یسوع کی تعلیم کے فائدے
یسوع کی تعلیم کے فائدے
پہلے مضمون میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ یسوع کی تعلیم نے پوری دنیا پر اثر کِیا ہے۔ لیکن ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنا چاہئے کہ ہم یسوع کی تعلیم سے کیا سیکھ سکتے ہیں اور اس کا ہم پر کیا اثر ہوگا؟
یسوع نے زندگی کے ہر پہلو پر اہم سبق سکھائے تھے۔ اُس نے لوگوں کو سکھایا کہ اُن کی زندگی میں کونسی باتیں واقعی اہم ہونی چاہئیں، مثلاً خدا کا دوست بننا، دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات بڑھانا، مسئلوں کا حل ڈھونڈنا اور تشدد سے پرہیز کرنا۔ آئیے ہم اِن باتوں پر ایک ایک کرکے غور کرتے ہیں۔
روحانی باتوں کو پہلا درجہ دیں
آج کا زمانہ اتنا تیزرفتار ہے کہ اکثر ہمارے پاس روحانی باتوں کے لئے وقت ہی نہیں بچتا۔ ایک نوجوان کی مثال لیجئے جسے روحانی
موضوعات کے بارے میں سیکھنا بہت اچھا لگتا ہے۔ لیکن اُسے ایک بات پر افسوس ہے۔ وہ کہتا ہے: ”روحانی باتوں کے لئے میرے پاس باقاعدہ وقت نہیں ہوتا۔ مَیں ہفتے میں ۶ دِن کام کرتا ہوں اور مجھے صرف اتوار کے روز چھٹی ہوتی ہے۔ لیکن اُس روز بھی مجھے بہت سے کام ہوتے ہیں جنکو کرنے کے بعد مَیں بہت تھک جاتا ہوں۔“ کیا آپ بھی ایسا ہی محسوس کرتے ہیں؟ تو آئیے ایسی صورتحال سے نپٹنے کے لئے یسوع کے پہاڑی وعظ پر غور کرتے ہیں۔اس وعظ کو سننے کے لئے لوگوں کی ایک بھیڑ پہاڑ پر اکٹھی ہوتی ہے، جس سے مخاطب ہوتے ہوئے یسوع کہتا ہے: ”اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے؟ اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے؟ کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں؟ ہوا کے پرندوں کو دیکھو کہ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے۔ نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں تو بھی تمہارا آسمانی باپ اُن کو کھلاتا ہے۔ کیا تُم اُن سے زیادہ قدر نہیں رکھتے؟. . . اِس لئے فکرمند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے؟ کیونکہ ان سب چیزوں کی تلاش میں غیر قومیں رہتی ہیں اور تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تُم ان سب چیزوں کے محتاج ہو۔ بلکہ تُم پہلے اُس کی بادشاہی اور اُس کی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی۔“ (متی ۶:۲۵-۳۳) ہم اِس حوالے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
یسوع یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ ہمیں اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات کو پورا نہیں کرنا چاہئے۔ خدا کا کلام کہتا ہے: ”اگر کوئی اپنوں اور خاص کر اپنے گھرانے کی خبرگیری نہ کرے تو ایمان کا منکر اور بےایمان سے بدتر ہے۔“ (۱-تیمتھیس ۵:۸) یسوع کہہ رہا تھا کہ اگر ہم اپنی زندگی میں روحانی باتوں کو سب سے پہلا درجہ دیں گے تو خدا ہماری ضروریات کو پورا کرے گا۔ اِس نصیحت پر عمل کرنے سے ہم خوشی حاصل کریں گے کیونکہ یسوع نے کہا تھا: ”خوش ہیں وہ جو اپنی روحانی ضروریات سے باخبر ہیں۔“—متی ۵:۳؛ این ڈبلیو۔
خدا کے دوست بنیں
ایسے لوگ جو اپنی روحانی ضروریات سے باخبر ہیں، وہ خدا کے دوست بننے کو بھی اہم سمجھتے ہیں۔ جب ہم کسی کے دوست ہوتے ہیں تو ہم اُس کی سوچ سے واقف ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم اپنے دوستوں کی پسند اور ناپسند بھی جانتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم خدا کے دوست بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اُس کے بارے میں علم حاصل کرنا ہوگا۔ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ یسوع نے اپنے شاگردوں کے لئے دُعا مانگتے ہوئے کہا: ”ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدایِواحد اور برحق کو اور یسوؔع مسیح کو جسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔“ (یوحنا ۱۷:۳) ہم خدا کے کلام کے ذریعے ہی اُس کو جان سکتے اور اُس کے قریب جا سکتے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۶) اِس لئے ہمیں پاک صحائف کو پڑھنے اور انہیں سمجھنے کے لئے ہر روز وقت نکالنا چاہئے۔
لیکن خدا کے کلام کو پڑھنا ہی کافی نہیں۔ یسوع نے اپنی دُعا میں آگے کہا: ”انہوں نے تیرے کلام پر عمل کِیا ہے۔“ (یوحنا ۱۷:۶) لہٰذا ہمیں خدا کے کلام پر عمل بھی کرنا ہوگا۔ اگر ہم جانبوجھ کر خدا کے کلام پر عمل نہیں کریں گے تو وہ ہمیں اپنا دوست نہیں بنائے گا۔ اُس کی قربت حاصل کرنے کے لئے ہمیں اُس کی سوچ اور اُس کے معیاروں کو اپنانا ہوگا۔ ایسا کرنے سے ہی ہم اُس کے دوست بن سکتے ہیں۔
دوسروں کیساتھ اچھے تعلقات بڑھائیں
دوسروں کیساتھ اچھے تعلقات بڑھانے کی اہمیت کو سمجھانے کیلئے یسوع نے اپنے شاگردوں کو ایک کہانی سنائی: ایک مالک اپنے نوکروں سے قرض کے پیسے وصول کر رہا تھا۔ اُسکے ایک نوکر کا قرض اتنا زیادہ تھا کہ وہ اُسے چکانے کے قابل نہیں تھا۔ اِسلئے مالک نے حکم دیا کہ نوکر کو اور اُسکے بیویبچوں کو بیچ کر پیسہ وصول کِیا جائے۔ نوکر مالک کے سامنے گھٹنوں کے بل گِر کر گڑگڑانے لگا: ”مجھے مہلت دے۔ مَیں تیرا سارا قرض ادا کرونگا۔“ مالک کو اُس پر ترس آیا اور اُس نے قرض بخش دیا۔ اِسی نوکر کا ایک ہمخدمت تھا جس نے اُس سے ایک معمولی سا قرض لیا تھا، لیکن وہ اس قرض کو ادا نہیں کر پا رہا تھا۔ اُس نے بڑی منتیں کیں لیکن اس نوکر نے اپنے ہمخدمت کو تب تک قیدخانہ میں ڈلوا دیا جبتک وہ قرض ادا نہ کر لے۔ جب مالک کو اس بات کی خبر پہنچی تو اُس نے غصے میں آ کر نوکر سے کہا: ”مَیں نے وہ سارا قرض تجھے بخشدیا۔ کیا تجھے لازم نہ تھا کہ جیسا مَیں نے تجھ پر رحم کِیا تُو بھی اپنے ہمخدمت پر رحم کرتا؟“ اِسکے بعد مالک نے اپنے نوکر کو اُس وقت تک قید میں رکھنے کا حکم دیا جبتک وہ قرض ادا نہ کر لے۔ یسوع اِس کہانی کا سبق سکھاتے ہوئے کہتا ہے: ”میرا آسمانی باپ بھی تمہارے ساتھ اِسی طرح کریگا اگر تُم میں سے ہر ایک اپنے بھائی کو دل سے معاف نہ کرے۔“—متی ۱۸:۲۳-۳۵۔
ہم سب اس نوکر کی طرح خدا کے سامنے قرضدار ہیں کیونکہ ہم اکثر گناہ کرتے اور خدا کے احکام کی خلافورزی بھی کرتے ہیں۔ اور خدا بھی اُس مالک کی طرح ہمیں معاف کر دیتا ہے۔ لیکن وہ تب ہی ایسا کرے گا جب ہم دوسروں کو معاف کرنے کو تیار ہوں گے۔ یسوع نے اپنے پیروکاروں کو یوں دُعا کرنا سکھائی: ”جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کِیا ہے تُو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔“—متی ۶:۱۲۔
دل پر قابو پائیں
یسوع اِنسانی فطرت کو بخوبی سمجھتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ انسان اکثر اپنے دل کی وجہ سے مشکل میں پڑتا ہے۔ لہٰذا اُس نے دل پر قابو پانے کے لئے دو مثالیں دیں۔
متی ۵:۲۱، ۲۲ میں یسوع کہتا ہے: ”تُم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ خون نہ کرنا اور جو کوئی خون کرے گا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہوگا۔ لیکن مَیں تُم سے یہ کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنے بھائی پر غصے ہوگا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہوگا۔“ یسوع نے قتل کی جڑ کو واضح کرتے ہوئے سکھایا کہ اِس کی شروعات دل ہی میں ہوتی ہے۔ اگر لوگ دل میں نفرت کی آگ کو بھڑکنے نہ دیتے تو تشدد تک نوبت نہ پہنچتی اور دُنیا میں اتنا خونخرابہ نہ ہوتا۔
ایک اَور مرتبہ یسوع لوگوں سے کہتا ہے: ”تُم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ زِنا نہ کرنا۔ لیکن مَیں تُم سے یہ کہتا ہوں کہ جس کسی نے بُری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اُسکے ساتھ زِنا کر چکا۔ پس اگر تیری دہنی آنکھ تجھے ٹھوکر کھلائے تو اُسے نکالکر اپنے پاس سے پھینک دے۔“ (متی ۵:۲۷-۲۹) یسوع سمجھا رہا تھا کہ لوگ دل میں بُری خواہش رکھنے کی وجہ سے زِنا کرتے ہیں۔ اگر ایک شخص کے دل میں بُری خواہش اُبھرے بھی تو اُسے اس خواہش کو ’نکالکر اپنے پاس سے پھینک دینا‘ چاہئے۔ اسطرح وہ زِنا جیسا گناہ کرنے سے بچا رہیگا۔
”تلوار کو میان میں کر لے“
جس رات یسوع کو گرفتار کِیا گیا اُس کے ایک شاگرد نے اُس کی حفاظت کرنے کے لئے اپنی تلوار کھینچی۔ یسوع نے کہا: ”اپنی تلوار کو میان میں کر لے کیونکہ جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار متی ۲۶:۵۲) اگلے روز یسوع نے پُنطیُس پیلاطُس سے کہا: ”میری بادشاہی اس دُنیا کی نہیں۔ اگر میری بادشاہی اس دُنیا کی ہوتی تو میرے خادم لڑتے تاکہ مَیں یہودیوں کے حوالے نہ کِیا جاتا۔ مگر اب میری بادشاہی یہاں کی نہیں۔“ (یوحنا ۱۸:۳۶) کیا یسوع کی ان باتوں پر عمل کرنا ممکن ہے؟
سے ہلاک کئے جائیں گے۔“ (یسوع کے پہلے پیروکاروں کے بارے میں ایک کتاب بیان کرتی ہے: ”یسوع ہر قسم کے تشدد اور جنگ کے خلاف تھا۔ اُس کے شاگرد اُس کی اِس تعلیم کے فرمانبردار رہے۔ اس لئے اُنہوں نے کسی بھی قسم کی خونریزی میں حصہ لینے سے انکار کِیا۔“ اگر تمام مسیحی یسوع کی اِس تعلیم کے فرمانبردار رہتے تو تاریخ میں خون کی ندیاں نہ بہتیں۔
نوعِانسان کیلئے بہترین تعلیم
لوگ یسوع کی تعلیم آسانی سے سمجھ سکتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ تعلیم ان پر اثر کرنے کی طاقت بھی رکھتی تھی۔ یسوع کی تعلیم پر عمل کرنے سے نوعِانسان کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ *
یسوع دُنیا کا سب سے دانشمند آدمی تھا۔ اُس کی تعلیم سے فائدہ اُٹھانے کے لئے یہوواہ کے گواہ خوشی سے آپ کی مدد کریں گے۔ اُن سے رابطہ کرنے کے لئے مہربانی سے اِس رسالے کے صفحہ ۲ پر دئے گئے پتے پر لکھیں۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 22 تفصیل کے لئے یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ کتاب عظیمترین انسان جو کبھی ہو گزرا کو پڑھیں۔
[صفحہ ۵ پر تصویر]
’تمہارا خدا انکو کھلاتا ہے‘
[صفحہ ۷ پر تصویر]
یسوع کی تعلیم پر عمل کرنے سے آپکو بہت فائدہ ہو سکتا ہے