مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سچا ایمان اعمال سے ظاہر ہوتا ہے

سچا ایمان اعمال سے ظاہر ہوتا ہے

سچا ایمان اعمال سے ظاہر ہوتا ہے

ایک رومی صوبہ‌دار کا خادم بیمار ہو گیا تھا۔‏ صوبہ‌دار جانتا تھا کہ یسوع مسیح اس کے خادم کو شفا بخش سکتا ہے۔‏ مگر وہ یسوع کو اپنے گھر لانے سے جھجھک رہا تھا۔‏ وہ شاید سوچ رہا تھا کہ مَیں تو ایک غیریہودی ہوں۔‏ بھلا مَیں اِس عظیم استاد کو اپنے گھر کیسے بلا سکتا ہوں؟‏ مگر اُسے پورا یقین تھا کہ یسوع اُس کے گھر آئے بغیر بھی اُس کے خادم کو شفا دینے کی طاقت رکھتا ہے۔‏ اس لئے اُس نے یہودیوں کے کچھ بزرگوں کو یسوع کے پاس بھجوا کر کہا:‏ ”‏مَیں اِس لائق نہیں کہ تُو میری چھت کے نیچے آئے بلکہ صرف زبان سے کہہ دے تو میرا خادم شفا پا جائے گا۔‏“‏ صوبہ‌دار کے ایمان کو دیکھ کر یسوع نے اِردگِرد کھڑے لوگوں سے کہا:‏ ”‏مَیں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ مَیں نے اؔسرائیل میں بھی ایسا ایمان نہیں پایا۔‏“‏—‏متی ۸:‏۵-‏۱۰؛‏ لوقا ۷:‏۱-‏۱۰‏۔‏

اس واقعے سے ہم سچے ایمان کے بارے میں ایک اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔‏ اُس صوبہ‌دار کا ایمان اُس کے اعمال ہی سے ظاہر ہوا۔‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”‏ایمان بھی اگر اُس کے ساتھ اعمال نہ ہوں تو اپنی ذات سے مُردہ ہے۔‏“‏ (‏یعقوب ۲:‏۱۷‏)‏ لہٰذا اعمال کے بغیر ایمان کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔‏ آیئے ہم اس سلسلے میں اسرائیل کی قوم کی مثال پر غور کرتے ہیں۔‏

یہوواہ خدا نے اسرائیلیوں کو مصر سے چھڑانے کے بعد اُنہیں شریعت دی۔‏ موسیٰ کے ذریعے خدا نے اسرائیل سے کہا:‏ ”‏اگر تُم میری بات مانو اور میرے عہد پر چلو تو سب قوموں میں سے تُم ہی .‏ .‏ .‏ ایک مُقدس قوم ہوگے۔‏“‏ (‏خروج ۱۹:‏۳-‏۶‏)‏ جی‌ہاں،‏ اگر بنی‌اسرائیل خدا کی شریعت پر عمل کرتے تو وہ خدا کی نظر میں پاک ٹھہرائے جاتے۔‏

کئی صدیوں بعد یہودی لوگوں کا خیال تھا کہ خدا کی شریعت کا مطالعہ کرنا اس پر عمل کرنے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔‏ ایک مصنف نے یسوع کے زمانے کے بارے میں یوں لکھا:‏ ”‏یہودیوں کے مذہبی راہنماؤں نے آپس میں طے کر لیا تھا کہ خدا کی شریعت کا مطالعہ کرنا اس پر عمل کرنے کی نسبت زیادہ ثواب لاتا ہے۔‏“‏

یہ سچ ہے کہ یہوواہ خدا نے ظاہر کِیا تھا کہ شریعت کو اچھی طرح جاننا اور پڑھنا بہت ضروری ہے۔‏ اُس نے اسرائیلیوں سے کہا:‏ ”‏یہ باتیں جن کا حکم آج مَیں تجھے دیتا ہوں تیرے دل پر نقش رہیں۔‏ اور تُو ان کو اپنی اولاد کے ذہن‌نشین کرنا اور گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اُٹھتے وقت ان کا ذکر کِیا کرنا۔‏“‏ (‏استثنا ۶:‏۶،‏ ۷‏)‏ اب سوال یہ اُٹھاتا ہے کہ کیا واقعی خدا کے نزدیک شریعت کا مطالعہ کرنا اس پر عمل کرنے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے؟‏ آئیے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ یہودیوں کے اس نظریے کا کیا نتیجہ نکلا۔‏

شریعت کا گہرا مطالعہ

دراصل کئی یہودی تو یہ مانتے تھے کہ خدا خود روزانہ ۳ گھنٹے تک شریعت کا مطالعہ کرتا ہے۔‏ اُن کا کہنا تھا کہ ’‏اگر خدا شریعت کا مطالعہ کرتا ہے تو بھلا اِنسان کو ایسا کیوں نہ کرنا چاہئے؟‏‘‏ اُن کے مطابق یہ بےحد ضروری تھا۔‏

یہودی علماء شریعت کے مطالعے پر اتنا زور دینے لگے کہ یسوع کے زمانے تک اُنہوں نے شریعت کے علاوہ ہزاروں اضافی قوانین کھڑے کر رکھے تھے۔‏ یسوع نے ان علماء کے بارے میں کہا:‏ ”‏وہ کہتے ہیں اور کرتے نہیں۔‏ وہ اَیسے بھاری بوجھ جن کو اُٹھانا مشکل ہے باندھ کر لوگوں کے کندھوں پر رکھتے ہیں مگر آپ اُن کو اپنی اُنگلی سے بھی ہلانا نہیں چاہتے۔‏“‏ (‏متی ۲۳:‏۲-‏۴‏)‏ واقعی یہ اضافی قوانین عام لوگوں کے لئے ایک بھاری بوجھ کی مانند تھے۔‏ یہودی علماء لوگوں کو ان قوانین پر عمل کرنے پر مجبور کرتے تھے۔‏ لیکن وہ خود ان پر عمل نہیں کرنا چاہتے تھے اس لئے اُنہوں نے اپنے لئے الگ قوانین عائد کئے تھے۔‏ یسوع نے ان سے کہا کہ ”‏تُم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے۔‏“‏—‏متی ۲۳:‏۱۶-‏۲۴‏۔‏

جی‌ہاں،‏ یہودی علماء شریعت پر چلنے کا دکھاوا کرتے تھے مگر حقیقت میں خدا کے قوانین کو توڑتے تھے۔‏ وہ شریعت کو باربار رٹتے تو تھے،‏ اُس کا گہرا مطالعہ تو کرتے تھے،‏ مگر اُنہوں نے اپنے دل میں خدا کے لئے محبت پیدا نہیں کی۔‏ دراصل اُن کے ”‏علم کو علم کہنا ہی غلط ہے۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۲۰،‏ ۲۱‏)‏ شریعت کا گہرا مطالعہ کرنے کے باوجود وہ خود میں ایک ایسا ایمان پیدا نہیں کر سکے جو اعمال سے ظاہر ہوتا ہے۔‏

مطالعہ کرنا کافی نہیں

یہودی علماء کے نظریے اور خدا کے نظریے میں زمین آسمان کا فرق تھا۔‏ یہوواہ خدا نے بنی‌اِسرائیل سے کہا تھا کہ ”‏جو باتیں مَیں نے تُم سے آج کے دن بیان کی ہیں اُن سب سے تُم دل لگانا اور اپنے لڑکوں کو حکم دینا کہ وہ احتیاط رکھ کر اس شریعت کی سب باتوں پر عمل کریں۔‏“‏ (‏استثنا ۳۲:‏۴۶‏)‏ غور کیجئے کہ یہوواہ خدا نے اُن سے کہا کہ شریعت پر عمل کرنا ضروری ہے،‏ محض اُس کا مطالعہ کرنا کافی نہیں۔‏

لیکن بنی‌اسرائیل شریعت پر عمل کرنے کی بجائے یہوواہ ”‏پر ایمان نہ لائے اور اُس کی بات نہ مانی۔‏“‏ (‏استثنا ۹:‏۲۳؛‏ قضاۃ ۲:‏۱۵،‏ ۱۶؛‏ ۲-‏تواریخ ۲۴:‏۱۸،‏ ۱۹؛‏ یرمیاہ ۲۵:‏۴-‏۷‏)‏ آخرکار وہ یہوواہ کی راہ سے اِتنے بھٹک چکے تھے کہ جب یہوواہ نے یسوع کو بھیجا تو اُنہوں نے اُسے رد کرکے سولی پر چڑھا دیا۔‏ (‏یوحنا ۱۹:‏۱۴-‏۱۶‏)‏ اِس لئے یہوواہ نے اِسرائیلی قوم کو بھی رد کر دیا اور غیریہودیوں کو اپنی قوم بننے کا موقع دیا۔‏—‏اعمال ۱۳:‏۴۶‏۔‏

یہودیوں سے ہم کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏ یہی کہ خدا کے کلام کا مطالعہ کرنا کافی نہیں ہوتا۔‏ ہمیں اس پر عمل بھی کرنا ہوگا۔‏ ورنہ ہم اُس کسان کی طرح ہوں گے جو زراعت کی اعلیٰ تعلیم حاصل تو کرتا ہے لیکن کبھی فصل نہیں بوتا۔‏ کیا اُس کا سارا علم بےفائدہ نہیں رہے گا؟‏ لہٰذا ہمیں خدا کی تعلیم کے بیج کو اپنے دل کی گہرائی تک پہنچانا چاہئے۔‏ تب ہی ہمارے دل میں سچا ایمان جڑ پکڑ کر نیکی کے پھل پیدا کرے گا۔‏—‏متی ۱۳:‏۳-‏۹،‏ ۱۹-‏۲۳‏۔‏

‏”‏کلام پر عمل کرنے والے بنو“‏

محض یہ کہنا کافی نہیں کہ ’‏مَیں خدا اور یسوع پر ایمان رکھتا ہوں۔‏‘‏ پولس رسول نے کہا کہ ”‏ایمان سننے سے پیدا ہوتا ہے۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۰:‏۱۷‏)‏ اور واقعی ہم نے سب سے پہلے یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے بارے میں سنا۔‏ پھر آہستہ آہستہ ہمارے اعمال سے ظاہر ہونے لگا کہ ہمارے دل میں ایمان پیدا ہو رہا ہے۔‏

یسوع نے بھی کہا کہ ایمان کا پھل نیک کام ہوتے ہیں۔‏ اُس نے اپنے شاگردوں کو بتایا:‏ ”‏میرے باپ کا جلال اسی سے ہوتا ہے کہ تُم بہت سا پھل لاؤ۔‏ جب ہی تُم میرے شاگرد ٹھہرو گے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۸‏)‏ یسوع کے بھائی یعقوب نے بھی لکھا:‏ ”‏کلام پر عمل کرنے والے بنو نہ محض سننے والے۔‏“‏ (‏یعقوب ۱:‏۲۲‏)‏ یہوواہ ہم سے کونسے اعمال کی توقع کرتا ہے؟‏ اس سلسلے میں یسوع مسیح کی زندگی اور اُس کی تعلیم پر غور کریں۔‏

یسوع نے یہوواہ کی خدمت میں دن‌رات محنت کی۔‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۴-‏۸‏)‏ آجکل لوگ یسوع کو اکثر اُس کے معجزوں کے لئے یاد کرتے ہیں اور واقعی اُس نے بہت سے بیماروں کو تندرست کِیا۔‏ مگر اُس کا سب سے اہم کام یہ تھا کہ اُس نے لوگوں کو یہوواہ خدا اور اُس کی بادشاہت کے بارے میں بتایا۔‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”‏یسوؔع سب شہروں اور گاؤں میں پھرتا رہا اور اُن کے عبادتخانوں میں تعلیم دیتا اور بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کرتا“‏ رہا۔‏ اُس نے صرف اپنے دوستوں اور رشتہ‌داروں کو خدا کی تعلیم نہیں دی بلکہ وہ ”‏تمام گلیلؔ میں“‏ منادی کرتا رہا۔‏—‏متی ۴:‏۲۳،‏ ۲۴؛‏ ۹:‏۳۵‏۔‏

اس طرح یسوع نے اپنے شاگردوں کے لئے ایک اچھی مثال قائم کی۔‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۱‏)‏ اُس نے اُنہیں منادی کرنے کی ذمہ‌داری سونپی۔‏ یسوع نے کہا:‏ ”‏تُم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُن کو باپ اور بیٹے اور رُوح‌اُلقدس کے نام سے بپتسمہ دو۔‏ اور اُن کو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جن کا مَیں نے تُم کو حکم دیا۔‏“‏—‏متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏۔‏

لیکن یسوع کے اس حکم پر عمل کرنا آسان نہیں۔‏ یسوع نے خود کہا تھا کہ ”‏دیکھو مَیں تم کو گویا برّوں کو بھیڑیوں کے بیچ میں بھیجتا ہوں۔‏“‏ (‏لوقا ۱۰:‏۳‏)‏ منادی کے کام میں لوگ اکثر ہماری مخالفت کرتے ہیں۔‏ ایسی صورتحال میں ہم شاید اس کام میں حصہ لینے سے کتراتے ہیں۔‏ یاد رکھیں کہ جب یسوع کو گرفتار کِیا گیا تو اُس کے شاگرد بھی اُسے چھوڑ کر بھاگ گئے اور پطرس نے تین بار اُس کا انکار کِیا۔‏—‏متی ۲۶:‏۵۶،‏ ۶۹-‏۷۵‏۔‏

پولس رسول کو بھی منادی کرنے کے لئے ہمت باندھنے کی ضرورت تھی۔‏ اُس نے تھسلنیکیوں کی کلیسیا کو لکھا:‏ ”‏ہم کو اپنے خدا میں یہ دلیری حاصل ہوئی کہ خدا کی خوشخبری بڑی جانفشانی سے تمہیں سنائیں۔‏“‏—‏۱-‏تھسلنیکیوں ۲:‏۱،‏ ۲‏۔‏

پولس اور باقی رسول دلیری سے منادی کر سکے اس لئے ہمیں بھروسا ہونا چاہئے کہ ہم بھی ایسا کر پائیں گے۔‏ اگر ہمارا ایمان مضبوط ہے تو ہم منادی کرنے کے حکم پر ہر حال میں عمل کریں گے۔‏ اور یہوواہ خدا ہمیں اپنی مرضی پوری کرنے کے لئے طاقت بھی بخشے گا۔‏—‏اعمال ۴:‏۱۷-‏۲۰؛‏ ۵:‏۱۸،‏ ۲۷-‏۲۹‏۔‏

یہوواہ آپ کی کوششوں کو برکت دے گا

یہوواہ جانتا ہے کہ ہمیں اکثر اُس کی خدمت میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔‏ جب ہم بیمار یا مایوس ہوتے ہیں یا پھر جب ہم مشکل سے اپنا خرچہ پورا کر پاتے ہیں تو وہ اس سے باخبر ہوتا ہے۔‏ وہ ہمارے جذبات کو سمجھتا ہے اور ہماری ہر کوشش کی بہت قدر کرتا ہے۔‏—‏۲-‏تواریخ ۱۶:‏۹؛‏ ۱-‏پطرس ۳:‏۱۲‏۔‏

طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود جب ہم دل‌وجان سے خدا کی خدمت کرتے رہتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوتا ہے۔‏ پولس رسول نے لکھا کہ ”‏خدا بےانصاف نہیں جو تمہارے کام اور اس محبت کو بھول جائے جو تُم نے اُس کے نام کے واسطے اس طرح ظاہر کی کہ مُقدسوں کی خدمت کی اور کر رہے ہو۔‏“‏—‏عبرانیوں ۶:‏۱۰

ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا کبھی بےانصافی نہیں کر سکتا کیونکہ ”‏اُس کی سب راہیں انصاف کی ہیں۔‏ وہ وفادار خدا“‏ ہے۔‏ اس کے علاوہ خدا نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ ”‏اپنے طالبوں کو بدلہ دیتا ہے۔‏“‏ (‏استثنا ۳۲:‏۴؛‏ عبرانیوں ۱۱:‏۶‏)‏ اس سلسلے میں امریکہ کی ایک خاتون بتاتی ہیں:‏ ”‏میرے والد نے شادی سے پہلے دس سال تک اپنا سارا وقت منادی کرنے پر صرف کِیا۔‏ وہ مجھے اُن دنوں کے بارے میں بتایا کرتے تھے۔‏ اکثر ایسا ہوتا کہ وہ منادی کے کام میں جانے کے لئے اپنے سارے پیسے پٹرول پر خرچ کر دیتے۔‏ مگر یہوواہ خدا نے ہمیشہ اُن کی روزمرّہ کی ضروریات پوری کیں۔‏ کیونکہ جب وہ منادی کے بعد گھر لوٹتے تو کسی نہ کسی دوست نے دروازے پر اُن کے لئے کھانا چھوڑ رکھا ہوتا۔‏“‏

یہوواہ ہماری روزانہ کی ضروریات بھی پوری کرے گا۔‏ اس کے علاوہ جب ہم کٹھن حالات سے گزرتے ہیں تو وہ ہمیں تسلی بھی دیتا ہے کیونکہ وہ ”‏رحمتوں کا باپ اور ہر طرح کی تسلی کا خدا ہے۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱:‏۳‏)‏ یہوواہ ہمیں کیسے تسلی دیتا ہے؟‏ ایک مسیحی خاتون جو وفاداری سے خدا کی خدمت کرتی آ رہی ہیں،‏ یوں بیان کرتی ہیں:‏ ”‏مَیں دلی سکون محسوس کرتی ہوں کیونکہ مجھے یہوواہ خدا پر بھروسا ہے۔‏ مسئلوں کا سامنا کرتے وقت جب ہم یہوواہ پر تکیہ کرتے ہیں تو وہ ہماری مدد کو آتا ہے۔‏ یہ دیکھ کر اُس میں ہمارا بھروسا اَور بھی بڑھ جاتا ہے۔‏“‏ اسی طرح آپ بھی ”‏دُعا کے سننے والے“‏ سے مدد کی التجا کر سکتے ہیں اور وہ آپ کی ضرور سنے گا۔‏—‏زبور ۶۵:‏۲‏۔‏

جب ہم منادی کے کام میں لگے رہتے ہیں تو ہمیں بہت سی برکتیں حاصل ہوں گی۔‏ (‏متی ۹:‏۳۷،‏ ۳۸‏)‏ اس کام میں مشغول رہنے سے ہماری صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے۔‏ لیکن اس سے بڑھ کر ہم یہوواہ کے اَور بھی نزدیک آ سکیں گے۔‏—‏یعقوب ۲:‏۲۳‏۔‏

خدا کی خدمت میں پوری کوشش لگائیں

شاید آپ یہوواہ کی خدمت میں اَور زیادہ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن بیماری یا بڑھاپے کی کمزوریوں یا پھر خاندانی ذمہ‌داریوں کی وجہ سے آپ ایسا کر نہیں سکتے۔‏ ایسی صورتحال میں یہ نہ سوچیں کہ یہوواہ آپ سے خوش نہیں ہے۔‏ یاد رکھیں کہ ہم جو کچھ بھی یہوواہ خدا کی خدمت میں کر پاتے ہیں وہ اُس کی بہت قدر کرتا ہے۔‏

پولس رسول بھی خدا کی خدمت میں زیادہ کرنے کی خواہش تو رکھتا تھا لیکن اپنی ایک کمزوری کی وجہ سے ایسا نہ کر سکا۔‏ اُس نے ’‏اس کے بارے میں تین بار خداوند سے التماس کیا کہ یہ کمزوری اُس سے دور ہو جائے۔‏‘‏ لیکن خدا نے اُس کی یہ خواہش پوری نہ کی بلکہ اُس سے کہا:‏ ”‏میرا فضل تیرے لئے کافی ہے کیونکہ میری قدرت کمزوری میں پوری ہوتی ہے۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۲:‏۷-‏۱۰‏)‏ یہوواہ خدا آپ کی صورتحال سے اچھی طرح سے واقف ہے۔‏ آپ اُس کی خدمت میں جو کچھ بھی کر پاتے ہیں وہ اِس کی بہت قدر کرتا ہے۔‏—‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۵،‏ ۱۶‏۔‏

یہوواہ ہم سے صرف ایسی توقعات رکھتا ہے جن پر ہم پورا بھی اُتر سکیں۔‏ وہ ہماری ہر کوشش سے خوش ہوتا ہے۔‏ اُس کے نزدیک سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارا ایمان ہمارے اعمال سے ظاہر ہو۔‏

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

کیا شریعت کا گہرا مطالعہ کرنا کافی تھا؟‏

‏[‏صفحہ ۲۹ پر تصویر]‏

سچا ایمان اعمال سے ظاہر ہوتا ہے