شوہر اور بیوی میں پیدا ہونے والی نااتفاقیاں
شوہر اور بیوی میں پیدا ہونے والی نااتفاقیاں
کوئی بھی شوہر یا بیوی آپس میں لڑنےجھگڑنے سے خوش نہیں ہوتے۔ لیکن پھربھی میاںبیوی کا لڑناجھگڑنا عام بات ہے۔ عموماً، ایک ساتھی کوئی ایسی بات کہہ دیتا ہے جو دوسرے کو بُری لگتی ہے۔ دونوں شدید غصے میں آکر ایک دوسرے پر برسنے لگتے ہیں۔ وہ جذباتی ہوکر ایک دوسرے پر فقرے کستے ہیں۔ اس کے بعد خاموشی چھا جاتی ہے دونوں ہٹدھرمی سے ایک دوسرے سے باتچیت نہیں کرتے۔ جب غصہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو دونوں ایک دوسرے سے معافی مانگ لیتے ہیں۔ پھر دونوں میں صلح ہو جاتی ہے جب تک کہ اگلا جھگڑا شروع نہیں ہوتا۔
بیشتر لطیفوں میں میاںبیوی کے جھگڑے نمایاں ہوتے ہیں۔ حتیٰکہ ٹیوی پروگراموں میں شوہر اور بیوی کی نااتفاقیاں کہانی کا موضوع ہوتی ہیں۔ لیکن ان لطیفوں اور ڈراموں سے کوئی خوشی نہیں ملتی۔ بائبل کی ایک مثل کہتی ہے: ”بےتامل بولنے والے کی باتیں تلوار کی طرح چھیدتی ہیں۔“ (امثال ۱۲:۱۸) جیہاں، تلخکلامی ایسے جذباتی زخم لگاتی ہے جو جھگڑا ختم ہونے کے بعد بھی نہیں بھرتے۔ بعضاوقات تکرار لڑائیجھگڑوں کی صورت اختیار کر سکتی ہیں۔—خروج ۲۱:۱۸۔
بِلاشُبہ انسان خطا کا پتلا ہے اور شادیشُدہ زندگی میں ایسی باتیں ہونا یقینی ہے۔ (پیدایش ۳:۱۶؛ ۱-کرنتھیوں ۷:۲۸) تاہم، باربار ہونے والے شدید جھگڑوں کو عام بات سمجھ کر نظرانداز نہیں کِیا جانا چاہئے۔ ماہرین کے مطابق باربار ہونے والے جھگڑے بالآخر طلاق کا باعث بنتے ہیں۔ اس لئے بیاہتا جوڑوں کو ایسی نااتفاقیوں کو پُرامن طریقے سے حل کرنا سیکھنا چاہئے۔
صورتحال کا جائزہ لینا
اگر آپ کی شادیشُدہ زندگی میں باربار جھگڑے ہوتے ہیں تو اس کی وجہ جاننے کی کوشش کریں۔ اُس وقت عموماً کیا واقع ہوتا ہے جب آپ اور آپ کا بیاہتا ساتھی کسی معاملے پر متفق نہیں ہیں؟ کیا صورتحال قابو سے باہر ہوکر بےعزتی اور الزامتراشی کی صورت اختیار کر لیتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟
سب سے پہلے تو اس بات کا جائزہ لیں کہ اس معاملے میں آپ کا کیا کردار ہے؟ کیا آپ فوراً غصے میں آ جاتے ہیں؟ کیا آپ بحثوتکرار کرنے والے ہیں؟ آپ کا بیاہتا ساتھی اس سلسلے میں آپ کی بابت کیا کہتا ہے؟ آخری سوال پر غور کرنا موزوں ہوگا کیونکہ آپ اور آپ کا ساتھی بحثوتکرار کے سلسلے میں مختلف نظریات رکھ سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر، فرض کریں کہ آپ کا بیاہتا ساتھی کمگو ہے جبکہ آپ بِلاجھجک اپنے جذبات کا اظہار کر دیتے ہیں۔ آپ شاید کہیں: ”مَیں نے جس خاندان میں پرورش پائی ہے وہاں سب اسی طرح بات کرتے تھے۔ اسے بحث نہیں کہا جا سکتا!“ ممکن ہے آپ اسے بحثوتکرار نہ سمجھتے ہوں۔ لیکن آپ کے ساتھی کو اس سے دُکھ پہنچتا ہے اور وہ اسے بحث خیال کرتا ہے۔ آپ اور آپ کے ساتھی کا باتچیت کرنے کا انداز مختلف ہے۔ یہ بات جاننا آپ کو غلطفہمیوں سے بچا سکتا ہے۔
یہ بھی یاد رکھیں کہ بحثوتکرار میں ہمیشہ چیخناچلانا ہی شامل نہیں ہوتا۔ پولس رسول نے مسیحیوں کو لکھا: ”ہر طرح . . . [کا] شوروغل اور بدگوئی . . . تُم سے دُور کی جائیں۔“ (افسیوں ۴:۳۱) ”شوروغل“ میں اُونچی آواز میں باتچیت کرنا جبکہ ”بدگوئی“ میں کہی جانے والی باتیں شامل ہیں۔ اس بات پر غور کیجئے کہ اگر ہماری باتیں غصہ دلاتی یا کسی کی حقارت کرتی ہیں تو آہستہ بولنے کے باوجود تکرار کا باعث بنتی ہیں۔
مذکورہبالا مشورت کو یاد رکھتے ہوئے اس بات کا دوبارہ جائزہ لیں کہ کیا آپ بحثوتکرار کرنے والے ہیں؟ جیسےکہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ اس سوال کا جواب بڑی حد تک آپ کے ساتھی کے نقطۂنظر پر منحصر ہے۔ یہ سوچ کر اپنے ساتھی کے نقطۂنظر کو نظرانداز نہ کریں کہ وہ تو حد سے زیادہ حساس ہے۔ خود کو اس کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں اور ضروری تبدیلیاں لائیں۔ پولس رسول نے لکھا: ”کوئی اپنی بہتری نہ ڈھونڈے بلکہ دوسرے کی۔“—ا-کرنتھیوں ۱۰:۲۴۔
”خبردار رہو کہ تم کس طرح سنتے ہو“
یسوع مسیح کے الفاظ نااتفاقیوں کو حل کرنے کے ایک دوسرے طریقے کی نشاندہی کرتے ہیں: ”خبردار رہو کہ تُم کس طرح سنتے ہو۔“ (لوقا ۸:۱۸) یہ بات سچ ہے کہ یسوع مسیح شادی میں رابطے کی بابت بات نہیں کر رہا تھا۔ لیکن اس اصول کا اطلاق بیاہتا زندگی میں بھی کِیا جا سکتا ہے۔ آپ اپنے ساتھی کی بات کو کتنی اچھی طرح سنتے ہیں؟ کیا آپ اس کی پوری بات سنتے ہیں؟ یا کیا آپ مسئلے کو پوری طرح سمجھے بغیر اس کا کوئی نامناسب حل پیش کرتے ہیں؟ بائبل بیان کرتی ہے: ”جو بات سننے سے پہلے اُس کا جواب دے یہ اُس کی حماقت اور خجالت ہے۔“ (امثال ۱۸:۱۳) جب نااتفاقی پیدا ہو جاتی ہے تو آپ اور آپ کے ساتھی کو مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایک دوسرے کی بات سننی چاہئے۔
اپنے ساتھی کے نقطۂنظر کو کم اہم خیال کرنے کی بجائے ہمدردی دکھائیں۔ (ا-پطرس ۳:۸) اصلی یونانی متن میں اس اصطلاح کا مطلب دوسرے شخص کے دُکھ میں شامل ہونا ہے۔ اگر آپ کا ساتھی کسی وجہ سے پریشان ہے تو آپ بھی اس کے ساتھ پریشان ہوں۔ معاملے کو اس کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں۔
بدیہی طور پر خداپرست شخص اضحاق نے ایسا ہی کِیا تھا۔ بائبل بیان کرتی ہے کہ اس کی بیوی ربقہ اپنے بیٹے یعقوب کے سلسلے میں بہت پریشان تھی۔ اس نے اضحاق سے کہا: ”مَیں حتی لڑکیوں کے سبب سے اپنی زندگی سے تنگ ہوں۔ سو اگر یعقوؔب حتی لڑکیوں میں سے جیسی اِس مُلک کی لڑکیاں ہیں کسی سے بیاہ کر لے تو میری زندگی میں کیا لطف رہے گا؟“—پیدایش ۲۷:۴۶۔
یہ سچ ہے کہ ربقہ نے معاملے کو بڑھاچڑھا کر پیش کِیا۔ کیا واقعی وہ اپنی زندگی سے نفرت کرتی تھی؟ اگر اس کا بیٹا حتی لڑکیوں سے شادی کرے گا تو کیا وہ واقعی موت کو ترجیح دے گی؟ یقیناً نہیں۔ تاہم، اضحاق نے ربقہ کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچائی تھی۔ جب اُس نے دیکھا کہ ربقہ کی بات صحیح ہے تو اُس نے اس کے مطابق عمل کِیا۔ (پیدایش ۲۸:۱) جب آپ کا ساتھی پریشان ہے تو آپ بھی ایسا ہی کر سکتے ہیں۔ اس کی بات کو کم اہم خیال کرنے کی بجائے اس کی بات کو سنیں، اس کے نقطۂنظر کی قدر کریں اور ہمدردی دکھائیں۔
غور سے سنیں اور سمجھداری دکھائیں
ایک بائبل مثل کہتی ہے: ”آدمی کی تمیز اُس کو قہر کرنے میں دھیما بناتی ہے۔“ (امثال ۱۹:۱۱) نااتفاقی کی صورت میں بیاہتا ساتھی کی کسی طنزیہ بات پر فوری ردِعمل کی توقع کی جا سکتی ہے۔ عام طور پر، اس سے بحث میں اضافہ ہوتا ہے۔ تاہم، اپنے ساتھی کی بات کو سنتے وقت اس کے پیچھے چھپے جذبات کو محسوس کرنے کو اپنی عادت بنائیں۔ ایسی سمجھداری جھنجلاہٹ پر قابو پانے اور مسئلے کی جڑ تک پہنچنے میں آپ کی مدد کرے گی۔
مثال کے طور پر، اگر آپ کی بیوی کہتی ہے، ”آپ مجھے بالکل وقت نہیں دیتے ہیں!“ آپ فوراً غصے میں آ سکتے اور اس الزام سے انکار کر سکتے ہیں۔ آپ شاید یہ کہیں، ”مَیں نے پچھلے مہینے پورا دن تمہارے ساتھ گزارا تھا!“ لیکن اگر آپ غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کی بیوی آپ سے زیادہ وقت نہیں مانگ رہی۔ شاید وہ یہ محسوس کرتی ہے کہ آپ اسے نظرانداز کرتے اور اس سے محبت نہیں کرتے ہیں۔
فرض کریں کہ آپ ایک بیوی ہیں اور آپ کا شوہر آپ کی حالیہ خریداری کی بابت تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ وہ شک کے انداز میں کہتا ہے، ”تم نے اتنا زیادہ پیسہ کہاں خرچ کِیا ہے؟“ بیوی شاید خاندانی اخراجات یا خریدی ہوئی کسی چیز کا حوالہ دیتے ہوئے اپنا دفاع کریں۔ تاہم، سمجھداری آپ کو اس بات کو سمجھنے میں مدد کرے گی کہ آپ کا شوہر اخراجات کی بات نہیں کر رہا۔ شاید وہ اس لئے پریشان ہے کہ خریداری کے لئے اس سے مشورہ نہیں لیا گیا تھا۔
بِلاشُبہ ہر جوڑے کا اکٹھے وقت گزارنے یا خریداری سے متعلق فیصلوں پر باتچیت کرنے کا طریقہ مختلف ہوتا ہے۔ تاہم اہم بات یہ ہے کہ نااتفاقی پیدا ہونے کی صورت میں سمجھداری غصے کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ معاملے کو سمجھنے میں بھی ہماری مدد کرے گی۔ بغیر سوچے سمجھے عمل کرنے کی بجائے یعقوب کی آگاہی پر دھیان دیتے ہوئے ”سننے میں تیز اور بولنے میں دھیرا اور قہر کرنے میں دھیما“ بنیں۔—یعقوب ۱:۱۹۔
یاد رکھیں کہ آپ کا اپنے ساتھی سے باتچیت کرنے کا انداز بہت اہم ہے۔ بائبل بیان کرتی ہے: ”دانشمند کی زبان صحتبخش ہے۔“ (امثال ۱۲:۱۸) جب آپ اور آپ کے ساتھی میں نااتفاقی پیدا ہو جاتی ہے تو کیا آپ کے الفاظ دُکھ پہنچاتے ہیں یا یہ نااتفاقی کو ختم کرتے ہیں؟ کیا یہ باتچیت کرنے کے لئے راہ ہموار کرتے ہیں یا رکاوٹ بنتے ہیں؟ جیساکہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں غصہ اور نامناسب ردِعمل نااتفاقیوں کو اَور زیادہ بڑھا دیتے ہیں۔—امثال ۲۹:۲۲۔
اگر نااتفاقی بڑھ کر بحثوتکرار کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو مسئلے کو حل کرنے کی اَور زیادہ کوشش کریں۔ نااتفاقی کی وجہ جاننے کی کوشش کیا صحیح ہے نہ کہ کون صحیح کہہ رہا ہے۔ اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ آپ کے الفاظ بحثوتکرار کو اَور زیادہ نہ بڑھا دیں۔ بائبل بیان کرتی ہے: ”کرخت باتیں غضبانگیز ہیں۔“ (امثال ۱۵:۱) جیہاں، آپ کے الفاظ اور کہنے کا انداز اس بات کا تعیّن کریں گے کہ آیا آپ اپنے ساتھی کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔
کریں۔ اس بات پر غور کریں کہبحثوتکرار جیتنے کی بجائے مسئلہ حل کرنا
نااتفاقیوں سے نپٹتے وقت ہمارا مقصد بحث جیتنے کی بجائے اسے ختم کرنا ہے۔ آپ مسئلے کو کیسے حل کر سکتے ہیں؟ اس کا یقینی راستہ بائبل مشورت کا اطلاق کرنا ہے۔ خاص طور پر شوہروں کو اس سلسلے میں پہل کرنی چاہئے۔ مشکلات اور مسائل پر شدید ردِعمل ظاہر کرنے کی بجائے کیوں نہ معاملے کو یہوواہ کی نظر سے دیکھیں۔ اُس سے دُعا کریں اور اُس کے اطمینان کی تلاش کریں جو آپ کے دلوں اور خیالوں کو محفوظ رکھے گا۔ (افسیوں ۶:۱۸؛ فلپیوں ۴:۶، ۷) نہ صرف اپنے بلکہ اپنے ساتھی کے احوال پر نظر رکھنے کے لئے سنجیدہ کوشش کریں۔—فلپیوں ۲:۴۔
جب مجروح احساسات اور بےقابو جذبات ہماری سوچ اور کاموں پر حاوی ہوتے ہیں تب یہ خراب صورتحال کو مزید خراب کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف، خدا کے کلام کی مشورت میلملاپ رکھنے، یکدل رہنے اور یہوواہ کی برکت حاصل کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۱۳:۱۱) اس لئے، ”جو حکمت اُوپر سے آتی ہے“ اس کی راہنمائی میں خدائی خوبیاں پیدا کریں اور ”صلح کرانے والوں“ کے طور پر اس کے فوائد حاصل کریں۔—یعقوب ۳:۱۷، ۱۸۔
واقعی، سب کو نااتفاقیوں سے پُرامن طریقے سے نپٹنا چاہئے خواہ اپنی ذاتی ترجیحات کی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ (ا-کرنتھیوں ۶:۷) بِلاشُبہ پولس کی مشورت پر عمل کرتے ہوئے ”غصہ اور قہر اور بدخواہی اور بدگوئی اور مُنہ سے گالی بکنا چھوڑ دو۔ . . . کیونکہ تُم نے پُرانی انسانیت کو اُس کے کاموں سمیت اُتار ڈالا۔ اور نئی انسانیت کو پہن لیا ہے۔“—کلسیوں ۳:۸-۱۰۔
بعضاوقات، آپ کچھ ایسی باتیں کہہ دیں گے جن پر آپ کو پچھتانا پڑ سکتا ہے۔ (یعقوب ۳:۸) ایسی صورتحال میں اپنے ساتھی سے معافی مانگیں۔ کوشش جاری رکھیں۔ وقت آنے پر آپ اور آپ کا ساتھی اس بات کو سمجھ جائیں گے کہ نااتفاقیوں کے ساتھ کامیابی سے کیسے نپٹا جا سکتا ہے۔
[صفحہ ۲۲ پر بکس/تصویر]
نااتفاقیوں کو کم کرنے کے تین اقدام
• اپنے ساتھی کی بات سنیں۔ امثال ۱۰:۱۹
• اُس کے نقطۂنظر کی قدر کریں۔ فلپیوں ۲:۴
• پُرمحبت ردِعمل دکھائیں۔ ۱-کرنتھیوں ۱۳:۴-۷
[صفحہ ۲۳ پر بکس/تصویر]
آپ اِس وقت کیا کر سکتے ہیں
اپنے بیاہتا ساتھی سے مندرجہذیل سوالات پوچھیں اور اس کے جواب کو غور سے سنیں۔ آپ کا ساتھی بھی ایسا ہی کرے۔
• کیا مَیں بحثوتکرار کرنے والا/والی ہوں؟
• جب خیالات کا اظہار کِیا جاتا ہے تو کیا مَیں غور سے سنتا/سنتی ہوں یا کیا مَیں آپ کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی بول پڑتا/پڑتی ہوں؟
• کیا میرے الفاظ آپ کو غصہ دلاتے ہیں؟
• ہم دونوں اپنے رابطے کو بہتر بنانے کے لئے کیا کر سکتے ہیں خاص طور پر اُس وقت جب کسی معاملے پر نااتفاقی ہو جاتی ہے؟
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
کیا آپ سنتے ہیں؟
[صفحہ ۲۲ پر تصویر]
”مجھے لگتا ہے کہ اُسے میری کوئی پرواہ نہیں“
[صفحہ ۲۲ پر تصویر]
”آپ مجھے بالکل وقت نہیں دیتے!“
[صفحہ ۲۲ پر تصویر]
”مَیں نے پچھلے مہینے تمہارے ساتھ پورا دن گزارا تھا!“