مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اَے اولاد والو!‏ اپنی بیش‌قیمت میراث کی حفاظت کرو

اَے اولاد والو!‏ اپنی بیش‌قیمت میراث کی حفاظت کرو

اَے اولاد والو!‏ اپنی بیش‌قیمت میراث کی حفاظت کرو

‏”‏حکمت .‏ .‏ .‏ پناہ‌گاہ ہے .‏ .‏ .‏ [‏یہ]‏ صاحبِ‌حکمت کی جان کی محافظ ہے۔‏“‏—‏واعظ ۷:‏۱۲‏۔‏

۱.‏ والدین کو اپنے بچوں کو خالق کی طرف سے ایک نعمت کیوں خیال کرنا چاہئے؟‏

والدین ایک نئی زندگی کو دُنیا میں لاتے ہیں جو ان جیسے شخصیتی اوصاف اور جسمانی خصوصیات رکھتی ہے۔‏ بائبل ایسے ننھے بچوں کو ”‏خداوند [‏یہوواہ]‏ کی طرف سے میراث“‏ کہتی ہے۔‏ (‏زبور ۱۲۷:‏۳‏)‏ اگرچہ یہوواہ زندگی کا حقیقی سرچشمہ ہے توبھی اُس نے اپنا یہ حق والدین کو سونپ دیا ہے۔‏ (‏زبور ۳۶:‏۹‏)‏ اَے اولاد والو!‏ آپ خدا کی طرف سے دی جانے والی اس بیش‌قیمت نعمت کو کیسا خیال کرتے ہیں؟‏

۲.‏ منوحہ نے باپ بننے کی خبر سنتے ہی کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟‏

۲ بِلاشُبہ ایسی نعمت کو عاجزی اور شکرگزاری کیساتھ قبول کِیا جانا چاہئے۔‏ تقریباً ۰۰۰،‏۳ سال پہلے،‏ جب ایک فرشتے نے منوحہ نامی اسرائیلی مرد کی بیوی کو دکھائی دیکر کہا کہ تیرے ہاں بیٹا پیدا ہوگا تو منوحہ نے بھی ایسا ہی ردِعمل ظاہر کِیا تھا۔‏ اس خوشخبری کو سنتے ہی منوحہ نے درخواست کی:‏ ”‏اَے میرے مالک مَیں تیری منت کرتا ہوں کہ وہ مردِخدا جسے تُو نے بھیجا تھا ہمارے پاس پھر آئے اور ہم کو سکھائے کہ ہم اُس لڑکے سے جو پیدا ہونے کو ہے کیا کریں؟‏“‏ (‏قضاۃ ۱۳:‏۸‏)‏ والدین منوحہ کی مثال سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

آج بھی الہٰی مدد کیوں درکار ہے

۳.‏ آجکل بچوں کی پرورش کرنے کیلئے خدا کی مدد کیوں ضروری ہے؟‏

۳ آجکل بچوں کی پرورش کے سلسلے میں والدین کو پہلے سے کہیں زیادہ یہوواہ کی مدد کی ضرورت ہے۔‏ اسکی کیا وجہ ہے؟‏ شیطان ابلیس اور اسکے فرشتے آسمان سے زمین پر گرا دئے گئے ہیں۔‏ بائبل آگاہ کرتی ہے:‏ ”‏اَے خشکی اور تری تُم پر افسوس!‏ کیونکہ ابلیس بڑے قہر میں تمہارے پاس اُتر کر آیا ہے۔‏ اِسلئےکہ جانتا ہے کہ میرا تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۷-‏۹،‏ ۱۲‏)‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏تمہارا مخالف ابلیس گرجنے والے شیرببر کی طرح ڈھونڈتا پھرتا ہے کہ کس کو پھاڑ کھائے۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۸‏)‏ شیر زیادہ‌تر چھوٹے اور کمزور جانوروں کا شکار کرتے ہیں۔‏ اسلئے مسیحی والدین اپنے بچوں کی حفاظت کرنے کے سلسلے میں یہوواہ کی راہنمائی کے طالب ہوتے ہیں۔‏ کیا آپ بھی ایسا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟‏

۴.‏ (‏ا)‏ قریبی علاقے میں ایک شیر کے گھومنے کی خبر سننے پر والدین کا ردِعمل کیسا ہوگا؟‏ (‏ب)‏ اپنے بچاؤ کیلئے بچوں کو کس چیز کی ضرورت ہے؟‏

۴ اگر آپکو خبر ملتی ہے کہ قریبی علاقے میں ایک شیر گھوم رہا ہے تو یقیناً آپکی اوّلین فکر اپنے بچوں کو بچانا ہوگی۔‏ شیطان ایک شکاری ہے۔‏ وہ خدا کے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ خدا کی مقبولیت حاصل نہ کر سکیں۔‏ (‏ایوب ۲:‏۱-‏۷؛‏ ۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ بچوں کو ورغلانا بہت آسان ہوتا ہے۔‏ ابلیس کے ہتھکنڈوں سے بچنے کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ بچے یہوواہ کو جانیں اور اسکی فرمانبرداری کریں۔‏ ایسا کرنے کیلئے بائبل علم حاصل کرنا لازمی ہے۔‏ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدایِ‌واحد اور برحق کو اور یسوؔع مسیح کو جسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۳‏)‏ مزیدبرآں،‏ بچوں کو سوچنےسمجھنے اور سیکھی ہوئی باتوں کا اطلاق کرنے کی لیاقت یعنی حکمت حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔‏ کیونکہ ”‏حکمت صاحبِ‌حکمت کی جان کی محافظ ہے،‏“‏ اسلئے آپ والدین کو چاہئے کہ سچائی کو اپنے بچوں کے دلوں میں جاگزین کریں۔‏ (‏واعظ ۷:‏۱۲‏)‏ آپ یہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۵.‏ (‏ا)‏ حکمت کیسے سکھائی جا سکتی ہے؟‏ (‏ب)‏ امثال کی کتاب حکمت کی قدروقیمت کو کیسے بیان کرتی ہے؟‏

۵ آپ اپنے بچوں کیساتھ ملکر خدا کا کلام پڑھ سکتے ہیں۔‏ لیکن یہوواہ سے محبت رکھنے اور اسکی فرمانبرداری کرنے کیلئے اُنہیں کچھ اَور بھی کرنے کی ضرورت ہے۔‏ جی‌ہاں اُنہیں سمجھ‌داری سے کام لینا ہوگا۔‏ مثال کے طور پر:‏ ایک بچے سے کہا جاتا ہے کہ وہ سڑک پار کرنے سے پہلے اپنے دائیں بائیں ضرور دیکھے۔‏ تاہم،‏ بعض بچے اس حکم کی فرمانبرداری نہیں کرتے۔‏ مگر کیوں؟‏ ممکن ہے کہ اُنہیں بارہا یہ نہیں بتایا گیا کہ اگر کار ٹکر مار دیتی ہے تو کیا ہوگا یا یہ کہ اس طریقے سے نہیں بتایا گیا کہ بچہ اسکی سنگینی کو سمجھ سکے اور کوئی ایسی ”‏حماقت“‏ نہ کرے جو حادثے کا باعث بن سکتی ہے۔‏ حکمت سکھانے کیلئے وقت اور تحمل بہت ضروری ہیں۔‏ لیکن حکمت واقعی بہت قیمتی ہے!‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏اُسکی راہیں خوشگوار راہیں ہیں اور اُسکے سب راستے سلامتی کے ہیں۔‏ جو اُسے پکڑے رہتے ہیں وہ اُنکے لئے حیات کا درخت ہے اور ہر ایک جو اُسے لئے رہتا ہے مبارک ہے۔‏“‏—‏امثال ۳:‏۱۳-‏۱۸؛‏ ۲۲:‏۱۵‏۔‏

تعلیم جو حکمت بخشتی ہے

۶.‏ (‏ا)‏ اکثر بچے غیردانشمندانہ کام کیوں کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ کونسی لڑائی جاری ہے؟‏

۶ اکثر نوجوان غلط کام کرتے ہیں اسلئے نہیں کہ انہیں صحیح کام کرنا سکھایا نہیں گیا بلکہ اسلئےکہ تعلیم انکے دل—‏انکی باطنی شخصیت تک نہیں پہنچی۔‏ شیطان نوجوانوں کے دلوں پر قابو پانے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔‏ وہ اس دُنیا کے بیدین اثرات کے ذریعے ان پر غالب آنے کیلئے تیار رہتا ہے۔‏ وہ انکے موروثی گنہگارانہ رُجحان سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے انہیں غلط کام کرنے پر اُکساتا ہے۔‏ (‏پیدایش ۸:‏۲۱؛‏ زبور ۵۱:‏۵‏)‏ والدین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شیطان انکے بچوں کے دل کو اپنے قابو میں کرنے کیلئے حقیقی لڑائی کر رہا ہے۔‏

۷.‏ بچے کو محض یہ بتانا کیوں کافی نہیں کہ کیا صحیح اور کیا غلط ہے؟‏

۷ عموماً والدین بچے کو بتاتے ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے۔‏ ایسا کرنے سے وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اُنہیں اہم اخلاقی اصول سکھا دئے ہیں۔‏ شاید وہ بچے سے کہیں کہ جھوٹ بولنا،‏ چوری کرنا یا ایسے شخص کیساتھ جنسی تعلقات قائم کرنا جس سے آپکی شادی نہیں ہوئی غلط ہے۔‏ تاہم،‏ اگر والدین چاہتے ہیں کہ بچے اُنکی فرمانبرداری کریں تو محض یہ کہنا کافی نہیں بلکہ اُنہیں اس سے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔‏ یہ یہوواہ کے احکام ہیں۔‏ بچے کو سیکھنا چاہئے کہ اُن کیلئے اس سے اچھی بات اَور کوئی نہیں کہ خدا کے حکموں کی فرمانبرداری کریں۔‏—‏امثال ۶:‏۱۶-‏۱۹؛‏ عبرانیوں ۱۳:‏۴‏۔‏

۸.‏ کس قسم کی تعلیم بچے کو دانشمندانہ کام کرنے میں مدد دے سکتی ہے؟‏

۸ کائنات کی پیچیدگی،‏ جاندار چیزوں کی مختلف اقسام،‏ موسموں کی تبدیلی اور اسطرح کی تمام چیزیں ایک فہیم خالق کی موجودگی کو سمجھنے میں بچوں کی مدد کر سکتی ہیں۔‏ (‏رومیوں ۱:‏۲۰؛‏ عبرانیوں ۳:‏۴‏)‏ مزیدبرآں،‏ بچے کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ یہوواہ خدا اس سے محبت کرتا ہے اور اُس نے آپکو ہمیشہ کی زندگی دینے کیلئے اپنے بیٹے کو قربان کِیا ہے۔‏ نیز یہ کہ خدا کے حکموں کی فرمانبرداری کرنے سے وہ اُسے خوش کر سکتا ہے۔‏ پھر شاید بچہ شیطان کی اسے روکنے کی تمام کوششوں کے باوجود یہوواہ کی خدمت کرنا چاہیگا۔‏—‏امثال ۲۲:‏۶؛‏ ۲۷:‏۱۱؛‏ یوحنا ۳:‏۱۶‏۔‏

۹.‏ (‏ا)‏ زندگی‌بخش تعلیم کیا تقاضا کرتی ہے؟‏ (‏ب)‏ والدوں کو کیا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۹ ایسی تعلیم دینے کیلئے جو بچے کی حفاظت کرتی اور اسے درست کام کرنے کی تحریک دیتی ہے وقت،‏ توجہ اور منصوبہ‌سازی کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ یہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ والدین پہلے خود خدا کی راہنمائی کو قبول کریں۔‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏اَے اولاد والو!‏ .‏ .‏ .‏ خداوند [‏یہوواہ]‏ کی طرف سے تربیت اور نصیحت دے دے کر [‏اپنے بچوں کی]‏ پرورش کرو۔‏“‏ (‏افسیوں ۶:‏۴‏)‏ اسکا کیا مطلب ہے؟‏ ”‏تربیت اور نصیحت“‏ اصل یونانی متن میں ”‏سوچ منتقل کرنے“‏ کا خیال پیش کرتا ہے۔‏ پس والدوں کو تاکید کی گئی ہے کہ اپنے بچوں میں یہوواہ کی سوچ منتقل کریں۔‏ یہ بچوں کیلئے کتنا شاندار تحفظ ہوگا!‏ اگر خدا کے خیالات اور اسکی سوچ بچوں کے ذہن میں نقش ہو جاتی ہے تو وہ غلط‌کاری سے محفوظ رہتے ہیں۔‏

محبت سے تحریک پانے والی خواہش

۱۰.‏ اپنے بچے کو مؤثر انداز میں سکھانے کیلئے کس بات کو جاننا ضروری ہے؟‏

۱۰ بچے کی مناسب پرورش کرنے کی اپنی خواہش کو پورا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ آپکی تمام‌تر کوششوں کے پیچھے محبت کارفرما ہو۔‏ اس سلسلے میں اچھا رابطہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔‏ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آپکے بچے کی زندگی میں کیا ہو رہا ہے اور اسکے خیالات کیا ہیں یا وہ کیا سوچتا ہے۔‏ پُرسکون ماحول میں بیٹھ کر بڑے محتاط طریقے سے اپنے بچے کی دل کی بات جاننے کی کوشش کریں۔‏ بعض‌اوقات جوکچھ وہ کہتا ہے شاید آپ اسے سن کر حیران رہ جائیں۔‏ کسی بھی قسم کے شدید ردِعمل کا اظہار کرنے سے محتاط رہیں۔‏ اسکے برعکس،‏ ہمدردی اور دلچسپی کیساتھ اسکی بات سنیں۔‏

۱۱.‏ والدین خدا کی سوچ کو اپنے بچوں کے ذہنوں میں کیسے منتقل کر سکتے ہیں؟‏

۱۱ شاید آپ نے بارہا اپنے بچوں کو بائبل میں سے ایسے قوانین کی بابت پڑھ کر سنایا ہو جو جنسی بداخلاقی سے منع کرتے ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۸؛‏ افسیوں ۵:‏۵‏)‏ ممکن ہے کہ اس سے آپکے بچے سمجھ گئے ہوں کہ یہوواہ کو کیا پسند ہے اور کیا ناپسند ہے۔‏ تاہم بچے کے ذہن میں یہوواہ کی سوچ منتقل کرنے کیلئے اس سے زیادہ کچھ درکار ہے۔‏ بچوں کو یہوواہ کے قوانین کی قدروقیمت سمجھنے کیلئے مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ اُنہیں یہ یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ یہوواہ کے قوانین راست اور درست ہیں۔‏ نیز انکی فرمانبرداری کرنا ایک مناسب اور پُرمحبت عمل ہے۔‏ اگر آپ اپنے بچوں کیساتھ اسطرح صحائف سے استدلال کرتے ہیں تو وہ خدا کے نقطۂ‌نظر کو قبول کر لیتے ہیں۔‏ اسی صورت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ نے یہوواہ کی سوچ کو اپنے بچوں کے ذہن میں منتقل کر دیا ہے۔‏

۱۲.‏ والدین اپنے بچے کو جنسی تعلقات کی بابت صحیح نقطۂ‌نظر قائم کرنے میں کیسے مدد دے سکتے ہیں؟‏

۱۲ جنس کی بابت بات کرتے ہوئے آپ پوچھ سکتے ہیں،‏ ”‏آپکے خیال میں شادی سے پہلے جنسی تعلقات نہ رکھنے کی بابت یہوواہ کے قانون کی فرمانبرداری کرنا ایک شخص کی خوشی کو چھین لینے کے مترادف ہوگا؟‏“‏ جواب دینے کیلئے اپنے بچے کی حوصلہ‌افزائی کریں۔‏ بچے پیدا کرنے کے خدا کے حیرت‌انگیز بندوبست پر بات‌چیت کرنے کے بعد آپ پوچھ سکتے ہیں:‏ ”‏آپکے خیال میں کیا ہمارا شفیق خدا ہماری زندگی سے خوشیاں چھیننے والے قوانین بنائیگا؟‏ یا پھر کیا اسکے قوانین ہمیں خوشی بخشنے اور محفوظ رکھنے کیلئے ہیں؟‏“‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۱،‏ ۲؛‏ یسعیاہ ۴۸:‏۱۷‏)‏ اس سلسلے میں اپنے بچے کے خیالات جاننے کی کوشش کریں۔‏ اسکے بعد آپ اُسکی توجہ ایسی مثالوں پر دلا سکتے ہیں جہاں جنسی بداخلاقی شدید غم اور تکلیف کا باعث بنی تھی۔‏ (‏۲-‏سموئیل ۱۳:‏۱-‏۳۳‏)‏ اپنے بچے کیساتھ استدلال کرنے سے آپ اس قابل ہونگے کہ خدا کے نقطۂ‌نظر کو سمجھنے اور قبول کرنے میں اُسکی مدد کر سکیں۔‏ اسطرح آپ نے خدا کی سوچ کو اُسکے ذہن میں منتقل کرنے کیلئے کافی کچھ انجام دے لیا ہوگا۔‏ تاہم،‏ آپ کچھ اَور بھی کر سکتے ہیں۔‏

۱۳.‏ یہوواہ کی بابت کیا جاننا بچے کو خاص طور پر یہوواہ کی فرمانبرداری کرنے کی تحریک دے سکتا ہے؟‏

۱۳ سمجھ‌داری سے کام لیتے ہوئے،‏ آپ اپنے بچے کو نہ صرف یہوواہ کی نافرمانی کرنے کے نتائج کی بابت بتائینگے بلکہ اُسے یہ بھی بتائیں کہ ہمارے طرزِزندگی سے بھی یہوواہ کیسے متاثر ہوتا ہے؟‏ اپنے بچے کو بائبل میں سے دکھائیں کہ جب ہم یہوواہ کی مرضی پوری کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو اس سے اسے بہت دُکھ ہوتا ہے۔‏ (‏زبور ۷۸:‏۴۱‏)‏ آپ پوچھ سکتے ہیں،‏ ”‏آپ یہوواہ کو کیوں رنجیدہ کرنا نہیں چاہتے؟‏“‏ پھر وضاحت کریں:‏ ”‏خدا کے دشمن شیطان کا دعویٰ ہے کہ ہم یہوواہ کی خدمت اُس سے محبت رکھنے کی وجہ سے نہیں بلکہ خودغرضانہ وجوہات کی بِنا پر کرتے ہیں۔‏“‏ پھر یہ بیان کریں کہ ایوب نے راستی برقرار رکھنے سے خدا کے دل کو شاد کِیا اور شیطان کو جھوٹا ثابت کِیا تھا۔‏ (‏ایوب ۱:‏۹-‏۱۱؛‏ ۲۷:‏۵‏)‏ آپکے بچے کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپنے چال‌چلن سے وہ یہوواہ کو خوش یا ناراض کر سکتا ہے۔‏ (‏امثال ۲۷:‏۱۱‏)‏ لرن فرام دی گریٹ ٹیچر * بُک استعمال کرتے ہوئے بچوں کو اسطرح کے اہم اسباق سکھائے جا سکتے ہیں۔‏

خوش‌کُن نتائج

۱۴،‏ ۱۵.‏ (‏ا)‏ ٹیچر بُک میں کونسے اسباق نے بچوں کو تحریک دی ہے؟‏ (‏ب)‏ آپکو اس کتاب کے استعمال سے کونسے اچھے نتائج حاصل ہوئے ہیں؟‏ (‏صفحہ ۱۸،‏ ۱۹ پر دئے گئے بکس کو بھی دیکھیں۔‏)‏

۱۴ کروشیا سے اپنے سات سالہ پوتے کیساتھ ٹیچر بُک پڑھنے والا ایک شخص اپنے پوتے کی بات کو اسطرح بیان کرتا ہے:‏ ”‏امی نے مجھے کچھ کام کرنے کیلئے کہا لیکن مَیں اسے نہیں کرنا چاہتا تھا۔‏ پھر مجھے اس کتاب کا یہ باب ’‏فرمانبرداری آپکو محفوظ رکھتی ہے‘‏ یاد آیا۔‏ پس مَیں واپس گیا اور اپنی امی کو بتایا کہ میں انکا حکم مانونگا۔‏“‏ فلوریڈا یو.‏ایس.‏اے سے ایک جوڑے نے باب ۲۲ ”‏ہمیں جھوٹ کیوں نہیں بولنا چاہئے“‏ کے بارے میں کہا:‏ ”‏یہ ایسے سوالات فراہم کرتا ہے جو بچوں کی اپنے احساسات بیان کرنے اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی حوصلہ‌افزائی کرتے ہیں۔‏“‏

۱۵ ٹیچر بُک میں ۲۳۰ سے زائد تصاویر ہیں اور ہر تصویر کیساتھ تصویری عبارت بھی ہے۔‏ ایک قدردان ماں نے کہا:‏ ”‏اکثر میرا بیٹا ایک تصویر کو بغور دیکھتا ہی جاتا ہے اور صفحہ پلٹنا بھول جاتا ہے۔‏ تصویریں جاذبِ‌نظر ہونے کیساتھ ساتھ سبق‌آموز بھی ہیں اور بچوں کو سوالات پوچھنے کی تحریک دیتی ہیں۔‏ میرے بیٹے نے ایک تصویر جس میں ایک بچہ تاریک کمرے میں بیٹھا ٹیلی‌ویژن دیکھ رہا ہے کے بارے میں کچھ اس انداز میں مجھ سے پوچھا،‏ امی یہ لڑکا کیا کر رہا ہے؟‏ گویا وہ جانتا ہو کہ کوئی نامناسب یا غلط کام ہو رہا ہے۔‏“‏ اس تصویر کیساتھ دی گئی عبارت میں لکھا ہے:‏ ”‏جوکچھ ہم کرتے ہیں اسے کون دیکھ رہا ہے؟‏“‏

ہمارے زمانے کیلئے عملی تعلیم

۱۶.‏ آجکل بچوں کو کس چیز کی بابت تعلیم دینا ضروری ہے اور کیوں؟‏

۱۶ بچوں کو اپنے اعضائےمخصوصہ کے مناسب اور نامناسب استعمال سے باخبر ہونا چاہئے۔‏ تاہم،‏ ان پر بات کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔‏ ایک کالم‌نویس اسطرح اظہارِخیال کرتی ہے کہ میری پرورش ایک ایسے دَور میں ہوئی جس میں جنسی اعضا کی طرف اشارہ کرنے والے الفاظ استعمال کرنا بھی بُرا سمجھا جاتا تھا۔‏ اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے حوالے سے وہ لکھتی ہے:‏ ”‏مجھے اپنے شرمیلےپن پر قابو پانا ہوگا۔‏“‏ بِلاشُبہ،‏ جب والدین شرمیلےپن کی وجہ سے جنس کے موضوع پر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں تو اس سے بچے کے تحفظ کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔‏ جنسی بدسلوکی کرنے والے لوگ بچے کی اس معصومیت سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔‏ لرن فرام دی گریٹ ٹیچر اس موضوع کو انتہائی خوشگوار اور باوقار انداز میں بیان کرتی ہے۔‏ بچوں کو جنس کی بابت آگاہ کرنا انکی معصومیت کو ختم نہیں کرتا جبکہ ایسا کرنے میں ناکام رہنا اُن کے پاکدامنی کو کھو دینے کا باعث بن سکتا ہے۔‏

۱۷.‏ ٹیچر بُک نے اپنے بچوں کو جنس کی بابت سکھانے میں والدین کی کیسے مدد کی ہے؟‏

۱۷ اس کتاب کے باب ۱۰ میں،‏ فرشتوں کے زمین پر آنے اور اولاد پیدا کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک بچے سے پوچھا گیا ہے،‏ ”‏آپ جنسی تعلقات کی بابت کیا جانتے ہیں؟‏“‏ کتاب اس سوال کا سادہ اور واضح جواب فراہم کرتی ہے۔‏ بعدازاں باب ۳۲ میں بیان کِیا گیا ہے کہ بچوں کو جنسی بدسلوکی کرنے والے لوگوں سے کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔‏ اس کتاب کے حوالے سے بہت سے ایسے خطوط موصول ہوئے ہیں جنہوں نے بیان کِیا ہے کہ ایسی تعلیم بہت ضروری ہے۔‏ ایک ماں نے لکھا:‏ ”‏پچھلے ہفتے جب میرا بیٹا اپنی ڈاکٹر کے پاس گیا تو اُس نے پوچھا کیا آپکے والدین نے آپ کیساتھ اعضائےمخصوصہ کے درست استعمال کے بارے میں بات‌چیت کی ہے۔‏ وہ اس بات سے بہت خوش ہوئی کہ ہم نے اپنی نئی کتاب کو استعمال کرتے ہوئے ایسا کِیا تھا۔‏“‏

۱۸.‏ ٹیچر بُک قومی نشانوں کو تعظیم دینے کے متعلق کیا بیان کرتی ہے؟‏

۱۸ ایک دوسرا باب تین عبرانی نوجوانوں سدرک،‏ میسک اور عبدنجو کے متعلق بیان کرتا ہے جنہوں نے بابلی سلطنت کی نمائندگی کرنے والی مورت کے سامنے جھکنے سے انکار کِیا تھا۔‏ (‏دانی‌ایل ۳:‏۱-‏۳۰‏)‏ جیسےکہ ٹیچر بُک میں بیان کِیا گیا ہے بعض شاید مورت کو سجدہ کرنے اور جھنڈے کو سلامی دینے کے مابین تعلق کو نہ سمجھ پائیں۔‏ تاہم غور کریں کہ ایک مصنف ایڈورڈ گےفنی نے یو.‏ایس کیتھولک میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا کہا۔‏ اس نے بیان کِیا کہ جب اسکی بیٹی نے سکول کے اپنے پہلے دن کے اختتام پر اسے بتایا کہ اس نے ”‏سکول میں ایک نئی دُعا“‏ سیکھی ہے تو مَیں نے اسے دہرانے کیلئے کہا۔‏ ”‏اُس نے احتراماً اپنا ہاتھ اپنے دل پر رکھ لیا اور بولنا شروع کِیا مَیں جھنڈے سے وفاداری کا حلف اُٹھاتی ہوں .‏ .‏ .‏۔‏“‏ وہ بیان کرتا ہے کہ ”‏مَیں سمجھ گیا کہ یہوواہ کے گواہ صحیح تھے۔‏ یہ قومی پرستش کا ایک حصہ ہے جسے سکول کے ابتدائی دَور میں ہی سکھانا شروع کر دیا جاتا ہے—‏ایک بیمثال وفاداری کا عہد۔‏“‏

ایک بااَجر کوشش

۱۹.‏ بچوں کو تعلیم دینا کیسے بااَجر ہے؟‏

۱۹ واقعی،‏ اپنے بچوں کو تعلیم دینا ایک بااَجر کوشش ہے۔‏ کنساس یو.‏ایس.‏اے سے ایک ماں اپنے بیٹے کا خط پڑھ کر رو پڑی۔‏ اس نے لکھا:‏ ‏”‏مَیں ایسی تربیت پاکر خود کو بہت خوش‌قسمت محسوس کرتا ہوں جس نے مجھے جذباتی طور پر مستحکم اور مضبوط ہونے میں مدد دی ہے۔‏ آپ اور ابو واقعی تعریف کے مستحق ہیں۔‏“‏ (‏امثال ۳۱:‏۲۸‏)‏ لرن فرام دی گریٹ ٹیچر اپنے بچوں کو تعلیم دینے اور اپنی اس بیش‌قیمت میراث کی حفاظت کرنے میں دیگر والدین کی بھی مدد کر سکتی ہے۔‏

۲۰.‏ والدین کو ہمیشہ کیا یاد رکھنا چاہئے اور اسکا ان پر کیا اثر ہونا چاہئے؟‏

۲۰ ہمارے بچے وقت،‏ توجہ اور کوشش کے مستحق ہیں۔‏ نوعمری کا عرصہ بہت مختصر ہوتا ہے۔‏ ان کیساتھ رہنے اور انکی مدد کرنے کے ہر موقع سے فائدہ اُٹھائیں۔‏ آپ کبھی بھی بچوں کیساتھ صرف کئے گئے وقت سے پشیمان نہیں ہونگے۔‏ بالآخر وہ آپ سے محبت کرنے لگیں گے۔‏ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ بچے خدا کی طرف سے ایک نعمت ہیں۔‏ وہ کسقدر بیش‌قیمت میراث ہیں!‏ (‏زبور ۱۲۷:‏۳-‏۵‏)‏ پس انکی ایسے پرورش کریں گویا آپ اس کیلئے خدا کے حضور جوابدہ ہیں۔‏ حقیقت یہی ہے کہ آپ واقعی انکی پرورش کے ذمہ‌دار ہیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 13 یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ اس کتاب کے باب ۴۰،‏ ”‏خدا کو کیسے خوش کریں“‏ کے مواد کا مطالعہ کریں۔‏

آپ کیسے جواب دینگے؟‏

‏• آجکل والدین کو اپنے بچوں کی خاص طور پر حفاظت کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟‏

‏• کس قسم کی تعلیم حکمت سکھاتی ہے؟‏

‏• آجکل بچوں سے کن موضوعات پر بات کرنا ضروری ہے؟‏

‏• ٹیچر بُک نے والدین کی اپنے بچوں کو تعلیم دینے میں کیسے مدد کی ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۸ اور ۱۹ پر بکس/‏تصویریں]‏

ایک کتاب جسے سب پڑھ سکتے ہیں

لرن فرام دی گریٹ ٹیچر کتاب،‏ والدین اور دیگر بالغ اشخاص کی مدد کیلئے شائع کی گئی تاکہ وہ بچوں کو یسوع مسیح کی تعلیم سے رُوشناس کرا سکیں۔‏ تاہم،‏ جن بالغوں نے اس کتاب کا مطالعہ کِیا ہے وہ سیکھی ہوئی باتوں کیلئے شکرگزاری کا اظہار کچھ اسطرح کرتے ہیں۔‏

ایک شخص نے یو.‏ایس.‏اے ٹیکساس سے لکھا:‏ ”‏لرن فرام دی گریٹ ٹیچر کتاب کا اندازِبیان سادہ،‏ واضح اور ہر عمر کے لوگوں کو تحریک دینے والا ہے۔‏ جیسے ۷۶ سال کی عمر میں اس کتاب نے مجھے بھی تحریک دی ہے۔‏ مَیں اس کتاب کیلئے آپ سب کا بےحد شکرگزار ہوں۔‏“‏

لندن انگلینڈ سے ایک خاتون نے بیان کِیا:‏ ”‏اس کتاب کی عمدہ تمثیلیں والدین اور بچوں دونوں کے دلوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔‏ اسکے سوالات اور طرزِتحریر بہت ہی معیاری ہے۔‏ نیز مجھے یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ حساس معاملات کو شاندار طریقے سے بیان کِیا گیا ہے۔‏ جیساکہ سبق نمبر ۳۲ ’‏یسوع کو کیسے بچایا گیا‘‏ ظاہر کرتا ہے۔‏“‏ آخر میں وہ کہتی ہے:‏ ”‏یہ کتاب اگرچہ بنیادی طور پر یہوواہ کے گواہوں کے بچوں کیلئے تیار کی گئی ہے لیکن میرے خیال میں اساتذہ اور دوسرے لوگ بھی اس کتاب کو حاصل کرکے خوش ہوں گے۔‏ مجھے اُمید ہے کہ آئندہ برسوں میں یہ کتاب میرے لئے نہایت مفید ثابت ہوگی۔‏“‏

یو.‏ایس.‏اے میساچوسیٹس سے ایک عورت ”‏خوب سوچ‌بچار سے تیارکردہ تصاویر“‏ کی بابت کہتی ہے:‏ ”‏مَیں نے محسوس کِیا ہے کہ اگرچہ یہ کتاب بچوں کیلئے ہے لیکن اس میں زیرِبحث مضامین یہوواہ کیساتھ اپنے رشتے کی بابت سوچ‌بچار کرنے میں ہم بالغوں کی بھی مدد کر سکتے ہیں۔‏“‏

یو.‏ایس.‏اے سے ایک عورت نے پُرجوش انداز میں بیان کِیا:‏ ”‏واہ کیا ہی شاندار کتاب!‏ یہ کتاب نہ صرف چھوٹے بچوں بلکہ ہم سب کیلئے ہے کیونکہ ہم بھی تو خدا کے بچے ہی ہیں۔‏ اس کتاب نے میرے دل‌ودماغ کو بہت متاثر کِیا ہے۔‏ ایک بار تو اس نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا مگر پھر مجھے باطنی اطمینان محسوس ہونے لگا۔‏ مَیں یہوواہ کو اپنے باپ کے طور پر بہت قریب محسوس کرنے لگی ہوں۔‏ اس نے سالہاسال سے درپیش میری تکلیفوں اور پریشانیوں کو دُور کرکے اپنے مقصد کو واضح کر دیا ہے۔‏“‏ آخر میں وہ کہتی ہے:‏ ”‏میری سب سے گذارش ہے کہ اس کتاب کو ضرور پڑھیں۔‏“‏

کیوٹو جاپان سے ایک عورت بیان کرتی ہے کہ جب مَیں اپنے پوتےپوتیوں اور نواسےنواسیوں کیلئے اس کتاب کو پڑھ رہی تھی تو اُنہوں نے بہت سے سوال پوچھے۔‏ مثال کے طور پر:‏ ”‏وہ لڑکا کیا کر رہا ہے؟‏ اس چھوٹی بچی کو کیوں ڈانٹ پڑ رہی ہے؟‏ یہ ماں کیا کر رہی ہے؟‏ یہ شیر یہاں کیا کر رہا ہے؟‏ یہ کتاب وہ باتیں سکھاتی ہے جن میں ہم دلچسپی رکھتے ہیں۔‏ پس مَیں لائبریری میں پائی جانے والی دیگر کتابوں سے زیادہ اسے پسند کرتی ہوں۔‏“‏

کالگیری کینیڈا سے ایک باپ کہتا ہے کہ جیسے ہی اسے یہ کتاب ملی اس نے اپنی چھ سالہ بیٹی اور نو سالہ بیٹے کیساتھ اسے پڑھنا شروع کر دیا۔‏ وہ بیان کرتا ہے:‏ ”‏جلد ہی اسکے شاندار نتائج سامنے آ گئے۔‏ میرے بچوں نے بڑی توجہ کیساتھ سنا اور پھر اپنے الفاظ میں جوابات دئے۔‏ اُنہیں محسوس ہوا کہ وہ بھی اس مطالعے میں شریک ہیں اور یوں انہیں اظہارِخیال کرنے کا موقع ملا۔‏ وہ بہت جوش سے بھرے ہوئے ہیں اور میری بیٹی تو ہر رات سونے سے پہلے اس کتاب کو پڑھنا چاہتی ہے۔‏“‏

ایک مطالعہ کے بعد باپ نے کچھ اسطرح تبصرہ کِیا:‏ ”‏مَیں نے اور میرے بیٹے نے گھنٹوں یہوواہ اور اسکے مقاصد کی بابت بات‌چیت کی۔‏ اُسکے اس کتاب کے مواد پر مبنی کئی سوال تھے۔‏ اس وقت میری آنکھوں میں آنسو آ گئے جب اس نے شب‌بخیر کہنے کے بعد پوچھا،‏ ابو کیا ہم دوبارہ اسی طرح بات‌چیت کر سکتے ہیں؟‏ میرے بہت سے سوال ہیں اور مَیں یہوواہ کے بارے میں سب کچھ جاننا چاہتا ہوں۔‏“‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

اَے اولاد والو!‏ آپ منوحہ کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

نوعمر تین عبرانی نوجوانوں کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویریں]‏

‏”‏ٹیچر“‏ بُک میں موجود تصاویر اور تصویری عبارتیں مؤثر تعلیمی آلات ہیں

حننیاہ نے پطرس سے کیا جھوٹ بولا؟‏

جوکچھ ہم کرتے ہیں اسے کون دیکھ رہا ہے‏؟‏