سکندریہ کا فیلو—سچائی اور فلسفہ کا ٹکرار
سکندریہ کا فیلو—سچائی اور فلسفہ کا ٹکرار
سن ۳۳۲ ق.س.ع. میں سکندرِاعظم نے مصر پر فتح پائی۔ اس کے بعد اُس نے سکندریہ کے شہر کی بنیاد ڈالی۔ یہ شہر جلد ہی یونانی تہذیبوثقافت کا مرکز بن گیا۔ تقریباً ۲۰ ق.س.ع. میں اِسی شہر میں ایک آدمی پیدا ہوا جس نے سکندرِاعظم کی طرح دُنیا پر بہت اثر کِیا البتہ اُس کے ہتھیار تلوار اور نیزے نہیں بلکہ الفاظ اور فلسفے تھے۔ اُس شخص کا نام فیلو تھا۔ چونکہ وہ یہودی تھا اس لئے اُسے فیلو یودیس بھی کہا جاتا ہے۔
جب ۶۰۷ ق.س.ع. میں یروشلیم کو تباہ کر دیا گیا تو بہت سے یہودی مصر میں جا بسے۔ ہزاروں یہودی سکندریہ میں بھی آباد ہو گئے۔ لیکن یہودی اور یونانی لوگ اکثر ایک دوسرے سے ٹکراتے تھے۔ وہ کیوں؟ کیونکہ یہودی لوگ یونانی دیوتاؤں کی پوجا کرنے سے انکار کرتے تھے اور یونانیوں کو عبرانی صحائف کی تعلیمات گوارا نہ تھیں۔ فیلو دونوں تہذیبوں کی سوچ سے خوب واقف تھا۔ وہ خود یہودی مذہب سے تعلق رکھتا تھا اور چاہتا تھا کہ یونانی لوگ بھی اِس مذہب کو اَپنائیں۔ اس لئے اُس نے یہودی تعلیم کو یونانیوں کی سوچ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔
صحیفوں کی نئی تفسیر
سکندریہ میں رہنے والے زیادہتر یہودی یونانی زبان کو ترجیح دیتے تھے۔ فیلو نے بھی عبرانی صحائف کے یونانی ترجمے کا مطالعہ کِیا جس کو سپتواجنتا کہا جاتا ہے۔ فیلو کا خیال تھا کہ عبرانی صحائف میں فلسفہ کا عنصر پایا جاتا ہے۔ اُس نے خدا کے نبی موسیٰ کو ”فلسفہ کا ماہر“ کا لقب دیا۔
فیلو کے زمانے سے صدیوں پہلے یونانی فلاسفر دیویدیوتاؤں کی پُرانی کہانیوں پر شک ڈالنے لگے۔ ایک عالم، جیمز ڈرامنڈ اس کے بارے میں یوں بیان کرتے ہیں: ”قدیم زمانے کے فلاسفروں کے خیال میں یہ کہانیاں حقیقی واقعات پر مبنی نہیں تھیں۔ اس لئے وہ ان کے اصلی معنی کو دریافت کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ اُن کا نظریہ تھا کہ مصنّفین نے ان پُرانی کہانیوں میں جن ناشائستہ اور بیہودہ باتوں کو بیان کِیا تھا یہ صرف تمثیلیں تھیں اور اصل میں وہ اپنے قصوں کے ذریعے گہری سچائیوں کو ظاہر کرنا چاہتے تھے۔“ لہٰذا یونانی فلاسفر ان کہانیوں کو محض تمثیلوں کے طور پر خیال کرنے لگے۔ فیلو نے عبرانی صحائف کو اسی طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی۔
پیدایش ۳:۲۱ میں لکھا ہے: ”خداوند خدا نے آؔدم اور اُس کی بیوی کے واسطے چمڑے کے کُرتے بنا کر اُن کو پہنائے۔“ یونانیوں کا نظریہ تھا کہ خدا کپڑے بنانے جیسے عام کام کرنے پر تو نہیں اُترتا۔ اس لئے فیلو نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے اس کو تمثیل کی شکل دی۔ اُس نے لکھا: ”چمڑے کا کُرتا ایک علامت ہے جو انسان کی کھال کی طرف اِشارہ کرتی ہے۔ جب خدا نے ذہن کو بنایا تو اُس نے اِسے ’آدم‘ کا نام دیا۔ جب اُس نے انسان میں دَم پھونکا تو اُس نے اِسے ’زندگی‘ کہا۔ آخرکار اُس نے جسم بنایا اور اسے تمثیلی طور پر ’چمڑے کا کُرتا‘ کہا۔“ اس طرح فیلو نے پیدایش ۳:۲۱ کو فلسفیانہ طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی۔
فیلو کی تفسیر کی ایک مثال لیجئے۔ایک اَور مثال لیجئے۔ پیدایش ۲:۱۰-۱۴ میں ایک ایسے دریا کا ذکر ہوا ہے جو چار ندیوں میں تقسیم ہو کر باغِعدن کو سیراب کرتا تھا۔ فیلو نے اس بات کا گہرا مفہوم تلاش کرتے ہوئے لکھا: ”شاید اس آیت میں بھی ایک تمثیل پائی جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ چار ندیاں چار خوبیوں کی طرف اِشارہ کرتی ہیں۔“ اُس کا خیال تھا کہ فیسون ندی حکمت، جیحون ندی سنجیدگی، دریائےدجلہ دلیری اور دریائےفرات انصاف کی علامت ہیں۔ اسی طرح فیلو نے جغرافیائی معلومات سے بھی گہرا مفہوم نکالنے کی کوشش کی۔
اس کے علاوہ جو کچھ خدا کے کلام میں زمین کی تخلیق، ہابل کے قتل، طوفانِنوح، بابل میں زبانوں کے اختلاف اور موسیٰ کی شریعت کے
بارے میں بتایا گیا ہے، فیلو نے ان تمام باتوں میں بھی گہرے معنی تلاش کئے۔ اُس نے اکثر ایک آیت کے لفظی مطلب پر تبصرہ کرنے کے بعد کچھ ایسا لکھا: ”شاید ہمیں ان الفاظ کو تمثیل کے طور پر خیال کرنا چاہئے۔“ افسوس کی بات ہے کہ فیلو نے اپنی تحریروں میں خدا کے کلام کے ظاہری معنی کی بجائے اس کی تمثیلی تشریح پر زیادہ زور دیا۔خدا کی ذات کیا ہے؟
فیلو نے خدا کے وجود کا ثبوت پیش کرنے کے لئے ایک کاریگر کی تمثیل استعمال کی۔ زمین، دریاؤں، سیاروں اور ستاروں کا ذکر کرنے کے بعد اُس نے لکھا: ”ہماری زمین تمام بنائی ہوئی چیزوں کے مقابلے میں سب سے بہترین دستکاری ہے۔ دُنیا کی ترتیب سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک بہت ہنرمند اور ذہین کاریگر نے اُسے بنایا ہے۔ اِس بات سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ خدا واقعی موجود ہے۔“ یہاں تک فیلو کی دلیل بالکل صحیح تھی۔—رومیوں ۱:۲۰۔
لیکن جب اُس نے خدا کی ذات کے بارے میں لکھا تو وہ کافی حد تک سچائی سے ہٹ گیا۔ فیلو کا دعویٰ تھا کہ ”خدا کی کوئی پہچان نہیں۔ . . . اُس کی ذات کو سمجھنا ناممکن ہے۔“ فیلو نے یہ بھی کہا کہ ”خدا کو سمجھنے کی کوششیں سراسر فضول ہیں۔“ فیلو کا یہ نظریہ خدا کے کلام پر نہیں بلکہ یونانی فلاسفر افلاطون کی تعلیمات پر مبنی تھا۔
فیلو کے خیال میں خدا کی ذات اس حد تک ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ ”ہمیں زندہ خدا کو کسی نام سے بھی نہیں پکارنا چاہئے۔ ایسا کرنا بالکل نامناسب ہے۔“ کیا اُس کا یہ نظریہ درست ہے؟
خدا نے اپنے کلام میں صاف ظاہر کِیا ہے کہ اُس کا ایک ذاتی نام ہے۔ مثال کے طور پر زبور ۸۳:۱۸ میں کہا گیا ہے: ”تُو ہی جس کا نام یہوؔواہ ہے تمام زمین پر بلندوبالا ہے۔“ اور یسعیاہ ۴۲:۸ کے مطابق خدا خود کہتا ہے کہ ”یہوؔواہ مَیں ہوں۔ یہی میرا نام ہے۔“ فیلو کو ان آیتوں کا علم تھا۔ پھر اُس نے کیوں دعویٰ کِیا کہ خدا کا کوئی ذاتی نام نہیں؟ کیونکہ اُس کی تعلیم کی بنیاد خدا کا کلام نہیں بلکہ یونانی فلسفہ تھا۔
جان کے بارے میں فیلو کا نظریہ
فیلو یہ نظریہ رکھتا تھا کہ ”انسان جسم اور جان کا مُرکب ہے۔“ موت کے وقت جان کے ساتھ کیا واقع ہوتا ہے؟ فیلو اس بات کی یوں وضاحت کرتا ہے: ”جس عرصے کے دوران ہم زندہ ہیں، ہماری جان مُردہ ہے اور ہمارے جسم کی قبر میں دفنائی ہوتی ہے۔ لیکن جب جسم مر جاتا ہے تو جان اس شریر جسم سے رہائی پاتی ہے۔ تب جان اصلی مفہوم میں جینے لگتی ہے۔“ لہٰذا فیلو کہہ رہا تھا کہ جان ایک ایسی چیز ہے جو موت کے بعد جسم سے نکل جاتی ہے اور کبھی نہیں مرتی۔
لیکن خدا کے کلام میں جان کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے؟ پیدایش ۲:۷ میں لکھا ہے: ”[یہوواہ] خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اُسکے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا تو انسان جیتی جان ہوا۔“ یہاں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ انسان کے اندر جان دفن ہے بلکہ یہ کہ انسان خود ایک جیتی جان ہے۔
خدا کے کلام میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مرنے کے وقت جان کیساتھ کیا ہوتا ہے۔ حزقیایل ۱۸:۴ کے مطابق ”جو جان گُناہ کرتی ہے وہی مرے گی۔“ ان آیات سے ہمیں کونسا نتیجہ اخذ کرنا چاہئے؟ یہ کہ انسان ایک جان ہے۔ جب انسان مر جاتا ہے تو جان مر جاتی ہے۔—پیدایش ۱۹:۱۹۔ *
فیلو کی موت کے بعد زیادہتر یہودیوں نے اُس کی تحریروں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ لیکن عیسائی علماء اُس کی تعلیمات میں دلچسپی لینے لگے۔ یوسیبیس اور چرچ کے دوسرے رہنماؤں کا دعویٰ تھا کہ فیلو نے عیسائی مذہب کو قبول کر لیا تھا۔ جیروم نے فیلو کا نام چرچ کے ان رہنماؤں کے ساتھ لیا جنہوں نے عیسائیت کے بنیادی عقیدوں کو طے کِیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فیلو کی تحریروں کو ایسے لوگوں نے مشہور کِیا جو یسوع مسیح کی تعلیم سے دُور ہو چکے تھے۔
فیلو کی تحریروں نے عیسائی عقیدوں پر گہرا اثر ڈالا۔ جان کے بارے میں اُس کی تعلیم اَپنا کر عیسائی یہ ماننے لگے کہ جان موت کے بعد
زندہ رہتی ہے۔ فیلو نے ”لوگوس“ یعنی ”کلام“ کے متعلق بھی چند فلسفے پیش کئے۔ انہی کی بِنا پر عیسائیوں نے تثلیث کے عقیدے کو اَپنایا۔ یہ تمام عقیدے خدا کے کلام میں نہیں پائے جاتے ہیں۔فریب نہ کھائیں
فیلو نے صحیفوں کی تفسیر کرنے میں اپنے مقصد کو یوں بیان کِیا: ”مَیں شریعت کے ہر ایک پہلو کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس لئے مَیں اس کے چھپے ہوئے تمثیلی معنی کو بھی واضح کرتا ہوں۔“ غور کیجئے کہ استثنا ۴:۲ میں موسیٰ نے شریعت کے بارے میں کیا کہا تھا: ”جس بات کا مَیں تمکو حکم دیتا ہوں اُس میں نہ تو کچھ بڑھانا اور نہ کچھ گھٹانا تاکہ تُم [یہوواہ] اپنے خدا کے احکام کو جو مَیں تمکو بتاتا ہوں مان سکو۔“ بیشک فیلو کی نیت نیک تھی۔ وہ خدا کے کلام کی وضاحت کرنا چاہتا تھا۔ لیکن ایسا کرنے میں اُس نے خدا کی اصلی ہدایت کو لوگوں سے چھپا کر رکھا اور انہیں اپنی سوچ سکھائی۔
پطرس رسول نے لکھا: ”جب ہم نے تمہیں اپنے خداوند یسوؔع مسیح کی قدرت اور آمد سے واقف کِیا تھا تو دغابازی کی گھڑی ہوئی کہانیوں کی پیروی نہیں کی تھی۔“ (۲-پطرس ۱:۱۶) فیلو کے برعکس جوکچھ پطرس رسول نے مسیحی کلیسیا کو سکھایا تھا یہ سب حقیقت پر مبنی تھا۔ اُس نے ”روحِحق“ یعنی خدا کی پاک روح کے ذریعے ان کو سچائی کی راہ دکھائی۔—یوحنا ۱۶:۱۳۔
اگر آپ بھی سچائی کی راہ پر چلنا چاہتے ہیں تو آپ کو خدا کے بارے میں صحیح علم حاصل کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں آپ کو انسانی فلسفوں پر غور کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ آپ کو خدا کے کلام سے نئی باتیں سیکھنے کو تیار ہونا چاہئے۔ اس طرح آپ ’پاک نوشتوں سے واقف ہو جائیں گے جو مسیح یسوؔع پر ایمان لانے سے آپ کو نجات حاصل کرنے کے لئے دانائی بخش سکتے ہیں۔‘ خدا کی ہدایت کی مدد سے آپ ’کامل بن کر ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار ہو جائیں گے۔‘—۲-تیمتھیس ۳:۱۵-۱۷۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 18 دی جیوئش انسائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے: ”یہ عقیدہ کہ جان جسم کی موت کے بعد زندہ رہتی ہے انسانی فلسفہ پر مبنی ہے۔ پاک صحائف میں اس عقیدے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔“
[صفحہ ۱۰ پر بکس/تصویر]
سکندریہ
فیلو مصر کے شہر سکندریہ کا رہنے والا تھا۔ قدیم دُنیا میں یہ شہر علم اور ادب کا مرکز تھا۔
اس کے مدرسوں میں بڑے بڑے نامور اُستاد پڑھاتے تھے۔ سکندریہ اپنے کُتبخانے کے لئے آج تک مشہور ہے۔ کُتبخانے کے ناظم ہر ایک شائع کی ہوئی کتاب کی ایک کاپی حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ اس لئے اس میں لاکھوں کی تعداد میں کتابیں موجود تھیں۔
جب روم کی حکومت نے طاقت پکڑی تو اُس کے شہنشاہوں نے روم ہی کو دُنیا کا ادبی مرکز بنانا چاہا۔ اس طرح سکندریہ کی اہمیت کم ہو گئی اور اس کی بجائے علم اور ادب کا مرکز یورپ میں قائم ہو گیا۔ ساتویں صدی میں سکندریہ حملہآوروں کے قبضے میں پڑ گیا۔ اُنہوں نے شہر کے بڑے کُتبخانے کو تباہ کر دیا۔ تاریخدانوں کا کہنا ہے کہ اس حملے کے بعد سکندریہ میں ہزارسالہ ترقی کا دَور ختم ہو گیا۔
[تصویر کا حوالہ]
L. Chapons/Illustrirte Familien-Bibel nach der deutschen Uebersetzung Dr. Martin Luthers
[صفحہ ۱۲ پر بکس/تصویر]
جدید دَور میں تمثیلی تفسیر
ایک مشکل خیال کو آسان بنانے کے لئے مصنّفین اکثر کسی عام چیز یا واقعے کی مثال استعمال کرتے ہیں۔ لکھنے کے اِس طریقے کو تمثیل کہا جاتا ہے۔ ایک تمثیل اصلی معاملے کی پیچیدگیوں کو علامتی طور پر واضح کرتی ہے۔ سکندریہ کے فیلو کا خیال تھا کہ پوری بائبل تمثیلوں میں لکھی گئی ہے اور اُس نے اِن تمثیلوں کے اصلی معنی کو دریافت کرنے کی کوشش کی۔ آجکل بھی بہتیرے مذہبی علماء بائبل کے بارے میں کچھ ایسی ہی رائے رکھتے ہیں اور اس کے مطابق اس کی تفسیر کرتے ہیں۔
ذرا پیدایش کی کتاب کے پہلے ۱۱ ابواب پر غور کیجئے۔ ان ابواب میں تخلیق سے لیکر اُس وقت تک انسان کی تاریخ بیان کی گئی ہے جبتک لوگ شہر بابل سے الگ الگ علاقوں میں پراگندہ ہو گئے تھے۔ ان واقعات کے بارے میں دی نیو امریکن بائبل کے کیتھولک مترجمین اپنی رائے یوں پیش کرتے ہیں: ”ان واقعات میں گہری سچائیاں پوشیدہ ہیں۔ بنیاسرائیل کو ان سچائیوں کو سمجھانے کے لئے تمثیلیں استعمال کی گئی ہیں۔ اس وجہ سے ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ان ابواب میں درج تمام واقعات بالکل ایسے ہی پیش آئے تھے۔ یہ واقعات تو محض کہانیاں ہیں جو پوشیدہ سچائیوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔“ لہٰذا ان مترجمین کا کہنا ہے کہ ہمیں پیدایش کے پہلے ۱۱ ابواب کے پوشیدہ مطلب کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کیا ایسے خیالات درست ہیں؟
اناجیل سے پتہ چلتا ہے کہ یسوع مسیح پیدایش کی کتاب کے تمام واقعات کو حقیقی خیال کرتا تھا۔ (متی ۱۹:۴-۶؛ ۲۴:۳۷-۳۹) پولس اور پطرس رسول نے بھی ان کو حقیقی واقعات کے طور پر بیان کِیا۔ (اعمال ۱۷:۲۴-۲۶؛ ۲-پطرس ۲:۵؛ ۳:۶، ۷) اس لئے خلوصدل لوگ جو بائبل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ایسی تمثیلی تفسیروں پر کان نہیں لگاتے۔
[صفحہ ۹ پر تصویر]
سکندریہ میں روشنی کا مینار
[تصویر کا حوالہ]
Archives Charmet/Bridgeman Art Library