مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سائنس اور بائبل—‏کیا ان میں واقعی اختلاف ہے؟‏

سائنس اور بائبل—‏کیا ان میں واقعی اختلاف ہے؟‏

سائنس اور بائبل‏—‏کیا ان میں واقعی اختلاف ہے؟‏

گلیلیو اور کیتھولک چرچ کے مابین اختلاف کا بیج تو کوپرنیکس اور گلیلیو کی پیدائش سے صدیوں پہلے ہی بویا جا چکا تھا۔‏ یہ نظریہ قدیم یونانیوں کا تھا کہ زمین ہی کائنات کا مرکز یا ارضِ‌مرکزی ہے۔‏ نیز فلسفہ‌دان ارسطو (‏۳۸۴-‏۳۲۲ ق.‏س.‏ع.‏)‏ اور (‏دوسری صدی س.‏ع.‏)‏ کے ماہرِفلکیات اور نجومی بطلیموس نے اسے خوب مشہور کِیا۔‏ *

کائنات کی بابت ارسطو کا نظریہ یونانی ریاضی‌دان اور فلسفی فیثاغورث (‏چھٹی صدی ق.‏س.‏ع.‏)‏ کی سوچ سے متاثر تھا۔‏ فیثاغورث کے اس نظریے کو قبول کرتے ہوئے کہ محیط،‏ گھیر یا دائرہ اور کرہ مکمل اشکال ہیں،‏ ارسطو یہ یقین رکھتا تھا کہ کائنات پیاز کی تہوں کی طرح مختلف دائروں کا مجموعہ ہے۔‏ ہر تہہ صاف‌وشفاف شیشے کی بنی ہوئی ہے جس کے مرکز میں زمین ہے۔‏ ستارے دائروں کی شکل میں گردش کرتے ہیں اور اُنہیں یہ توانائی بیرونی کُرے میں واقع کسی نادیدہ قوت کے مرکز سے حاصل ہوتی ہے۔‏ ارسطو کا یہ بھی خیال تھا کہ سورج اور دیگر اجرامِ‌فلکی بالکل مکمل ہیں اور اُن میں کسی طرح کا نقص نہیں لہٰذا اُن میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی۔‏

ارسطو کا نظریہ دراصل سائنس کی بجائے فلسفے کی پیداوار تھا۔‏ اُس کے خیال میں زمین کے گردش کرنے کا نظریہ معقول نہیں تھا۔‏ وہ خلا کے نظریے کو بھی نہیں مانتا تھا کیونکہ اُس کے خیال میں اگر رگڑ وغیرہ جیسی مزاحمتی قوتیں باقی نہ رہیں تو ایک وقت آئے گا کہ زمین کا رگڑ کے ذریعے گردش کرنے کا عمل رُک جائے گا۔‏ اُس وقت تک سائنس نے جس حد تک ترقی کی تھی اُس کے مطابق ارسطو کا نظریہ معقول نظر آتا تھا۔‏ اس لئے تقریباً ۰۰۰،‏۲ سال تک ارسطو کا یہ نظریہ کافی مقبول رہا۔‏ حتیٰ‌کہ ۱۶ ویں صدی کے ایک فرانسیسی فلسفی نے بھی اس عام نظریے کی بابت بیان کِیا:‏ ”‏سوجھ‌بوجھ رکھنے والا یا علمِ‌طبیعات سے تھوڑی سی بھی شناسائی رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ نہیں سوچ سکتا کہ اتنی ضخیم زمین اپنے مرکز کے گرد اور سورج کے گرد معمولی سی بھی گردش کر سکتی ہے۔‏ بصورتِ‌دیگر ہمیں شہر،‏ قلعے،‏ قصبے اور پہاڑ گرتے ہوئے نظر آئیں گے۔‏“‏

چرچ نے ارسطو کا نظریہ قبول کر لیا

گلیلیو اور چرچ کے مابین اختلاف کی ایک اَور وجہ ۱۳ ویں صدی میں رونما ہوئی جس کا تعلق کیتھولک چرچ اور تھامس ایکویناس (‏۱۲۲۵-‏۱۲۷۴)‏ سے تھا۔‏ ایکونیاس ارسطو کی بہت عزت کرتا تھا اور اُس کا ذکر ایک اعلیٰ درجہ کے فلسفی کے طور پر کِیا کرتا تھا۔‏ پانچ سال تک ایکونیاس نے ارسطو کے فلسفے کو مذہبی تعلیم میں شامل کرنے کے لئے جدوجہد کی۔‏ گلیلیو کے دَور کی بابت ایک مصنف نے اپنی کتاب گلیلیو کی غلطی میں تحریر کِیا،‏ ”‏ایکونیاس کی مذہبی تعلیم میں ارسطو کے فلسفے کا شامل ہونا روم کے چرچ کی تعلیم کا بنیادی عقیدہ بن چکی تھی۔‏“‏ یہ بھی یاد رکھیں کہ اُن دنوں میں علیٰحدہ سے کوئی سائنسی طبقہ نہیں تھا۔‏ تعلیم پر چرچ کا ہی کنٹرول تھا۔‏ مذہب اور سائنس اکثر ایک ہی اختیار کے تابع تھے۔‏

اب چرچ اور گلیلیو کے مابین اختلاف کی بنیاد پڑ چکی تھی۔‏ علمِ‌فلکیات کی بابت تحقیق کرنے سے پہلے ہی گلیلیو نظریۂ‌حرکت کی بابت ایک مضمون لکھ چکا تھا۔‏ اس مضمون نے ارسطو کے بہت سے مفروضوں کو چیلنج کر دیا۔‏ تاہم،‏ گلیلیو کا اس نظریہ کی حمایت کرنا کہ سورج نظامِ‌شمسی کا مرکز ہے اور اس کا یہ دعویٰ کہ یہ بات پاک صحائف کی مطابقت میں ہے اُس کے ۱۶۳۳ میں رومی کیتھولک عدالت کی طرف سے اُس کے خلاف مقدمہ چلائے جانے کا باعث بنا۔‏

اپنے دفاع میں،‏ گلیلیو نے بائبل کو خدا کا الہامی کلام ماننے پر پختہ ایمان کی تصدیق کر دی۔‏ اُس نے یہ بھی دلیل پیش کی کہ پاک صحائف عام لوگوں کے لئے لکھے گئے تھے اور یہ کہ سورج کی گردش کی بابت بائبل کے حوالہ‌جات کو لفظی معنوں میں نہیں لینا چاہئے۔‏ تاہم اُس کے یہ دعوے بیکار ثابت ہوئے۔‏ گلیلیو کے یونانی فلسفے پر مبنی صحائف کی تشریح کو مسترد کر دینے کی وجہ سے اُس کے خلاف عدالتی سزا سنا دی گئی!‏ سن ۱۹۹۲ میں،‏ کیتھولک چرچ نے باضابطہ طور پر گلیلیو کے خلاف اپنے فیصلے کو غلط قرار دیا۔‏

اس سے ہم کچھ سبق سیکھ سکتے ہیں

ان واقعات سے ہم کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏ پہلی بات تو یہ کہ گلیلیو کو بائبل کی بابت کوئی اعتراض نہیں تھا۔‏ اس کے برعکس،‏ اُس نے چرچ کی تعلیمات پر سوال اُٹھایا تھا۔‏ ایک مذہبی مصنف نے لکھا:‏ ”‏گلیلیو سے ہم جو سبق سیکھ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ اصل بات یہ نہیں تھی کہ چرچ بائبل سچائیوں کا پابند تھا بلکہ وہ ان سچائیوں کا قطعاً پابند نہیں تھا۔‏“‏ یونانی فلسفے کو اپنے مذہبی عقائد پر اثرانداز ہونے کی اجازت دینے سے،‏ چرچ نے بائبل تعلیمات کی بجائے روایات سے مصالحت کر لی تھی۔‏

اس سے ہمیں بائبل کی وہ آگاہی یاد آتی ہے:‏ ”‏خبردار کوئی شخص تُم کو اُس فیلسوفی اور لاحاصل فریب سے شکار نہ کر لے جو انسانوں کی روایت اور دُنیوی ابتدائی باتوں کے موافق ہیں نہ کہ مسیح کے موافق۔‏“‏—‏کلسیوں ۲:‏۸‏۔‏

آجکل بھی دُنیائےمسیحیت میں بہتیرے لوگ ایسے فلسفوں اور نظریات کو بڑے شوق سے قبول کرتے ہیں جو بائبل کی تردید کرتے ہیں۔‏ اس کی ایک مثال ڈارون کا ارتقا کا نظریہ ہے جسے اُنہوں نے پیدایش کی کتاب میں درج تخلیق کی سرگزشت کی جگہ دے دی ہے۔‏ ایسا کرنے سے چرچ نے ڈارون کو جدید زمانے کا ارسطو اور ارتقا کے نظریے کو بنیادی مذہبی عقیدہ تسلیم کر لیا ہے۔‏ *

درست سائنسی نظریات اور بائبل ہم‌آہنگ ہیں

جوکچھ واقع ہوا اس سے سائنس میں ہماری دلچسپی کم نہیں ہونی چاہئے۔‏ بائبل خود ہماری حوصلہ‌افزائی کرتی ہے کہ خدا کی دستکاری سے سیکھیں اور جوکچھ ہمیں نظر آتا ہے اُس میں خدا کی شاندار صفات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔‏ (‏یسعیاہ ۴۰:‏۲۶؛‏ رومیوں ۱:‏۲۰‏)‏ بیشک بائبل سائنسی تعلیم دینے کا دعویٰ تو نہیں کرتی۔‏ اس کے برعکس بائبل ہمیں خدا کے معیاروں،‏ انسانوں کے لئے اُس کے مقصد اور اُس کی شخصیت کے ایسے مختلف پہلوؤں کی بابت تعلیم دیتی ہے جنہیں ہم صرف تخلیق کی مدد سے نہیں سمجھ سکتے۔‏ (‏زبور ۱۹:‏۷-‏۱۱؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶‏)‏ تاہم،‏ جب بائبل کائنات کا ذکر کرتی ہے تو یہ بالکل صحیح بات بیان کر رہی ہوتی ہے۔‏ خود گلیلیو نے کہا تھا:‏ ”‏پاک صحائف اور کائنات میں موجود قوتیں دونوں خدا کی طرف سے ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ یہ دونوں سچائیاں کبھی ایک دوسرے کی مخالفت نہیں کر سکتیں۔‏“‏ مندرجہ‌ذیل مثالوں پر غور کریں۔‏

سیاروں اور ستاروں کی حرکت سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز مختلف قوانین کے تابع ہے۔‏ ان میں سے ایک کشش‌ثقل کا قانون ہے۔‏ جہاں تک طبیعی قوانین کا تعلق ہے تو بائبل کے علاوہ سب سے پہلے فیثاغورث نے ان کا ذکر کِیا تھا۔‏ اُس کا خیال تھا کہ اعداد کی مدد سے کائنات کی بابت سمجھایا جا سکتا ہے۔‏ دو سال بعد،‏ گلیلیو،‏ کپلر اور نیوٹن نے یہ ثابت کر دیا کہ مادہ استدلالی قوانین کے تابع ہے۔‏

فطری قوانین کی بابت بائبل میں پہلا ذکر ایوب کی کتاب میں ملتا ہے۔‏ تقریباً ۱۶۰۰ ق.‏س.‏ع.‏ میں خدا نے ایوب سے پوچھا:‏ ”‏کیا تُو آسمان کے قوانین کو جانتا ہے؟‏“‏ (‏ایوب ۳۸:‏۳۳‏)‏ ساتویں صدی ق.‏س.‏ع.‏ میں لکھی جانے والی یرمیاہ کی کتاب یہوواہ کی بابت بیان کرتی ہے کہ اُس نے ‏”‏روشنی کے لئے چاند اور ستاروں کا نظام قائم کِیا۔‏“‏ نیز اُس نے ”‏آسمان اور زمین کا نظام مقرر“‏ کِیا ہے۔‏ (‏یرمیاہ ۳۱:‏۳۵؛‏ ۳۳:‏۲۵‏)‏ ان بیانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک بائبل مبصر نے بیان کِیا:‏ ”‏مادی دُنیا میں قانون کی موجودگی کو پاک صحائف لکھنے والے بھی اُتنا ہی یقینی مانتے تھے جتنا کہ جدید سائنس حقیقی مانتی ہے۔‏“‏

اگر ہم فیثاغورث کے نکتے پر غور کریں تو ایوب کی کتاب نے اس سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے یہی بات کہی تھی۔‏ یاد رکھیں کہ بائبل کا بنیادی مقصد طبیعی حقائق کو واضح کرنا نہیں بلکہ اس بات پر زور دینا ہے کہ یہوواہ ہی تمام چیزوں کا خالق ہے۔‏ صرف وہی طبیعی قوانین وضع کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔‏—‏ایوب ۳۸:‏۴،‏ ۱۲؛‏ ۴۲:‏۱،‏ ۲‏۔‏

ایک دوسری مثال جس پر ہم غور کر سکتے ہیں وہ زمین کا آبی چکر ہے۔‏ سادہ سی بات ہے کہ سمندر سے پانی بخارات کی شکل میں اُڑ جانے کے بعد بادل بنتا ہے،‏ بارش کی صورت میں زمین پر برستا ہے اور واپس سمندر میں لوٹ جاتا ہے۔‏ پانی کے اس چکر کی بابت بائبل کے علاوہ پہلا ذکر چوتھی صدی ق.‏س.‏ع.‏ کا ہے۔‏ تاہم،‏ بائبل نے اس سے کئی سو سال پہلے ہی یہ بات بیان کر دی تھی۔‏ مثال کے طور پر،‏ اسرائیل کے بادشاہ سلیمان نے ۱۱ ویں صدی ق.‏س.‏ع.‏ میں لکھا:‏ ”‏سب ندیاں سمندر میں گرتی ہیں پر سمندر بھر نہیں جاتا۔‏ ندیاں جہاں سے نکلتی ہیں اُدھر ہی کو پھر جاتی ہیں۔‏“‏—‏واعظ ۱:‏۷‏۔‏

اسی طرح،‏ ۸۰۰ ق.‏س.‏ع.‏ میں ایک ادنیٰ چرواہے اور کسان عاموس نبی نے یہوواہ کی بابت لکھا کہ وہ ”‏سمندر کے پانی کو بلاتا اور رویِ‌زمین پر پھیلاتا ہے۔‏“‏ (‏عاموس ۵:‏۸‏)‏ کوئی پیچیدہ یا تکنیکی زبان استعمال کئے بغیر ہی،‏ سلیمان اور عاموس دونوں نے آبی چکر کو مختلف انداز سے مگر بالکل صحیح بیان کِیا۔‏

بائبل یہ بھی بیان کرتی ہے کہ خدا ”‏زمین کو خلا میں لٹکاتا ہے۔‏“‏ (‏ایوب ۲۶:‏۷‏)‏ اس تحریر کے وقت یعنی ۱۶۰۰ ق.‏س.‏ع.‏ میں،‏ دستیاب ذرائع کے مطابق،‏ کسی کے لئے بھی یہ یقین کرنا کہ ایک ٹھوس چیز بغیر کسی سہارے کے فضا میں لٹکی ہوئی ہے اتنا آسان نہیں تھا۔‏ جیسےکہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے خود ارسطو کے لئے بھی خلا کے نظریے کو تسلیم کرنا آسان نہیں تھا جبکہ وہ اس نظریے کے ۲۰۰،‏۱ سال بعد منظرِعام پر آتا ہے!‏

کیا یہ بات آپ کو متاثر نہیں کرتی کہ بائبل کی صداقت اپنی تحریر کے وقت سے لیکر آج تک ویسی ہی ہے؟‏ پس بائبل کی یہ درستگی اس کے الہامی ہونے کا ایک اَور ثبوت ہے۔‏ لہٰذا،‏ دانشمندی کی روش یہی ہے کہ ہم کسی بھی ایسی تعلیم یا نظریے سے متاثر نہ ہوں جو بائبل کو غلط قرار دیتا ہے۔‏ جیسےکہ تاریخ ظاہر کرتی ہے،‏ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انتہائی ذہین اور قابل لوگوں کے نظریات بھی غلط ثابت ہوئے ہیں لیکن ”‏خداوند [‏یہوواہ]‏ کا کلام ابدتک قائم“‏ رہتا ہے۔‏—‏۱-‏پطرس ۱:‏۲۵‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 2 تیسری صدی ق.‏س.‏ع.‏ میں،‏ ایک یونانی شخص ارسطرخس سیموسی نے یہ مفروضہ پیش کِیا کہ کائنات کا مرکز سورج ہے۔‏ لیکن ارسطو کے نظریے کے سامنے اُس کے نظریات زیادہ مقبولیت حاصل نہ کر سکے۔‏

^ پیراگراف 12 اس موضوع پر تفصیلی بات‌چیت کے لئے یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ کتاب لائف—‏ہاؤ ڈِڈ اِٹ گٹ ہیئر؟‏ بائے ایولوشن اور بائے کریئیشن؟‏ کے باب ۱۵ ”‏بیشتر لوگ کیوں ارتقا کے نظریے کو قبول کرتے ہیں“‏ کو پڑھیں۔‏

‏[‏صفحہ ۶ پر بکس/‏تصویریں]‏

پروٹسٹنٹوں کا رویہ

پروٹسٹنٹ اصلاحی تحریک کے پیشواؤں نے بھی سورج کے نظامِ‌شمسی کا مرکز ہونے کی مخالفت کی۔‏ ان میں مارٹن لوتھر (‏۱۴۸۳-‏۱۵۴۶)‏،‏ فلپ مالنک‌تھن (‏۱۴۹۷-‏۱۵۶۰)‏،‏ اور جان کیلون (‏۱۵۰۹-‏۱۵۶۴)‏ شامل ہیں۔‏ لوتھر نے کوپرنیکس کی بابت کہا:‏ ”‏اس احمق کا خیال ہے کہ وہ اجرامِ‌فلکی کے علم کو ہی بدل ڈالیگا۔‏“‏

تحریکِ‌اصلاحِ‌کلیسیا کے راہنماؤں نے بعض صحائف کے لفظی ترجمے کو اپنے دلائل کی بنیاد بنایا۔‏ جیسےکہ یشوع ۱۰ باب میں بیان کِیا گیا ہے کہ ”‏سورج ٹھہر گیا اور چاند تھما رہا۔‏“‏ * ان لوگوں نے ایسا مؤقف کیوں اختیار کِیا؟‏ ایک کتاب بیان کرتی ہے کہ پروٹسٹنٹ تحریک پاپائی غلامی سے تو آزاد ہو گئی لیکن یہ ارسطو اور تھامس ایکونیاس کے ”‏بنیادی نظریات“‏ کو رد کرنے میں ناکام رہی جنہیں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں ہی مانتے تھے۔‏“‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 28 سائنسی اعتبار سے ہم سورج کے طلوع ہونے اور غروب ہونے کیلئے جو اصطلاحات استعمال کرتے ہیں وہ غلط ہیں۔‏ لیکن زمینی نقطۂ‌نظر سے روزمرّہ گفتگو میں یہ الفاظ صحیح اور قابلِ‌قبول ہیں۔‏ اسی طرح جب یشوع نے یہ بات کہی تو وہ اجرامِ‌فلکی پر بات نہیں کر رہا تھا بلکہ محض ایک آنکھوں دیکھا واقعہ بیان کر رہا تھا۔‏

‏[‏تصویریں]‏

لوتھر

کیلون

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

1877 ‏,Servetus and Calvin From the book

‏[‏صفحہ ۴ پر تصویر]‏

ارسطو

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

1900 ‏,A General Historyfor Colleges and High Schools From the book

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر]‏

تھامس ایکونیاس

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

1855 ‏,Encyclopedia of Religious Knowledge From the book

‏[‏صفحہ ۶ پر تصویر]‏

آئزک نیوٹن

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

تقریباً ۰۰۰،‏۳ سال قبل بائبل نے زمین کے آبی چکر کی بابت بیان کِیا تھا