مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا ہم معلومات کے سمندر میں ڈوب رہے ہیں؟‏

کیا ہم معلومات کے سمندر میں ڈوب رہے ہیں؟‏

کیا ہم معلومات کے سمندر میں ڈوب رہے ہیں؟‏

آسمان کی کالی چادر پر چاند کا نور پھیل رہا تھا۔‏ ایک آدمی اور اُسکی بیوی ساحل پر بیٹھے اِس خوبصورت منظر کو دیکھ رہے تھے۔‏ دونوں گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔‏ پھر آدمی نے اپنی بیوی سے کہا:‏ ”‏اِنسان چاند کے بارے میں کتنا کچھ جانتا ہے اور وہ اِسکے بارے میں اَور کتنا کچھ سیکھے گا۔‏“‏

بیوی نے کہا:‏ ”‏جی بالکل،‏ اور اِنسان زمین کے بارے میں کتنا کچھ جانتا ہے اور اِسکے بارے میں کتنا کچھ سیکھنے کیلئے باقی ہے۔‏“‏ پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد بیوی نے کہا:‏ ”‏ذرا سوچیں کہ ہماری زمین سورج کی گِرد گردش کرتی ہے اور پورا نظامِ‌شمسی کائنات میں گردش کر رہا ہے۔‏ اِسکا مطلب ہے کہ ہم اِس بات کا اندازہ ہی نہیں لگا سکتے کہ زمین کائنات میں کس مقام پر ہے۔‏ بہت سی چیزوں کے بارے میں علم حاصل کرنے کے باوجود ہم کچھ نہیں جانتے۔‏“‏

یہ الفاظ کتنے سچ ہیں۔‏ ہم بہت سی چیزوں کے بارے میں علم حاصل کر سکتے ہے اور ہر دِن نئی نئی باتیں سیکھ سکتے ہیں۔‏ لیکن ہم جتنا بھی علم حاصل کریں گے ہم کبھی یہ نہیں کہہ پائیں گے کہ ہم نے سب کچھ سیکھ لیا ہے۔‏

انسان کی فطرت ہے کہ وہ جتنا کچھ سیکھ لیتا ہے وہ اسے آسانی سے بھول بھی جاتا ہے۔‏ لیکن جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم سیکھی ہوئی باتوں کو ذخیرہ کر سکتے ہیں۔‏ کمپیوٹر اور سی‌ڈی رام پر معلومات ذخیرہ کرنے کی بہت گنجائش ہوتی ہے۔‏ سی‌ڈی رام کی نسبت ڈی وی ڈی پر سات گُنا زیادہ معلومات ذخیرہ کی جا سکتی ہے۔‏

آجکل انسان دوسروں تک معلومات پہنچانے کے بےتحاشا ذریعے استعمال کرتا ہے۔‏ بےشمار رسالے،‏ کتابیں اور اخبار چھاپے جاتے ہیں۔‏ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے لوگ اُنگلی کے ایک اِشارے سے کسی بھی موضوع پر معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔‏ معلومات اس کثرت سے پائی جاتی ہے کہ ہمارے پاس اس کو جذب کرنے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔‏ کبھی‌کبھار ہمیں ایسے لگتا ہے جیسے ہم معلومات کے ایک گہرے سمندر میں ڈوبے جا رہے ہیں۔‏ اگر ہم معلومات کے اس سمندر میں ڈوبنا نہیں چاہتے تو ہمیں سمجھ سے کام لینا پڑے گا۔‏

اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بہت سی ایسی معلومات ہوتی ہے جو ہمارے کام نہیں آتی یا پھر جو ہمارے لئے نقصاندہ ثابت ہو سکتی ہے۔‏ اس کے علاوہ کئی مرتبہ ایسی معلومات کو سچ قرار دیا گیا ہے جو دراصل سچ نہیں ہے۔‏ کتنی بار ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ماہر ایک بیان دیتا ہے جس کے بارے میں بعد میں پتا چلتا ہے کہ وہ غلط ہے۔‏ مثال کے طور پر قدیم شہر افسس کے ایک بڑے عہدہ‌دار نے ایک بار کہا تھا:‏ ”‏کون سا آدمی نہیں جانتا کہ افسیوں کا شہر بڑی دیوی ارتمسؔ کے مندر اور اُس مورت کا محافظ ہے جو زؔیوس کی طرف سے گِری تھی؟‏“‏ (‏اعمال ۱۹:‏۳۵،‏ ۳۶‏)‏ اُس زمانے میں زیادہ‌تر لوگوں کا خیال تھا کہ ارتمس دیوی کی مورت آسمان سے آ گِری تھی۔‏ لیکن یہ بات سچ نہیں تھی۔‏ اِس لئے خدا کا کلام ہمیں آگاہی دیتا ہے کہ ہمیں ”‏جس علم کو علم کہنا ہی غلط ہے“‏ اس پر توجہ نہیں کرنی چاہئے۔‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۲۰‏۔‏

ہمیں علم حاصل کرنے میں اِس لئے بھی سمجھ سے کام لینا چاہئے کیونکہ ہماری زندگی بہت جلد گزر جاتی ہے۔‏ ہم بہت سی مختلف چیزوں کے بارے میں علم حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن ہماری زندگی اتنی لمبی نہیں کہ ہم اُن سب چیزوں کے بارے میں معلومات حاصل کر سکیں جن میں ہمیں دلچسپی ہے۔‏

کیا ایسی بھی معلومات دستیاب ہے جسے ہم پا کر اپنی زندگی کو دراز بنا سکتے ہیں؟‏ کیا ایسا وقت آئے گا جب تمام معلومات سچ پر مبنی ہوگی؟‏ آغاز میں جس آدمی اور عورت کا ذکر کِیا گیا ہے،‏ اُنہوں نے اِن سوالوں کے جواب سیکھ لئے ہیں۔‏ اگر آپ بھی اِن سوالوں کے جواب چاہتے ہیں تو مہربانی سے اگلے مضمون کو پڑھیں۔‏ ایسا کرنے سے آپ ہمیشہ تک علم حاصل کرنے کی اُمید بھی پائیں گے۔‏