مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

پولس نے یہودیوں کے صدرِعدالت میں کہا کہ ’‏مَیں ایک فریسی ہوں۔‏‘‏ کیا یہ کہہ کر وہ اپنے مسیحی ایمان سے منکر نہیں ہوا؟‏

پولس کے یہ الفاظ اعمال ۲۳:‏۶ میں پائے جاتے ہیں۔‏ ان کو اچھی طرح سے سمجھنے کے لئے آئیے ہم پورے واقعے پر غور کرتے ہیں۔‏

جب یروشلیم میں کچھ یہودی لوگ پولس پر جھوٹے الزام لگانے لگے تو تمام شہر میں ہلچل مچ گئی۔‏ لوگ اُسے جان سے مارنا چاہتے تھے۔‏ پولس بھیڑ کو اپنی صفائی پیش کرنے لگا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏میری تربیت اِس شہر میں گملیؔ‌ایل کے قدموں میں ہوئی اور مَیں نے باپ‌دادا کی شریعت کی خاص پابندی کی تعلیم پائی۔‏“‏ کچھ دیر اُس کی صفائی سننے کے بعد بھیڑ پھر سے بھڑک اُٹھی۔‏ اس پر وہاں کے رومی پلٹن کے سردار نے حکم دیا کہ پولس کو قلعے میں لے جا کر اُسے کوڑے مارے جائیں۔‏ سپاہی پولس کو کوڑے مارنے ہی لگے تھے کہ اُس نے صوبہ‌دار سے کہا:‏ ”‏کیا تمہیں روا ہے کہ ایک رومی آدمی کے کوڑے مارو اور وہ بھی قصور ثابت کئے بغیر؟‏“‏‏—‏اعمال ۲۱:‏۲۷–‏۲۲:‏۲۹

اگلے دن پلٹن کے سردار نے پولس کو یہودیوں کے صدرِعدالت میں پیش کِیا۔‏ جب پولس نے دیکھا کہ عدالت میں حاضر ہونے والے لوگوں میں سے بعض صدوقیوں اور بعض فریسیوں کے فرقے سے تعلق رکھتے ہیں تو اُس نے پکار کر کہا:‏ ”‏اَے بھائیو!‏ مَیں فریسی اور فریسیوں کی اولاد ہوں۔‏ مُردوں کی اُمید اور قیامت کے بارے میں مجھ پر مُقدمہ ہو رہا ہے۔‏“‏ یہ سنتے ہی فریسیوں اور صدوقیوں میں تکرار ہونے لگی کیونکہ صدوقی مانتے تھے کہ ”‏نہ قیامت ہوگی اور نہ کوئی فرشتہ ہے نہ روح“‏ مگر فریسی ان سب عقیدوں کا اقرار کرتے تھے۔‏ پھر فریسیوں میں سے بعض یوں جھگڑنے لگے کہ ”‏ہم اس آدمی میں کچھ بُرائی نہیں پاتے۔‏“‏‏—‏اعمال ۲۳:‏۶-‏۱۰

جب پولس نے کہا کہ ’‏مَیں ایک فریسی ہوں‘‏ تو صدوقیوں اور فریسیوں نے اُس کی اِس بات کا کیا مفہوم نکالا ہوگا؟‏ عدالت کے تمام حاضرین جانتے تھے کہ پولس ایک فریسی رہ چکا تھا لیکن اب وہ ایک سرگرم مسیحی کے طور پر مشہور تھا۔‏ توپھر وہ کس لحاظ سے پولس کو ایک فریسی سمجھتے تھے؟‏

غور کیجئے کہ پولس نے قیامت کے عقیدے کا ذکر کِیا تھا۔‏ فریسی بھی مُردوں کی قیامت میں ایمان رکھتے تھے۔‏ اس لحاظ سے پولس کا ایمان اور فریسیوں کا ایمان ملتاجلتا تھا۔‏

قیامت کے عقیدے کے علاوہ فریسیوں کے کچھ اَور مذہبی عقائد بھی مسیحی ایمان کی مطابقت میں تھے۔‏ مثلاً وہ بھی فرشتوں کے وجود کو مانتے تھے۔‏ (‏فلپیوں ۳:‏۵‏)‏ اِس لئے جب پولس نے کہا کہ ’‏مَیں فریسی ہوں‘‏ تو وہاں موجود لوگوں نے سمجھ لیا ہوگا کہ پولس صرف اِن عقائد کے سلسلے میں خود کو فریسی قرار دے رہا ہے۔‏

ہم اس بات سے بھی جانتے ہیں کہ پولس نے اپنے ایمان سے انکار نہیں کِیا کیونکہ اُسی رات یسوع نے اُس سے کہا:‏ ”‏خاطر جمع رکھ کہ جیسے تُو نے میری بابت یرؔوشلیم میں گواہی دی ہے ویسے ہی تجھے رؔومہ میں بھی گواہی دینا ہوگا۔‏“‏ ‏(‏اعمال ۲۳:‏۱۱‏)‏ اس سے ہم جان جاتے ہیں کہ یہوواہ خدا پولس سے خوش تھا۔‏ پولس ہرگز اپنے ایمان سے منکر نہیں ہوا تھا۔‏