مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اعمال کی بجائے فضل سے نجات پانا

اعمال کی بجائے فضل سے نجات پانا

اعمال کی بجائے فضل سے نجات پانا

‏”‏تم کو ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملی .‏ .‏ .‏ نہ اعمال کے سبب سے ہے تاکہ کوئی فخر نہ کرے۔‏“‏—‏افسیوں ۲:‏۸،‏ ۹‏۔‏

۱.‏ ذاتی کامیابیوں کے سلسلے میں مسیحی عام لوگوں سے کیسے فرق ہیں،‏ اور کیوں؟‏

آجکل لوگ اپنی ذاتی کامیابیوں پر بہت فخر کرتے اور ان کی بابت اکثر شیخی مارتے ہیں۔‏ لیکن مسیحی ان سے فرق ہیں۔‏ وہ اپنی ذاتی کامیابیوں اور سچی پرستش میں حاصل ہونے والی کامیابی کو بڑھاچڑھا کر بیان نہیں کرتے اور نہ ہی اپنے انفرادی کردار کو اہم خیال کرتے ہیں۔‏ وہ یہ جانتے ہیں کہ ذاتی کامیابیوں کی بجائے یہوواہ کی خدمت میں نیک نیت ہونا زیادہ ضروری ہے۔‏ کسی بھی شخص کو ہمیشہ کی زندگی کا انعام اس کی کسی ذاتی کامیابی کی بجائے صرف ایمان کے وسیلے خدا کے فضل کی بدولت ملے گا۔‏—‏لوقا ۱۷:‏۱۰؛‏ یوحنا ۳:‏۱۶‏۔‏

۲،‏ ۳.‏ پولس کس بات پر فخر کرتا ہے،‏ اور کیوں؟‏

۲ پولس رسول اس بات کی حقیقت سے اچھی طرح واقف تھا۔‏ جب اُس نے اپنے ”‏جسم میں کانٹے“‏ کی بابت تین بار التماس کِیا تو اُسے یہوواہ کی طرف سے یہ جواب ملا:‏ ”‏میرا فضل تیرے لئے کافی ہے کیونکہ میری قدرت کمزوری میں پوری ہوتی ہے۔‏“‏ پولس نے یہوواہ خدا کے فیصلے کو فروتنی سے تسلیم کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏مَیں بڑی خوشی سے اپنی کمزوری پر فخر کروں گا تاکہ مسیح کی قدرت مجھ پر چھائی رہے۔‏“‏ ہمیں بھی پولس جیسی فروتنی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۱۲:‏۷-‏۹‏۔‏

۳ اگرچہ پولس نے مسیحی کلیسیا میں بہت زیادہ کام کِیا تھا توبھی اُس نے تسلیم کِیا کہ اس کی کامیابیاں کسی خاص خوبی یا صلاحیت کی وجہ سے نہیں ہیں۔‏ اُس نے عاجزی کے ساتھ یہ بیان کِیا:‏ ”‏مجھ پر جو سب مُقدسوں میں چھوٹے سے چھوٹا ہوں یہ فضل ہوا کہ مَیں غیرقوموں کو مسیح کی بےقیاس دولت کی خوشخبری دوں۔‏“‏ (‏افسیوں ۳:‏۸‏)‏ یہاں پولس نہ تو شیخی بگھار رہا تھا اور نہ ہی خود کو حد سے زیادہ راستباز بنا رہا تھا۔‏ ”‏خدا مغروروں کا مقابلہ کرتا ہے مگر فروتنوں کو توفیق بخشتا ہے۔‏“‏ (‏یعقوب ۴:‏۶؛‏ ۱-‏پطرس ۵:‏۵‏)‏ کیا ہم بھی پولس رسول کے نمونے کی نقل کرتے ہوئے فروتنی کے ساتھ اپنے بہن‌بھائیوں کو خود سے بہتر خیال کرتے ہیں؟‏

دوسروں کو اپنے سے بہتر سمجھنا

۴.‏ بعض‌اوقات ہم دوسروں کو اپنے سے بہتر خیال کرنا کیوں مشکل پاتے ہیں؟‏

۴ پولس رسول مسیحیوں کو نصیحت کرتا ہے کہ ”‏تفرقے اور بیجا فخر کے باعث کچھ نہ کرو بلکہ فروتنی سے ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھے۔‏“‏ (‏فلپیوں ۲:‏۳‏)‏ ایسا کرنا خاص طور پر اُس وقت مشکل ہوتا ہے جب ہم کوئی اہم ذمہ‌داری رکھتے ہیں۔‏ نیز یہ اس لئے بھی مشکل ہے کیونکہ ہم ایک ایسی دُنیا میں رہتے ہیں جس میں مقابلہ‌بازی کی روح پائی جاتی ہے اور ہم اس سے کسی حد تک متاثر ہوتے ہیں۔‏ یہ بھی ممکن ہے کہ جب ہم بچے تھے تو ہمیں اپنے بہن‌بھائیوں اور ہم‌جماعتوں سے آگے نکلنے کی حوصلہ‌افزائی کی جاتی تھی۔‏ شاید سکول میں اچھے کھلاڑی یا لائق طالبعلم کے طور پر اعزاز حاصل کرنے کے لئے ہماری حوصلہ‌افزائی کی گئی ہو۔‏ بیشک،‏ مناسب کام کے لئے اچھی کارکردگی کی تعریف کی جانی چاہئے۔‏ لیکن مسیحی اپنی طرف غیرضروری توجہ دلانا نہیں چاہتے ہیں۔‏ وہ کام سے بھرپور فائدہ اُٹھانا اور اس سے دوسروں کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں۔‏ تاہم،‏ ہر وقت نمبر ون بننے کی کوشش میں رہنا خطرناک ہو سکتا ہے۔‏ کیسے؟‏

۵.‏ اگر مقابلہ‌بازی کی روح پر قابو نہ پایا جائے تو اس کا انجام کیا ہو سکتا ہے؟‏

۵ اگر مقابلہ‌بازی اور حسد کی روح پر قابو نہ پایا جائے تو کوئی شخص بےادب اور متکبر بن سکتا ہے۔‏ وہ دوسروں کی صلاحیتوں اور قابلیتوں پر حسد کر سکتا ہے۔‏ ایسا شخص خودسری سے کلیسیا میں نمایاں مقام حاصل کرنا چاہتا ہے جس کا وہ اہل نہیں ہوتا۔‏ ایسا شخص اپنے فعل کو درست ثابت کرنے کے لئے بڑبڑانا اور دوسروں پر نکتہ‌چینی کرنا شروع کر سکتا ہے۔‏ وہ اپنے بارے میں حد سے زیادہ فکرمند ہونے کے خطرے میں ہوتا ہے۔‏ تاہم،‏ مسیحیوں کو ایسے رُجحان سے گریز کرنا چاہئے۔‏—‏یعقوب ۳:‏۱۴-‏۱۶‏۔‏

۶.‏ بائبل مقابلہ‌بازی کی روح کے خلاف کیسے آگاہ کرتی ہے؟‏

۶ بائبل مسیحیوں کو تاکید کرتی ہے:‏ ”‏ہم بیجا فخر کرکے نہ ایک دوسرے کو چڑائیں“‏ یعنی مقابلہ‌بازی پر ”‏نہ اُتر آئیں نہ ایک دوسرے سے جلیں۔‏“‏ (‏گلتیوں ۵:‏۲۶‏)‏ یوحنا رسول ایک ایسے مسیحی ساتھی کی بابت بیان کرتا ہے جو اسی قسم کے رُجحان کا شکار ہو گیا تھا۔‏ ”‏مَیں نے کلیسیا کو کچھ لکھا تھا مگر دیترفیسؔ جو اُن میں بڑا بننا چاہتا ہے ہمیں قبول نہیں کرتا۔‏ پس جب میں آؤں گا تو اُس کے کاموں کو جو وہ کر رہا ہے یاد دلاؤں گا کہ ہمارے حق میں بُری باتیں بکتا ہے۔‏“‏ مسیحیوں میں ایسی حالت کا واقع ہونا کتنی افسوسناک بات ہے!‏—‏۳-‏یوحنا ۹،‏ ۱۰‏۔‏

۷.‏ ایک مسیحی جائےملازمت پر مقابلہ‌بازی سے بچنے کے لئے کیا کرے گا؟‏

۷ مقابلہ‌بازی کے ہر طرح کے کام سے مکمل طور پر بچنا ایک مسیحی کے لئے مشکل ہو سکتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ کسی شخص کی ملازمت میں ایک جیسی چیزیں بنانے یا کام کرنے میں دوسرے اشخاص سے یا کاروبار میں آگے نکلنے کی مقابلہ‌بازی ہو سکتی ہے۔‏ ایسی صورتحال میں بھی ایک مسیحی اپنے کاروبار میں دوسروں کے لئے عزت،‏ محبت اور ہمدردی کا مظاہرہ کرے گا۔‏ وہ غیرقانونی اور غیرمسیحی پیشے کو ردّ کرے گا۔‏ وہ ایک مقابلہ‌باز شخص کے طور پر مشہور نہیں ہوگا۔‏ وہ یہ نہیں سوچے گا کہ نمبر ون بننا اس کی زندگی میں سب سے اہم ہے۔‏ اگر ایک مسیحی کو دُنیاوی کاموں میں مقابلہ‌بازی کی روح سے بچنے کی ضرورت ہے تو پھر روحانی معاملات میں مقابلہ‌بازی سے بچنا تو اَور بھی زیادہ ضروری ہے!‏

دوسرے شخص کے ساتھ مقابلہ نہ کریں

۸،‏ ۹.‏ (‏ا)‏ کلیسیا کے بزرگوں کے درمیان مقابلہ کرنے کی کیوں کوئی وجہ نہیں ہے؟‏ (‏ب)‏ پہلا پطرس ۴:‏۱۰ کا اطلاق خدا کے تمام خادموں پر کیوں ہوتا ہے؟‏

۸ مسیحیوں کو اپنی پرستش کے سلسلے میں ان الہامی الفاظ جیسا رُجحان رکھنا چاہئیں:‏ ”‏ہر شخص اپنے ہی کام کو آزما لے اس صورت میں اُسے اپنی ہی بابت فخر کرنے کا موقع ہوگا نہ کہ دوسرے کی بابت۔‏“‏ (‏گلتیوں ۶:‏۴‏)‏ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں دوسرے شخص کے ساتھ مقابلہ نہیں کرنا چاہئے۔‏ کلیسیائی بزرگ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ان کا ایک دوسرے سے کوئی مقابلہ نہیں ہو رہا ہے۔‏ لہٰذا وہ ایک جماعت کے طور پر ملکر کام کرتے ہیں۔‏ وہ اس بات سے خوش ہیں کہ وہ کلیسیا کی بھلائی کے لئے کچھ کر سکتے ہیں۔‏ ایسا کرنے سے وہ مقابلہ‌بازی سے بچتے ہیں کیونکہ اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔‏ وہ کلیسیا کے لئے اتحاد کا اچھا نمونہ قائم کرتے ہیں۔‏

۹ بعض بزرگ عمر،‏ تجربے،‏ یا قدرتی صلاحیتوں کی وجہ سے زیادہ ذہین ہو سکتے ہیں۔‏ ان کے پاس زیادہ بصیرت ہو سکتی ہے۔‏ اسی وجہ سے یہوواہ کی تنظیم میں بزرگوں کو مختلف ذمہ‌داریاں سونپی جاتی ہیں۔‏ دوسروں کے ساتھ اپنا مقابلہ کرنے کی بجائے وہ اس مشورت کو ذہن میں رکھتے ہیں:‏ ”‏جن کو جس جس قدر نعمت ملی ہے وہ اُسے خدا کی مختلف نعمتوں کے اچھے مختاروں کی طرح ایک دوسرے کی خدمت میں صرف کریں۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۴:‏۱۰‏)‏ دراصل،‏ ان الفاظ کا اطلاق خدا کے تمام خادموں پر ہوتا ہے کیونکہ ہم سب کو بائبل کے درست علم کی نعمت ملی ہے اور ہم سب کو مُنادی کرنے کا شرف حاصل ہے۔‏

۱۰.‏ ہماری پاک خدمت صرف کس صورت میں یہوواہ خدا کو خوشی بخش سکتی ہے؟‏

۱۰ ہماری پاک خدمت صرف اُسی صورت میں یہوواہ کو خوشی بخشتی ہے جب یہ محبت اور عقیدت سے کی جاتی ہے نہ کہ خود کو دوسروں سے نمایاں بنانے کے لئے کی جائے۔‏ ہمیں سچی پرستش کے فروغ میں اپنے کردار کی بابت متوازن نظریہ رکھنے کی ضرورت ہے۔‏ کوئی بھی شخص دوسروں کی نیت کو درست طور پر نہیں جان سکتا۔‏ صرف یہوواہ ہی ”‏دلوں کو جانچتا“‏ ہے۔‏ (‏امثال ۲۴:‏۱۲؛‏ ۱-‏سموئیل ۱۶:‏۷‏)‏ لہٰذا ہمیں وقتاًفوقتاً خود سے یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ میں کس نیت سے یہوواہ خدا کی خدمت کر رہا ہوں؟‏—‏زبور ۲۴:‏۳،‏ ۴؛‏ متی ۵:‏۸‏۔‏

خدائی کاموں کی بابت درست نقطۂ‌نظر

۱۱.‏ منادی کی بابت کن سوالات پر غور کرنا مناسب ہے؟‏

۱۱ اگر یہوواہ خدا کو خوش کرنے کے لئے نیت کا درست ہونا ضروری ہے تو پھر ہمیں اپنے خدائی کاموں کی بابت کس قدر فکرمند ہونا چاہئے؟‏ اگر ہم درست نیت کے ساتھ منادی کرتے ہیں تو کیا یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی منادی کا حساب رکھیں کہ آیا ہم کتنے گھنٹے منادی کرتے اور کتنے رسالے پیش کرتے ہیں؟‏ یہ مناسب سوال ہیں۔‏ ہم اس بات سے فکرمند نہیں ہوتے کہ ہم منادی میں کتنے گھنٹے ڈالتے اور کتنے رسالے تقسیم کرتے ہیں۔‏ اہم بات یہ ہے کہ ہم کس نیت سے منادی کرتے ہیں۔‏ کیا ہم پورے دل‌وجان سے خدمت کرتے ہیں؟‏ اگر ایسا ہے تو یہوواہ کے گواہ منادی کی رپورٹ کیوں ڈالتے ہیں؟‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ (‏ا)‏ ہم کن وجوہات کی بِنا پر اپنی منادی کی رپورٹ کا ریکارڈ رکھتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ جب ہم پوری دُنیا کی منادی کی رپورٹ کو دیکھتے ہیں تو ہمارے پاس خوش ہونے کی کونسی وجوہات ہیں؟‏

۱۲ غور کریں کہ اس کی بابت تنظیم کے بارے میں بیان کرنے والی ہماری نئی کتاب کیا کہتی ہے:‏ ”‏یسوع مسیح کے ابتدائی شاگرد مُنادی کے کام میں ترقی کی بابت رپورٹیں بیان کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔‏ (‏مرقس ۶:‏۳۰‏)‏ اعمال کی کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ عیدِپنتکست پر ۱۲۰ شاگرد پر رُوح‌اُلقدس نازل ہوتی ہے۔‏ جلد ہی شاگردوں کی تعداد میں پہلے ۰۰۰،‏۳ اور پھر ۰۰۰،‏۵ کا اضافہ ہو جاتا ہے۔‏ (‏اعمال ۱:‏۱۵؛‏ ۲:‏۵-‏۱۱،‏ ۴۱،‏ ۴۷؛‏ ۴:‏۴؛‏ ۶:‏۷‏)‏ ترقی کی ایسی خبروں نے شاگردوں کو بہت زیادہ حوصلہ‌افزائی دی ہوگی!‏“‏ اسی طرح آجکل یہوواہ کے گواہ بھی یسوع مسیح کے ان الفاظ کی تکمیل میں ہونے والی عالمی ترقی کی رپورٹوں کے درست اعدادوشمار کا ریکارڈ رکھتے ہیں کہ ”‏بادشاہی کی اِس خوشخبری کی منادی تمام دُنیا میں ہوگی تاکہ سب قوموں کے لئے گواہی ہو۔‏ تب خاتمہ ہوگا۔‏“‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴‏)‏ ایسی رپورٹیں عالمی ترقی کی صحیح تصویر پیش کرتی ہیں۔‏ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ منادی کے کام کو بڑھانے میں مدد کی کہاں ضرورت ہے اور کس قِسم کے اور کتنی تعداد میں لٹریچر کی ضرورت ہے۔‏

۱۳ پس،‏ منادی کی رپورٹ ڈالنا بادشاہت کی خوشخبری کی منادی کرنے کی ہماری ذمہ‌داری کو زیادہ مؤثر طریقے سے پورا کرنے کے قابل بناتا ہے۔‏ اس کے علاوہ،‏ جب ہم دُنیا کے دوسرے ملکوں میں رہنے والے اپنے بھائیوں کے کام کی بابت سنتے ہیں تو کیا اس سے ہماری حوصلہ‌افزائی نہیں ہوتی؟‏ پوری دُنیا میں ہونے والی ترقی کی خبریں ہمیں خوشی سے بھر دیتی،‏ سرگرم ہونے کی تحریک دیتی اور یہوواہ خدا کی برکت کا یقین دلاتی ہے۔‏ اس سے ہمیں کتنی خوشی ملتی ہے کہ اس عالمگیر رپورٹ میں ہماری ذاتی رپورٹ بھی شامل ہے!‏ اگرچہ کُل رپورٹ میں ہمارا حصہ تو بہت کم ہوتا ہے توبھی یہوواہ اس کی بہت قدر کرتا ہے۔‏ (‏مرقس ۱۲:‏۴۲،‏ ۴۳‏)‏ اس بات کو یاد رکھیں کہ آپ کی رپورٹ کے بغیر مجموعی رپورٹ نامکمل ہوتی ہے۔‏

۱۴.‏ یہوواہ خدا کی پرستش میں منادی کرنے اور سکھانے کے کام کے علاوہ اَور کیا کچھ شامل ہے؟‏

۱۴ بیشک،‏ یہوواہ کے ایک مخصوص‌شُدہ خادم کے طور پر ہر گواہ اپنی ذمہ‌داری کو پورا کرنے کے لئے جتنا کام کرتا ہے وہ رپورٹ میں تو نظر نہیں آتا۔‏ مثال کے طور پر،‏ اس رپورٹ میں باقاعدہ ذاتی مطالعہ،‏ مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہونا اور جواب دینا،‏ کلیسیا میں مختلف کام کرنا اور ضرورت کے وقت ساتھی مسیحیوں کے کام آنا،‏ عالمگیر بادشاہتی کام کے لئے مالی مدد دینا شامل نہیں ہے۔‏ ہماری منادی کی رپورٹ بہت اہم ہے کیونکہ یہ ہمیں منادی میں اپنے جوش کو برقرار رکھنے اور سُست پڑنے کے رُجحان کو ردّ کرنے میں بھی مدد دیتی ہے۔‏ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ہم اس کی بابت مناسب نقطۂ‌نظر رکھیں۔‏ ہمیں منادی کی رپورٹ کو ہمیشہ کی زندگی کے لائق ٹھہرانے والا اجازت‌نامہ خیال نہیں کرنا چاہئے۔‏

‏”‏نیک کاموں میں سرگرم“‏

۱۵.‏ اگرچہ نیک کاموں سے ہمیں نجات نہیں مل سکتی توبھی یہ کیوں ضروری ہیں؟‏

۱۵ اگرچہ یہ سچ ہے کہ ہمیں صرف نیک کاموں سے نجات نہیں مل سکتی توبھی یہ بہت ضروری ہیں۔‏ اس لئے مسیحیوں کو ”‏ایک ایسی اُمت“‏ کہا گیا ہے ”‏جو نیک کاموں میں سرگرم“‏ ہے۔‏ اسی وجہ سے اُن کی حوصلہ‌افزائی کی جاتی ہے کہ وہ ”‏محبت اور نیک کاموں کی ترغیب دینے کے لئے ایک دوسرے کا لحاظ رکھیں۔‏“‏ (‏ططس ۲:‏۱۴؛‏ عبرانیوں ۱۰:‏۲۴‏)‏ یعقوب رسول اپنے خط میں اس نکتے پر مزید زور دیتا ہے کہ ”‏جیسے بدن بغیر روح کے مُردہ ہے ویسے ہی ایمان بھی بغیر اعمال کے مُردہ ہے۔‏“‏—‏یعقوب ۲:‏۲۶‏۔‏

۱۶.‏ کونسی چیز نیک کاموں سے بھی زیادہ اہم ہے اور ہمیں کس بات کے لئے خبردار رہنا چاہئے؟‏

۱۶ نیک کام اہم ہو سکتے ہیں توبھی جس نیت کے ساتھ کئے جاتے ہیں وہ بہت اہم ہے۔‏ یہ اچھی با ت ہے کہ ہم وقتاًفوقتاً اپنے دلی ارادوں کا جائزہ لیتے رہیں۔‏ چونکہ کوئی بھی شخص کسی دوسرے انسان کی نیت کو درست طور پر نہیں جان سکتا لہٰذا ہمیں دوسروں پر شک کرنے سے خبردار رہنا چاہئے۔‏ ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے:‏ ”‏تُو کون ہے جو دوسرے کے نوکر پر الزام لگاتا ہے؟‏“‏ جواب بالکل واضح ہے:‏ ”‏اُس کا قائم رہنا یا گِر پڑنا اُس کے مالک ہی سے متعلق ہے۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۴‏)‏ سب کا مالک یہوواہ خدا اور اُس کا مقررکردہ منصف یسوع مسیح ہماری عدالت کریں گے۔‏ وہ ہمارے نیک کاموں کی بجائے ہماری نیت،‏ ہمارے وسائل،‏ ہماری محبت اور عقیدت کی بنیاد پر ایسا کرتے ہیں۔‏ پولس رسول بیان کرتا ہے:‏ ”‏اپنے آپ کو خدا کے سامنے مقبول اور ایسے کام کرنے والے کی طرح پیش کرنے کی کوشش کر جس کو شرمندہ ہونا نہ پڑے اور جو حق کے کلام کو دُرستی سے کام میں لاتا ہو۔‏“‏ اس صحیفے کے مطابق خدا ہم سے پوری کوشش کا تقاضا کرتا ہے۔‏ تاہم،‏ اس بات کا بالکل درست فیصلہ صرف یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کر سکتے ہیں کہ آیا کوئی مسیحی اپنی پوری کوشش کر رہا ہے یا نہیں۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۱۵؛‏ ۲-‏پطرس ۱:‏۱۰؛‏ ۳:‏۱۴‏۔‏

۱۷.‏ جب ہم کوئی کام کرنے کے لئے اپنی پوری کوشش کرتے ہیں تو ہمیں یعقوب ۳:‏۱۷ کو کیوں یاد رکھنا چاہئے؟‏

۱۷ یہوواہ خدا ہم سے جس بات کی توقع کرتا ہے اُس میں وہ معقول ہے۔‏ یعقوب ۳:‏۱۷ کے مطابق ”‏جو حکمت اُوپر سے آتی ہے،‏“‏ وہ ”‏ حلیم“‏ یعنی معقول ہے۔‏ جب ہم اس بات میں یہوواہ کی نقل کرتے ہیں تو کیا یہ دانشمندی اور حقیقی کامیابی نہیں ہے؟‏ پس،‏ ہمیں اپنے آپ سے اور بھائیوں سے ایسی توقعات نہیں کرنی چاہئیں جن پر ہم یا ہمارے بھائی پورے نہ اُتر سکیں۔‏

۱۸.‏ جب ہم اپنے خدائی کاموں اور یہوواہ خدا کے فضل کے درمیان متوازن نقطۂ‌نظر قائم کر لیتے ہیں تو ہم کس بات کی اُمید رکھ سکتے ہیں؟‏

۱۸ جب ہم اپنے خدائی کاموں اور یہوواہ خدا کے فضل کے درمیان متوازن نقطۂ‌نظر قائم کر لیتے ہیں تو ہم خوش رہ سکتے ہیں جو یہوواہ خدا کے سچے خادموں کا امتیازی نشان ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۶۵:‏۱۳،‏ ۱۴‏)‏ اس بات سے قطع‌نظر کہ ہم انفرادی طور پر کتنی کوشش کرنے کے قابل ہیں ہم اس بات سے خوش ہو سکتے ہیں کہ یہوواہ اپنے لوگوں کو اجتماعی طور پر برکات عطا کر رہا ہے۔‏ ہم خدا سے شکرگزاری کے ساتھ دُعا اور منت کرتے ہوئے التماس کریں گے کہ وہ پوری کوشش کرنے میں ہماری مدد کرے۔‏ ایسا کرنے سے یقیناً ”‏خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے [‏ہمارے]‏ دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوؔع میں محفوظ رکھے گا۔‏“‏ (‏فلپیوں ۴:‏۴-‏۷‏)‏ جی‌ہاں،‏ اس بات کا علم ہمیں تسلی اور حوصلہ بخشتا ہے کہ ہمیں نیک کاموں کی بجائے یہوواہ خدا کے فضل سے نجات حاصل ہوتی ہے!‏

آپ کیسے وضاحت کریں گے؟‏

‏• مسیحیوں کو اپنی ذاتی کامیابیوں پر کیوں فخر نہیں کرنا چاہئے؟‏

‏• مسیحیوں کو مقابلہ‌بازی کی روح سے کیوں گریز کرنا چاہئے؟‏

‏• مسیحی منادی کی رپورٹ کیوں ڈالتے ہیں؟‏

‏• مسیحی اپنے ہم‌ایمانوں کی نیت پر شک کرنے سے کیوں گریز کرتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

‏”‏میرا فضل تیرے لئے کافی ہے“‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویریں]‏

کلیسیائی ترقی میں ہر ایک کے کردار سے بزرگ خوش ہوتے ہیں

‏[‏صفحہ ۱۹ پر تصویریں]‏

آپ کی رپورٹ کے بغیر مجموعی رپورٹ نامکمل ہے