کیا آپ عقل سے کام لیتے ہیں؟
کیا آپ عقل سے کام لیتے ہیں؟
ایک شخص کہتا ہے: ”اُس نے ایسی حرکت کیوں کی؟ کیا وہ عقل کا اندھا ہے؟“ اُسکی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ایک اَور کہتا ہے: ”مجھے تو لگتا ہے کہ اُسکی سمجھ اُلٹی ہو گئی ہے۔“ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ اکثر ایک شخص کے اعمال سے اُسکی عقل ناپتے ہیں۔ لیکن عقل کس چیز کا نام ہے؟
ایک لغت کے مطابق ”عقل“ ایک ایسی صلاحیت ہے جو دانائی، فہم، شعور، تمیز اور سمجھ جیسی خوبیوں سے تعلق رکھتی ہے۔ ایک عقلمند شخص سمجھ سے کام لیتا ہے۔ وہ ایک معاملے کو سمجھ کر اسکے بارے میں رائے قائم کرتا ہے اور پھر فیصلہ کرتا ہے۔ لیکن آجکل بہتیرے لوگ ایسا کرنے کی بجائے اپنے رشتہداروں اور دوستوں یا پھر معاشرے کے نامور لوگوں کی رائے کو اپنانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
ہمارے دور میں عقل اور سمجھ کو استعمال میں لانا اس حد تک کم ہو گیا ہے کہ ایک شخص نے کہا: ”سچ تو یہ ہے کہ آجکل عقل کا بازار ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔“ توپھر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ہم اپنی عقل کو کیسے استعمال میں لا سکتے ہیں؟ اور ایسا کرنے کے کونسے فائدے ہیں؟
عقل کو استعمال میں لائیں
اپنی عقل کو استعمال میں لانے اور سمجھ حاصل کرنے کیلئے ہمیں محنت کرنی پڑتی ہے۔ ایسا کرنے میں وقت بھی لگتا ہے۔ آئیے ہم تین ایسے پہلوؤں پر غور کرتے ہیں جن پر عمل کرنے سے ہم سمجھدار اور عقلمند بن سکتے ہیں۔
بائبل کی پڑھائی کرکے اس پر عمل کریں۔ خدا کے کلام میں ہمارے لئے بہترین نصیحت اور ہدایت پائی جاتی ہے۔ اسکو باقاعدہ پڑھنے سے ہم دانائی اور سمجھداری حاصل کر سکتے ہیں۔ (افسیوں ۱:۸) اسکی ایک مثال ہم فلپیوں ۴:۸ میں پاتے ہیں جہاں پولس رسول نے یوں لکھا: ”غرض اَے بھائیو! جتنی باتیں سچ ہیں اور جتنی باتیں شرافت کی ہیں اور جتنی باتیں واجب ہیں اور جتنی باتیں پاک ہیں اور جتنی باتیں پسندیدہ ہیں اور جتنی باتیں دلکش ہیں غرض جو نیکی اور تعریف کی باتیں ہیں اُن پر غور کِیا کرو۔“ اس نصیحت پر عمل کرنے سے ہم اپنی ہر بات اور ہر حرکت میں سمجھداری سے کام لینے کے قابل ہونگے۔
تجربے سے سیکھیں۔ ایک شاعر نے اس سلسلے میں کہا تھا کہ ”انسان نے ماضی میں جو کچھ سیکھا ہے اور جو باتیں وہ مستقبل کے بارے میں سمجھتا ہے . . . یہی باتیں اُسکی عقل کی بنیاد ہوتی ہیں۔“ یہ بات بالکل درست ہے کیونکہ بائبل میں ہم پڑھتے ہیں کہ ”نادان ہر بات کا یقین کر لیتا ہے لیکن ہوشیار آدمی اپنی روش کو دیکھتا بھالتا ہے۔“ (امثال ۱۴:۱۵) دوسرے لوگوں کی باتوں اور اُنکے کاموں پر غور کرنے، اُن سے تربیت حاصل کرنے اور یوں تجربہ حاصل کرنے سے ہی ہماری عقل بڑھتی ہے۔ اسکے علاوہ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ہم اپنی غلطیوں سے سیکھ کر ترقی کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم تب ہی اپنی غلطیوں سے سیکھ سکتے ہیں جب ہم انکو تسلیم کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ ایسا کرنا آسان نہیں ہوتا۔ آجکل زیادہتر لوگ شیخیباز، مغرور اور ڈھیٹھ ہوتے ہیں جسکی وجہ سے اُنکی عقل پر پردہ پڑا رہتا ہے۔—۲-تیمتھیس ۳:۱-۵۔
سوچسمجھ کر دوست بنائیں۔ ہم کس حد تک عقل اور دانائی سے کام لیتے ہیں، اس بات پر ہمارے دوست اور احباب کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں امثال ۱۳:۲۰ میں لکھا ہے کہ ”وہ جو داناؤں کیساتھ چلتا ہے دانا ہوگا پر احمقوں کا ساتھی ہلاک کِیا جائیگا۔“ ہمیں اُن لوگوں کی سوچ کو نہیں اختیار کرنا چاہئے جو خدا کے احکام کی خلافورزی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے کنارہ کرنے کی اہمیت کے بارے میں امثال ۱۷:۱۲ میں یوں بتایا گیا ہے: ”احمق کا اُسکی حماقت میں مقابلہ کرنے کی نسبت اُس ریچھنی کا سامنا کرنا بہتر ہے جسکے بچے پکڑے گئے ہوں۔“—کیتھولک ورشن۔
عقل کو استعمال میں لانے کے فائدے
عقل اور سمجھ سے کام لینے کے بہت سے فائدے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایسا کرنے سے ہم وقت ضائع نہیں کرینگے اور ہماری زندگی زیادہ خوشحال ہوگی۔ ایک سمجھدار شخص لاپرواہی سے کام نہیں کرتا اسلئے اُسے پریشانیوں سے دوچار نہیں ہونا پڑتا۔ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”احمق کی محنت اُسے تھکاتی ہے۔“ (واعظ ۱۰:۱۵) واقعی ایسے لوگ جو اپنی عقل کو استعمال نہیں کرتے وہ دنرات محنت کرنے کے باوجود بھی کام کی بات نہیں کر پاتے۔
خدا کے کلام میں زندگی کے بہت سے پہلوؤں پر ہدایت دی گئی ہے، مثلاً صافستھرا رہنے، دوسرے لوگوں سے اچھے تعلقات قائم کرنے، محنتی ہونے اور غربت سے نپٹنے کے بارے میں۔ لاکھوں لوگوں نے ان ہدایات پر عمل کِیا ہے اور اسطرح وہ زندگی میں کامیاب اور خوش رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے کلام پر عمل کرنا ہی عقلمندی کی بات ہے۔
ایک سمجھدار شخص صرف حکموں پر عمل نہیں کرتا بلکہ وہ خود جانتا ہے کہ اُس کی کیا کیا ذمہداریاں ہیں اور وہ اُنہیں پورا کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں علم حاصل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ امثال ۱:۵ میں ہم پڑھتے ہیں کہ ’دانا آدمی سُن کر علم میں ترقی کرتا ہے۔‘ علم حاصل کرکے ہمیں سیکھی ہوئی باتوں پر غور کرنا چاہئے تاکہ ہم اس علم سے فائدہ بھی پا سکیں۔ ایسا کرنے سے ہی ہم ’دانائی سے چلنے‘ کے قابل ہوں گے۔—امثال ۲۸:۲۶۔
ایک سمجھدار شخص اپنی ذمہداریاں پوری کرتے وقت اپنے حدود سے واقف ہوتا ہے۔ وہ اپنی گنجائش سے بڑھ کر کام نہیں کرتا۔ یہ بات درست ہے کہ ہمیں ”خداوند کے کام میں ہمیشہ افزایش کرتے“ رہنا چاہئے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۸) لیکن اس اصول کیساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ”زندہ کتا مُردہ شیر سے بہتر ہے۔“ (واعظ ۹:۴) لہٰذا ہم دلوجان سے یہوواہ کی خدمت تو کرینگے لیکن اس حد تک نہیں کہ ہماری صحت پر بُرا اثر پڑے۔ اسطرح سوچسمجھ سے کام لینے سے ہم کئی سالوں تک خدا کی خدمت جاری رکھ سکیں گے اور خوشی سے اپنی ذمہداریاں پوری کرنے کے قابل بھی ہونگے۔ جیہاں، عقل کو استعمال میں لانے کے واقعی بہت سے فائدے ہوتے ہیں۔
[صفحہ ۱۴ پر تصویر]
خدا کے کلام میں زندگی کے ہر پہلو کیلئے ہدایت پائی جاتی ہے
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
دوسرے لوگوں کے کاموں پر غور کرنے، اُن سے تربیت حاصل کرنے اور یوں تجربہ حاصل کرنے سے ہی ہماری عقل بڑھتی ہے