روس کی قومی لائبریری میں بائبل کے نسخہجات
روس کی قومی لائبریری میں بائبل کے نسخہجات
یہ دو علماء کی کہانی ہے۔ بائبل کے پُرانے نسخہجات کی تلاش میں اِن دونوں نے دُوردراز علاقوں کا سفر کِیا تھا۔ اُنہوں نے غاروں اور خانقاہوں میں تلاش کے دوران بےشمار پُرانی تحریریں حاصل کیں۔ جب دونوں اپنے نسخہجات ایک لائبریری کو پیش کرنے کیلئے روس آئے تو یہاں اُنکی پہلی ملاقات ہوئی۔ ان نسخہجات پر نظر ڈالتے ہی لائبریری کے علماء کو پتہ چل گیا کہ یہ انمول ہیں۔ ان دو آدمیوں کے نام کیا تھے؟ وہ ان نسخہجات کو روسی لائبریری کو کیوں بیچنا چاہتے تھے؟ آئیے ہم ذرا انکی زندگی اور کامیابیوں پر غور کرتے ہیں۔
پُرانے نسخہجات کی اہمیت
یہ دونوں آدمی ۱۹ویں صدی کے علماء تھے۔ اِس صدی کے شروع میں یورپ میں سائنسی نظریات کافی حد تک بدل رہے تھے۔ لوگ پُرانے رواج اور عقائد پر شک کرنے لگے تھے۔ کئی علماء نے بائبل میں غلطیاں تلاش کرنا شروع کر دیں یہاں تک کہ وہ بائبل کے خدا کا کلام ہونے پر بھی شُبہ کرنے لگے۔
لیکن تمام علماء ان نظریات سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔ وہ اِس بات کا ثبوت پیش کرنا چاہتے تھے کہ بائبل کا موجودہ متن واقعی دُرست ہے۔ اس وجہ سے وہ ایسے پُرانے نسخہجات تلاش کرنے لگے جو بائبل کے لکھے جانے کے تھوڑے ہی عرصے بعد تیار کئے گئے تھے۔ بائبل کے موجودہ متن کو اسی طرح سے ہی صحیح ثابت کِیا جا سکتا تھا۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ کم ہی جگہوں پر بائبل کے متن کو بدلنے کی کوششیں کی گئی تھیں۔ لیکن ان پُرانے نسخہجات کی مدد سے ایسی غلطیاں نکالی جا سکتی تھیں۔ اس وجہ سے کئی خلوصدل علماء نے پُرانے نسخہجات جمع کرنے کی خاطر دُوردراز ملکوں کا سفر کِیا۔
ان علماء میں سے ایک کونستانٹین وان ٹیشنڈورف تھا۔ جرمنی کے اِس عالم نے بائبل کے بارے میں پیش کئے جانے والے جدید نظریات کو رد کر دیا۔ سن ۱۸۴۴ میں اُس نے نسخہجات کی تلاش میں مشرقِوسطیٰ کا رُخ کِیا۔ وہاں سینا کے علاقے میں ایک خانقاہ میں اُس کی نظر اتفاقاً ایک ٹوکرے پر پڑی جو ردّی سے بھرا ہوا تھا۔ اِس (سپتواجنتا) کے نسخہجات ملے۔ یہ اس ترجمے کے سب سے پُرانے نسخہجات تھے جو اُس وقت تک دریافت ہوئے تھے۔
میں اُسے بائبل کے یونانی ترجمےٹیشنڈورف ردّی میں سے صرف ۴۳ نسخہجات بچا سکا۔ اُسے یقین تھا کہ اس خانقاہ میں سپتواجنتا کے اَور بھی نسخہجات موجود ہیں۔ اسلئے وہ ۱۸۵۳ میں دوبارہ وہاں گیا۔ لیکن اس دفعہ اُسے صرف ایک ہی نسخہ ملا۔ اسکے علاوہ سفر کے اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے اُسے جرمنی واپس لوٹنا پڑا۔ اُسکی دلی خواہش تھی کہ وہ ایک مرتبہ پھر نسخہجات کی تلاش میں مشرقِوسطیٰ کا سفر کرے۔ اسلئے اُس نے روسی شہنشاہ سے مالی امداد کی درخواست کی۔
ٹیشنڈورف کی روسی شہنشاہ سے ملاقات
روس کے زیادہتر باشندے آرتھوڈکس چرچ سے تعلق رکھتے تھے جبکہ ٹیشنڈورف پروٹسٹنٹ تھا۔ لیکن اس کے باوجود، روسی شہنشاہ الیگزینڈر دوم بِلاہچکچاہٹ ٹیشنڈورف کی مدد کرنے کیلئے راضی ہو گیا۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ اُس وقت روس میں اصلاحی تحریک جڑ پکڑ رہی تھی۔ تعلیم حاصل کرنے پر زیادہ زور دیا جا رہا تھا۔ اسی دوران روس کی ملکہ کتھرین دوم نے ۱۷۹۵ میں سینٹ پیٹرزبرگ کے شاہی کُتبخانے کی بنیاد ڈالی۔ یہ روس کی پہلی لائبریری تھی جسے عام لوگ بھی استعمال کر سکتے تھے۔ اسکے ذریعے لاکھوں لوگوں کے لئے علم کا دروازہ کُھل گیا۔
حالانکہ اس لائبریری کا نام یورپ کی سب سے عمدہ لائبریریوں میں آتا تھا پھربھی اس میں عبرانی زبان کے محض چھ نسخہجات موجود تھے۔ اُس زمانے میں روس کے بعض علماء عبرانی زبان سیکھنا اور بائبل کا ترجمہ کرنا چاہتے تھے۔ اسلئے ملکہ کتھرین دوم نے علماء کو یورپ کی دیگر یونیورسٹیوں میں عبرانی زبان سیکھنے کے لئے بھیجا۔ واپس آ کر یہی علماء روس میں عبرانی زبان پڑھانے لگے۔ اسکے نتیجے میں جلد ہی کئی علماء نے بائبل کا روسی زبان میں ترجمہ کرنا شروع کر دیا۔ لیکن یہ آسان نہیں تھا کیونکہ اُنکے مالی وسائل کم تھے اور آرتھوڈکس پادری بھی اُنکی راہ میں رُکاوٹیں ڈال رہے تھے۔
اس کے باوجود شہنشاہ الیگزینڈر دوم ٹیشنڈورف کے سفر کے اخراجات اُٹھانے کے لئے تیار تھا۔ اگرچہ ٹیشنڈورف کو جنونی لوگوں کی طرف سے ”سخت مخالفت“ کا سامنا تھا لیکن وہ ایک مرتبہ پھر سینا کو چل دیا۔ وہاں سے وہ سپتواجنتا کے باقی نسخہجات حاصل کرکے کامیاب واپس لوٹا۔ یہ نسخہجات آج کوڈیکس سائنےٹیکس کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ بائبل کی سب سے پُرانی تحریروں میں سے ایک ہے۔ * ٹیشنڈورف نے روس واپس پہنچتے ہی شہنشاہ کے محل کا رُخ کِیا۔ ایک خاص کام کیلئے اُس نے شہنشاہ سے مدد کی درخواست کی۔ وہ کوڈیکس سائنےٹیکس کی نقل کرکے اُسے شاہی کُتبخانے میں نمائش کیلئے رکھنا چاہتا تھا۔ ٹیشنڈورف کے مطابق یہ نقل ”بائبل کی تحقیق اور مطالعے کیلئے ایک اہمترین کتاب ثابت ہوگی۔“ شہنشاہ نے اس تجویز کو منظور کر لیا۔ اس سلسلے میں ٹیشنڈورف نے یوں لکھا: ”خدا کا شکر ہے کہ اُس نے ہمیں بائبل کی وہ تحریر حاصل کرنے میں مدد دی جو سینا کے علاقے میں موجود تھی۔ اس تحریر کی مدد سے ہم خدا کے کلام کے اصلی متن پر روشنی ڈالنے اور اسکی سچائی کا دفاع کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔“
کریمیا سے حاصل ہونے والے نسخہجات
لیکن نسخہجات تلاش کرنے والا دوسرا عالم کون تھا؟ اسکا نام ابرہام فرکووِچ تھا۔ اُس نے بےشمار قدیم کتابیں جمع کرکے اِنہیں شاہی کُتبخانے کو فروخت کیلئے پیش کِیا۔ کُتبخانے کے علماء کتابوں کے اس مجموعے کو دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ یہ مجموعہ ۴۱۲،۲ کتابوں پر مشتمل تھا جن میں ۹۷۵ طومار اور نسخہجات بھی شامل تھے۔ اِن میں سے ۴۵ تحریریں بائبل کے ایسے نسخہجات تھے جو دسویں صدی سے پہلے لکھے گئے تھے۔ شہنشاہ خود اس مجموعے میں دلچسپی لینے لگا اور یورپ کے بہت سے علماء اسکو دیکھنے کیلئے روس آئے۔ نسخہجات کے اس مجموعے کو لانے والے ۷۰ سالہ فرکووِچ قارائی مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔ *
قارائی مذہب کے پیروکار بحیرۂاسود کے کنارے واقع کریمیا کے خوبصورت علاقے میں رہتے تھے۔ اُنکی زبان تُرکی زبان سے ملتیجلتی تھی اور اُنکے رسمورواج بھی تُرکوں جیسے تھے لیکن یہ لوگ دراصل یہودی تھے۔ تاہم، وہ عام یہودیوں سے اس لحاظ سے فرق تھے کہ وہ تالمود یعنی یہودی ربّیوں کی تحریروں کو نہیں مانتے تھے بلکہ صرف الہامی صحائف کو پڑھتے تھے۔ قارائیوں کا کہنا تھا کہ جب ۶۰۷ قبلِمسیح میں یروشلیم تباہ ہوا اور یہودیوں کو اسیر کرکے بابل لے جایا گیا تو اُنکے باپدادا آزاد ہونے کے بعد کریمیا کے علاقے میں رہنے لگے۔ جب یہ علاقہ روس کے قبضے میں آ گیا تو قارائی لوگ روسی شہنشاہ کو ثابت کرنا چاہتے تھے کہ وہ عام یہودیوں سے فرق ہیں۔ اس سلسلے میں اُنہوں نے شہنشاہ کو اپنے سلسلۂنسب کا ثبوت پیش کرنے کی کوشش کی۔ لہٰذا وہ ایسے ثبوت کی تلاش میں پُرانے نسخہجات جمع کرنے لگے۔
نسخہجات کی تلاش میں فرکووِچ قدیم شہر چوفوت-کالے گیا۔ یہ شہر بڑی بڑی چٹانوں کے درمیان واقع تھا۔ قارائی کئی صدیوں سے یہاں آباد تھے۔ انکا رواج تھا کہ جب پاک صحائف کی ایک کتاب طویل استعمال کی وجہ سے خراب ہو جاتی تو وہ اسے ضائع کرنے کی بجائے ایک مخصوص عمارت میں رکھ دیتے تھے کیونکہ اس میں خدا کا نام یہوواہ لکھا ہوا تھا۔ ان عمارتوں کو عبرانی زبان میں گِنیزاہ (یعنی پناہ کی جگہ) کہا جاتا ہے۔ یہیں نسخہجات صدیوں تک محفوظ رہتے تھے۔
انہی گِنیزاہ عمارتوں میں فرکووِچ کو عبرانی صحائف کا سب سے پُرانا نسخہ ملا جو ۹۱۶ عیسوی میں تحریر کِیا گیا تھا۔ آج یہ نسخہ ”پیٹرزبرگ کوڈیکس آف دی پرافٹس“ کے نام سے مشہور ہے۔
فرکووِچ نے ۱۸۵۹ میں اپنے نسخہجات کے پورے مجموعے کو
۰۰۰،۲۵،۱ روبل میں شاہی کُتبخانے کو پیش کِیا۔ مگر لائبریری کا سالانہ بجٹ محض ۰۰۰،۱۰ روبل تھا۔ سن ۱۸۶۲ میں شہنشاہ الیگزینڈر دوم نے اپنے خزانے سے رقم ادا کرکے اس کو لائبریری کے لئے خرید لیا۔ فرکووِچ کے اس مجموعے میں لیننگراڈ کوڈیکس کا نسخہ بھی شامل تھا جو سن ۱۰۰۸ میں تحریر ہوا تھا۔ عبرانی صحائف کی تمام کتابوں پر مشتمل یہ سب سے پُرانا نسخہ ہے۔ ایک عالم کے مطابق ”یہ بائبل کا اہمترین نسخہ ہے کیونکہ جدید زمانے کی زیادہتر عبرانی بائبلیں اسی نسخے کے مطابق تیار کی جاتی ہیں۔ اور یہی بائبلیں دیگر ترجموں کی بنیاد بنتی ہیں۔“ (بکس کو دیکھیں۔) اسی سال میں یعنی ۱۸۶۲ میں ٹیشنڈورف نے کوڈیکس سائنےٹیکس شائع کِیا۔ دُنیابھر کے علماء ان دو نسخہجات کی دریافت سے بہت متاثر تھے۔ہمارے زمانے میں روحانی روشنی
شاہی کُتبخانے کی ۲۰۰ سالہ تاریخ میں اسکا نام سات بار تبدیل ہوا ہے۔ آجکل اسکا نام ”روس کی قومی لائبریری“ ہے۔ اگرچہ بیسویں صدی میں دو عالمی جنگوں نے لائبریری کی عمارت کو متاثر کِیا توبھی اسکے نسخہجات محفوظ رہے ہیں۔ * یہ نسخہجات ہمارے لئے اتنی اہمیت کیوں رکھتے ہیں؟
ان قدیم نسخہجات کی بِنا پر آج بائبل کا صحیح اور درست ترجمہ کرنا ممکن ہے۔ ایسے ترجمے پاک صحائف کی سچائی کو روشن کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہوواہ کے گواہوں کا شائعکردہ بائبل کا نیو ورلڈ ترجمہ عبرانی متن کی دو جدید اشاعت سے تیار کِیا گیا ہے۔ یہ دونوں اشاعت کوڈیکس سائنےٹیکس اور لیننگراڈ کوڈیکس پر مبنی ہیں۔ اِن میں خدا کا نام یہوواہ ۸۲۸،۶ مرتبہ استعمال ہوا ہے۔
واقعی، سینٹ پیٹرزبرگ کے کُتبخانے اور اسکے نسخہجات نے بائبل کی سچائی کو روشن کِیا ہے۔ لیکن روحانی روشنی عطا کرنے والا بائبل کا مصنف یہوواہ خدا ہے۔ اسلئے ہمیں اُسی کی تمجید کرنی چاہئے۔ زبورنویس نے بھی خدا سے درخواست کی تھی کہ ”اپنے نُور اور اپنی سچائی کو بھیج۔ وہی میری رہبری کریں۔“—زبور ۴۳:۳۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 11 اسکے علاوہ ٹیشنڈورف بائبل کے یونانی صحائف کی ایک مکمل تحریر حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوا جو چوتھی صدی میں لکھی گئی تھی۔
^ پیراگراف 13 قارائی مذہب کے بارے میں دی واچٹاور، جولائی ۱۵، ۱۹۹۵ میں ایک مضمون پایا جاتا ہے۔
^ پیراگراف 19 برِٹش میوزیم نے کوڈیکس سائنےٹیکس کے زیادہتر نسخہجات خرید لئے ہیں۔ روس کی قومی لائبریری میں اسکی محض چند تحریریں باقی بچی ہیں۔
[صفحہ ۱۳ پر بکس]
خدا کے نام کا صحیح تلفظ
یہوواہ خدا نے اپنے کلام کو آج تک محفوظ رکھا ہے۔ اس سلسلے میں بائبل کے نقلنویسوں نے بہت اہم کردار ادا کِیا۔ مسوراتی نقلنویسوں کی مثال لیجئے جو چھٹی سے دسویں صدی عیسوی تک عبرانی صحائف کی نقلیں تیار کرتے رہے۔ اس وقت عام لوگ عبرانی زبان کی بجائے ارامی زبان بولتے تھے۔ عبرانی زبان میں حروفِعلت لکھے نہیں جاتے تھے۔ اس وجہ سے مسوراتیوں نے ایسی علامات ایجاد کیں جو حروفِعلت کو ظاہر کرتی ہیں تاکہ لوگ الفاظ کا صحیح تلفظ بھول نہ جائیں۔ بالکل اسی طرح جیسے اُردو میں بھی زیر، زبر، پیش الفاظ کے صحیح تلفظ کو ظاہر کرتے ہیں۔
عبرانی زبان میں خدا کا نام یہوواہ چار حروف پر مشتمل ہے۔ بعض کا دعویٰ ہے کہ عبرانی لوگ اس نام کو استعمال نہیں کرتے تھے اور اسلئے اسکا صحیح تلفظ آج تک کسی کو معلوم نہیں ہے۔ لیکن لیننگراڈ کوڈیکس میں اس نام کو جن حروفِعلت کیساتھ لکھا گیا ہے ان سے پتہ چلتا ہے کہ اسے یَہوَاہ، یَہوِی اور یَہُووَاہ کے تلفظ سے بیان کِیا جاتا تھا۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ عبرانی لوگ خدا کا نام استعمال کرتے تھے۔ آجکل اس نام کا تلفظ ”یہوواہ“ بہت عام ہو گیا ہے۔ لاکھوں لوگ خدا کو اُسکے اسی نام سے پکارتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ہی ”جسکا نام یہوؔواہ ہے تمام زمین پر بلندوبالا ہے۔“—زبور ۸۳:۱۸۔
[صفحہ ۱۰ پر تصویر]
روس کی قومی لائبریری کے اس کمرے میں نسخہجات رکھے جاتے ہیں
[صفحہ ۱۱ پر تصویر]
ملکہ کتھرین دوم
[صفحہ ۱۱ پر تصویریں]
کونستانٹین وان ٹیشنڈورف اور روس کا شہنشاہ الیگزینڈر دوم
[صفحہ ۱۲ پر تصویر]
ابرہام فرکووِچ
[صفحہ ۱۰ پر تصویر کا حوالہ]
Both images: National Library of Russia, St. Petersburg
[صفحہ ۱۱ پر تصویر کا حوالہ]
1898 ,Catherine II: National Library of Russia, St. Petersburg; Alexander II: From the book Spamers Illustrierte Weltgeschichte, Leipzig