یہوواہ کی قوت میں سمسون کی جیت
یہوواہ کی قوت میں سمسون کی جیت
فلستی بہت خوش ہیں۔ حال ہی میں اُنہوں نے اپنے جانی دُشمن کی آنکھیں نکالی ہیں۔ پھر انہوں نے اُسکو قید کِیا اور اُسے سخت کام کرنے پر لگا دیا۔ اب وہ اپنے دیوتا کے مندر میں اپنی جیت کا جشن منا رہے ہیں۔ جشن پورے زوروں پر ہے جب وہ اُس قیدی کو بلوا کر اُسکا مذاق اُڑاتے ہیں۔ پر یہ قیدی کون ہے؟ وہ نہ تو ایک مجرم ہے اور نہ ہی کسی فوج کا سپہسالار۔ یہ شخص ۲۰ سال سے بنیاسرائیل کا قاضی رہا ہے اور وہ یہوواہ خدا کی دلوجان سے عبادت کرتا آ رہا ہے۔
اس شخص کا نام سمسون تھا جو دُنیا کا سب سے طاقتور شخص تھا۔ لیکن یہ سب اُس پر کیوں گزر رہا تھا؟ کیا وہ اپنی طاقت کے بلبوتے خود کو بچا نہیں سکتا تھا؟ اُسکی غیرمعمولی طاقت کا راز کیا تھا؟ اور ہم اُسکی زندگی سے کونسے سبق سیکھ سکتے ہیں؟
’وہ اسرائیلیوں کو رہائی دینا شروع کریگا‘
بنیاسرائیل باربار یہوواہ کے حکموں کی خلافورزی کرتے رہے۔ جب اُنہوں نے دوبارہ ”[یہوواہ] کے آگے بدی کی“ تو سزا کے طور پر ”[یہوواہ] نے اُنکو چالیس برس تک فلستیوں کے ہاتھ میں کر رکھا۔“—قضاۃ ۱۳:۱۔
اس کٹھن دَور میں یہوواہ کا فرشتہ منوحہ کی بیوی کے پاس آیا جو بانجھ تھی۔ فرشتے نے اُسے بتایا کہ اُسکا بیٹا ہوگا۔ اسکے ساتھ ساتھ اُس نے منوحہ کی بیوی کی تاکید کی کہ بچے کے ”سر پر کبھی اُسترہ نہ پھرے اِسلئے کہ وہ لڑکا پیٹ ہی سے خدا کا نذیر ہوگا اور وہ اسرائیلیوں کو فلستیوں کے ہاتھ سے رہائی دینا شروع کریگا۔“ (قضاۃ ۱۳:۲-۵) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ نے اُس کی پیدائش سے پہلے ہی مقرر کِیا کہ سمسون بنیاسرائیل کو فلستیوں کے ہاتھ سے نجات دیگا۔ اسلئے سمسون پیدائش ہی سے نذیر تھا یعنی وہ ایک خاص خدمت کو انجام دینے کیلئے پاک ٹھہرایا گیا تھا۔
”وہ مجھے بہت پسند آتی ہے“
یہوواہ سمسون کے بچپن ہی سے اُسکو ’برکت دیتا‘ رہا۔ (قضاۃ ۱۳:۲۴) جب سمسون جوان ہو گیا تو ایک دن وہ اپنے ماںباپ سے کہنے لگا کہ ”مَیں نے فلستیوں کی بیٹیوں میں سے تمنتؔ میں ایک عورت دیکھی ہے سو تُم اُس سے میرا بیاہ کرا دو۔“ (قضاۃ ۱۴:۲) یہ سُن کر اُسکے ماںباپ پریشان ہو گئے۔ وہ جانتے تھے کہ سمسون اسرائیلیوں کو فلستیوں کے ہاتھ سے رہائی دلانے کیلئے مقرر کِیا گیا تھا۔ اِس صورتحال میں وہ دُشمن سے رشتہ کیسے جوڑ سکتا تھا؟ اسکے علاوہ یہوواہ نے بنیاسرائیل کو بُتپرستوں سے شادی کرنے سے منع بھی کِیا تھا۔ (خروج ۳۴:۱۱-۱۶) اسلئے اُسکے باپ نے سمسون سے کہا: ”کیا تیرے بھائیوں کی بیٹیوں میں یا میری ساری قوم میں کوئی عورت نہیں ہے جو تُو نامختون فلستیوں میں بیاہ کرنے جاتا ہے؟“ لیکن سمسون نے اُسکی ایک نہ مانی اور کہا: ”اُسی سے میرا بیاہ کرا دے کیونکہ وہ مجھے بہت پسند آتی ہے۔“—قضاۃ ۱۴:۳۔
سمسون کو یہ لڑکی کیوں پسند آئی؟ ایک لغت کے مطابق اسکی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ لڑکی ”بہت ہی خوبصورت اور دلکش“ تھی بلکہ سمسون نے ”اُسے ایک خاص مقصد کیلئے پسند کِیا تھا۔“ وہ مقصد کیا تھا؟ قضاۃ ۱۴:۴ میں لکھا ہے کہ ”وہ فلستیوں کے خلاف بہانہ ڈھونڈتا تھا۔“ جیہاں، سمسون نے فلستیوں کو نقصان پہنچانے کیلئے اس لڑکی کو چُنا۔ اسکے علاوہ ”[یہوواہ] کی روح اُسے . . . تحریک دینے لگی۔“ (قضاۃ ۱۳:۲۵) اسکا مطلب ہے کہ یہوواہ کی روح سمسون پر نازل ہوئی۔ اسلئے اُس نے اسرائیل کو رِہائی دلانے کیلئے اس لڑکی کو پسند کِیا۔ کیا سمسون اپنے مقصد میں کامیاب رہا؟ اس سے پہلے کہ ہم اس سوال کا جواب دیں آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ یہوواہ نے سمسون کی ہمت کیسے بڑھائی۔
سمسون اپنے والدین کیساتھ اپنی ہونے والی بیوی سے ملنے کے لئے تمنت جا رہا تھا۔ وہ ”تمنتؔ کے تاکستانوں میں پہنچے اور دیکھو ایک جوان شیر سمسوؔن کے سامنے آکر گرجنے لگا۔ تب [یہوواہ] کی روح اُس پر زور سے نازل ہوئی اور اُس نے اُسے بکری کے بچے کی طرح چیر ڈالا۔“ سمسون کے والدین نے یہ واقعہ نہیں دیکھا تھا کیونکہ وہ اُس وقت اکیلا تھا۔ کیا یہوواہ اس واقعے سے سمسون کو یقین دلانا چاہتا تھا کہ وہ اُسکے ہاتھ فلستیوں کو شکست دینے والا ہے؟ بائبل اسکے بارے میں نہیں بتاتی۔ بہرحال شیر کو چیرنے کے بعد سمسون جان گیا ہوگا کہ اُسکی غیرمعمولی طاقت خدا کی طرف سے ہے اور یہ بھی کہ وہ اپنی خدمت میں ضرور کامیاب ہوگا۔ اسکے بعد سمسون نے تمنت میں داخل ہو کر ”اُس عورت سے باتیں کیں اور وہ سمسوؔن کو بہت پسند آئی۔“—قضاۃ ۱۴:۵-۷۔
اس واقعے کے کچھ عرصے بعد سمسون اُس عورت کو بیاہنے کے لئے دوبارہ تمنت جا رہا تھا۔ راستے میں وہ ”شیر کی لاش دیکھنے کو کترا گیا اور دیکھا کہ شیر کے پنجر میں شہد کی مکھیوں کا ہجوم اور شہد ہے۔“ شادی کے پہلے دن سمسون نے اپنے ۳۰ فلستی رفیقوں کو یہ پہیلی سنائی: ”کھانے والے میں سے تو کھانا نکلا اور زبردست میں سے مٹھاس نکلی۔“ اگر وہ یہ پہیلی بُوجھتے تو سمسون اُنہیں تیس کتانی کُرتے اور تیس جوڑے کپڑے دیتا لیکن اگر وہ اسے بُوجھ نہیں پاتے تو اُنہیں سمسون کو تیس کُرتے اور تیس جوڑے کپڑے دینے پڑتے۔ فلستی تین دن تک اس پہیلی کو حل کرنے کی خاطر اپنے ذہن پر زور ڈالتے رہے۔ چوتھے دن (کئی بائبل ترجموں کے مطابق ساتویں دن پر) اُنہوں نے سمسون کی بیوی کو دھمکی دیتے ہوئے قضاۃ ۱۴:۸-۱۵۔
کہا کہ ”اپنے شوہر کو پھسلا تاکہ اس پہیلی کا مطلب وہ ہمکو بتا دے نہیں تو ہم تجھ کو اور تیرے باپ کے گھر کو آگ سے جلا دینگے۔“ یہ کتنی وحشیانہ حرکت تھی۔ ذرا سوچیں کہ اگر فلستی اپنوں سے ایسا سلوک کِیا کرتے تھے تو اُنہوں نے اسرائیلیوں پر کونسے ستم ڈھائے ہونگے۔—سمسون کی بیوی خوفزدہ ہو گئی۔ اُسے سمسون سے سچی محبت نہیں تھی۔ لہٰذا اُس نے رو دھو کر سمسون سے پہیلی کا حل اُگلوایا۔ پھر اُس نے فوراً اُن ۳۰ آدمیوں کو یہ حل بتا دیا۔ جب اُنہوں نے پہیلی کا حل سمسون کو بتایا تو وہ جان گیا کہ اُسے دھوکا دیا گیا ہے۔ اسلئے اُس نے کہا: ”اگر تُم میری بچھیا کو ہل میں نہ جوتتے تو میری پہیلی کبھی نہ بُوجھتے۔“ اب سمسون کو فلستیوں کے خلاف کارروائی کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ ”[یہوواہ] کی روح اُس پر زور سے نازل ہوئی اور وہ اسقلوؔن کو گیا۔ وہاں اُس نے اُنکے تیس آدمی مارے اور اُنکو لُوٹ کر کپڑوں کے جوڑے پہیلی بُوجھنے والوں کو دئے۔“—قضاۃ ۱۴:۱۸، ۱۹۔
کیا سمسون محض اسلئے بدلہ لینا چاہتا تھا کیونکہ اُسے دھوکا دیا گیا تھا؟ جینہیں۔ دراصل اس واقعے کے ذریعے خدا نے اسرائیلیوں کو فلستیوں کے ہاتھ سے رہائی دینا شروع کر دی۔ سمسون کو فلستیوں سے لڑنے کا اگلا موقع اُس وقت ملا جب وہ اپنی بیوی سے ملنے کے لئے دوبارہ تمنت گیا۔
اکیلے میں دُشمنوں کا مقابلہ
تمنت پہنچ کر جب وہ اپنی بیوی کے گھر گیا تو اُسے پتہ چلا کہ اُسکی بیوی کسی اَور سے بیاہ دی گئی ہے۔ اب سمسون کو فلستیوں کو نقصان پہنچانے کا بہانہ مل گیا تھا۔ اُس نے ۳۰۰ لومڑیاں پکڑیں اور دو دو لومڑیوں کی دُموں کے بیچ میں ایک ایک مشعل باندھ دی۔ پھر اُس نے مشعلوں میں آگ لگا کر ان لومڑیوں کو فلستیوں کے کھڑے کھیتوں، تاکستانوں اور زیتون کے باغوں میں چھوڑ دیا۔ اسطرح فلستیوں کی سالبھر کی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ جب فلستیوں کو پتہ چلا کہ یہ سمسون کی کارروائی تھی تو اُنہوں نے بدلے میں اُسکی بیوی اور سُسر کو آگ میں جلا دیا۔ اس پر سمسون کا کیا ردِعمل رہا؟ اُس نے فلستیوں کو بڑی خونریزی کیساتھ مارا۔—قضاۃ ۱۵:۱-۸۔
کیا اسرائیلی اپنے قاضی سمسون کی اس کارروائی پر خوش ہوئے؟ کیا اُنہوں نے خدا کا شکر ادا کِیا جس نے اُنکے دُشمنوں کو اتنی بڑی شکست دی تھی؟ بالکل نہیں۔ اُنہیں فلستیوں کے انتقام کا خوف تھا اسلئے اُنہوں نے سمسون کو گرفتار کرنے کیلئے ۰۰۰،۳ آدمی روانہ کئے۔ یہ کتنی بڑی زیادتی تھی۔ لیکن اُنکی اس حرکت کی وجہ سے سمسون کو فلستیوں کو مارنے کا مزید موقع ملا۔ جب اُسے فلستیوں کے حوالہ کِیا جا رہا تھا تو ”[یہوواہ] کی روح اُس پر زور سے نازل ہوئی اور اُسکے بازوؤں پر کی رسیاں آگ سے جلے ہوئے سن کی مانند ہو گئیں اور اُسکے بندھن اُسکے ہاتھوں پر سے اُتر گئے۔“ پھر سمسون نے ایک گدھے کے جبڑے کی ہڈی اُٹھا کر ایک ہزار فلستیوں کو مار ڈالا۔—قضاۃ ۱۵:۱۰-۱۵۔
اس لڑائی کے بعد سمسون کو سخت پیاس لگی۔ ”تب اُس نے [یہوواہ] کو پکارا اور کہا تُو نے اپنے بندہ کے ہاتھ سے ایسی بڑی رہائی بخشی۔ اب کیا مَیں پیاس سے مروں اور نامختونوں کے ہاتھ میں پڑوں؟“ یہوواہ نے سمسون کی دُعا سُن لی اور ایک ”گڑھے کو . . . چاک کر دیا اور اُس میں سے پانی نکلا اور جب اُس نے اُسے پی لیا تو اُسکی جان میں جان آئی اور وہ تازہ دم ہوا۔“—قضاۃ ۱۵:۱۸، ۱۹۔
اب سمسون نے خدا کے دُشمنوں کو شکست دینے کی تھان لی۔ اسلئے وہ فلستیوں کے شہر غزہ کو گیا۔ وہاں اُس نے ایک کسبی کے گھر رات گزاری۔ اُس نے اس عورت کیساتھ بداخلاقی نہیں کی بلکہ وہ خود کو اُسکے گھر میں چھپانا چاہتا تھا۔ آدھی رات کو سمسون نے شہر کے پھاٹک کو بینڈے سمیت اُکھاڑ لیا اور اُسکو اپنے کندھوں پر رکھ کر حبرون کے نزدیک ایک پہاڑ کی چوٹی پر لے گیا۔ ایسا کرنے میں اُس نے تقریباً ۳۷ میل [۶۰ کلومیٹر] کا فاصلہ طے کِیا۔ وہ یہ کارنامہ صرف یہوواہ کی مدد سے کر سکتا تھا۔—قضاۃ ۱۶:۱-۳۔
یہوواہ نے سمسون کو اپنی پاک روح کے ذریعے غیرمعمولی طاقت لوقا ۱۱:۱۳۔
عطا کی تاکہ وہ اسرائیل کے دُشمنوں سے نپٹ سکے۔ اسی طرح وہ ہمیں بھی اپنے حالات سے نپٹنے کیلئے اپنی پاک روح عطا کرتا ہے۔ یسوع نے اپنے پیروکاروں سے کہا کہ یہوواہ خدا ضرور ’اپنے مانگنے والوں کو روحالقدس دیگا۔‘—یہوواہ سمسون سے کیوں ”الگ ہو گیا“ ؟
پھر سمسون کو دلیلہ نامی ایک عورت سے عشق ہو گیا۔ جب فلستیوں کے ۵ سرداروں کو اسکا علم ہوا تو اُنہوں نے دلیلہ سے کہا: ”تُو اُسے پھسلا کر دریافت کر لے کہ اُسکی شہزوری کا بھید کیا ہے اور ہم کیونکر اُس پر غالب آئیں۔“ اس کام کیلئے ہر سردار دلیلہ کو انعام کے طور پر ”گیارہ سو چاندی کے سکے“ دینے کو تیار تھا۔—قضاۃ ۱۶:۴، ۵۔
اگر یہ سکے مِثقال تھے تو ۵۰۰،۵ چاندی کے مِثقال کی رقم کوئی معمولی رقم نہیں تھی۔ اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابرہام نے اپنی بیوی کو دفنانے کیلئے جو زمین خریدی اسکی قیمت ۴۰۰ مِثقال تھی اور ایک غلام کی قیمت ۳۰ مِثقال تھی۔ (پیدایش ۲۳:۱۴-۲۰؛ خروج ۲۱:۳۲) ہو سکتا ہے کہ دلیلہ فلستی نہیں بلکہ اسرائیلی تھی۔ اسلئے فلستیوں کے ۵ سرداروں نے اُسکو اتنی بڑی رقم کا لالچ دیا۔ اگر دلیلہ فلستی ہوتی تو وہ انعام کے بغیر بھی اپنی قوم کی مدد کرتی۔ لالچ میں آکر دلیلہ نے فلستیوں کا ساتھ دینے کا وعدہ کر لیا۔
دلیلہ نے سمسون کی طاقت کا راز فاش کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ سمسون نے اُسے تین بار غلط جواب دیا اور تینوں بار دلیلہ نے اُسے فلستیوں کے حوالہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن دلیلہ ہار ماننے کو تیار نہ تھی۔ ”وہ اُسے روز اپنی باتوں سے تنگ اور مجبور کرنے لگی یہاں تک کہ اُسکا دم ناک میں آ گیا۔“ آخرکار سمسون نے اُسے اپنی طاقت کا راز بتا دیا۔ اُسکے بال کبھی کاٹے نہیں گئے تھے۔ اگر اُسکے بال کاٹے جاتے تو وہ اپنی غیرمعمولی طاقت کھو بیٹھتا۔—قضاۃ ۱۶:۶-۱۷۔
دلیلہ نے یہ بات فوراً فلستیوں کے سرداروں کو بتا دی۔ پھر جب سمسون سو گیا تو دلیلہ نے اُسکا سر منڈوا دیا اور اُسکی طاقت ختم ہو گئی۔ تب فلستیوں نے اُسے پکڑ کر اُسکی آنکھیں نکال دیں اور اُسے قیدخانے میں ڈال دیا۔ کیا سمسون کی طاقت واقعی اُسکے بالوں میں تھی؟ جینہیں۔ اُسکے لمبے بال اس بات کی نشاندہی کرتے تھے کہ وہ ایک نذیر تھا یعنی خدا کیلئے پاک ٹھہرایا گیا تھا۔ سمسون نے اپنے اس شرف کی قدر نہیں کی۔ اس وجہ سے ”[یہوواہ] اُس سے الگ ہو گیا۔“—قضاۃ ۱۶:۱۸-۲۱۔
ہم اس واقعے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ ہمیں یہوواہ کے خادم ہونے کے شرف کیلئے شکرگزار ہونا چاہئے اور یہوواہ کے قریب رہنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ اگر ہم ایسا نہیں کرینگے تو یہوواہ ہمیں برکت بھی نہیں دیگا۔
’مجھے فلستیوں کیساتھ مرنے دے‘
فلستیوں کا خیال تھا کہ اُنکے دیوتا دجون نے اُنہیں سمسون پر یہ جیت دی تھی۔ اسلئے وہ اس دیوتا کے مندر میں اپنی جیت کا جشن منا رہے تھے۔ لیکن سمسون جانتا تھا کہ دجون نہیں بلکہ یہوواہ نے اُسکو فلستیوں کے ہاتھ کر دیا تھا۔ وہ اپنی غلطی پر نادر تھا۔ قیدخانے میں اُسکے بال دوبارہ بڑھنے لگے تھے۔ جب سمسون کو دجون کے مندر میں لے جایا گیا تو اُس نے کیا کِیا؟
سمسون نے یوں دُعا کی: ”اَے مالک [یہوواہ] مَیں تیری منت کرتا ہوں کہ مجھے یاد کر اور مَیں تیری منت کرتا ہوں اَے خدا فقط اِس دفعہ اَور تُو مجھے زور بخش تاکہ مَیں یکبارگی فلستیوں سے اپنی دونوں آنکھوں کا بدلہ لوں۔“ پھر سمسون نے دونوں درمیانی ستونوں کو جن پر مندر قائم تھا پکڑا اور ”اپنے سارے زور سے جھکا اور وہ گھر اُن سرداروں اور سب لوگوں پر جو اُس میں تھے گر پڑا۔ پس وہ مُردے جنکو اُس نے اپنے مرتے دم مارا اُن سے بھی زیادہ تھے جنکو اُس نے جیتے جی قتل کِیا۔“—قضاۃ ۱۶:۲۲-۳۰۔
عام طور پر سمسون کو اُسکی غیرمعمولی طاقت اور اُسکی بہادری کیلئے یاد کِیا جاتا ہے۔ لیکن اُسے اپنے ایمان کیلئے بھی یاد کِیا جانا چاہئے۔—عبرانیوں ۱۱:۳۲-۳۴۔
[صفحہ ۲۷ پر تصویر]
سمسون کی غیرمعمولی طاقت کا راز کیا تھا؟