مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اٹلی میں جوش‌وخروش سے خوشخبری سنائی جا رہی ہے

اٹلی میں جوش‌وخروش سے خوشخبری سنائی جا رہی ہے

اٹلی میں جوش‌وخروش سے خوشخبری سنائی جا رہی ہے

اٹلی کے جزیرہ‌نما ملک کو ہم بحیرۂروم میں پاتے ہیں۔‏ اِس ملک کی تاریخ پر مذہب اور تہذیب نے بہت گہرا اثر کِیا ہے۔‏ دلکش نظارے،‏ مزیدار کھانے اور مشہور مُصوّروں کے شاہکار سیاحوں کو یہاں کھینچ لاتے ہیں۔‏ یہ ایک ایسا ملک بھی ہے جہاں لوگ خدا کے کلام کے بارے میں سیکھنے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔‏

پنتِکُست ۳۳ س.‏ع.‏ کے بعد یہودیوں کے علاوہ اَور بھی لوگ مسیحیت قبول کرکے یروشلیم سے واپس اپنے شہر روم چلے گئے۔‏ اِسطرح اُس زمانے کی عالمی طاقت روم میں مسیحیت کا آغاز ہوا۔‏ پولس رسول نے ۵۹ س.‏ع.‏ میں پہلی بار اٹلی کا دورہ کِیا جہاں اُسکو شہر پتیلی میں ”‏بھائی ملے۔‏“‏—‏اعمال ۲:‏۵-‏۱۱؛‏ ۲۸:‏۱۱-‏۱۶‏۔‏

جیسا کہ یسوع اور اُسکے شاگردوں نے پیشینگوئی کی تھی،‏ پہلی صدی کے آخر تک برگشتہ مسیحیوں نے خدا کی راہ کو رد کر دیا تھا۔‏ لیکن ہمارے زمانے میں یسوع کے سچے شاگرد اٹلی سمیت پوری دُنیا میں بادشاہت کی خوشخبری کو پھلا رہے ہیں۔‏—‏متی ۱۳:‏۳۶-‏۴۳؛‏ اعمال ۲۰:‏۲۹،‏ ۳۰؛‏ ۲-‏تھسلنیکیوں ۲:‏۳-‏۸؛‏ ۲-‏پطرس ۲:‏۱-‏۳‏۔‏

شروعات

سن ۱۸۹۱ میں چارلس ٹیز رسل جو اُس وقت یہوواہ کے گواہوں کے منادی کے کام کی نگہبانی کر رہے تھے،‏ پہلی بار اٹلی آئے۔‏ لیکن اُنہوں نے تسلیم کِیا کہ یہاں اُنکے منادی کے کام کا کچھ خاص نتیجہ نہیں نکلا۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اٹلی میں ہمیں اپنی محنت کا پھل ملنے کی اُمید نہیں۔‏“‏ سن ۱۹۱۰ کے موسمِ‌بہار میں بھائی رسل ایک بار پھر اٹلی آئے اور شہر روم میں خدا کے کلام پر مبنی ایک تقریر پیش کی۔‏ اِسکا نتیجہ کیا تھا؟‏ بھائی رسل نے کہا کہ ”‏اجلاس پر اتنے لوگ حاضر نہیں ہوئے جتنوں کی ہم نے توقع کی تھی۔‏“‏

دراصل کئی سالوں تک اٹلی میں منادی کے کام میں بہت کم ترقی ہوئی۔‏ اِسکی ایک وجہ یہ تھی کہ کچھ عرصے تک یہوواہ کے گواہوں کو حکومت سے سخت اذیت کا سامنا رہا تھا۔‏ اُس وقت کے دوران پورے ملک میں صرف ۱۵۰ یہوواہ کے گواہ موجود تھے۔‏ اُن میں سے بہتیروں نے خدا کے کلام کی سچائی کو ایسے رشتہ‌داروں اور دوستوں سے سیکھی تھی جو دوسرے ممالک میں رہتے تھے۔‏

ترقی

دوسری عالمی جنگ کے بعد کئی بہن‌بھائیوں کو منادی کرنے کیلئے اٹلی بھیجا گیا۔‏ لیکن حکومت کے دستاویزات سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کیتھولک چرچ میں اُونچا عہدہ رکھنے والوں نے حکومت سے درخواست کی کہ اِن مشنریوں کو ملک سے نکال دیا جائے۔‏ اِسلئے انکی اکثریت کو ملک سے خارج کر دیا گیا۔‏

اِن مشکلات کے باوجود اٹلی میں بہت سے لوگ یہوواہ خدا کے ”‏پہاڑ“‏ یعنی سچی عبادت کی طرف چلے آ رہے ہیں۔‏ (‏یسعیاہ ۲:‏۲-‏۴‏)‏ سن ۲۰۰۴ کے دوران اُس ملک میں ۰۴۹،‏۳ کلیسیاؤں میں ۵۲۷،‏۳۳،‏۲ یہوواہ کے گواہ خدا کی خدمت کر رہے تھے۔‏ اِسکا مطلب ہے کہ ایک گواہ پر ۲۴۸ لوگوں کو بادشاہت کی خوشخبری سنانے کی ذمہ‌داری پڑتی ہے۔‏ اُس سال یسوع کی موت کی یادگار کو منانے کیلئے ۲۴۲،‏۳۳،‏۴ لوگ جمع ہوئے۔‏

مختلف زبانوں میں تبلیغ

حال ہی میں اٹلی میں غیرملکی لوگوں نے بھی خدا کے کلام میں دلچسپی لینا شروع کر دی ہے۔‏ افریقہ،‏ ایشیا اور مشرقی یورپ سے بہتیرے لوگ اٹلی یا تو اچھی نوکری کی تلاش میں آتے ہیں یا پھر اپنے ملک کے بُرے حالات سے بچنے کیلئے۔‏ ان لوگوں کی روحانی طور پر مدد کیسے کی جا رہی ہے؟‏

اٹلی کے کئی گواہوں نے البانی،‏ امہاریک،‏ بنگالی،‏ پنجابی،‏ ٹاگالوگ،‏ چینی،‏ سنہالا اور عربی جیسی زبانیں سیکھی ہیں تاکہ وہ پردیسیوں کو انکی مادری زبان میں خدا کے کلام کے بارے میں سکھا سکیں۔‏ سن ۲۰۰۱ میں یہوواہ کے گواہوں نے اٹلی میں ایسی کلاسوں کا انتظام کِیا جہاں یہ زبانیں سکھائی گئیں۔‏ پچھلے تین سالوں میں ۱۷ زبانوں میں ۷۹ ایسی کلاسیں منعقد ہوئیں۔‏ ان میں ۷۱۱،‏۳ گواہوں نے شرکت کی۔‏ اِسکے نتیجے میں ۲۵ مختلف زبانوں میں ۱۴۶ نئی کلیسیائیں اور ۲۷۴ گروہ قائم کئے گئے ہیں۔‏ اِنکے ذریعے بہتیرے لوگوں نے خدا کے کلام کے بارے میں سیکھنا شروع کر دیا ہے۔‏ اس سلسلے میں کچھ حیرت‌انگیز تجربوں پر غور کریں۔‏

ایک یہوواہ کے گواہ نے جارج نامی ایک آدمی سے خدا کے بارے میں گفتگو کی۔‏ جارج ملایالم زبان بولنے والا ایک ہندوستانی ہے۔‏ وہ نوکری کے معاملے میں بہت پریشان تھا لیکن اسکے باوجود اُس نے خوشی سے خدا کے کلام کے بارے میں سیکھنے کی دعوت قبول کر لی۔‏ کچھ دِن بعد جارج کا دوست گل جو پنجابی زبان بولتا ہے،‏ یہوواہ کے گواہوں کی عبادت‌گاہ پر حاضر ہوا اور اُس نے بھی خدا کے کلام کے بارے میں سیکھنا شروع کر دیا۔‏ اِسکے بعد گل نے اپنے ٹیلاگو زبان بولنے والے دوست ڈیوڈ کی ملاقات یہوواہ کے گواہوں سے کروائی جسکے نتیجے میں وہ بھی خدا کے کلام میں دلچسپی لینے لگا۔‏ ڈیوڈ جس گھر میں رہتا ہے وہاں دو اَور ہندوستانی بھی رہتے ہیں جنکے نام سنی اور سُوبھاش ہیں۔‏ اُنہوں نے بھی خدا کے کلام کا مطالعہ شروع کر دیا۔‏

کچھ ہفتوں کے بعد ایک مراٹھی زبان بولنے والے شخص دِلپ نے یہوواہ کے گواہوں کو فون کِیا۔‏ دِلپ نے کہا ”‏مَیں جارج کا دوست ہوں۔‏ کیا آپ مجھے بھی خدا کے کلام کے بارے میں سیکھا سکتے ہیں؟‏“‏ پھر آئی سُومت کی باری جو تامل زبان بولتا ہے۔‏ وہ بھی خدا کے کلام سے سیکھنا چاہتا تھا۔‏ آخر میں جارج کے ایک اَور دوست نے فون پر یہوواہ کے گواہوں سے رابطہ کِیا اور اُس نے بھی خدا کے کلام کے بارے میں جاننے کی خواہش ظاہر کی۔‏ پھر جارج اپنے دوست میکس کو اپنے ساتھ یہوواہ کے گواہوں کے اجلاس پر لے گیا۔‏ میکس نے بھی خدا کے کلام کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔‏ آج تک چھ آدمی خدا کے کلام کے بارے میں سیکھ رہے ہیں اور چار اَور آدمیوں کو سکھانے کا بندوبست کِیا جا رہا ہے۔‏ انکے ساتھ انگریزی زبان میں خدا کے کلام کا مطالعہ کِیا جا رہا ہے لیکن وہ ایسا کرنے کیلئے اُردو،‏ پنجابی،‏ تامل،‏ ٹیلاگو،‏ مراٹھی،‏ ملایالم اور ہندی زبان میں رسالوں اور کتابوں کو استعمال کر رہے ہیں۔‏

بہرے لوگ خدا کے کلام میں دلچسپی لیتے ہیں

اٹلی میں بہرے لوگوں کی تعداد ۰۰۰،‏۹۰ سے زیادہ ہے۔‏ سن ۱۹۷۵ کے لگ‌بھگ یہوواہ کے گواہ اِن بہرے لوگوں کو خدا کے کلام کی سچائیوں کے بارے میں سکھانے لگے۔‏ اُس وقت کئی یہوواہ کے گواہوں نے جو خود بہرے ہیں دوسرے گواہوں کو اشاروں کی زبان سکھائی۔‏ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ بہتیرے بہرے لوگ خدا کے کلام میں دلچسپی لینے لگے۔‏ آج ۴۰۰،‏۱ لوگ جنکو اشاروں کی زبان آتی ہے یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں پر حاضر ہو رہے ہیں۔‏ حال ہی میں ۱۵ کلیسیاؤں اور ۵۲ گروہوں میں اشاروں کی زبان میں اجلاس منعقد کئے جا رہے ہیں۔‏

پہلے پہلے صرف چند گواہ بہرے لوگوں میں تبلیغ کر رہے تھے۔‏ پھر مئی ۱۹۷۸ میں اعلان ہوا کہ شہر میلان میں ہونے والے کنونشن پر اشاروں کی زبان میں تقریریں پیش کی جائیں گی۔‏ بہروں کے لئے پہلی اسمبلی فروری ۱۹۷۹ میں منعقد ہوئی۔‏

تب سے لے کر آج تک یہوواہ کے گواہوں کے برانچ دفتر نے ایسے بہن‌بھائیوں کو جنہوں نے اشاروں کی زبان سیکھی تھی،‏ اُنکو اس میں مہارت حاصل کرنے کو کہا۔‏ پھر کئی سپیشل پائنیروں کو بہرے گروہوں میں بھیجا گیا تاکہ وہ بہرے بہن‌بھائیوں کو منادی کے کام میں تربیت دیں اور اُنکے لئے اجلاسوں کا بندوبست کریں۔‏ یہوواہ کے گواہوں کی کئی مطبوعات اشاروں کی زبان میں ویڈیو کیسٹس پر بھی دستیاب ہیں۔‏ اسکے علاوہ تین اسمبلی ہالز میں تقریروں کو ایک بڑے ویڈیو سکرین پر دکھانے کا انتظام کِیا گیا ہے تاکہ تمام بہرے حاضرین انکو آسانی سے دیکھ سکیں۔‏ ان طریقوں سے اٹلی میں بہرے لوگوں کی روحانی ضروریات پوری کی جا رہی ہیں۔‏

بہت سے لوگ یہوواہ کے گواہوں کی ان کوششوں سے متاثر ہوئے ہیں۔‏ اٹلی میں بہرے لوگوں کی سوسائٹی کے ایک رسالے میں ایک کیتھولک پادری کے ایک خط کو شائع کِیا گیا۔‏ اُس خط میں لکھا تھا:‏ ”‏بہرے لوگوں کو ایک خاص مشکل کا سامنا ہے کیونکہ اُنہیں اکثر مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ مثال کے طور پر ایک بہرا شخص خودبخود اور کسی مشکل کے بغیر گرجاگھر پہنچ جاتا ہے۔‏ لیکن وہاں پہنچتے ہی اُسے ایک ترجمان کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ سمجھ سکے کہ وہاں کیا پڑھا جا رہا ہے،‏ کیا کہا جا رہا ہے اور کیا گایا جا رہا ہے۔‏“‏ اسی رسالے میں ایک اُونچا عہدہ رکھنے والے پادری کا بیان یوں دیا گیا ہے:‏ ”‏ہمارے گرجاگھروں میں کوئی ایسا بندوبست نہیں ہے جسکے ذریعے بہرے لوگ وعظ کو سمجھ سکیں۔‏ یہوواہ کے گواہوں کے کنگڈم ہالوں میں ایسا بندوبست موجود ہے جبکہ ہمارے گرجاگھروں میں ایسا نہیں ہے۔‏“‏

قید کے اندھیرے میں روشنی!‏

کیا قید میں ہونے کے باوجود ایک شخص آزاد ہو سکتا ہے؟‏ جی‌ہاں!‏ کیونکہ خدا کا کلام اُن لوگوں کو روحانی طور پر ”‏آزاد“‏ کر دیتا ہے جو اُس پر عمل کرتے ہیں۔‏ یسوع کا پیغام ”‏قیدیوں“‏ کو گناہ اور جھوٹے مذہب سے رہائی دیتا ہے۔‏ (‏یوحنا ۸:‏۳۲؛‏ لوقا ۴:‏۱۶-‏۱۹‏)‏ اٹلی میں قیدیوں کو بڑی کامیابی سے خدا کے کلام کے بارے میں سکھایا جا رہا ہے۔‏ تقریباً ۴۰۰ یہوواہ کے گواہوں کو اجازت ملی ہے کہ وہ قیدیوں کو خدا کے کلام کے بارے میں سکھائیں۔‏ کیتھولک پادریوں کے علاوہ صرف یہوواہ کے گواہوں ہی کو ایسا کرنے کی اجازت ہے۔‏

خدا کے کلام کا پیغام غیریقینی طریقوں سے پھیل رہا ہے۔‏ کئی قیدیوں نے دوسرے قیدیوں کو یہوواہ کے گواہوں کے کام کے بارے میں بتایا۔‏ اسکے نتیجے میں اُنہوں نے درخواست کی کہ یہوواہ کے گواہ اُن سے بھی ملاقات کریں۔‏ اسکے علاوہ ایسے قیدی بھی یہوواہ کے گواہوں سے ملنے کی درخواست کرتے ہیں جنکے رشتہ‌دار بائبل کے بارے میں سیکھ رہے ہیں۔‏ اِن میں سے کئی قیدی قاتل ہیں جو عمربھر کی قید بھگت رہے ہیں۔‏ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرکے اپنی زندگی میں تبدیلیاں لا رہے ہیں۔‏ ایسا کرنے سے وہ یہوواہ خدا کیلئے اپنی زندگی کو مخصوص کرنے اور بپتسمہ لینے کیلئے قدم اُٹھا رہے ہیں۔‏

کئی قیدخانوں میں یسوع کی موت کی یادگاری منانے کا انتظام کِیا گیا ہے۔‏ اسکے علاوہ یہوواہ کے گواہوں نے قیدخانوں میں تقریریں پیش کی ہیں اور بائبل پر مبنی ویڈیو بھی دکھائے ہیں۔‏ اِن اجلاسوں پر بہت سے قیدی حاضر ہوتے ہیں۔‏

یہوواہ کے گواہوں کے رسالوں میں ایسے مضامین شائع ہوئے ہیں جن سے قیدیوں کو بہت فائدہ ہوا ہے۔‏ مثال کے طور پر مئی ۸،‏ ۲۰۰۱ کے جاگو!‏ میں ایک مضمون شائع ہوا تھا جسکا عنوان ہے:‏ ”‏کیا قیدیوں کی اصلاح ممکن ہے؟‏“‏ اور اپریل ۸،‏ ۲۰۰۳ کے شمارے میں منشیات کے خطرات کے بارے میں ایک مضمون شامل تھا۔‏ یہ رسالے ہزاروں کی تعداد میں قیدیوں میں بانٹے گئے۔‏ اِسکے نتیجے میں سینکڑوں قیدیوں کیساتھ بائبل کا مطالعہ شروع کر دیا گیا۔‏ قیدخانے کے کئی سپاہی بھی خدا کے کلام میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔‏

حکومت سے اجازت لینے کے بعد کوستن‌تینو نامی ایک قیدی نے کنگڈم ہال میں بپتسمہ لیا۔‏ اُسکے بپتسمے کو دیکھنے کیلئے ۱۳۸ یہوواہ کے گواہ وہاں حاضر تھے۔‏ کوستن‌تینو اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے:‏ ”‏مجھے تمام بہن‌بھائیوں سے اتنا پیار ملا کہ مَیں اِسکا بیان نہیں کر سکتا۔‏“‏ قیدخانے کے صدر نے ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏ہم نے بڑی خوشی سے کوستن‌تینو کو بپتسمے کیلئے کنگڈم ہال جانے کی اجازت دی۔‏ ہماری خواہش ہے کہ قیدی سماجی،‏ ذاتی اور روحانی طور پر دوبارہ سے معاشرے کا حصہ بن جائیں۔‏“‏ کوستن‌تینو کی بیوی اور بیٹی اس بات سے بہت متاثر ہیں کہ خدا کے کلام کی سچائیوں پر عمل کرنے سے وہ کس قدر بدل گیا ہے۔‏ وہ کوستن‌تینو کے بارے میں کہتی ہیں:‏ ”‏ہمیں اُن پر فخر ہے کیونکہ وہ بالکل بدل گئے ہیں۔‏ امن‌پسند ہونے کیساتھ ساتھ اب اُنہیں ہماری فکر بھی رہتی ہے۔‏ اب ہم پھر سے اُن پر بھروسہ کرنے لگی ہیں اور اُنکی عزت بھی کرنے لگی ہیں۔‏“‏ دونوں ماں بیٹی نے بھی خدا کے کلام کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا ہے اور یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں پر حاضر ہوتی ہیں۔‏

سرجو نامی ایک شخص چوری،‏ لُوٹ‌مار،‏ قتل اور منشیات سمگل کرنے کے جُرائم کیلئے قید ہے اور اُسے سن ۲۰۲۴ تک قید رہنا ہے۔‏ سرجو نے تین سال تک خدا کے کلام کا مطالعہ کِیا جسکے بعد اُس نے اپنے گناہوں سے توبہ کرکے بپتسمہ لے لیا۔‏ اُس قیدخانے کا وہ پندرھواں شخص ہے جس نے یہوواہ کے گواہوں کے طور پر بپتسمہ لیا ہے۔‏ سرجو کو قیدخانے کے میدان میں بپتسمہ دیا گیا اور اُسکے بپتسمے کو دیکھنے کیلئے دوسرے قیدی بھی موجود تھے۔‏

لیونارڈو کو ۲۰ سال قید کی سزا ہوئی تھی۔‏ اُسے کنگڈم ہال میں بپتسمہ لینے کی اجازت دی گئی۔‏ جب ایک اخبار نے اُسکا انٹرویو لیا تو اُس نے کہا:‏ ”‏مَیں آپکو صاف صاف بتانا چاہتا ہوں کہ مَیں یہوواہ کا ایک گواہ اِسلئے نہیں بنا کیونکہ مَیں قیدخانے سے نکلنے کا ایک راستہ ڈھونڈ رہا تھا بلکہ مَیں نے اپنی روحانی ضروریات پورا کرنے کیلئے ایسا کِیا ہے۔‏ مَیں نے اپنی زندگی میں بہت غلطیاں کی ہیں لیکن یہ سب کل کی باتیں ہیں۔‏ اب مَیں بدل گیا ہوں لیکن مجھ میں یہ تبدیلیاں اچانک نہیں آئیں۔‏ مَیں جانتا ہوں کہ مجھے ایک بہتر شخص بننے کی کوشش کو جاری رکھنا ہوگا۔‏“‏

سلواتورے کو قتل کے جُرم کیلئے ایک انتہائی محفوظ قیدخانے میں ڈالا گیا۔‏ اُس نے قیدخانے میں ہی بپتسمہ لیا جس سے بہت لوگ متاثر ہوئے۔‏ قیدخانے کے ایک سپاہی نے کہا:‏ ”‏اگر ایک قیدی ایک ایسا راستہ چننے کا فیصلہ کرتا ہے جس میں قیدخانے کے باقی افراد کی اور پورے معاشرے کی بہتری ہے تو ہم اس راستے کو سراہینگے۔‏“‏ سلواتورے کے اچھے چال‌چلن کی وجہ سے اُسکی بیوی اور بیٹی بھی یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں پر حاضر ہو رہی ہیں۔‏ سلواتورے اپنے ساتھی قیدیوں کو خدا کے کلام کی سچائیوں کے بارے میں بتانے لگا اور اب اُن میں سے ایک قیدی یہوواہ کا گواہ بن گیا ہے۔‏

پہلی صدی میں پولس رسول اور اُسکے ساتھیوں کی محنت کی وجہ سے اٹلی میں سچی مسیحیت قائم ہوئی۔‏ (‏اعمال ۲:‏۱۰؛‏ رومیوں ۱:‏۷‏)‏ اور ہمارے زمانے میں بھی اٹلی میں جوش‌وخروش سے بادشاہت کی خوشخبری سنائی جا رہی ہے۔‏—‏اعمال ۲۳:‏۱۱؛‏ ۲۸:‏۱۴-‏۱۶‏۔‏

‏[‏صفحہ ۱۳ پر نقشہ]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

اٹلی

روم

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویریں]‏

ایک اسمبلی ہال اور روم میں اشاروں کی زبان کی کلیسیا

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

قیدی روحانی طور پر ”‏رہائی“‏ پا رہے ہیں

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویریں]‏

اٹلی میں آج بھی خدا کے کلام کا پیغام سنایا جا رہا ہے