’تُم قیمت سے خریدے گئے ہو‘
’تُم قیمت سے خریدے گئے ہو‘
”تُم اپنے نہیں کیونکہ قیمت سے خریدے گئے ہو۔ پس . . . خدا کا جلال ظاہر کرو۔“—۱-کرنتھیوں ۶:۱۹، ۲۰۔
۱، ۲. (ا) شریعت میں اسرائیلی غلاموں کی حفاظت کیلئے کونسا قانون شامل تھا؟ (ب) عبرانی غلام کس بات کا انتخاب کر سکتے تھے؟
ایک لغت کے مطابق ”قدیم زمانے میں غلام رکھنے کا رواج عام تھا۔ غلام ہی مصری، یونانی اور رومی سلطنتوں کی ترقی کا باعث تھے۔ پہلی صدی میں اٹلی کا ہر تیسرا باشندہ اور باقی دُنیا کی کُل آبادی کا ہر پانچواں باشندہ غلام تھا۔“
۲ قدیم اسرائیل میں بھی غلام رکھنے کا رواج عام تھا۔ لیکن موسیٰ کی شریعت میں اسرائیلی غلاموں کی حفاظت کیلئے قوانین شامل تھے۔ مثال کے طور پر ایک عبرانی شخص کو ۶ سال سے زیادہ عرصہ تک غلام کے طور پر نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ مالک کو اُسے ”ساتویں برس مُفت آزاد“ کرنا پڑتا تھا۔ موسیٰ کی شریعت میں غلاموں کی بھلائی کیلئے یہ انتخاب بھی شامل تھا کہ ”اگر وہ غلام صاف کہہ دے کہ مَیں اپنے آقا سے اور اپنی بیوی اور بچوں سے محبت رکھتا ہُوں۔ مَیں آزاد ہو کر نہیں جاؤنگا۔ تو اُسکا آقا اُسے خدا کے پاس لے جائے اور اُسے دروازہ پر یا دروازہ کی چوکھٹ پر لا کر ستاری سے اُسکا کان چھیدے۔ تب وہ ہمیشہ اُسکی خدمت کرتا رہے۔“—خروج ۲۱:۲-۶؛ احبار ۲۵:۴۲، ۴۳؛ استثنا ۱۵:۱۲-۱۸۔
۳. (ا) قدیم زمانے کے مسیحیوں نے کس قسم کی غلامی کا انتخاب کِیا؟ (ب) ہم خدا کے غلام کیوں بننا چاہتے ہیں؟
۳ جسطرح قدیم اسرائیل میں ایک شخص اپنی مرضی سے غلام رہنے کا انتخاب کر سکتا تھا اسی طرح مسیحی بھی خدا اور یسوع مسیح کے غلام بننے کا ططس ۱:۱؛ یعقوب ۱:۱؛ ۲-پطرس ۱:۱؛ یہوداہ ۱) پولس نے تھسلنیکے کے مسیحیوں کو یاد دلایا کہ ”تُم بُتوں سے پھر کر خدا کی طرف رجوع ہوئے تاکہ زندہ اور حقیقی خدا کی بندگی کرو۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۱:۹) یہ مسیحی خدا کے غلام کیوں بننا چاہتے تھے؟ ذرا غور کریں کہ ایک عبرانی غلام اپنے آقا کو کیوں نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ اسلئے کہ اُس غلام کو اپنے آقا سے محبت تھی۔ اسی طرح مسیحی بھی خدا سے محبت رکھنے کی وجہ سے ”اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان سے [یہوواہ] اپنے خدا کی بندگی“ کرتے ہیں۔ (استثنا ۱۰:۱۲، ۱۳) لیکن خدا اور یسوع کے غلام بننے میں کیا کچھ شامل ہے؟ اسکا ہماری زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے؟
انتخاب کرتے ہیں۔ پولس، یعقوب، پطرس اور یہوداہ اپنے خطوط میں خود کو خدا کا بندہ یعنی اُسکا غلام کہتے ہیں۔ (”جو کچھ کرو سب خدا کے جلال کیلئے کرو“
۴. ہم یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے غلام کسطرح بن جاتے ہیں؟
۴ غلام ایک ایسے شخص کو کہا جاتا ہے ”جو اپنے آقا کی ملکیت ہوتا ہے۔ اُسکا آقا اُسے جو کچھ بھی کہے غلام اُس کا کہنا ماننے پر مجبور ہوتا ہے۔“ اسلئے جب ہم اپنی زندگی یہوواہ کے لئے وقف کرکے بپتسمہ لیتے ہیں تو ہم یہوواہ خدا کی ملکیت بن جاتے ہیں۔ پولس رسول نے اس سلسلے میں کہا: ”تُم اپنے نہیں۔ کیونکہ قیمت سے خریدے گئے ہو۔“ (۱-کرنتھیوں ۶:۱۹، ۲۰) یہاں پر جس قیمت کا ذکر ہوا ہے یہ یسوع مسیح کا خون ہے جو اُس نے ہمارے لئے بہایا ہے۔ اس قربانی کی بِنا پر خدا ہمیں اپنے خادموں کے طور پر قبول کرتا ہے۔ نتیجتاً ہم یا تو آسمان میں یا پھر زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔ (افسیوں ۱:۷؛ ۲:۱۳؛ مکاشفہ ۵:۹) جب ہم بپتسمہ لیتے ہیں تو ’ہم یہوواہ ہی کے بن جاتے ہیں۔‘ (رومیوں ۱۴:۸) چونکہ ہم مسیح کے بیشقیمت خون سے خریدے گئے ہیں اسلئے ہم مسیح کے بھی غلام بن جاتے ہیں۔ لہٰذا اُسکا بھی حکم ماننا ہمارا فرض بن جاتا ہے۔—۱-پطرس ۱:۱۸، ۱۹۔
۵. یہوواہ کی محبت ہمیں کس بات پر مجبور کرتی ہے اور ہم اس محبت کو کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟
۵ غلام اپنے آقا کا کہنا ماننے پر مجبور ہوتا ہے۔ لیکن ۱-یوحنا ۵:۳ میں لکھا ہے: ”خدا کی محبت یہ ہے کہ ہم اُسکے حکموں پر عمل کریں اور اُسکے حکم سخت نہیں۔“ مسیحی اپنی مرضی سے خدا کا کہنا مانتے ہیں کیونکہ وہ اُس سے محبت رکھتے ہیں۔ ہر چھوٹے بڑے معاملے میں خدا کا کہنا ماننے سے ہم اس بات کا ثبوت پیش کرتے ہیں کہ ہم اُس سے محبت رکھتے ہیں۔ اسلئے پولس نے کہا: ”پس تُم کھاؤ یا پیو یا جو کچھ کرو سب خدا کے جلال کے لئے کرو۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۳۱) زندگی کے ہر پہلو میں ہمیں ظاہر کرنا چاہئے کہ ہم ”[یہوواہ] کی خدمت کرتے“ ہیں۔—رومیوں ۱۲:۱۱۔
۶. خدا کے غلاموں کو آزمائشوں کا سامنا کرتے وقت کیا کرنا چاہئے؟ ایک مثال دے کر وضاحت کیجئے۔
۶ ہمیں زندگی کے ہر موڑ پر اپنے آقا یہوواہ کی رائے اختیار کرنی چاہئے۔ (ملاکی ۱:۶) جب ہمیں آزمائشوں کا سامنا ہوتا ہے تو اکثر خدا کی مرضی بجا لانا آسان نہیں ہوتا۔ ایسی صورتحال میں ہم کیا کرینگے؟ کیا ہم خدا کے فرمانبردار رہینگے یا پھر اپنے ”حیلہباز اور لاعلاج“ دل کی بات مانینگے؟ (یرمیاہ ۱۷:۹) ملیسا نامی ایک بہن کے بپتسمے کو ابھی زیادہ عرصہ بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک جوان آدمی اُس میں دلچسپی لینے لگا۔ یہ آدمی بائبل کی سچائیوں کے بارے میں سیکھ رہا تھا۔ اِسکے باوجود کلیسیا کے ایک بزرگ نے ملیسا کو یاد دلایا کہ مسیحیوں کو ”صرف خداوند میں“ شادی کرنی چاہئے۔ اُس نے ملیسا کو یہوواہ کے اس حکم پر عمل کرنے کی نصیحت دی۔ (۱-کرنتھیوں ۷:۳۹؛ ۲-کرنتھیوں ۶:۱۴) ملیسا کہتی ہے کہ ”اس معاملے میں یہوواہ کا کہنا ماننا میرے لئے آسان نہیں تھا۔ لیکن بپتسمہ کے وقت مَیں نے خدا سے وعدہ کِیا تھا کہ مَیں ہر صورت میں اُس کی مرضی بجا لاؤنگی۔ اسلئے مَیں نے اُسکے حکم کی پیروی کی۔“ ملیسا کے اس ردِعمل کا کیا انجام ہوا؟ وہ بتاتی ہے: ”مَیں خدا کا شکر کرتی ہوں کہ مَیں نے اُس بزرگ کی نصیحت پر عمل کِیا۔ اُس آدمی نے جلد ہی بائبل کی سچائیوں کے بارے میں سیکھنا بند کر دیا۔ اگر مَیں اُس سے شادی کرتی تو وہ یہوواہ کی عبادت میں میرا ساتھ نہ دیتا۔“
۷، ۸. (ا) مسیحیوں کیلئے خدا کی خوشنودی حاصل کرنا زیادہ اہمیت کیوں رکھتا ہے؟ (ب) جب ہم پر خدا کے احکام کی خلافورزی کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جاتا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ایک مثال دے کر واضح کریں۔
۷ ہم خدا کے غلام ہیں لہٰذا ہمیں آدمیوں کے غلام نہیں بننا چاہئے۔ (۱-کرنتھیوں ۷:۲۳) یہ سچ ہے کہ ہر شخص دوسروں کو خوش کرنا چاہتا ہے لیکن مسیحیوں کیلئے خدا کی خوشنودی حاصل کرنا زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ مسیحیوں کے معیار دُنیا کے معیاروں سے فرق ہیں۔ پولس نے سوال کِیا: ”کیا [مَیں] آدمیوں کو خوش کرنا چاہتا ہوں؟ اگر اب تک آدمیوں کو خوش کرتا رہتا تو مسیح کا بندہ نہ ہوتا۔“ (گلتیوں ۱:۱۰) ہم دوسروں میں مقبول ہونے کی خاطر خدا کے احکام کی خلافورزی نہیں کرینگے۔ لیکن اگر لوگ ہم پر ایسا کرنے کیلئے دباؤ ڈالتے ہیں تو اس صورتحال میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
پیدایش ۹:۳، ۴؛ اعمال ۱۵:۲۸، ۲۹) اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا اور مسیح کے غلام ہونے کی وجہ سے ہم دوسروں سے فرق ہیں۔ لیکن جب ہم لوگوں کو نرمی سے اپنے عقیدوں کے بارے میں سمجھاتے ہیں تو وہ اکثر ہمارا احترام کرنے لگتے ہیں۔—۱-پطرس ۳:۱۵۔
۸ اس سلسلے میں ایلنا کی مثال لیجئے جو سپین کی رہنے والی ہے۔ اُسکے بہتیرے ہمجماعت خون دیتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ایلنا یہوواہ کی گواہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں کرتی۔ ایلنا اپنے ہمجماعتوں کو سمجھانا چاہتی تھی کہ وہ خون دینے اور لینے سے کیوں انکار کرتی ہے۔ اسلئے ایلنا نے اس موضوع پر کلاس میں ایک تقریر پیش کرنے کی اجازت مانگی۔ ایلنا کہتی ہے: ”حتیٰکہ مَیں اچھی طرح تیاری کرکے گئی تھی پھر بھی مجھے ہمت سے کام لینا پڑا۔ تقریر سُن کر میرے ہمجماعت میرے نظریے کا احترام کرنے لگے اور میرے اُستاد نے کہا کہ یہوواہ کے گواہ ایک نیک کام کر رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر مجھے اس بات پر خوشی ہوئی کہ مَیں یہوواہ کے نام کی بڑائی کر سکی اور اپنے ہمجماعتوں کو خدا کے کلام سے سمجھا سکی کہ ہم خون کے بارے میں کیسا خیال رکھتے ہیں۔“ (۹. ہم اُس فرشتے سے کیا سیکھ سکتے ہیں جس نے یوحنا کو رویا دکھائی تھی؟
۹ جب ہم خدا کے غلام ہونے کی اپنی حیثیت کو یاد رکھتے ہیں تو ہم تکبّر کے جال میں پھنسنے سے بچے رہتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک فرشتے نے یوحنا رسول کو آسمانی یروشلیم کی رویا دکھائی۔ اس رویا کو دیکھ کر یوحنا اتنا متاثر ہوا کہ وہ فرشتے کے پاؤں پر سجدہ کرنے کو گِرا۔ لیکن فرشتے نے اُسے روکتے ہوئے کہا: ”خبردار! ایسا نہ کر۔ مَیں بھی تیرا اور تیرے بھائی نبیوں اور اِس کتاب کی باتوں پر عمل کرنے والوں کا ہمخدمت ہوں۔ خدا ہی کو سجدہ کر۔“ (مکاشفہ ۲۲:۸، ۹) اس فرشتے نے خدا کے تمام خادموں کیلئے کتنی اچھی مثال قائم کی۔ ہم میں سے کچھ مسیحیوں کو کلیسیا میں خاص ذمہداریاں سونپی گئی ہیں۔ یسوع ایسے مسیحیوں کو آگاہ کرتا ہے: ”جو تُم میں بڑا ہونا چاہے وہ تمہارا خادم بنے۔ اور جو تُم میں اوّل ہونا چاہے وہ تمہارا غلام بنے۔“ (متی ۲۰:۲۶، ۲۷) جیہاں، ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم سب کے سب یسوع کے غلام ہیں۔
”جو ہم پر کرنا فرض تھا وہی کِیا ہے“
۱۰. بائبل سے مثالیں دے کر واضح کیجئے کہ خدا کی مرضی بجا لانا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔
۱۰ خدا کی مرضی بجا لانا ہمارے لئے ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ آئیں اسکی چند مثالوں پر غور کریں۔ جب یہوواہ نے موسیٰ کو حکم دیا کہ جا کر بنیاسرائیل کو مصر سے رِہا کر تو موسیٰ خود کو اس قابل نہیں سمجھتا تھا۔ (خروج ۳:۱۰، ۱۱؛ ۴:۱، ۱۰) جب خدا نے یوناہ کو نینوہ کے لوگوں کو سزا سنانے کیلئے بھیجا تو ”یوؔناہ [یہوواہ] کے حضور سے ترسیسؔ کو بھاگا۔“ (یوناہ ۱:۲، ۳) یرمیاہ کا مُنشی باروک خدا کی خدمت کرتے کرتے تھک گیا تھا۔ (یرمیاہ ۴۵:۲، ۳) جب یہوواہ ہم سے کوئی ایسا کام کرنے کی توقع کرتا ہے جو ہمیں اچھا نہیں لگتا تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ ہم یسوع کی ایک تمثیل میں اس سوال کا جواب پاتے ہیں۔
۱۱، ۱۲. (ا) لوقا ۱۷:۷-۱۰ میں دی گئی یسوع کی تمثیل بیان کریں۔ (ب) یسوع کی تمثیل سے ہم کونسا سبق سیکھ سکتے ہیں؟
۱۱ یسوع نے ایک نوکر کی تمثیل دی۔ یہ نوکر صبحسویرے اُٹھ کر دنبھر کھیتوں میں کام کرتا ہے۔ شام کو جب وہ تھکاہارا گھر لوٹتا ہے تو اُسکا مالک اُسے یہ تو نہیں کہتا کہ آؤ بیٹھ کر کھانا کھاؤ۔ اسکی بجائے وہ اُسے حکم دیتا ہے کہ ”میرا کھانا تیار کر اور جبتک مَیں کھاؤں پیوں کمر باندھ کر میری خدمت کر۔ اُسکے بعد تُو خود کھا پی لینا۔“ ایک غلام پہلے اپنے مالک کی خواہشات کو پورا کرتا ہے اور اسکے بعد اُسے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کی اجازت ہے۔ یسوع نے اس تمثیل کا سبق یوں بیان کِیا: لوقا ۱۷:۷-۱۰۔
”اسی طرح تُم بھی جب ان سب باتوں کی جنکا تمہیں حکم ہؤا تعمیل کر چکو تو کہو کہ ہم نکمّے نوکر ہیں۔ جو ہم پر کرنا فرض تھا وہی کِیا ہے۔“—۱۲ یسوع اس تمثیل میں یہ نہیں کہنا چاہتا تھا کہ یہوواہ ہماری خدمت کی قدر نہیں کرتا۔ بائبل میں بیان کِیا گیا ہے کہ ”خدا بےانصاف نہیں جو تمہارے کام اور اس محبت کو بھول جائے جو تُم نے اُسکے نام کے واسطے . . . ظاہر کی۔“ (عبرانیوں ۶:۱۰) دراصل یسوع اپنی تمثیل میں اس بات کو واضح کرنا چاہتا تھا کہ ایک غلام اپنی منمانی نہیں کر سکتا۔ اسی طرح یہوواہ کے خادموں کو چاہئے کہ وہ خدا کی مرضی کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دیں۔ کیونکہ جب ہم نے یہوواہ کیلئے اپنی زندگی وقف کی تھی تو ہم نے وعدہ کِیا تھا کہ ہم آئندہ اُسکی مرضی پر چلینگے۔
۱۳، ۱۴. (ا) خدا کے کن حکموں پر عمل کرنا ہمارے لئے آسان نہیں ہوتا اور کیوں؟ (ب) ہمیں خدا کے حکموں پر کیوں عمل کرنا چاہئے؟
۱۳ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم بائبل کو اور ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کی شائعکردہ مطبوعات کو دھیان سے پڑھیں۔ (متی ۲۴:۴۵) ایسا کرنے میں کافی محنت کی ضرورت ہے، خاص طور پر اُس وقت جب ایک مضمون ’خدا کی تہ کی باتوں‘ کے بارے میں بیان کر رہا ہو۔ (۱-کرنتھیوں ۲:۱۰) بعض لوگ زیادہ پڑھےلکھے نہ ہونے کی وجہ سے ایسا کرنے میں دقت محسوس کرتے ہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود ہمیں بائبل کو سمجھنے کیلئے وقت نکالنا پڑیگا۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں باقاعدگی سے بائبل کی پڑھائی کرنے کیلئے خود کو زور لگانا پڑے۔ لیکن ایسا کرنے سے ہی ہم میں ”سخت غذا“ کیلئے شوق پیدا ہوگا۔—عبرانیوں ۵:۱۴۔
۱۴ یہوواہ نے ہمیں باقاعدگی سے عبادت کیلئے جمع ہونے کا حکم دیا ہے۔ لیکن جب ہم کام سے تھکےہارے گھر پہنچتے ہیں تو ہمارے لئے اجلاس پر حاضر ہونا آسان نہیں ہوتا۔ اسکے علاوہ شاید ہم اجنبیوں کیساتھ بائبل کے بارے میں باتچیت کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ پولس بھی کبھیکبھار ”اپنی مرضی سے نہیں“ مُنادی کرتا تھا۔ (۱-کرنتھیوں ۹:۱۷) لیکن ہم اپنے مالک یہوواہ سے محبت رکھتے ہیں۔ اسلئے ہم اُسکے حکموں پر عمل کرتے ہیں۔ اور کیا یہ سچ نہیں کہ جب ہم بائبل کی پڑھائی کرتے، عبادت کیلئے جمع ہوتے اور مُنادی کے کام میں حصہ لیتے ہیں تو ہم دلی سکون محسوس کرتے ہیں؟—زبور ۱:۱، ۲؛ ۱۲۲:۱؛ ۱۴۵:۱۰-۱۳۔
’پیچھے نہ دیکھیں‘
۱۵. یسوع نے یہوواہ کا کہنا ماننے میں عمدہ مثال کیسے قائم کی؟
۱۵ یسوع نے یہوواہ کا کہنا ماننے میں عمدہ مثال قائم کی۔ اُس نے کہا: ”مَیں آسمان سے اسلئے نہیں اُترا ہوں کہ اپنی مرضی کے موافق عمل کروں بلکہ اسلئے کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے موافق عمل کروں۔“ (یوحنا ۶:۳۸) اپنی موت سے پہلے بیحد پریشانی کے عالم میں بھی اُس نے دُعا کی کہ ”اَے میرے باپ! اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے۔ تَو بھی نہ جیسا مَیں چاہتا ہوں بلکہ جیسا تُو چاہتا ہے ویسا ہی ہو۔“—متی ۲۶:۳۹۔
۱۶، ۱۷. (ا) ہمیں اُس زندگی کے بارے میں کیسا خیال کرنا چاہئے جو ہم نے خدا کے غلام بننے سے پہلے گزاری تھی؟ (ب) ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ دُنیاوی شہرت کو ”کوڑا“ سمجھنے سے پولس نے بہترین فیصلہ کِیا؟
۱۶ ہم نے یہوواہ سے اُسکے غلام بننے کا وعدہ کِیا ہے۔ اب ہمیں وعدے کا پکا بھی ہونا چاہئے۔ اس سلسلے میں یسوع نے کہا کہ ”جو کوئی اپنا ہاتھ ہل پر رکھ کر پیچھے دیکھتا ہے وہ خدا کی بادشاہی کے لائق نہیں۔“ (لوقا ۹:۶۲) ہمیں اُس زندگی کو پیچھے چھوڑنے پر افسوس نہیں کرنا چاہئے جو ہم نے خدا کے غلام بننے سے پہلے گزاری تھی۔ اسکی بجائے ہمیں ان برکتوں پر غور کرنا چاہئے جن سے خدا ہمیں نواز رہا ہے۔ پولس نے لکھا: ”مَیں اپنے خداوند مسیح یسوؔع کی پہچان کی بڑی خوبی کے سبب سے سب چیزوں کو نقصان سمجھتا ہوں۔ جسکی خاطر مَیں نے سب چیزوں کا نقصان اُٹھایا اور اُنکو کوڑا سمجھتا ہوں تاکہ مسیح کو حاصل کروں۔“—فلپیوں ۳:۸۔
۱۷ پولس نے کن دُنیاوی چیزوں کو کوڑا سمجھ کر اُنکا نقصان اُٹھایا؟ اُس نے آرامدہ زندگی گزارنے کی بجائے خدا کا غلام بننے کو ترجیح دی۔ اسکے علاوہ اگر پولس یہودی مذہب کی پیروی نہ چھوڑتا تو اُسے شاید یہودیوں کا رہنما بننے کا موقع بھی ملتا۔ پولس نے گملیایل سے تربیت پائی اعمال ۲۲:۳؛ گلتیوں ۱:۱۴) گملیایل کا بیٹا شمعون بعد میں فریسیوں کا رہنما بنا۔ جب یہودیوں نے سن ۶۶ سے سن ۷۰ تک رومی حکومت کے خلاف بغاوت کی تو گملیایل کے بیٹے شمعون نے اس میں بہت اہم کردار ادا کِیا۔ لیکن اسی بغاوت کے دوران اُسے یا تو یہودی انتہاپسندوں یا پھر رومیوں کے ہاتھ قتل کر دیا گیا۔ واقعی شمعون نے اپنی زندگی بیکار کوششوں میں ضائع کر دی۔
تھی جو یہودیوں کا مشہور مذہبی اُستاد تھا۔ (۱۸. مثال دے کر ظاہر کریں کہ یہوواہ کی خدمت کو پہلا درجہ دینے کے کتنے فائدے ہوتے ہیں۔
۱۸ پولس کی طرح بہت سے یہوواہ کے گواہوں نے دُنیا میں حیثیت حاصل کرنے کی بجائے یہوواہ کی خدمت کو پہلا درجہ دیا ہے۔ جین کی مثال لیجئے۔ وہ بتاتی ہے کہ ”سکول سے فارغ ہونے کے چند ہی سال بعد مَیں لندن کے ایک مشہور وکیل کی سیکرٹری بن گئی۔ یہ کام مجھے بہت اچھا لگتا تھا اور مجھے اچھی تنخواہ بھی ملتی تھی۔ لیکن مَیں دل ہی دل میں جانتی تھی کہ دراصل مَیں یہوواہ کی خدمت میں اَور زیادہ کر سکتی ہوں۔ اسلئے مَیں نے اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور کُلوقتی طور پر مُنادی کے کام میں حصہ لینے لگی۔ یہ ۲۰ سال پہلے کی بات ہے اور تب سے مَیں کُلوقتی خدمت کرتی آ رہی ہوں۔ اگر مَیں سیکرٹری کا کام کرتی تو مجھے اتنی خوشی کبھی نہیں ملتی جتنی مجھے یہوواہ کی خدمت میں مل رہی ہے۔ جب مَیں دیکھتی ہوں کہ ایک شخص بائبل کی سچائیوں کے بارے میں سیکھنے کی وجہ سے اپنی زندگی میں بڑی تبدیلیاں لاتا ہے تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ ہم یہوواہ کیلئے چھوٹیچھوٹی قربانیاں پیش کرتے ہیں لیکن انکے بدلے وہ ہمیں لاکھوں برکتیں بخشتا ہے۔“
۱۹. ہمیں کیا کرنے کا پکا ارادہ کرنا چاہئے اور کیوں؟
۱۹ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری صورتحال میں تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم عمربھر کیلئے یہوواہ کے غلام ہیں۔ ہم نے اپنی پوری زندگی اُسکے لئے وقف کر دی ہے۔ ہم یہوواہ سے کتنی محبت رکھتے ہیں اور اُسکے لئے کتنی قربانیاں دینے کو تیار ہیں، یہ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اپنا وقت، اپنی طاقت اور اپنی صلاحیتیں کیسے استعمال کرتے ہیں۔ (متی ۶:۳۳) چاہے ہماری صورتحال کچھ بھی ہو ہمیں یہوواہ کی خدمت میں پوری کوشش لگانے کا پکا ارادہ کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں پولس نے لکھا: ”اگر نیت ہو تو خیرات اُس کے موافق مقبول ہوگی جو آدمی کے پاس ہے نہ اُس کے موافق جو اُس کے پاس نہیں۔“—۲-کرنتھیوں ۸:۱۲۔
”تُم کو اپنا پھل ملا“
۲۰، ۲۱. (ا) خدا کے غلاموں کو کس قسم کا پھل ملتا ہے؟ (ب) دل لگا کر یہوواہ کی خدمت کرنے کیلئے ہم کونسا انعام پاتے ہیں؟
۲۰ خدا ایک ایسا آقا ہے جو اپنے غلاموں پر کبھی سختی نہیں کرتا۔ درحقیقت ہم ایک ایسی غلامی سے آزاد کئے گئے ہیں جس میں بہت سے لوگ جکڑے ہوئے ہیں۔ پولس نے لکھا: ”اب گُناہ سے آزاد اور خدا کے غلام ہو کر تُم کو اپنا پھل ملا جس سے پاکیزگی حاصل ہوتی ہے اور اسکا انجام ہمیشہ کی زندگی ہے۔“ (رومیوں ۶:۲۲) وہ پھل جس سے پاکیزگی حاصل ہوتی ہے، وہ کیا ہے؟ خدا کے غلام پاک رہتے ہیں اور بداخلاقی سے دُور بھاگتے ہیں۔ اسکے نتیجے میں اُنکی زندگی زیادہ خوشحال ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ کی زندگی کی اُمید بھی باندھ سکتے ہیں۔
۲۱ جب ہم دل لگا کر یہوواہ کی خدمت کرتے ہیں تو وہ ’آسمان کے دریچوں کو کھول کر برکت برساتا ہے یہاں تک کہ ہمارے پاس اُسکے لئے جگہ نہیں رہتی۔‘ (ملاکی ۳:۱۰) کتنی خوشی کی بات ہے کہ ہمیں ہمیشہ تک یہوواہ کے غلام ہونے کا شرف حاصل ہوگا۔
کیا آپکو یاد ہے؟
• ہم خدا کے غلام کیوں بننا چاہتے ہیں؟
• ہم کیسے ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی میں خدا کی مرضی کو پہلا درجہ دے رہے ہیں؟
• مسیحی اپنی منمانی کرنے کی بجائے خدا کی مرضی کیوں بجا لاتے ہیں؟
• ہمیں ”پیچھے“ کیوں نہیں دیکھنا چاہئے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۶ اور ۱۷ پر تصویر]
قدیم اسرائیل میں ایک شخص اپنی مرضی سے غلام رہنے کا انتخاب کر سکتا تھا
[صفحہ ۱۷ پر تصویر]
بپتسمہ لینے سے ہم خدا کے غلام بن جاتے ہیں
[صفحہ ۱۷ پر تصویریں]
مسیحی خدا کی مرضی کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دیتے ہیں
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
موسیٰ خود کو خدا کے حکم کو پورا کرنے کے قابل نہیں سمجھتا تھا