مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ کے کلام پر بھروسا رکھیں

یہوواہ کے کلام پر بھروسا رکھیں

یہوواہ کے کلام پر بھروسا رکھیں

‏”‏مَیں تیرے کلام پر بھروسا رکھتا ہوں۔‏“‏—‏زبور ۱۱۹:‏۴۲‏۔‏

۱.‏ زبور ۱۱۹ کو کس نے درج کِیا ہوگا اور ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏

جس شخص نے زبور ۱۱۹ درج کِیا تھا وہ یہوواہ کے کلام کی بہت قدر کرتا تھا۔‏ اس زبور میں جسطرح جذبات اور خیالات کو ظاہر کِیا گیا ہے یہ حزقیاہ کے اندازِبیان کی طرح ہے۔‏ یہ وہی حزقیاہ تھا جو یہوداہ کا بادشاہ بنا اور عمربھر ”‏[‏یہوواہ]‏ سے لپٹا رہا۔‏“‏ (‏۲-‏سلاطین ۱۸:‏۳-‏۷‏)‏ ہو سکتا ہے کہ حزقیاہ ہی نے اس زبور کو درج کِیا تھا۔‏ بہرحال جس کسی نے بھی زبور ۱۱۹ کو درج کِیا تھا وہ اپنی روحانی ضروریات سے باخبر تھا۔‏—‏متی ۵:‏۳‏۔‏

۲.‏ زبور ۱۱۹ میں کس بات پر زور دیا جاتا ہے،‏ اور اس زبور کو کیسے ترتیب دیا گیا ہے؟‏

۲ زبور ۱۱۹ میں بارہا مرتبہ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ خدا کا کلام ہمارے لئے بہت ہی قیمتی ہے۔‏ عبرانی زبان میں اس زبور کے ۲۲ بند ہیں۔‏ ہر بند ۸ مصرعوں پر مشتمل ہے اور ہر بند کے تمام مصرعے عبرانی زبان کے ایک ہی حرف سے شروع ہوتے ہیں۔‏ اس زبور کی ۱۷۶ آیتوں کو عبرانی حروف کی ترتیب کے مطابق ڈھالا گیا تھا،‏ شاید اسلئے تاکہ اسے آسانی سے زبانی یاد کِیا جا سکے۔‏ اس زبور میں خدا کے کلام اور اُسکی راہ کے علاوہ اُسکی شریعت،‏ شہادتیں،‏ باتیں اور اُسکے قوانین،‏ آئین،‏ فرمان اور احکام کا بھی ذکر کِیا گیا ہے۔‏ اس مضمون میں اور اگلے مضمون میں ہم زبور ۱۱۹ پر غور کرینگے۔‏ ہم یہ دیکھینگے کہ یہوواہ کے خادموں کی زندگی میں زبور ۱۱۹ کے الفاظ کیسے سچ ثابت ہوئے ہیں۔‏ ایسا کرنے سے ہمارے دل میں خدا کے کلام کیلئے قدر بڑھ جائیگی۔‏

خدا کے کلام پر عمل کریں اور خوش رہیں

۳.‏ مثال دے کر واضح کیجئے کہ ”‏کامل رفتار“‏ ہونے کا کیا مطلب ہے۔‏

۳ یہوواہ کی شریعت پر عمل کرنے سے ہی ہم سچی خوشی حاصل کر سکتے ہیں۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۱-‏۸‏)‏ جو لوگ یہوواہ کا کہنا مانتے ہیں وہ اُسکی نظر میں ”‏کامل رفتار“‏ ہوتے ہیں۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۱‏)‏ اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ واقعی ہر لحاظ سے کامل ہوتے ہیں۔‏ بلکہ وہ یہوواہ کی مرضی پوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،‏ اسلئے وہ اُنہیں کامل قرار دیتا ہے۔‏ نوح کی مثال لیجئے جو ”‏خدا کیساتھ ساتھ چلتا رہا۔‏“‏ اس وجہ سے خدا کے کلام میں اُسے ”‏مردِراستباز“‏ کہا گیا ہے۔‏ خدا نے نوح اور اُس کے خاندان کی جانیں اسلئے بچا لی تھیں کیونکہ وہ اُسکے فرمانبردار رہے۔‏ (‏پیدایش ۶:‏۹؛‏ ۱-‏پطرس ۳:‏۲۰‏)‏ اسی طرح یہوواہ نے ہمیں ”‏اپنے قوانین دئے ہیں تاکہ ہم دل لگا کر اُنکو مانیں۔‏“‏ ایسا کرنے سے ہی ہم اس دُنیا کے خاتمے پر زندہ بچ سکیں گے۔‏—‏زبور ۱۱۹:‏۴‏۔‏

۴.‏ زندگی میں کامیاب ہونے اور خوش رہنے کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۴ یہوواہ کبھی بھی ایسے لوگوں کو ترک نہیں کرتا جو ’‏سچے دل سے اُسکا شکر ادا کرتے ہیں اور اُسکے آئین مانتے ہیں۔‏‘‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۷،‏ ۸‏)‏ اس سلسلے میں بنی اسرائیل کے سردار یشوع کی مثال لیجئے۔‏ یشوع کا ’‏دھیان دن اور رات شریعت کی کتاب پر رہتا تاکہ جو کچھ اس میں لکھا ہے وہ اُس سب پر احتیاط کرکے عمل کر سکے۔‏‘‏ اسلئے وہ زندگی‌بھر خوب کامیاب رہا۔‏ (‏یشوع ۱:‏۸‏)‏ جب یشوع مرنے والا تھا تو اُس نے بنی اسرائیل سے کہا:‏ ”‏تُم خوب جانتے ہو کہ اُن سب اچھی باتوں میں سے جو [‏یہوواہ]‏ تمہارے خدا نے تمہارے حق میں کہیں ایک بات بھی نہ چھوٹی۔‏“‏ (‏یشوع ۲۳:‏۱۴‏)‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ نے یشوع کو ترک نہیں کِیا۔‏ اگر ہم بھی یشوع کی طرح زندگی میں کامیاب ہونا اور خوش رہنا چاہتے ہیں توپھر ہمیں یشوع اور زبور ۱۱۹ کے لکھنے والے کی طرح یہوواہ کی حمد کرنی چاہئے اور اُسکے کلام پر بھروسا بھی کرنا چاہئے۔‏

یہوواہ کے کلام پر عمل کرنے سے پاک رہیں

۵.‏ (‏ا)‏ ہم اپنی روش کیسے پاک رکھ سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ایک ایسے نوجوان کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے جس نے کوئی سنگین گُناہ کِیا ہو؟‏

۵ چاہے ہمارے والدین نے خدا کی عبادت میں ہمارے لئے اچھی مثال قائم کی ہو یا نہیں،‏ خدا کے کلام پر نگاہ رکھنے سے یعنی اُسکی تعمیل کرنے سے ہم پاک رہ سکتے ہیں۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۹-‏۱۶‏)‏ حزقیاہ کا والد بُتوں کا پجاری تھا۔‏ لیکن حزقیاہ نے بُتوں کی پوجا چھوڑ کر ’‏اپنی روش پاک کر لی تھی۔‏‘‏ اس میں ہمارے لئے کونسا سبق ہے؟‏ ایک ایسا نوجوان جو خدا کی عبادت کرتا ہے اگر کوئی سنگین گُناہ کرے تو وہ بھی اس بُری روش کو چھوڑ سکتا ہے۔‏ ایسا کرنے کیلئے اُسے دُعا میں توبہ کرنی اور یہوواہ سے معافی مانگنی چاہئے۔‏ اُسکے ماں‌باپ اور کلیسیا کے بزرگ بھی اُسکی مدد کر سکتے ہیں تاکہ وہ ’‏اپنی روش پاک‘‏ کرکے آئندہ ’‏خدا کے کلام پر نگاہ جمائے رکھے۔‏‘‏—‏یعقوب ۵:‏۱۳-‏۱۵‏۔‏

۶.‏ کن دو عورتوں نے ’‏اپنی روش پاک کر لی اور خدا کے کلام پر نگاہ رکھی‘‏؟‏

۶ ذرا روت اور راحب کی مثال پر غور کریں۔‏ ان دو عورتوں نے بھی ’‏اپنی روش پاک کر لی‘‏ تھی۔‏ راحب کا تعلق کنعان سے تھا اور وہ ایک فاحشہ بھی تھی۔‏ لیکن وہ اس گنہگارانہ روش کو چھوڑ کر یہوواہ خدا کی عبادت کرنے لگی۔‏ اُسے آج تک اپنے مضبوط ایمان کے لئے یاد کِیا جاتا ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۳۰،‏ ۳۱‏)‏ روت موآب کی رہنے والی تھی۔‏ اُس نے اپنے بُتوں کو ترک کرکے یہوواہ کی شریعت کی تعمیل کرنا شروع کر دی۔‏ (‏روت ۱:‏۱۴-‏۱۷؛‏ ۴:‏۹-‏۱۳‏)‏ حالانکہ یہ دونوں عورتیں بنی‌اسرائیل میں سے نہیں تھیں پھربھی اُنہوں نے ’‏خدا کے کلام پر نگاہ جمائے رکھی۔‏‘‏ اسلئے اُنہیں یسوع مسیح کے نسب‌نامہ میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا۔‏—‏متی ۱:‏۱،‏ ۴-‏۶‏۔‏

۷.‏ دانی‌ایل اور اُسکے تین عبرانی دوستوں نے اپنی پاکیزگی کیسے برقرار رکھی؟‏

۷ خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ ”‏انسان کے دل کا خیال لڑکپن سے بُرا ہے۔‏“‏ اسکے علاوہ ساری دُنیا شیطان کے قبضہ میں ہے اور بُرائی کرنے کو دوڑتی ہے۔‏ (‏پیدایش ۸:‏۲۱؛‏ ۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ اسکے باوجود نوجوان لوگ اپنی روش پاک رکھ سکتے ہیں۔‏ دانی‌ایل اور اُسکے تین عبرانی دوستوں کی مثال لیجئے۔‏ جب اُنہیں اسیر کرکے بابل لے جایا گیا تو وہاں اُنہیں کھانے کیلئے ”‏شاہی خوراک“‏ دی گئی۔‏ لیکن اُنہوں نے اپنے آپ کو اس خوراک سے ناپاک نہیں کِیا۔‏ (‏دانی‌ایل ۱:‏۶-‏۱۰‏)‏ اسکی وجہ یہ تھی کہ بابلی لوگ ایسے جانور بھی کھاتے تھے جو موسیٰ کی شریعت کے مطابق مکروہ تھے۔‏ (‏احبار ۱۱:‏۱-‏۳۱؛‏ ۲۰:‏۲۴-‏۲۶‏)‏ اسکے علاوہ وہ جانوروں کو ذبح کرنے کے بعد اُنکا خون ٹھیک طرح سے نہیں نکالتے تھے۔‏ یہوواہ خدا نے ایسا گوشت کھانے سے سختی سے منع کِیا ہوا تھا۔‏ (‏پیدایش ۹:‏۳،‏ ۴‏)‏ اسلئے دانی‌ایل اور اُسکے دوستوں نے شاہی خوراک کھانے سے صاف انکار کر دیا تھا۔‏ ایسا کرنے سے اُنہوں نے ثابت کِیا کہ اُنکی ’‏نگاہ خدا کے کلام پر تھی۔‏‘‏ اُنہوں نے نہ صرف اپنی پاکیزگی برقرار رکھی بلکہ ہمارے لئے عمدہ مثال بھی قائم کی۔‏

یہوواہ کے کلام کی مدد سے وفادار رہیں

۸.‏ ہمیں خدا کے کلام کے بارے میں کیسا محسوس کرنا چاہئے اور ہمیں کونسی تعلیمات کے بارے میں جاننا چاہئے؟‏

۸ یہوواہ کے کلام کے بارے میں ہم کیسے احساسات رکھتے ہیں؟‏ اگر ہم یہوواہ کے وفادار رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں اُسکے کلام کیلئے شوق پیدا کرنا ہوگا۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۱۷-‏۲۴‏)‏ زبورنویس کی طرح ہمیں خدا کی ’‏شریعت کے عجائب کو دیکھنے‘‏ کے خواہشمند ہونا چاہئے۔‏ ہمارا ’‏دل خدا کے احکام کے اشتیاق میں ہر وقت تڑپتا رہنا چاہئے‘‏ اور ہمیں ’‏خدا کی شہادتیں مرغوب‘‏ ہونی چاہئیں یعنی پیاری لگنی چاہئیں۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۱۸،‏ ۲۰،‏ ۲۴‏)‏ خدا کے تمام خادموں کو ’‏خالص روحانی دودھ کے مشتاق ہونا‘‏ چاہئے۔‏ اسکا مطلب ہے کہ اُنہیں خدا کے کلام کیلئے شوق پیدا کرنا چاہئے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۱،‏ ۲‏)‏ یہ بہت ضروری ہے کیونکہ ہم صرف اُس وقت خدا کے احکام کو سمجھ کر اُن پر عمل کر سکتے ہیں جب ہم اُسکے کلام کی بنیادی تعلیمات کو جانتے ہوں۔‏

۹.‏ جب بااختیار لوگ ہمیں ایسی چیزیں کرنے کو کہتے ہیں جو خدا کی مرضی کے خلاف ہوتی ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۹ شاید ہم اب دل ہی دل میں سوچ رہے ہوں کہ مجھے تو خدا کے کلام سے لگن ہے۔‏ لیکن جب ’‏اُمرا ہمارے خلاف باتیں کرتے ہیں‘‏ تو ایسی صورتحال میں ہم کیا کرینگے؟‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۲۳،‏ ۲۴‏)‏ آجکل اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بااختیار لوگ ہمیں ایسی چیزیں کرنے کو کہتے ہیں جو خدا کی مرضی کے خلاف ہوتی ہیں۔‏ لیکن اگر ہمیں یہوواہ کے کلام سے واقعی محبت ہے تو ہم اُسکے وفادار رہینگے۔‏ ایسی صورتحال میں ہم یسوع کے رسولوں کی طرح جواب دینگے۔‏ جب ان پر اذیت ڈھائی گئی تھی تو اُنہوں نے کہا:‏ ”‏ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔‏“‏—‏اعمال ۵:‏۲۹‏۔‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ مثالیں دے کر بتائیں کہ ہم کٹھن صورتحال میں بھی یہوواہ کے وفادار رہ سکتے ہیں۔‏

۱۰ جی‌ہاں،‏ ہم کٹھن سے کٹھن صورتحال میں بھی یہوواہ کے وفادار رہ سکتے ہیں۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۲۵-‏۳۲‏)‏ لیکن ایسا کرنے کیلئے ہمیں خدا سے دُعا مانگنی چاہئے کہ وہ ہمیں اپنے آئین کی تعلیم دے اور پھر ہمیں ان سیکھی ہوئی باتوں پر عمل بھی کرنا چاہئے۔‏ اسکے علاوہ ہمیں ’‏وفاداری کی راہ بھی اختیار کرنی ہوگی۔‏‘‏—‏زبور ۱۱۹:‏۲۶،‏ ۳۰‏۔‏

۱۱ حزقیاہ نے بھی ”‏وفاداری کی راہ اختیار کی“‏ تھی۔‏ یہ اُسکے لئے ہرگز آسان نہیں تھا کیونکہ اُسکے زمانے میں زیادہ‌تر اسرائیلی بُت‌پرست تھے۔‏ ہو سکتا ہے کہ شاہی دربار میں اُسکا مذاق بھی اُڑایا گیا ہو۔‏ شاید انہی واقعات کی وجہ سے اُس نے لکھا کہ ”‏غم کے مارے میری جان گھلی جاتی ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۲۸‏)‏ ان تمام مشکلات کے باوجود حزقیاہ نے خدا پر توکل کی،‏ وہ ایک اچھا بادشاہ تھا اور اُس نے ”‏وہ کام کِیا جو [‏یہوواہ]‏ کی نظر میں بھلا تھا۔‏“‏ (‏۲-‏سلاطین ۱۸:‏۱-‏۵‏)‏ حزقیاہ کی طرح اگر ہم خدا پر توکل کرینگے تو ہم بڑی سے بڑی اذیت میں بھی اُسکے وفادار رہ سکیں گے۔‏—‏یعقوب ۱:‏۵-‏۸‏۔‏

یہوواہ کا کلام ہمیں دلیر بناتا ہے

۱۲.‏ ہم زبور ۱۱۹:‏۳۶،‏ ۳۷ پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

۱۲ خدا کے کلام میں پائی جانے والی راہنمائی پر عمل کرنے سے ہم آزمائشوں اور اذیتوں کا دلیری سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۳۳-‏۴۰‏)‏ ہم یہوواہ سے دُعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ”‏پورے دل سے“‏ اُس کی شریعت پر چلنے کا راستہ دکھائے۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۳۳،‏ ۳۴‏)‏ زبورنویس کی طرح ہم بھی خدا سے التجا کرتے ہیں کہ ”‏میرے دل کو اپنی شہادتوں کی طرف رجوع دِلا نہ کہ لالچ کی طرف۔‏“‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۳۶‏)‏ اور پولس رسول کی طرح ”‏ہم ہر بات میں نیکی کیساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۸‏)‏ کبھی‌کبھار ملازمت کی جگہ پر ہمیں کوئی غلط بات کرنے کو کہی جاتی ہے۔‏ اگر ہم یہوواہ کی شریعت پر عمل کرتے ہیں تو ہم ایسا کرنے سے انکار کرینگے۔‏ تب یہوواہ ہم سے بہت خوش ہوگا اور وہ ہمیں غلط سوچ اور لالچ پر قابو پانے میں مدد دیگا۔‏ ہم کبھی کسی ایسی چیز کی خواہش نہیں کرنا چاہتے ہیں جس سے یہوواہ کو نفرت ہو۔‏ (‏زبور ۹۷:‏۱۰‏)‏ اسلئے ہمیں خدا سے درخواست کرنی چاہئے کہ ”‏میری آنکھوں کو بطلان پر نظر کرنے سے باز رکھ۔‏“‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۳۷‏)‏ ایسا کرنے سے ہم ہر قسم کی فحاشی اور جادومنتر سے بھی کنارہ کر سکیں گے۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۹،‏ ۱۰؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۸‏۔‏

۱۳.‏ جب یسوع کے شاگردوں پر ظلم ڈھائے جا رہے تھے تو اُنہوں نے کیا کِیا؟‏

۱۳ جب ہم خدا کے کلام سے اچھی طرح سے واقف ہونگے تو ہم دلیری سے اُسکے بارے میں گواہی دینے کے قابل بھی ہو جائینگے۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۴۱-‏۴۸‏)‏ ایسی دلیری خاص طور پر اُس وقت ہمارے کام آ سکتی ہے جب ہمیں ’‏اپنے ملامت کرنے والوں‘‏ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۴۲‏)‏ یسوع کے شاگردوں پر بھی طرح طرح کے ظلم ڈھائے گئے تھے۔‏ ایسی صورتحال میں اُنہوں نے خدا سے التجا کی کہ ”‏اپنے بندوں کو یہ توفیق دے کہ وہ تیرا کلام کمال دلیری کیساتھ سنائیں۔‏“‏ کیا خدا نے اُنکی التجا سنی؟‏ جی بالکل۔‏ ہم آگے پڑھتے ہیں کہ ”‏وہ سب رُوح‌اُلقدس سے بھر گئے اور خدا کا کلام دلیری سے سناتے رہے۔‏“‏ ہم بھی یہوواہ سے کچھ اسی طرح سے دُعا مانگ سکتے ہیں۔‏ تب وہ ہمیں بھی دلیری سے بات کرنے کی توفیق عطا کریگا۔‏—‏اعمال ۴:‏۲۴-‏۳۱‏۔‏

۱۴.‏ دلیری سے گواہی دینے کیلئے ہمیں کیا کچھ کرنا ہوگا؟‏

۱۴ ہمیں ”‏حق بات“‏ کو قیمتی خیال کرنا اور ’‏خدا کی شریعت کو ابدالآباد ماننا‘‏ چاہئے۔‏ تب ہمیں شرمندہ ہونے کا خوف نہیں ستائیگا اور ہم دلیری سے گواہی بھی دے سکیں گے۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۴۳،‏ ۴۴‏)‏ خدا کے کلام کو باقاعدگی سے پڑھنے اور اس پر غور کرنے سے ہم ’‏بادشاہوں کے سامنے خدا کی شہادتوں کا بیان‘‏ کرنے کے قابل ہو جائینگے۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۴۶‏)‏ اسکے علاوہ دُعا کرنے اور یہوواہ کی پاک روح کو حاصل کرنے سے ہم صحیح بات کو صحیح انداز میں بیان کر سکیں گے۔‏ (‏متی ۱۰:‏۱۶-‏۲۰؛‏ کلسیوں ۴:‏۶‏)‏ پولس نے بڑی دلیری سے حکمرانوں کو یہوواہ اور یسوع کے بارے میں گواہی دی۔‏ مثال کے طور پر اُس نے رومی صوبہ‌دار فیلکس کو ”‏مسیح یسوؔع کے دین“‏ کے بارے میں بتایا۔‏ (‏اعمال ۲۴:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ اسکے علاوہ اُس نے صوبہ‌دار فیستُس اور بادشاہ اگرپا کے سامنے بھی گواہی دی۔‏ یہوواہ خدا کی مدد سے ہم بھی ’‏انجیل سے شرمانے‘‏ کی بجائے دلیری سے اسکے بارے میں گواہی دینگے۔‏—‏رومیوں ۱:‏۱۶‏۔‏

یہوواہ کے کلام سے تسلی پائیں

۱۵.‏ جب لوگ ہمیں ٹھٹھوں میں اُڑاتے ہیں تو ہم خدا کے کلام سے کیسے تسلی پا سکتے ہیں؟‏

۱۵ مصیبت کے وقت ہم یہوواہ کے کلام سے تسلی پا سکتے ہیں۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۴۹-‏۵۶‏)‏ ہمیں خاص طور پر اُس وقت تسلی کی ضرورت ہوتی ہے جب ’‏مغرور لوگ ہمیں ٹھٹھوں میں اُڑاتے ہیں۔‏‘‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۵۱‏)‏ ایسی صورتحال میں جب ہم دُعا کرتے ہیں تو ہمیں ایسے صحیفے یاد آ سکتے ہیں جن سے ہم ’‏اطمینان پاتے ہیں۔‏‘‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۵۲‏)‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ خدا سے دلی دُعا مانگتے وقت ہمیں اکثر اُسکے کلام میں سے ایسے احکام اور اصول یاد آتے ہیں جو مشکل حالات میں ہماری تسلی کا باعث بنتے ہیں۔‏

۱۶.‏ اذیت سہتے وقت بھی یہوواہ کے گواہوں کا کیسا ردِعمل رہا ہے؟‏

۱۶ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے زبورنویس کو ٹھٹھوں میں اُڑایا تھا؟‏ وہ لوگ اسرائیلی تھے یعنی وہ خدا کی قوم سے تعلق رکھتے تھے۔‏ یہ کتنی افسوس کی بات تھی۔‏ ہمیں کبھی ان اسرائیلیوں کی طرح نہیں بننا چاہئے۔‏ جی‌ہاں،‏ ہمیں خدا کی شریعت سے کنارہ نہیں کرنا چاہئے۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۵۱‏)‏ یہوواہ کے گواہوں نے جرمنی میں نازی حکومت کے ہاتھوں اذیت سہی۔‏ انکے علاوہ اَور بھی ہزاروں گواہوں پر طرح طرح کے ظلم‌وستم ڈھائے گئے۔‏ لیکن اسکے باوجود وہ خدا کے کلام میں پائے جانے والے احکام اور اصولوں پر قائم رہے۔‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۱۸-‏۲۱‏)‏ ہم یہوواہ کے احکام کو بوجھ نہیں سمجھتے بلکہ وہ ہمارے لئے ایک سُریلے گیت کی مانند ہیں۔‏—‏زبور ۱۱۹:‏۵۴؛‏ ۱-‏یوحنا ۵:‏۳‏۔‏

یہوواہ کے کلام کیلئے شکرگزار ہوں

۱۷.‏ ہم خدا کے کلام کیلئے اپنی شکرگزاری کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

۱۷ اگر ہم خدا کے کلام کے لئے واقعی شکرگزار ہیں تو ہم اس پر عمل بھی کرینگے۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۵۷-‏۶۴‏)‏ زبورنویس نے خدا سے وعدہ کِیا کہ ”‏مَیں تیری باتیں مانونگا۔‏“‏ وہ ’‏خدا کی صداقت کے احکام کیلئے آدھی رات کو اُسکا شکر کرنے کو اُٹھتا‘‏ تھا۔‏ اگر آدھی رات کو ہماری نیند کُھل جاتی ہے تو ہم زبورنویس کی طرح خدا کی نعمتوں کیلئے اُسکا شکر ادا کر سکتے ہیں۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۵۷،‏ ۶۲‏)‏ اگر ہم خدا کے کلام کیلئے شکرگزار ہیں تو ہمیں اُسکے آئین سیکھنے کا شوق بھی ہوگا۔‏ اسکے علاوہ ہم ایسے لوگوں کے ’‏ساتھی بھی ہونا چاہینگے جو خدا سے ڈرتے ہیں‘‏ کیونکہ ان سے بہتر ساتھی ہمیں اَور کہیں نہیں مل سکتے ہیں۔‏—‏زبور ۱۱۹:‏۶۳،‏ ۶۴‏۔‏

۱۸.‏ جب ’‏شریروں کی رسیاں ہمیں جکڑ لیتی‘‏ ہیں تو یہوواہ ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟‏

۱۸ ہمیں پورے دل سے التجا کرنی چاہئے کہ خدا ہمیں اپنے احکام سکھائے۔‏ اسطرح ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اُس کے ’‏کرم کے خواہاں‘‏ ہیں۔‏ خاص طور پر ہمیں اُس وقت دُعا کرنی چاہئے جب ’‏شریروں کی رسیاں ہمیں جکڑ لیتی‘‏ ہیں۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۵۸،‏ ۶۱‏)‏ یہوواہ ان رسیوں کو کاٹ سکتا ہے اور ہمیں آزاد کر سکتا ہے تاکہ ہم مُنادی کرنے اور شاگرد بنانے کے کام میں بڑھ‌چڑھ کر حصہ لے سکیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴؛‏ ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ اُس نے ایسے ممالک میں جہاں یہوواہ کے گواہوں پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں اکثر ایسا کِیا ہے۔‏

یہوواہ کے کلام پر ایمان لائیں

۱۹،‏ ۲۰.‏ مصیبت اُٹھانا ہمارے لئے اچھا کیسے ہو سکتا ہے؟‏

۱۹ خدا کے کلام پر ایمان لانے سے ہم اُسکی مرضی بجا لانے اور اذیتیں برداشت کرنے کے قابل بھی ہو جاتے ہیں۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۶۵-‏۷۲‏)‏ زبورنویس پر ’‏مغروروں نے بہتان باندھا‘‏ تھا۔‏ اسکے باوجود وہ کہتا ہے:‏ ”‏اچھا ہؤا کہ مَیں نے مصیبت اُٹھائی۔‏“‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۶۶،‏ ۶۹،‏ ۷۱‏)‏ مصیبت اُٹھانا خدا کے خادموں کیلئے کس لحاظ سے اچھا ہوتا ہے؟‏

۲۰ مصیبت اُٹھاتے وقت ہم پورے دل سے یہوواہ سے دُعا مانگتے ہیں جسکی وجہ سے ہم اُسکے زیادہ قریب ہو جاتے ہیں۔‏ اسکے علاوہ ہم اُسکے کلام کو پہلے کی نسبت زیادہ دھیان سے پڑھتے ہیں اور ہم اس پر عمل کرنے کی بھی زیادہ کوشش کرتے ہیں۔‏ ایسا کرنے سے ہم دلی سکون محسوس کرتے ہیں۔‏ لیکن کبھی‌کبھار مصیبت میں پڑ کر ہم خود میں بےصبری اور گھمنڈ جیسی خامیاں پاتے ہیں۔‏ ایسی صورتحال میں ہمیں یہوواہ سے التجا کرنی چاہئے کہ وہ ہمیں ان خامیوں پر قابو پانے اور مکمل طور پر ”‏نئی انسانیت کو پہن“‏ لینے میں مدد دے۔‏ اور اُسکے کلام اور اُسکی پاک روح کی مدد سے ہم ایسا کرنے میں کامیاب بھی رہینگے۔‏ (‏کلسیوں ۳:‏۹-‏۱۴‏)‏ اسکے علاوہ ہمارا ایمان آزمائے جانے سے اَور زیادہ مضبوط بھی بن جاتا ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۱:‏۶،‏ ۷‏)‏ مصیبت میں پڑ کر پولس رسول نے یہوواہ پر پہلے سے زیادہ بھروسا کرنا سیکھا۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱:‏۸-‏۱۰‏)‏ جب ہم مصیبت میں پڑتے ہیں تو کیا ہمارے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہمارے لئے اچھا ثابت ہوا ہے؟‏

یہوواہ کے کلام پر ہمیشہ بھروسا کریں

۲۱.‏ خدا مغروروں کو کیسے شرمندہ کرتا ہے؟‏

۲۱ بائبل کو پڑھنے سے یہوواہ خدا پر ہمارا اعتماد بڑھ جاتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۷۳-‏۸۰‏)‏ اگر ہم واقعی خدا پر بھروسا کرتے ہیں تو ہمارے لئے شرمندہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔‏ لیکن جب بُرے لوگ ہمیں ستاتے ہیں تو ہم دُعا کر سکتے ہیں کہ ”‏مغرور شرمندہ ہوں۔‏“‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۷۶-‏۷۸‏)‏ یہوواہ مغروروں کو کسطرح شرمندہ کرتا ہے؟‏ وہ اُنکی بُری حرکتوں کو بےپردہ کرنے اور اپنے نام کی بڑائی کرنے سے ایسا کرتا ہے۔‏ یہوواہ کے خادم اپنے خدا پر سارے دل سے توکل کرتے ہیں اسلئے اُنکو اذیت پہنچانے والے کبھی نہیں جیت سکتے۔‏ (‏امثال ۳:‏۵،‏ ۶‏)‏ دُنیا کے ’‏مغروروں‘‏ نے یہوواہ کے گواہوں کو ختم کرنے کی بہتیری کوششیں کی ہیں۔‏ لیکن وہ آج تک کامیاب نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی آئندہ کامیاب ہونگے۔‏

۲۲.‏ زبورنویس کس لحاظ سے ایک ’‏مشکیزہ کی مانند تھا جو دھوئیں میں ہو‘‏؟‏

۲۲ جب ہمیں اذیت کا سامنا ہوتا ہے تو خدا کا کلام ہمیں اُس پر توکل کرنا سکھاتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۸۱-‏۸۸‏)‏ زبورنویس پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جا رہے تھے۔‏ اسلئے اُس نے کہا کہ ”‏مَیں اُس مشکیزہ کی مانند ہو گیا جو دھوئیں میں ہو۔‏“‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۸۳،‏ ۸۶‏)‏ جس زمانے میں بائبل لکھی گئی تھی اُس وقت لوگوں کے پاس بوتلیں نہیں ہوتی تھیں۔‏ لہٰذا وہ جانوروں کی کھالوں سے مشکیں بنا کر ان میں پانی اور مے وغیرہ بھرتے تھے۔‏ اگر یہ مشکیں خالی ہوتیں اور ایک دھواں‌دھار کمرے میں لٹکی ہوتیں تو وہ سوکھ کر چرمُر ہو جاتیں۔‏ کیا اذیت سہتے وقت آپ بھی خود کو ایک ”‏مشکیزہ کی مانند“‏ محسوس کرتے ہیں جسے دھوئیں میں لٹکایا گیا ہو؟‏ پھر آپ بھی یوں دُعا مانگ سکتے ہیں:‏ ”‏تُو مجھے اپنی شفقت کے مطابق زندہ کر تو مَیں تیرے مُنہ کی شہادت کو مانونگا۔‏“‏—‏زبور ۱۱۹:‏۸۸‏۔‏

۲۳.‏ زبور ۱۱۹ کی پہلی ۸۸ آیتوں پر غور کرنے سے ہم نے کیا سیکھا ہے؟‏ اور زبور ۱۱۹ کی باقی آیتوں پر غور کرتے وقت ہمیں خود سے کونسا سوال کرنا چاہئے؟‏

۲۳ زبور ۱۱۹ کی پہلی ۸۸ آیتوں پر غور کرنے سے ہم نے جان لیا ہے کہ یہوواہ کے خادموں کو اُسکی رحمت نصیب ہے کیونکہ وہ اُسکے کلام پر بھروسا کرتے ہیں۔‏ خدا اُن سے اسلئے بھی خوش ہے کیونکہ وہ اُسکے آئین،‏ فرمان،‏ شہادتوں اور اُسکی شریعت کے شوقین ہیں۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۱۶،‏ ۴۷،‏ ۶۴،‏ ۷۰،‏ ۷۷،‏ ۸۸‏)‏ اسکے علاوہ اُنہیں خدا کی خوشنودی اسلئے بھی حاصل ہے کیونکہ وہ اُسکے کلام پر اپنی نگاہ رکھتے ہوئے اسکی تعمیل کرتے ہیں۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۹،‏ ۱۷،‏ ۴۱،‏ ۴۲‏)‏ اگلے مضمون میں ہم زبور ۱۱۹ کی آخری ۸۸ آیتوں پر غور کرینگے۔‏ ایسا کرتے وقت ہمیں خود سے سوال کرنا چاہئے کہ کیا یہوواہ کا کلام واقعی میری راہ کیلئے روشنی بنا ہوا ہے؟‏

آپکا کیا جواب ہوگا؟‏

‏• ہم سچی خوشی کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟‏

‏• ہم اپنی روش کیسے پاک رکھ سکتے ہیں؟‏

‏• کٹھن صورتحال میں ہم دلیر کیسے بن سکتے ہیں اور ہمیں خدا کے کلام سے کیسے تسلی ملتی ہے؟‏

‏• ہمیں یہوواہ اور اُسکے کلام پر بھروسا کیوں کرنا چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۱ پر تصویریں]‏

روت اور راحب کے علاوہ دانی‌ایل اور اُسکے دوستوں نے ’‏خدا کے کلام پر نگاہ رکھ کر‘‏ اُسکی تعمیل کی

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

پولس رسول نے دلیری سے ’‏بادشاہوں کے سامنے خدا کی شہادتوں کا بیان کِیا‘‏