مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اس وقت زندگی سے بھرپور لطف اُٹھانا

اس وقت زندگی سے بھرپور لطف اُٹھانا

میری کہانی میری زبانی

اس وقت زندگی سے بھرپور لطف اُٹھانا

از ٹیڈ بکنگم

مَیں چھ سال سے کُل‌وقتی خادم تھا۔‏ سن ۱۹۵۰ میں شادی کے چھ ماہ بعد اچانک مجھے پولیو ہو گیا۔‏ اُس وقت میری عمر صرف ۲۴ سال تھی۔‏ مجھے نو ماہ تک ہسپتال میں رہنا پڑا۔‏ اس دوران مَیں نے زندگی کے بارے میں بہت سنجیدگی سے سوچا۔‏ میری اس کمزوری کی وجہ سے میرا اور میری بیوی،‏ جوائس کا مستقبل کیا ہوگا؟‏

سن ۱۹۳۸ میں مذہب میں دلچسپی نہ رکھنے کے باوجود میرے والد نے کتاب گورنمنٹ حاصل کی۔‏ * غالباً جنگ کے امکان اور سیاسی ابتری نے انہیں یہ کتاب لینے کی تحریک دی تھی۔‏ اُنہوں نے اس کتاب کو کبھی نہیں پڑھا تھا،‏ لیکن میری والدہ نے مذہب میں دلچسپی رکھنے کی وجہ سے اسے پڑھا۔‏ اس میں موجود پیغام کے لئے فوری ردِعمل دکھاتے ہوئے اُنہوں نے چرچ آف انگلینڈ کو چھوڑ دیا اور میرے والد کی مخالفت کے باوجود وہ یہوواہ کی وفادار گواہ بن گئی۔‏ وہ ۱۹۹۰ میں اپنی موت تک وفادار رہی۔‏

میری والدہ مجھے لندن کے جنوبی قصبے اپسم کے ایک کنگڈم ہال میں عبادت پر لے گئی۔‏ کلیسیا ایک سابقہ سٹور میں جمع ہوا کرتی تھی۔‏ وہاں ہم نے اُس وقت کے یہوواہ کے گواہوں کے کام کے نگران جے.‏ ایف.‏ رتھرفورڈ کی تقریر کی ریکارڈنگ سنی۔‏ اس تقریر کا مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا۔‏

لندن پر ہوائی حملے کے دوران شدید بمباری سے خطرناک صورتحال پیدا ہو رہی تھی۔‏ اس لئے میرے والد نے ۱۹۴۰ میں خاندان کو ایک محفوظ مقام پر لے جانے کا فیصلہ کِیا۔‏ وہ ہمیں لندن کے جنوب کی طرف ۴۵ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے قصبے میڈن‌ہیڈ لے گئے۔‏ وہاں کی کلیسیا کے ۳۰ ارکان حوصلہ‌افزائی فراہم کرنے کا ایک عمدہ ذریعہ ثابت ہوئے۔‏ سن ۱۹۱۷ میں،‏ بپتسمہ لینے والے ایک پُختہ روحانی بھائی فریڈ سمتھ نے مؤثر اُستاد بننے کے لئے میری تربیت کی۔‏ مَیں اُن کی پُرمحبت مدد اور عمدہ نمونے کے لئے بہت شکرگزار ہوں۔‏

کُل‌وقتی خدمت کا آغاز

مارچ ۱۹۴۱ میں،‏ ۱۵ سال کی عمر میں مَیں نے دریائےتھیمز میں بپتسمہ لیا۔‏ اُس دن سردی کافی تھی۔‏ میرا بڑا بھائی جم اس وقت تک کُل‌وقتی مناد کے طور پر اپنا نام درج کرا چکا تھا۔‏ آجکل وہ اور اس کی بیوی میج برمنگھم میں رہتے ہیں۔‏ اُنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ برطانیہ میں سرکٹ اور ڈسٹرکٹ تفویضات کو پورا کرنے میں گزارا ہے۔‏ میری چھوٹی بہن روبینہ اور اس کا شوہر فرینک بھی یہوواہ کے وفادار خادم ہیں۔‏

مَیں ایک گارمنٹ فیکٹری میں اکاونٹنٹ کے طور پر کام کر رہا تھا۔‏ ایک دن مینیجنگ ڈائریکٹر نے مجھے اپنے دفتر میں بلا کر کہا کہ اگر مَیں کمپنی کا خریدار بن جاؤں تو میرا مستقبل بہت شاندار ہو جائے گا۔‏ کچھ عرصے سے مَیں اپنے بھائی کی طرح کُل‌وقتی خدمت کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔‏ اس لئے مَیں نے اس کی پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔‏ جب اس نے اس اہم مسیحی کارگزاری کو شروع کرنے کے لئے میری تعریف کی تو مَیں بہت حیران ہوا۔‏ سن ۱۹۴۴ میں نارتھمپٹن میں ہونے والی ڈسٹرکٹ کنونشن کے بعد مَیں کُل‌وقتی مبشر بن گیا۔‏

میری پہلی تفویض ڈیون کے ایک شہر ایکس‌یٹر میں تھی۔‏ جنگ کی تباہ‌کاریوں کے بعد یہ شہر آہستہ آہستہ بحال ہو رہا تھا۔‏ مَیں فرینک اور روت مڈلٹن کے ساتھ ایک اپارٹمنٹ میں رہنے لگا۔‏ وہ دونوں میرا بہت خیال رکھتے تھے۔‏ اُس وقت مَیں صرف ۱۸ سال کا تھا اور مجھے کھانا پکانے اور کپڑے دھونے کوئی خاص تجربہ نہیں تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالتیں بہتر ہوتی گئیں۔‏

منادی کے کام میں میرے ساتھی آئرلینڈ کے رہنے والے ۵۰ سالہ وکٹر گرڈ تھے جو ۱۹۲۰ سے گواہی دینے کا کام کر رہے تھے۔‏ اُنہوں نے مجھے اپنے وقت کا دانشمندی سے استعمال کرنا سکھایا،‏ بائبل پڑھائی میں گہری دلچسپی کو اُبھارا اور مختلف بائبل ترجموں کی اہمیت کو سمجھنے میں میری مدد کی۔‏ ان ابتدائی سالوں میں،‏ وکٹر کی ثابت‌قدمی میرے لئے ایک ایسا عمدہ نمونہ تھی جس کی مجھے ضرورت تھی۔‏

غیرجانبداری کا مسئلہ

جنگ ختم ہونے والی تھی لیکن حکام ابھی تک نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔‏ اسی سلسلے میں ۱۹۴۳ میں مجھے میڈن‌ہیڈ کی عدالت کے سامنے پیش کِیا گیا۔‏ مَیں نے واضح طور پر بیان کِیا کہ مَیں انجیل کا مُناد ہوں۔‏ تاہم،‏ میری درخواست کو مسترد کر دیا گیا۔‏ مَیں نے خدمتگزاری کی اپنی تفویض کو پورا کرنے کیلئے ایکس‌یٹر جانے کا فیصلہ کِیا۔‏ مجھے ایکس‌یٹر میں مقامی عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حکم ملا۔‏ چھ ماہ قیدِبامشقت کی سزا سناتے ہوئے مجسٹریٹ نے کہا مجھے افسوس ہے کہ مَیں تمہیں زیادہ لمبی سزا نہیں دے سکا۔‏ چھ ماہ کی قید کے بعد مجھے اضافی چار مہینوں کیلئے واپس جیل بھیج دیا گیا۔‏

مَیں جیل میں اکیلا گواہ تھا اس لئے نگران مجھے یہوواہ کہہ کر پکارنے لگے۔‏ روزانہ حاضری لیتے وقت اس نام کو پکارا جاتا تھا۔‏ ہر روز خدا کے نام کو سننا کتنا شاندار استحقاق تھا!‏ اس سے دوسرے قیدی اس بات کو سمجھ گئے کہ یہوواہ کے گواہ کے طور پر میرے مضبوط مؤقف کی وجہ سے مَیں ان کے درمیان تھا۔‏ بعدازاں جب نارمن کیسٹرو کو اسی جیل میں بھیجا گیا تو وہ ہم دونوں کو موسیٰ اور ہارون کہنے لگے۔‏

ایکس‌یٹر سے مجھے برسٹل اور آخرکار ونچسٹر لے جایا گیا۔‏ اگرچہ حالات ہمیشہ اچھے نہیں رہے توبھی ہم نے اپنی مزاح کی حس کو برقرار رکھا۔‏ نارمن اور مَیں ونچسٹر کی جیل میں یسوع مسیح کی موت کی یادگار منا کر بہت خوش تھے۔‏ فرانسس کک نے جو ہم سے جیل میں ملنے کے لئے آیا تھا ہمارے لئے شاندار تقریر دی۔‏

جنگ کے بعد ہونے والی تبدیلیاں

سن ۱۹۴۶ میں،‏ برسٹل میں ہونے والی کنونشن پر بائبل مطالعہ کے لئے کتاب ”‏خدا سچا ٹھہرے“‏ کی رُونمائی کی گئی۔‏ وہاں میری ملاقات جوائس موری سے ہوئی وہ بھی ڈیون میں پائنیر خدمت کر رہی تھی۔‏ چار سال بعد ہم نے ٹویٹرن قصبے میں شادی کر لی جہاں مَیں ۱۹۴۷ سے رہ رہا تھا۔‏ ہم نے ایک کمرہ کرائے پر لے لیا۔‏ ہم ہر ہفتے دس شلنگ (‏تقریباً ۶۵ روپے)‏ کرایہ دیا کرتے تھے۔‏ زندگی بہت خوشگوار تھی!‏

شادی کے پہلے سال میں ہم ایک خوبصورت علاقے برکس‌ہام چلے گئے جہاں سب سے پہلے جال کے ذریعے مچھلیاں پکڑنے کی مہارت کو فروغ ملا۔‏ تاہم،‏ وہاں ہمیں زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ لندن کنونشن پر جاتے ہوئے مجھے پولیو ہو گیا۔‏ مَیں قومہ میں چلا گیا تھا۔‏ جیسے کہ مَیں نے شروع میں بیان کِیا نو ماہ کے بعد مجھے ہسپتال سے گھر جانے کی اجازت مل گئی۔‏ میرا دایاں بازو اور دونوں ٹانگیں بُری طرح سے متاثر ہوئی تھیں اور مَیں چھڑی کے سہارے چلتا تھا۔‏ میری بیوی کُل‌وقتی خدمت کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ مجھے خوش‌کُن رفاقت اور حوصلہ‌افزائی بھی فراہم کرتی تھی۔‏ لیکن اب ہم کیا کریں گے؟‏ جلد ہی مَیں نے سیکھ لیا کہ یہوواہ کا ہاتھ چھوٹا نہیں ہے۔‏

اگلے سال ہم لندن میں ایک اسمبلی پر حاضر ہوئے۔‏ اس وقت تک مَیں نے چھڑی کے بغیر چلنا شروع کر دیا تھا۔‏ وہاں ہم برطانیہ میں کام کے نگران پرائس ہیوز سے ملے۔‏ اُنہوں نے مجھے سلام کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏ہم چاہتے ہیں کہ آپ سرکٹ کا کام کریں!‏“‏ یہ بات میرے لئے بڑی حوصلہ‌افزا تھی!‏ کیا مَیں اس قابل تھا؟‏ جوائس اور مَیں دونوں اس کی بابت پریشان تھے،‏ لیکن ایک ہفتے کی تربیت کے بعد اور یہوواہ پر مکمل بھروسے کے ساتھ ہم انگلینڈ کے جنوب‌مغرب میں سرکٹ کے کام پر جانے والے تھے۔‏ اُس وقت میری عمر ۲۵ سال تھی۔‏ اب بھی مَیں اُن گواہوں کی مہربانی اور صبر کے لئے بہت شکرگزار ہوں جنہوں نے میری مدد کی۔‏

مختلف مسیحی کارگزاریوں کو پورا کرتے ہوئے مَیں نے اور جوائس نے دیکھا ہے کہ کلیسیاؤں کا دورہ کرنے سے ہم اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کے بہت قریب آ گئے ہیں۔‏ ہمارے پاس گاڑی نہیں تھی اس لئے ہم ریل‌گاڑی یا بس کے ذریعے سفر کرتے تھے۔‏ اگرچہ مَیں بیماری کی وجہ سے زیادہ کام نہیں کر سکتا تھا توبھی ہم نے ۱۹۵۷ تک اس خاص شرف سے لطف اُٹھایا۔‏ زندگی واقعی پُرلطف تھی!‏ لیکن اس سال ہمارے سامنے ایک اَور چیلنج تھا۔‏

مشنری خدمت میں

گلئیڈ کی ۳۰ ویں کلاس میں شرکت کے لئے دعوت‌نامہ حاصل کرکے ہم بہت خوش تھے۔‏ چونکہ مَیں اپنی بیماری سے اچھی طرح مقابلہ کر رہا تھا اس لئے جوائس اور مَیں نے اس دعوت کو خوشی سے قبول کِیا۔‏ ہم تجربے سے جانتے تھے کہ اگر ہم یہوواہ کی مرضی پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ ہمیں طاقت دیتا ہے۔‏ جلد ہی ساؤتھ لانسنگ نیو یارک،‏ یو.‏ایس.‏اے.‏ میں واقع واچ‌ٹاور بائبل سکول آف گلئیڈ میں پانچ ماہ کی تربیت ختم ہو گئی۔‏ سفری کام کرنے والے زیادہ‌تر طالبعلم شادی‌شُدہ تھے۔‏ جب کلاس سے رضاکارانہ طور پر غیرملکی مشنری خدمت کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو ہم بھی ان میں شامل تھے جو اس خدمت کے لئے تیار تھے۔‏ ہمیں مشرقی افریقہ میں یوگنڈا بھیجا گیا۔‏

اُس وقت یوگنڈا میں یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی تھی۔‏ مجھے اس مُلک میں رہنے اور ملازمت کرنے کی ہدایت ملی۔‏ ریل‌گاڑی اور کشتی کے لمبے سفر کے بعد ہم کمپالا،‏ یوگنڈا پہنچ گئے۔‏ امیگریشن آفیسر ہمیں دیکھ کر خوش نہیں تھا۔‏ ہمیں صرف چند ماہ کے لئے وہاں رہنے کی اجازت دی گئی۔‏ اس کے بعد ہمیں اس مُلک کو چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔‏ ہیڈکوارٹر کی ہدایات کے مطابق ہم شمالی روڈیشیا (‏اب زمبیا)‏ کی طرف روانہ ہوئے۔‏ وہاں ہم گلئیڈ کے اپنے چار ساتھیوں فرینک،‏ کیری لوئیس،‏ ہیز اور ہیرٹ ہاس‌کنز سے مل کر بہت خوش تھے۔‏ کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد ہماری اگلی تفویض جنوبی روڈیشیا (‏اب زمبابوے)‏ تھی۔‏

ہم نے ریل‌گاڑی کے ذریعے سفر کِیا اور پہلی دفعہ بلاوایو پہنچنے سے پہلے وکٹوریہ آبشار کی شاندار جھلک دیکھی۔‏ ہم کچھ عرصہ میکلوکی خاندان کے ساتھ رہے جو وہاں کے ابتدائی گواہوں میں سے ایک تھا۔‏ اگلے ۱۶ سال ہمیں ان کو اچھی طرح جاننے کا موقع ملا۔‏

تبدیلیوں سے نپٹنا

افریقہ کے مُلک سے واقف ہونے کے لئے دو ہفتے کی تربیت کے بعد مجھے ڈسٹرکٹ نگہبان مقرر کر دیا گیا۔‏ افریقہ کے دیہاتوں میں منادی کرنے کے لئے ہمیں اپنے ساتھ پانی،‏ خوراک،‏ بستر،‏ ذاتی کپڑے،‏ فلم دکھانے کا سامان،‏ جنریٹر اور ضرورت کی دوسری چیزیں لیکر جانی تھیں۔‏ ہم نے یہ سارا سامان ایک ٹرک میں رکھا اور اس مشکل سفر کے لئے روانہ ہوئے۔‏

مَیں نے افریقی سفری نگہبانوں کے ساتھ کام کِیا۔‏ جبکہ جوائس نے خوشی سے ان کے بیوی‌بچوں کی مدد کی۔‏ افریقہ کے ایسے علاقوں میں جہاں درخت کم اُگتے ہیں دن کی گرمی میں پیدل چلنا تھکا دینے والا سفر ہوتا ہے۔‏ لیکن جلد ہی مَیں نے دیکھ لیا کہ اس آب‌وہوا میں میرے لئے اپنی جسمانی کمزوری کا مقابلہ کرنا قدرے آسان تھا۔‏ اس کے لئے مَیں بہت شکرگزار تھا۔‏

یہاں عموماً لوگ غریب تھے۔‏ وہ بہت سی رسومات اور توہمات میں اُلجھے ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سے زیادہ بیویاں رکھتے تھے۔‏ تاہم،‏ اُنہوں نے بائبل کے لئے گہرا احترام دکھایا۔‏ کچھ علاقوں میں کلیسیائی اجلاس بڑےبڑے سایہ‌دار درختوں کے نیچے منعقد کئے جاتے تھے اور شام کے اوقات میں روشنی کے لئے تیل کے چراغ جلائے جاتے تھے۔‏ خدا کی شاندار تخلیق یعنی ستاروں بھرے آسمان کے نیچے خدا کے کلام کا مطالعہ کرتے وقت ہم نے ہمیشہ خدا کے پُرمحبت خوف کو محسوس کِیا۔‏

افریقہ میں واچ ٹاور سوسائٹی کی ویڈیوز دکھانا ایک اَور ناقابلِ‌فراموش تجربہ تھا۔‏ ایک کلیسیا میں ۳۰ گواہ تھے لیکن ان مواقع پر اکثر ۰۰۰،‏۱ سے زیادہ لوگ حاضر ہوتے!‏

گرم علاقوں میں کوئی بھی وقتاًفوقتاً بیمار ہو سکتا ہے۔‏ لیکن ہر وقت مثبت نقطۂ‌نظر رکھنا ضروری ہے۔‏ جوائس اور مَیں نے کامیابی کے ساتھ ان سے نپٹنا سیکھ لیا۔‏ مجھے اکثراوقات ملیریا کے اور جوائس کو پیٹ کی بیماری کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔‏

اس کے بعد ہماری اگلی تفویض سالس‌بری (‏اب ہرارے)‏ کے برانچ آفس میں تھی۔‏ وہاں یہوواہ کے دیگر وفادار خادموں لیسٹر ڈیوی،‏ جارج اور روبی بریڈلی کے ساتھ کام کرنا واقعی ایک شرف تھا۔‏ حکومت نے مجھے نکاح‌خواں مقرر کر دیا۔‏ یوں مَیں کلیسیا میں بہت سے مسیحی جوڑوں کی شادی کرانے اور ان کے بندھن کو مضبوط کرنے کے قابل ہوا۔‏ چند سال بعد مجھے ان علاقوں کا دورہ کرنے کا شرف ملا جہاں افریقہ کی مقامی زبان نہیں بولی جاتی۔‏ دس سال سے زیادہ عرصہ سفری کام کرکے مَیں اور جوائس بھائیوں کی رفاقت اور روحانی ترقی سے بہت محظوظ ہوئے۔‏ اس دوران ہم نے بوٹسوانا اور موزمبیق میں بھی بھائیوں سے ملاقات کی۔‏

ایک دوسری جگہ جانا

جنوبی افریقہ میں کافی عرصہ گزارنے کے بعد ہمیں ۱۹۷۵ میں سیرالیون،‏ مغربی افریقہ میں تفویض کِیا گیا۔‏ اس نئی تفویض کو پورا کرنے کے لئے ہم نے جلد ہی برانچ آفس میں رہائش اختیار کر لی۔‏ لیکن ہم زیادہ عرصے تک وہاں نہیں رہ سکے۔‏ ملیریا کے شدید حملے کی وجہ سے مَیں بہت بیمار ہو گیا۔‏ مجھے لندن میں علاج کرانا پڑا وہاں مجھے افریقہ واپس نہ جانے کی ہدایت کی گئی۔‏ ہم اس بات سے بہت افسردہ تھے،‏ لیکن مجھے اور جوائس کو لندن کے بیت‌ایل خاندان میں پُرتپاک خوش‌آمدید کہا گیا۔‏ لندن کی کلیسیاؤں میں بہت سے افریقی بھائیوں نے بھی ہمارا خیرمقدم کِیا۔‏ جیسے ہی میری صحت بہتر ہوئی ہمیں ایک نئے معمول کے عادی ہونا پڑا،‏ مجھے خریدوفروخت کے شعبے کی دیکھ‌بھال کرنے کے لئے کہا گیا۔‏ ان سالوں کے دوران ہونے والی ترقی کو دیکھتے ہوئے یہ کام بہت دلچسپ رہا تھا۔‏

سن ۱۹۹۰ کے شروع میں جوائس کو شدید اعصابی بیماری کا سامنا کرنا پڑا اور ۱۹۹۴ میں وہ وفات ہوگئی۔‏ وہ وفادار،‏ پُرمحبت اور قابلِ‌اعتماد بیوی ثابت ہوئی تھی۔‏ ہم نے جن حالات کا بھی سامنا کِیا اُس نے ہمیشہ خوشی کے ساتھ ان سے مطابقت پیدا کر لی۔‏ اپنی بیوی کی وفات سے ہونے والے نقصان کا مقابلہ کرنے کے لئے،‏ مَیں نے روحانی نقطۂ‌نظر برقرار رکھنے کی اہمیت سمجھ لی اور مستقبل پر نظریں جمائے رکھیں۔‏ مَیں ہمیشہ یہوواہ سے دُعا کرتا ہوں کہ اپنی مسیحی کارگزاریوں کو وقت پر پورا کروں۔‏ اس سے میری مدد ہوئی ہے کہ میرا دھیان ان باتوں پر لگا رہے۔‏—‏امثال ۳:‏۵،‏ ۶‏۔‏

بیت‌ایل میں خدمت ایک بہت بڑا شرف اور عمدہ طرزِزندگی ہے۔‏ یہاں بہت سے نوجوانوں کے ساتھ کام کرنے اور خوشیاں بانٹنے کا موقع ملتا ہے۔‏ ایک برکت لندن بیت‌ایل کا دورہ کرنے کے لئے آنے والوں کی تعداد ہے۔‏ بعض‌اوقات مَیں افریقہ کے اپنے دوستوں کو دیکھ کر خوشگوار لمحوں کو یاد کرتا ہوں۔‏ یہ سب کچھ کرنے سے اس وقت زندگی سے لطف‌اندوز ہونے اور آئندہ کی زندگی کی اُمید کو تھامے رہنے اور اس پر غوروخوض کرنے میں میری مدد ہوتی ہے۔‏—‏۱-‏تیمتھیس ۴:‏۸‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 5 سن ۱۹۲۸ میں یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ کتاب،‏ لیکن اب شائع نہیں ہوتی۔‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

سن ۱۹۴۶ میں اپنی والدہ کیساتھ

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

جوائس کے ساتھ ۱۹۵۰ میں اپنی شادی کے موقع پر

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

سن ۱۹۵۳ میں برسٹل میں ایک کنونشن پر

‏[‏صفحہ ۲۷ پر تصویر]‏

جنوبی روڈیشیا،‏ جس کا نام اب زمبابوے ہے وہاں ایک گروپ (‏اُوپر)‏ اور ایک کلیسیا (‏دائیں)‏ میں خدمت کرنا