مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مایوس ہونے کی بجائے وہ ہمت باندھتے ہیں—‏ پناہ‌گزین کیمپ میں جلسہ

مایوس ہونے کی بجائے وہ ہمت باندھتے ہیں—‏ پناہ‌گزین کیمپ میں جلسہ

مایوس ہونے کی بجائے وہ ہمت باندھتے ہیں‏—‏ پناہ‌گزین کیمپ میں جلسہ

کینیا کے شمال میں سوڈان کی سرحد کے قریب کاکوما نامی ایک پناہ‌گزین کیمپ واقع ہے۔‏ اس خشک علاقے کا درجۂ‌حرارت اکثر ۵۰ ڈگری تک چڑھتا ہے۔‏ کیمپ میں ۰۰۰،‏۸۶ سے زیادہ پناہ‌گزین رہتے ہیں جنکا تعلق مختلف ممالک سے ہے۔‏ اسلئے کیمپ میں ہر وقت لڑائی جھگڑا ہوتا رہتا ہے۔‏ ان حالات کی وجہ سے کیمپ کے زیادہ‌تر پناہ‌گزین تنگ آ چکے ہیں۔‏ لیکن کیمپ کے چند پناہ‌گزین یہوواہ کے گواہ ہیں اور وہ تنگ آنے کی بجائے ہمت باندھے ہوئے ہیں۔‏ اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھی پناہ‌گزینوں کو خدا کے کلام کی خوشخبری سنانے میں مصروف ہیں۔‏

کاکوما کا کیمپ شہر لدوار سے ۱۲۰ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور یہاں پر یہوواہ کے گواہوں کی ایک کلیسیا بھی ہے۔‏ کاکوما کیمپ کے گواہوں کی دیکھ‌بھال کرنے کی ذمہ‌داری اسی کلیسیا پر پڑتی ہے۔‏ لدوار سے اگلی کلیسیا تک پہنچنے کیلئے کم‌ازکم آٹھ گھنٹے سفر کرنا پڑتا ہے۔‏

پناہ‌گزین کو کیمپ سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔‏ اسلئے وہ یہوواہ کے گواہوں کے مذہبی جلسوں پر (‏جنکو اسمبلی یا کنونشن بھی کہا جاتا ہے)‏ حاضر نہیں ہو سکتے۔‏ اس وجہ سے حال ہی میں کیمپ کے اندر ایک جلسے کا بندوبست کِیا گیا۔‏

ایک دشوار سفر

اس جلسے کو منعقد کرنے اور اپنے بہن‌بھائیوں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کے لئے ۱۵ یہوواہ کے گواہ شہر الدوریٹ سے کاکوما آئے۔‏ الدوریٹ کاکوما سے ۴۸۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔‏ یہ ۱۵ بہن‌بھائی ایک چھوٹی سی بس میں سفر کر رہے تھے۔‏ یہ بس ایک ایسے شخص کی ہے جو گواہوں سے بائبل کی سچائیوں کے بارے میں سیکھ رہا ہے۔‏ وہ اپنے ڈرائیور سمیت بھی اُنکے ساتھ اس دشوار سفر پر روانہ ہوا۔‏

مُنہ‌اندھیرے اُٹھ کر وہ صبح کی ٹھنڈی فضا میں اپنے سفر پر چل دئے۔‏ پہلے وہ کچی سڑکوں پر کینیا کے مغربی پہاڑی علاقے کے جنگلات اور کھیتوں سے گزرے۔‏ لیکن جب وہ ریگستان پہنچے تو دھوپ کی شدت تیز ہو گئی۔‏ اس ویران‌وسنسان علاقے میں قبائلی لوگ لاٹھی اور تیرکمان لئے پھرتے ہیں اور اُونٹ اور بکریاں پالتے ہیں۔‏ گیارہ گھنٹے کے سفر کے بعد بس لدوار پہنچی۔‏ لدوار کے ۰۰۰،‏۲۰ باشندے اس خشک علاقے میں اپنا گزر بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ مسافر اپنے میزبانوں کے گھر پہنچ کر بہت خوش ہوئے۔‏

اگلی صبح یہ ۱۵ گواہ تُرکانا جھیل کی سیر کرنے کو نکلے۔‏ جھیل کی چاروں طرف جھاڑیاں ہی جھاڑیاں ہیں۔‏ اس جھیل میں اتنے مگرمچھ ہیں کہ دُنیا کی کسی اَور جھیل میں اتنے نہیں پائے جاتے۔‏ جھیل کے کنارے کم ہی لوگ رہتے ہیں۔‏ شام کو تمام مسافر لدوار کی کلیسیا کے مسیحی خدمتی سکول اور خدمتی اجلاس کیلئے حاضر ہوئے۔‏ وہاں کی کلیسیا ایک ایسی عبادتگاہ میں جمع ہوتی ہے جسے سن ۲۰۰۳ میں دوسرے ممالک کے یہوواہ کے گواہوں کی مدد سے تعمیر کِیا گیا تھا۔‏

جلسے کا روز

جلسہ اتوار کو منعقد ہونا تھا۔‏ لدوار کلیسیا کے اور الدوریٹ سے آنے والے بہن‌بھائیوں کو صبح آٹھ بجے کے بعد کیمپ میں داخل ہونے کی اجازت ملی تھی۔‏ اسلئے وہ وقت پر کیمپ پہنچنا چاہتے تھے۔‏ کاکوما تک پہنچنے کا راستہ کافی دُشوار ہے۔‏ اُونچے پہاڑوں کے بیچ میں ایک بل‌کھاتی ہوئی تنگ سڑک گزرتی ہے۔‏ اُسی رات بارش پڑی تھی۔‏ اسلئے سڑک پر پانی کھڑا تھا۔‏ آخرکار بہن‌بھائی پہاڑوں سے نکل کر ایک کُھلے میدان پہنچے جہاں کاکوما کا پناہ‌گزین کیمپ واقع ہے۔‏ اس میں لوگ مٹی کی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں جنکی چھتیں ٹین یا ترپال کی ہوتی ہیں۔‏ ایتھیوپیا،‏ سومالیا اور سوڈان کے پناہ‌گزین،‏ کیمپ کے الگ الگ حصوں میں رہتے ہیں۔‏ کیمپ میں رہنے والے بہن‌بھائیوں نے مسافروں سے گلے مل مل کر اُنکو خوش‌آمدید کہا۔‏

جلسہ ایک سکول میں منعقد ہوا جسکی دیواروں پر پناہ‌گزینوں نے اپنے ہولناک تجربوں کی تصویریں بنائی تھیں۔‏ کیمپ کے بہتیرے بہن‌بھائی بھی کچھ ایسے ہی تجربوں سے گزرے تھے۔‏ اسکے باوجود وہ خوش تھے کیونکہ اُنہیں جلسے پر حاضر ہونے کا موقع مل رہا تھا۔‏ تقریریں انگریزی اور سواہیلی زبان میں دی گئیں۔‏ بعض مقرر دونوں زبانیں بولتے ہیں اور اُنہوں نے اپنی تقریریں بھی دونوں زبانوں میں پیش کیں۔‏ کیمپ میں رہنے والے ایک سوڈانی بھائی نے پہلی تقریر دی،‏ اور باقی تقریریں الدوریٹ اور لدوار کی کلیسیاؤں کے بزرگوں نے پیش کیں۔‏

یہوواہ کے گواہوں کے جلسوں پر سب سے خاص بات بپتسمہ ہوتی ہے۔‏ اس جلسے پر جل‌برٹ نامی ایک شخص نے بپتسمہ لیا۔‏ اُسکے وطن میں ۱۹۹۴ میں قتلِ‌عام شروع ہو گیا تھا۔‏ اس وجہ سے وہ اپنے والد کیساتھ بُرونڈی بھاگ گیا۔‏ بُرونڈی میں بھی اُنکو جان کا خطرہ رہا اسلئے وہ زائیر اور تنزانیہ سے گزرتے ہوئے کینیا پہنچ گئے۔‏ جب تمام ۹۵ حاضرین کے سامنے جل‌برٹ سے پوچھا گیا کہ آیا اُس نے یسوع مسیح کی قربانی قبول کر لی ہے اور وہ یہوواہ کا گواہ بننا چاہتا ہے تو اُس نے صاف آواز میں ”‏جی‌ہاں“‏ کہا۔‏ اس پر سب حاضرین خوش ہوئے اور بہت لوگوں کی آنکھیں نم بھی ہو گئیں۔‏ جل‌برٹ اپنے بپتسمے کا بہت ہی مشتاق تھا۔‏ کیمپ میں کوئی تالاب نہیں تھا اسلئے اُس نے چند دن پہلے اپنے بپتسمے کیلئے خود ایک گڑھا کھودا اور اس میں اپنی چھت کے ترپال کو رکھ دیا۔‏ پھر اُس نے بالٹی میں پانی اُٹھا اُٹھا کر اس گڑھے کو بھر دیا۔‏

دوپہر کو چند پناہ‌گزین بہن‌بھائیوں نے اپنے اپنے تجربے سنائے۔‏ ایک بھائی نے بتایا کہ اُس نے ایک آدمی کو درخت کے نیچے آرام کرتے دیکھا۔‏ بھائی نے اس سے یوں سوال کِیا:‏ ”‏بہئیا،‏ آپ یہاں انتے اطمینان سے بیٹھے ہیں۔‏ کیا آپ صبح‌شام یہاں پر اطمینان سے بیٹھ سکتے ہیں؟‏“‏

اُس آدمی نے فوراً ”‏جی‌ہاں“‏ میں جواب دیا۔‏

پھر ذرا سوچ کر اُس نے کہا:‏ ”‏نہیں،‏ رات کو مَیں یہاں نہیں آتا کیونکہ مجھے ڈاکوؤں سے ڈر لگتا ہے۔‏“‏

اس پر بھائی نے میکاہ ۴:‏۳،‏ ۴ کا حوالہ دیا،‏ جہاں لکھا ہے:‏ ”‏تب ہر ایک آدمی اپنی تاک اور اپنے انجیر کے درخت کے نیچے بیٹھیگا اور اُنکو کوئی نہ ڈرائیگا۔‏“‏ بھائی نے وضاحت کی کہ ”‏دیکھیں،‏ خدا کی نئی دُنیا میں آپ جب بھی اور جہاں بھی چاہیں بغیر خطرے کے آرام کر سکیں گے۔‏“‏ یہ سُن کر اس آدمی نے بھائی سے بائبل پر مبنی ایک کتاب لے لی۔‏

کاکوما آنے والے مسافروں میں ایک ایسی بہن بھی تھی جسکے تین رشتہ‌دار حال ہی میں فوت ہو گئے تھے۔‏ وہ کیمپ میں رہنے والے بہن‌بھائیوں کے بارے میں یوں کہتی ہے:‏ ”‏ایسے کٹھن حالات برداشت کرنے کے باوجود انکا ایمان مضبوط رہا ہے۔‏ یہاں کے باقی لوگ اُداس اُداس نظر آتے ہیں لیکن یہ بہن‌بھائی خوش ہیں۔‏ اس سے مَیں نے سیکھا ہے کہ مَیں بھی اپنی زندگی کے اس کٹھن دَور میں اپنا ایمان مضبوط رکھ کر خوش رہ سکتی ہوں۔‏“‏

سب کو ایسا لگا جیسے جلسہ پلک‌جھپکتے ہی ختم ہو گیا۔‏ اس جلسے پر آٹھ مختلف ممالک کے یہوواہ کے گواہ حاضر ہوئے۔‏ انکا اتحاد اور انکی محبت مثالی تھی۔‏ واقعی وہ سچے مسیحی ثابت ہوئے۔‏—‏یوحنا ۱۳:‏۳۵‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر بکس/‏تصویر]‏

سوڈان کے پناہ‌گزین بچے

سن ۱۹۸۳ میں سوڈان میں خانہ‌جنگی بھڑک اُٹھی۔‏ تب سے ۵۰ لاکھ لوگ پناہ ڈھونڈنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔‏ ان میں تقریباً ۰۰۰،‏۲۶ بچے بھی شامل ہیں جو اپنے خاندان سے جُدا ہو گئے ہیں۔‏ ہزاروں ایسے بچوں نے پہلے تو ایتھیوپیا میں پناہ لی۔‏ لیکن تین سال کے بعد انکو اُس مُلک سے خارج کر دیا گیا۔‏ وہ ایک سال تک سوڈان میں بھٹکتے رہے جہاں بچوں کی آدھی تعداد فوجیوں اور غنڈوں کے ہاتھ سے یا پھر وباؤں اور جنگلی جانوروں کے ذریعے اپنی جان کھو بیٹھے۔‏ جو بچے زندہ بچ گئے وہ آخرکار شمالی کینیا پہنچے۔‏ وہاں اُنکو پناہ دینے کیلئے کاکوما کیمپ کی بنیاد ڈالی گئی۔‏

آجکل کاکوما کیمپ میں سوڈانیوں کے علاوہ سومالیا،‏ ایتھیوپیا اور دوسرے ممالک سے آنے والے پناہ‌گزین بھی رہتے ہیں۔‏ جب یہ لوگ کیمپ پہنچتے ہیں تو انکو اپنے لئے گھر بنانے کیلئے کچھ سامان دیا جاتا ہے،‏ مثلاً چھت کیلئے ترپال۔‏ مہینے میں دو بار انکو بیسن کے ۱۳ پاؤنڈ اور پھلیوں کے ۲ پاؤنڈ کے ساتھ‌ساتھ کچھ گھی اور نمک بھی دیا جاتا ہے۔‏ اسکے علاوہ وہ اپنے راشن میں سے لین‌دین کرکے دوسری ضروری چیزوں کو حاصل کر لیتے ہیں۔‏

سوڈانی پناہ‌گزین بچوں میں سے چند کو پھر سے اپنے خاندان سے ملا دیا گیا ہے اور دوسروں کو کسی اَور مُلک میں دائمی پناہ مل گئی ہے۔‏ لیکن ایک امدادی ادارے کے مطابق ”‏اب تک ہزاروں پناہ‌گزین بچے کاکوما کیمپ کے کٹھن حالات میں زندگی کاٹ رہے ہیں۔‏“‏

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Courtesy Refugees International

‏[‏صفحہ ۲۳ پر نقشہ]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

کینیا

کاکوما کیمپ

تُرکانا جھیل

لدوار

الدوریٹ

نیروبی

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

پناہ‌گزین کٹھن حالات کا سامنا کر رہے ہیں

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

کاکوما کیمپ میں پانی کی راشن‌بندی ہوتی ہے

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

الدوریٹ کے یہوواہ کے گواہ اپنے بہن‌بھائیوں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کیلئے ایک دشوار سفر طے کر رہے ہیں

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

ایک مشنری ایک بھائی کی تقریر کا ترجمہ کر رہا ہے

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

بپتسمے کیلئے تالاب

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر کا حوالہ]‏

‏:Rationing water and Kakuma Refugee Camp

Courtesy Refugees International