مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏خداوند کے بندوں کے طور پر بُردبار ہوں‘‏

‏’‏خداوند کے بندوں کے طور پر بُردبار ہوں‘‏

‏’‏خداوند کے بندوں کے طور پر بُردبار ہوں‘‏

‏”‏مناسب نہیں کہ خداوند کا بندہ جھگڑا کرے بلکہ سب کیساتھ نرمی کرے اور .‏ .‏ .‏ بُردبار ہو۔‏“‏—‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۲۴‏۔‏

۱.‏ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ مُنادی کے کام میں کبھی‌کبھار لوگ ہمیں بُرابھلا کہنے لگتے ہیں؟‏

آپ مُنادی کے کام میں ایک شخص سے بات کرنا شروع کرتے ہیں۔‏ آپکی بات کو کاٹ کر وہ آپکو بُرابھلا کہنے لگتا ہے۔‏ کیا آپکے ساتھ کبھی ایسا ہوا ہے؟‏ اس میں حیران‌وپریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ پولس رسول نے پیشینگوئی کی تھی کہ اخیر زمانے میں لوگ ”‏بدگو“‏ ہونے کے علاوہ ’‏تہمت لگانے والے،‏ بےضبط اور تندمزاج‘‏ بھی ہونگے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۵،‏ ۱۲‏)‏ لیکن ایسی صورتحال میں آپکا کیا ردِعمل ہونا چاہئے؟‏

۲.‏ جب لوگ ہمارے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں تو ہمیں بائبل میں پائی جانے والی کن ہدایات پر عمل کرنا چاہئے؟‏

۲ ایسے لوگ جو ہمارے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں،‏ لازمی نہیں کہ وہ دِل کے بُرے ہیں۔‏ آجکل لوگوں کو طرح طرح کے دباؤ اور پریشانیوں کا سامنا ہے۔‏ اس وجہ سے وہ اکثر چڑچڑے بن جاتے ہیں اور ہر ایک کے ساتھ لڑنےجھگڑنے لگتے ہیں۔‏ (‏واعظ ۷:‏۷‏)‏ اس کے علاوہ کئی لوگوں کے گھر میں اور ملازمت کی جگہ پر گالی‌گلوچ کرنا اور ایک دوسرے سے سختی سے پیش آنا عام ہو گیا ہے۔‏ اس وجہ سے وہ بھی ہر ایک سے کچھ ایسا ہی سلوک کرنے لگتے ہیں۔‏ مسیحی اِن لوگوں کے رویے کو سمجھنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں لیکن وہ کبھی اُن کی طرح بننا نہیں چاہتے۔‏ لہٰذا جب ہمارے ساتھ کوئی سختی سے پیش آتا ہے تو ہمارا کیا ردِعمل ہونا چاہئے؟‏ اس کے بارے میں امثال ۱۹:‏۱۱ میں لکھا ہے:‏ ”‏آدمی کی تمیز اُس کو قہر کرنے میں دھیما بناتی ہے۔‏“‏ اور رومیوں ۱۲:‏۱۷،‏ ۱۸ میں ہم یہ ہدایت پاتے ہیں:‏ ”‏بدی کے عوض کسی سے بدی نہ کرو۔‏ .‏ .‏ .‏ جہاں تک ہو سکے تُم اپنی طرف سے سب آدمیوں کے ساتھ میل‌ملاپ رکھو۔‏“‏

۳.‏ خدا کا پیغام سناتے وقت ہمیں صلح‌پسند کیوں ہونا چاہئے؟‏

۳ اگر ہم واقعی صلح پسند ہیں تو یہ ہمارے رویے،‏ ہماری باتوں اور کاموں سے یہاں تک کہ ہمارے چہرے سے بھی ظاہر ہوگا۔‏ (‏امثال ۱۷:‏۲۷‏)‏ جب یسوع نے اپنے رسولوں کو مُنادی کے کام پر روانہ کِیا تو اُس نے کہا:‏ ”‏گھر میں داخل ہوتے وقت اُسے دُعایِ‌خیر دینا [‏”‏اُسے سلام کہنا،‏“‏ کیتھولک ورشن‏]‏۔‏ اور اگر وہ گھر لائق ہو تو تمہارا سلام اُسے پہنچے اور اگر لائق نہ ہو تو تمہارا سلام تُم پر پھر آئے۔‏“‏ (‏متی ۱۰:‏۱۲،‏ ۱۳‏)‏ ہم لوگوں تک خوشخبری کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں۔‏ بائبل میں اس پیغام کو ”‏صلح کی خوشخبری،‏“‏ ”‏خدا کے فضل کی خوشخبری“‏ اور ’‏بادشاہی کی خوشخبری‘‏ کہا گیا ہے۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۵؛‏ اعمال ۲۰:‏۲۴؛‏ متی ۲۴:‏۱۴‏)‏ ہم لوگوں کے ساتھ نہ تو تکرار کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی ان کے مذہب کی نکتہ‌چینی کرنا چاہتے ہیں بلکہ ہم اُن کو خدا کے کلام کی خوشخبری سنانا چاہتے ہیں۔‏

۴.‏ جب ایک شخص فوراً آپکی بات کاٹتے ہوئے کہے کہ ”‏مَیں یہوواہ کے گواہوں سے بات نہیں کرنا چاہتا“‏ تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟‏

۴ اگر ایک شخص فوراً آپکی بات کاٹتے ہوئے کہتا ہے کہ ”‏مَیں یہوواہ کے گواہوں سے بات نہیں کرنا چاہتا“‏ تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟‏ ایسی صورتحال میں آپ شاید یوں کہہ سکتے ہیں:‏ ”‏مَیں آپکو خدا کے کلام سے محض ایک آیت سنانا چاہتا ہوں۔‏“‏ ہو سکتا ہے کہ وہ آپکو ایسا کرنے کی اجازت دے دے۔‏ یا پھر آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ”‏مَیں آپکو ایک ایسے دَور کے بارے میں بتانا چاہتا تھا جب کوئی ناانصافی نہ ہوگی اور تمام لوگ ایک دوسرے سے محبت سے پیش آئینگے۔‏“‏ یہ سُن کر اگر وہ پھر بھی آپ سے بات کرنا نہ چاہے تو آپ بات کو ختم کرنے کیلئے یوں کہہ سکتے ہیں:‏ ”‏شاید آپکے لئے یہ وقت مناسب نہیں ہے اسلئے مَیں اجازت لیتا ہوں۔‏“‏ حالانکہ یہ شخص ہماری بات سننے کو تیار نہیں تھا پھر بھی ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ وہ خدا کا پیغام سننے کے ”‏لائق“‏ نہیں ہے۔‏ یاد رکھیں کہ خداوند کے بندوں کو ”‏سب کیساتھ نرمی“‏ سے پیش آنا اور مشکل حالات میں بھی ”‏بُردبار“‏ ہونا یعنی صبر سے کام لینا چاہئے۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۲۴‏۔‏

ایک سخت‌مزاج آدمی کی سوچ بدل جاتی ہے

۵،‏ ۶.‏ ساؤل نے یسوع مسیح کے پیروکاروں کیساتھ کیسا سلوک کِیا اور اُس نے ایسا کیوں کِیا؟‏

۵ پہلی صدی میں ساؤل نامی ایک آدمی مسیحیوں پر سختی کرنے کیلئے مشہور تھا۔‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ وہ ”‏خداوند کے شاگردوں کے دھمکانے اور قتل کرنے کی دُھن میں تھا۔‏“‏ (‏اعمال ۹:‏۱،‏ ۲‏)‏ ساؤل نے اپنے بارے میں تسلیم کِیا کہ وہ ”‏کفر بکنے والا اور ستانے والا اور بےعزت کرنے والا تھا۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۱:‏۱۳‏)‏ ہو سکتا ہے کہ اُسکے کئی رشتہ‌دار مسیحی بن گئے تھے لیکن اُس پر اِسکا کوئی اثر نہیں پڑا۔‏ مسیحیوں کیساتھ اپنے رویے کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ ”‏[‏مَیں]‏ اُنکی مخالفت میں ایسا دیوانہ بنا کہ غیرشہروں میں بھی جا کر اُنہیں ستاتا تھا۔‏“‏ (‏اعمال ۲۳:‏۱۶؛‏ ۲۶:‏۱۱؛‏ رومیوں ۱۶:‏۷،‏ ۱۱‏)‏ اس دوران مسیحیوں نے ساؤل کیساتھ بحث کرنے کی کوشش نہیں کی۔‏

۶ ساؤل نے مسیحیوں کیساتھ اتنی سختی کیوں کی؟‏ وہ خود اسکی وجہ یوں بیان کرتا ہے:‏ ”‏مَیں نے بےایمانی کی حالت میں نادانی سے یہ کام کئے تھے۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۱:‏۱۳‏)‏ دراصل ساؤل ایک فریسی تھا اور اُس نے ”‏باپ‌دادا کی شریعت کی خاص پابندی کی تعلیم پائی“‏ تھی۔‏ (‏اعمال ۲۲:‏۳‏)‏ ساؤل کا اُستاد گملی‌ایل ایک کُھلے دل والا شخص تھا۔‏ لیکن پھر ساؤل کا پلا کائفا سے پڑا جو اُس زمانے میں سردارکاہن کے عہدے پر فائز تھا۔‏ کائفا کو مسیحیوں سے سخت نفرت تھی۔‏ یسوع مسیح کو قتل کرانے کی سازش میں وہ پیش پیش رہا تھا۔‏ (‏متی ۲۶:‏۳،‏ ۴،‏ ۶۳-‏۶۶؛‏ اعمال ۵:‏۳۴-‏۳۹‏)‏ اسکے کچھ عرصہ بعد کائفا کے کہنے پر ہی یسوع کے رسولوں کو پٹوایا گیا۔‏ اور اُس نے اُنہیں سختی سے تاکید بھی کی کہ وہ یسوع کا نام لیکر تعلیم نہ دیں۔‏ پھر جب یہودیوں کی عدالت میں ستفنس کو سنگسار ہونے کی سزا سنائی گئی تو کائفا ہی عدالت کا صدر تھا۔‏ (‏اعمال ۵:‏۲۷،‏ ۲۸،‏ ۴۰؛‏ ۷:‏۱-‏۶۰‏)‏ ساؤل نے ستفنس کو سنگسار ہوتے دیکھا۔‏ اسکے بعد کائفا نے اُسے دمشق جانے اور وہاں بھی یسوع مسیح کے پیروکاروں کو باندھ کر یروشلیم لانے کا اختیار دیا۔‏ (‏اعمال ۸:‏۱؛‏ ۹:‏۱،‏ ۲‏)‏ ساؤل نے سوچا ہوگا کہ وہ کائفا کی پیروی کرنے میں خدا کی راہ میں سرگرمی دکھا رہا ہے۔‏ لیکن اصل میں وہ ایمان کے معاملے میں نادان تھا۔‏ (‏اعمال ۲۲:‏۳-‏۵‏)‏ اسلئے وہ نہیں سمجھ سکا کہ یسوع واقعی خدا کا بھیجا ہوا مسیحا ہے۔‏ لیکن ساؤل کی سوچ میں تبدیلی آنے والی تھی۔‏ یہ تبدیلی اُس وقت واقع ہوئی جب وہ دمشق کے نزدیک پہنچا۔‏ اچانک یسوع مسیح نے آسمان سے ساؤل سے بات کرتے ہوئے خود کو اُس پر ظاہر کِیا۔‏—‏اعمال ۹:‏۳-‏۶‏۔‏

۷.‏ جب یسوع مسیح نے خود کو ساؤل پر ظاہر کِیا تو اُس میں کونسی تبدیلی آئی؟‏

۷ اسکے تھوڑے ہی عرصے بعد یسوع نے حننیاہ نامی ایک شاگرد کو ساؤل کے پاس بھیجا۔‏ اگر یسوع آپکو ایک ایسا حکم دیتا تو کیا آپ اِس پر خوشی سے عمل کرتے؟‏ حالانکہ حننیاہ ہچکچاتے ہوئے ساؤل کے پاس گیا لیکن پھر بھی اُس نے ساؤل سے بڑی نرمی سے بات کی۔‏ ساؤل اس بات سے واقف نہیں تھا کہ جب سے یسوع ساؤل پر ظاہر ہوا تھا تو ساؤل بالکل بدل گیا تھا۔‏ (‏اعمال ۹:‏۱۰-‏۲۲‏)‏ یہی وہ ساؤل تھا جو بعد میں پولس رسول کے نام سے مشہور ہوا اور جس نے یسوع مسیح کے پیغام کی مُنادی بہت سے ملکوں میں کی۔‏

دلیر ہونے کیساتھ ساتھ نرم‌مزاج

۸.‏ یہوواہ خدا کی طرح یسوع مسیح گنہگار لوگوں کو کیسے خیال کرتا تھا؟‏

۸ یسوع مسیح بڑی دلیری کیساتھ بادشاہی کی مُنادی کرتا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ حلیم بھی تھا۔‏ (‏متی ۱۱:‏۲۹‏)‏ اپنے آسمانی باپ یہوواہ کی طرح وہ بھی چاہتا تھا کہ شریر لوگ اپنی بُری راہ کو ترک کر دیں۔‏ (‏یسعیاہ ۵۵:‏۶،‏ ۷‏)‏ جب یسوع کو یہ معلوم ہو جاتا کہ ایک گنہگار شخص اپنی بُری حرکتوں پر تائب ہے تو وہ اُسے اپنی زندگی میں تبدیلیاں لانے کا حوصلہ دیتا۔‏ (‏لوقا ۷:‏۳۷-‏۵۰؛‏ ۱۹:‏۲-‏۱۰‏)‏ یسوع کے نزدیک یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی کہ ایک شخص کتنا بدنام ہے۔‏ اسکے برعکس وہ اپنے باپ یہوواہ کی طرح گنہگار لوگوں کیساتھ مہربانی،‏ تحمل اور صبر سے پیش آتا اور اُنکو توبہ کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتا۔‏ (‏رومیوں ۲:‏۴‏)‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ سب آدمی توبہ کرکے نجات پائیں۔‏—‏۱-‏تیمتھیس ۲:‏۳،‏ ۴‏۔‏

۹.‏ یسوع کے بارے میں یسعیاہ نبی کی پیشینگوئی سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۹ یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کے بارے میں کہا:‏ ”‏دیکھو یہ میرا خادم ہے جسے مَیں نے چُنا۔‏ میرا پیارا جس سے میرا دل خوش ہے۔‏ مَیں اپنا رُوح اِس پر ڈالونگا اور یہ غیرقوموں کو انصاف کی خبر دیگا۔‏ یہ نہ جھگڑا کریگا نہ شور اور نہ بازاروں میں کوئی اِسکی آواز سنیگا۔‏ یہ کچلے ہوئے سرکنڈے کو نہ توڑیگا اور دُھواں اُٹھتے ہوئے سن کو نہ بجھائیگا جبتک کہ انصاف کی فتح نہ کرائے۔‏ اور اِسکے نام سے غیرقومیں اُمید رکھینگی۔‏“‏ (‏متی ۱۲:‏۱۷-‏۲۱‏)‏ اِن آیات میں متی نے یسعیاہ ۴۲:‏۱-‏۴ میں درج پیشینگوئی کو یسوع پر لاگو کِیا۔‏ اور واقعی اس پیشینگوئی کے عین مطابق یسوع نے کبھی بحث کو بڑھاتے ہوئے لوگوں کیساتھ جھگڑنا نہیں شروع کِیا۔‏ یہاں تک کہ جب اُسکی جان خطرے میں تھی تب بھی وہ سچائی کو اتنے میٹھے انداز میں پیش کرتا کہ خلوص‌دل لوگ اُسکی مان جاتے تھے۔‏—‏یوحنا ۷:‏۳۲،‏ ۴۰،‏ ۴۵،‏ ۴۶‏۔‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ (‏ا)‏ حالانکہ فریسیوں نے یسوع کی بہت سخت مخالفت کی پھر بھی اُس نے اُن میں سے چند سے بات‌چیت کیوں کی؟‏ (‏ب)‏ یسوع اپنے مخالفین کو کس قسم کے جواب دیتا اور وہ کب اُنکو جواب دینے سے انکار کرتا؟‏

۱۰ یسوع مسیح اکثر فریسیوں سے بھی گفتگو کرتا تھا۔‏ حالانکہ اُن میں سے چند نے اُسے غلط بات کہنے پر اُکسانے کی کوشش کی پھر بھی یسوع نے یہ نہیں سوچا کہ تمام فریسیوں کی نیت خراب ہے۔‏ ایک بار شمعون نامی ایک فریسی نے یسوع کو دعوت دی۔‏ وہ یسوع کے بارے میں رائے قائم کرنا چاہتا تھا۔‏ یسوع نے نہ صرف اُسکی دعوت قبول کی بلکہ اُس نے کھانا کھاتے وقت وہاں حاضر تمام لوگوں کو گواہی بھی دی۔‏ (‏لوقا ۷:‏۳۶-‏۵۰‏)‏ ایک اَور موقعے پر نیکدیمس نامی ایک نامور فریسی آدھی رات کو یسوع کے پاس آیا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ اُس نے یسوع کیساتھ ملاقات کی ہے۔‏ یسوع نے اُسکو اس بات پر نہیں ٹوکا۔‏ اسکی بجائے اُس نے نیکدیمس کو سمجھایا کہ خدا کی محبت اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ اُس نے اپنے بیٹے کو بھیجا تاکہ لوگ اُس پر ایمان لا کر نجات پا سکیں۔‏ یسوع نے نیکدیمس کو سچائی پر عمل کرنے کی اہمیت بھی سمجھائی۔‏ (‏یوحنا ۳:‏۱-‏۲۱‏)‏ اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد جب فریسی آپس میں یسوع کے بارے میں بُرابھلا کہہ رہے تھے تو نیکدیمس نے یسوع کے حق میں بات کی۔‏—‏یوحنا ۷:‏۴۶-‏۵۱‏۔‏

۱۱ یسوع جانتا تھا کہ اُسکے مخالفین کتنے ریاکار اور دغاباز ہیں۔‏ اسلئے وہ اُنکے ساتھ بحث نہیں کرتا تھا۔‏ جب بھی یسوع موقعے کو مناسب سمجھتا تو وہ ایک اصول،‏ ایک تمثیل یا پھر ایک حوالہ دیتے ہوئے انکو دو ٹوک جواب دیتا۔‏ (‏متی ۱۲:‏۳۸-‏۴۲؛‏ ۱۵:‏۱-‏۹؛‏ ۱۶:‏۱-‏۴‏)‏ لیکن جب یسوع جان جاتا کہ ایسا کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا تو وہ اپنے مخالفین کو کوئی جواب نہ دیتا۔‏—‏مرقس ۱۵:‏۲-‏۵؛‏ لوقا ۲۲:‏۶۷-‏۷۰‏۔‏

۱۲.‏ جب لوگ یسوع کو دیکھ کر چیخنےچلّانے لگتے تھے تو اُسکا کیا ردِعمل ہوتا تھا؟‏

۱۲ ایسے لوگ جن میں بدروحیں تھیں کبھی‌کبھار وہ یسوع کو دیکھ کر چیخنےچلّانے لگتے تھے۔‏ ایسی صورتحال میں آپے سے باہر ہونے کی بجائے یسوع خود کو قابو میں رکھتا تھا۔‏ پھر وہ ایسے لوگوں کی مدد کرتا اور خدا کی قوت سے بدروحوں کو ان میں سے نکال دیتا۔‏ (‏مرقس ۱:‏۲۳-‏۲۸؛‏ ۵:‏۲-‏۸،‏ ۱۵‏)‏ اسی طرح جب ہم لوگوں سے بائبل کی سچائیوں کے بارے میں بات کرتے ہیں تو کبھی‌کبھار وہ غصے میں آ کر چیخنےچلّانے لگتے ہیں۔‏ ایسی صورتحال میں ہمیں یسوع مسیح کی طرح خود پر ضبط کرنا چاہئے اور ایسے لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنا چاہئے۔‏—‏کلسیوں ۴:‏۶‏۔‏

خاندان میں اپنی زبان کو قابو میں رکھیں

۱۳.‏ جب ایک شخص یہوواہ کے گواہوں سے بائبل کی سچائیوں کے بارے میں سیکھنے لگتا ہے تو اکثر اُسکے خاندان‌والے اُسکی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟‏

۱۳ یسوع مسیح کے پیروکاروں کو اپنے گھروالوں کیساتھ پیش آتے ہوئے بھی خود کو قابو میں رکھنا چاہئے۔‏ جب ایک شخص یہوواہ کے گواہوں سے بائبل کی سچائیوں کے بارے میں سیکھنے لگتا ہے تو اُسکی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اُسکے رشتہ‌دار بھی ایسا کرنے میں اُسکا ساتھ دیں۔‏ لیکن یسوع نے اپنے پیروکاروں کو آگاہ کِیا تھا کہ اُنکے اپنے گھروالے اُنکی مخالفت کرینگے۔‏ (‏متی ۱۰:‏۳۲-‏۳۷؛‏ یوحنا ۱۵:‏۲۰،‏ ۲۱‏)‏ یہ بات سچ ہے کہ بائبل کے اصولوں کو سیکھ کر ہم دیانتدار اور ذمہ‌دار بن جاتے ہیں اور دوسروں کی عزت کرنے لگتے ہیں۔‏ لیکن ہم یہ بھی سیکھتے ہیں کہ آدمیوں کے حکم کی نسبت یہوواہ خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔‏ (‏واعظ ۱۲:‏۱،‏ ۱۳؛‏ اعمال ۵:‏۲۹‏)‏ جب ہم اس اصول پر عمل کرتے ہیں تو شاید ہمارے رشتہ‌داروں کو ایسا لگے جیسے ہم اُنکے اختیار کو نظرانداز کر رہے ہیں۔‏ لہٰذا وہ ہماری مخالفت کرنے لگتے ہیں۔‏ ایسی صورتحال میں یہ کتنا اہم ہے کہ ہم یسوع کے نقشِ‌قدم پر چلتے ہوئے خود کو قابو میں رکھیں۔‏—‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۱-‏۲۳؛‏ ۳:‏۱،‏ ۲‏۔‏

۱۴-‏۱۶.‏ کئی ایسے لوگوں کی سوچ میں کیسے تبدیلی آئی جنہوں نے شروع شروع میں اپنے رشتہ‌داروں کو یہوواہ کی عبادت کرنے سے روکنا چاہا؟‏

۱۴ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک شخص بائبل کے بارے میں سیکھنے لگتا ہے تو شروع شروع میں اُسکے رشتہ‌دار اُسکی مخالفت کرتے ہیں۔‏ ہمارے رشتہ‌دار ہماری مخالفت کیوں کرتے ہیں؟‏ ہو سکتا ہے کہ اُنہوں نے لوگوں سے یہوواہ کے گواہوں کے بارے میں بُری باتیں سنی ہوں۔‏ اسلئے اُنکو فکر ہے کہ کہیں ہم بُری صحبت میں تو نہیں پڑ رہے ہیں۔‏ لیکن کچھ عرصے کے بعد اُنکی سوچ میں تبدیلی آنے لگتی ہے۔‏ وہ کیوں؟‏ اکثر وہ دیکھتے ہیں کہ اُنکا رشتہ‌دار یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں پر حاضر ہونے اور مُنادی کے کام میں بھی حصہ لینے کے باوجود اپنی گھریلو ذمہ‌داریوں کو پورا کر رہا ہے۔‏ وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اُنکا رشتہ‌دار گالی‌گلوچ اور جھڑکیاں سننے کے باوجود خود پر قابو رکھتا ہے۔‏ اُسکے نیک چال‌چلن کی وجہ سے آخرکار رشتہ‌دار اُسکی مخالفت کرنا بند کر دیتے ہیں۔‏—‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۲‏۔‏

۱۵ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص غرور میں آ کر یا پھر تعصب کی وجہ سے اپنے کسی مسیحی رشتہ‌دار کی مخالفت کرنے لگے۔‏ اسکی ایک مثال امریکہ میں ایک شخص کی ہے جو انتہائی درجے کا وطن‌پرست تھا۔‏ ایک بار اُسکی بیوی یہوواہ کے گواہوں کے ایک کنونشن پر جانے والی تھی کہ اِس شخص نے اپنے تمام کپڑے باندھ کر گھر چھوڑ دیا۔‏ ایک اَور مرتبہ اُس نے اپنی بیوی کو دھمکی دی کہ مَیں اپنی جان لے لونگا۔‏ پھر وہ اپنی بندوق لے کر چلا گیا۔‏ یہ شخص اپنی ہر اُوٹ‌پٹانگ حرکت کیلئے اپنی بیوی کے مذہب کو ذمہ دیتا۔‏ اِس مخالفت کے باوجود اُسکی بیوی بائبل کے اصولوں کے مطابق چلتی رہی۔‏ نتیجتاً ۲۰ سال بعد اُسکا شوہر بھی یہوواہ کی عبادت میں اُسکا ساتھ دینے لگا۔‏ ایک اَور مثال مُلک البانیہ میں رہنے والی ایک عورت کی ہے۔‏ جب اُسکی بیٹی نے یہوواہ کے گواہوں سے بائبل کی سچائیاں سیکھنے کے بعد بپتسمہ لے لیا تو وہ آگ‌بگولا ہوئی۔‏ اُس نے ۱۲ مرتبہ اپنی بیٹی کی بائبل کو پھاڑ ڈالا۔‏ ایک دن اُسکی بیٹی کی میز پر ایک نئی بائبل پڑی تھی۔‏ جب اس عورت نے اُسے کھول کر دیکھا تو اتفاق سے اُسکی نظر متی ۱۰:‏۳۶ پر پڑی۔‏ وہ جان گئی کہ جو کچھ اس آیت میں لکھا ہے،‏ اُسی پر لاگو ہوتا ہے۔‏ لیکن پھر بھی اُسے اپنی بیٹی کی فکر ستا رہی تھی۔‏ ایک دن جب اُسکی بیٹی اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کیساتھ ایک کنونشن پر حاضر ہونے کیلئے مُلک اٹلی سفر کرنے والی تھی تو یہ عورت اُسے جہاز تک چھوڑنے کے لئے آئی۔‏ وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ یہوواہ کے گواہ ایک دوسرے سے کتنی محبت رکھتے ہیں۔‏ سب ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے،‏ ہر طرف ہنستے مسکراتے چہرے تھے،‏ فضا میں قہقہے گونج رہے تھے۔‏ یہ دیکھ کر اُس عورت کی سوچ میں تبدیلی آنے لگی۔‏ اسکے تھوڑے ہی عرصے بعد اُس نے بھی بائبل کی سچائیاں سیکھنی شروع کر دیں۔‏ آج وہ ایک یہوواہ کی گواہ ہے اور ایسے لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو اپنے رشتہ‌داروں کو بائبل کے بارے میں سیکھنے سے روکنا چاہتے ہیں۔‏

۱۶ اس سلسلے میں ایک اَور مثال لیجئے۔‏ ایک شخص کی بیوی یہوواہ کی ایک گواہ تھی۔‏ ایک دن اُسکی بیوی اجلاس پر حاضر ہونے کیلئے جا رہی تھی۔‏ اچانک اُس شخص نے سڑک پر اپنی بیوی کا راستہ روک لیا۔‏ اُسکے ہاتھ میں ایک چھرا تھا۔‏ غصے میں آگ ہو کر وہ اپنی بیوی کو دھمکیاں دینے لگا۔‏ اُسکی بیوی نے بڑی نرمی سے اُس سے کہا:‏ ”‏ذرا میرے ساتھ اجلاس پر حاضر ہو کر تو دیکھئے کہ مَیں وہاں کیوں جانا پسند کرتی ہوں۔‏“‏ اس آدمی نے اپنی بیوی کی بات مان لی اور اُسکے ساتھ اجلاس پر حاضر ہوا۔‏ آج یہی شخص اس واقعے کے کچھ سال بعد کلیسیا میں ایک مسیحی بزرگ کے طور پر خدمت انجام دے رہا ہے۔‏

۱۷.‏ اگر ایک مسیحی خاندان میں لڑائی‌جھگڑا ہو تو خاندان‌والوں کو بائبل کے کن اصولوں پر عمل کرنا چاہئے؟‏

۱۷ کیا آپکے تمام گھروالے مسیحی ہیں؟‏ اسکے باوجود بھی کبھی‌کبھار گھر میں لڑائی‌جھگڑا ہوتا ہے یا پھر خاندان کے افراد ایک دوسرے کیساتھ سختی سے پیش آتے ہیں۔‏ غور کریں کہ قدیم شہر افسس کے مسیحیوں کی بھی یوں تاکید کی گئی تھی:‏ ”‏ہر طرح کی تلخ‌مزاجی اور قہر اور غصہ اور شوروغل اور بدگوئی ہر قسم کی بدخواہی سمیت تُم سے دُور کی جائیں۔‏“‏ (‏افسیوں ۴:‏۳۱‏)‏ اسکی کیا وجہ تھی؟‏ ہو سکتا ہے کہ شہر افسس کے بگڑے ہوئے ماحول کا اثر وہاں کے مسیحیوں پر بھی پڑ رہا تھا۔‏ یا شاید انسان ہونے کے ناتے وہ بدی کرنے کے زیادہ مائل تھے۔‏ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مسیحی بننے سے پہلے اُنکی جو بُری عادتیں تھیں ان پر وہ پوری طرح سے قابو نہیں پائے تھے۔‏ بہرحال وہ خود میں تبدیلی کیسے لا سکتے تھے؟‏ اُنہیں ”‏اپنی عقل کی روحانی حالت میں نئے“‏ بننے کی کوشش کرنی تھی۔‏ (‏افسیوں ۴:‏۲۳‏)‏ ایسا کرنے کیلئے اُنہیں خدا کے کلام کو پڑھنے اور اس پر غور کرنے،‏ اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کیساتھ میل‌ملاپ رکھنے اور خدا سے دلی دُعا مانگنے کی ضرورت تھی۔‏ تب ہی وہ اپنی زندگی میں خدا کی پاک روح کا پھل پیدا کر سکتے تھے۔‏ ایسا کرنے سے وہ ’‏ایک دوسرے پر مہربان اور نرم‌دل ہوتے اور جسطرح خدا نے مسیح میں اُنکے قصور معاف کئے وہ بھی ایک دوسرے کے قصور معاف کر سکتے تھے۔‏‘‏ (‏افسیوں ۴:‏۳۲‏)‏ لوگ ہمارے ساتھ خواہ کیسا بھی سلوک کریں ہمیں خود پر قابو رکھنا چاہئے۔‏ ہمیں ہر صورتحال میں مہربان،‏ نرم‌دل اور دوسروں کو معاف کرنے کو تیار ہونا چاہئے۔‏ اسکے علاوہ ہمیں ’‏کسی سے بدی کے عوض بدی‘‏ نہیں کرنی چاہئے۔‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۱۷،‏ ۱۸‏)‏ جی‌ہاں،‏ خدا محبت ہے اسلئے ہمیں بھی ہمیشہ ایک دوسرے سے محبت سے پیش آنا چاہئے۔‏—‏۱-‏یوحنا ۴:‏۸‏۔‏

تمام مسیحیوں کیلئے ہدایت

۱۸.‏ تیمتھیس کو بُردبار ہونے کی اصلاح کیوں دی گئی اور اس پر عمل کرنے سے تمام مسیحیوں کو کونسا فائدہ ہوتا ہے؟‏

۱۸ یوں تو تمام مسیحیوں کو ”‏بُردبار“‏ ہونا چاہئے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۲۴‏)‏ لیکن یہ ہدایت سب سے پہلے تیمتھیس کو دی گئی تھی جو افسس کی کلیسیا میں بزرگ کی خدمت انجام دے رہا تھا۔‏ اُس کلیسیا میں کچھ بہن‌بھائی غلط عقیدوں کی تعلیم دے رہے تھے اور دوسروں کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہے تھے۔‏ وہ یہ نہیں سمجھے تھے کہ موسیٰ کی شریعت کا اصل مقصد کیا تھا۔‏ اسلئے وہ ایک دوسرے سے محبت کیساتھ پیش آنے،‏ اپنے ضمیر کو صاف رکھنے اور ایمان کو مضبوط رکھنے کی اہمیت کو بھی نہ سمجھ سکے۔‏ غرور میں آ کر وہ بحث اور لفظی تکرار کرنے پر اُتر آئے۔‏ اپنی رائے قائم کرانے کی جستجو میں وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ یسوع مسیح کی تعلیم پر عمل کرنا اور دل‌وجان سے خدا کی عبادت کرنا کتنا اہم ہے۔‏ کلیسیا کی مدد کرنے کیلئے تیمتھیس کو بُردبار ہونا تھا۔‏ اسکا مطلب ہے کہ اُسے ہر حال میں سچائی کو برقرار رکھنے کیساتھ ساتھ اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کیساتھ نرمی اور صبر سے پیش آنا تھا۔‏ تیمتھیس جانتا تھا کہ مسیحی کلیسیا بزرگوں کیلئے خدا کی طرف سے ایک امانت ہے۔‏ اُسے مسیحیوں کیساتھ ایسے پیش آنا تھا کہ کلیسیا میں محبت اور اتحاد کا جذبہ بڑھے۔‏ اور یہی بات آج بھی کلیسیا کے بزرگوں پر لاگو ہوتی ہے۔‏—‏افسیوں ۴:‏۱-‏۳؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۱:‏۳-‏۱۱؛‏ ۵:‏۱،‏ ۲؛‏ ۶:‏۳-‏۵‏۔‏

۱۹.‏ ہم سب کو ”‏فروتنی کی تلاش“‏ کرنے کے حکم پر کیوں عمل کرنا چاہئے؟‏

۱۹ خدا چاہتا ہے کہ اُس کے بندے ”‏فروتنی کی تلاش“‏ کریں۔‏ (‏صفنیاہ ۲:‏۳‏)‏ یہاں پر جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”‏فروتنی“‏ سے کِیا گیا ہے اسکا مطلب ہے کہ جب کوئی ہمارے ساتھ بدسلوکی کرے تو ہم اسے صبر کیساتھ برداشت کرتے رہیں اور اسکا بدلہ نہ لیں۔‏ دوسروں کیساتھ بُردباری اور نرمی سے پیش آنے سے ہمارے خدا کے نام کی بڑائی ہوگی۔‏ اسلئے ہمیں یہوواہ خدا سے التجا کرتے رہنا چاہئے کہ وہ ہمیں خود کو قابو میں رکھنے کی توفیق دے۔‏

آپ نے کیا سیکھا ہے؟‏

‏• جب لوگ ہمیں بُرابھلا کہتے ہیں تو ہمیں بائبل کے کن صحیفوں پر عمل کرنا چاہئے؟‏

‏• ساؤل اتنا سخت‌مزاج کیوں تھا؟‏

‏• ہم یسوع مسیح کے نمونے سے ہر طرح کے لوگوں کیساتھ نرمی سے پیش آنا کیسے سیکھ سکتے ہیں؟‏

‏• گھروالوں کیساتھ بات کرتے وقت اپنی زبان کو قابو میں رکھنے کے کونسے فائدے ہوتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

اسکے باوجود کہ ساؤل مسیحیوں پر سختی کرنے کیلئے مشہور تھا حننیاہ اُسکے ساتھ نرمی سے پیش آیا

‏[‏صفحہ ۲۹ پر تصویر]‏

اکثر جب رشتہ‌دار دیکھتے ہیں کہ ایک مسیحی دل لگا کر اپنی گھریلو ذمہ‌داریوں پر پورا اُتر رہا ہے تو وہ اُسکی مخالفت کرنا بند کر دیتے ہیں

‏[‏صفحہ ۳۰ پر تصویر]‏

مسیحیوں کو آپس میں محبت اور اتحاد کے جذبے کو فروغ دینا چاہئے