مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ کی راہوں کو پہچانیں

یہوواہ کی راہوں کو پہچانیں

یہوواہ کی راہوں کو پہچانیں

‏”‏مجھ کو اپنی راہ بتا جس سے مَیں تجھے پہچان لوں۔‏“‏—‏خروج ۳۳:‏۱۳‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ جب موسیٰ نے ایک مصری کو ایک عبرانی پر ظلم ڈھاتے دیکھا تو اُس نے اُسے کیوں مار ڈالا؟‏ (‏ب)‏ اس سے پہلے کہ موسیٰ یہوواہ کا کام کر سکے اُسکو کیا سیکھنا پڑا؟‏

موسیٰ کو فرعون کی بیٹی نے اپنے بیٹے کے طور پر پالا۔‏ اسلئے اُس نے شاہی دربار میں مصر کے تمام علوم میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔‏ اسکے باوجود موسیٰ جانتا تھا کہ اُسکے والدین مصری نہیں ہیں بلکہ اُنکا تعلق عبرانی قوم سے ہے۔‏ تقریباً ۴۰ برس کی عمر میں وہ اپنے عبرانی بھائیوں کا حال دریافت کرنے کیلئے نکلا۔‏ جب اُس نے دیکھا کہ ایک مصری ایک عبرانی پر ظلم ڈھا رہا ہے تو موسیٰ نے اُس مصری کو مار ڈالا۔‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خود کو عبرانی سمجھتا تھا۔‏ موسیٰ کے خیال میں خدا نے اُسکے ہاتھوں عبرانیوں کو غلامی سے چھٹکارا دلانا تھا۔‏ (‏اعمال ۷:‏۲۱-‏۲۵؛‏ عبرانیوں ۱۱:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ جب شاہی خاندان کو پتہ چلا کہ موسیٰ نے ایک عبرانی کو بچانے کیلئے ایک مصری کو قتل کر دیا ہے تو وہ اُسکے خون کے پیاسے ہو گئے۔‏ اسلئے موسیٰ کو مصر چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔‏ (‏خروج ۲:‏۱۱-‏۱۵‏)‏ لیکن خدا اس وقت موسیٰ کو اپنی قوم کو آزاد کرنے کا کام نہیں سونپنا چاہتا تھا۔‏ پہلے موسیٰ کو یہوواہ کے بارے میں بہت سی باتیں سیکھنی تھیں۔‏ کیا وہ خدا کی تربیت پر کان لگانے کو تیار تھا؟‏—‏زبور ۲۵:‏۹‏۔‏

۲ مصر چھوڑنے کے بعد موسیٰ تقریباً ۴۰ سال تک پردیس میں ایک چرواہے کے طور پر اپنا گزربسر کرتا رہا۔‏ اس دوران اُس نے خود کو اس بات پر کڑوا نہیں ہونے دیا کہ اُسکے عبرانی بھائیوں نے بھی اُسے قبول نہیں کِیا تھا۔‏ اسکی بجائے وہ یہوواہ خدا سے تربیت پاتا رہا۔‏ اسلئے وہ خدا کے الہام سے اپنے بارے میں یوں لکھ سکتا تھا:‏ ”‏موسیٰؔ تو رویِ‌زمین کے سب آدمیوں سے زیادہ حلیم تھا۔‏“‏ (‏گنتی ۱۲:‏۳‏)‏ اب یہوواہ خدا موسیٰ کو اپنی خدمت میں بہت سی ذمہ‌داریاں سونپنے کیلئے تیار تھا۔‏ اسی طرح اگر ہم خود میں حلم کی خوبی کو پیدا کرنے کی کوشش کرینگے تو یہوواہ ہمیں بھی برکتوں سے نوازیگا۔‏—‏صفنیاہ ۲:‏۳‏۔‏

موسیٰ کو ایک اہم ذمہ‌داری سونپی جاتی ہے

۳،‏ ۴.‏ (‏ا)‏ یہوواہ خدا نے موسیٰ کو کونسی ذمہ‌داری سونپی؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ نے کن طریقوں سے موسیٰ کی مدد کی؟‏

۳ ایک دن جب موسیٰ کوہِ‌حورب کے نزدیک اپنی بھیڑبکریاں چرا رہا تھا تو ایک فرشتے نے اُسے یہوواہ کا یہ پیغام پہنچایا:‏ ”‏مَیں نے اپنے لوگوں کی تکلیف جو مصرؔ میں ہیں خوب دیکھی اور اُنکی فریاد جو بیگار لینے والوں کے سبب سے ہے سنی اور مَیں اُنکے دُکھوں کو جانتا ہُوں۔‏ اور مَیں اُترا ہُوں کہ انکو مصریوں کے ہاتھ سے چھڑاؤں اور اُس مُلک سے نکال کر اُنکو ایک اچھے اور وسیع مُلک میں جہاں دُودھ اور شہد بہتا ہے .‏ .‏ .‏ پہنچاؤں۔‏“‏ (‏خروج ۳:‏۲،‏ ۷،‏ ۸‏)‏ اس سلسلے میں یہوواہ خدا موسیٰ کو ایک خاص ذمہ‌داری سونپنے والا تھا۔‏ اس پر پورا اُترنے کیلئے موسیٰ کو اپنی من‌مانی کرنے کی بجائے یہوواہ کی راہوں پر چلنا تھا۔‏

۴ یہوواہ کے فرشتے نے اس ذمہ‌داری کی وضاحت کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏سو اب آ مَیں تجھے فرؔعون کے پاس بھیجتا ہُوں کہ تُو میری قوم بنی‌اسرائیل کو مصرؔ سے نکال لائے۔‏“‏ لیکن موسیٰ خود کو اس ذمہ‌داری کو نبھانے کے قابل نہیں سمجھتا تھا اور واقعی اگر وہ اسے اپنی قوت میں کرنے کی کوشش کرتا تو وہ کامیاب نہیں ہوتا۔‏ اسلئے یہوواہ نے موسیٰ کو یقین دلایا کہ ”‏مَیں ضرور تیرے ساتھ رہونگا۔‏“‏ (‏خروج ۳:‏۱۰-‏۱۲‏)‏ یہوواہ خدا نے موسیٰ کو طرح طرح کے معجزے کرنے کی قوت بخشی جنکو دیکھ کر لوگ جان جاتے کہ وہ واقعی خدا کا بھیجا ہوا نبی ہے۔‏ یہوواہ نے موسیٰ کے بھائی ہارون کو بھی اُسکے ساتھ بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے پیغامات پہنچانے میں اُسکی مدد کرے۔‏ اِسکے علاوہ موسیٰ کو جو کچھ کرنا اور کہنا تھا یہوواہ نے وعدہ کِیا کہ وہ اُسے یہ سکھاتا رہیگا۔‏ (‏خروج ۴:‏۱-‏۱۷‏)‏ کیا موسیٰ اس ذمہ‌داری پر پورا اُترا؟‏

۵.‏ بنی‌اسرائیل کے ردِعمل نے موسیٰ کیلئے مسئلے کیوں کھڑے کر دئے؟‏

۵ شروع شروع میں تو بنی‌اِسرائیل کے بزرگوں نے موسیٰ اور ہارون کی باتوں پر یقین کِیا۔‏ (‏خروج ۴:‏۲۹-‏۳۱‏)‏ لیکن پھر ”‏بنی‌اِسرائیل کے سرداروں“‏ نے موسیٰ اور ہارون پر الزام لگایا کہ اُنکی وجہ سے وہ فرعون اور اُسکے خادموں کی نگاہ میں ’‏گھنونے کئے گئے تھے۔‏‘‏ (‏خروج ۵:‏۱۹-‏۲۱؛‏ ۶:‏۹‏)‏ پھر جب بنی‌اسرائیل مصر کو چھوڑ کر بحرِقلزم کے کنارے ڈیرا لگا رہے تھے تو مصریوں نے رتھوں پر اُنکا پیچھا کِیا۔‏ یہ دیکھ کر اسرائیلی نہایت خوف‌زدہ ہو گئے۔‏ اُنکے سامنے سمندر تھا اور اُنکے پیچھے فرعون کا لشکر۔‏ وہ کہیں بھاگ نہیں سکتے تھے۔‏ اُنہوں نے موسیٰ اور ہارون پر الزام لگایا کہ کیا تُم ہمیں مرنے کیلئے یہاں لے آئے ہو؟‏ موسیٰ نے اِس صورتحال میں کیسا ردِعمل دکھایا؟‏ آپ ایسی صورتحال میں کیا کرتے؟‏ حالانکہ بنی‌اِسرائیل کے پاس کشتیاں نہیں تھیں پھربھی یہوواہ خدا نے موسیٰ سے کہا کہ وہ روانہ ہونے کی تیاری کریں۔‏ اس کے بعد یہوواہ نے سمندر کو دو حصوں میں کر دیا اور بنی‌اِسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل گئے۔‏—‏خروج ۱۴:‏۱-‏۲۲‏۔‏

خدا کے نام کی اہمیت

۶.‏ موسیٰ کو ذمہ‌داری سونپتے وقت یہوواہ نے کس بات پر زور دیا؟‏

۶ موسیٰ کو ذمہ‌داری سونپتے وقت یہوواہ نے اپنے نام کی اہمیت پر زور دیا۔‏ جی‌ہاں،‏ خدا اور اُسکے نام یہوواہ کا احترام کرنا بہت ہی اہم ہے۔‏ جب موسیٰ نے خدا سے پوچھا کہ تیرا نام کیا ہے تو یہوواہ نے جواب دیا کہ ”‏مَیں جو ہُوں سو مَیں ہُوں۔‏“‏ پھر خدا نے موسیٰ سے یہ بھی کہا:‏ ”‏تُو بنی‌اِسرائیل سے یوں کہنا کہ [‏یہوواہ]‏ تمہارے باپ‌دادا کے خدا اؔبرہام کے خدا اور اِضحاؔق کے خدا اور یعقوؔب کے خدا نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے۔‏ ابد تک میرا یہی نام ہے اور سب نسلوں میں اِسی سے میرا ذِکر ہوگا۔‏“‏ (‏خروج ۳:‏۱۳-‏۱۵‏)‏ خدا کے خادم آج تک اُسے اپنے نام یہوواہ ہی سے جانتے اور پکارتے آ رہے ہیں۔‏—‏یسعیاہ ۱۲:‏۴،‏ ۵؛‏ ۴۳:‏۱۰-‏۱۲‏۔‏

۷.‏ فرعون کی ضد کے باوجود یہوواہ نے موسیٰ کو کونسا حکم دیا؟‏

۷ جب بھی موسیٰ اور ہارون فرعون کے سامنے حاضر ہوتے تھے تو وہ اس بات پر زور دیتے کہ وہ یہوواہ کی طرف سے ایک پیغام پہنچا رہے ہیں۔‏ لیکن مغرور فرعون اس پر یوں جواب دیتا تھا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کون ہے کہ مَیں اُسکی بات کو مان کر بنی‌اِسرائیل کو جانے دوں؟‏ مَیں [‏یہوواہ]‏ کو نہیں جانتا اور مَیں بنی‌اِسرائیل کو جانے بھی نہیں دُونگا۔‏“‏ (‏خروج ۵:‏۱،‏ ۲‏)‏ فرعون نہ صرف دغاباز نکلا بلکہ اُس نے اپنا دل بھی سخت کر لیا۔‏ اسکے باوجود یہوواہ موسیٰ کو باربار فرعون کے پاس بھیجتا تاکہ وہ اس مغرور بادشاہ کو پیغامات پہنچائے۔‏ (‏خروج ۷:‏۱۴-‏۱۶،‏ ۲۰-‏۲۳؛‏ ۸:‏۱،‏ ۲،‏ ۲۰‏)‏ موسیٰ جانتا تھا کہ فرعون اُسکو دیکھتے ہی آگ‌بگولا ہو جاتا ہے۔‏ توپھر باربار اُسکے سامنے حاضر ہونے میں کیا فائدہ تھا؟‏ ایک طرف بنی‌اسرائیل کو غلامی سے نجات پانے کی خواہش تڑپا رہی تھی۔‏ لیکن دوسری طرف فرعون پکا ارادہ کر چکا تھا کہ وہ اُنہیں نہیں جانے دیگا۔‏ آپ ایسی صورتحال میں کیا کرتے؟‏

۸.‏ یہوواہ نے فرعون کیساتھ صبر کیوں کِیا اور ہم اس واقعہ سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۸ موسیٰ نے ایک مرتبہ پھر سے فرعون کو کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ عبرانیوں کا خدا یوں فرماتا ہے کہ میرے لوگوں کو جانے دے تاکہ وہ میری عبادت کریں۔‏“‏ خدا نے فرعون کو یہ بھی بتایا کہ وہ اُس کے ساتھ صبر سے کیوں پیش آ رہا تھا۔‏ اُس نے فرمایا:‏ ”‏مَیں نے تو ابھی ہاتھ بڑھا کر تجھے اور تیری رعیت کو وبا سے مارا ہوتا اور تُو زمین پر سے ہلاک ہو جاتا۔‏ پر مَیں نے تجھے فی‌الحقیقت اِسلئے قائم رکھا ہے کہ اپنی قوت تجھے دکھاؤں تاکہ میرا نام ساری دُنیا میں مشہور ہو جائے۔‏“‏ (‏خروج ۹:‏۱۳-‏۱۶‏)‏ یہوواہ فرعون پر جو کچھ لانے والا تھا اس سے ظاہر ہو جاتا کہ خدا کی خلافورزی کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے۔‏ یہ شیطان کیلئے بھی ایک آگاہی تھی جسے یسوع مسیح نے ایک بار ”‏دُنیا کا سردار“‏ کہا تھا۔‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۳۰؛‏ رومیوں ۹:‏۱۷-‏۲۴‏)‏ جیسا موسیٰ نے کہا تھا بالکل ویسا ہی ہوا۔‏ جو کچھ فرعون پر گزرا اُس سے یہوواہ کا نام ساری دُنیا میں مشہور ہو گیا۔‏ یہوواہ نے ہٹ‌دھرم فرعون اور مصریوں کیساتھ صبر سے کام لیا۔‏ ایسا کرنے سے اُس نے نہ صرف بنی‌اسرائیل کو غلامی سے نجات دلائی بلکہ غیراسرائیلیوں کا ایک بہت بڑا ملاجلا گروہ بھی یہوواہ کی عبادت کرنے لگا۔‏ (‏خروج ۹:‏۲۰،‏ ۲۱؛‏ ۱۲:‏۳۷،‏ ۳۸‏)‏ اُس زمانے سے لے کر آج تک یہوواہ کے نام کی مُنادی کی جا رہی ہے جسکی وجہ سے کروڑوں لوگ اُسکی عبادت کرنے لگے ہیں۔‏

ایک گردن‌کش قوم کی پیشوائی کرنا

۹.‏ یہوواہ کا احترام کرنے میں بنی‌اسرائیل نے کیسے بھول کی؟‏

۹ موسیٰ بنی‌اسرائیل سے مخاطب ہوتے وقت خدا کا نام استعمال کرتا تھا۔‏ لہٰذا اسرائیلی خدا کے نام سے اچھی طرح سے واقف تھے۔‏ اسکے باوجود وہ اکثر زمین‌وآسمان کے خالق یہوواہ کا احترام کرنا بھول جاتے تھے۔‏ مثال کے طور پر مصر سے معجزانہ طور پر آزاد کئے جانے کے تھوڑے عرصے بعد ہی اُنہوں نے موسیٰ پر بڑبڑانا شروع کر دیا۔‏ وہ کہنے لگے کہ ہمارے پاس پانی نہیں،‏ ہم کیا پئیں گے؟‏ پھر اُنہوں نے اُن گوشت کی ہانڈیوں کو یاد کرنا شروع کر دیا جو وہ مصر میں کھایا کرتے تھے اور کہنے لگے کہ ہم سب بھوکے مر جائینگے۔‏ اس پر موسیٰ نے اُنکو آگاہ کِیا کہ وہ اُس پر اور ہارون پر ہی نہیں بلکہ یہوواہ خدا پر بڑبڑا رہے ہیں۔‏ (‏خروج ۱۵:‏۲۲-‏۲۴؛‏ ۱۶:‏۲-‏۱۲‏)‏ کوہِ‌سینا پر یہوواہ نے اپنی قدرت کا مظاہرہ کرنے کیساتھ ساتھ موسیٰ کو شریعت دی۔‏ لیکن بنی‌اسرائیل جلد ہی اس شریعت سے منکر ہو گئے۔‏ اُنہوں نے اپنے لئے سونے کا ایک بچھڑا بنایا اور اُسکی پوجا کرکے کہنے لگے کہ ہم ”‏[‏یہوواہ]‏ کیلئے عید“‏ منا رہے ہیں۔‏—‏خروج ۳۲:‏۱-‏۹‏۔‏

۱۰.‏ خروج ۳۳:‏۱۳ میں درج موسیٰ کی دُعا مسیحی بزرگوں کیلئے کونسی اہمیت رکھتی ہے؟‏

۱۰ یہوواہ نے بنی‌اسرائیل کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ایک گردن‌کش قوم ہے۔‏ توپھر موسیٰ کو اس قوم کیساتھ کیسے پیش آنا تھا؟‏ اُس نے یہوواہ سے التجا کی کہ ”‏اگر مجھ پر تیرے کرم کی نظر ہے تو مجھ کو اپنی راہ بتا جس سے مَیں تجھے پہچان لوں تاکہ مجھ پر تیرے کرم کی نظر رہے اور یہ خیال رکھ کہ یہ قوم تیری ہی اُمت ہے۔‏“‏ (‏خروج ۳۳:‏۱۳‏)‏ آجکل بزرگ کلیسیا کی نگہبانی کرتے وقت بھی موسیٰ کی طرح دُعا کر سکتے ہیں کہ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏ اپنی راہیں مجھے دکھا۔‏ اپنے راستے مجھے بتا دے۔‏“‏ (‏زبور ۲۵:‏۴‏)‏ جب بزرگ یہوواہ کی راہ کو اچھی طرح سے پہچانتے ہیں تو وہ کلیسیا سے بھی خدا کی راہوں کے مطابق پیش آئینگے۔‏

یہوواہ اپنے خادموں سے کیا توقع رکھتا ہے؟‏

۱۱.‏ یہوواہ نے موسیٰ کو کونسے احکام دئے اور ان میں پائے جانے والے اصول مسیحیوں کیلئے کونسی اہمیت رکھتے ہیں؟‏

۱۱ کوہِ‌سینا پر یہوواہ نے موسیٰ کو بتایا کہ وہ اپنی قوم سے کونسی توقعات رکھتا ہے۔‏ پھر اُس نے ان میں سے دس حکموں کو دو لوحوں پر درج کرکے انہیں موسیٰ کو دے دیا۔‏ جب موسیٰ پہاڑ سے اُتر رہا تھا تو اُس نے دیکھا کہ بنی‌اسرائیل ایک ڈھالے ہوئے بچھڑے کی پوجا کر رہے ہیں۔‏ اس پر موسیٰ کا غضب بھڑکا اور اُس نے اُن لوحوں کو زمین پر پٹک کر انکو توڑ ڈالا۔‏ یہوواہ نے موسیٰ کو پہلی لوحوں کی مانند پتھر کی دو لوحیں تراشنے کو کہا۔‏ (‏خروج ۳۲:‏۱۹؛‏ ۳۴:‏۱‏)‏ ان پر یہوواہ نے وہی باتیں لکھیں جو پہلی لوحوں پر درج تھیں۔‏ موسیٰ کو ان احکام پر عمل کرنا تھا۔‏ اسکے علاوہ یہوواہ نے موسیٰ کو سمجھایا کہ وہ کس قسم کا خدا ہے تاکہ موسیٰ جان لے کہ اُسے یہوواہ کے نمائندے کے طور پر دوسروں کیساتھ کیسے پیش آنا چاہئے۔‏ مسیحی آجکل موسوی شریعت کے ماتحت نہیں ہیں۔‏ لیکن جو احکام یہوواہ نے موسیٰ کو دئے تھے ان میں بہت سے ایسے اصول پائے جاتے ہیں جن پر یہوواہ کے خادموں کو آج بھی عمل کرنا چاہئے۔‏ (‏رومیوں ۶:‏۱۴؛‏ ۱۳:‏۸-‏۱۰‏)‏ آئیے ہم ان میں سے چند پر غور کرتے ہیں۔‏

۱۲.‏ بنی‌اسرائیل کو یہوواہ خدا کی عبادت کیسے کرنی تھی؟‏

۱۲ صرف یہوواہ خدا ہی کی عبادت کریں۔‏ جب یہوواہ خدا نے حکم دیا کہ اُسکے علاوہ کسی اَور کی عبادت نہیں کی جانی چاہئے تو تمام بنی‌اسرائیل حاضر تھے۔‏ (‏خروج ۲۰:‏۲-‏۵‏)‏ اسرائیلی یہ بھی جانتے تھے کہ یہوواہ ہی سچا خدا ہے کیونکہ وہ اُسکے بہتیرے کارناموں کو دیکھ چکے تھے۔‏ (‏استثنا ۴:‏۳۳-‏۳۵‏)‏ یہوواہ کو اپنی قوم میں کسی قسم کی جادوگری یا بُت‌پرستی گوارا نہ تھی۔‏ بنی‌اسرائیل کو محض دکھاوے کے طور پر خدا کی عبادت نہیں کرنی تھی بلکہ اُن سب کو یہوواہ خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھنی تھی۔‏ (‏استثنا ۶:‏۵،‏ ۶‏)‏ یہ محبت انکی زندگی کے ہر پہلو میں نمایاں ہونی تھی۔‏ (‏احبار ۲۰:‏۲۷؛‏ ۲۴:‏۱۵،‏ ۱۶؛‏ ۲۶:‏۱‏)‏ یسوع نے بھی اس بات پر زور دیا تھا کہ انسان کو صرف یہوواہ خدا ہی کی عبادت کرنی چاہئے۔‏—‏مرقس ۱۲:‏۲۸-‏۳۰؛‏ لوقا ۴:‏۸‏۔‏

۱۳.‏ بنی‌اسرائیل کو دل لگا کر خدا کے حکموں پر عمل کیوں کرنا تھا اور ہمیں ایسا کیوں کرنا چاہئے؟‏ (‏واعظ ۱۲:‏۱۳‏)‏

۱۳ یہوواہ کے حکموں پر دل لگا کر عمل کریں۔‏ جب بنی‌اسرائیل نے خدا کیساتھ ایک عہد باندھا تھا تو اُنہوں نے وعدہ کِیا تھا کہ وہ اُسکے حکموں پر ضرور عمل کرینگے۔‏ لیکن وہ اس وعدے کو اکثر بھول جاتے تھے۔‏ خدا نے اُنہیں بہت سی باتوں میں اپنی مرضی چلانے کی اجازت دی تھی۔‏ لیکن جن باتوں میں خدا نے اُنہیں حکم دیا تھا،‏ ان میں اُنہیں دل لگا کر خدا کا کہنا ماننا تھا۔‏ اسطرح وہ یہوواہ خدا کیلئے اپنی محبت ظاہر کر سکتے تھے۔‏ اس میں اُنکی اور اُنکی اولاد کی بھلائی بھی تھی کیونکہ خدا کے حکم ہمیشہ ہمارے فائدے کیلئے ہوتے ہیں۔‏—‏خروج ۱۹:‏۵-‏۸؛‏ استثنا ۵:‏۲۷-‏۳۳؛‏ ۱۱:‏۲۲،‏ ۲۳‏۔‏

۱۴.‏ یہوواہ خدا نے بنی‌اسرائیل پر کیسے ظاہر کِیا کہ اُنہیں روحانی باتوں کو پہلا درجہ دینا چاہئے؟‏

۱۴ زندگی میں روحانی باتوں کو پہلا درجہ دیں۔‏ یہوواہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ بنی‌اسرائیل اپنا گزربسر کرنے میں اتنا مصروف ہوں کہ اُنکے پاس روحانی باتوں کیلئے وقت نہ رہے۔‏ اسلئے خدا نے ہفتے کے ایک دن کو مقدس ٹھہرایا۔‏ اس روز اُنہیں کوئی کام کرنے کی اجازت نہ تھی بلکہ اُنہیں اسے خدا کی عبادت میں گزارنا تھا۔‏ (‏خروج ۳۵:‏۱-‏۳؛‏ گنتی ۱۵:‏۳۲-‏۳۶‏)‏ اسکے علاوہ خدا نے سال میں کئی دن خاص عیدوں کیلئے مقرر کئے تھے۔‏ (‏احبار ۲۳:‏۴-‏۴۴‏)‏ ان عیدوں کے دوران لوگ یہوواہ کے کارناموں اور اُسکی راہوں کو یاد کرنے کیلئے جمع ہوتے اور اُسکی بےشمار نعمتوں کا شکر ادا بھی کرتے۔‏ یہوواہ خدا کو اسطرح سے یاد کرنے سے اسرائیلیوں کے دلوں میں اُس کیلئے خوف اور محبت کا جذبہ بڑھ سکتا تھا اور وہ اُسکی راہوں پر چلنے میں کامیاب ہوتے۔‏ (‏استثنا ۱۰:‏۱۲،‏ ۱۳‏)‏ حالانکہ یہوواہ کے یہ احکام آجکل مسیحیوں پر لاگو نہیں ہوتے لیکن پھربھی ان میں پائے جانے والے اصول آج بھی اُنکے لئے بہت فائدہ‌مند ہیں۔‏—‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏۔‏

خدا کی خوبیوں کی قدر کریں

۱۵.‏ (‏ا)‏ یہوواہ خدا کی خوبیوں کی قدر کرنے سے موسیٰ کو کیا فائدہ پہنچا؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ کی خوبیوں کے بارے میں غور کرتے وقت ہمیں خود سے کونسے سوال پوچھنے چاہئیں؟‏

۱۵ موسیٰ یہوواہ خدا کی خوبیوں کے بارے میں جاننے اور اُنکی قدر کرنے سے بہتر طور پر بنی‌اسرائیل کی پیشوائی کر سکا۔‏ خروج ۳۴:‏۵-‏۷ کے مطابق یہوواہ نے موسیٰ کے آگے سے گزرتے ہوئے اپنی خوبیوں کا ذکر یوں کِیا:‏ ”‏[‏یہوواہ یہوواہ]‏ خدایِ‌رحیم اور مہربان قہر کرنے میں دھیما اور شفقت اور وفا میں غنی۔‏ ہزاروں پر فضل کرنے والا۔‏ گُناہ اور تقصیر اور خطا کا بخشنے والا لیکن مجرم کو ہرگز بری نہیں کریگا بلکہ باپ‌دادا کے گُناہ کی سزا اُنکے بیٹوں اور پوتوں کو تیسری اور چوتھی پُشت تک دیتا ہے۔‏“‏ تھوڑی دیر کیلئے ان آیتوں پر غور کریں۔‏ خود سے پوچھیں کہ یہوواہ کی شخصیت کے مختلف پہلو اُسکے بارے میں کیا ظاہر کرتے ہیں؟‏ یہوواہ نے ان خوبیوں کو کب اور کیسے ظاہر کِیا؟‏ کلیسیا کے بزرگ ان خوبیوں کو کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏ یہوواہ کی ان خوبیوں کا ہمارے اعمال پر کیسا اثر ہونا چاہئے؟‏ آئیے ہم خدا کی چند خوبیوں پر غور کرتے ہیں۔‏

۱۶.‏ خدا کس لحاظ سے رحیم ہے اور ہم خدا کی اس خوبی کو کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

۱۶ یہوواہ خدا ”‏رحیم اور مہربان“‏ ہے۔‏ وہ اکثر ہمارے گناہوں کے مطابق ہمیں سزا نہیں دیتا بلکہ ہماری سزا کم کر دیتا ہے۔‏ رحیم ہونے کی وجہ سے یہوواہ اپنے خادموں کی مشکل کو آسان بھی کر دیتا ہے۔‏ یہ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب بنی‌اسرائیل بیابان میں پھر رہے تھے تو یہوواہ اُنکی جسمانی اور روحانی ضروریات پورا کرتا رہا۔‏ اُنکو کسی چیز کی کمی نہ تھی۔‏ (‏استثنا ۱:‏۳۰-‏۳۳؛‏ ۸:‏۴‏)‏ اسکے علاوہ جب کوئی اسرائیلی غلطی کرتا تو یہوواہ اکثر اُسکو معاف کر دیتا۔‏ جی‌ہاں،‏ بنی‌اسرائیل کیساتھ اپنے سلوک میں یہوواہ واقعی رحیم تھا۔‏ اسلئے خدا کے خادموں کیلئے بھی لازم ہے کہ وہ ایک دوسرے کیساتھ رحم سے پیش آئیں۔‏—‏متی ۹:‏۱۳؛‏ ۱۸:‏۲۱-‏۳۵‏۔‏

۱۷.‏ یہوواہ کی مہربانی کے بارے میں جاننے کے کونسے فائدے ہیں؟‏

۱۷ خروج ۳۴:‏۵-‏۷ میں یہوواہ کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ مہربان ہے۔‏ ایک مہربان شخص حاجتمندوں کیساتھ ہمدردی سے پیش آتا ہے۔‏ (‏خروج ۲۲:‏۲۶،‏ ۲۷‏)‏ ہر ملک میں پردیسی اور حاجتمند لوگ ہوتے ہیں۔‏ جب یہوواہ بنی‌اسرائیل کو دوسروں کیساتھ مہربانی سے پیش آنے کا سبق دے رہا تھا تو اُس نے اُنکو یاد دلایا کہ وہ بھی ایک زمانے میں پردیس میں غلام رہے تھے۔‏ (‏استثنا ۲۴:‏۱۷-‏۲۲‏)‏ یہوواہ کے خادم آجکل اس سبق پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏ جب وہ دوسروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے ہیں تو مسیحی بھائی‌چارے میں اتحاد بڑھتا ہے۔‏ اس اتحاد کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی یہوواہ کی عبادت کرنے کی خواہش محسوس کرتے ہیں۔‏—‏اعمال ۱۰:‏۳۴،‏ ۳۵؛‏ مکاشفہ ۷:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

۱۸.‏ بنی‌اسرائیل کو کس بات کی اجازت نہیں تھی اور ہم اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۸ جب خدا نے بنی‌اسرائیل سے کہا کہ اُنہیں دوسروں کیساتھ مہربانی سے پیش آنا چاہئے تو اسکا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ غیرقوموں کے مذہبی رسموں اور انکی بداخلاقی کو اپنائیں۔‏ اُنہیں ہر حال میں یہوواہ خدا اور اُسکے اخلاقی معیاروں کیلئے اپنی محبت کو برقرار رکھنا تھا۔‏ (‏خروج ۳۴:‏۱۱-‏۱۶؛‏ استثنا ۷:‏۱-‏۴‏)‏ اور یہی بات آج بھی یہوواہ کے خادموں پر لاگو ہوتی ہے۔‏ ہمیں اپنے چال‌چلن میں پاک رہنا چاہئے کیونکہ یہوواہ ہمارا خدا بھی پاک ہے۔‏—‏۱-‏پطرس ۱:‏۱۵،‏ ۱۶‏۔‏

۱۹.‏ گُناہ کے بارے میں خدا کے رویے کو سمجھنے سے اُسکے خادم کونسی غلط سوچ میں پڑنے سے بچ سکتے ہیں؟‏

۱۹ یہوواہ خدا چاہتا تھا کہ اُسکا خادم موسیٰ اُس کی راہوں کو اچھی طرح سے سیکھ لے۔‏ اسلئے خدا نے موسیٰ کو سمجھایا کہ وہ قہر کرنے میں دھیما ہے۔‏ اسکا مطلب ہے کہ اگر کوئی شخص گُناہ کرتا بھی ہے تو یہوواہ اُس کے ساتھ صبر سے پیش آتا ہے۔‏ وہ لوگوں کو اُس کے حکموں کے بارے میں سیکھنے اور ان پر عمل کرنے کے لئے وقت دیتا ہے۔‏ جب کوئی شخص اپنے گُناہوں سے توبہ کرتا ہے تو یہوواہ اُسے معاف کرنے کو تیار ہوتا ہے۔‏ لیکن وہ بُری حرکتوں کے انجام کو روکتا نہیں۔‏ اسلئے یہوواہ نے موسیٰ کو خبردار کِیا کہ اسرائیلیوں کی اچھی یا بُری روش کا اثر اُنکی اولاد پر ضرور پڑیگا۔‏ گُناہ کے بارے میں خدا کے رویے کو سمجھنے سے اُس کے خادم غلط سوچ میں پڑنے سے بچ سکتے ہیں۔‏ اگر وہ اپنی کسی بُری حرکت کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں تو وہ یہ نہیں کہینگے کہ خدا نے یہ مشکل اُن پر بھیجی ہے۔‏ وہ یہ بھی نہیں سوچینگے کہ خدا انصاف کرنے میں دیر کر رہا ہے۔‏

۲۰.‏ خدا کے خادموں اور دوسرے لوگوں کیساتھ اچھی طرح سے پیش آنے کیلئے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟‏ (‏زبور ۸۶:‏۱۱‏)‏

۲۰ اگر آپ یہوواہ خدا اور اُسکی راہوں کے بارے میں اپنے علم کو بڑھانا چاہتے ہیں تو بائبل کو پڑھیں اور اس کو سمجھنے کے لئے یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ کتابوں اور رسالوں پر بھی غور کریں۔‏ یہوواہ خدا کی مختلف خوبیوں پر سوچ‌بچار کریں۔‏ دُعا کرکے اسکے بارے میں بھی سوچیں کہ آپ خدا کی خوبیوں کو کیسے اپنا سکتے ہیں تاکہ آپ اُسکی راہوں پر چلنے میں کامیاب ہوں۔‏ ایسا کرنے سے آپ غلطیاں کرنے سے بچے رہینگے اور آپ جان جائینگے کہ آپکو خدا کے خادموں کیساتھ کیسے پیش آنا چاہئے۔‏ اس سے بڑھ کر جب دوسرے لوگ آپکے اچھے چال‌چلن پر غور کرینگے تو اُنکے دل میں بھی ہمارے شاندار خدا یہوواہ کی عبادت کرنے کی خواہش پیدا ہوگی۔‏

آپ نے کیا سیکھا ہے؟‏

‏• موسیٰ کو حلم کی خوبی کیوں پیدا کرنی پڑی اور ہمیں بھی ایسا کیوں کرنا چاہئے؟‏

‏• یہوواہ خدا فرعون کیساتھ صبر سے کیوں پیش آیا تھا؟‏

‏• موسیٰ کو کونسے اصول سکھائے گئے تھے جن پر خدا کے خادموں کو آج بھی عمل کرنا چاہئے؟‏

‏• ہم یہوواہ کی خوبیوں کے بارے میں اپنی سمجھ کو کیسے بڑھا سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویر]‏

موسیٰ فرعون کو یہوواہ خدا کے پیغام پہنچاتا رہا

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

یہوواہ خدا نے موسیٰ پر ظاہر کِیا کہ وہ اپنے بندوں سے کن باتوں کی توقع رکھتا ہے

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

یہوواہ خدا کی خوبیوں پر غور کریں