔‏ ہمیں ”‏اُسکے نقشِ‌قدم پر“‏ چلنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔‏—‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۱‏۔‏

۱۱.‏ اپنی خودی کا انکار کرنا،‏ سُولی اُٹھانا اور یسوع کے پیچھے ہو لینا مسیحیوں کیلئے اتنا ضروری کیوں ہے؟‏

۱۱ انسان کی خودغرضی ایک ایسے زہر کی مانند ہے جو محبت کے جذبے کو ختم کر دیتا ہے۔‏ جب ہم اپنی خودی کا انکار کرتے،‏ اپنی سُولی اُٹھاتے اور یسوع کے پیچھے ہو لیتے ہیں تو ہم اس زہر کے اثر کو ختم کر دیتے ہیں۔‏ اسکے علاوہ خودغرض شخص قربانیاں دینے کو تیار نہیں ہوتا لیکن یسوع نے کہا تھا کہ ”‏جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے اُسے کھوئیگا اور جو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوئیگا اُسے پائیگا۔‏ اور اگر آدمی ساری دُنیا حاصل کرے اور اپنی جان کا نقصان اُٹھائے تو اُسے کیا فائدہ ہوگا؟‏ یا آدمی اپنی جان کے بدلے کیا دیگا؟‏“‏—‏متی ۱۶:‏۲۵،‏ ۲۶‏۔‏

ہم دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتے

۱۲،‏ ۱۳.‏ (‏ا)‏ دولت‌مند جوان نے یسوع سے کیوں مشورہ لیا؟‏ (‏ب)‏ یسوع نے اُس جوان کو کونسی ہدایت دی اور اسکی کیا وجہ تھی؟‏

۱۲ چند مہینے پہلے یسوع نے اپنے شاگردوں کو اپنی خودی کا انکار کرنے کو کہا تھا۔‏ اب ایک دولتمند جوان اُسکے پاس آ کر کہتا ہے:‏ ”‏اَے اُستاد مَیں کونسی نیکی کروں تاکہ ہمیشہ کی زندگی پاؤں؟‏“‏ یسوع چند حکموں کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اِن ”‏حکموں پر عمل کر۔‏“‏ وہ جوان کہتا ہے کہ ”‏مَیں نے اِن سب پر عمل کِیا ہے۔‏“‏ یہ جوان خدا کے حکموں پر عمل تو کر رہا تھا لیکن وہ جانتا تھا کہ یہ کافی نہیں تھا۔‏ اسلئے وہ پوچھتا ہے کہ ”‏اب مجھ میں کس بات کی کمی ہے؟‏“‏ یسوع اُس جوان کے خلوص کو دیکھ کر اُسے یہ ہدایت دیتا ہے:‏ ”‏اگر تُو کامل ہونا چاہتا ہے تو جا اپنا مال‌واسباب بیچ کر غریبوں کو دے۔‏ تجھے آسمان پر خزانہ ملیگا اور آکر میرے پیچھے ہو لے۔‏“‏—‏متی ۱۹:‏۱۶-‏۲۱‏۔‏

۱۳ یسوع جانتا تھا کہ پورے دل سے یہوواہ کی خدمت کرنے کیلئے اُس جوان کو اپنی دولت کو الوِداع کہنا ہوگا۔‏ اسی طرح اگر ہم واقعی یسوع کے شاگرد ہونا چاہتے ہیں تو ہم دو مالکوں یعنی ”‏خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔‏“‏ (‏متی ۶:‏۲۴‏)‏ ہماری ”‏آنکھ درست“‏ ہونی چاہئے جسکا مطلب ہے کہ ہماری توجہ روحانی باتوں پر ہونی چاہئے۔‏ (‏متی ۶:‏۲۲‏)‏ یسوع نے دولت‌مند جوان کو اپنی دولت غریبوں میں بانٹ دینے کو کہا کیونکہ یہ قربانی دینے کے برابر ہوتا ہے۔‏ انعام کے طور پر اُسے آسمان پر خزانہ ملتا۔‏ یہ خزانہ ہمیشہ کی زندگی اور یسوع کیساتھ آسمان میں حکومت کرنے کے موقعے کی شکل میں ہوتا۔‏ افسوس کی بات ہے کہ وہ جوان اپنی خودی کا انکار کرنے کو تیار نہیں تھا۔‏ وہ یسوع کی بات سُن کر ”‏غمگین ہو کر چلا گیا کیونکہ بڑا مالدار تھا۔‏“‏ (‏متی ۱۹:‏۲۲‏)‏ لیکن یسوع کے اکثر شاگردوں نے اُسکی ہدایت پر عمل کِیا۔‏

۱۴.‏ یسوع کی ہدایت سُن کر چار ماہی‌گیر کیا کرنے کو تیار تھے؟‏

۱۴ اس واقعے کے تقریباً دو سال پہلے یسوع نے پطرس،‏ اندریاس،‏ یعقوب اور یوحنا کو بھی کچھ ایسی ہی ہدایت دی تھی۔‏ اُس وقت یہ چاروں ماہی‌گیر اپنے اپنے جال کی مرمت کرنے اور مچھلیاں پکڑنے میں مصروف تھے۔‏ یسوع نے اُنکے پاس جا کر کہا:‏ ”‏میرے پیچھے چلے آؤ تو مَیں تمکو آدم‌گیر بناؤنگا۔‏“‏ اس پر ان چاروں نے سب کچھ چھوڑ دیا اور یسوع کے پیچھے ہو لئے۔‏—‏متی ۴:‏۱۸-‏۲۲‏۔‏

۱۵.‏ ایک بہن نے یسوع کی پیروی کرنے کیلئے کونسی قربانیاں دیں؟‏

۱۵ آج بھی بہت سے مسیحیوں نے ان چار ماہی‌گیروں کی طرح یسوع کی ہدایت پر عمل کِیا ہے۔‏ وہ دولت اور شہرت کو قربان کرکے یہوواہ کی خدمت کرنے لگے ہیں۔‏ اس سلسلے میں دبورہ کی مثال پر غور کریں۔‏ وہ بتاتی ہے:‏ ”‏جب مَیں ۲۲ سال کی تھی تو مَیں اپنی زندگی کے ایک اہم موڑ پر پہنچی۔‏ مَیں ۶ مہینے سے یہوواہ کے گواہوں سے بائبل کے بارے میں سیکھ رہی تھی۔‏ مَیں اپنی زندگی یہوواہ کیلئے وقف کرنا چاہتی تھی لیکن میرے خاندان کو یہ بات بالکل گوارا نہ تھی۔‏ دراصل میرا خاندان کروڑپتی تھا اور اُنہیں یہ خوف ستا رہا تھا کہ میری وجہ سے خاندان کی بدنامی ہوگی۔‏ اُنہوں نے مجھے ۲۴ گھنٹوں کے اندر اندر اس بات پر فیصلہ کرنے کو کہا کہ مَیں کیا چاہتی ہوں—‏عیش‌وعشرت کی زندگی گزارنا یا پھر یہوواہ کی خدمت کرنا۔‏ اُنہوں نے مجھے دھمکی دی کہ اگر مَیں یہوواہ کے گواہوں سے رابطہ توڑنے پر راضی نہ ہوئی تو وہ مجھے ورثے سے خارج کرینگے۔‏ مَیں نے یہوواہ کی خدمت کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اُسکی مدد سے مَیں آج تک اس فیصلے پر قائم ہوں۔‏ دیکھنے میں تو میرے خاندان‌والے ٹھاٹ کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن دراصل وہ بالکل خوش نہیں ہیں۔‏ انکے برعکس مجھے خوشیاں ہی خوشیاں نصیب ہوئی ہیں۔‏ اب مَیں ۴۲ سال سے کُل‌وقتی طور پر یہوواہ کی خدمت کر رہی ہوں۔‏ اس عرصہ کے دوران مَیں اپنے شوہر کیساتھ ۱۰۰ سے زیادہ لوگوں کو بائبل کی سچائیاں سکھا چکی ہوں۔‏ یہ لوگ میرے روحانی بچوں کی طرح ہیں۔‏ مَیں اُنکو دُنیا کی کسی بھی دولت سے زیادہ قیمتی خیال کرتی ہوں۔‏“‏ دبورہ کی طرح لاکھوں یہوواہ کے گواہوں نے ایسی ہی خوشیاں دیکھی ہیں۔‏ کیا آپ بھی ان میں شامل ہیں؟‏

۱۶.‏ ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم اپنی خودی کا انکار کر رہے ہیں؟‏

۱۶ دُنیابھر کے ہزاروں یہوواہ کے گواہ اپنی خودی کا انکار کرتے ہوئے کُل‌وقتی مُنادوں کے طور پر خدا کی خدمت کرتے ہیں۔‏ بہتیرے گواہ کُل‌وقتی طور پر مُنادی نہیں کر سکتے۔‏ پھر بھی وہ جوش‌وخروش کیساتھ اس کام میں حصہ لے رہے ہیں۔‏ والدین بھی اپنے بچوں کو خدا کی راہ میں تربیت دینے کیلئے طرح طرح کی قربانیاں دے رہے ہیں۔‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ کے تمام گواہ مختلف طریقوں سے خدا کی بادشاہت کی حمایت کر سکتے ہیں۔‏—‏متی ۶:‏۳۳‏۔‏

یسوع کی محبت ہمیں مجبور کرتی ہے

۱۷.‏ مسیحی کس وجہ سے اپنی خودی کا انکار کرتے ہیں؟‏

۱۷ اپنی خودی کا انکار کرنا آسان نہیں ہے۔‏ توپھر مسیحی ایسا کیوں کرتے ہیں؟‏ پولس اس کا جواب یوں دیتا ہے:‏ ”‏مسیح کی محبت ہم کو مجبور کر دیتی ہے اسلئے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ .‏ .‏ .‏ ایک سب کے واسطے مؤا .‏ .‏ .‏ اور وہ اسلئے سب کے واسطے مؤا کہ جو جیتے ہیں وہ آگے کو اپنے لئے نہ جئیں بلکہ اس کے لئے جو اُن کے واسطے مؤا اور پھر جی اُٹھا۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۵:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ جی‌ہاں،‏ مسیح کی محبت ہمیں اپنی خودی کا انکار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔‏ یسوع نے ہماری خاطر اپنی جان تک قربان کی ہے۔‏ کیا ہمیں یسوع کے لئے جینے کے لئے تیار نہیں ہونا چاہئے؟‏ ہم خدا اور یسوع کی محبت کے لئے بہت شکرگزار ہیں۔‏ اسلئے ہم یہوواہ کے لئے اپنی زندگی وقف کرکے یسوع کے شاگرد بن گئے ہیں۔‏—‏یوحنا ۳:‏۱۶؛‏ ۱-‏یوحنا ۴:‏۱۰،‏ ۱۱‏۔‏

۱۸.‏ اپنے لئے نہ جینے سے ہمیں کونسا انعام ملیگا؟‏

۱۸ اپنے لئے نہ جینے سے ہمیں کونسا انعام ملیگا؟‏ یہی سوال پطرس نے یسوع سے کِیا تھا۔‏ پطرس نے باقی رسولوں سمیت واقعی اپنی خودی کا انکار کِیا تھا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏دیکھ ہم تو سب کچھ چھوڑ کر تیرے پیچھے ہو لئے ہیں۔‏ پس ہم کو کیا ملیگا؟‏“‏ (‏متی ۱۹:‏۲۷‏)‏ یسوع نے جواب دیا کہ اُنہیں اُسکے ساتھ آسمان پر حکمرانی کرنے کا شرف ملیگا۔‏ (‏متی ۱۹:‏۲۸‏)‏ اسی سوال کے جواب میں یسوع نے ایک ایسے انعام کی طرف اشارہ کِیا جو اُسکے تمام شاگرد حاصل کر سکتے ہیں۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏ایسا کوئی نہیں جس نے گھر یا بھائیوں یا بہنوں یا ماں یا باپ یا بچوں یا کھیتوں کو میری خاطر اور انجیل کی خاطر چھوڑ دیا ہو۔‏ اور اب اِس زمانہ میں سو گُنا نہ پائے۔‏ .‏ .‏ .‏ اور آنے والے عالم میں ہمیشہ کی زندگی۔‏“‏ (‏مرقس ۱۰:‏۲۹،‏ ۳۰‏)‏ ہم یسوع کیلئے جتنی بھی قربانیاں دیتے ہیں وہ اس انعام کے مقابلے میں کچھ نہیں جو ہمیں مل رہا ہے۔‏ کیا ہم اپنے روحانی ماں‌باپ،‏ بہن‌بھائیوں اور بچوں کو قیمتی خیال نہیں کرتے؟‏ یہ ہر دُنیاوی دولت سے کہیں زیادہ قیمتی ہیں۔‏ آپکے خیال میں اِن میں سے کس نے بہترین فیصلہ کیا تھا—‏پطرس نے یا پھر دولت‌مند جوان نے؟‏

۱۹ خودغرضی کا انجام مایوسی ہی ہوتا ہے۔‏ یسوع نے اپنی تعلیم اور اپنی مثال سے ظاہر کِیا کہ سچی خوشی دینے سے ملتی ہے۔‏ (‏متی ۲۰:‏۲۸؛‏ اعمال ۲۰:‏۳۵‏)‏ جب ہم اپنے لئے جینے کی بجائے یسوع کے پیچھے ہو لیتے ہیں تو ہماری زندگی بامقصد ہو جاتی ہے اور ہم ہمیشہ کی زندگی کی اُمید تھام سکتے ہیں۔‏ ظاہری بات ہے کہ جب ہم اپنے لئے نہیں جیتے ہیں تو ہم کسی اَور کی ملکیت بن جاتے ہیں۔‏ لہٰذا ہم یہوواہ کے غلام بن جاتے ہیں۔‏ اس بات کا ہماری زندگی پر کیسا اثر پڑتا ہے؟‏ ہم غلام ہو کر خوشی کیوں محسوس کر سکتے ہیں؟‏ اگلے مضمون میں آپکو ان سوالات کا جواب ملیگا۔‏

کیا آپکو یاد ہے؟‏

‏• ہمیں اپنی خودغرضی پر قابو پانے کی کوشش کیوں کرنی چاہئے؟‏

‏• اپنی خودی کا انکار کرنے،‏ سُولی اُٹھانے اور یسوع کے پیچھے ہو لینے کا کیا مطلب ہے؟‏

‏• مسیحی کس وجہ سے اپنی خودی کا انکار کرتے ہیں؟‏

‏• اپنے لئے نہ جینے سے ہمیں کونسا انعام ملیگا؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

۱۹.‏ (‏ا)‏ سچی خوشی کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟‏ (‏ب)‏ اگلے مضمون میں ہم کن سوالات پر غور کرینگے؟‏

‏[‏صفحہ ۱۱ پر تصویر]‏

‏”‏خدا نہ‌کرے۔‏ یہ تجھ پر ہرگز نہیں آنے کا“‏

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

دولت‌مند جوان یسوع کی پیروی کرنے کو تیار کیوں نہیں تھا؟‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

محبت کی بِنا پر یہوواہ کے گواہ جوش‌وخروش کیساتھ بادشاہت کی منادی کرتے ہیں