کمزور ہونے کے باوجود زورآور
میری کہانی میری زبانی
کمزور ہونے کے باوجود زورآور
از لیوپولٹ اینگلیٹنر
جرمنی کے نازی افسر نے اپنی پستول نکال کر میری کنپٹی پر رکھتے ہوئے کہا: ”کیا تم مرنے کیلئے تیار ہو؟ مَیں گولی چلانے لگا ہوں۔ تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا۔“ مَیں نے اپنی آواز پر قابو رکھتے ہوئے کہا: ”مَیں تیار ہوں۔“ مَیں نے خود کو تیار کرتے ہوئے ہمت باندھی اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ مَیں کافی دیر تک گولی چلنے کا انتظار کرتا رہا مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ اس نے بندوق میری کنپٹی سے ہٹاتے ہوئے کہا: ”تم اتنے احمق ہو کہ مر بھی سکتے ہو!“ مَیں ایسی خطرناک صورتحال تک کیسے پہنچا؟
مَیں جولائی ۲۳، ۱۹۰۵ میں، آسٹریا کے ایک قصبے میں پیدا ہوا۔ مَیں اپنے والدین کا پہلوٹھا بیٹا تھا۔ میرے والد آرا مشین چلاتے تھے جبکہ میری والدہ ایک کسان کی بیٹی تھی۔ میرے والدین اگرچہ غریب تھے لیکن بہت محنتی تھے۔ میرا بچپن سالزبرگ کے قریب واقع خوبصورت جھیلوں اور پہاڑوں سے گھرے علاقے میں گزرا۔
بچپن میں مَیں اکثر زندگی کی ناانصافیوں کے متعلق سوچا کرتا تھا۔ کیونکہ میرا خاندان بہت غریب تھا اور پیدائشی طور پر میری ریڑھ کی ہڈی میں نقص تھا۔ اس نقص کی وجہ سے میری کمر میں اتنا شدید درد ہوتا تھا کہ میرے لئے سیدھا کھڑا ہونا بہت مشکل تھا۔ لہٰذا مجھے سکول میں کھیلوں میں حصہ لینے سے روک دیا گیا جسکی وجہ سے میرے ساتھی طالبعلموں نے میرا بہت مذاق اُڑایا۔
پہلی جنگِعظیم کے خاتمے پر جب میری عمر تقریباً ۱۴ سال تھی تو مَیں نے غریبی سے بچنے کیلئے ملازمت کرنے کا فیصلہ کِیا۔ مَیں نے ہمیشہ شدید بھوک کا سامنا کِیا۔ سپینش فلو (ایک وبائی بیماری جس سے بخار، کھانسی اور بدن درد رہتا ہے) کی وجہ سے جو پہلے ہی لاکھوں لوگوں کی جانیں لے چکا تھا مجھے بخار رہنے لگا اور مَیں بہت کمزور ہو گیا۔ جب مَیں نے مختلف کسانوں سے اُنکے کھیتوں میں کام کرنے کی درخواست کی تو اُنہوں نے
جواب دیا کہ ”تمہارے جیسا کمزور شخص ہمارے لئے کیا کام کر سکتا ہے؟“ تاہم ایک رحمدل کسان نے مجھے ملازمت دے دی۔خدا کی محبت کو جاننا
اگرچہ میری والدہ ایک کٹر کیتھولک تھی توبھی میرے والد مذہبی معاملات کی بابت آزاد خیال تھے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے تو مَیں رومن کیتھولک چرچ میں ہونے والی بُتپرستی سے بہت پریشان تھا۔ اس وجہ سے مَیں کبھیکبھار ہی چرچ جاتا تھا۔
اکتوبر ۱۹۳۱ میں، میرے ایک دوست نے مجھے بائبل سٹوڈنٹس کی عبادت میں جانے کی دعوت دی۔ اُس وقت یہوواہ کے گواہ اس نام سے جانے جاتے تھے۔ وہاں پر میرے کئی اہم سوالات کے جواب بائبل سے دئے گئے۔ مثال کے طور پر، کیا بُتپرستی خدا کے حضور قابلِقبول ہے؟ (خروج ۲۰:۴، ۵) کیا دوزخ کا کوئی وجود ہے؟ (واعظ ۹:۵) کیا مُردوں کی قیامت ہوگی؟—یوحنا ۵:۲۸، ۲۹۔
سب سے زیادہ مجھے اس حقیقت نے متاثر کِیا کہ خدا جنگوں سے چشمپوشی نہیں کرتا چاہے وہ خدا کے نام سے ہی کیوں نہ لڑی جائیں۔ مَیں نے یہ بھی سیکھ لیا کہ ”خدا محبت ہے“ اور اسکا ممتاز اور جلالی نام یہوواہ ہے۔ (۱-یوحنا ۴:۸؛ زبور ۸۳:۱۸) مجھے یہ جان کر بھی بہت خوشی ہوئی کہ یہوواہ کی بادشاہت کے ذریعے انسان خوشی کیساتھ ابد تک زمین پر فردوس میں رہینگے۔ مَیں نے اس شاندار شرف کی بابت بھی سیکھا کہ بعض ناکامل انسانوں کو یسوع مسیح کیساتھ خدا کی آسمانی بادشاہت میں شامل ہونے کیلئے بلایا گیا ہے۔ مَیں اس بادشاہت کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار تھا۔ لہٰذا، مَیں نے مئی ۱۹۳۲ میں بپتسمہ لے لیا اور یہوواہ کا ایک گواہ بن گیا۔ لیکن اُس وقت آسٹریا میں رہنے والے کٹر کیتھولکوں کے مذہبی تعصّب کی وجہ سے ایسا کرنے کیلئے بڑے حوصلے کی ضرورت تھی۔
شدید نفرت اور مخالفت کا سامنا کرنا
جب مَیں نے خود کو چرچ سے الگ کر لیا تو میرے والدین اس سے بہت پریشان ہو گئے۔ پادری نے فوراً ہی گرجاگھر میں اس خبر کو پھیلا دیا۔ ہمسائے اپنی نفرت کے اظہار میں مجھے دیکھ کر تھوکتے تھے۔ تاہم، مَیں کُلوقتی خدمت کرنے کیلئے پُرعزم تھا۔ لہٰذا جنوری ۱۹۳۴ میں، مَیں نے کُلوقتی خدمت شروع کر دی۔
ہمارے صوبے میں نازیوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے سیاسی صورتحال دنبدن بگڑتی جا رہی تھی۔ جب مَیں اینس کی وادی میں پائنیر خدمت کر رہا تھا تو پولیس میرے پیچھے لگی ہوئی تھی۔ لہٰذا مجھے ”سانپوں کی مانند ہوشیار“ رہنے کی ضرورت تھی۔ (متی ۱۰:۱۶) سن ۱۹۳۴ سے ۱۹۳۸ تک مجھے ہر روز اذیت برداشت کرنی پڑتی تھی۔ بیروزگار ہونے کے باوجود مجھے بیروزگاری الاؤنس یا وظیفہ دینے سے انکار کر دیا گیا اور منادی کے کام کی وجہ سے مجھے کئی مرتبہ مختصر اور چار مرتبہ طویل قید کی سزا سنائی گئی۔
ہٹلر کی فوجوں کا آسٹریا پر قبضہ
مارچ ۱۹۳۸ میں، ہٹلر کی فوجوں نے آسٹریا پر حملہ کر دیا۔ چند ہی دنوں میں ۰۰۰،۹۰ سے زائد لوگوں کو نازی حکومت کی مخالفت کرنے کے الزام میں جیلوں اور نازی اذیتی کیمپوں میں بھیج دیا گیا۔ یہ تعداد وہاں کے بالغوں کی تقریباً ۲ فیصد آبادی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہوواہ کے گواہ آنے والے حالات کیلئے پہلے سے تیار تھے۔ سن ۱۹۳۷ کے موسمِگرما میں، جس کلیسیا سے میرا تعلق تھا وہاں کے کئی بہنبھائیوں نے پراگ میں منعقد ہونے والے انٹرنیشنل کنونشن پر حاضر ہونے کیلئے ۳۵۰ کلومیٹر کا سفر سائیکلوں پر طے کِیا۔ وہاں اُنہوں نے جرمنی میں ہمارے ساتھی ایمانداروں کیساتھ ہونے والے ظلموستم کے بارے میں سنا۔ یہ بات صاف نظر آ رہی تھی کہ اسکے بعد ہماری باری ہے۔
جب سے ہٹلر کی فوجوں نے آسٹریا پر حملہ کِیا تھا اُس وقت سے یہوواہ کے گواہوں کی عبادت اور منادی کرنے کی سرگرمیاں خفیہ طور پر ہونے لگی تھیں۔ اگرچہ بائبل لٹریچر خفیہ طور پر سوئٹزرلینڈ کی سرحد سے ملک میں لایا جا رہا تھا توبھی یہ سب کیلئے کافی نہیں تھا۔ اسلئے ویانا میں بھی ساتھی مسیحی خفیہ طور پر لٹریچر تیار کر رہے تھے۔ مَیں اکثر گواہوں کیلئے لٹریچر لانے لیجانے کا کام کِیا کرتا تھا۔
نازی اذیتی کیمپ میں
اپریل ۴، ۱۹۳۹ میں، جب ہم یسوع مسیح کی موت کی یادگار منا رہے تھے تو مجھے اور تین ساتھی مسیحیوں کو گسٹاپو (خفیہ نازی پولیس) نے گرفتار
کر لیا۔ ہم تینوں کو ایک کار کے ذریعے لنز کے پولیس ہیڈکوارٹر لے جایا گیا۔ اگرچہ مَیں زندگی میں پہلی مرتبہ کار میں بیٹھا تھا توبھی پریشانی کی وجہ سے مَیں اس سفر سے لطفاندوز نہ ہو سکا۔ لنز میں تفتیش کے دوران مجھے اذیتناک صورتحال سے گزرنا پڑا لیکن مَیں اس تمام کے باوجود وفادار رہا۔ پانچ ماہ بعد، مجھے آسٹریا کی ایک ریاست میں تفتیش کیلئے ایک جج کے سامنے پیش کِیا گیا۔ غیرمتوقع طور پر، مجھے تمام الزامات سے بری کر دیا گیا۔ تاہم ابھی میری مشکلات ختم نہیں ہوئی تھیں۔ اس دوران ان تینوں کو ایک اذیتی کیمپ میں بھیج دیا گیا جہاں وہ جان دینے تک یہوواہ کے وفادار رہے۔پولیس کی حراست کے بعد، اکتوبر ۵، ۱۹۳۹ میں مجھے جرمنی میں بوخنوالٹ کے اذیتی کیمپ میں منتقل کرنے کے متعلق بتایا گیا۔ لنز کے ریلوےسٹیشن پر ہمارے لئے ایک خاص گاڑی کا انتظام کِیا گیا۔ ان بندگاڑیوں میں ہر ڈبے کے اندر دو اشخاص کیلئے جگہ تھی۔ میرے ساتھ سفر کرنے والا دوسرا شخص آسٹریا کی ریاست کا سابق گورنر ڈاکٹر ہنرک گلسنر تھا۔
ڈاکٹر گلسنر اور مَیں نے دلچسپ گفتگو شروع کر دی۔ اُسے میری حالتِزار میں واقعی دلچسپی تھی اور اُسے افسوس تھا کہ اسکے دورِحکومت میں بھی اس صوبے میں رہنے والے یہوواہ کے گواہوں نے بیشمار قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کِیا تھا۔ اس نے معذرت کیساتھ مجھ سے کہا: ”جوکچھ ہو گیا مَیں اسے تو درست نہیں کر سکتا لیکن مَیں معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری حکومت نے انصاف کا خون کِیا ہے۔ اگر آپکو کبھی بھی میری مدد کی ضرورت پڑے تو مَیں ہمیشہ اس کیلئے تیار ہوں۔“ جنگ کے بعد ہماری دوبارہ ملاقات ہوئی۔ اس نے نازی ظلموستم کا شکار ہونے والے لوگوں کو ملنے والی ریٹائرمنٹ کی رقم حاصل کرنے میں میری مدد کی۔
”مَیں تمہیں گولی مار دُونگا“
اکتوبر ۹، ۱۹۳۹ میں، مجھے بوخنوالٹ کے اذیتی کیمپ پہنچا دیا گیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد، جب قیدیوں کے نگران کو بتایا گیا کہ نئے آنے والوں میں ایک یہوواہ کا گواہ بھی ہے تو مَیں اسکی توجہ کا مرکز بن گیا۔ وہ مجھے بڑی بےرحمی سے مارتا تھا۔ جب اُسے احساس ہو گیا کہ مَیں اپنی وفاداری سے ہٹنے والا نہیں تو اس نے کہا: ”مَیں تمہیں گولی مار دُونگا۔ لیکن ایسا کرنے سے پہلے مَیں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ اپنے والدین کو خداحافظ کہنے کیلئے ایک خط لکھ لو۔“ مَیں ایسے تسلیبخش الفاظ کی بابت سوچنے لگا جو مَیں اپنے والدین کو لکھ سکتا تھا۔ لیکن ہر مرتبہ جب مَیں لکھنے کی کوشش کرتا، وہ میری دائیں کہنی پر مارتا جسکی وجہ سے میرے لئے لکھنا مشکل ہو جاتا۔ اس نے میرا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا: ”یہ بالکل احمق ہے! اس سے تو دو لائنیں بھی سیدھی نہیں لکھی جاتیں۔ ہاں البتہ بائبل پڑھ لیتا ہے۔“
اسکے بعد اُس نے اپنی پستول نکالی اور میری کنپٹی پر لگاتے ہوئے ایسا ظاہر کِیا گویا وہ مجھے سچمچ گولی مارنے لگا ہے۔ مَیں نے اس کہانی کے شروع میں بھی یہ بیان کِیا ہے۔ پھر اس نے مجھے قیدیوں سے بھری ایک
چھوٹی سی کوٹھری میں دھکیل دیا۔ مجھے پوری رات کھڑے رہ کر گزارنی پڑی۔ ویسے بھی مجھے کسی صورت نیند تو آ نہیں سکتی تھی کیونکہ میرا پورا جسم درد سے دُکھ رہا تھا۔ میرے ساتھی قیدی مجھے باربار یہی کہتے تھے کہ ”کسی فضول مذہب کیلئے اپنی جان دینا سراسر حماقت ہے!“ ڈاکٹر گلسنر میرے برابر والی کوٹھری میں تھا۔ جوکچھ واقع ہو رہا تھا اس نے سب کچھ سنا اور بڑے پُرفکر انداز میں کہا، ”ایک بار پھر مسیحیوں پر اذیت سر اُٹھا رہی ہے!“سن ۱۹۴۰ کے موسمِگرما میں، اتوار کی ایک صبح تمام قیدیوں کو پتھر کی کانوں میں کام کرنے کا حکم دیا گیا۔ حالانکہ اتوار کے دن عموماً ہماری چھٹی ہوا کرتی تھی لیکن بعض قیدیوں کے ”نامناسب رویے“ کی وجہ سے یہ سزا دی گئی تھی۔ ہمیں حکم دیا گیا کہ کانوں سے بڑے بڑے پتھر اُٹھاکر کیمپ میں لے جائیں۔ دو قیدی ایک بڑے پتھر کو میری کمر پر رکھنے کی کوشش کر رہے تھے اور مَیں اس بوجھ کو برداشت کرنا مشکل پا رہا تھا۔ تاہم، غیرمتوقع طور پر کیمپ کا سپروائزر آرتھر میری مدد کو پہنچ گیا۔ جب اُس نے دیکھا کہ میرے لئے پتھر کو اُٹھانا بہت مشکل ہے تو اس نے کہا: ”تم اس پتھر کو اپنی کمر پر اُٹھا کر کیمپ تک نہیں پہنچ سکتے! اسے فوراً نیچے رکھ دو!“ یہ ایک ایسا حکم تھا جسے ماننا میرے لئے اطمینانبخش تھا۔ پھر آرتھر نے ایک چھوٹے پتھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ”اسے اُٹھاکر کیمپ تک لے جاؤ۔ اسے اُٹھانا قدرے آسان ہے!“ اسکے بعد اُس نے ہمارے نگران کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ”بائبل سٹوڈنٹس کو اُنکی کوٹھریوں میں واپس بھیج دیا جائے۔ آج اُنہوں نے کافی کام کر لیا ہے!“
ہر دن کے اختتام پر مَیں اپنے روحانی خاندان سے رفاقت رکھنے سے بہت خوش ہوتا تھا۔ ہم نے روحانی خوراک تقسیم کرنے کا انتظام بھی کر رکھا تھا۔ ایک بھائی کاغذ کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر بائبل کی ایک آیت لکھتا اور پھر یہ پڑھنے کیلئے باری باری سب بھائیوں کو دی جاتی تھی۔ خفیہ طور پر کیمپ میں ایک بائبل بھی منگوائی گئی تھی۔ اسے علیٰحدہ علیٰحدہ کتابوں میں کر دیا گیا تھا۔ تین ماہ کیلئے مجھے ایوب کی کتاب دے دی گئی۔ مَیں نے اسے اپنی جُرابوں میں چھپا رکھا تھا۔ ایوب کی سرگزشت نے مجھے ثابتقدم رہنے میں مدد دی۔
بالآخر مارچ ۷، ۱۹۴۱ میں مجھے ایک بڑے گروہ کیساتھ نیدرہیگن کے کیمپ بھیج دیا گیا۔ میری حالت دنبدن خراب ہوتی جا رہی تھی۔ ایک دن مجھے اور دو بھائیوں کو ڈبوں میں اَوزار بند کرنے کا حکم دیا گیا۔ اسکے بعد ہمیں ساتھی قیدیوں کے ایک گروہ کیساتھ واپس کوٹھریوں میں بھیج دیا گیا۔ ایک نازی فوجی نے دیکھا کہ مَیں دوسروں کی طرح تیز نہیں چل رہا تو اُسے اتنا غصہ آیا کہ اس نے مجھے بغیر بتائے پیچھے سے ایک زوردار ٹھوکر ماری جو سنگین چوٹ کا باعث بنی۔ مجھے شدید درد ہونے لگا لیکن اسکے باوجود مَیں اگلے دن کام پر گیا۔
غیرمتوقع رہائی
اپریل ۱۹۴۳ میں، نیدرہیگن کا کیمپ خالی کرا دیا گیا۔ لہٰذا، مجھے ریونزبروک کے کیمپ بھیج دیا گیا جہاں اکثر قیدیوں کو قتل کر دیا جاتا تھا۔ بعدازاں جون ۱۹۴۳ میں، مجھے غیرمتوقع طور پر کیمپ سے رہائی پانے کی
پیشکش کی گئی۔ اس مرتبہ یہ شرط نہیں رکھی گئی تھی کہ مَیں اپنے ایمان سے انکار کروں۔ بس مجھے اپنی باقیماندہ زندگی ایک فارم پر کام کرنا ہوگا۔ کیمپ کے مظالم سے بچنے کیلئے مَیں ایسا کرنے کیلئے تیار تھا۔ مجھے معائنہ کیلئے کیمپ کے ڈاکٹر کے پاس بھیجا گیا۔ ڈاکٹر مجھے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ”تم ابھی تک یہوواہ کے گواہ ہو!“ مَیں نے اسے جواب دیا، ”ڈاکٹر آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں۔“ اس پر ڈاکٹر نے کہا: ”اس صورتحال میں میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ہم تمہیں کیوں چھوڑ رہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی ہے کہ تم جیسی عجیب مخلوق سے چھٹکارا پاکر ہی ہمیں سکون مل سکتا ہے۔“اُسکی بات بالکل سچ تھی۔ میری صحت واقعی بہت خراب تھی۔ کھٹملوں نے میری جِلد کو جگہجگہ سے زخمی کر دیا تھا اور مارپیٹ کی وجہ سے میرا ایک کان بہرہ ہو گیا تھا۔ نیز میرا پورا جسم تکلیفدہ پھوڑےپھنسیوں سے بھرا ہوا تھا۔ کوئی ۴۶ ماہ کی مسلسل بھوک اور سخت کام کے باعث میرا وزن صرف ۵۴ پونڈ (۲۸ کلو) رہ گیا تھا۔ پس اسی حالت میں مجھے جولائی ۱۵، ۱۹۴۳ میں ریونزبروک سے رِہا کر دیا گیا۔
مجھے بغیر کسی نگران کے ریلگاڑی کے ذریعے اپنے آبائی شہر بھیج دیا گیا اور مَیں نے لنز میں گسٹاپو کے ہیڈکوارٹر کو رپورٹ دی۔ گسٹاپو کے افسر نے مجھے میری رہائی کے کاغذات دیتے ہوئے آگاہ کِیا: ”اگر تم یہ سوچ رہے ہو کہ ہم تمہیں اسلئے رِہا کر رہے ہیں کہ تم اپنی خفیہ سرگرمیاں جاری رکھ سکو تو تم بہت بڑی غلطی کر رہے ہو! اگر ہم نے تمہیں کبھی منادی کرتے دیکھ لیا تو تمہاری خیر نہیں۔“
بالآخر مَیں گھر پہنچ گیا! میرا کمرہ ویسا کا ویسا ہی تھا کیونکہ اپریل ۴، ۱۹۳۹ میں میری پہلی گرفتاری کے وقت سے میری ماں نے میرے کمرے کی کسی چیز کو نہیں چھیڑا تھا۔ یہانتک کہ میری بائبل بھی میز پر جوں کی توں پڑی تھی! مَیں نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر یہوواہ سے دُعا کی۔
جلد ہی مجھے ایک پہاڑی فارم پر کام کرنے کیلئے جانا پڑا۔ اس فارم کا مالک میرا بچپن کا دوست تھا لہٰذا وہ مجھے تھوڑی سی تنخواہ بھی دینے لگا اگرچہ وہ اسکا پابند نہیں تھا۔ جنگ سے پہلے، میرے اس دوست نے مجھے اپنے گھر میں کچھ بائبل لٹریچر چھپانے کی اجازت بھی دی تھی۔ مَیں ان چند مطبوعات سے روحانی طور پر تقویت حاصل کرکے بہت خوش تھا۔ میری تمام ضروریات پوری ہو رہی تھی اور مَیں جنگ کے ختم ہونے تک فارم پر کام کرنے کیلئے تیار تھا۔
پہاڑوں میں پناہ لینا
تاہم، میری یہ آزادی تھوڑے دنوں کی ثابت ہوئی۔ اگست ۱۹۴۳ کے وسط میں مجھے کسی فوجی ڈاکٹر سے طبّی معائنہ کرانے کا حکم دیا گیا۔ پہلے تو اُس نے یہ کہا کہ مَیں کمر کے نقص کی وجہ سے کوئی سخت کام کرنے کے قابل نہیں ہوں۔ لیکن ایک ہفتے بعد اسی ڈاکٹر نے اپنی تشخیص میں لکھا: ”یہ جنگ میں اگلی صفوں پر لڑنے کیلئے بالکل موزوں ہے۔“ کچھ عرصہ تک تو فوج مجھے تلاش کرنے میں ناکام رہی لیکن اپریل ۱۷، ۱۹۴۵ میں جنگ ختم ہونے سے کچھ عرصہ پہلے فوج نے مجھے تلاش کر لیا۔ جنگ میں لڑنے کیلئے مجھے اگلی صفوں میں کھڑا ہونے کیلئے منتخب کر لیا گیا۔
چند ضروری چیزوں اور ایک بائبل کیساتھ مَیں قریبی پہاڑوں کی طرف بھاگ گیا۔ شروع شروع میں تو موسم اچھا ہونے کی وجہ سے مَیں باہر سو سکتا تھا مگر جب سردی بڑھ گئی اور دو فٹ تک برف باری ہوئی تو مجھے سطحِسمندر سے تقریباً ۰۰۰،۴ فٹ کی بلندی پر واقع پہاڑ پر مکان میں پناہ لینی پڑی۔ مَیں پوری طرح بھیگ چکا تھا لہٰذا اپنے کپڑے خشک کرنے اور خود کو گرم رکھنے کیلئے مَیں نے آگ جلائی۔ تھکن کے باعث مَیں آگ کے سامنے پڑے ایک بینچ پر ہی سو گیا۔ جلد ہی شدید درد کی وجہ سے جب میری آنکھ کھلی تو میرے کپڑوں کو آگ لگی ہوئی تھی! آگ بجھانے کیلئے مَیں فرش پر لوٹپوٹ ہونے لگا۔ میری پوری کمر چھالوں سے بھر گئی تھی۔
پکڑے جانے کے ڈر سے مَیں چوری چھپے دن چڑھنے سے پہلے پہاڑی فارم پر چلا گیا۔ لیکن کسان کی بیوی اسقدر خوفزدہ تھی کہ اُس نے مجھے رکھنے سے انکار کر دیا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ میری تلاش کیلئے لوگ یہاں آ رہے ہیں۔ لہٰذا مَیں اپنے والدین کے پاس چلا گیا۔ پہلے تو میرے والدین بھی مجھے رکھنے سے ہچکچا رہے تھے۔ لیکن آخرکار اُنہوں نے مجھے اصطبل میں رکھی خشک گھاس پر سونے کی اجازت دے دی اور ماں نے میرے زخموں کی مرہمپٹی بھی کی۔ میرے والدین میری موجودگی کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔ لہٰذا دو دن بعد مَیں نے فیصلہ کِیا کہ بہتر ہوگا کہ مَیں دوبارہ پہاڑوں میں ہی چھپ جاؤں۔
مئی ۵، ۱۹۴۵ کو مَیں اچانک ایک بلند آواز سن کر اُٹھ بیٹھا۔ مَیں نے اتحادی فوجوں کے ہوائی جہازوں کو کافی نیچے اُڑتے ہوئے دیکھا۔ اُسی وقت مَیں نے سمجھ لیا کہ ہٹلر کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا ہے! یہوواہ خدا کی رُوح نے مجھے ناقابلِبرداشت آزمائشوں کو سہنے کی طاقت بخشی تھی۔ مَیں زبور ۵۵:۲۲ کے الفاظ کی صداقت کا تجربہ کر چکا تھا جو آزمائشوں میں میرے لئے تسلی کا باعث ثابت ہوئے تھے۔ مَیں نے ”اپنا بوجھ خداوند [یہوواہ] پر“ ڈال دیا تھا۔ اگرچہ مَیں جسمانی طور پر کمزور تھا توبھی ”موت کے سایہ کی وادی میں سے“ گزرتے ہوئے یہوواہ نے مجھے سنبھالے رکھا تھا۔
یہوواہ کی قدرت ”کمزوری میں پوری ہوتی ہے“
جنگ کے بعد آہستہ آہستہ زندگی معمول پر آ گئی۔ شروع میں مَیں نے اپنے کسان دوست کے پہاڑی فارم پر کام کِیا۔ اپریل ۱۹۴۶ میں، یو.ایس فوج کے اختیار سنبھالنے کے بعد مجھے تاحیات کھیتیباڑی کرنے کے حکم سے خلاصی مل گئی۔
جنگ ختم ہونے کے بعد گردونواح میں رہنے والے مقامی مسیحی بھائیوں نے باقاعدگی سے مسیحی اجلاس منعقد کرنا شروع کر دئے تھے۔ اُنہوں نے نئے جذبے کیساتھ منادی کا آغاز کِیا۔ مجھے ایک کارخانے میں رات کے وقت چوکیدار کی ملازمت مل گئی۔ اسطرح میرے لئے پائنیر خدمت جاری رکھنا ممکن ہو گیا۔ بالآخر مَیں سینٹ ولفگینگ کے علاقے میں رہنے لگا اور ۱۹۴۹ میں نے ٹریضاکروٹس سے شادی کر لی جسکی پہلی شادی سے ایک بیٹی تھی۔ تقریباً ۳۲ سال تک اکٹھے رہنے کے بعد ۱۹۸۱ میں اسکی وفات ہو گئی۔ مَیں نے سات سال سے زیادہ عرصہ تک اسکی دیکھبھال کی۔
ٹریضا کی وفات کے بعد، مَیں نے دوبارہ پائنیر خدمت شروع کر دی۔ اس سے مجھے اپنے اس غم پر قابو پانے میں مدد ملی۔ اس وقت بھی مَیں ایک پائنیر اور کلیسیائی بزرگ کے طور پر خدمت کر رہا ہوں۔ ویلچیئر تک محدود ہونے کے باوجود مَیں اپنے علاقے ہی میں گھر کے باہر بیٹھ کر یا کسی پارک میں لوگوں کو بادشاہتی اُمید کی بابت بتاتا اور بائبل پر مبنی مطبوعات پیش کرتا ہوں۔ بائبل موضوعات پر باتچیت میرے لئے حقیقی خوشی کا باعث ہے۔
جب مَیں ماضی کی بابت سوچتا ہوں تو مَیں یقین کیساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اُن تمام خطرناک تجربات کو برداشت کرنے کے بعد بھی مَیں تلخمزاج نہیں ہوا۔ بِلاشُبہ، ایسے بہت سے مواقع آئے جب مَیں آزمائشوں کی وجہ سے پریشان محسوس کرتا تھا۔ تاہم یہوواہ خدا کیساتھ قریبی رشتے نے مجھے ایسی منفی سوچ پر غالب آنے میں مدد دی۔ خداوند یسوع کی وہ نصیحت جو اُس نے پولس کو کی تھی کہ ”میری قدرت کمزوری میں پوری ہوتی ہے“ وہ میری زندگی میں بھی سچ ثابت ہوئی ہے۔ اب تقریباً ۱۰۰ سال کی عمر میں بھی مَیں پولس رسول کی مانند یہ کہہ سکتا ہوں: ”مَیں مسیح کی خاطر کمزوری میں۔ بےعزتی میں۔ احتیاج میں۔ ستائے جانے میں۔ تنگی میں خوش ہوں کیونکہ جب مَیں کمزور ہوتا ہوں اُسی وقت زورآور ہوتا ہوں۔“—۲-کرنتھیوں ۱۲:۹، ۱۰۔
[صفحہ ۲۵ پر تصویریں]
اپریل ۱۹۳۹، گسٹاپو نے مجھے گرفتار کر لیا
مئی ۱۹۳۹، میرے خلاف لگائے گئے الزامات والے کاغذات
[تصویر کا حوالہ]
Both images: Privatarchiv; B. Rammerstorfer
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
پہاڑوں کے نزدیک جہاں مَیں نے پناہ لی
[صفحہ ۲۳ پر تصویر کا حوالہ]
Foto Hofer, Bad Ischl, Austria