”ہوشیار آدمی اپنی روِش کو دیکھتا بھالتا ہے“
”ہوشیار آدمی اپنی روِش کو دیکھتا بھالتا ہے“
ایک ہوشیار شخص عقلمندی اور دُوراندیشی سے کام لیتا ہے۔ وہ نیکی اور بدی میں امتیاز کر سکتا ہے۔ وہ بڑی کامیابی سے مسئلوں کا حل ڈھونڈ لیتا ہے۔ ایک ہوشیار شخص نہ تو دھوکابازی اور نہ ہی چالاکی سے کام لیتا ہے۔ امثال ۱۳:۱۶ میں لکھا ہے: ”ہر ایک ہوشیار آدمی دانائی سے کام کرتا ہے۔“ جیہاں، ہوشیاری اور دانائی بہت عمدہ خوبیاں ہوتی ہیں۔
ہم روزمرّہ زندگی میں ہوشیاری کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟ یہ خوبی ہمارے چالچلن، ہمارے ردِعمل اور دوسروں کیساتھ ہمارے برتاؤ میں کیسے ظاہر ہوتی ہے؟ ایک ہوشیار شخص کن مشکلات سے بچا رہتا ہے اور اُسے اس خوبی سے کونسے فائدے ہوتے ہیں؟ قدیم اسرائیل کے بادشاہ سلیمان نے امثال ۱۴:۱۲-۲۵ میں ان باتوں کی وضاحت کی۔ ان آیات پر غور کرنے سے ہمیں بہت فائدہ ہوگا۔ *
صحیح راہ اختیار کریں
زندگی میں خوشی حاصل کرنے اور کامیابی کی راہ اختیار کرنے کیلئے ہمیں اچھے اور بُرے میں تمیز کرنے کے قابل ہونا چاہئے۔ لیکن ایسا کرنا اتنا آسان نہیں۔ خدا کا کلام ہمیں خبردار کرتا ہے کہ ”ایسی راہ بھی ہے جو انسان کو سیدھی معلوم ہوتی ہے پر اُسکی انتہا میں موت کی راہیں ہیں۔“ (امثال ۱۴:۱۲) اسلئے ہمیں ایسے کاموں کو پہچاننا چاہئے جو دیکھنے میں تو صحیح ہیں لیکن دراصل بُرے ہوتے ہیں۔ اس آیت میں موت کی ایک ہی راہ کا نہیں بلکہ ’موت کی راہوں‘ کا ذکر ہوا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ طرح طرح کی راہیں بُری ہوتی ہیں۔ آئیں ہم چند ایسی راہوں پر غور کرتے ہیں۔
دُنیا میں امیر اور مشہور اشخاص کی بہت عزت کی جاتی ہے۔ چونکہ ایسے لوگ کامیاب ہوتے ہیں اسلئے عوام کا خیال ہے کہ اُنکے اعمال درست ہیں۔ لیکن اکثر یہ اشخاص کن طریقوں سے دولت اور شہرت حاصل کرتے ہیں؟ کیا وہ واقعی صادق اور نیک ہیں؟ ایک اَور مثال پر غور کیجئے۔ کئی لوگ بڑی سنجیدگی سے اپنے دین کے مطابق چلتے ہیں۔ لیکن کیا اسکا مطلب ہے کہ اُنکے تمام عقیدے سچائی پر مبنی ہوتے ہیں؟—رومیوں ۱۰:۲، ۳۔
بعض لوگ شاید دل ہی دل میں سوچیں کہ وہ صحیح راہ پر چل رہے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ انسان کا دل دھوکاباز ہے۔ (یرمیاہ ۱۷:۹) ہو سکتا ہے کہ ہمارا دل ہمیں کہے کہ ہم صحیح راہ پر چل رہے ہیں جبکہ حقیقت میں ہم بُری راہ پر چل رہے ہوتے ہیں۔ ہم صحیح راہ کو کیسے پہچان سکتے ہیں؟
اس سلسلے میں خدا کے کلام کا گہرا مطالعہ کرنا لازمی ہے۔ ایسا کرنے سے ’ہمارے حواس نیکوبد میں امتیاز کرنے کیلئے تیز ہو جائیں گے۔‘ یہ حواس ”کام کرتے کرتے“ ہی تیز ہو سکتے ہیں۔ اسکا مطلب ہے کہ ہمیں خدا کے کلام میں پائے جانے والی راہنمائی پر عمل بھی کرنا چاہئے۔ (عبرانیوں ۵:۱۴) ’سکڑے راستے‘ پر چلتے ہوئے ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے دل کی آواز پر کان لگا کر اس ’زندگی کو پہنچانے والے‘ راستے سے ہٹ جائیں۔—متی ۷:۱۳، ۱۴۔
جب ”دل غمگین ہے“
کیا ہنسیمذاق ایک شخص کی افسردگی کو دُور کر سکتا ہے؟ کیا شراب یا منشیات اُس کی پریشانی کو ختم کر سکتی ہیں؟ کیا عیاشی کی زندگی گزارنے سے ”ہنسنے میں بھی دل غمگین ہے۔“—امثال ۱۴:۱۳ الف۔
وہ اپنا غم بھلا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ سلیمان بادشاہ نے لکھا کہہنسیمذاق ہمارے دل سے غم دُور نہیں کرتا۔ بائبل میں بیان کِیا گیا ہے کہ ”ہر کام کا . . . ایک وقت ہے۔“ لہٰذا، ”رونے کا ایک وقت ہے اور ہنسنے کا ایک وقت ہے۔ غم کھانے کا ایک وقت ہے اور ناچنے کا ایک وقت ہے۔“ (واعظ ۳:۱، ۴) جب ہم ڈپریشن یعنی افسردگی کا شکار ہوتے ہیں تو ہمیں اس سے نپٹنے کیلئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں کسی سے ”نیک صلاح“ یعنی مشورہ لینا پڑے۔ (امثال ۲۴:۶) * تفریح اور ہنسی غلط نہیں لیکن انکا فائدہ کم ہے۔ سلیمان نے حد سے زیادہ یا غلط قسم کی تفریح سے خبردار کرتے ہوئے لکھا: ”شادمانی کا انجام غم ہے۔“—امثال ۱۴:۱۳ ب۔
برگشتہ اور نیک شخص کا اجر
سلیمان آگے یوں کہتا ہے: ”برگشتہ دل اپنی روِش کا اجر پاتا ہے اور نیک آدمی اپنے کام کا۔“ (امثال ۱۴:۱۴) برگشتہ لوگوں اور نیک لوگوں کو اپنے اپنے کام کا کیا اجر ملے گا؟
ایک برگشتہ شخص کو اسکی کوئی پرواہ نہیں کہ اُسے خدا کو حساب دینا پڑے گا۔ اسلئے وہ یہوواہ کی راہوں پر نہیں چلتا۔ (۱-پطرس ۴:۳-۵) اُسکی زندگی کا مقصد مالودولت جمع کرنا ہی ہوتا ہے۔ (زبور ۱۴۴:۱۱-۱۵ الف) اسکے برعکس نیک شخص خدا کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اُسی کے معیاروں پر چلتا ہے۔ اُسکا اجر ایک ایسی دلی خوشی ہے جو صرف یہوواہ خدا کے خادموں کو حاصل ہوتی ہے۔—زبور ۱۴۴:۱۵ ب۔
”ہر بات کا یقین“ نہ کریں
اگلی آیت میں سلیمان نادان شخص کا مقابلہ ہوشیار شخص کیساتھ کرتا ہے۔ ”نادان ہر بات کا یقین کر لیتا ہے لیکن ہوشیار آدمی اپنی روِش کو دیکھتا بھالتا ہے۔“ (امثال ۱۴:۱۵) ہوشیار شخص دوسروں کی ہر بات کا یقین کرنے یا ہمیشہ دوسروں کی رائے پر عمل کرنے کی بجائے سوچسمجھ کر قدم اُٹھاتا ہے۔ اسلئے وہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے تمام حقائق جاننے کی کوشش کرتا ہے۔
رومیوں ۱:۲۰ اور عبرانیوں ۳:۴ جیسے صحیفوں کو پڑھتا ہے تو خدا پر اُسکا ایمان اَور زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب ہم روحانی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں مذہبی رہنماؤں کی باتوں کو فوراً قبول نہیں کر لینا چاہئے۔ اس کی بجائے ہمیں ’سب باتوں کو آزمانا‘ اور جو خدا کی مرضی کے مطابق ہیں اُنہیں پکڑے رہنا چاہئے۔—۱-تھسلنیکیوں ۵:۲۱۔
مثال کے طور پر جب خدا کے وجود کا سوال آتا ہے تو نادان شخص مشہور اور مقبول لوگوں کا نظریہ اپناتا ہے۔ اس کے برعکس ہوشیار شخص حقائق پر غور کرنے کے بعد ہی نظریہ قائم کرتا ہے۔ جب وہ’ہر بات کا یقین نہ کرنا‘ دانشمندی کی بات ہے۔ یہ خاص طور پر کلیسیا کے بزرگوں کیلئے بھی فائدہمند ہے کیونکہ اُنہیں دوسروں کی اصلاح کرنی پڑتی ہے۔ کسی بھی مسئلے کو پوری طرح سے سمجھنے کیلئے بزرگوں کو دوسروں کی بات غور سے سننی چاہئے۔ اُنہیں اس مسئلے سے تعلق رکھنے والے ہر ایک فرد کے نقطۂنظر پر غور کرنا چاہئے۔ تب ہی وہ اچھا مشورہ دینے کے قابل ہوں گے۔—امثال ۱۸:۱۳؛ ۲۹:۲۰۔
”بُرے منصوبے باندھنے والا گھنونا ہے“
احمقوں اور دانشمندوں میں اَور بھی بہت سے فرق ہیں۔ سلیمان نے لکھا: ”دانا ڈرتا ہے اور بدی سے الگ رہتا ہے پر احمق جھنجھلاتا ہے اور بےباک رہتا ہے۔ زُودرنج بیوقوفی کرتا ہے اور بُرے منصوبے باندھنے والا گھنونا ہے۔“—امثال ۱۴:۱۶، ۱۷۔
دانا شخص بُرے چالچلن کے نتائج سے ڈرتا ہے اور اسلئے ہوشیار رہتا ہے۔ وہ خوشی سے ایسے مشوروں کو قبول کر لیتا ہے جو اُسے بدی کی راہ سے بچا سکتے ہیں۔ اسکے برعکس احمق شخص لاپرواہ ہوتا ہے۔ وہ اصلاح کو قبول کرنے کی بجائے غصے میں آ کر بےوقوفی کر بیٹھتا ہے۔
امثال ۱۴:۱۷ میں جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”منصوبے باندھنا“ کِیا گیا ہے، اُسے دو مختلف مفہوم سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اسکا ایک مطلب ”بُرے منصوبے باندھنا“ ہو سکتا ہے۔ (زبور ۳۷:۷؛ امثال ۱۲:۲؛ ۲۴:۸) جبکہ دوسرا مطلب ”نیکوبد میں تمیز کرنا“ ہے۔ (امثال ۱:۴؛ ۲:۱۱؛ ۳:۲۱) اسلئے بائبل کا ایک اَور ترجمہ امثال ۱۴:۱۷ کو یوں پیش کرتا ہے: ”صاحبِتمیز سے نفرت کی جاتی ہے۔“—نیو ورلڈ ٹرانسلیشن۔
اگر یہ عبرانی لفظ کسی ”بُرے منصوبے باندھنے والے“ شخص کی طرف اشارہ کرتا ہے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اُسے گھنونا کیوں کہا گیا ہے۔ لیکن اگر یہ لفظ دراصل ایک صاحبِتمیز شخص کی طرف اشارہ کرتا ہے توپھر کون اُس سے نفرت کرتے ہیں؟ یہ ایسے لوگ ہیں جو خود نیکوبد میں امتیاز نہیں کر سکتے۔ مثال کے طور پر، یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ ”تُم دُنیا کے نہیں۔“ لہٰذا جب ہم اس حکم پر عمل کرتے ہوئے سیاست میں حصہ نہیں لیتے تو دُنیا ہم سے نفرت کرتی ہے۔ (یوحنا ۱۵:۱۹) جب نوجوان اپنے ہمجماعتوں کی بُری حرکتوں میں شریک نہیں ہوتے تو اُنکا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ جیہاں، آج کی دُنیا میں سچے مسیحیوں سے اسلئے نفرت کی جاتی ہے کیونکہ ساری دُنیا شیطان کے قبضے میں ہے۔—۱-یوحنا ۵:۱۹۔
”شریر نیکوں کے سامنے جھکتے ہیں“
ہوشیاروں اور نادانوں میں ایک اَور لحاظ سے بھی فرق ہے۔ ”نادان حماقت کی میراث پاتے ہیں پر ہوشیاروں کے سر پر علم کا تاج ہے۔“ (امثال ۱۴:۱۸) نادان نیکوبد میں امتیاز نہیں کر سکتا۔ اسلئے اکثر اُسے زندگیبھر اپنی حماقت کے نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ اسکے برعکس علم ہوشیار کو ویسے ہی عزت بخشتا ہے جیسے ایک تاج بادشاہ کیلئے جلال کا باعث بنتا ہے۔
سلیمان آگے کہتا ہے: ”شریر نیکوں کے سامنے جھکتے ہیں اور خبیث صادقوں کے دروازوں پر۔“ (امثال ۱۴:۱۹) اسکا مطلب ہے کہ شریروں کے برعکس نیکوں کا انجام آخرکار اچھا ہی ہوگا۔ آج بھی خدا کے بندے خوشحال زندگی سے لطف اُٹھا رہے ہیں اور اُنکی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ ان لوگوں پر یہوواہ کی برکات کو دیکھ کر ممسوح مسیحیوں کے دُشمن اُنکے سامنے ’جھکنے‘ پر مجبور ہوں گے۔ انجامکار ہرمجدون کے وقت ان دُشمنوں کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ زمین پر ممسوح مسیحی ہی یہوواہ کی آسمانی تنظیم کے نمائندے ہیں۔—یسعیاہ ۶۰:۱، ۱۴؛ گلتیوں ۶:۱۶؛ مکاشفہ ۱۶:۱۴، ۱۶۔
”کنگال پر رحم کرنے والا مبارک ہے“
اب سلیمان انسانی فطرت کے متعلق ایک حقیقت کو بیان کرتا ہے: ”کنگال سے اُس کا ہمسایہ بھی بیزار ہے پر مالدار کے دوست بہت ہیں۔“ (امثال ۱۴:۲۰) خودغرض انسان اکثر دولتمندوں کی خوشامد کرتے اور غریبوں کو حقیر جانتے ہیں۔ لیکن جب کوئی امیر شخص اپنا مالودولت کھو بیٹھتا ہے تو اُس کے دوست بھی اُسے چھوڑ جاتے ہیں۔ اس لئے روپےپیسے اور خوشامد کے ذریعے دوست بنانا دانشمندی نہیں۔
اُس صورت میں کیا ہو اگر ہم جان لیتے ہیں کہ ہم بھی دولتمندوں کی خوشامد کرتے اور غریبوں کو حقیر جانتے ہیں؟ توپھر ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ بائبل ایسی سوچ کو غلط قرار دیتی ہے۔ حتیٰکہ سلیمان نے کہا کہ ”اپنے ہمسایہ کو حقیر جاننے والا گُناہ کرتا ہے لیکن کنگال پر رحم کرنے والا مبارک ہے۔“—امثال ۱۴:۲۱۔
ہمیں مشکل حالات میں پڑے ہوئے لوگوں پر رحم کرنا چاہئے۔ (یعقوب ۱:۲۷) مثال کے طور پر، ہم ایسوں کیلئے ”دُنیا کا مال“ یعنی روپیہپیسہ، خوراک، لباس اور رہنے کی جگہ فراہم کر سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ ہمیں اُنکے لئے ذاتی دلچسپی دکھانی چاہئے۔ (۱-یوحنا ۳:۱۷) واقعی جو شخص محتاجوں پر رحم کرتا ہے وہ خود بھی خوش ہوتا ہے کیونکہ ”دینا لینے سے مبارک ہے۔“—اعمال ۲۰:۳۵۔
انجام
”آدمی جوکچھ بوتا ہے وہی کاٹے گا۔“ یہ بات ہوشیار اور احمق دونوں کے بارے میں سچ ہے۔ (گلتیوں ۶:۷) ہوشیار شخص بھلائی کرتا ہے جبکہ احمق بدی کے منصوبے باندھتا ہے۔ سلیمان اسکے بارے میں سوال کرتا ہے: ”کیا بدی کے موجد گمراہ نہیں ہوتے؟“ جیہاں، وہ ضرور گمراہ ہوتے ہیں۔ اسکے برعکس ”شفقت اور سچائی نیکی کے موجد کیلئے ہیں۔“ (امثال ۱۴:۲۲) ایسے لوگوں کو نہ صرف خدا اپنی شفقت سے نوازتا ہے بلکہ لوگ بھی انکے ساتھ مہربانی سے پیش آتے ہیں۔
اگلی آیت میں سلیمان ظاہر کرتا ہے کہ محض باتیں بنانے سے ایک شخص کامیاب نہیں ہو سکتا بلکہ کامیابی کا اصل راز محنت ہے: ”ہر طرح کی محنت میں نفع ہے پر مُنہ کی باتوں میں محض محتاجی ہے۔“ (امثال ۱۴:۲۳) یہ بات ہماری روحانی ترقی کے سلسلے میں بھی سچ ہے۔ جب ہم محنت کیساتھ مُنادی کرتے ہیں تو ہمیں خوشی حاصل ہوتی ہے کیونکہ ہم دوسروں تک ہمیشہ کی زندگی کا باعث بننے والی سچائی پہنچاتے ہیں۔ اسکے علاوہ جب ہم خدا اور اُس کی تنظیم کی طرف سے دئے ہوئے ہر کام کو وفاداری سے انجام دیتے ہیں تو ہمیں دلی خوشی بھی ملتی ہے۔
سلیمان کے اگلے الفاظ پر غور کیجئے: ”داناؤں کا تاج اُنکی دولت ہے پر احمقوں کی حماقت ہی حماقت ہے۔“ (امثال ۱۴:۲۴) اس آیت کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ جیسے تاج بادشاہ کیلئے شان کا باعث ہے اسی طرح دانشمندوں کی حکمت میں انکی شان ہے۔ لیکن احمق حماقت کے دَرپے رہتے ہیں۔ ایک کتاب کے مطابق اس آیت کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے: ”مالودولت اُن لوگوں کیلئے شان کا باعث بن سکتا ہے جو اسے دانائی سے استعمال کرتے ہیں . . . جبکہ احمقوں کیلئے حماقت ہی ہے۔“ جیہاں، داناؤں کا انجام احمقوں کے انجام سے کہیں بہتر ہوگا۔
پھر سلیمان کہتا ہے: ”سچا گواہ جان بچانے والا ہے پر دروغگو دغابازی کرتا ہے۔“ (امثال ۱۴:۲۵) یہ بات نہ صرف عدالتی معاملات میں بلکہ مُنادی کے کام پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اس کام کے ذریعے ہم خدا کے کلام کی سچائی کے بارے میں گواہی دیتے ہیں۔ گواہی دینے سے ہم خلوصدل لوگوں کو جھوٹے مذہب سے آزاد کرکے اُنکی جان بچاتے ہیں۔ اسکے علاوہ ہمیں اپنی اور اپنی تعلیم کی خبرداری کرنی چاہئے کیونکہ ایسا کرنے سے ہم اپنی اور اپنے سننے والوں کی بھی نجات کا باعث بنتے ہیں۔ (۱-تیمتھیس ۴:۱۶) پس آئیے ہم زندگی کے ہر پہلو میں ہوشیاری سے کام لیں۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 3 امثال ۱۴:۱-۱۱ کی وضاحت کیلئے نومبر ۱۵، ۲۰۰۴ کے مینارِنگہبانی، صفحہ ۲۶-۲۹ کو دیکھیں۔
^ پیراگراف 11 اس سلسلے میں اویک! اکتوبر ۲۲، ۱۹۸۷ کے صفحہ ۱۱-۱۶ کو دیکھیں۔
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
نیکوبد میں امتیاز کرنے کیلئے خدا کے کلام کا گہرا مطالعہ کرنا لازمی ہے
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
کیا مالودولت جمع کرنے سے سچی خوشی مل سکتی ہے؟